96 خاندان ہی کا ایک مستقل فرد A Permanent Member of The Family By Russell Banks

 



96




 

خاندان ہی  کا ایک مستقل  فرد

A Permanent Member of The Family

By

Russell Banks

مترجم : غلام محی الدین

مجھے نہیں پتہ کہ میں اس قصےکوکیسےپیش کروں جوآج سے پینتیس سال پہلے پیش آیالیکن یہ کم وبیش  خاندانی حکائت کاروپ دھارچکا ہےاوراسےمیرے خلاف بےشمارباربیان کیاجا چکاہے۔اور اگرمیں یہ کہوں کہ میں اس جرم کانہ صرف عینی شاہدہوں لیکن اس قیاس آرائی  کامرتکب بھی ہواہوں جسےراویوں نے بہت مسخ کردیاہے۔لوگوں کےسامنے یہ واقعہ اس طرح سےپیش کیاگیاہےجیسے راوی اجنبی ہواور یہ قصہ انہوں نے کسی سے سن  کربیان کردیاہو جبکہ اس قصےکے  حقیقی کرداروں نے مجھے ذلیل کرنے او رمیرے خلاف نفرت پھیلانےمیں مبالغہ انگیز حد تک  میں منفی باتیں گھڑیں۔کچھ میری کسی بیٹی یاکسی داماد یادوہتے،دوہتی نےسنی سنائی باتوں پراپنی طرف سے مصالحہ لگاکرپیش کی ہوں ۔اس میں وہ بوڑھے شخص کو جوکہ میں  خود ہوں،کوکم و بیش ہروقت ہتک آمیزروپ میں پیش کیاجاتاہے ۔بظاہراس بزرگ کی جب وہ بےعزتی کرتے ہیں تواس سےوہ خوش ہوتے ہیں۔ان کی  اناکی تسکین ہوتی ہےکہ مجھےرسواکردیاگیاہےلیکن اس کہانی کے حقیقی کردار یہ ذاتی طورپرجانتے ہیں کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔میں کافی بےعزتی سہہ چکاہوں ۔اب میں نے فیصلہ کیاہے کہ مرنے سے پہلے  ریکارڈ درست کرکے ابہام دورکروں ۔

کہانی جس اندازمیں پیش کی جاتی ہے،اس میں  مجھے  ہمیشہ قصوروارٹھہرایاجاتاہے۔مجھے نااہل ثابت کیاجاتاہے۔مجھ پرالزام دیاجاتاہےکہ میں نےقبل از وقت  خطرہ نہیں بھانپ  کر اپنے نزدیکی افراد کو اس وقت محفوظ ب کیوں نہ بنایا جن کی حفاظت میرے ذمہ تھی۔ان معصوموں کونہ تونفع نقصان  کاعلم تھااور نہ ہی وہ اپنی حفاظت خودکرنےکےلائق نہ تھے ۔حقائق کی  لاعلمی یا بغض میں کئی قصہ گو  تواس حد تک چلےگئےتھےکہ مجھےقاتل تک  بنادیاتھا ۔میں اب اس منزل پر پہنچ چکاہوں جہاں میری دنیاسے رخصت قریب ہےاس لئے میں  وضاحت                  دوں ۔میں اپنے اظہارمیں یہ کوشش کروں گاکہ لوگوں کی تمام غلط فہمیوں کاذکر  یہ نے ارادہ کیاہے کہ  اپنےپرلگے الزامات  کی صفائی دوں اورحقا ئق سے آگاہ کروں  جوکروں کروں جومجھےاس زمانے میں مجھے درپیش تھے۔اگرکسی کےذہن کے انتہائی گوشے میں ذراسابھی یہ شک ہو کہ میں نےیہ سب اپنی خودغرضی کےلئےکئےیااب کررہاہوں تواسے اپنےذہن سے نکال دوں   ۔میں ان  بےجاالزامات کابوجھ جو پچھلےپینتیس سالوں  سےبرداشت کررہاہوں۔حقیقت  بالکل بھی اس طرح نہیں جووہ بیان کرتے ہیں اور لوگ  اسے سچ سمجھتےہیں۔

یہ گرمیوں کےبعد ان سردیوں کی بات ہے جب میری لوئیس سے علیحدگی ہوئی تھی وہ سال  میری بیوی رہی تھی۔جس واقعے کامیں ذکرکرنے جارہاہوں  عجیب گاؤں کےایک  چھوٹےسےبھرمیں پیش آیا تھا۔ان دنوں میں جنوبی نیوہمپشائرکےایک چھوٹے سے کالج میں انگریزی ادب پڑھارہاتھا۔اس وقت لوئیس اور میری طلاق نہیں ہوئی تھی لیکن ہماری مکمل علیحدگی ہوچکی تھی۔جو زندگی کا ایک کڑواسچ تھا۔اس وجہ  سےمیری،لوئیس اورتین بیٹیوں کی زندگیاں داؤپرلگی ہوئی تھیں ۔اینڈریا،کیٹلین اورشاسا جواس وقت بتدریج نواورتیرہ سال کی تھیں اور ایک اوربیٹی  جسکانام وکی  تھاان سب سے بڑی تھی جو اس وقت اٹھارہ سال  کی تھی جومیری پہلی مرحومہ  بیوی سےتھی ، میرے ساتھ رہ رہی تھیں۔وکی کالج کےپہلےسال میں تھی اوراس جگہ پڑھ رہی تھی جہاں میں پڑھاتاتھا۔

میں  نے لوئیس کواُس سال اگست میں چھوڑاتھاتواس وقت میں نے اپنے وسائل کے مطابق ایک ایساگھر خریداتھاجوخانہ ضرارجیساتھا۔وہاں کوئی نہیں رہتاتھا۔بےآبادپڑاتھاجس میں منسلک گیراج تھا لیکن لوئیس ایک بہت بڑی حویلی میں پہاڑکی چوٹی پررہ رہی تھی جومیرے گھر سے صرف دوفرلانگ کے فاصلے پرتھا۔وہ گھرجوایک بہت بڑی حویلی تھی ایک ٹبے پر تھی ۔وہ حویلی وسیع وعریض اور عظیم الشان تھی جووکٹورین عہد کی طرزپرتعمیرکی گئی تھی۔میں طلاق کے بعد وہ حویلی  جوکہ میری اورمیرے آباؤاجداد کی تھی چھوڑکرنئے چھوٹے سےگھرمیں منتقل ہوگیاتھا۔ جبکہ میری بیوی کی سماجی زندگی جوں کی توں تھی بلکہ اس میں اضافہ ہوگیاتھااور وہ پہلے سےبھی زیادہ کھلےمزاج کی ہوگئی تھی۔ میری موجودگی نے اس کی خواہشات پربندباندھےہوئےتھےاورمیں اس کی  بچگانہ پارٹیوں کامخالف تھا۔مجھے چھوڑنے کےبعد وہ آزاد ہوگئی تھی اورتمام وقت اپنی مرضی سے گزارنے لگی تھی۔ہفتے کے آخر ی دن خصوصی طورپرمیری کاٹیج کےسامنےسےاس کےگھرپر کاریں  زیادہ  تعدادمیں آتی جاتی رہتی تھیں۔ان ملاقاتیوںمیں کئی کاریں توان لوگوں کی بھی ہوتی تھیں جوہمارے مشترکہ دوست ہواکرتےتھےلیکن کچھ ایسے بھی تھےجومیرےلئےنئےتھےاوران کی گاڑیوں پر سرکاری نمبرپلیٹ ہوتی تھی۔

ہم دونوں اقتصادی طورپرآزادوخودومختارتھے۔لوئیس کواس کے دادادادی کےٹرسٹ سےمعقول رقم مستقل طورپرملتی رہتی تھی اور مجھے کالج میں اساتذہ کی نوکری کی تنخواہ  ملاکرتی تھی۔اس لئے علیحدگی کےبعدجب طلاق کی نوبت آئی تواقتصادی معاملات آرام سے سلجھ گئے۔میں نے وہ حویلی  جواپنی خاندانی رقوم سےاسے خریدی تھی بغیرحیل وحجت اس کےنام کردی۔مجھے وہ حویلی ہمیشہ ہی بورژوائی لگتی تھی  جومیرے جیسے سادہ منش کے لئے  پریشانی کاباعث تھی۔اگر کھلے دل سے کہوں تو مجھے اس حویلی کوچھوڑنے کی بےحدخوشی تھی۔

جہاں تک بیٹیوں کاتعلق تھاکے بارے میں یہ متفقہ فیصلہ ہواکہ تینوں لڑکیوں  پر ہمارامشترکہ حق تھا اسلئے ہم دونوں ہی ان لڑکیوں کےسرپرست رہیں گے۔دونوں کے حقوق وفرائض میں توازن رکھاجائے گا۔ یہ طے پایا کہ تمام مسائل افہام وتفہیم سے حل کئےجائیں گے۔ تینوں لڑکیوں  (اینڈریا،کیٹلین اورساشا) دونوں کےپاس آدھے آدھے وقت رہاکریں گی۔ ہفتے کےکون کون سے دن وہ لوئیس کےپاس اورکون کون سے دن میرے پاس رہیں گی ،پر بحث چلتی رہی۔1970میں ایساکرنامستحسن سمجھاجاتاتھالیکن لوگوں کی قلیل مقدارانہیں پسندبھی نہیں کرتی تھی اور نہ ہی  ایسافیصلہ کرتے   تھے۔کیونکہ ان کے مطابق  طلاق کےبعد والد کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی تھیں تعلیم وتربیت والدہ کرتی تھی۔لیکن ہم نے ایسانہ کیا۔ ہمارے معاملے میں ہم نےیہ طےکیایہ طے پایاکہ تینوں بیٹیاں ساڑھے تین دن لوئیس کےپاس اور ساڑھے تین دن میرے ساتھ گزاراکریں گی۔عملی طور پرایساکرناممکن نہ تھااس لئے اس پراتفاق ہواکہ ہرہفتے  تین دن میرے پاس رہیں گی اور چار راتیں  ماں کےپاس گزاراکریں گی جبکہ دوسرے ہفتے چاردن میرے پاس اور تین دن ماں کےپاس ٹھہراکریں گی ۔ان کےآدھے کپڑےاورسامان ماں کےاور آدھے میرے پاس رہیں گے۔میں نے اپنے کمرے کے دو حصے کرکےدوچھوٹی نیچی چھتوں والے سونےکےکمرے بنالئےتھے۔بالاخانہ میں سب سے بڑی  بیٹی وکی  اور کمرے کےدونوں حصوں میں تینوں  بیٹیاں رہاکریں گی جبکہ میں گیراج میں سوجایاکروں گا۔لیکن ان کی والدہ  لوئیس کی حویلی میں  جگہ کی کمی نہ تھی ۔وکی اگرچاہے تووہ ان تینوں بچیوں کےساتھ رہ سکتی تھی۔  وہاں چاروں لڑکیاں  جب  ان کی لوئیس کےگھرمیں  رہنےکی باری ہوگی ،رہاکریں گی۔

حویلی میں  اونچی اونچی کھڑکیوں والے بڑے بڑے کمرےجہاں ہرایک کی الگ الگ الماری تھی ،انہیں مل سکتی تھی۔یہ ایک آسان ،سادہ اور محفوظ فیصلہ تھا۔ اب معاملہ یہاں پراٹک گیاکہ سکول میں چھٹیاں بھی ہوتی تھیں اور مختلف قسم کےپروگرام بھی چلتے رہتے تھے،ان کا کیاکیاجائے تو اس بارے میں یہ فیصلہ کیاگیاکہ  ان   عبوری ایام  میں وہ ماں یا باپ کے پاس کسی قانون قاعدے کے تحت جو وہ واقعے کے لحاظ سے مناسب سمجھیں گے فیصلہ کرتےرہیں گے۔،سکول بس انہیں صبح ماں یاباپ کےگھروں سےلےجایاکرے گی اور چھٹی کے بعد سکول بس سےوہ میرےگھرآجایاکریں گی۔ہم نے  ایسے مسائل کومستقل طور پرحل کرنےکاکوئی فیصلہ نہ کیاجوہمارے پالتوجاوروں سے متعلق تھے۔۔ ہمارے شس کی گردن پر سفید سموری گھنےبال تھے،اس کانام  'سارج 'تھا اجس کے سفید نیم گھنگریالے بال  تھے جسےہم نے بارہ سال پہلےکنوئیں سے نکال کر اسکی جان بچائی تھی ۔اور دوسرا ایک نربلی تھی  جس کانام 'سکوٹر' تھا۔ان دنوں میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ان کےبارے میں یہ فیصلہ ہواکہ ان کےبارےمیں بعد میں سوچاجائےگا۔

سارج کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی اوروہ اب بوڑھاہوچکاتھا۔اس کےگھٹنوں میں درد رہنےلگاتھا،نظرکمزورہوگئی تھی۔آدھااندھا اور بہرہ ہوچکاتھااسلئےاسے اب ہم نے باندھنا بندکردیاتھا۔لوئیس اور میں نے باہمی رضامندی سے اس کےبارےمیں یہ فیصلہ کیاکہ وہ مشترکہ سرپرستی میں نہیں رہےگا۔وہ جس  کےپاس رہناچاہے،رہےگالیکن وہ پورا وقت کسی ایک کےپاس رہےگا۔ میں نے اسےمانگ لیالیکن وہ اس پررضامند نہ ہوئی۔ اس کے بعد مذاکرات کےبعد یہ فیصلہ ہواکہ اس کی مالکن  چاروں بیٹیاں  (  اینڈریا،کیٹمین، ساشا اور وکی )ہوں گی کیونکہ وہ ان کا بڑاخیال رکھتی تھیں۔وہ اس کااس طرح خیال رکھتی تھیں جیسےکوئی اپنےپیارے ذہنی مریض کارکھتاہے۔اس کی کمزور صحت کےباوجود وہ ہم  سب  کا پیارا تھا اور اس  کی حیثیت  خاندانی فردکی تھی۔وہ بہترین تھا۔ مکمل طورپر فرمانبردار تھااور اس پرکی گئی مہربانی  کوپہنچانتااور ہرطرح سے مشکورہوتاتھا۔نربلی سکوٹر پر میراپوراحق تسلیم  کرلیاگیاتھا ۔         لوئیس اور لڑکیوں  کواس سے دلچسپی نہیں تھی ،اب جوان ہوگیاتھا۔وہ بالکل اکیلاتھا ۔وہ رات کوگھر سےباہرچلاجاتا اور اڑوس پڑوس میں اپنا ساتھی تلاش کرتا لیکن  اسکامقابلہ بہت سخت تھا،دیگربلےاسے کسی بلی کےپاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے تھے۔ میری چاروں بیٹیاں اور میں بذات خودیہ سمجھتےتھےکہ اس کامالک میں ہی  ہوں۔اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ میں ہمیشہ

صبح اٹھنےکاعادی ہوں۔اسے فوری پتہ چل جاتا۔میں مین دروازےپر اس کاکھانارکھ دیتااوروہ شوق سےکھاکراپنی جگہ جابیٹھتاجومیں نے اس کےلئےبنائی ہوئی تھی۔ 

ہماری طلاق  کےدوران تمام حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کاباقاعدہ تعین کردیاگیاتھا۔سکوٹر کی تحویل کویوں ہی چھوڑدیاگیا۔اس نےکہاکہ اس پر بحث نہ کی جائے۔میں نےچاہاکہ اس پر مذاکرات کروں لیکن بعد میں بھی چپ ہوگیا۔اس نے سارج  کےبارے میں کہاکہ فی الوقت اسے لوئیس کےپاس ہی رہنے دیاجائے جومیں نےتسلیم کرلیا۔وہ اسے اپنےپاس رکھ کربہت خوش ہوئی۔وقتی  طورپریہ فیصلہ اس کے حق میں زیادہ جاتاتھاجبکہ باتی معاملات منصفانہ طورپرطے ہوئے تھے۔میں لڑائی جھگڑے سے بچناچاہتاتھا اس لئےمیں نےاصرار نہ کیااور اپنی مرضی سے وقتی طورپر اس کےحوالے کردیاکیونکہ مجھے اس بات کاخدشہ تھاکہ کہیں وہ بیٹیوں کوبھی دھونس جماکراپنے پاس نہ رکھ لےیایہ بیان اختیارنہ کرلے کہ وہ اس کی زیادہ تھیں اورمیری کم۔میری توقع کے برعکس اس نےیہاں منصفانہ فیصلہ کیااور بیٹیوں کوحقیقت پسنداہ طور پرمشترکہ  تحویل میں دینے کافیصلہ کیا۔

اس کےبعد لوئیس مجھ میں کچھ اورامورپربھی اختلافات ہوئے اور غلط فہمیاں پیداہوگئیں جوبڑھتے بڑھتے ہماراگھر ٹوٹنےکاباعث بن گئیں  ۔میں ان کی تفصیل میں نہیں جاناچاہتاکیونکہ یہ کہانی ان اختلافات اور تصادمات سےمتعلق نہیں اوراتنےسال گزرنےکےبعد انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔وہ معاملات اب غیرمتعلقہ ہوچکےہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کاہے جب ہماری ازدواجی زندگی  بحران  کاشکارتھی  اور سارج  نے اپنے انداز میں اسے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن سانحہ کی وجہ سے ہماری شادی نہ بچاسکا۔۔۔بعدازاں  لوئیس اورمیں نے الگ الگ نئے ساتھی چن لئے تھےاوران کےساتھ کئی دہائیوں سے ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔بیٹیاں جواس وقت کم عمرتھیں ،اب ادھیڑعمرہوگئی ہیں۔ان کی  بھی اولادیں ہوگئی ہیں۔ میری ایک بیٹی کوتودوبار طلاقیں ہوچکی تھیں لیکن میرے بارےمیں مسخ شدہ کہانی  اب بھی سنائی جاتی ہے۔

لوئیس اور میری علیحدگی ہوگئی ۔علیحدگی  اور طلاق کے درمیان ہمارے مذاکرات ہوتے رہے ۔لڑکیوں اور پالتوؤں  کےبارے میں تصفیہ ہوچکاتھالیکن کئی اہم ا،ورپر بات چیت چل رہی تھی۔جن  باتوں پر اتفاق ہواتھا ان کے مطابق  ہمارے معاملات معمول کےمطابق چلناشروع ہوگئے۔ابھی جب ہم علیحدگی کے صدمے میں تھے۔ایسالگاکہ ہم نے اس تبدیلی کوقبول کرلیاتھا۔وہ حویلی مکمل طورپر لوئیس کاہوچکی تھی اوران کاوالد  ایک کمرےاور گیراج اورچھوٹے سے لان میں رہنے لگا۔میں نے لان میں ایک جھولالگا دیاتھااور  دھوپ سینکنے کے لئے پچھلی طرف ایک مضافاتی علاقے والا کھیل کامیدان بنادیاتھا۔خزاں کےموسم میں گرمی پائی جاتی تھی۔مجھے یادہے کہ میں نے وہاں پیپل کےدرختوں کےپاس کینوس کاایک ٹینٹ لگا کربار بی کیوکاسامان رکھ دیاتھا۔میری بیٹیاں شوق سے خود ہی ہاٹ ڈاگ، مارش میلواور تکےوغیرہ بناتی تھیں اور کئی بارگرمیوں میں کھلےموسم سفری بیگ میں جب انہیں سکول سے چھٹی ہوتی تھی ،وہیں ہی سو بھی جاتی تھیں۔وہ گھر کی صفائی وغیرہ کرتیں ۔میں نے محسوس کیا کہ اس  پران کاکافی وقت لگ جاتاتھا جس سےان کی پڑھائی میں حرج ہوتاتو میں کالج میں اپنی کلاسیں ایسی کرالیں جس  میں مجھے اتناوقت مل جاتاکہ میں صفائی کرسکوں تاکہ بیٹیاں  اپنی پوری توجہ پڑھائی پردے پائیں ۔میری بڑی بیٹی وکی کاایک بوائے فرینڈ بھی بن گیاتھا جس کااپنااپارٹمنٹ تھا۔۔۔ اب میری بیٹیوں کے لئے میراگھر اب ایک کیمپ  کی شکل اختیارکرگیاتھا۔

ایک مسئلہ غیر متوقع طورپر اس وقت پیداہواجب سارج  اپنے دردوں کےساتھ لوئیس کے گھر سے میری بیٹیوں کے پیچھے چلتاہوامیرے گھر پہنچ گیا۔میری بیٹیاں اپنے دن جوانہوں نےمیرے پاس رہنے تھے کے بعد واپس لوئیس کے پاس  واپس جانے لگیں توایک مسئلہ کھڑاہوگیا۔وہ یہ  کہ سارج نےواپس جانے سے انکارکردیا۔ اس کی کس کے ساتھ رہناتھاکی ترجیح واضح ہوگئی تھی ۔وہ ایساکیوں کررہاتھا،وجہ معلوم نہ تھی۔اسے زبردستی بھیجاجاتاتووہ اس طرح دھرنامارکر بیٹھ جاتا جیسے لوگ  احتجاج میں پولیس کے لاٹھی چارج سے دھرنامارکر بیٹھ جاتے ہیں۔اپنی جگہ سے نہیں اٹھتے۔نہ توکھڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی چلتے ہیں ۔  

لڑکیوں کی روانگی کےایک گھنٹہ بعد لوئیس کافون آگیااوراس نے سختی سےکہاکہ میں سارج کو اس کےپاس چھوڑجاؤں کیونکہ وہ اس کے اور لڑکیوں کےساتھ رہتاہے۔سارج کااپنی مرضی سے میرےپاس رہنے کاانتخاب اگرچہ میری فتح تھی۔میں نےکوئی ایسی تدبیرنہیں کی تھی جس سےاسےمیرےپاس ٹھہرنے کی ترغیب ملے۔نہ ہی میں نے یہ خواہش کی تھی ۔ میں نےکبھی سوچابھی نہیں تھاکہ میں خوش قسمت ہوں گا کہ سارج میرابھی ہوسکتاتھالیکن اگر وہ لڑکیوں اورلوئیس کےپاس رہناچاہتاتھاتومیں نےکبھی روکنانہیں تھا۔میں نے یہ دلیل لوئیس کوبارباردی لیکن لوئیس پراس کاکوئی اثرنہ ہوااور اس نےزور دیاکہ اسے لازماً اسےاس کےپاس چھوڑدیاجائے۔اس کالب ولہجہ ورجینیائی والاغصیلہ تھا۔اور اس کی  آواز کی گونج سالہاسال تک میرے ذہن میں گونجتی رہی۔

ان دنوں میرےپاس فوررڈویگن تھی ۔لوئیس کااصرارہوتاتھاکہ میں خود سارج کواس کےگھرچھوڑ جایاکروں۔ سارج کی ٹانگوں میں درد رہتی تھی۔اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ خود سے گاڑی پرسوار ہوسکےاس لئے مجھےاسے گود میں اٹھاکرکار میں رکھنااور لوئیس کی ڈرائیووےپراتارناپڑتاتھا۔یہ عمل ہرہفتے ہوتارہا۔لوئیس کی تمام کوششوں اورترغیبات کے باوجود سارج اس کے پاس نہ رہناچاہتا تھا۔اس کے گھر نہ ٹکتا اور موقع ملتے ہی وہاں سے میرے گھرآجاتا۔ میں اس معاملے کوبڑھانانہیں چاہتاتھا کیونکہ معاملات نازک تھے ،علیحدگی توہوگئی تھی اور میری خواہش تھی کہ صلح ہوجائے۔اس لئے میں سخت رویہ اپناکر مواملہ مزیدخراب نہ کرناچاہتاتھا۔بیٹیوں نے میرے پاس آناہوتاوہ اس کے پیچھے پیچھے چلاآتا ۔اس کا مطلب تھاکہ  وہ میری بیٹیوں اینڈرا،کیٹ لین ،ساشا اور وکی کے تعاقب میں نہیں آتاتھابلکہ اسے میرےپاس آنااچھالگتاتھااور میرے ساتھ ہی رہناچاہتاتھا۔وہ جب تک  لوئیس کےگھر میں  ہوتا،بےچین رہتا۔لوئیس اورمیرے پاس کوئی ایساطریقہ نہیں تھاجس سے لوئیس کوسمجھایاجاسکتاکہ وہ  مجھے زبردستی سارج کواس کےپاس واپس لانے کے فیصلے  میں غلط تھی۔بالآخر ایک ماہ بعد لوئیس ہارمان گئی حالانکہ میں اس کےمطالبےپراس دوران سارج کواس کےگھرباقاعدگی سے پہنچاتارہا۔اب اس نے یہ فرمائش بندکردی۔ ہر کوئی یعنی میں، سارج، لڑکیاں اوریہاں تک کہ لوئیس سب یہ جاننے لگےکہ اگر لوئیس اصرارکرتی رہتی کہ سارج کواس کےپاس ہربارچھوڑ دیاجائے  توایک دن تنازعات بڑھ سکتےتھےجس سے طرفین کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتاتھا۔اس لئے اس انتظام پربغیر کہےسنے عمل کیاجانےلگا کہ سارج کی مرضی پرچھوڑدیاجائے۔اس کےباوجود،مجھےاس سکون کےباوجود، سارج اس تصفیے سے مجھے گھبراہٹ ہونےلگی۔میرے کانوں میں سرسراہٹ اور سیٹیاں  بجنےلگتیں کیونکہ میں یہ سمجھ رہاتھاکہ مجھ سے معاہدےکی خلاف ورزی  ہورہی تھی حالانکہ اس  میراذرابھربھی عمل دخل نہیں تھا۔اس وقت تومیں سمجھ نہ پایالیکن جب میں نےماضی کےجھروکوں میں دیکھاتویہ نتیجہ  اخذکیاکہ معاہدے کےمطابق  جو ہماراخاندان  حوالگی اور سرپرستی  میں  نہ تو وہ لوئیس اور نہ ہی میری تھی  بلکہ یہ سارج  کی مرضی تھی کہ جس کے پاس چاہے،رہے۔اس پرہم دونوں کابرابرحق تھا۔اس طرح سے وہ ہمارے سابقہ خاندان کا آخری رابطہ تھاجو اس پالتو نےہمیں جوڑے رکھاتھا۔اس سے اس کی یہ دلی خواہش ظاہرہوتی تھی کہ لوئیس اور میرے درمیان کسی نہ کسی طرح صلح ہوجائے۔

اگرسارج مان جاتا کہ وہ مٹرگشت  کرتےہوئےلڑکیوں کےساتھ آیااورجایاکرےیالوئیس بچیوں کی طرح مشترکہ ملکیت میں رہنےدیتی تو لوئیس سے علیحدگی ختم ہوسکتی تھی ۔اگر    ہم سارج کے حربوں کوسمجھ لیتےتوہماری صلح ہوجاتی  اورہم ہنسی خوشی رہ رہے ہوتے۔سارج کےاندازسےلگتاتھاکہ وہ ہمیں اکٹھارکھناچاہتاتھا۔  بیٹیوں کی اضطراری کیفیات جاتی رہتیں  جو طلاق کی وجہ سے پیداہوئیں۔وہ اپنے والد کےساتھ کیمپنگ پرجاسکتی تھیں۔اس سے لوئیس کانہ تواتنادل دکھتااور نہ ہی مجھےاحساس گناہ ہوتا۔ان کی زندگیاں ،جووہ آج کل مستقل طورپرگزاررہی تھیں اتنی مشکل نہ ہوتیں  اور لوئیس اورمیں اتنی جلدی نئے جیون ساتھی نہ ڈھونڈتے۔سارج کو اس کا سب سے زیادہ ذمہ دارٹھہراجاتاہے۔بچپن میں یابلوغت میں ،علیحدگی،طلاق یا کسی ایک کی موت واقع ہوتی ہے تواس سےلواحقین کانقصان زندگی بھرکاہوتاہےاورکسی کاآزاد سیال غصہ جو،ہر کسی پر ظاہرہوسکتاہے،کےلئے ہمیں کسی کو الزام دیناپڑتاہے۔

کسی نے بھی سارج کو موردالزام نہ ٹھہرایا،یقیناً،مشترکہ سرپرستی کوردکرنےپراورجس سے ہماری عائلی زندگی ہمیشہ کےلئے ٹوٹ گئی۔تاہم یہ سب شعوری طورپرنہیں ہوا۔سچ یہ ہے کہ کہ اس زمانے میں ،جب ہماری  علیحدگی کاعمل شروع ہواتھاتوہمیں اس وقت قطعی  احساس نہیں تھا کہ ہم سارج کےکتنےزیادہ محتاج تھے۔ہمیں اپنے خاندان کی اس کمزوری کاعلم نہ تھا۔ ہم میں سےکوئی بھی یہ نہیں جانتاتھاکہ سارج دراصل ہماری مددکررہاتھا۔وہ ہمیں دوبارہ سے جوڑناچاہ رہاتھا۔وہ چاہ رہاتھاکہ ہم دونوں کوایک دوسرے سے شکایات اورغصہ تھا ختم یاکم کردیں اوردشنام طرازی نہ کریں۔علیحدگی یاطلاق کے لئے ایک دوسرےکوذمہ دار نہ ٹھہرائیں اور مخالف فریق کو قربانی کابکرا نہ بنائیں۔

جب لڑکیاں سکول کےبعد میرےپاس ٹھہرنےکےلئےتین یاچاردنوں کےلئےسکول سے چھٹی کے بعد میرےگھرکےپاس والےبس سٹاپ پراترکراپناسامان رکھ لیتیں توانہیں سارج کی یاد ستاتی۔وہ فوراًاس کی طرف آتیں ۔وہ اپنے دانت پیس کر ،بڑی بڑی آنکھیں جوموتیے کی بیماری سے چمک رہی ہوتیں  سے،بھوری مڑی ہوئی دم اورترچھی لڑکھڑاتی چال جودردوں کی وجہ سے ہوگئی تھی،ان کا استقبال کرتا۔وہ  ان کےساتھ بالاخانےکی سیڑھیوں پر نہ چڑھ سکتااور  ایک طرف بیٹھ جاتااورادھرادھردیکھتارہتا۔ایسالگتاجیسے کہ  وہ مستعدنگاہوں سے ان کی رکھوالی کررہاہو۔ وہ انہیں ایسے خطرےسےبچارہاہوتاجس کانہ تولڑکیوں اور نہ  لوئیس کواور نہ ہی مجھے پتہ تھا۔ نر بلی سکوٹر زیادہ تر وہاں موجود نہ ہوتا تھا۔وہ ان سے الفت ظاہر نہ کرتاتھا۔وہ ان سےاورلڑکیاں سکوٹر سے غیرمانوس تھیں لڑکیوں کےنزدیک سکوٹر  کی زیادہ اہمیت نہ تھی  اوراسےاکثرنظرانداز کردیتی تھیں۔

سارج  ہمارے خاندان کاایک مستقل رکن تھا۔مجھے یہ کہتے ہوئے نفرت ہوتی ہےکہ جب ان تین لڑکیوں نے نربلی  (سکوٹر)کوپہلی باردیکھاتھاتوانہوں نے سکوٹرکی طرف آنکھ اٹھاکے بھی نہ دیکھا ۔اسے سرسری  انداز میں لیا۔اس کی طرف متوجہ نہ ہوئیں  بلکہ اسے نظرانداز کرتی رہیں۔میری یہ خواہش کہ  وہ بھی  میرے گھرکامستقل رکن بن جائے لیکن میں اپنی اس خواہش میں ناکام رہا۔ سکوٹربھی آزادمنش رہا ۔ہماری بجائے محلے کی  بلیوں میں زیادہ دلچسپی لیتارہا۔میں  خاندان  میں سکوٹرکی مرکزی حیثیت تسلیم کروانےمیں ناکام رہالیکن  پورا خاندان  کےلئے سارج ہمیشہ گھرکامستقل فرد ہی رہا۔

 لڑکیاں جب زیادہ ترسکول ہوتیں اور پروگرام کےمطابق انہوں نےلوئیس کےپاس رہناہوتاتوسارج میرے گھرتمام دن سویارہتا۔ان دنوں اس کی زیادے زیادہ سرگرمی یہ ہوتی کہ وہ میری گاڑی پرچڑھ جاتایاجہاں کہیں میں جاتاتووہ بھی میرے پیچھے پیچھےآتا۔ میں اسےاپنےساتھ اپنےکالج بھی لےجاتا۔وہ کلاس روم میں میرے میزکےنیچے سوتارہتااور میں اپنا لیکچر دیتارہتا۔سردی کےموسم میں سحرسےغروب آفتاب تک جب برفباری ہورہی ہوتی اورمیں گھرپر موجودہوتااور میری کار ڈرائیووے پرپارک ہوتی ،سارج  اس پر سوارہونے کاکوئی موقع ضائع نہ ہونےدیتا تھا یاوہ پچھلے ٹائروں کےنیچے لیٹ جاتا اور جب میں کار کاانجن چالوکرتاتووہ باہرآکر کار کی فرنٹ سیٹ کےپاس آجاتا۔اس کامقصد یہ ہوتا تھاکہ میں اسے بھی اپنے ساتھ لےجاؤں۔میں کار کی ڈگی کھول کریااپنے ساتھ اگلی سیٹ پربٹھالیتا۔اگرلڑکیاں میرے ساتھ نہ ہوتیں تومیں اپنے ذہن میں بیس تک گنتا تاکہ سکوٹر جہاں کہیں بھی تھا ،وہاں سےسے نکل کرمیری سیٹ کےپاس آجائےتاکہ میں اسےاپنےساتھ لے کرجاؤں۔

مجھے یہ تویاد نہیں کہ اس کےبعد ہم کہاں جاتےلیکن ایک ایساوقت بھی آیاکہ چاروں بیٹیاں اور پانچواں فرد سارج جسے ہم بیٹا سمجھتے تھےسب ایک ہی وقت کارمیں جاتے۔ اس وقتسارج ڈکی میں ہوتا کیونکہ اگلی سیٹ پروکی اور پچھلی سیٹ پرباقی تینوں بیٹیاں  اینڈرا،کینٹلین اور ساشا ہوتی تھیں۔ مجھے یادہےکہ وہ دن کاوقت تھااوروکی کے سکول کاوقت تھا۔دن کےوقت چاروں بیٹیوں  کابیک وقت اکٹھا ایک ہی کارمیں ہوناغیرمعمولی تھا۔ہفتہ یااتوارکو ایساہوسکتاتھا۔آج ان کاموڈتیراکی کاتھا۔یہ روشن،بادلوں کےبغیر ایک سردسہ پہر تھی۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک زمین پربرف نہیں پڑی تھی۔ جس کامطلب یہ تھاکہ یخ بستہ ہواچلنےوالی تھی جوجنوری میں معمول کےمطابق  تھی۔اس وقت ہماری علیحدگی کوپانچ چھ ماہ ہوچکےتھے اورطلاق کاعمل بیچ میں تھاجو اگست میں مکمل ہوناتھا۔

سب کارمیں جڑکربیٹھ گئیں ۔لڑکیوں کےمزاج بچگانہ تھےاور بی۔جی کےڈسکو نمبرسن رہی تھیں اور مزاحیہ انداز میں بڑی ہم آہنگانہ طورپرسرسےسرملاکر ان گانوں کی نقل کررہی تھیں ۔ان  کی دھنیں بدل بدل کرگارہی تھیں۔وہ موج مستی کےروپ میں تھیں۔ایک گاناگاتیں ،اس کاایک شعر گاتیں اورپھردوسراگاناگانےلگتیں۔ایک دوسرے کےگانے کاٹ رہی تھیں۔سب سے چھوٹی بچی کی عمراس وقت سات سال تھی ،سب سے زیادہ چہک رہی تھی۔مجھے ان کاچنچل پن بہے اچھالگ رہاتھا۔میں نہیں سمجھتاکہ اس دوران میری توجہ ڈرائیونگ سےہٹ گئی ہو۔میں اس بات پرخوش تھا کہ میری بیٹیوں میں پیاربڑھ گیاتھا۔میں مڑمڑکرانہیں دیکھ رہاتھا۔مجھے ان کےروشن اوردمکتے ہوئے چہرے بہت اچھے لگ رہے تھے۔میں انہیں دائیں سے بائیں اوربائیں سے دائیں جھومتے ہوئے  دیکھ کرروحانی تسکین حاصل کررہاتھا۔اس دوران میں نے سوچا کہ  اپنے من میں ایک سےساٹھ تک گن لوں اور پھر گاڑی  چلاؤں ۔اپنی بیٹیوں پربہت پیارآرہاتھااورمیں دل سے دعائیں مانگ رہاتھاکہ وہ عمر بھر خوش رہیں ۔ ان خیلات میں گم رہا اور سارج کابھول گیاکہ اسے کار میں بٹھاناتھایاکارستارٹ ہونے پراس نے میری کار سیٹ کےپاس آکرکھڑے ہوجاناتھا۔

بیٹیوں  کی چنچل باتوں میں ان  کی خوشیوں میں ہی مگن رہا۔میں ان سےشغل میں مصروف تھااور بےخیالی میں گاڑی چلادی۔چندگزجانےکےبعدہمیں احساس ہواکہ ہم سارج کوپیچھے چھوڑآئےتھےتومیں نےگاڑی موڑی اوراپنے ڈرائیووےپرکھڑی کرکےکارکاانجن بندکردیا۔

بیٹیوں نےیکسوہوکر چیخ ماری اور دہائیں دینے لگیں۔انہوں نے ہم آوازہوکر نوحہ خوانی شروع کردی۔ایسالگ رہاتھاکہ تھیٹرمیں کوئی  اوپراگایاجارہاتھا۔وہ اتنی کرب سےرورہی تھیں کہ ایسالگ رہاتھاکہ انہوں صدیوں اس بات کاانتظارکیاتھا۔ان کی آوازوں میں اتنادردمیں نے  پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔صورت حال اتنی خوفناک  تھی کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ بیٹیوں نے کوئی  ایسی خوفناک  چیزدیکھ لی تھی جس سے ان پر  ہذیانی کیفیت  طاری ہوگئی تھی۔ایسالگ رہاتھاکہ کہ انہوں نے کوئی  دہشت  ناک واقع  دیکھ لیاتھا۔اس وقت مجھے ماضی کاایک واقعہ یادآیاجس میں کسی نے میرے خاندان کاایک فردقتل کردیاتھا،اس وقت  بھی کہرام مچاتھا اور چیخ وپکارہوئی تھی لیکن وہ بھی اتنی دردناک نہیں تھی ۔حالات  اتنے سنگین کیوں ہوگئے تھے،مجھے پتہ نہ تھاجو لڑکیوں کوتھااوروہ اس پراپنا ردعمل دے رہی تھیں۔میں نے جائزہ لیاتوپتہ چلاکہ ان کاچیخناچلاناجائز تھا۔۔۔انہوں نے سارج کی لاش دیکھ لی تھی ۔اس کاجسم کچلاہواتھااورڈرئیووےپر پڑاتھا۔۔۔اس وقت ہمیں یاد آیاکہ جب میں نے بےخیالی میں کارچلائی تھی توپٹاخےکی آوازآئی تھی۔اس پرہم نے دھیان نہ دیاتھا اور گاڑی  آگے بڑھادی تھی۔دراصل وہ اس وقت پچھلے ٹائرکے نیچےبیٹھاتھااورگاڑی اس پر سےگزرگئی تھی۔یہ واقعہ اس وقت پیش  آیاجب ہماری طلاق کی قانونی کاروائی جاری تھی اورسارج اپنے انداز میں ہماری مصالحت کے اقدامات کررہاتھاجسے ہم اس وقت سمجھ نہ پائے۔سارج نےوہ طلاق روکی ہوئی تھی لیکن اس کےمرنےکےبعد سب  مراحل  جلدجلد طے ہوگئےاورہماری شادی ٹوٹ گئی۔اس کی لاش دیکھ کرمجھ پربرااثر پڑاکہ میں شدید افسردگی میں چلاگیا۔ ۔بیٹیوں کوسارج کی  موت کا بےحدقلق تھا۔ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ ان کی عملی زندگیوں اوران کی شادی کے بعد بھی ان سے تعلق میں رہتا۔وہ اس کی پرورش میں باقاعدگی سے حصہ لیتی رہیں۔لیکن میری بگڑی حالت دیکھ کروہ سارج  کی موت  کوبھول گئیں  اور ان کومیری زندگی  زیادہ اہم لگنے لگی تھی۔ ومجھے اپنی لاپرواہی  کااحساس ہواجس نے ایک جان لےلی تھی ۔میں اپنے جرم کااحساس ہوا اور میں نے انتہائی خلوص سےباربار اپنی بیٹیوں سےمعافی مانگی اور انہیں  دلاسہ دیتارہاکہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔میری اپنی ذہنی حالت اس صدمے کی تاب نہ لاکر بگڑگئی  تھی ۔وہ گھبراگئیں اوربجائے اس کے کہ وہ  میری معذرت  قبول کرتیں ،وہ میرادل بہلانےلگیں۔انہوں نے دلائل سے ثابت کیاکہ سارج ٹائرکے نیچے آنے سے پہلے ہی مرچکاتھا۔کیونکہ جب کبھی  کارسٹارٹ ہوتی تھی تووہ ہمیشہ  کارکے نیچے سے نکل کر باہر آجاتا اورگاڑی پرسواری کی خواہش کااظہارکیاکرتاتھا۔ میں  نےاسے باعزت  طورسے دفنانے کاسوچا۔میں نے سارج کوکمبل میں لپیٹ کر اٹھایا۔بیٹیوں نےاس کے کھلونےاورپسندیدہ خوراک  کی گٹھڑی بنائی اور اپنے عقبی صحن  کےایک کونے میں پیپل کےدرخت تلے رکھ  دیں ۔ میں نےاپنی  چاروں بیٹیوں کومشورہ دیاکہ سارج کویاد کرنے کےلئے جب بھی موقع ملے،وہاں آیاکریں۔اوراس کےساتھ محبت سے گزارے گئے حسین لمحات  یادکیاکریں۔

دفنانے سے پہلے جب میں نےاپنے گیراج کی صفائی  کرنےکےلئے گیااور اس میں بکھری اشیا سمیٹناشروع کیں تواس دوران میری بیٹیاں سارج کی نعش کے پاس کھڑی رہیں تاکہ اس کے مردہ جسم کی بےحرمتی نہ ہو۔جب میں واپس آیاتووکی نے کہاکہ  باہرتوزمین پربرف جمی ہوئی ہے،کیاتم یہ جانتے ہوڈیڈی؟ میں کدال لےآیااور  پر برف کی موٹی  جمی ہوئی تہہ پر زورزورسے مارنے لگالیکن سخت برف پتھریلی چٹان کی طرح سخت ہوچکی تھی۔وہ  نہ اکھڑی۔میں اس وقت بےحد پریشان تھااوررورہاتھا۔مجھ پر دیوانگی طاری تھی۔میں جنگلی وحشی بناہواتھا۔میرے جنون سے میری بیٹیاں گھبراگئیں اور ڈرکر ایسےپیچھے ہوگئیں جیسے کہ میںایک  بھیانک جرم کاارتکاب کررہاتھااور وہ اس کی چشم دید گواہ نہیں بنناچاہتی تھیں۔

میں  نےانہیں ایک نظردیکھااور نظراندازکرکےان کی طرف پیٹھ کرلی تاکہ ان کے خوفردہ چہرے نہ دیکھ سکوں۔میں کدال  پوری طاقت سے زمین پرماررہاتھا،میراسانس پھول گیاتھااور میرے ہاتھ کے اعصاب  شل ہوگئےتھےتو مجھے کھدائی بندکرناپڑی۔میں نے اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھااور ان  سےنارمل انداز میں گفتگوکاسوچاتاکہ ان کاخوف دور ہوجائےلیکن وہ ایک ایک کرکے وہاں سے چلی گئیں۔ان کی قیادت وکی کررہی تھی۔وہ سب  لوئیس کے گھر جارہی تھیں۔وکی نے ایک ہاتھ سے اینڈریا اوردوسرے سے کیٹلین اورشاسا نے کینٹلین کا  ہاتھ تھاماتھا۔وہ آہستہ آہستہ غائب ہوگئیں۔اس دن سے میرے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔

خود پرالزام دینےلگاکہ میں ہی اس کاقاتل تھا،۔ میں بیمارپڑگیا۔بھوک مٹ گئی۔تنہائی پسندہوگیااحساس گناہ وجرم کاشکارہوگیا ۔دنیاکی محفلوں سےدل اٹھ گیا۔ان احساسات کی بدولت اپنی عزت کی بحالی کےلئے  مجھے بہت سمجھوتے کرناپڑے۔اس سانحے کو مختلف ذرائع سے جب بھی  بیان کیاجاتاتوتان یہاں پرٹوٹتی کہ سارج  کی موت کاذمہ دار میں ہی تھا۔جسےسچ مان کر لوگ مجھ سے نفرت کرنےلگتے اور میں چپ سادھ کرسنتارہتا۔یہاں تک کہ اس سانحے کوپینتیس سال گزگئےاورمیں چپ رہا۔اب جب میں کمزور اور لاغر ہوچکاہوں توجھوٹ اور سچ میں تفریق کےلئے اسے بیان کرنے کی ٹھانی ہےتاکہ مجھ پربمباری بندکردی جائےاورمیری موت کے بعد اصلی کہانی  سنائی جائے۔

اس میں اس چیزکاذکرنہیں کیاگیاکہ جب وہ چاروں لڑکیاں میری آنکھوں سےاوجھل ہوگئیں ،سکوٹر جومیری نرکالےکی نر بلی جھیل کےایک طرف  کی جھاڑیوں میں جوصحن  کے کنارےپرتھی  کے سوراخوں میں جو شائد خرگوشوں نےکھودکرسوراخ بنادئیے تھے اوروہاں پرندوں کےپروں پر لیٹتاتھااور ایسے کیڑے مکوڑوں جوزمین کےاندر تھے ،سےنکل آیااوراپنارستہ بناتاہوااس جگہ پرآگیاجہاں پرمیں موجود تھا۔،میرے قریب سے گزرکرسارج کی قبر جس میں اس کی اکڑی ہوئی لاش کےپاس جاکربیٹھ گیا۔اور اس کی لاش کو سونگھنےلگا۔اس کے جسم کاکمبل جو ہم نےاسے لپیٹاتھا،تیزہواسے اڑنے لگا۔یخ بستہ ہوانے اس کی گھنی سفید سمور کوپھڑپھڑاناشروع کردیا۔اس کی بےجان آنکھیں  خشک اور دھندلی تھیں اوراس کی سرمئی بےجان زبان اس کےکھلےمنہ سےایسے مڑی ہوئی تھی جیسےوہ انگڑائی لیتےوقت کیاکرتاتھا۔اس وقت زبان کی پوزیشن یہ تھی کہ اس کی حرکت پوری نہیں ہوئی تھی اوروہ درمیان  میں  ہی رہ گئی تھی۔زبان  لنگڑی ہوگئی تھی۔ایسالگ رہاتھاکہ اس  کی زبان کاکچھ حصہ کٹ کرالگ ہوگیاتھا۔مردہ حالت میں اب وہ ایک  ایسا جنگلی جانور لگ رہاتھاجواپنے شکارپرجھپٹنے یاگوشت کاٹکڑا حاصل کرنے کے لئے تیار ہو۔اس کی ایسی صورت  دیکھ کر مجھ پروحشت طاری ہوگئی اور وہ سارج جواپنی زندگی میں پیارااور ڈارلنگ لگتاتھا اب  ایک درندہ لگ رہاتھااور وہ کسی طور ہمارے خاندان کامستقل  رکن نہیں لگ  رہاتھا۔

میں اس کی لاش   جانوروں کےمردہ خانے دفنانےکےلئےلےگیاجہاں اس پر مصالحہ چڑھاکرجلادیاگیااور اس کی راکھ مجھے مٹی کےبرتن میں ڈال کردے گئی۔وہ راکھ میں اپنےگھر لایااور یہ سوچ کراپنےکارنس پررکھ دی کہ جب موسم سرما ختم ہوگا اورزمین نرم ہوجائے گی تومیری بیٹیاں اور میں مل کر اسے پیپل کےدرخت  جھیل کے نزدیک دفنادیں گے لیکن یہ بھی نہ ہوسکاکیونکہ لڑکیاں اب سارج کےبارے میں اب ایک لفظ بھی سننے کوتیار نہ تھیں۔اس کے بارےمیں نہ بات کرتیں اورنہ ہی سنتیں ۔میرے گھرمیں اب زیادہ وقت  گزارنے کی روادارنہیں تھیں ۔سارج کےہوتے ہوئے وہ وہاں سےہلنےکانام بھی نہیں لیتی تھی

وکی اپنے بوائے فرینڈکےاپارٹمنٹ میں رہنےلگی ۔ ہردوسرے ہفتے جب انہوں نے میرے پاس رہناہوتاتھا،موسم بہارتک بیٹیاں میرے گھرصرف سونےکے لئے ہی آتی رہیں۔جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تووہ وائٹ ماؤنٹین میں کیمپنگ کے لئے چلی گئیں۔اس دوران میں نےانہیں صرف ایک بارہی دیکھا،وہ بھی اس وقت جب میں اس دوران کیمپ' ایبناکی' اساتذہ کےساتھ ملاقات کے جدول پرگیا۔اس دن میں نےسارج کی مٹی اکیلے ہی ایک دریامیں گرادی۔اس سے اگلے سال مجھےایک بڑی یونیورسٹی میں جونیوجرسی میں تھی  عمدہ نوکری مل گئی جس میں میری ترقی کےبہت سے مواقع تھے۔میں نےوہ قبول کرلی اور تن من دھن سے وہاں کام کرنے لگا۔میں نے اپناچھوٹاساگھر جومیری سابقہ بیوی کی حویلی کےنزدیک تھا بیچ دیا۔اس کے بعد میری بیٹیاں میرے پاس نیوجرسی آتی رہیں۔سکول کےزمانےمیں مہینے میں ایک بار ایک ہفتےکےلئےاورجب ان کاسمرکیمپ شروع ہوتا تو اس کے شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلےمیرے پاس آکرٹھہرتی رہیں۔میرے خاندان کے مستقل رکن سارج کااختتام اس طرح ہوا۔میں نےایک ایک بات تفصیل سے لکھ دی ہےتاکہ مجھے آئندہ مطعون نہ کیاجائے۔





 





 

 

 

 

 

Normal








 


Popular posts from this blog