آرتھر شوپنہار - چوتھی قسط - جمالیات







 آرتھر شوپنہار: ایک عظیم فلسفی (چوتھی قسط)
Arthur Schopenhauer (1788-1860)
 Germany
 تحقیق و تجزیہ:   غلام محی الدین

 شوپنہار کا فلسفہ بہت جامع ہے۔ مندرجہ ذیل موضوعات پر پچھلی اقساط میں بیان کیا جا چکا ہے۔

(1) دنیاوی نمائندگی  (The World as Will Representation - W.W.R

(2) اصول معقول  استدلال   ( Principle Of  Sufficient Reason)

(3) منطق اور چار پہلو   ( and Fourfold Logic)

(4) راہِ نجات  اور بنا خواہش کے زندگی  (Road to Salvation and Will-less Life)

 اس قسط میں ہم   شوپنہار کے فلسفے میں جمالیات بطور خواہشات میں کمی کے موضوع پر بات کریں گے

(5)  جمالیات، خواہشات میں کمی اور اصول معقول استدلال (Aesthetics)

جمالیاتی حس کا تعلق  جذبات کے اظہار  کے ساتھ ہے۔  یہ  ایک قدیم ترین ذریعہ ہے جس میں چھ بنیادی جذبات خوشی، افسردگی، خوف، نفرت، حیرانی، اور غصے  کے تاثرات  عمدگی سے پیش کئے جاتے ہیں۔   ان جذبات کی تصدیق پتھر کے دور کے غاروں سے  برآمد ہونے والی مجسمہ سازی اور تصاویر سے  ہوتی ہےِ۔   رومی، مصری  اور دیگر قدیمی تہذیبوں  میں بھی  ایسا فن  دریافت ہوا۔ ان کی نقش نگاری کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی خوش ذوقی  اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں بھی  لطیف احساسات پائے جاتے تھے۔  دلکشی  اور دلفریبی کو محسوس کیا جاتا تھا اور ظاہری آنکھ سے دیکھا  جا سکتا تھا۔ ان کے تخیلات میں تسلسل پایا گیاہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان تصاویر اور مجسموں کی بناوٹ  سادہ ہے۔   ان میں کئی تصاویر اور مجسمے ایسے بھی ہیں جو سراسر تخیلاتی ہیں جو دیوی، دیوتاؤں  سے متعلق ہیں۔ ان میں تخلیق کاروں نے جامع انداز میں اپنے دور کے مصائب کی نشان دہی کی ہےلیکن ان میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ان کی تکنیک اور معیار اگرچہ جدید دور کے مقابلے میں خام ہیں لیکن اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں لطیف احساسات کو کامیابی سے ادا کیا گیاہے۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قدیم لوگ بھی ایسے موضوعات جو ان کے لئے اہم تھے بیان کرکے  ذہنی اذیتوں کو کم کیا کرتے تھے  اور ناظرین کو اپنے دور کی مشکلات کا احساس دلایا  کرتے تھے۔ اس میں روز بروز  ترقی ہوتی رہی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جمالیاتی حس  ذہنی نشوونما، توجہ، غور و تدبر اور تخیلات میں اضافہ کرتی ہے۔ عصر حاضر میں بیٹھے بٹھائے دنیا بھر کے نادر نسخوں سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔   ان  کی بدولت  ہر فرد ان کی دلکشی میں کھو جاتا ہے اور  اپنے درد کافی حد تک بھلا دیتا ہے۔

اب ہم علوم و فنون کا ذکر کرتے ہیں۔
(5.1)  علوم و فنون، خواہشات میں کمی اور اصول معقول استدلال  

فنون لطیفہ ایک لمحاتی تجربہ ہوتا ہے جس میں فنکار خواہشِ زیست کی چیرہ دستیوں  اور جا ئز و ناجائز مطالبات سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔ اس طرح علوم و فنون انسان کے لئے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے عمل کے لئے تحریک پیدا کرتی ہے اور زندہ رہنے کی خواہش کی رضاکارانہ طور پر نفی کرتی ہے، جو کہ شوپنہار کے نزدیک ایک عظیم مقصدِ حیات ہے۔ فنکار اپنے تخیلات کو بروئے کار لا کر اپنی مشکلات کو اصل اور خالص شکل میں پیش کرتا ہے۔ خواہش زیست کو عارضی طور پر ترک کر دینے سے فنکار کو ان تکالیف پر سوچ بچار کا موقع ملتا ہے اور وہ ان کو انوکھے انداز میں ایسے پیش کرتا ہے کہ دوسروں کی فوری توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ لوگ اسے سراہتے ہیں۔ اس تخلیق پر سر دھنتے ہیں۔ فنکار کا پیغام لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اپنے  دکھوں کو ان فن پاروں میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ اس طرح تخلیق اور فن میں ایک رومانوی تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر نئی سوچ کے ساتھ نئی تخلیق پیدا ہوتی ہے اور یہ صدقہ جاریہ  رہتی دنیا تک قائم رہتا ہے۔ موسیقی،شاعری، ادب، سائنسی تخلیق،مجسمہ سازی، منظر کشی وغیرہ اسکی عام مثالیں ہیں۔

  شوپنہار نے جمالیات اور فنون لطیفہ کی اہمیت اجاگر کی۔ اسکے نزدیک یہ ایسا طریقہ ہے جس سے فنکار نہ صرف اپنے دکھوں، محرومیوں اور ناکامیوں کا احساس کرتا ہے بلکہ یہ خواہش کرتا ہے کہ کہ  ان کی شدت کو  تنقیہ نفس (Catharsis)کے ذریعے  کنٹرول کر کے اپنا ذہنی تناؤ  کم کر سکے۔ فنون لطیفہ کے ذریعے   تخیلات کے اظہار کا یہ طریقہ معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی طور پر قابل قبول ہوتا ہے اور وہ عوام الناس کی لطیف حس کی تسکین بھی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسکے لئے عزت، شہرت اور دولت کا  باعث بھی بنتا ہے اور   انسانی وجود کو اس قابل بناتا ہے  کہ وہ خارجی مشاہدات کے ذریعے غور و فکر کرکے اپنی دنیا کی پہچان کرسکے۔

 فنون لطیفہ   وجود کو تمام معاملات  اور تنازعات سے آزاد کرتا ہے اور ہمیشہ اسے سچ ہی شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے شوپنہار نے تخیل (Idea)  کی اصطلاح استعمال کی۔ اس وقت جو سوچیں ذہن میں آتی ہیں وہ خواہش کا بلا واسطہ اظہار کرتی ہیں۔ وہ اُس وقت کے لئے مخصوص اشیاء کہلاتی ہیں۔ ان میں بذات۔خود۔شئے۔والی معروضیت  پائی جاتی ہے۔ تفکر کے اس عمل یعنی تخیلا ت میں اس وقت مقام اور وقت میں معروضیت کی بنا پر موزوں اسباب و علل پایا جاتاہے۔ اصول معقول وجوہات کی بنا پر یہ طے ہے کہ علم ہمیشہ خواہش کے ماتحت رہتا ہے۔

 شوپنہار نے تخیلات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عام لو گ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں جو معلومات کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں۔ اگر ایسی معلومات یا فن جو  ان کیلئے اجنبی ہوں یا ان کی معلومات سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، کو قبول نہیں کرتے  جیسے کہ نئی تخلیقات، سائنس دان یا محقق مروجہ علوم سے ہٹ کر کوئی نئی معلومات پیش کرے تو وہ سابقہ معلومات میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اور ایک جزو کے طور پر موجود رہتی ہیں۔ لیکن  ان میں اسباب و علل میں تعلق ثابت نہیں ہو پاتا اس لئے خواہش کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور اس دوران تخلیق کار جو کام بھی کرتا ہے، اس میں اصول معقول وجوہات کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران جو بھی فنکاری ہوتی ہے،وہ لا شعوری ہوتی ہے اور اس میں خواہش کا تعلق نہیں پایا جاتا اور فن کا اظہار بلا خواہش کے ہوتا ہے۔ شاعری، موسیقی، مصوری میں شعوری دلائل نہیں ہوتے اور خواہش معطل ہو چکی ہوتی ہے۔ کیوں، کب اور کہاں   کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔اور فنکار صرف کیا؟ پر ہی توجہ مرکوز کرتا ہے۔( WI 178)۔ دوسرے معنوں میں شخص مکمل طور پر اپنے کام میں کھو چکا ہوتا ہے۔ وہ مدرک   (Perceiver) اورتخلیق، مدرکہ  (Perceived) میں تفریق کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور مکمل دھیان ایک واحد عکس (تخلیق)کی طرف ہوتا ہے۔ اس دوران جو تخلیق  بنتی ہے وہ کسی مخصوص تخیل کے تحت ہی ہوتی ہے۔  

 فنون کو بطور شئے استعمال کرنے سے متعلق  شوپنہار نے لکھا کہ جب کوئی فنکار اپنی خواہشات کو ظاہرکرتا ہے تو وہ اصول معقول وجوہات کے تحت ہی ابلاغ کرتا ہے۔ کیونکہ اس ذریعے سے پیغام بہتر طریقے سے وصول کرنے والے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ خصوصی اشیاء شاذونادر ہی تن تنہاظاہر ہوتی ہیں۔ کم و بیش اکثر وہ مرکب ہوتی ہیں اور  ان میں ربط پایا جاتا ہے۔ فنکار  اپنی مشکلات کو اپنے تخیلات،تجربات و بصیرت اور علم و عقل کی بنا پر تمام صورت حال کو منفرد انداز میں پیش کرتا ہے جس سے نہ صرف وہ اپنے اضطراب کو دور کردیتا ہے بلکہ دوسری طرف ناظرین اور سامعین  اس نظارے یا شاعریامصوریامجسمے وغیرہ کو دیکھ کر اپنی مصیبتوں کی تصویر کشی براہ راست یا  بلا وا سطہ طور کر لیتے ہیں۔   اس طرح سے  ان کے  زخموں پر مرہم پاشی ہو جاتی ہے جو فلاح عامہ ہے۔ ایسے خیالات کو  ْافلاطونی تخیلاتٗ   کہا جاتا ہے۔ خواہش میں افلاطونی خیالات خود کو معروضی بنا کر پیش کئے جاتے ہیں اگرچہ ان کا وجود فن پارے کی صورت میں ظاہرہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ خواہشات اور تخیلات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔

  علوم و فنون  ایسا وسیع  شعبہ ہے جوسب پر حاوی ہے اور تمام مادی اشیاء کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اسکی تکالیف اور لمحاتی لطف  کے دوران واقع ہوتی ہیں۔تفکر کے اس عمل میں فنکار کا تعلق مادی اشیاء سے ختم ہو چکا ہوتا ہے اور اسکا تخیل تمام اشیاء سے الگ تھلگ اپنی دھن میں مگن سب باتوں سے بے نیاز اپنے تخلیقی عمل میں مصروف رہتا ہے۔اس مرحلے   پر وہ تخیلات کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اسکی من مانیاں اور خواہشات ختم ہو ہو جاتی ہیں۔ وہ تمام اشیاء سے بیگانہ ہو کر  اپنی تخلیق پر سوچتا اور کام کرتا ہے۔کسی اور چیز کی سدھ بدھ نہیں پائی جاتی۔ دنیاوی معاملات سے بیگانہ ہو کر وہ فن پارے کی تخلیق کرتا ہے۔ دنیا داری  او ر دیگر ایجنڈے اس وقت تک معطل رہتے ہیں جب تک کہ اسکا تخلیقی مشن مکمل نہیں ہوجاتا۔

ویسے تو ہر علم و فن کی اپنی اہمیت ہے لیکن ان میں اعلی ترین فن موسیقی ہے جو خواہشات کو کم سے کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسلام موسیقی کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس میں حمد و ثنا ، نعت خوانی اور مناجات خوش الہانی سے دَف بجا کر  ادا کرنے کی  حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

شوپنہار کے نزدیک ایک فطین شخص وہ ہے جس میں اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ  ایسی اشیاء کے مابین باہمی ربط قائم کرے جو ایک عام شخص نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہ اصول معقول وجوہات کے تحت ایسی چیز پر  توجہ مرکوز کرتا ہے  کہ کوئی نئی چیز بنا سکے۔ وہ حقیقی باطنی خیال کے تحت نئی چیز ایجاد کرتا ہے یا پہلے سے موجود اشیاء میں بہتری لاتا ہے۔ وہ مختلف  اشیاء کے درمیان تعلق قائم کر کے عصری تصورات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے خیالات  کے درمیان لزوم قائم کرتا ہے۔اس میں یہ لیاقت  پائی جاتی ہے کہ اسکے باطنی خیالات کی پوری نسل میں نمائندگی کی جا سکے۔  ایک کمزور اور لاغر شکل میں جنکی اصلاح اور ترمیم کی ضرورت ہو،کو اس حد تک قابل کر دیا جاتا ہے کہ وہ بالکل صحیح خیال اپنا لیں اور یہ عملی تخلیق کار کی ذہانت اور غوروفکر کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ اسکا مشاہدہ عام لوگوں کی نسبت انتہائی گہرا ہوتا ہے۔ اسکی سوچ عمیق ہوتی ہے اور دوسروں کے سامنے اس انداز میں پیش کرتا  ہے کہ عام لوگ انہیں سمجھ سکیں۔  (WI 194

 شوپنہار  کے نزدیک فنکار  کا تجربہ لوگوں کی  تمام خواہشات، مایوسیوں، محرومیوں، تلخ حقائق وغیرہ کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور ان کو موثر انداز میں سلجھانے کی راہ دکھاتا ہے۔  فنکار اپنے  تخیلات اورتصورات کی خود بینی کرتا ہے اور اپنے لا شعور کی گہرائی سے حقائق نکال کر دنیا کے  سامنے پیش کرتا ہے۔ 

 اب ہم موسیقی کے بارے میں ذکر کریں گے کہ وہ کس طرح انسانی خواہشات کو کم کرتی ہے۔

(5.2) موسیقی اور  رقص و سرودکا فن

شوپنہار نے موسیقی کو دیگر فنون سے مختلف قرار دیا کیونکہ یہ  ایک شخص کی باطنی دنیا کی نقلی حیثیت کے اظہار کا اچھوتا طریقہ ہے۔ یہ کسی فنکار کی خواہش کی نقل ہوتی ہے۔ موسیقی میں تخیلات اصل ہوتے ہیں جو خواہش کو معروضی طور پر معقول انداز میں بیان کرتے ہیں اور علوم و فنون کی تمام اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ موسیقی  میں انسان اپنی خواہش کی نہ صرف  نقل کرتا ہے بلکہ اسے آگے منتقل کر دیتا ہے۔یہ عظیم فن ہے۔ اس کا اثر لوگوں پر گہرا ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ،جذبات و احساسات   لوگوں تک مکمل طور پر پہنچائے جاتے ہیں اور وہ انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں۔ موسیقی میں  آواز اور آرکیسٹرا میں  اتنی زیادہ قوت  ہوتی ہے کہ ہر سامع سن کر کہتا ہے کہ یہ اسکے جذبات کی عکاسی کر رہی ہے۔موسیقی ایک بین الا قوامی زبان ہے جسے ہر کوئی بلا رنگ و روپ، اور مذہب سمجھ لیتا ہے۔ (WI 256)۔ 

 شوپنہار کے نزدیک  یہ اہم ترین فن ہے جس کی تاثیر ماورائی ہے۔  یہ روح کی غذا ہے۔ یہ انسان کے دل و دماغ پر فوری اثر کرتی ہے۔ اس  کا تعلق فطری صلاحیتوں کے ساتھ بھی ہے اور ہنر مندی کے ساتھ بھی۔ اگر کوئی سُر میں  نہ ہو  تو وہ مکمل طور پر سامعین  کو  متاثر نہیں کر سکتا اور اس وجہ سے خواہشات میں کمی کی بجائے الجھن بڑھ جاتی ہے۔  لیکن اگر کسی کی آواز اچھی ہے اور وہ موسیقی کا علم بھی رکھتا ہے تو   اس سے نہ صرف موسیقار میں بلکہ سامعین میں بھی دیوانگی اور جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ جس سے جسم و جان  پورے طور پر اس کے سحر میں آ جاتا ہے اور خواہشات کا احساس نہیں رہتا۔  حس جمالیات، موسیقی، شاعری اور ادب میں ہمارے دماغ کے دائیں نصف کرے کی ابتدائی جبہی فص  (پری فرنٹل لوب)  کا تعلق ہیجانات  پیدا کرنے کے ساتھ ہے۔ موسیقی میں وہ لاشعوری طور پرمتحرک ہو جاتے ہیں اور  ہیجانات کو بر انگیختہ کر دیتے ہیں۔

  موسیقی میں ۔۔۔

برقی جسدی، (الیکٹرو ڈرمل) قلبی رگوں میں  تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے رد اعمال  (کارڈیووسکولر) کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔لرزش،حوصلہ پست ( چِلز)    باطنی احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔

نفسی طبعی رداعمال  ( سائیکو فزیکل)  تبدیلیاں پیدا ہو جاتی  ہیں۔

جوش اور شہوت (ایریکشن۔  پائیلو ایریکشن) پیدا ہو جاتا ہے۔

 جلدی  تبدیلی لا کر رونگٹے( گُوز بمپس) کھڑے  ہو جاتےہیں۔

احساسات میں عروج،   بلند ترین جذباتی کیفیت  (ایموشنل ایپکس) پیدا  ہو کر محرک کا باعث بن جاتا ہے۔

حرکی چہرے کے تاثرات (موٹر۔ فیشل ایکسپریشن)  میں تبدیلی آ جاتی ہے۔

ای۔ای۔جی کی تکنیک سے تمام عضلاتی اور عضویاتی تبدیلیوں میں  پیمائش کی جا سکتی ہے۔  حفتی انداز کی سرگرمیاں، دو گمٹی ملاپ  (زائگومیٹک ایکٹیویٹی) کی سائنسی  پیمائش کر کے خواہشات میں کمی یا بیشی محسوس کی جا سکتی ہے۔

موسیقی موڈ پر اثر انداز ہو کر اسے کنٹرول کرتی ہے۔ ذاتی باخبری  (سیلف۔ اویئر نیس)  پیدا کرتی ہے۔ اگر کسی نے اپنا موڈ خوشگوار کرنا ہو تو  مسلسل دو ہفتے  مثبت (پوزیٹیو) تحریک کو بڑھانے والی اور جوش پیدا کرنے والی موسیقی سنے  تو افسردگی دور ہو جاتی ہے۔ خواہشات کی شدت کم ہو جاتی ہے۔قوت برداشت میں  اضافہ ہو جاتا ہے۔  ذاتی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔   چلتے ہوئے یا دوڑتے ہوئے سنیں  تو اس سے  سٹیمنا بڑھتا ہے۔ ترقی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

 تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ موسیقی سامعین  میں قناعت پیدا کرتی ہے۔ درد کم کرتی ہے۔  ڈہنی آسودگی  بخشتی ہے۔  جسمانی قوت بڑھاتی ہے۔ سوچوں اور کردار کو مرتکز کرتی ہے۔

لوگوں کی  خواہشات اور تکالیف کے ازالے  کے لئے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ وہ کس قسم  کے خواص کا مالک ہے۔  ذوق کے مطابق موسیقی تکالیف کی نجات میں مدد دیتی ہے۔ وہ اس میں گم کر رہ جاتا ہے اور ارد گرد کا ہوش کھو دیتا ہے۔  اس صفت کی بدولت ذاتی تعلقات بھی بنتے اور بگڑتے ہیں۔ موسیقی کی کئی جہتیں ہیں۔

 ْپاپ موسیقیٗ جذبات ابھارتی ہے۔ اس کو سننے والے خارج بین (ایکس ٹرو ورٹ) جلد ہی ارتعاش میں آنے والے ہوتے ہیں۔ دوسروں سے جلد ہی تعلقات قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان میں اپنا تصور ذات عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اور دوسروں کی نسبت زیادہ کام کرنے والے(آؤٹ گوئنگ) ہوتے ہیں۔

 ْدیہی موسیقی ٗ (کنٹری موسیقی) کے دلدادہ  محنت کوش،  جذباتی پختگی، قدامت پسند ہوتے ہیں۔ ان میں  ذہنی کشادگی کی خصوصیت نسبتاً کم پائی جاتی ہے۔

 ْبھاری آلات والی موسیقی ٗ (راک اینڈمیٹل میوزک) کے شوقین  تخلیقی ہوتے ہیں۔ نرم مزاج، دروں بیں (انٹرو ورٹ)  ہوتے ہیں۔ ان میں ذاتی  تصور ذات کم پایا جاتا ہے۔

  ْ کھلے انداز میں بجانے والی اِنڈی علاقائی موسیقی ٗ(انڈی میوزک) والے  سامعین کم محبت والے، دروں بین، جلد ہی اضطراب کا شکار ہونے والے، منفعل، خود کو نمایاں کرنے والے،  ذہین  اور سخت دل ہوتے ہیں۔

ْرقص و سرود والی موسیقی ٗ (ڈانس میوزک)  کے شائقین کشادہ ذہن، ہر ایک کو  موقعہ دینے  والے اور سماجی قبولیت کرنے والے  ہوتے ہیں۔

 ْ کلاسیکی موسیقی ٗ (کلاسیکل میوزک)  کے شوقین سسست رو ہوتے ہیں۔  ارد گرد سے لاپرواہ،  اعلی ذوق رکھنے والے اور اعلیٰ تصور ذات والے ہوتے ہیں ۔

 ْروح پرور  موسیقی ٗ (جاز، بلیوز اینڈ سول میوزک) میں افراد بروں بیں،اعلیٰ تصور ذات، تخلیقی،  ذہین اور سہولت  پسند ہوتے ہیں۔

 موسیقی سے رجحانات تشکیل پاتے ہیں۔ یہ جذبہ ہم روی، کسی شئے پر اصرار، سماجی اشارات، علاماتی تنقید و رہنمائی،  حساب دانی، کارکردگی میں اضافہ،تجسس اور تخیل میں بہتری  لاتی ہے۔  موسیقی صنف، عمر، سماجی رتبہ، تعلیم و تربیت، ثقافتی پس منظر خواہش کی کمی  لانے کے لئے  اہم شمار ہوتی ہے۔ تاہم   ذوق کے مطابق  موسیقی حسبِ منشا خواہشات میں کمی لا تی ہے۔

شوپنہار نےجمالیات اورفنون لطیفہ میں موسیقی  کے علاوہ  جن دیگر اصناف کو شامل کیا  ہے ان میں۔۔۔

فلمیں، ابلاغ عامہ، ادب، شعر و شاعری، مصوری، فن تعمیرات،باغبانی،حسین منظر کی مصوری، جانوروں کی مصوری،تاریخی مصوری،مجسمہ سازی اور محبت وغیرہ ہیں۔ ان تمام علوم و فنون میں تخیل بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔

(5.3) ادب،  شاعری،  مصوری،  ناول نگاری،تھیٹر، فلم اور ابلاغ عامہ 

اس فن میں نثر،شاعری،  فکشن، نان فکشن، تمثیل نگاری، فلم سازی وغیرہ آتے ہیں۔ یہ بھی تخلیقی اعمال ہیں۔   ان کی مزید جہتہں ہیں۔  تعریفی ادب، حمد، مثنوی،  ڈرامے کی شاعری، انقلابی اور رومانی شاعری وغیرہ اہم اقسام ہیں۔   لکھتے  وقت اصول وضوابط، الفاظ کا منفرد انداز میں انتخاب، حروف کی ترتیب، معاونت کے لئے توجیہات،  بات پر زور اور اصرار کے  انداز، سُر، تال، ہم آہنگی ،صوتی ترتیب بیان کرنے کی سکیم وغیرہ اہم شمار ہوتی ہیں۔ اعلیٰ ادب  افکار میں انقلاب برپا کرتا ہے۔ دنیا کے کئی انقلاب اس کی بدولت واقع ہوئے ہیں۔ انقلاب فرانس، روس، ایران ، رومی دور وغیرہ ادب کے ذریعے ہی ممکن ہوئے۔   

ادب اور شاعری  اعلی سطح کے فنون ہیں جن میں کردار سازی اور روز مرہ زندگی کے حقائق سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچائے۔ اسکی روحانیت  اسکے شعروں کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔اس صنف میں موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ہر سُو کسی بھی عنوان پر اپنے جذبات کو معروضی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔مختصر ترین الفاظ میں معرفت کی باتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے ذریعے ، سوانعمریا ں، حمد، نعت،  ا نسانی  اعمال، فطرت، افکار، جذبات، ترقی پسندی، رجائیت، قنوطیت، معاشی، سیاسی، معاشرتی، غم جاں اور غم جاناں، رومانیت، انقلاب وغیرہ پر شاعری اور نثر نگاری کی جاتی ہے۔
شاعر ی  بھی خواہشات  کم کرنے میں اہم ہے۔   دیکھا گیا ہے کہ یہ  ذہنی اور طبعی صحت  کے لئے مؤثر طریقہ ہے۔ شاعری لکھنا اور پڑھنا دونوں ہی ناپسندیدہ خواہشات کم کرنے میں اہم ہیں۔ اپنے دبے ہوئے جذبات کا  بلاواسطہ  اظہار نہ  صرف  تخلیق کار کا ذہنی تناؤ کم کرتا ہے بلکہ اس کو پڑھنے والوں میں بھی  ہم روی  والے احساسات  پیدا  ہو جاتے ہیں۔  ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی  سے بھی تکالیف دور کرنے میں نفسیاتی مدد ملتی ہے۔  عنوان، الفاظ کی ترتیب،  جامع انداز میں اظہار،الفاظ کی تعداد، چبھتے ہوئے تصورات قاری میں ویسے ہی جذباتی کیفیت پیدا کرتے ہیں جو کہ فنکار میں ہوتے ہیں۔ یہ تصور ذات بڑھاتی ہے۔جذباتی تشنگی  میں مدد ملتی ہے۔   یہ  اپنے دل کی بھڑاس نکالنے  کا اہم ذریعہ ہے۔  محرک پیدا کرتی ہے۔ نئے طریقے بیان کرتی ہے اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں معاونت کرتی ہے۔ نیا مقصد تعین کرنے میں مدد دیتی ہے اور شعور فراہم کرتی ہے کہ انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔
شاعری میں کردار سازی اور روز مرہ زندگی کے حقائق سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد کے پیچھے جنسی محرک پایا جاتا ہے جو دراصل زندگی کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن یہ خوہش ایک مخصوص شخص کے لئے ہی پائی جاتی ہے۔ پریمی نسل کو دوام بخشنے کی خواہش رکھتے ہیں۔محبت مطابقت اور روگ پالنے کا نام نہیں بلکہ جذبے اور جنون کا نام ہے جو ان کی طبعی جسمانی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔یہ خواہش زیست ہے  اور اپنے پریمی سے ہی نئی نسل قائم کرنا چاہتی ہے۔اصناف میں پکا لگاؤ پایا جاتا ہے، آپس میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور اسکے ساتھ ہی اپنی جنسی خواہشات کی تسکین  چاہتا ہے۔ان کا ایک خوابیدہ  اور خفیہ مقصد نسلی بقا ہے۔
ادب اور شاعری سچائی کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وقت کی قید سے آزاد ہیں۔ وہ انسان کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ کسی بھی دور، مقام، قوم،سلطنت،واقعا ت اور حالات پر لکھے۔ ان کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے انداز میں اپنا مدعا  ضرور پیش کر دیتی ہے۔ تمثیل نگاری میں ٹریجڈی کو شاعری کی ایک اہم صنف قرار دیا گیا ہے۔ مایوسیاں، درد جو دور نہیں کیا جا سکتا، بربادی، ظلمت کی فتح،  قابلِ نفرت حالات، ظلم و ستم کا   پایا جانا وغیرہ اہم عنوانات ہیں اور زیادہ تر لوگ اس کے شکار ہوتے ہیں۔ یہ فنون حقیقی دنیا کی اصلیت بیان کرتے ہیں اور توجہ دلاتے ہیں کہ دنیا کا روپ کتنا گھناؤنا ہے۔ اور ان میں  خواہش کی مخا لفت مکمل طور پر سامنے آ جاتی ہے  اور اس میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔(WI  253)۔ ٹریجڈی خواہش کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔بعض میں تو خواہش کی نفی بھی دکھائی جاتی ہے۔ ترک دنیا کر لی جاتی ہے اور دنیا تیاگ دی جاتی ہے۔
اوپرا  میں دیانتدارانہ  احساست کا اظہا ر کیا جاتا ہے۔   شاعری تین طرح سے  موڈ تبدیل کرتی ہے۔  طرز کلام، لفظوں کا انتخاب جو جذبات میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔  فقرات یا سمعی ترنم۔ تخیل  ذہن پر معالجاتی اثر کرتا ہے۔ نفسی طبعیاتی  اعصاب میں ارتعاش پیدا کرتی ہے جو جذبات کو بر انگیختہ کر دیتا ہے جس سے حسب منشا ء خواہشات میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
شوپنہار کہتا ہے کہ ہر فن کی اپنی خصوصیت، اہمیت اور مقام ہے۔ فنِ تعمیر، زرعی  مصوری، تاریخی مصوری، مجسمہ سازی، علامتی بیان بازی، شاعری، تمثیل  نگاریاور موسیقی وغیرہ اپنے اپنے مقام پر اہم ہیں۔ شوپنہار کا نقطہ نظرصرف اس کے نظریے تک ہی محدود نہیں تھا  بلکہ وہ خود بھی ایک اعلی مصور اور موسیقار تھا۔ وہ بانسری بہت اچھی بجاتا تھا۔

 مصور  عام حالات کے کسی رخ کو ایسے انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے جس پر ناظرین نے ان پر پہلے توجہ نہیں دی ہوتی یا کم توجہ دی ہوتی ہے۔ وہ  اپنے اچھوتے  افکار کو دیگراشیاء میں بھی منتقل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  شوپنہار کہتا ہے کہ مصوری ایک ایسا فعل ہے جو بار بار دہرایا جا تا ہے۔ وہ  مسائل کواپنی نظر سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسکی یہ صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے لیکن وہ اس تحفے کو تعلیم و تجربے سے نکھارتا ہے۔ تاہم فطری صلاحیتوں کے باوجود تکنیکی معاملات کا علم ضروری شمار کیا جاتا ہے۔ (WI 195

جب کوئی شخص بکھرا ہوا ہو،  کسی صدمے کا شکار ہو ،  زخمی یا بیمار ہو   تو یہ اس صدمے، افسردگی، خالی پن  کو نفسیاتی اور  جذباتی حوصلہ دیتی ہے۔  اپنی کردہ نا کردہ غلطیوں کا اعتراف کرواتی ہے  جس سے شرمندگی، احساس گناہ  کے اثرات کو ذہنی طور پر کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ابہام دور کرتی ہے۔ تذبذ ب والی کیفیت  میں وضاحت لاتی ہے۔ کھوئے جانے کا احساس کم کرتی ہے۔ اس کے ذریعے اندازہ  لگایاجا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہی  انداز اپنایا جائے تو کیا ہو گا۔ محتاط پن پیدا کرتی ہے۔

یہ دوہرا  عمل ہے جس  میں نہ صرف مصور بلکہ ناظر بھی اس میں بہہ جاتا ہے۔ ہم روی کے احساسات پیدا کرتی ہے۔جنسی آسودگی کے اظہار کا  معصومانہ طریقہ ہے۔جادوئی تمثال  لاتی ہے۔

مصوری میں ہندسی نمونے جو یکساں اعداد و شمار استعمال کئے جاتے ہیں، کو اشکال میں دہرایا جاتا ہے۔ ایک شکل کو بار با چھوٹے، چھوٹے حصوں میں منقسم کرکے تصویر کشی کی جاتی ہے۔ ان کے نمونے  جب اس حسابی ترتیب سے بنائے جائیں (فریکٹلز)  تو حتمی نمونے  دلکش  لگتے ہیں۔

عصرِ حاضر میں خواہشات کی تشکیل میں فلمیں اور ابلاغ عامہ اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ مقننہ   ، اننظامیہ اور عدالتی نظام پہلے ریاست کے تین ستون سمجھے جاتے تھے لیکن اب ابلاغ عامہ (آڈیو۔ویڈیو میڈیا) بھی ان میں شمارہونے لگا ہے۔  ابلاغ عامہ میں ریڈیو، ٹی وی ، فلمیں، تھیٹر،پرفارمنگ آرٹس اور اشتہارات اہم شمار ہوتے ہیں۔  اس کے علاوہ مواصلاتی ابلاغ (پرنٹ میڈیا) اخبارات، جرائد، کتب اور رسائل بھی اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ یہ عوام الناس کی خواہشات بڑھاتی بھی ہیں اور کم بھی کر سکتی ہیں۔ محبت ، نفرت اور خواہشوں کو نیا رخ دینے میں اہم شمار ہوتی ہیں۔

  (5.4) تعمیراتی فن ،تزئین  و  آرائش  عجائب گھر وغیرہ

شوپنہار کے نزدیک فن تعمیرات بھی فنون لطیفہ ہے لیکن یہ فن کی نچلی سطح پر آتا ہے۔   اس کا تعلق عام لوگوں  کے رہن سہن کے ساتھ ہے۔   اس میں بیک وقت تمام حواس استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں عمارت کا  ڈھانچہ، خوبصورتی، ساختی ڈیزائن،مضبوطی،فعالیت، رنگوں کا امتزاج، سجاوٹ وغیرہ کا خیال رکھا جاتا ہے۔   یہ معاشرے کا طرز زندگی  بیان کرتا ہے۔   اس کے لئے جمالیاتی حس اہم ہے۔یہ ایسا تخلیقی عمل ہے جس میں تکنیکی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو تعمیراتی نوعیت پیچیدہ ہوتی ہے۔ اسلحہ خانے، طویل پل، کثیر منزلہ عمارات،   زمین دوز  تعمیرات وغیرہ  بہت پیچیدہ عمل ہے۔ اس  میں  علم کے ساتھ ساتھ ذوق   کا بھی تعلق ہے۔   

شوپنہار تعمیرات کے افعال اور اقسام پر بات نہیں کرتا۔ وہ ان قدیم عمارات کا تذکرہ کرتا ہے جس میں کشش ثقل اور زمین کی سختی اہم شمار کی جاتی ہے۔ اس کے نزدیک تعمیر میں توازن، مساوات، بھاری بھرکم ڈھانچے  جو یونانی مندروں میں  پتھروں سے تعمیر کئے گئے تھے، اہم فنون ہیں ۔ عمارت سازی،باغبانی (Horticulture)، منظر کشی (Landscape) اصنافِ لطیفہ ہیں اور تخیل پیش کرتے  ہیں۔ منظر کشی میں سبزہ، پھول، کیاریاں، پودے محل وقوع کے لحاظ سے لگائے جاتے ہیں  تاکہ پیش منظر دلکش لگے۔ اسے موسموں کی مناسبت سے بنایا جاتا ہے۔ مجسمہ سازی میں بھی منظر کسی کی جاتی ہے اور حیوانات کی نقش نگاری کی جاتی ہے۔ ایسے فن میں خواہش پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ منظر کو دلفریب بناکر، اس  میں کھو کر اپنی تکالیف کو کم کیا جاتا ہے۔ پتھروں پر مصوری یا نقش نگاری ناظرین کے موڈ کا تعین کرتی ہیں۔ اگر نقش نگاری میں بپھرے ہوئے جانور ہوں تو تاثرات اور ہوں گے۔ اگر خوبصورت مناظر منقش ہوں تو جذبات و احساسات اور قسم کے ہوں گے۔ 

تاریخی مصوری  اور مجسمہ سازی  میں جمالیاتی حس  تعمیر سازی  سے اوپر آتی ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ فنکا ر کو  نسلوں کی ترویج و ترقی، ثقافت، معاشیات وغیرہ کی عکس بندی ضرور کرنی چاہیئے۔انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی فن میں شامل کیا جانا چاہئیے۔ ایک ہی نسل کا جانور اپنی انفرادیت بھی رکھتا ہے۔ہر ایک کی انفرادیت کو اجاگر کرنا ایک فن ہے۔ تواریخی  مصوری اور مجسمہ سازی  میں فنکار میں تخیلات کی پیچیدہ صورت حال کی نسبت سے، طیش، غصہ، خوشی، غم، دکھ، مایوسی، فخر، غرور، خوبصورتی، محبت، نفرت، خد وخال اور انفرادیت کا عکس دکھایا جاتا ہے۔ اشکال، تصویر کشی سے حالات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ پتھروں پر کندہ جملے،  اشکال اصلیت بیان کرتے ہیں۔شوپنہار کے مطابق تاریخی مصوری کو عروج اس وقت حاصل ہوا جب عیسائیت میں   روح اور اخلاقی پہلو اجاگر کئے گئے۔انسانوں کو عقیدت اور روحانیت کے ساتھ پیش کیا گیا۔عموماً حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ا ن کی امت کا ایک گروہ ان کے ساتھ ہوتا تھا۔  تصاویر میں عموماً ایک ماں اور بچہ جسے فرشتوں نے اٹھایا ہوتا تھا اس دور کی عکاسی کرتی تھیں۔

 شوپنہار اپنی اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ شاہکار کی تخلیق میں فطانت لازمی عنصر ہے لیکن صرف ذہانت ہی کافی نہیں بلکہ صنف میں مخصوص لیاقت کا پایا جانا بھی لازم ہے۔ وہ اپنی قابلیت سے عام سی اشیاء میں بھی ندرت، انوکھا پن، پرانی اشیاء میں ترمیم و اضافہ اور نئی اختراع کر تا رہتا ہے۔ ایک فطین کا تخیل  عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ حال سے مستقبل کی طرف دیکھ سکتا ہے۔ وہ  صرف یہ سوچتا ہے  کہ اسکی تخلیق کردہ چیز  کوکسی موضوع کے تحت لایا جا سکے۔   تخلیق کار کے نزدیک عام اشیاء کو عنوان کے تحت لانا ہی عام ادراک کا کام ہے اور جب وہ اپنی تخلیق  مکمل کر لیتا ہے تو اسکی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ تجریدی اور تعقلاتی معلومات زیادہ گہری اور دل چھو لینے والی ہوتی ہیں۔ وہ موجودہ صورت حال سے آگے کی سوچتے ہیں۔ فطین کی ایجاد ماسوائے مکمل ترین معروضیت کے اور کچھ نہیں۔ فنکار ہمیشہ ادراک کرنے والی حالت میں رہتا ہے۔خود کو اپنی تخلیق میں پوری طرح گم کر دیتا ہے۔ (WI 185)۔ دوسرے الفاظ میں تخلیق کار اپنے پراجیکٹ میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ اسے ارد گرد کاہوش نہیں ہوتا۔ اپنے ذہن میں پیدا شد ہ تخیلات اور اس میں پائی جانے والی دلچسپی اور بصیرت  سے ہی حاصل ہو پاتی ہیں۔فطین کا مطالعہ شوپنہار  کے نزدیک بہت اہم تھاکیونکہ  اس نے اپنے مقالات میں اسکا ذکر کئی بار کیاہے۔ ایک جگہ پر تو فطین اور ذہنی مریض میں بھی تعلق قائم کیا گیا  ہے۔ اور اگر ذہنی مریض تخلیقی ہے تو اس کے فتور کے باوجود اس کی تخلیق کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

شوپنہار کے نزدیک جمالیاتی فن  کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو مصنوعی ہے جس میں  ماہر تعمیرات کشش ثقل، زمینی ٹکراؤ، سختی،  سیال مادہ،روشنی،  موسم کی مناسبت، گرمی، سردی کی نوعیت، ڈھانچہ، مضبوطی، بارش، آندھی، طوفانوں، آسمانی بجلی سے بچاؤ،مضبوطی اور خوبصورتی  وغیرہ دیکھ کر عمارات کو دلکش بنایا جاتا ہے۔اس فن میں آرکیٹیکٹ مواد کو اپنی مرضی سے تبدیل کر کے کوئی نئی چیز بناتا ہے۔ مادہ کی خصوصیات  دیکھ کر اس کو اپنی بصیرت، ہنر، علم اور تجربے کی بنا پر  انوکھے انداز میں تعمیر کرتا ہے۔ روشنی، خوبصورتی سے پتھروں، رنگوں کا انتخاب، سر سبز لان، آبشار وغیرہ   شامل ہیں۔ تاج محل آگرہ، شالامار باغ وغیرہ اسکی مثالیں ہیں۔ ایسے فن میں فنکار کی خواہش بھی شامل ہوتی ہے اور بے خودی نہیں پائی جاتی۔ جبکہ دوسری صورت فطرت ظاہر کرنے والے منظر کشی کی ہے اور اس کی عکاسی ہوبہو اسی انداز میں کی جائے تو وہ نہ صرف مصور کی خواہشات کو کم کرتی ہے بلکہ ناظرین کی بھی تکالیف،آرزوئیں ، تمنائیں اس کا نظارہ کرتے وقت کم کر دیتی ہیں۔   یہ اس وقت فن کا درجہ حاصل کرتی ہیں جب وہ ظاہری طور پر دلچسپ  لگے اور دل کو چھوئے لیکن اصلی جمالیات میں قدرتی مناظر کی عکس بندی  اہم ہے۔ 

 زمین کی آرائش بھی ایک جمالیاتی فن ہے جس میں پارک اور عمارات کو اس طرح سے سجایا جاتا ہے کہ وہ روحانی تسکین فراہم کریں۔   باغات  اس کی اہم مثالیں ہیں۔اس میں  مقصد کے مطابق خیال رکھنا پڑتا ہے کہ اس کا ڈیزائن کیسے کیا جائے۔ اس میں  عمارت کے مطابق  موڑ،  سیدھی ،  متوازی یا عمودی قطاریں  بنائی جاتی ہیں۔  یہ  خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ متوازن، ترتیب وار ہوں تو دل کو لبھائیں اور روحانی تسکین کا باعث بنیں۔   پگڈنڈیوں  اور راستوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔   دن اور رات کے حساب سے موزوں انداز میں  روشنی کا  انتظام کیا جاتا ہے  جو قدرتی بھی ہو سکتا ہے اور مصنوعی بھی۔   یہ تکنیکیں ڈرامائی اثرات لاتی ہیں۔ نمونہ،ساخت، رنگ وغیرہ بھی اہم ہیں۔ اس کے علاوہمخصوص مقامات پر  پگڈنڈیاں، کھمبے، درخت، گھاس، پھولوں کی کیاریاں وغیرہ ایسے انداز میں لگائی جاتی ہیں جو کہ آنکھوں کو ٹھنڈک دیں۔ یہ ذہن کو تازہ کرنے،صدمے کو کم کرنے اور حوصلہ بڑھانے میں  مدد دیتی ہیں۔  

گرجا گھر، مذہبی عمارات اور لائبریریوں میں ہمیشہ  تیز روشنیاں رکھی جاتی ہیں  جو نفسیاتی طور پر اس بات کی علامت ہے کہ  لوگ ان عمارات میں کھچے چلے آئیں۔  ان کے لئے یہ  دعوت عام ہے کہ آکر مستفید ہوں اور رحمت اور علم  کے  دروازے ان پر کھل  جائیں۔ ایسی عمارات کے ڈیزائن  میں غور و تدبر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔   تعمیرات ایک ہنر ہے جس میں خصوصی تکنیکی تعلیم، تجربہ، بصیرت بنیادی عنصر ہے۔   ہنر تو عمارت کی تعمیر اور مضبوطی کے لئے اہم ہے لیکن اس کا ڈیزائین کیسا ہو، اس کی تفصیلی ڈرائنگ کیسی ہوں، دیکھنے میں جاذب نظر ہو،  کے لئے ذوق  کا پایا  جانا بھی ضروری  ہے۔ 

عمارات تعمیر کرنے میں حسابی پیمائش اہم ہے۔ اس کی سجاوٹ بھی  آنکھوں کو بھاتی ہے۔  اس میں عمارت کی تعمیر کے مقاصد کو رکھتے ہوئے تعمیراتی اصول مد نظر رکھے جاتے ہیں۔ فن تعمیر شخصیت پر اثر انداز ہونے  کا  دلچسپ ترین ذریعہ ہے۔   پسندیدگی، ناپسندیدگی، سماجی، ثقافتی، روحانی، مالی، اخلاقی اور قدرتی معیار ماپتا ہے۔  ہم  موجودہ دور میں معروضی طور پر  جمالیات کے  اثرات جانچ سکتے ہیں۔  جلدی کھچاؤ، رونگٹے کھڑے ہونا،  آنکھوں کی جنبش،  دل کی دھڑکن،  سانس کے زیر و بم، چہرے  کے تاثرات،   لب و لہجہ،   وغیرہ کو  ای۔ای۔جی سے ماپا جا سکتا ہے۔

 تحقیقات سے ثابت ہوا کہ  ایسے مریض جو ہسپتال میں داخل تھے اور ہسپتال میں  عمارت کے ارد گرد  قدرتی مناظر تھے یا  منصوبہ بندی سے ارضی آرائش کر دی گئی تھی،  علاج معالجہ  میں معاونت کرتی تھی۔   ایسے مریض جو کھڑکی کے پاس تھے اور باہر کا نظارہ کر سکتے تھے،  وہ دسرے مریضوں کی نسبت جلد  صحت یاب ہو گئے۔ ان کے خود اختیاری نظام عصبی  نے ایسے ہارمون کا وافر مقدار میں اخراج کیا جو  تشویش میں کمی کا باعث بنا۔ اس  سے یہ ثابت ہوا کہ ان مناظر کو دیکھتے وقت جب آنکھیں حلقہ چشم میں اِدھر اُدھر گھومتی تھیں تو   ان  نظاروں کی بدولت وہ دماغ میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھیں جس سے مریضوں  کے اضطراب میں کمی واقع ہو جاتی تھی (فریکٹیکل)۔ یہ بات جراحی کے بعد   کے  مریضوں  میں بھی  ثابت ہوئی جو دلفریب نظارے کرتے تھے۔ یہ تکلیف سے راہ نجات اور خواہشات کم کرنے کے لئے مفید ہے۔ 

 تعمیر سازی  اور ارضی آسائش کے نفسیاتی اثرات ہیں۔  یہ اضطراب ور افسردگی کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ کینسر کے مریضوں میں  ذہنی تکالیف کو  برداشت کرنے کی ہمت  پیدا  کرتے ہیں یاکم  کرتے ہیں۔ ادویات میں جلد  ا ثرات  پیدا ہو جاتے ہیں۔   ایسے فنکار جو جسمانی یا ذہنی مریض بن جائیں اور اپنا تخلیقی عمل جاری رکھیں، اگر ان کی تخلیقات کے جائزہ لیں تو   اہم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔  ۔ اس میں عمر، جنس اور تعلیم کی قید نہیں۔  اہم بات ان کی تخلیق کاری ہے۔ ان کے تخیلات اور مقاصد کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

 عجائب گھر کے بھی نفسیاتی اثرات پائے جاتے ہیں۔  یہ ہمارے جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے حاکم، مہاراجے،راجے،رجواڑے اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے قلعے بناتے تھے۔ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوتا تھا کہ ان کی رعایا کو احساس تحفظ ملتا تھا کہ وہ اپنے دشمنوں کی دسترس سے  باہر تھے۔  ان کے جان و مال محفوظ تھے۔  بیرونی حملہ آور کے ذہنوں میں خوف پیدا کرتے تھے۔  اپنی دھاک بٹھاتے تھے۔ اس سے ان کا رعب و دبدبہ قائم رہتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عمارات،مصوری، لباس ، سکوں وغیرہ سے تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ ہر دور کے سماجی، اقتصادی، جنگی جنون اور دیگر اشیاء کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہیں ۔

موجودہ دور  تشویش اور افراتفری کا دور ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں اور بے قراری پائی جاتی ہے۔   کاروبار اور ملازمت میں ہر روز دیکھی، ان دیکھی رکاوٹیں پیش آتی رہتی ہیں  جس سے صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کیا جا سکتا۔  کارکردگی بہتر بنانے کے لئے  ان  عوامل کو جاننا ضروری ہے جو انہیں پیدا کرتے ہیں اور ان کا تدارک کیا جانا چاہئے۔  ہر سال اربوں ڈالر صرف اس بات پر صرف ہو رہے ہیں کہ  عوام الناس میں احساس تحفظ پیدا کیا جائے۔  اس مقصد کے لئے  ہر وہ قدم اٹھائے جا رہے ہیں جو  لوگوں کے اضطراب کو کم کر سکیں۔جس کے لئے عمارتوں کے ڈیزائن،  پارک، ارضی  خوبصورتی  (لینڈ سکیپنگ) اعلیٰ  تصاویر، ریڈیو  اور ٹی وی  اور ابلاغ عامہ کے ذریعے تفریح پیدا کی جاتی  ہے۔  

شوپنہار نے جذبات کی تسکین اور اضطرابی کیفیت کو ضبط میں لانے کے لئے ْمحبت ٗ کا تصور پیش کیا جو ماحول کے مطابق خواہشات کو سنگین یا کم  کر سکتا ہے۔  اگر دو محبت کرنے والے مخلص ہوں تو ان میں قناعت پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں اعتماد اور احساس تحفظ کی وجہ سے دنیاوی خواہشات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

(5.5) محبت

شوپنہار سے پہلے یونانی فیلسوف نے محبت پر لب کشائی تو کی لیکن اسے سطحی طور پر بیان کیا۔ افلاطون، روسو، کانٹ اور سپینی نوزا نے اس سلسلے میں مختصراًً بیان کیا۔ افلاطون نے  کہا کہ محبت انسانی فطرت میں داخل ہے۔ محبت  کو جنسی کشش سے بالاتر قرار دیا۔ اس کے نزدیک یہ روحانی تعلق ہوتا ہے ا ور عملی لحاظ سے یہ تعلق مکمل طور پرغیر جنسی ہوتا ہے۔ جبکہ شوپنہار اس کے اس تصور سے انحراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ محبت میں شہوت اور جنس اہم ترین عناصر ہیں۔ روسو نے محبت کو غلط اورغیر موزوں قرار دیا۔ کانٹ نے محبت کو خصوصی معلومات کے بغیراحساس قرار دیا۔ سپینوزا نے محبت کو معصومانہ فعل قرار دیا۔ شوپنہار نے ان کے تمام د عووں کو غلط قرار دیا جبکہ اس کے نظریے  کے کی پیروی کرنے والوں میں سگمنڈ فرائیڈ اور شیکسپیئر   اہم تھے۔فرائیڈ نے اپنے نظریہ تحلیل نفسی میں شخصیت اور ذہنی بیماریوں کی بنیاد ہی جنس قرار دی۔ شہرہ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے بھی اسکے نظریے کی تائید کی اور اوڈیپس کمپلیکس کا تصور پیش کیا۔

چاہنا اور چاہا جانا ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔  لاشعوری طور پر  وہ اس کے لئے زندگی بھر کوشش کرتا رہتا ہے۔  شکل و صورت، جسامت، خوبصورتی، تعلیم، عہدہ، روپیہ پیسہ،  عزت شہرت وغیرہ کے لئے جستجو کرتا رہتا ہے تاکہ اسے حقیقی محبت حاصل ہو سکے۔  یہ مقصد حاصل ہو جائے تو اطمینانِ قلب پیدا ہوتا ہے جس سے غیر ضروری خواہشات دم توڑ دیتی ہیں۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ کسی شئے کی شدت سے چاہت اور محبت میں نیوراتی کیمیا  (ڈوپامین اور اوکسی ٹاسن ) معمول سے زیادہ خارج ہونے لگتے ہیں   جس سے  لطف کے مراکزمرتعش ہو جاتے ہیں۔ اس میں نشے کی لت کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پٹھوں کو سکون ملتا ہے۔ چاہت اور محبت حسب نسب، عمر اور سماجی رتبہ نہیں دیکھتی۔

نطشے نے محبت کے اس عمل کو سایہ، تمثال یا  ہو بہو سابقہ  (Selfsame) کا  عمل کہا۔ اس نے اس تصورکی وضاحت میں کہا کہ کوئی شخص محبت کی خواہش میں مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس آ سکتا ہے۔ محبت میں انفرادیت نہیں رہتی۔ محبت میں لامحدود مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہر دور میں محبوب سے فراق کا غم روحانی کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔جو یہاں اپنے مقصد کے حصول کا حتمی وسیلہ شمار کیا جاتا ہے۔ دکھ، درد،اور شدید اذیت محبوب کی انفرادیت بلکہ اسکی مرکزی انفرادیت پر حملہ کرتی ہے جسکا نام ْخواہش ٗ ہے۔ اس مرحلے میں اسکی نسلی وجوہات کو جزوی  تشفی بخشتی ہے لیکن خواہش   ہی تمام ذاتی محبت کی بنیاد ہے۔ محبت میں   خواہش کا صرف ایک مقصد ہے کہ  کسی طرح  بقا حاصل کی جائے۔ جب بھی کوئی شخص محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی غیر مخلوق کے زیر اثر ہے اور اسکا حصول ہی اسکی زندگی ہے۔   دراصل وہ افزائش نسل کی خواہش ہی ہوتی ہے۔ 

گلے ملنا، لپٹنا، چومنا ، شہوت  اور جنسی ملاپ  ابھرتے ہوئے تناؤ کو کم کرتی ہیں۔ اس سے سکون، اعتماد اور تحفظ  کا احساس پیدا ہوتا ہے۔  یہ حرکات کرتے وقت  اوپیمائن  ہارمون کا اخراج ہو تا ہے جو اضطراری کیفیت دور  کر دیتا ہے اور موڈ بہتر بنا دیتا ہے۔

جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کا تعلق اس بات پر  ہے کہ آپ محبت کے کونسے مرحلے پر ہیں۔ اگر محبت کا آغاز ہے  تو بے یقینی پائی جاتی ہے۔ اس وقت دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے۔  کارٹیسول ہارمون کی سطح بلند ہوتی ہے۔  تناؤ اور اضطراب زیادہ ہوتا ہے۔ جب کامیابی ہوجائے تو  کیفیت نارمل ہو جاتی ہے۔ اگر وہ پختہ ہو جائے تو ایک دوسرے کے بغیر زندگی نہ گزارنے کا تصور پیدا ہو جاتا ہے۔  سکون اورتحفظ کا احساس ہوتا ہے۔اطمینان  اور قناعت پیدا ہو جاتی ہے۔ سماجی یگانگت، افزائش نسل اور اولاد کی پرورش  اور سماجی قربت اور باہمی اعتماد ی حالت پیدا ہوتی ہے۔  ماحول کے مطابق مقابلے یا فرار کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔   

شوپنہار نے کہا کہ  محبت، شفقت،  یگانگت، پسندیدگی اور باہمی تعریف اس وقت تک قائم نہیں ہو پاتی جب تک کہ محبت کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح منسلک نہ ہوں۔ اگر رومانیت،  شفقت اور مہربانی   کے بغیر ملن ہوگا تو وہ تعلقات مفاہمتی کہلائے جائیں گے۔ جبری روابط، قیمتی تحائف دے کر جنسی تعلقات قائم کئے جا سکتے ہیں اور نسلی بقا بھی کی جاسکتی ہے لیکن رومانیت نہیں۔

شوپنہار کہتا ہے کہ پریمیوں میں آپس میں اس قدر قربت اسلئے پائی جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ عادات، مزاج کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے لئے موزوں ہیں اور جنسی شراکت دار ہیں۔یہ تمام چیزیں دوسرے رشتوں میں نہیں پائی جاتیں۔

 شوپنہار کہتا ہے کہ محبت میں پریمی ایک دوسرے کی تعریف و ستائش کرتے ہیں۔ ان میں  فطری طور پر ایک دوسرے پر حق جتانا،حق ملکیت اور حسد لازماً پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس رشتے کو پائیدار بنانے کے لئے جنسی تشفی بھی اہم ترین عمل ہے جس کے بغیر نہ تو  نسلی تسلسل قائم کیا جا سکتا ہے اور اگر وہ دونوں غیر مطمئن رہیں تو تناؤ کی کیفیت کم نہیں ہوتی لیکن اگر پریمی مکمل طور ہو مطمئن ہوں تو دنیاوی  خواہشات میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔  

شوپنہار اسے ما بعد از طبیعیات کی رُو سے بھی بیان کرتا ہے۔ لیکن چونکہ جزوی طور پر اسکی حیثیت طبعی اور ماورائی اس لئے اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ تا ہم  قد کاٹھ، عمر،صحت، طبعی ساخت، شکل و صورت، جسم پر متناسب گوشت، رنگ و روپ  اور سماجی حیثیت   ساتھی کے انتخاب میں اہم  شمار کی جاتی ہیں۔ محبت کرنے والوں کی سچائی واضح طور پرمنظم انداز میں سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ ان کے رومان میں روحانیت بھی پائی جاتی ہے۔ تقدس، وفاداری،بے لوث  چاہت اور سماجی وحدت پائی جاتی ہے۔ محبت میں کوئی بات توقع   اور مزاج کے خلاف بھی ہو تو اس کو در گزر کردیا جاتا ہے۔ یہ طوفانی دورجب گزر جاتا ہے توپھر اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ حقوق نسواں، حقوق وراثت، بین الذاتی تعلقات، اعتماد، وفائی بے وفائی، بد کرداری وغیرہ کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جوڑا اپنی محبت کے انتخاب میں اس بات کو اہم شمار کرتا ہیں کہ نئی نسل کیسی ہو گی۔ اس کے مطابق خواتین اپنے ساتھی کے انتخاب میں ذہانت کو کم اہمیت دیتی ہیں اور اس بات کو زیادہ مد نظر رکھتی ہیں کہ وہ ان کی  حفاظت اور جنسی تسکین کس حد تک کر سکے گا۔ خواہش ہمیشہ اپنے لئے موزوں ساتھی تلاش کرتی ہے۔ اگر جوڑے کے تعلقات خراب رہیں تو اولاد کی صحیح پرورش نہیں ہو پاتی۔ محبت میں دیگر تمام خواہشات بھلا دی جاتی ہیں اور پریمی کے نزدیک محبت کی خواہش ہی باقی رہتی ہے۔

 شوپنہار محبت کو مذہبی عقائد کے نقطہءنظر سے بھی دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کے وسیع تناظر میں خواہش ہمیشہ اس کوشش ہیں ہوتی ہے کہ اپنا رومان ایسے شخص سے کرے جو اسکے مزاج  سے مطابقت رکھتا ہو اور افزائش نسل کیلئے موزوں ہو۔ اس نے بدھ مت اور ہندو مت کے تناسخ ارواح (Reincarnation) کے نظریے کے تحت اس کی وضاحت  کی۔ وہ کہتا ہے کہ مختلف اصناف میں محبت کے درمیان سلوک اور رویہ ا س چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ سابقہ دور کے تجربات کی روشنی میں ان  کے موجودہ  وجود میں مقام کی ابدیت اور وقت کی لامحدودیت کس حد تک پائی جاتی ہے۔ کیا اس باران کی محبت میں خواہش زیست برقرار رہ سکے گی؟   کیا وہ اس بار اپنی یہ خواہش حاصل کر پائیں گے؟ تمام خواہشیں سمٹ کر محبت  پانے کی خواہش تک محدود ہو جاتی ہیں۔

پریمی  زیادہ  تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جڑنے کا  احساس پایا جاتا ہے۔ محبت درد میں کمی پیدا  کرتی ہے۔   اگر حالات ساز گار ہوں تو موڈ خوشگوار  ہو جاتا ہے۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ ہتھیلیوں پر پسینہ آتا ہے۔  افشار خون میں اعتدال آجاتا ہے لیکن ماحول  نا موافق ہو تو افشار خون زیادہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ اضطراب  پیدا ہوتا ہے۔  فطری تقاضے پورےنہیں  ہوتے۔ ذیابطیس، دماغی شریان کا پھٹنا  (سٹروک)، دل کا دورہ وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔  

رومان میں میں جوڑا ایک مزاحیہ اور عجیب و غریب کردار بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر اس میں ٹریجڈی آ جائے تو ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ وہ کسی سائے کے زیر اثر ہے۔   وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا اور اپنی ذات سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اسے ریموٹ سے کنٹرول کر رہا ہو۔ ایسی ہیجانی کیفیت میں وہ خودکشی بھی کر لیتا ہے۔ اس حالت میں وہ عقل و دانش کے بغیر کام کرتا ہے۔ اس سائے کو شوپنہار نے نسلوں کی روح   (Spirit Of Species) کہا۔ ایسے لمحات کو  جن سے وہ گزر رہا ہوتا ہے، کو اس نے نسلوں کی خواہش (Will Of Species)  کا نام دیا۔ بعض اوقات جب وہ  محسوس  کرتا ہے کہ حالات اس کے قابو سے بالکل باہر ہیں اور اس کی چاہت نہیں مل سکتی  تو وہ  بے بس ہو کر کرب سے بچنے کے لئے  سراسر غیر موزوں ساتھی تلاش کر لیتا ہے جو اسکی صورت حال کو مزید تلخ  بنا  دیتا ہے۔ ایسا جوڑا   شادی کے بعد کے نو سے بارہ مہینے  ظاہری سطح پر اچھی طرح رہتا ہے پھر اس میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے کیونکہ اس دوران بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس  کے بعد اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں  جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں اور شادی ناکام ہو جاتی ہے۔ جبکہ حقیقی محبت حاصل کرنے کے بعد جذباتی تعلق دیرپا ہوتا ہے۔ اپنے خاندان کے فلاح و بہبود کے علاوہ  انسانی  خدمت کی خواہش بھی بیدار ہو جاتی ہے اور معاشرے نے اس کے ساتھ جو بھلا کیا ہے وہ اسے لوٹانے لگتا ہے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔

Popular posts from this blog