مجھےکوئی گانا سناؤ Sing Me A Song By Marquade Kate

 



 

 

 



 

مجھےکوئی گانا سناؤ

Sing Me A Song

By

Marquade Kate

مترجم : غلام محی الدین

 ہماری ازدواجی زندگی عام ڈگرپرچل رہی تھی ۔حالات کم و بیش معمول پر تھے لیکن بوجوہ جمعرات کوفیصلہ کرلیاکہ میں اسےچھوڑدوں گی۔جمعےکومیں ایسانہ کرسکی کیونکہ ہفتے کو خاندان کی  ملن پارٹی تھی اور میں اس روز کوئی بدشگونی نہیں چاہتی تھی۔اگلے دن  میں  اسےسوتاچھوڑکر پک اپ لےکر اکیلے ہی تقریب پر چلی گئی کیونکہ اس کےلئےدوسری گاڑی موجود تھی ۔ ہم میں ناچاقی نہیں تھی ۔زندگی اچھی گزرہی تھی۔اسے بچوں کاشوق تھالیکن میں ۔۔۔ اس کی خواہشات میں رکاوٹ نہ ڈالنےکےلئے میں اس کی زندگی سےدور ہو جا نا چاہتی تھی۔ ملن پارٹی   پرجانےسےپہلےمیں نزدیکی ساحل سےلطف اندوزہوناچاہتی تھی۔میں  نےبے ڈھنگےپن سےپک اپ ایسے پارک کی کہ اس کاایک ٹائر فٹ پاتھ پرچڑھ گیا۔ میں نےانجن کی چابیاں پک اپ میں ہی لگی رہنے دیں اورفرنٹ شیشےپر اپنے خاوند کے لئے نوٹ چھوڑاکہ ' ساحل پرآجائےوہاں سے  اکٹھے  پارٹی میں جائیں گے'۔ وہاں پہنچنے سے پہلے اپنا وقت ساحل پرگزارنا چاہتی تھی کیونکہ سمندرسے مجھے پیارتھا۔مجھےسمندر ی  اشیاکےبارے میں جاننے کاشوق تھا۔ اوران سے متعلق ہرطرح کی معلومات   جیسےموسمی اثرات گرمیوں ،لہروں کے زیروبم ، بحری معجزات ،تاجروں اورملاحوں کی خبریں  پڑھتی رہتی تھی۔میری اس بات میں بھی دلچسپی تھی کہ زمین کےجھکاؤ کی سائنس کا علم حاصل کروں۔اس کےتغیرات اور پہاڑوں کےجنگلی کناروں کی بدلتی  ہیئت جانوں۔

یہ موسم گرماکاآغاز تھا،ہوابہتات میں تھی اورہرسوسبزہ چھایاہواتھا۔ اس علاقےمیں  ٹڈیوں کی بھرمار تھی۔ ان کےغول کےغول موجودتھے۔ٹڈیاں مستی  میں راگ الاپتی رہتی تھیں ۔ہریالی   چٹ کرگئی تھیں ۔وہ کئی ہفتوں سےاردگردکی غاروں میں رہ  کرافزائش نسل کررہی تھیں۔میںایسا محسوس کررہی تھی جیسے وہ مجھے گھوررہی تھیں ۔ان کی تعداد بےشمارتھی جواربوں میں تھی۔ اوپر،نیچے،دائیں،بائیں ہرطرف سے، اپنی سرخ سرخ آنکھوں سےسرگوشیاں کرتی رہتی تھیں۔  وہ سب فصلیں اجاڑ دیتی تھیں  سے میں نفرت  کرتی تھی لیکن ان کی شکل مجھے اچھی لگتی تھی۔ ان کے حسن کےسحرمیں گرفتار ہو گئی تھی۔مجھے  ننھے منے حشرات الارض اچھے لگتےتھے جو گھاس پھوس اور بھوسہ میں  رہ جاتےتھے۔ان میں ہمیشہ ہلچل رہتی تھی وہ گڑھوں، غاروں ، درختوں کی  جڑوں اور تنوں میں عاشقوں کی طرح بے چین رہتے اور پھروہ ایک دوسرےپرحملہ آورہوکروہاںسوراخ کردیتےتھے تاکہ وہاں انڈے دے سکیں    ۔موسم آتے جاتے رہتے تھے۔اس علاقے میں  سبزہ  اتنازیادہ  تھاکہ ان کے کھانے کےبعدبھی  بچ جاتاتھا۔ خودروپودے اگتے رہتےاور لوگ فصلیں اگاتے بھی رہتےتھے۔ میرے لان  کی گھاس کاٹنےوالی ہوگئی تھی۔ہماراپروگرام تھاکہ ٹڈیوں نےانڈے دینے کےلئےجو چھوٹے چھوٹےسوراخ بنائےتھے، کوبند کردیاجائےتاکہ ان  کی بڑھتی آبادی کوروکاجاسکے۔میرامیاں  یہ کام بڑی رغبت سے کیاکرتاتھا۔اس کے لئے وہ گھاس کاٹنے والی مشین کا استعمال کرتاتھا جوان دنوں نئی نئی متعارف ہوئی تھی  اوربےحد چوڑی اوربیوقوفانہ حد تک اونچی  تھی ۔اس نے جب یہ تجویز دی کہ مشین خریدی جائے تومیں اسے خریدنےکےحق میں نہیں تھی ۔ میں لان اور پھولوں کی نگہداشت میں بالکل دلچسپی نہیں لیتی تھی اور اس میں اس کاساتھ نہیں دیاکرتی تھی اورنہ ہی لینڈسکیپ اپنی زندگی میں اہم سمجھتی تھی۔ لیکن  ٹڈیوں کی آمد سےمعمولات زندگی  درہم برہم ہوگئے تومشین خریدناپڑی۔  جب وہ لینڈ سکیپنگ میں مصروف ہوتاتومجھے اس پربہت پیارآتاتھااورخود کواس کے بہت قریب سمجھتی تھی کیونکہ  وہ تمام امور بڑی مستعدی اورمہارت سے سلجھاتاتھا۔

ٹڈیاں فصلوں کےلئےنقصان دہ تھیں لیکن ان کے رہن سہن،آپسی معاملات ،ان کی سرخ سرخ آنکھیں مجھے اچھی لگتی تھیں۔مجھے ان کامشاہدہ کرنااچھالگتاتھا۔کن  مقامات  پرانہوں نے کتنے عرصے میں اپنے انڈے دئیےتھے ، کیسےسینچ رہے تھے ،وہ انہیں کس طرح پھینکتے تھے،دیکھنے سےتعلق رکھتےتھے۔ان کےانڈے ہوامیں چاول کےدانوں کی طرح لگتے تھے ،وہ گھاس پرگرکر گڑھوں اورقبروں میں چھپ جاتے تھےاوروہاں نشوونماپاکر باہرنکلتےتوعام لوگ ان پرچلتےاورانہیں یہ احساس تک نہ ہوتا کہ وہ انہیں کچلتے رہتے تھے۔

ٹڈیوں کی جو چیزوں مجھے ناپسند تھیں وہ ان کا فصلیں اجاڑنااور سرپھاڑدینےوالی آواز والےگیت تھے۔وہ اپنی  آنکھیں نہیں جھپکتی تھیں جومجھے خوفزدہ کردیتیں اور مجھے خطرے کااحساس دلاتی تھیں۔ہوسکتاہے کہ میں اس پر غصے اورخفگی کااظہار بھی کیاہو۔اپنےمیاں کی جوباتیں مجھے ناپسندتھیں  ان میں  بچوں کی خواہش اور دیرتک سوناتھا۔الارم بجتارہتا اورگھڑی کی   ٹک ٹک  کی پرواہ کئے بغیر گھوڑے بیچ کرسوتارہتا۔ میں اسے زبردستی جگاتی اور کام پربھیجتی۔

میری ساس کےگھر اس کاپوراخاندان اکٹھاہورہاتھا۔میرے گھر  سے وہ جزیرہ  جس  میں پارٹی تھی ، کار سےپانچ گھنٹےکے  فاصلے پرتھا۔ مجھےایسامحسوس ہورہاتھا۔یاکم ازکم اس وقت ایساہی محسوس کیاجارہاتھاکہ ٹڈیاں ہرجگہ میراپیچھاکررہی ہوں ۔ چندسفید بالوں والے ملاح اپنے لنگر ڈال کربیٹھے تھے، نے میری پک اپ کوآگے جانے سےروک دیا۔یہ ساحل گھرکے نزدیک  ترین تھا۔ میں  گھرکےباہر رک کر وہ آوازیں سننے لگی جوگھرکےاندرآرہی تھیں۔اگرچہ میں اپنے گھرسے پوپھٹتے ہی  نکل پڑی تھی لیکن مجھےیقین تھاکہ خاندان کے تمام لوگ  مجھ سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہوں گے اور ایساہی ہواتھا۔ان کا شور مجھ تک پہنچ رہاتھا۔قوی گمان تھا کہ میرےخاوند کےپندرہ کزن، ان کےچھوٹے بچے بمعہ ان کے جھولے بھی پہنچ گئے تھے۔ وہ سب اچھےاورزرخیز بچے پیداکرنےوالے تھے۔اورسب کیتھولک مذہبی تھے۔لیکن میں برائے نام مسیحی تھی اوردین پر سختی سے عمل نہیں کرتی تھی اور وہ مجھے بے دین سمجھتے تھے۔میں ان کو اس وقت ملنانہیں چاہ رہی تھی اوراپنے میاں کے ساتھ ہی وہاں جانا چاہتی تھی اس لئے میں نے گھرجانے کی بجائے سمندرکارخ کیا۔ اسوقت گھرمیں اونچے اونچے قہقہے گونج رہےتھے۔

ایک نوجوان کزن جہاں تک میں جانتی ہوں پانچویں بارامید سےتھی۔اس سےپہلے وہ چاربچوں کی پرورش کررہی تھی۔ مجھے یقین تھاکہ میری ساس یہ بات پھرسے پارٹی میں دہرائے گی کہ میں نےبچہ کیوں نہیں پیداکیااوریہ سوال مجھ سے  براہ راست   باربار پوچھاجاتا۔ احمق کی طرح ہنسنےکے بعد ہربارجواب دیتی  کہ میں ایسا نہیں    چاہتی۔مجھے اس سے کوئی سروکارنہیں تھالیکن میں ایسےسوالات پر ہمیشہ نالاں رہتی  کہ تم کس بات کاانتظار کر رہی ہو؟کیا جزیرہ اتھاکا میں تمہیں اپنے بچے  کی پرورش میں مشکل درپیش ہے؟تم کس چیزکاانتظارکررہی ہیں۔   تم کتنےعرصے سےکوشش کررہےہو؟تم اپنا علاج کرواؤ۔ایسی ادویات لوجو زرخیزی بڑھاتی ہیں ۔ کوئی کزن اس کے جواب میں کہتی ان سے کیل مہاسے اور چھائیاں  پڑجاتی ہیں۔کوئی کہتی انہیں استعمال نہ کرناکیونکہ وہ   جنسی خواہشات میں بے پناہ اضافہ  کر دیتی ہیں لیکن  وزن  بڑھ جاتاہے۔ وہ تم میں سوجن پیداکردیتی ہیں ۔جسم پھلادیتی ہیں ۔کوئی مشورہ دیتی کہ ان ادویات میں نشہ ہوتا ہے جومریضہ میں وقتی طورپر بے پناہ جنسی خواہش پیداکردیتاہےلیکن اس کے بعد کے اثرات مہلک ہوتے ہیں ۔وہ اسہال لگادیتے ہیں۔۔۔جتنے منہ اتنی باتیں ۔میں ان کا کیا جواب دیتی۔ایسی باتوں سے بچنے کے لئے میں نے فیصلہ کیاکہ میں ازدواجی زندگی سے باہر آجاؤں گی۔

ساحل پرایک بڑی لہرآرہی تھی۔میں ریت کے گیلے حصے پرچلنےلگی اورجوتوں  کےنشانات اس پر پڑتےگئے ۔ ایک لہر آئی تو وہ جوتوں پرجمی ریت اپنےساتھ لےگئی۔مجھے یہ اچھالگااور میں نے یہ عمل جاری رکھا۔لہرہربار جمی ریت اپنےساتھ بہالےجاتی۔یہ سلسلہ کبھی نہ ختم ہونےوالاتھااورمجھےاس کھیل میں لطف آرہاتھا۔گرمی کاموسم تھا ،سورج طلوع ہورہاتھا اور حدت بڑھتی جارہی تھی جس نے میرے کندھے جلانے شروع کر دئیے تھے اور میرے منہ کے پچھلے حصے میں سمندر کے نمک کا ذائقہ محسوس ہورہاتھا۔ یہ منہ کےاندر بھی  جاتارہالیکن

     میں چلتی رہی اور لہریں میرے قدموں کے نشانات مٹاتی رہیں اورجمی ریت دھلتی رہی۔ ہربارخوشگوار تاثر پیداہوتارہا۔

ملن پارٹی میں گفتگوایسی ہی ہوتی تھی۔وہ یہ کہتے کہ تم  فیملی اکٹھ میں اپنےساتھ سوئمنگ سوٹ کیوں نہیں لاتی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میں کسی کواپناننگاجسم دکھانانہیں چاہتی تھی ۔شدید گرمی میری جلد کوجلادیتی تھی ۔میں نے آستین کےبغیر قمیض پہنی ہوئی تھی جو سیاہ نیلے رنگ کی تھی۔وہ سورج کی تمازت سے  ڈنک ماررہی تھی ۔میری جلد بہت حساس تھی ۔میری بغلیں ، میری پشت  کےکچھ حصے گرمی سے بہت جلد جل جاتے تھے۔مجھے اس وقت پیاس محسوس ہوئی۔گلاخشک ہوکرکانٹا بن گیاتھا۔ساحل پر مدوجذر سے گھاس پھوس بکھرگئی تھی ۔کئی تازہ ترین اجسام بھی ان میں شامل ہوگئی تھیں۔میں نےہر جھونکے کےساتھ پرندوں کی روشن آنکھیں مزید چمکتی اوران کے پر مزید پھڑپھڑاتے دیکھے۔میں نے ایک پرندے کاایک پر  جوریت پرگراتھااٹھالیااور اپنے ہاتھوں پررکھاتو ہواکاجھونکااسےاڑاکرلےگیا۔ اس  پر کاوزن  اس سےہلکاتھاجتناکہ دیکھنے میں لگتاتھا ۔میں نےمردہ ٹڈی دیکھی تو اسے  اٹھالیا اور اپنے ہاتھ پررکھ کر دیکھنے لگی ۔۔۔اس وقت میں نےاپنےپیچھےسےایک آوازسنی۔

میں نےادھرادھردیکھاتومجھےکوئی نظرنہ آیا۔اس پرمیں خوفزدہ  ہوگئی ۔پھرمجھےایک بچہ  سائے میں  نظرآگیاجومیرے پیچھےتھا۔میراخیال تھاکہ وہ میرے  کسی  کزن کابچہ تھالیکن مجھے اس کانام نہیں آتاتھا۔وہ چھ سات سال کاتھا۔بارہ سال سے کم عمرکے بچے کو اکیلے سمندر میں آنےکی اجازت نہیں تھی ۔اس سے کم عمرکے کسی بالغ کی موجودگی میں ہی ساحل پر آ سکتے تھے کیونکہ یہ ان کے لئے خطرناک تصور کی جاتی تھی لیکن وہ بچہ منفرد لگتاتھا۔ساحل میں زیادہ دیرتک رہنے کی وجہ سےریت سے اس کے جسم پرشہد کےپیلے خم دار اور سپائیڈر مین کے محافظ والےدھبے پڑے ہوئےتھے۔

یہ آزماؤ۔ایساکروجیسامیں کہتاہوں ۔۔۔ٹڈی کی اگلی ٹانگیں کھینچو۔اس کاسر فوراً باہر آجائےگا۔تمہیں مزہ دےگا۔کرکےدیکھو۔اس نےقہقہہ لگایا۔

   میں نے ٹڈی کی اگلی ٹانگوں کواپنےہاتھ میں لیااوراس کی اگلی ٹانگ کھینچی تو اس کی ٹانگ ہاتھ میں آگئی اور اس کاسرباہر نہ نکلا۔میں نےبچے کی طرف دیکھا تواس  کی بھنوئیں چڑھی  ہوئی تھیں۔

میرا خیال ہےکہ اس کاسر اس وقت باہرنکلتاہےجب وہ زندہ ہوتے ہیں۔بچےنےکہا۔

توکیاتم زندہ ٹڈی کی ٹانگیں کھینچتے ہو؟میں نےپوچھا۔یہ توان پرظلم ہے۔

ہوسکتاہے۔اپنےکندھے اچکاتے ہوئے آگےپیچھے چھلانگیں لگاتےہوئے سانس لئے بغیراس نے کہا۔۔۔ہاں !میں کبھی کبھارایساکیاکرتاہوں۔لیکن تم یہ بات میری ماں کونہ بتادینا۔

اس کے اس انکشاف نے کہ وہ زندہ ٹڈیوں کی ٹانگیں کھینچاکرتاتھا سے مجھے اپنا خاوند یادآگیا۔ وہ جب لان کی گھاس کاٹ رہاہوتاتومشین ان زندہ ٹڈیوں  پرآگےپیچھےمشین چلاتارہتاتھا۔ اورکہتاکہ وہ اسی سلوک کی مستحق ہیں ۔ وہ بہت خطرناک ہیں فصلوں کاپل بھرمیں صفایاکردیتی ہیں۔درختوں کی لکڑی کھاجاتی ہیں۔ان کومشین سے روندنے سےپہلے وہ آہستہ سے انہیں'حرامی 'کے لقب سے نوازتاتھاجومیں سن لیاکرتی تھی۔کوئی ٹڈی جب مشین کے نیچے چٹختی تو وہ اسے سن کرخوش ہواکرتاتھا۔

ہوسکتاہے میں تمہاری ماں سے شکائت کردوں۔میں نے بچےکوچھیڑتے ہوئے کہا۔اس پروہ چونکااور اچھلنا بندکردیااورمیری طرف حیرانی سے دیکھنےلگااور کہاکہ یہ توزیادتی ہے۔ تمہیں شکائت نہیں لگانی چاہیئے۔اس نے اپنی آنکھیں سکوڑیں تومجھے وہ مجھے چھ سات سال کانہیں بلکہ  نوبالغ لگا۔اس کی آنکھوں میں بالغانہ تاثر ابھراجس میں طنزاوربےرحمانہ جذبات تھے جوعام لوگوں کو خوف میں ڈال سکتےتھے۔ایسی نظروں کامجھے کئی بار تجربہ اس وقت ہوچکاتھاجب میں بچپن میں بورڈنگ ہاؤس میں رہاکرتی تھی۔ایسے تیوردکھانے والی لڑکیاں بہت کینہ پرورہوتی تھیں اورموقع ملتے ہی انتقام لیاکرتی تھیں۔وہ مستقل دشمن بن جاتی تھیں۔سب ان سے خوف کھاتےتھے۔ان کی غیرحاضری میں ان کے ظالمانہ رویوں پر تبصرے کئے جاتے تھے۔ان میں ایک لڑکی ' لی لیتھ'تھی جس نے اپنی مخالف لڑکی کو ڈبوکرماردیاتھا۔مجھے وہ واقعہ یاد آگیا۔

 بچہ اورمیں دونوں  لمحہ بھر ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھ کردیکھتے رہےاورپھرارد گرد کےماحول اور امکانات کاجائزہ لیناشروع کردیا۔۔۔بچے نے کچھ سوچ کراپناسر جھٹکا ،لگاکہ اس نے مجھے معاف کردیاتھا۔اپنی آنکھیں جھپکیں اور کہا۔۔۔بہت زیادہ گرمی ہے۔(اس نے یہ فقرہ ایسے  لہجےمیں کہاجیسے اس کی ذمہ دار میں تھی۔میں ہی موسم گرمالائی تھی)میرے پاؤں جل رہے ہیں۔اس نے کہا۔

تمہیں جوتے پہن کرآناچاہیئے تھا۔دیکھو!میں نےگر می سے بچنےکےلئے جوتے پہنے ہوئے ہیں اسلئے میرے پاؤں گرمی سےنہیں جل رہے۔میں نے کہا۔

اس کی ایک  وجہ یہ بھی ہے کہ تم بڑی ہوخالہ نیل۔

میں اس کے منہ سے اپنانام سن کر حیران رہ گئی جبکہ میں اس کا نام تک نہیں جانتی تھی کیونکہ سب بچوں میں زبردست مشابہت پائی جاتی تھی۔سب میں خاندانی چھاپ تھی لیکن وہ دوسرےبچوں سےاس لحاظ سے مختلف تھاکہ اس میں دیسی  لوگوں کی چھاپ زیادہ تھی۔

ساحل پرتمہیں ہرحال میں جوتے پہن کرآناچاہیئے۔میں نےایک بالغ کی طرح اسےنصیحت کرتے ہوئےکہا۔جوتے پہنےکی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ ساحل پرجگہ جگہ شیشوں کے ٹکڑےپڑے ہوتے ہیں جوپاؤں زخمی کردیتےہیں۔

وہ یہ سن کرہنس پڑااوربولا۔یقیناً شیشے یہاں پرہیں۔کیاتم نہیں جانتی کہ ریت شیشوں کوتوڑدیتی ہے؟ہمارے اردگردہرجگہ ریت ہے۔ہم ریت میں گھرےہوئے ہیں۔اس نے اپنےہاتھ پھیلائےاور دائرے میں گھومنےلگا۔اوربولا۔تم یہ بات نہیں جانتی تھی ناں؟

لہریں نزدیک آئیں اورہمارے پاؤں چھونےلگیں۔ساحل ابھی بھی سنسان تھا۔ہم دونوں ہی اس تپتی  صبح  موجود تھے۔سورج اپنی آب وتاب سے چمک رہاتھا۔

ریت شیشے سے نہیں بنی۔میں نےلڑکے سے کہابلکہ ریت سے شیشہ بنتاہے۔

تم نے صحیح نہیں کہا۔تم سمجھتی ہو کہ تم مجھ سےزیادہ جانتی ہو؟بچے نے گھومنابندکرتےہوئےکہا۔مسلسل گھومنے سےاس کاسرچکرارہاتھا۔وہ ہانپ کرلڑکھڑاتےہوئےزمین پر گررہاتھا۔اس نے ایک برفانی فرشتے کی طرح اپنے بازولہرائے ۔اس کی آنکھیں بھینگی بن گئی تھیں کیونکہ ان میں سورج کی کرنیں پڑرہی تھیں۔

مجھے ریت میں دفن کردونیل۔مجھے ریت میں دفنادو۔میں سب کویہ بتاؤں گاکہ تم نےمجھے شیشےمیں دفن کردیاتھا۔یہ مزیدار کھیل ہے اور مجھے بہت پسند ہے۔اس میں مجھے بہت مزہ آتاہے۔ اس مہم جوئی میں اگرچہ جان جانے کا خطرہ بھی ہوسکتاہے لیکن  میرےلئے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ میں ہمیشہ کامیاب ہوجاتاہوں۔

نہیں ۔ یہ خطرناک ہے۔میں ایسا نہیں کرسکتی میں نے کہا۔

یہ بہت دلچسپ ہے ۔ میں اسے اکثر کھیلاکرتاہوں۔بچے نے کہا۔ڈرومت ۔ایساکرو۔مجھے اس کالی اورگیلی  ریت میں دفنادو۔بچے نے کہا۔ اس پر ماضی کاایک واقعہ یادآیااور ۔۔۔ میرادل خوف سے دھڑکااورمیرااپناسربھی چکرانےلگاکیونکہ اس کھیل میں ایک عورت کےنتھنوں میں ریت جم گئی تھی۔سانس نہ لینے سےوہ مرگئی تھی۔اس واقعے کاعلم اپنے   اپنے خصوصی معالج سےا پنی پچھلی  ملاقات پر ہوتھا۔ معالج نے یہ قصہ مجھے  تمام چارٹ ،گراف اوراعداد وشمار ،ماضی کے خون، ہارمون، پیشاب اوردیگر  طبی معائنوں  کی رپورٹوں کےتمام کیمیائی نتائج پرگفتگوکرتے ہوئے بتایاتھا۔اس کےچہرےپر رپورٹوں کولےکر گہری تشویش نظرآئی      تھی۔ان پرتبصرہ کرتے ہوئے اس نےکہا کہ میرے جسم کےمختلف مقامات میں ریت جمی ہوئی  تھی۔ہمیں بچہ پیداکرنے کی دوسری تدابیرپرسوچناچاہیئے؟اس نےہمارے سامنے مختلف پمفلٹ رکھ دئیے جن میں چالیس سال کی عمرکےبعد تولید یا لےپالک بنانے کی تدابیردرج تھیں۔میراخاوند  اپناسرپکڑکر بیٹھ گیا۔گھر آکربسترپربیٹھ گیااور کہاکہ میں اس  کے منہ پرتکیہ رکھ کرچڑھ جاؤں۔

مجھےافسوس ہے میں نےکہاکہ میں ماں نہیں بن سکتی۔میں اس وقت بہت غمگین ہوں اور من نہیں چاہ رہاکہ کچھ کروں۔

میں تمہارے ساتھ جماع نہیں کرناچاہتا ۔میرامقصد صرف یہی ہےکہ تم میرے اوپرآکرلیٹ جاؤ۔اس کی آواز گمبھیرتھی۔اپنےمنہ پراس نےتکیہ لیاہواتھااس لئے اس کی آوازبھربھرائی ہوئی تھی۔

میں اس کی خواہش کےمطابق اس پرچڑھ گئی ۔میں نےاس کی پشت اپنےمعدےسےڈھانپ دی  اور اس کےبازواپنےبازوؤں سےڈھانپ دئیے۔

مزید وزن ڈالو۔اس نے کہا۔

 میں نے اس پراضافی رضائی ڈال دی اور لیٹ گئی لیکن جب یہ بھی ناکافی رہی تومیں بسترسےباہرنکل کر گھرکےتمام کمبل ،بستر کی چادریں اوراس کی والدہ کی تمام دلائیاں اورپکنک کے کمبل جوہم پارک میں لےجاتے تھے اوربچوں کےلحاف وغیرہ جو اس لئے خریدکرپیشگی رکھےہوئےتھےکہ بچےہوں گےتواستعمال کریں گے،اس پرڈال دیئے۔اس پر فلالینوں کاایک ڈھیرلگ گیااور وزن بہت زیادہ ہوگیاتھا۔ہم ان کےنیچے بےحس و حرکت لیٹےہوئےتھے۔یہاں تک کہ سورج ڈھلنےپرآگیاتھااوردرختوں کےسائے بڑھنےلگےتھےاوران کی شاخوں کےسائے چھتوں تک پہنچ گئےتھے۔اب وہ چیخ رہاتھااوراپناسرپیٹ رہارہاتھامیری گال اپنی گالوں سےرگڑرہاتھااوراس کی آواز میں اتنی تھرتھراہٹ  پیداہوگئی تھی کہ ایسالگتاتھاکہ وہ میرےمعدے سےنکل رہی تھی۔

مجھےکچل دونیل۔اس نےکہا۔یہ وزن کافی نہیں ہے۔ا سوقت میں نے فیصلہ کرلیاکہ میں چونکہ ماں نہیں بن سکتی اس لئے اپنے خاوند سے علیحدگی اختیارکرلوں گی۔میں اس سوچ میں تھی کہ بچے کی آواز آئی۔

اپنی جادوئی چھڑی ریت کے ڈھیرمیں گاڑدو۔ ریت کوہموارکردو۔

بچہ اب مجھ سے ایک قدم دورتھا۔اس کےجسم کااگلاحصہ اس نرم ،ہموار،گرم سیاہ ریت میں اس کے  پیٹ تک دب گیاتھا ۔اس کے چھوٹے ناخن مٹی سے پوری طرح بھرچکے تھے ۔ اس کے گھٹنوں پرخارش ہورہی تھی لیکن وہ ریت میں دبے ہونے سے ایسا نہیں کر سکتاتھا۔اس وقت سورج کی گرمی بہے زیادہ ہوگئی تھی  جس سے اس بچے کےگال تمتمارہےتھے اور اس کاماتھاگلابی ہوگیا تھااور اب مجھےاس کےچہرے کی چھائیاں نظرآناشروع ہوگئی تھیں۔اوروہ بچہ اتنالاغرلگ رہاتھاکہ میں اسے چومناچاہ رہی تھی۔اس کےسامنےچیخناچاہتی تھی لیکن میں ایسانہ کرپائی ۔

کیاتم جانتی ہوکیاہوگا۔لہرآئےگی اوروہ ریت جس میں میں دباہواہوں ،بہالےجائے گی۔بڑالطف آئے گا۔میں جب بھی یہ کھیل کھیلتاہوں  ایساہی ہوتاہے۔ ایسا کبھی نہیں ہواکہ لہرنہ آئی ہواورمجھے بچانہ لیاہو۔ش

لہروں کوچھوڑو۔دبنے سےتم اپنااندرونی  اوربیرونی حصہ دونوں ہی کھودوگےکیونکہ اس کی دیواریں اگرچہ ریت کی ہیں لیکن ان میں شیشے کے ٹکڑے ہیں۔یادرکھوجب لہرآئے گی تواس میں موجود شیشہ تمہیں زخمی کردے گا۔میں نے کہا۔

مجھے کچھ نہیں ہوتا۔بچے نے کہا۔اس نے ایک برفانی فرشتے کی طرح اپنےبازولہرائے ۔اس کی آنکھیں ترچھی  ہوگئیں کیونکہ ان میں سورج کی کرنیں پڑرہی تھیں۔مجھے ریت میں دفن کردونیل!اس نےکہا۔ مجھے اس پر ماضی کاایک واقعہ یادآیااور ۔ میرادل خوف سے دھڑکااورمیرااپناسربھی چکرانےلگا۔

مجھے ریت میں دفنادو۔میں سب کویہ بتاؤں گاکہ تم نےمجھے شیشےمیں دفن کردیا۔یہ دلچسپ کھیل ہے جومیں اکثرکھیلاکرتاہوں۔

اس کےعلاوہ میں کیاکرسکتی تھی۔میں نے اسےریت میں دفنادیا۔میں نے منع کیاتووہ خود سے ریت کاگڑھابناکر اس میں دفن ہونے لگا۔مجھے یقین تھاکہ لہر اس دوران آئے گی اور وہ باہر آجائے گا۔

 تم اپنی جادوئی چھڑی ریت میں گاڑدو،بچےنےاشارے سےکہااورریت کے ڈھیرکوہموارکردو۔

بچہ اب مجھ سےایک قدم آگےتھا۔اس کےجسم کااگلاحصہ ریت کےنرم،ہموار میں چلاگیاتھا ۔اس کےچھوٹے ناخن مٹی سےپوری طرح بھرچکےتھے۔اس کے گھٹنوں میں زبردست خارش ہونے لگی تھی لیکن وہ حصہ ریت میں دھنسنے کی وہ حرکت کرنہیں سکتاتھا۔

اس وقت سورج گرمی دکھارہاتھاجس سےاس بچےکےگال تمتمارہےتھےاوراس کا ماتھا گلابی ہوگیاتھا اور اب مجھے اس کےچہرے کی چھائیاں نظرآناشروع ہوگئی تھیں۔اس کے سامنے میں  نے چیخناچاہا لیکن  ایسانہ کیا۔

کیاتم جانتی ہو کہ اب کیاہوسکتاتھا،لڑکے نےکہا۔

ہاں۔ میں نےاسےبتایاکہ ریت کاٹبہ جس میں میں دفن ہوں لہرآئے گی اوربہالےجائے گی۔

تم اتنابڑارسک کیوں لیتے ہو؟ میں نے کہا۔ ایسا نہ ہوکہ تم اس مہم جوئی میں تم اپنااندرونی اور بیرونی حصہ دونوں ہی کھودوگےکیونکہ اس کی دیواریں شیشے سے بنی ہیں ۔

 تمہاری اطلاع کے لئے بتاؤں کہ تم نے میرے پاؤں کے ارد گرد خلاکوپوری طرح نہیں بھرا۔انہیں پوری طرح پیک نہیں کیا۔لڑکے نے کہا۔

میں  نےیہ سناتومجھے وہ سوراخ نظر آئے جوخالی رہ گئے تھے۔میں نےوہ بھردیا۔ وہاں ٹڈیوں کےپرپڑے تھے۔اس میں ملادئیے۔جب میں نےوہاں ایک مری ہوئی ٹڈی دیکھی جو میں نےاٹھالی اور جتنی زورسےپھینک سکتی تھی ،سمندر میں پھینک دی اور سمندردہمارے ارد گردرینگتارہا۔

وہ سترہ سال تک واپس نہیں آئے گی۔لڑکے نےمیری طرف غورسے دیکھتے ہوئےاعلان کیا۔

تم نے صحیح کہا۔اس وقت تک تم کالج میں پڑھ رہےہوگےاوربڑے ہوچکےہوگے۔

اس نےاپناسرہلایاجومجھےبمشکل نظرآیاکیونکہ وہ پوری گردن تک ریت میں دباہواتھا۔

ہوسکتاہےکہ اس وقت تک میں نے کالج پاس کرلیاہواور سپائیڈر مین والی چھاتی سے ریت صاف کی اورکہاکہ جب وہ واپس آئے گی توتم جوان ہوچکے ہوگے۔

میں جانتاہوں۔بچےنےکہا۔

اس کی آواز میں کچھ ایساتھاکہ مجھےوقفہ لیناپڑا اور اس کی طرف دیکھا۔اس کاچہرہ اس وقت  ایسالگ رہاتھاجوشناسابھی تھااور اجنبی بھی۔

میں نے یہ بات سوچی تھی۔ بچےنے آہستہ سے کہا۔میں اس وقت سات سال کاہوں ، اگلی باربہت بوڑھاہوجاؤں گا۔میں اس وقت ایک مختلف انسان ہوں گا۔اس نےاپنی آنکھیں بندکرلیں ۔ اس کامنہ ۔۔۔اس وقت مکمل روشنی میں تھا،ایک سایہ سانپ کی طرح چمک رپاتھاجوجذباتی انداز میں ہل رہاتھا۔وہ اپنے ہیجان پرضبط لانے کی کوشش کررہاتھااور میں نےاپنےہاتھ پیچھے ہٹا لئے اور اپنے ذہن میں یہ بات لائی کہ وہ اس وقت کیاسوچ رہاتھااور میرے ذہن تھااور اس کےسامنے کوئی میں جوبات آئی وہ یہ تھی کہ اس کا جسم ریت میں تھا۔اس وقت اس کاجسم ریت  ہوا تھااور اس ٹھنڈی گیلی ریت میں وہ شدیدگرمی میں کتنا اچھامحسوس کررہاہوگا۔ سیاہ ریت کاوزن اسے کچل رہاہوگا ،کےعلاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھکچھ میں پوری طرح دھنس چکاتھا ۔وہ ہل بھی نہیں سکتاتھا۔خود کو آرام دینے کے لئے خود کوڈھیلا ہی چھوڑا جاسکتاتھا۔وہ ایسی صورت حال میں تھاجیسے بچہ ماں کی کوکھ میں ہو۔

میری شدید خواہش پیداہوئی کہ لہر آئے اور وہ آزاد ہوجائے۔

تمہیں یہ چیز کیوں پریشان کررہی ہے؟میں نے پوچھا۔یہ سوال مجھے نہیں پوچھناچاہیئے تھا۔یہ اس موقع کی نسبت سے غیرموزوں سوال تھا۔اس نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ہم اس حالت میں کچھ دیر بیٹھے رہےاور ہم سمندر کی لہریں اپنے نزدیک آتے ہوئے دیکھتے رہے،ان کی آوازتسکین آور اور مختلف تھی جومسلسل بلند اور کم ہورہی تھی لیکن ہمارے مقام پر نہیں آرہی تھی۔۔ایسا محسوس ہورہاتھاکہ وہ لوری دے رہی ہو۔۔۔گھنٹیاں  بج رہی تھی جودل کوتسکین اور آنکھوں کوخوبصورت لگ رہی تھیں۔پھر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور انہیں سکوڑتے ہوئےسورج کی طرف دیکھااورکہاکہ مجھے یہ بات پریشان نہیں کرتی۔ایسامحسوس ہورہاہے کہ میرے سرمیں چبھن ہورہی ہو۔کیاتم اسےکھرچ کردور کردوگی خالہ نیل۔میں اپنے ہاتھ اس کےبالوں میں پھیرنے لگی۔اس کےگھنگریالے بال پیلے،نرم اور الجھے ہوئے تھے ۔اس کےبال خصوصی تھےجوکسی اور سےنہیں ملتے تھے ۔ میں نےمحسوس کیاکہ اس کےبالوں میں ریت بھرگئی تھی جومیری انگلیوں میں آہستہ آہستہ چھن کرآرہی تھی۔کیاتمہیں کچھ سکون مل رہاہے ؟میں نےپوچھا۔

ہاں۔اچھالگ رہاہے۔بچے نےکہا۔

میں حقیقت میں تمہاری خالہ نہیں ہوں۔میں نے اپناہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔میراخیال ہے کہ میں تمہاری کزن ہوں۔

لڑکے نےقہقہہ لگایا۔نہیں۔تم میری خالہ ہی ہو۔مجھے پکایقین ہے کہ تم میری خالہ ہی ہو۔جسے تمہارے کہنےسےتبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

میں جانتی ہوں کہ میراتیراکیارشتہ ہے۔میں تمہاری کزن ہی ہوں۔میں نے کہا۔

 تم کزن کے رشتے کےلحاظ سے بہت بڑی ہو۔بچےنےکہا۔میں جانتاہوں کہ تم کیاہو۔

میں نےاس سےگفتگوجاری رکھی لیکن اب میں اس سےبات کرتےکرتےتھک گئی تھی اورمیں افق میں کسی شئے کودیکھ کر اپنی توجہ اس طرف مبذول کرچکی تھی۔وہ شئے گھرکےپاس تھی ۔۔۔دورایک شخص  کارسےباہرنکل رہا تھا۔

کیاتم کسی اچھی چیزکودیکھناچاہتی ہو۔بچےنے ریت میں اپناسر آگےپیچھے کرتے ہوئے کہا۔یہ دیکھو،لیکن میری توجہ کسی اور طرف تھی۔میں کوئی اور چیزدیکھ رہی تھی۔وہ شکل جودور تھی جوآسمان کےرنگ کے برعکس تھی۔چمکدارتھی اوراس کاچہرہ مانوس تھا۔یہ شکل میرے خاوندکی تھی۔میرے اندرپوری امیدجاگ اٹھی۔میں اپنے تخیل میں یہ پہلے بھی لاسکتی تھی کہ جس طرح اس کاجسم میرے معدہ پردباؤڈالتاتھا،وہ اس سےمکمل طورپر مماثلت رکھتاتھا  ۔میری اس بے خبری میں وہ اپنی گردن تک ریت میں دھنس چکاتھا۔

کیاتم دیکھ رہی ہو؟لڑکے نےپوچھا۔وہ اب اپناسرتیزی سےہلارہاتھا۔زورسےنیچے کی طرف کھودکرسوراخ کررہاتھالیکن اس کاسراورجسم کاآخری حصہ ریت کےڈھیر کےاندررہ گیاتھا۔میں اس کی اس حرکت پریشان ہوگئی اور میں نے چیخ کردور والی ہستی کو پکارنے کی کوشش کی۔۔۔تم کہاں رہ گئے تھےمیں تمہاراانتظار بہت دیرسےکررہی تھی۔۔۔ا س غفلت میں ریت بچے کے نتھنوں تک آگئی تھی۔میں سخت گھبراگئی اور ریت نکالنے لگی تم ان دیواروں سے باہرنکلنے کی کوشش کرو۔ میں اسے باہر سے کھودتی ہوں۔

میں کررہاہوں نیل۔لڑکے نے چیخ کرکہا۔میں نکلنے کی کوشش کررہاہوں لیکن اس کوشش میں ریت اس کی آنکھوں تک چلی گئی۔یہ دیکھ کرمجھ پر دہشت طاری ہوگئی کیونکہ میں نے دیکھاکہ ریت نے اس کے کانوں کوپہلےہی مکمل طور پرڈھانپ لیاتھا۔اس کا ناک ،آنکھیں ، چھاتیاں ریت میں دھنسی ہوئی تھیں۔میں تیزی سے ریت کو ہٹانے لگی لیکن ریت نے اپنا کام دکھادیاتھا ۔میں چلاتے ہوئے اپناسرپٹخنے لگی۔

 وہ  شخص جواس وقت دور تھا،آہستہ آہستہ  میری طرف آرہاتھا، وہ دیکھاجاسکتاتھا۔بچے کی آنکھیں بندتھیں ۔ریت سرکتے سرکتے اس منہ کے کونے تک پہنچ رہی تھی۔وہ ہاتھ پیرمارتےمارتے ساکن ہوگیا۔میں اپنا سرپیٹنے لگی۔اس کی ناک میں ریت گھس گئی تھی جس سے اس کا سانس بند رہاتھا۔

کچھ دیرمیں ایک لہرآئے گی اور اس ریت جس میں وہ دفن ہوچکاتھا،بہالےجائے گی۔وہ جگہ مکمل طورپرصاف ہوجائے گی۔سالوں بعد ہم اس جگہ چل رہےہوں گے اورکسی کوبھی علم نہیں ہوگاکہ یہاں کبھی چھ سات سالہ بچہ ریت میں زندہ درگورہوگیاتھا۔ہمارے پاؤں اس ریت میں ٹھنڈک محسوس کررہے ہوں گے،اور ہمیں علم بھی نہیں ہوگا کہ ہم جس جگہ پرچل رہے ہیں،وہاں ایک معصوم ،جیتی جاگتی روح تھی ۔میں جب جی چاہاوہاں جایاکروں گی اور اس کے کئے دعاکیاکروں گی۔

ایک جسم میرے نزدیک آرہاہے اوراس بات کاانتظار کررہاہے کہ کوئی اسے پہنچانے۔۔۔اورمیں اس سانحے کی خودکوذمہ دارقراردے رہی ہوں کہ مجھے اس بچے کی بات نہیں ماننی چاہیئے تھی اور ریت میں دفن کرنے کی حامی نہیں بھرنی چاہیئے تھی۔

اس سانحے کامیں خود کوذمہ دار سمجھ رہی تھی۔میرے سامنے کوئی مقصد نہیں تھا۔میں بانجھ تھی۔ مجھے زندہ رہنے کاکوئی حق نہیں تھا۔اس جگہ مستقل طورپر المیہ گیتوں کی حقیقی معنوں میں مستحق تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog