ولاد نرینہ اور ان کے معاشقے ( دوسری قسط ) Sons and Lovers (2nd Episode) By D. H. Lawrence (1885-1930) United Kingdo

اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے   ( دوسری قسط )                      
Sons And Lovers (Second Episode)

By

D. H. Lawrence (1885-1930)

United Kingdom

تلخیص و تجزیہ: غلام محی الدین

            مسز موریل کا سب سے چھوٹابیٹاآرتھر جوں جوں بڑا ہو رہا تھا، گھر سے باغی ہو رہا تھا۔  باپ کی عادات اسے  سخت  ناپسندتھیں  اسلئے وہ اس سے اجتناب برتتے ہوئے  گھر سے دور بھاگنے لگااوربری صحبت کا شکار ہوگیا۔ وہ ان لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگاجن کی سرگرمیاں غیر سماجی              تھیں۔ وہ جان بوجھ کر ایسے کام کرتا  جو اسکے خاندان  کی بے عزتی کاباعث بنتے تھے۔ والدن کو تنگ کرنے کے لئے وہ مختلف ذرائع سےوہ ان خبروں کو بڑھاچڑھاکر اپنے گھر والوں تک پہنچاتا تھا۔وہ خاندان سے باغی ہوگیا۔اس کی بڑی بہن عینی نے ٹیچنگ سکول کے بہانے گھر والوں سے الگ زندگی گزارنی شروع کر دی  تھی اور ہوسٹل میں چلی گئی۔اس کے والد والٹر  موریل کا گھر میں ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ اس کا سب سے بڑابھائی  ولیم  جو کامیابی کے مراحل طے کررہاتھا اور جس پرخاندان کو امیدیں تھیں  نمونئے سے مرچکاتھا۔والٹر کاہونانہ ہونا بربر تھا کیونکہ نہ تواپنے خاندان کے کسی رکن سے مثبت تعلقات تھے اورنہ ہی وہ کسی سے تال میل رکھتاتھا۔غیروں  کی طرح رہ رہاتھا۔اب گھر میں منجھلا بیٹا پال اور مسز موریل ہی رہ گئے تھے۔

 ولیم کی موت کے بعد ماں سکتے کی کیفیت سےباہرنہیں آسکی  تھی۔ وہ  خلاؤں میں گھورتی رہتی۔ پال ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کو شش کرتا رہتا  لیکن  اس کی کاوشیں کارگر ثابت نہ ہوتیں۔ماں  کی ذہنی حالت  معمول پر لانے کے ساتھ ساتھ وہ پڑھائی میں  اچھے نمبر لے رہاتھا۔اساتذہ اس کی تعلیمی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔ والٹر کی عدم دلچسپی،ولیم کی موت،عینی کا سکول،آرتھر کے باغیانہ پن   کی بدولت   مالی مشکلات  میں  اضافہ ہوگیا۔اس دوران  پال کو شدید نمونیہ ہو گیا۔  ماں   کو ولیم کی بیماری  یاد آگئی  اورسکتے سے باہر آگئی۔ وہ اپنے اس بیٹے کو بھی کھونا نہیں چاہتی تھی۔  اس نے پال  کی تیمار داری میں دن رات ایک کر دی اور اسے موت کے چنگل سے بچالیا۔ولیم کی جگہ لے  لی ۔ماں کا  وہ بٹورنے لگا جو کبھی ولیم  کے حصے میں آتا تھا۔اب ماں  اس کی اور وہ ماں کا تھا ۔ پال اس نئے دوستانہ روئیے میں میں مست ہوگیا۔وہ آپس میں چھیڑ خوانی کرتے رہتے ۔انکے  تعلقات بظاہرپریمیوں کی طرح  کے لگنے لگے۔پال ماں کی کھل کر تعریف کرتا رہتا۔ وہ اسکے ساتھ باہر گھومنے جاتی تو وہ اسے گلاب کاپھول پیش کرتا ، اسکے حسن کی تعریف کرتا ، اسکے بالوں میں پھول لگاتا اور وہ نہ صرف محبوبانہ انداز سے اسے قبول کرتی  بلکہ دلربا ادائیں بھی دکھاتی ۔

    پال کی یہ ڈیوٹی لگ گئی کہ وہ اپنے باپ کی ہفتہ وار مزدوری مارکیٹ سے وصول کیا کرے۔ اسے کلرک کے طنزیہ رویہ سے خفت ہواکرتی ۔ ایک روز والٹر موریل گھر کو کام کی جگہ پر حادثہ ہو ااسکی ٹانگ کی ہڈیاں چٹان گرنے سے ٹوٹ  گئی تھیں۔ ڈاکٹر نےاسے ہسپتال لے جا نے کا مشورہ دیا ۔ ذرائع آمدورفت محدودتھے۔ایمبولینس تک نہیں  تھی۔ نزدیک ترین ہسپتال دس میل دور تھا۔اس نے بڑی مشکل سے اسے گھر لایاگیا۔اور کئی ہفتے اسے تکلیف میں گزارے۔کام پر نہ جانے کی وجہ سے مستقل آمدنی بند ہوگئی۔اس دوران محلے دار اور مخیرلوگ ان کی  تھوڑی بہت مالی مدد کرتے رہے ۔ صحت یابی کےبعد وہ دوبارہ کام پر چلا گیا۔  پال اس کا سب سے عزیز ساتھی تھا   اسے خدشہ کھانے لگاکہ کہیں  پال بھی  ولیم کی طرح اسے چھوڑ کر نہ چلا جائے ۔ وہ اس کا پوراخیال رکھنے لگی تاکہ وہ اس کے ساتھ ہی رہے۔ وہ پیدائشی فنکار تھا۔ اسے مصوری کا شوق تھا۔  فطرت میں گہری دلچسپی رکھتا تھا اور فارغ وقت میں تصویر کشی کرتا۔

والٹر اپنے کام میں لاپرواہ تھا۔کئی بار بار اس کو اس کی شفٹ  مکمل ہونےسے پہلے ہی گھر بھیج دیا جاتا ۔بے دلی سے کام کرنے کی وجہ سےوہ بار بار زخمی ہوتارہا ۔ایک روزمسز موریل کواطلاع دی گئی کہ والٹر زخمی ہوگیا تھا اور  اس بار اسے حادثے  کے بعد سیدھا ہسپتال لے جایا گیا تو اسکا مطلب یہ تھا کہ اس دفعہ حادثے کی نوعیت بہت سنگین تھی۔ اسکی ٹانگ کی ہڈیاں کرچی کرچی ہو گئی تھیں اور وہ تکلیف سے بلبلا رہاتھا۔ والٹر کو یقین تھا کہ وہ یہ اذیت سہہ نہیں پائے گا۔ اس کی تیمارداری کے لئےمسز موریل روزانہ ہسپتال جاتی اور رات کو گھر آ جاتی۔ اسکی عدم موجودگی میں گھر کی ذمہ داری پال نے سنبھال لی اور غیر رسمی طور پر سربراہ خانہ کے فرائض سر انجام دینے لگا۔وہ  لاشعوری طورپریہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ تندرست ہو کر گھر واپس آئے  ۔مالی تنگی کے سبب پال نے نوکری حاصل کرنے کا سوچا۔ اسے مصوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا تھا اس  سے روزی روٹی کا بندوبست نہیں ہو سکتا تھا۔اس وقت پال کی عمر تیرہ سال  کاتھا۔ماں کی عدم موجودگی میں گھر کا سارا کام سنبھال لیا۔ وہ نوکری کرنا چاہتاتھا۔ اس  دوران   شوقیہ طورپرفرانسیسی زبان سیکھ لی  تھی جو اسے نوکری دلا سکتی تھی ۔اس وصف  کی بنا پر نوکری حاصل کرنے کی سوچی اور فرانسیسی زبان آنے کی وجہ سے اسے ایک فیکٹری میں نوکری مل  گئی۔

نوٹنگھم میں مصنوعی اعضاء بنانے والی ایک فیکٹری جسکا نام جورڈنز تھامیں پال کی نوکری لگ  گئی۔ ا سکا کام آرڈرز  رجسٹر پر لکھ کر فیکٹری کے متعلقہ شعبوں تک پہنچانا، ہر شعبے کی کارکردگی پر نظر رکھناتھا۔ تیار شدہ اعضاء کو تفصیلاً جانچنا کہ وہ صحیح طور پر بنے  تھے اور انہیں پیک کر کے ایڈریس وغیرہ لکھ کرڈسپیچر کے حوالے کرنا ہوتا تھا۔ ا سکی نوکری صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہوتی تھی۔ اسکی ٹرین صبح سوا سات بجے  نوٹنگھم کے لئے چھوٹتی جسکے لئے اسے صبح چھ بجے اٹھنا پڑتا ۔ وہ کام پر وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ جاتا جبکہ واپسی کی ٹرین کے لئے اسے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ۔ درمیان میں ایک گھنٹے کی لنچ بریک ہوتی ۔ان وقفوں میں وہ اپنی مصوری کا شوق پورا کرتا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مصوری اور ڈیزائن کی تربیت بھی حاصل کرتا رہا۔اس فیکٹری میں کئی درجن لڑکیاں بھی کام کرتی  تھیں اسکے تمام ملازمین سے مراسم اچھے تھے سوائے فورمین کے جسکا نام مسٹر بیکسٹر ڈاؤس تھا۔ وہ سڑیل تھا اور ہر وقت ہر ایک سے بلا وجہ بھڑنے پر آمادہ نظر آتا تھا۔ اسکی بیوی کلارااسے چھوڑ کر چلی گئی ۔وہ بھی اس فیکٹری میں کام کیاکرتی تھی۔ جب اسکی فورمین بیکسڑڈاؤس سے شادی ہوئی تو اس نے نوکری چھوڑ دی تھی۔

ایک دن اس کی ماں اسے ویلی فارم ہاؤس ایک رسمی ملاقات کے لئے لے گئی جہاں ایک زمیندار فیملی رہتی تھی۔ اس خاندان میں مسٹر اینڈ مسز لیور بڑا بیٹا ماریس، دوسرابیٹا جیفری، بڑی بیٹی اگاتھا، چھوٹی  بیٹی مریم، چھوٹا بیٹا ایڈگر،اور پانچ سالہ بیٹا ہر برٹ شامل تھے۔اگاتھا سکول ٹیچر تھی اور انکے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ پال کو فارم ہاؤس بہت اچھا لگا۔ ہر طرف ہریالی، باغات، پھلوں سے لدے پھندے درخت،غلے کے گودام،گھوڑے، چرند پرند اور کھلی کھلی ہموار جگہ نے پال کا دل موہ لیا۔ ویلی فارم اسے جنت  لگا۔یہ جگہ اس کے بالکل برعکس تھی جس میں وہ رہتا تھا جہاں کیچڑ، ٹنوں کے حساب گرد و غبار، کھڈے، کوئلے کی کالک اوراس کی گدلی ہوا اور دیگر غیر صحت مند عناصر پائے جاتے  تھے۔ اسکی دوستی  لیور زمیندارگھرانےسے ہو گئی خصوصاًمسز لیور، ایڈگر اور مریم ان میں نمایاں  تھیں۔

 مریم کی عمر چودہ سال  تھی۔  خوبصورت  تھی اورعلیٰ  اقدار کی مالک  تھی۔کٹر مذہبی  تھی۔روحانی اقدار کے حصول میں مصروف رہتی ۔وہ جنسی خیالات سے خوفزدہ  تھی۔ جنس کو وہ شیطانی خواہشات قرار دیتی  اور ایسی باتوں سے کوسوں دور بھاگتی ۔ وہ رومان پرور اور عملی طور پر شرمیلی  تھی۔وہ سہل پسند زندگی پسند کرتی ۔ اسے فارم کی زندگی پسند نہیں  تھی کیونکہ وہاں کی زندگی بہت سخت  تھی۔وہ زندگی کے نئے نئے تجربات سے گھبراتی ۔ وہ سمجھتی کہ نئی زندگی کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔پال کے گن دیکھ کر وہ اس سے متاثر ہوگئی۔اسکے ساتھ دوستی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔جب اسے معلوم ہوا کہ وہ بھی پھولوں  اور پرندوں سے پیار کرتا تھاتو گھونسلوں میں جھانکنا ان کا محبوب مشغلہ بن  گیا۔پھولوں، فطری نظاروں اور مصوری میں باہمی دلچسپی سے وہ ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے۔پال انسانی منظر کشی، فطری نظاروں اور دیگر عکاسی کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لیاکرتا۔ مریم کی آنکھوں کے تاثر سے ہی اسے پتہ چل جاتاکہ اس کے تصویر کے بارے میں خیالات کیسے  تھے۔بعض دفعہ اس کو بہتر کرنے کے مشورے  بھی دیاکرتی۔ اس کا ڈر دور کرنے کے لئے پال کبھی کبھار درخت پر رسی باندھ کر جھولا جھلاتا۔ مریم کوبعض اوقات  خود پربھی غصہ آتا کہ وہ عام لڑکیوں جیسی کیوں نہیں اور ان کی طرح عملی  طورپر جنس کیوں نہیں کرتی۔ 

ویلی فارم ہاؤس پال کے گھر کے نواحی گاؤں میں تھا۔اس نے محسوس کیاکہ مریم کا خاندان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔اس خاندان کی ایک دوسرے کے لئے محبت پائی جاتی تھی۔ دکھ سکھ میں ساتھ دیا جاتا جو اس کمیونٹی کے برعکس  تھاجس میں پال رہتا تھا۔اس کے علاوہ جغرافیائی  لحاظ سے بھی ان کے علاقے مختلف  تھے۔ پال کا علاقہ کوئلے کی کانوں کی وجہ سے نا ہموار تھا، جگہ جگہ کھڈے تھے جبکہ مریم کے فارم ہاؤس میں چوپائے، درخت، کھیت کھلیان، باغات، دریااور دیگر دلچسپ مقامات  تھے۔فارم کی زندگی سخت  تھی  اسلئے وہ اس سے کتراتی  تھی۔ اسکے بھائی اس کے اس رویے کواسےمغرور سمجھتے  تھے جبکہ دراصل وہ ان خارجی حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔پال کے ساتھ وقت گزارنا  اسے اچھا لگتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ پال کی چاہت میں اتنی مگن ہو گئی کہ وہ اسکے سامنے ہمت ہار دی۔ اسے آس  تھی کہ وہ اس سے شادی کر لے گا۔خوب صورت نظاروں، پھولوں سے جنون کی حد تک چاہنے والی،دانشور، راست باز، مذہبی اور علوم و فنون کو سمجھنے کی قدرت رکھنے والی خاتون تھی۔ اسکے کان پال سے یہ سننے کو بیتاب رہتے تھے کہ وہ اس سے محبت کرتا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھالیکن پال اپنی ماں سے محبت اور  اعتماد میں فقدان کی وجہ سے ایسا کر نہیں پاتا۔

مریم پال کے ساتھ بہت منسلک   ہوگئی۔ پال کی ماں، مریم اور اسکے بھائی مل کر لمبی سیر کا پروگرام بنایاکرتے۔کسی قلعے اور کبھی تاریخی مقامات کی سیرکرنے چلے جاتے تو  مریم ہر لمحے اس کے قریب رہنا پسند کرتی ۔وہ اور پال بچپن سے ایک دوسرے کے دوست تھےجو آخر تک رہے۔جوان ہوئی تو  وہ پال سے محبت کرنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت گزارتی ۔محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پال کی خوشی کی خاطر بادل نخواستہ جسمانی ضروریات کی تسکین پوری کرتی رہی۔ وہ پال کی مشکور تھی کہ اس نے جسمانی اور فطری دنیا کو سمجھنے میں مدد دی۔پال جب اس کی زندگی میں نہیں آیا تھا تو اسکا دنیا سے ناطہ ٹوٹا ہوا تھا اور وہ صرف روحانیت تک ہی محدود تھی۔ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتی تھی۔مسزموریل مریم کے ساتھ اس کے ایسے تعلقات کوبرداشت نہیں کرتی تھی۔وہ اسے جونک سمجھتی تھی جو پال کی مردانگی کو چوس رہی تھی۔ اسے پورا خدشہ تھاکہ مریم پال کو  اس سے چھین لے گی۔ 

  ایک دفعہ پال ایک آرٹ گیلری میں ایک نمائش دیکھنے کے لئے گیا  تو مریم  اپنی ایک دوست کے ساتھ نمائش دیکھنے آئی ہوئی تھی۔اس سے وہ پال کی  ملاقات کرواتی ہے۔ اس کا نام کلارا ڈاؤس تھاجو پال کی فیکٹری میں کام کرنے والے سڑیل فورمین بیکسٹر ڈاؤس کی بیوی تھی لیکن اس سے علیحدگی کر لی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ اسکی خوبصورتی سے متائثر ہوگیا۔وہ اسے بھاگئی۔  وہ مریم سے ملنے ویلی فارم آتی رہتی تھی۔پال اوروہ تواتر سے ملنےلگے تووہ ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔مریم   نے اپنی پڑھائی درمیان میں چھوڑ دی تھی ۔پال پڑھائی لکھائی میں بہت اچھاتھا۔مریم نےخواہش ظاہر کی کہ وہ دیگر علوم بھی سیکھناچاہتی تھی۔ پال  نے پیشکش کی کہ وہ اسے  جوسبق اسے آتے تھے،سکھادے گا۔ وہ اسے فرانسیسی، ادب، ریاضی، حساب، جیومیٹری اور الجبرا سکھانے لگا۔ وہ بڑے شوق سے پڑھاکرتی۔وہ بہت محنتی تھی اوردل لگاکے پڑھتی تھی ۔اگرچہ وہ ایک دوسرے کے قریبی دوست تھے لیکن اپنی ماں کی جذباتی مداخلت کے باعث ان میں پائیدار بین الذاتی تعلقات قائم کرنے اور محبت  کرنے میں ناکامی  رہی  جس سے پال کی شخصیت نکھرنے نہ پائی اور وہ اپنی ماں کی محبت  کے جال  سے باہر نہیں نکل پایا۔ ماں کے احکامات اور خواہشات کی بدولت کسی دوسرے کو لاشعوری طور پر مستقل طور پر اپنے پیارمیں شریک نہ کر پایا۔ اسے بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اسکی ماں  اور سب سہہ سکتی تھی لیکن مریم کے ساتھ گہرے تعلقات کو نہیں۔

پال مریم کے پاس کثرت سے جا تا رہتا تھا۔ ماں  نےاس پر اعتراض کیا کہ اسے مریم سے ملنے کے لئے آنے جانے میں آٹھ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا جو اسکی صحت کے لئے موزوں نہیں۔ پال ماں کی بات سن کر پریشان ہو گیا اور کہا کہ وہ یہ بات مریم کو بول  دے گاکہ اس کی والدہ نے اسےیہ کہاتھا کہ تم اسے پسند نہیں کرتیں۔

            کیا اور کوئی نہیں جس سے تم یہ بات کر سکو۔ ماں نے کہا۔

اگر مریم کی بجائےمیں اس کے چھوٹے بھائی ایڈگر کے ساتھ جارہا ہوتا تو تم کوئی بات نہ کرتی۔

علاوہ ازیں بالی عمر میں معاشقہ مذہبی اور اخلاقی طورپر نفرت انگیز عمل تھا۔ ماں نے سپاٹ دار لہجے میں کہا۔

   میں اسکے ساتھ کسی قسم کا معاشقہ نہیں کر رہا ماں!کیا تم سمجھتی ہو کہ میرا اس سے جنسی تعلق ہے؟

            میں نہیں سمجھتی کہ اسکے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے، ماں نے کہا۔

            اتنے غصے میں اسلئے ہو کیونکہ تم اسے پسند نہیں کرتی؟ پال  نے کہا۔

  میں نے کب کہا کہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔میں نے اپنے بچوں کوکسی سے ملنےسے منع نہیں کیا اور نہ کبھی ایسا کروں گی۔

            لیکن تم عینی کو تومنع نہیں کرتی۔

            کیونکہ وہ تم دونوں سے زیادہ سمجھدار ہے۔اس لئے نہیں روکتی۔

            ہماری عینی بھی سطحی ہے۔اور بات کی گہرائی تک نہیں جاتی۔

             ماں نے اسکا جواب گو ل کردیا  اور سونے چلی گئی۔

پال  اگلی ملاقات میں مریم سے کہاکہ ماں دیر سے گھر آناپسند نہیں کرتی اسلئے  اب وہ آدھی رات تک اس کےپاس نہیں رک سکتا اوراسے دس بجے سے پہلے گھر پہنچنا ہوگا۔

ایک دفعہ کلارا  مریم سے ملنے فارم ہاؤس آئی  تھی تو اس کا پال سے باقاعدہ میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مریم اور پال کی دوستی کی بنیاد علوم و فنون میں بصیرت، ذہانت اور اخلاص تھی لیکن کلارا  کی جنسی کشش  سے وہ بہت متاثر ہوا۔مسز موریل نے مریم کوقبول نہ کیا ۔مسز موریل نے ولیم کی محبوبہ  للی جو اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتی  تھی اور ولیم سے غیرمخلص تھی کو یکسر مسترد کردیاتھا کیونکہ اس نے ولیم کو ماں سے چھین لیاتھا۔ولیم کی موت کے بعدللی اس کے خاندان  نے قطع تعلق کرلیااوکسی اور کوپھنسالیا۔مسز موریل نے پال اور مریم کے تعلق  کو کبھی نہ سراہا۔پال   اپنی ماں کی افسردگی دور کرنے کے لئے  اپنے تئیں پوری کوشش کرتا رہتالیکن وہ مریم سے بے رخی سے پیش آتی رہی۔۔پال کے دل ودماغ میں محبوبہ کی بجائے والدہ چھائی رہی اس کی والدہ نے پال سے محبت قبول کرلی تھی۔اس سے پہلے ماں نے ولیم  ا ور للی  تمام عر صہ مگوکی کیفیت میں  مبتلا رہے تھےاور  یہی سلوک اب پال کےساتھ بھی   ہورہاتھا۔ وہ والدہ کوبہت چاہتاتھا۔اس کی بےرخی اور ناراضگی برداشت نہیں کرسکتاتھااس لئے وہ اپنی ماں کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا اور اپنی محبوبہ  سے  پائیدار تعلق قائم نہ کر سکا۔ایک وقت  میں  ہمیشہ دو کشتیوں میں سوا رہا۔ماں کے خلاف کوئی بات کرنے کا سوچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے کئی بار اس بات کا فیصلہ کیا کہ مریم سے ترک تعلق کر لے۔ ایسا ہوابھی لیکن  تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے پال  اس سے مکمل طورپر دور نہ رہ سکا۔تعلیم کے سلسلے میں کبھی لائبریری، کبھی کتب کی ادلا بدلی اور کبھی اتوار کو چرچ میں ملاقات ہو جاتی۔مریم کی بدولت اس کی دوستی اس کی ایک سہیلی کلارا سے بھی ہوگئی تھی جومعاشقے میں بدل گئی۔جب پال مریم سے نہیں مل رہا ہوتا وہ کلارا سے عشق  لڑا رہا ہوتا تھا۔

حالات جیسے بھی ہوتے موقع ملتے ہی وہ تصاویربناتارہتا تھا۔ اسکی اس  فن کی وجہ سے قدر کی جانے لگی تھی۔  اسکی ایک تصویر کوانعام ملااور فروخت بھی ہو گئی  تو ایک فیشن کمپنی سے  ڈیزائن بنانے کامعاہدہ  ہو گیا جسے وہ کپڑوں پر چھاپ دیتے ۔  کلارا ا رومانوی لحاظ سے مریم کے برعکس تھی۔وہ  جنسی تعلقات  میں جوشیلی تھی۔ پال کھلے کھیتوں، سرسبز میدانوں، جنگلوں، دریا کے کناروں، ساحلوں، چاندنی میں کلارا سے لطف اندوز ہوتارہاور کلارا اسکا بھرپور ساتھ دیتی  رہی۔جنس کی حد تک تو وہ مجموعی طور مطمئن تھے۔ کلارا حیوانی جذبات میں تو بہترین تھی لیکن اس میں علوم و فنون، ادب، تعلیم اور دانشمندی کا فقدان تھا۔وہ حقوق نسواں انجمن کی سرگرم کارکن تھی۔

دوسری طرف اس کی مریم سےملاقاتیں جاری رہیں۔وہ اس سے مختلف موضوعات پر اسباق حاصل کرنے لائبریری آتی رہی لیکن بات تخلیقی گفتگو تک محدود رہاکرتی۔   یہ ملاقاتیں  جمعرات کوہوا کرتی تھیں۔مریم   شام لائبریری سے کتابیں لینے کے لئے آیا کرتی تھی۔اس  دن پال  لائبریری گیا تو اس نے مریم کو بتایا کہ اتوار کو کلارا اس کے گھر آ رہی  تھی، وہ بھی آ جائے۔ اتوار کو وہ کلارا کا استقبال کرنے کے لئے سٹیشن گیا اور اسے لے کر گھر پہنچا۔  مریم بھی وہاں پہنچ گئی ۔مریم کو  دیکھ کر مسز موریل ہکا بکا رہ  گئی اور ناگواری کے تاثرات ظاہر کئے۔اس نے پال سےپوچھا کہ مریم کیوں آئی تھی تو اس نے جواب دیاکہ پال نے اسےمدعو کیا تھا۔  مریم کچھ دیر وہاں رہی پھر اس نے پال سے کوئی کتاب مانگی اور لے کر  چلی گئی۔ مریم نے دیکھا کہ مسز موریل  کلارا سے خوشدلی سے ملی تھی۔  والدہ نے کلاراکے ساتھ شادی کے لئے ہاں کر دی۔ اسکی ہاں کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کلارا ایک تو پال سے چھ سا ل بڑی تھی اور دوسرا یہ کہ اس کی طلاق نہیں ہوئی تھی اور نہ وہ ہی ڈاؤس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی تھی۔ دوسرے معنوں میں انکی شادی کا کوئی چانس نہ تھا۔ مریم کے وہاں جانے کا مقصد یہی تھاکہ پال کی والدہ کا رویہ کلارا سے کیسا ہوگا۔خوشگوار ماحول سے اسے لگاکہ  نے مسز موریل کلارا کو قبول کرلیاتھا۔کچھ دیر  بعد پال اور کلارا بھی عبادت کے لئے چرچ چلے گئے۔ مریم نے دیکھا کہ پال اسے بالکل اسی طرح بائیبل کا وہ صفحہ نکال کر دے رہا تھا جسےوہ کبھی اسے دیا کرتا تھا۔ پال نے کلارا کو رات رکنے کی دعوت دی لیکن وہ نہ مانی اور اپنے گھر واپس لوٹ گئی۔

 مصوری کے ایک اور مقابلے میں پال کو اول انعام کا حقدار قرار دیاگیا۔اس نے اپنی والدہ سے خواہش کی کہ وہ سوٹ پہن کر  انعام وصول کرناچاہے گا۔اسکی ماں نے ولیم کا پڑا ہوا سوٹ فٹ کرادیا۔ انعام حاصل کرنے سے ایک دن پہلے وہ  اسی سوٹ میں کلارا کے ساتھ تھیٹر گیا۔  کلارا بھی شاندار سیکسی لباس میں ملبوس ہوکرگئی۔وہاں اسکے کئی  دوست بھی پہنچے ہوئےتھے۔ اُس رات وہ  ڈرامے سے کافی لطف اندوز ہوئے۔ پال  نے غلطی سےرات کی آخری ٹرین مس کر دی تو کلارا اسے اپنے گھر لے گئی۔ اسکی ماں پال کی غیر متوقع آمدپر حیران ہوئی لیکن  اسے اندر آنے کا بولا ۔وہاں اسے معلوم ہوا کہ کلارا اور اس کی ماں عسرت کی زندگی گزار رہے تھے۔وہ لیس بناکر سپلائی کرتی تھیں اور جومحنتانہ ملتا اس پر گزارا کرتیں۔پال نے اسے پیشکش کی کہو وہ اسے اپنی کمپنی میں ملازمت دلوادے گا۔ کلاراکاخیال تھا کہ اب اس کو اس کمپنی میں ملازمت ملنا مشکل تھی۔ فورمین  بکسٹر سے شادی کے بعد اس نے جورڈنز کی ملازمت چھوڑ دی تھی ۔ کلارا نے اسے بتایا کہ چونکہ اس نے اس کمپنی کی ملازمت پر لات ماردی تھی اسلئے اسے دوبارہ ملازمت نہیں دی جائے گی لیکن پال نےاپنے اثرورسوخ سے اسے دوبارہ ملازمت دلوا دی۔کلارا اب  اسکے ساتھ سارا دن رہنے لگی۔ دوپہر کھانے کے وقفے میں  وہ پہاڑوں،دریا کے کنارے اپنے جذبات کی تسکین کرتے رہے۔اس نے کلارا کو اپنی والدہ سے ملاقات کے لئے اتوار کو اپنے گھر پرآنے کی دعوت دے دی جس سے ان کے تعلقات دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگے اور وہ ہر جگہ اکٹھے نطر آنے لگے کہ تھیٹر والا واقعہ پیش آگیااور پال کا جورڈنز کمپنی کے دوستوں سے جھگڑاہوگیا۔

کلارا کے خاوند مسٹربکسٹر ڈاؤس کو پال اوراسکی بیوی کلارا کے تھیٹر جانے والی بات کی خبر ہو گئی تو  غصے سے  اس کاخون کھول اٹھا۔چونکہ وہ بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا تھااور انکا  ایک دوسرے سے سامنا  ہوتا رہتا تھا۔ اس لئے وہ پال سے خارکھائے بیٹھاتھا۔سیڑھیاں اترتے ہوئے اتفاقاً پال کاکندھا بیکسٹر کو چھو لیا تو وہ اسے روک کر کھڑا ہوگیا۔ پال نے اپنی  غلطی کی معافی مانگی لیکن بیکسٹر اسے اونچی اونچی گالیاں نکالناشروع کردیں۔شورسن کر منیجر بھی یہ معلوم کرنے کے لئے آگیا۔ منیجر  نےاسے روکنے کی کوشش کی تو ڈاؤسن اسے بھی گالیاں اور دھکا دیتے  ہوئے چلا گیا۔ منیجرنے اسے نوکری سے نکال دیا اور اسکے خلاف جسمانی تشدد کاپولیس میں مقدمہ درج کروا دیا۔ پال  اس تشدد کاعینی گواہ تھا۔ وہ بات کو طول نہیں دینا چاہتاتھا۔جب پولیس  نےپال سے تفتیش کی تواس نے بکسٹر کے خلاف بیان نہ دیا اور اس کے خلاف مقدمہ خارج ہو گیا۔

  کلارا اور اسکی ماں اس دوران  نوٹنگھم منتقل ہو گئیں۔ کافی دنوں بعدایک شام پال کلارا کو  اس کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا تو ان کے سامنے سے ایک شخص عجیب و غریب حلیے میں گزرا۔ پال اس کاحلیہ  دیکھ کر بےخیالی میں  ہنس پڑا۔ کلارا  نے کچھ دور جاکر بتایا کہ وہ  اس کامیاں ڈاؤسن تھا۔پال کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ اسے پہنچان نہ پایاتھا۔کلاراکو چھوڑ کروہ اپنی ٹرین پکڑنے سٹیشن جانے کے لئے واپس آرہا تھاتو یکدم ایک شخص جھاڑیوں سے نکلا اور اس پر حملہ کر دیا اور لوہے کی سلاخ سے اسکی خوب مرمت کی۔ پال کا چہرہ لہو لہان ہو گیا۔چوٹیں گہری آئیں اور وہ کئی روز تک نوکری پر نہ جا سکا۔ اس نے اس واقعے کو خفیہ رکھا اور پوچھنے پر بتایاکہ وہ سائیکل سے گرپڑاتھا۔

پال  کے ذہن میں اس کی والدہ  نےیہ بات ڈال دی  کہ مریم اسے استعمال کر رہی تھی۔مریم ایسی چیزوں سے محبت کرتی ہے جو کہ اس کے لئے فائدہ مند تھیں۔ وہ اس کے ساتھ اس لئے تھی کہ اس کے بغیر اسکی نہ تو تعلیمی استعداد بڑھ سکتی تھی اور نہ ہی  ذہانت میں اضافہ۔ حالانکہ مریم  اس کے ساتھ پوری طرح مخلص تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ پال  اپنے خاندان کیخلاف کھڑا ہو کر اس کا ساتھ دے۔ وہ سمجھتی تھی کہ پال بزدل تھاجووالدہ کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتاتھا۔اس میں فیصلہ کرنے کی کمی  تھی۔اتنے میں اس کے چھوٹے بھائی آرتھر کاتنازعہ شروع ہوگیا۔

  آرتھر گھر میں سب سے چھوٹاتھا۔وہ پال کے سترہ ماہ بعد  پیدا ہوا تھا۔ وہ بھی ذہین تھا۔پڑھائی میں اچھا تھا۔ اس نے بھی اپنے بھائی بہنوں کی طرح وظیفہ حاصل کر کے پڑھائی  مکمل کی اور کان کنی کے بجلی کے شعبے میں نوکری کر لی۔وہ گھر سے باہر رہنا پسند کرتا تھا۔نظم و ضبط  سے خوار کھاتا تھا۔ نت نئے بکھیڑے پا ل لیتا تھا۔لڑائی جھگڑے کرتا رہتاہے۔متلون مزاج تھا۔ والدین کو ذہنی اذیت پہچانے میں اسے لطف آتاتھا۔وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ گیاتھا۔ایک دن مسز موریل کو آرتھر کا  ڈربی سے آیاہوا ایک خط ملاجس میں اس نے اطلاع دی  تھی کہ طبع فن کے لئےاس نے فوج میں بھرتی کے لئے  ٹیسٹ دیاتھا اور تمام مراحل طے کرنے کے بعد بطور سپاہی بھرتی کرلیا گیا تھا۔ اس کی مرضی فوج میں جانے کی قطعاً نہ تھی۔وہاں کا نظم و ضبط وہ برداشت نہیں کرسکتاتھا۔وہ فوج میں شامل ہوکوکرپھنس گیاتھا اور فوج  کی نوکری سے  فوری چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پال  اس بات پر خوش ہوا کہ فوج اس کے بل نکال دے گی ۔ فوج اس کے لئے اچھی رہے گی کیونکہ اس سے اس میں نظم و ضبط آجائے گا۔اس نے مسز موریل کو مشورہ دیا کہ آرتھر کی اس معاملے میں مدد نہ کرے لیکن اسکی ماں نہ مانی۔ اس وقت جنگ کے سائے منڈلا رہے تھے۔آرتھر ایک نہائت معمولی پوسٹ پر منتخب ہواتھا اور یہ معمولی عہدہ اسے کسی طورپسند نہ تھا۔اس لئے اس نے آرتھر کی مدد کرنے کافیصلہ کیا ۔وہ ڈربی ہیڈ کوارٹر جاکر کمانڈنٹ سے ملی  تو اس نےدرخواست رد کر دی اور آرتھرکو ٹریننگ کے لئے جانا پڑا۔ ٹریننگ کے بعداس کی تقرری ہو گئی۔عینی کی شادی پر وہ آیا تو اس میں کافی ڈسپلن ہوگیاتھالیکن وہ فوجی پابندیوں پر نالاں تھا۔ اس نے  ماں سے  ہاتھ جوڑ کرالتجاکی  کہ اسے فوج کی نوکری سے خلاصی  دلوانے کے لئے ایک بار پھر کوشش کرے۔فوج کا مطالبہ تھاکہ اگر مطلوبہ رقم ادا کر دی جائے تو اسکی فوج سے خلاصی ہو سکتی تھی   ۔ مسز موریل کے والدین نے اسے وراثت سے کچھ رقم دی تھی جو اس نے برے وقتوں کے لئے سنبھال کر رکھی  تھی۔اس نے رقم ادا کر کے اسے نوکری سے فارغ کروا لیا۔وہ واپس آیا تو بدلا بدلاتھا۔ اس میں کسی حد تک نظم و ضبط آگیا تھا۔ فوج میں بھرتی سے پہلے اسکا معاشقہ بیٹریس سے چل رہاتھا۔اس نے اپنی زندگی میں ٹھہراؤ لانے کے لئے اس سے شادی کرلی اور دوسرے شہر بس  گیا۔

  پال کی سالگرہ پر فیکٹری کی لڑکیوں نےاسے اعلیٰ کوالٹی کے رنگوں کا سیٹ دیا اور شکایت کی کہ اس تحفے میں کلارا نے چندہ نہیں ڈالا جبکہ کلارا نے بتایاکہ کسی نے اس سے رابطہ ہی نہیں کیاتھا۔

    پال بیکسٹرکے ساتھ جھڑپ کا قصہ اس نےاپنی ماں کو نہ بتایا۔وہ اپنی کوئی بات ماں سے نہیں چھپاتا  تھاماسوائے جنسی افعال کے جو وہ مریم اور کلارا کے ساتھ کیاکرتاتھا۔بعض اوقات اسکی ماں اسکو ڈانٹ بھی دیتی تھی۔ کلارا کو جب بیکسٹر سے جھڑپ  کا پتہ چلا تو وہ پریشان ہو گئی اور پال کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی کیونکہ اس کے نزدیک بیکسٹر کینہ پرور تھا اور اس کے لئے خطرناک تھا۔کوئی بعید نہیں کہ وہ پال کو اسلئے قتل کردے کہ وہ مجھ سے شادی کررہاتھا۔ پال  نےاسکے خدشات کو  مسترد کرتے ہوئے کہا  کہ وہ  اس سے شادی نہیں کر سکتا  ۔کلارا سمجھ گئی  کہ وہ  اس سے کھیل رہا تھا۔ماں کے اثر سے باہر نہیں نکل سکا۔وہ سمجھ گئیے کہ وہ چاہتا تھا کہ وہ جب چاہے جیسے چاہے کی بنیاد پراسے استعمال کرتا رہے۔

ایک بار پال، مریم، کلارا اور پڑوسی مسٹر لیمب سیر کرتے ہوئے لیمب کے فارم ہاوس گئے تو لیمب کی بہن  سے ملے جوشدید تنہائی کاشکار تھی ۔وہ اس وقت ایک گھوڑے کی  مالش بڑے پیارسے کر رہی  تھی۔ اس نے ان سے میٹھی میٹھی باتیں کیں ۔ایسا محسوس ہورہاتھا کہ اس بات کی مشکور تھی  کہ کوئی تو اس سے باتیں کرنے والا ملا۔ گھوڑا اس بات کی تشبیہ تھی کہ ان میں قوت، طاقت اور مردانگی پائی جاتی  تھی اور عورتیں ان کی طرف کھنچی چلی آتی تھیں  ۔اس عورت کو مرد کی شدید ضرورت ہے۔ 

اسی دوران مسز موریل کو گلٹی نکل آئی۔ ا سکے دل میں بھی درد اٹھنا شروع ہو گیا۔ وہ روز بروز شدید سے شدید بیمار ہوتی گئی۔ پال ماں کے پاس وقت گزارنے لگا۔اگلی چھٹیاں ہوئیں تو وہ اپنی ماں کو بلیک پول  لے گیا اور اسکی خدمت کرتا رہا۔ چھٹیوں کے ختم ہونے پر وہ اپنی ماں کو لے کر عینی کے پاس شیفیلڈ آگیا۔اس نےڈاکٹر سے مشورہ کیا تو اس نے خیال ظاہر کیا کہ اسے کینسر تھا۔ وہ وہاں سے اپنے باپ کے پاس آیاجو بوڑھا ہوگیاتھا۔ اس نےپال کو کہا کہ اپنی  ماں کو  وہاں سے واپس لے آئے۔  پال  نےجواب دیاکہ وہ اس قابل نہیں، وہ اسے جا کر مل آئے تو والٹر نےکہاکہ اسکے پاس کرایہ نہیں ۔پال نے باپ کو کرایہ دے کرکہاکہ وہ ماں سے شیفیلڈ جا کے مل آئے۔

    کچھ دنوں کے بعد پال نوٹنگھم گیا تو اسے بیکسٹر کی بیماری کا پتہ چلاکہ وہ بے یا رو مددگارہسپتال میں داخل تھا ۔ اسکا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔اسے ٹائیفائیڈہو گیا تھا۔ علاج معالجہ سے وہ کافی حد تک صحت یاب توہو گیا تھا لیکن غمگین اور افسردہ رہتا تھا۔ پال  ہمدردی جتانے کی خاطراسے ملنے ہسپتال چلا گیا۔اس نے اس کے ساتھ ایک خاص تعلق محسوس کیااس نے یہ جانا کہ لڑائی بذات خود ایک قربت  کا نام تھا۔بیکسٹر  نےپال کو دیکھ کرپہلے تو غصہ اور چڑچڑا پن دکھایا  لیکن جب پال  نےاسے بتایاہے کہ اسکی ماں شدید علیل تھی  تو بیکسٹر نرم پڑ گیا۔ وہ اب زندگی سے بیزار ہو گیا تھا اور  مزیدنوکری نہیں کرنا چاہتاتھا۔ پال  نےاس سے وعدہ کیا کہ وہ اسکے لئے اخبارات و رسائل لے کر بھجوائے گا تا کہ اسکا وقت گزر سکے۔اس دوران بیکسٹر کو احساس ہوا کہ وہ اپنی ذات کا دشمن خود ہی تھا۔ یہ آفت  اسی کی کھڑی کردہ تھی۔ ہسپتال میں پھولوں کا گلدستہ چھوڑ کے پال واپس آگیا تو اسے محسوس ہواکہ بیکسٹرحقیقی طور پرمفلوک الحال ہوچکاتھا۔اسکے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ پال اگلی دفعہ اس سے ملنے کے لئے گیا تو کچھ پھل اس کے لئے لے گیا۔ اس سے ہمدردی جتائی تو آہستہ آہستہ اس پر اعتماد کرناا شروع  کردیا۔ پال اسکے بعد بھی بیکسٹر سے ہسپتال ملنے کے لئے جاتا رہا اور اسے مطلع کیاکہ وہ  چاہتاتھا کہ بیکسٹرکلارا کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جائےاور وہ کئی دن اکٹھے گزارے۔ اس پر بیکسٹرکہتا ہے کہ اس کو اب اس بات کی پرواہ نہیں رہی کہ وہ کیا کرتی  پھررہی تھی۔لیکن اسکے ساتھ پال اسے یہ بھی اطلاع دیتا ہے کہ کلارا  اب پال سے اکتا گئی تھی۔ اسکے علاوہ  اس کے ماں کی بیماری اس حد تک سنگین ہو گئی تھی کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اس لئے پال ماں کے مرنے کے بعد ملک چھوڑ دے گا اور کسی اورملک جا کر قسمت آزمائی کرے گا۔اس لئے بیکسٹر کلارا سے صلح کر لے۔

پال نے   کلارا کواسکے خاوند بیکسٹرڈاؤسن کی  تازہ ترین حالت زار بیان کی اور اسے اس بات پر آمادہ کرلیاکہ اپنے خاوند سے جا کرملے۔چھٹی کے دن وہ کلارا کو اپنے ساتھ لے کر ہسپتال گیا۔ وہ ندامت سے اپنی  بیوی سے نظریں نہیں ملا پایا۔کلارا نے اسے تسلی دیاورکہا کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا ار افسردگی سے چھٹکارا پا لے گا۔ وہ پھولوں  کا گلدستہ اور کچھ پیسے اس کے پاس رکھ کر آگئی۔ ان کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اجنبیت کا پردہ اٹھنا شروع ہو گیا۔ اگرچہ بیکسٹر اور پال ابھی بھی رقیب ہی  تھے لیکن پال اکثر اس کی مزاج پرسی کے لئے جاتا رہااور ان کے درمیان دوریاں پاٹنا شروع ہو گئیں۔ بیکسٹر کی غلط فہمیاں  رفتہ رفتہ دور ہو گئیں  اور وہ دوست بن گئے۔اس نےاسے کھل کر بتا دیا کہ کلارا اور اسکا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر بیکسٹر کلارا سے مصالحت کرنا چاہے تو  پال اسے واپس لا سکتا تھا۔

جاری ہے

Popular posts from this blog