پہلا اعتراف ( ( First Confession ) Frank O' Connor (1903 - 1966) (Ireland)




 

پہلا اعتراف گناہ

( First Confession )

Frank O' Connor

(1903 - 1966) (Ireland)



مترجم:   غلام محی الدین

 

ہم پر یہ آفت اُس وقت نازل ہوئی جب ہمارے داد ا اللہ کو پیارے ہوئے۔ دادی اماں اکیلی رہ گئی تو ابا نے انہیں اپنے ہاں بلا لیا۔ اس کا ہمارے پاس آنے سے اور کسی کو کوئی فرق پڑا ہو یا نہ لیکن کم از کم میری زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔  مجھے ان کی کوئی بات پسند نہیں تھی۔ اُس کا لباس، خوراک، میرے لئے کنجوسی، میری شکایات، بات بات پر دخل اندازی کچھ ایسے معاملات تھے جن کو برداشت کرنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔ ہمارے گھر میں امی، ابا اور مجھ سے تین سال بڑی بہن نورما  اور جیکی  (میں)  تھے۔ ہمارے امی ابا دونوں نوکری پیشہ تھے۔  وہ صبح کام پر جاتے اور شام ڈھلے لوٹتے۔  اُن کی واپسی سے پہلے دادی ہمارے اعصاب پر سوار رہتی۔  نورما اور میری آرا ہمیشہ مختلف ہوتی تھیں۔ وہ مجھ پر ہر وقت دھونس جماتی رہتی تھی جسے میں قبول نہیں کرتا تھاپھر بھی کسی طرح گزارا ہو رہا تھا۔ دادی ماں کے آنے سے حالات مزید بگڑنے لگے۔  وہ گاؤں سے آئی تھی۔ اُسے شہر کی خوراک، رہن سہن اورعادات و اطوار وغیرہ کا یا تو پتہ نہیں تھا، یا پھر جان بوجھ کر ایسی حرکات کرتی تھی جن سے ہمیں کوفت ہو۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ بے حد سادہ اور معصوم ہے لیکن لوگ کچھ بھی کہیں، وہ کیسی بھی ہو، کم از کم میری حد تک تو وہ ناقابل برداشت تھی۔ اُس کی شکل و صورت، پہناوا اور حرکات وغیرہ مجھے زہر لگتی تھیں۔ موٹا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے پہننے، کھانے کے عادات و اطور کسی کو بھی پسند نہیں تھے۔ دادی کو اپنے پاؤں میں جوتے پہننے سے سخت نفرت تھی۔ وہ ہمیشہ ننگے پاؤں پورے گھر میں دندناتی پھرتی تھی۔ اُس کو یقین تھا کہ اگر وہ جوتی پہننا شروع کر دے گی تو وہ اپاہچ ہو جائے گی اور اُس پر فالج کا حملہ ہو جائے گا۔  وہ کھانے کے اوقات میں پانی سے بھرا ہوا جگ اور آلوؤں کا قیمہ کرکے ایک بڑے پتیلے میں ڈالے سر پر اٹھائے پھرتی تھی۔ وہ اپنی ان چیزوں کو جو کھانے سے متعلق تھیں، نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ کسی پر اعتبار بھی نہیں کرتی تھی اور کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی تھی۔ تبدیلی کے لئے کبھی آلوؤں کی جگہ کالی مرچوں سے بنی مچھلی بھی بنا لیتی۔ وہ کھانا ہمیشہ انگلیوں سے کھاتی تھی۔ کبھی چمچ یا فورک استعمال نہیں کرتی تھی۔ کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو اچھی طرح چاٹ کر صاف کرتی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی جیب میں نسوار کی ڈبی ہوتی تھی۔  وہ اس ڈبیہ کو کھولتی،ایک انگلی سے نسوار نکالتی اور اپنے منہ میں ڈال لیتی۔ کبھی کبھار وہ نسوار ناک میں بھی ڈالتی تھی۔

         

ہمارے گھر میں پانچ افراد تھے۔  میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔  میں توقع کرتاتھا کہ چونکہ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے سب لوگ مجھے پیار کریں گے لیکن یہاں کا تو آدم ہی نرالا تھا۔ سب لوگ

 مجھے دبانے پر ہی لگے رہتے تھے۔ نورما مجھ سے تین سال بڑی تھی اور ہر دم میرے ناک میں دم کرتی رہتی تھی۔ مجھے احساس دلاتی رہتی کہ میں دنیا کا سب سے بڑا گنہگار ہوں۔ میں حیران اس بات پر ہوتا تھا کہ دادی اماں اس کی پوری تائید کرتی اور اس کی ہر بات مانتی۔ وہ ہرہفتے جب اسے اس کی پنشن سے جیب خرچ مانگتی تو وہ اسے دے دیتی جبکہ مجھے اس نے آج تک ایک سینٹ بھی نہیں دیا تھا۔ دادی اماں جب عجیب و غریب حلئے میں گھر میں پھرتی ہوتی، میں جب گھر آتا اور میرے ساتھ میرے دوست ہوتے تو میں انہیں باہر سے ہی فارغ کر دیتا۔ میں دادی کی وجہ سے اپنے دوستوں کے سامنے مذاق کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا۔  مجھے یقین تھا کہ اگر کوئی میرے ساتھ گھر میں داخل ہوگا تو ہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ آخر میری بھی تو کوئی عزت تھی، اگر ناروا سلوک ہوا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ دادی ماں سمجھتی تھی کہ وہ بہت خوش لباس اور خوش خوراک ہے۔ ہمارے والدین کی عدم موجودگی میں جب وہ کھانا بناتی اور ہمیں وہ کھانے کے لئے دیتی تو اس خوراک کو دیکھتے ہی مجھے قے آجاتی تھی لیکن نورما اپنا بڑی ہونے کے ناطے مجھے زبردستی کھلانے کی کوشش کرتی تو میں اس سے اجتناب کرتا،یا تو بھاگ جاتا یا پھر میز کے نیچے چھپ جاتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ دادی نے کھانا دیا اور میں نے کھانے سے انکار کیا لیکن میری بہن مجھے زبردستی کھلانے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے اپنے ہاتھ میں کچن سے جام اور مکھن لگانے والا کانٹا  (فورک) ہاتھ میں لیا اور میز کے نیچے چھپ گیا۔ جب نورما نے زبردستی مجھے میز کے نیچے سے باہر آنے کو کہا اور مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچنے لگی تو میں نے چاہا کہ اس کو فورک سے قتل کردوں۔ وہ میرے غصے سے ڈرگئی اور واپس مڑ گئی۔  رات کو نورما نے مرچ مصالحہ لگا کر ابا سے میری شکایت کر دی۔ اس کی تائید دادی ماں نے بھی کی تو ابّا نے مجھے ڈانٹا۔  کچھ دیر بعد ماں بھی آگئی تو میں نے غصے میں اسے کہا کہ میں دادی ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کبھی نہیں کھاؤں گا۔  ماں یا تو شام کو یا پھر کام سے آکر میرے لئے کھانا بنا دیتی۔

         

نورما اور میں ایک ہی سکول میں تھے اور اکٹھے آتے جاتے تھے۔ تین بجے سکول کی چھٹی ہوتی تھی۔  دن بھر پڑھائی لکھائی میں مصروف ہم تھکے ہارے واپس گھر جا رہے ہوتے تھے تو ایک بوڑھی عورت جو دادی ماں کی عمر کی ہوگی، بچوں کا رستہ روک کر کھڑی ہو جاتی اور کہتی کہ اگر کسی نے پیسے کمانے ہیں تو اُس کی بات سنے۔ اُس کے ایک ہاتھ میں موم بتی اور دوسرے ہاتھ میں لائٹر ہوتا تھا۔  وہ لائٹر سے موم بتی جلا کر اپنی جیب سے ایک چونی (کوارٹر)نکالتی اور مجمع سے پوچھتی کہ اگر کسی نے چونی کمانی ہے تو موم بتی کے جلتے ہوئے شعلے پر پانچ منٹ تک اپنی ایک انگلی رکھے۔ وہ ہمیں دوزخ کے عذاب سے ڈرایا کرتی تھی۔ میں بہادر ہوں اس لئے میں اس کی ایسی باتوں سے مرعوب نہیں ہوتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کے لئے موم بتی کے شعلے پر ایک انگلی پانچ منٹ تک رکھ کر انعام حاصل کروں لیکن ایک بات مجھے ایسا کرنے سے روکتی تھی کہ لوگ مجھے لالچی سمجھیں گے اِس لئے میں اپنے اس ارادے سے با زرہتا۔ جب کوئی بچہ اپنی انگلی شعلے پر نہ رکھتا تو وہ بوڑھی عورت کہتی کہ تم سوچو اس وقت کیا ہوگا؟ بڑی بڑی آگ کی بھٹیاں آسمان سے بلند شعلے اگل رہی ہوں گی اور تم اس میں جل رہے ہوگے۔۔ یہ پانچ منٹ کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہوگا۔  ذرا سوچو، غور کرو، فکر کرو کیونکہ یہ زندگی بیکار ہے۔  ہر شخص بے حد گناہ گار ہے اس لئے ہر ایک کو خدا سے ڈرنا چاہیے اور گناہوں سے باز آنا چاہیے۔ اُس بوڑھی عورت کا تمام تر دھیان دوزخ کی ہولناکیوں پر ہوتا تھا اور میرا اس کی چونی پر۔  اپنے وعظ کے ختم ہونے پر وہ ہمیشہ چونی کو واپس اپنے پرس میں رکھ لیتی تھی۔  یہ دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ یہ عورت بھی کیا چیز ہے؟ کسی کو دمڑی تک نہیں دیتی اور ڈرا دھمکا کر چلی جاتی ہے۔

         

ایک دن اس نے ایک قصہ سنایا کہ اسے ایک پادری نے بتایا کہ ایک رات وہ سو رہا تھا تو ایک شخص نے اسے جگایا۔ وہ گہری نیند میں تھا۔ وہ اُس شخص کو دیکھ کر گھبرا گیا اور کہا کہ تم اِتنی رات گئے مجھ سے کیا چاہتے ہو؟  وہ سائل اُس کے سامنے رونے لگا اور گڑ گڑا کر کہا کہ وہ اس کے سامنے اعتراف کرنے آیا ہے۔ پادری نے کہا کہ وہ وقت اعترافِ گناہ کے لئے موزوں نہیں تھا سو  صبح آئے لیکن وہ مصر رہا کہ باقی تمام گناہ معاف کرائے جا چکے ہیں اور یہ صرف ایک ہی رہ گیا ہے۔  اگر وہ یہ گھناؤنا گناہ معاف نہ کروائے گا تو وہ دوزخ کی آگ میں بھنے گا۔ اُس کی منت سماجت سے پادری متاثر ہوگیااور اسے کہا کہ وہ رکے۔  پادری اپنا سرکاری چوغہ پہننے کے لئے اُٹھا اور اس کمرے میں چلا گیا جہاں وہ لٹکا تھا۔  اتنے میں ایک کوا باہر صحن میں زور سے کائیں کائیں کرنے لگا۔  وہ واپس آیا تو کمرے میں کوئی ذی روح شئے موجود نہ تھی۔  اُسے لکڑی کے جلنے کی بو آئی اور بستر پر یا کسی اور جگہ اس شخص کا سایہ نظر نہ آیا تو پادری سمجھ گیا کہ اس شخص کا گناہ معاف کر دیا گیا ہے کیونکہ اگر وہ معاف نہ کیا جاتا تو اس شخص کا سایہ نظر آتا۔  اُس کی یہ بات سن کر میں بے حد متاثر ہوا۔

س سے بھی زیادہ اثر اُس کی اِس بات سے ہوا جب اُس نے کہا کہ ہم نیک کیسے بن سکتے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں؟ (میں نے پوچھا کہ کیا اس میں دادی اماں بھی شامل ہے؟ تو اس نے کہا ہاں)۔  کیا ہم اپنے پڑوسیوں سے محبت کرتے ہیں؟  کیا ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں؟ کیا ہم چوری کرتے ہیں؟ وغیرہ۔  اِس بوڑھی عورت کے تجزیے کے مطابق میں بے حد گنہگار تھا کیونکہ میں دس احکامات  ( Ten Commandments  )  میں سے کسی پر بھی عمل نہیں کرتا تھا۔  اُس کے نزدیک میں پکا دوزخی تھی اور مجھے اُسی ہفتے پادری کے پاس جا کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا ہوگا جبکہ پادری کے سامنے جا کر اعتراف گناہ میرے لئے موت کے برابر تھا۔

 

اگلے روز میرے دانت میں شدید در د اُٹھا اور میں سکول نہ جا سکا۔ میرا خیال تھا کہ سکول کے تمام بچوں کی موجودگی میں اس بوڑھی عورت کو میری عدم موجودگی کا احساس تک نہیں ہوگالیکن میرا دوست رائن  چھٹی کے بعد اس بوڑھی عورت کا پیغام لے آیا کہ مجھے ہفتے کی شام پادری کے پاس اعترافِ گناہ کے لئے جانا ہوگا۔ میری تو سٹی گم ہوگئی۔ نورما نے ماں کو یہ بات بتائی تو ماں نے کہا کہ نورما تم اسے پادری کے پاس لے جانا۔ یہ بات مجھ پر ایسے گری جیسے کہ مجھے ہسپتال میں بڑے آپریشن کے لئے لے جایا جا رہا ہو۔

         

 میری بڑی بہن نورما نے گڑ گڑا کے خدا سے میری بخشش کی دعا کی۔ کہا کہ وہ  اِس قابل تو نہیں ہوں لیکن اُس کی خاطر اُسکے چھوٹے بھائی کے گناہوں کومعاف کر دے۔ پھر مجھے کہا کہ میرے لئے اس کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ تم معافی کیسے مانگو گے؟  اپنے گناہوں کو کیسے بیان کرپاؤ گے؟ کیا تم شرم سے ڈوب نہیں مرو گے؟  تم یہ کیسے بتاؤ گے کہ تم نے دادی ماں کے گھٹنوں پر زور سے ٹھوکر ماری تھی۔ اُس نے میرا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا تاکہ میں بھاگ نہ جاؤں۔

         

میں نے اپنا ہاتھ نورما کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا میں  نے فادر کے پاس نہیں جانا چاہتا۔

         

جیکی تمہیں ہر صورت فادر کے پاس جانا ہوگا ورنہ فادر تمہیں ڈھونڈتا ڈھونڈتا ہمارے گھر آجائے گا تو اعتراف کے ساتھ ساتھ تمہاری ٹھکائی بھی ہو گی۔ تم نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں۔ فادر تمہارے گناہوں پر جو سزا تجویز کرے، وہ ادا کرنا۔ مجھے تمہاری سزا پر کوئی افسوس نہیں ہوگا۔ تمہیں یاد نہیں کہ ایک بار تم نے میز کے نیچے گھس کر مجھے چھری کانٹے  سے قتل کر ہی ڈالا تھا۔ اگر میں وہاں سے چلی نہ جاتی میں تو مر چکی ہوتی۔ اُس کے علاوہ تم جو زبان میرے لئے استعمال کرتے ہو کتنی گندی ہوتی ہے۔ نورما کو یہ یقین تھا کہ میرے گناہوں کا سن کر فادر مجھے بشپ کے پاس بھیج دے گا کیونکہ میرے گناہوں کی سنگینی اتنی زیادہ تھی کہ وہ معاف نہیں کر سکتا تھا۔

         

میں چپکے سے اپنے من میں بڑی تلخی سے سوچ رہا تھا کہ نورما جو میرے گناہ گنوا رہی ہے، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو میں نے حقیقت میں کئے ہیں جن کا اس کو علم نہیں۔ میں نے اُس بوڑھی عورت کے بارے میں کیا کیا گندی باتیں کی تھیں۔ اُس کے قصے کہانیوں پر بہت ساری گالیاں بکی تھیں۔ میں اُس بوڑھی عورت کو بھی قتل کرنا چاہتا تھا اور بہت سی باتیں تھیں جو نہ بتانا مناسب ہے۔

         

نورما میرا ہاتھ پکڑ کر گھاٹی اتر رہی تھی۔ وادی میں آس پاس بہت خوبصورت گھر تھے۔ باغیچے تھے، ندی نالے تھے، پھول تھے اورمیں بڑی حسرت سے ان سب کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید ان نظاروں کی یہ میری آخری زیارت ہے۔ جب ہم ریلنگ پکڑ کر گھاٹی سے اتر ے اور گرجا گھر کی سیڑھیوں پر چڑھے تو نورما کا لہجہ یکا یک بہت سخت ہو گیا او ر وہ مجھے حقارت سے بلانے لگی۔  شیطانی آواز میں کہا کہ جلدی کرو۔ دیر نہ کرو۔ تمہارے آہستہ چلنے سے تمہارے گناہوں کی سزا میں کمی نہیں ہو گی۔

         

گرجے کے دروازے پر اس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ لو، تیرا ٹھکانہ آگیا ہے۔ سزا کے لئے تیار ہو جاؤ۔ میرے سامنے دروازے کے پٹ ہل رہے تھے جہاں سے گزر کر میں نے فادر کے سامنے اپنے سنگین گناہوں کا اعتراف پہلی دفعہ کرنا تھا۔ میری بہن نورما اُس باکس کے سامنے بیٹھ گئی جہاں اس نے اپنا بھی اعتراف گناہ کرنا تھا۔ وہاں اور بھی کئی خواتین بیٹھی تھیں۔ ایک ہٹا کٹا مکروہ شکل و صورت کا شخص آیا، اگر میں بھاگنے کی کوشش بھی کرتا تو بھاگ نہ سکتا۔ نورما بکس میں چلی گئی۔  مجھے بھنبھنانے کی آواز سنائی دی پھر وہ باہر آگئی۔ خدایا یہ لڑکی کتنی عیار تھی۔ ا س کی آنکھیں بند تھیں،سر جھکا ہوا تھا، ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ اس بنچ کی طرف چل دی جہاں گناہگاروں کو اس کے گناہوں کے حساب کے بعد فیصلہ سنایا جایا کرتا تھا۔ اُس کے اِس رویہ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس جیسی اطاعت گزار لڑکی دنیا میں کہیں نہیں ہوگی۔  مجھے یاد آیا کہ وہ کس طرح اپنی شیطانی فطرت کی بنا پر تمام رستہ مجھے ملامت کرتی رہی تھی اور میں حیران تھا کہ تمام مذہبی لوگ اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں؟  اُس کے بعد میری باری تھی۔  میں اعترافِ گناہ کرنے والے دروازے کی طرف گیا۔ میں اپنے گناہوں کی سزا کے خوف سے کپکپا تا ہوا اندر داخل ہوا دروازہ میرے پیچھے بند ہوگیا۔

         

یہ کمرہ بالکل تاریک تھا جہاں میں کچھ بھی یہاں تک کہ فادر کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور میں حقیقتاً خوفزدہ ہوگیا۔ اِس اندھیرے میں میرا خدا کے ساتھ براہِ راست رابطہ ہونا تھا اور فادر جو اس کا نمائندہ تھا، میرے ساتھ کچھ بھی سلوک کر سکتا تھا۔ مجھے بتانے سے پہلے ہی اسے میری نیتوں کا پورا پتہ تھا۔ میرے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے اعتراف گناہ کے بارے میں جو طریقہ اور گفتگو بتائی گئی تھی، میرے ذہن میں بالکل عکس ہوگئی تھی۔ میں ایک دیوار کے سامنے جھکا۔ فادر میرے پر رحم کرو کیونکہ میں نے بہت زیادہ گناہ کئے ہیں۔ یہ میرا پہلا اعتراف گناہ ہے۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا، کچھ نہ ہوا تو میں دوسری دیوار کی طرف چلا گیا۔  وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔ لگتا تھا کہ اس نے مجھے معاف کر دیا تھا۔

         

اس وقت میں نے ایک جگہ ایسی دیکھی جو کہ میرے قد کے برابر تھی، یقینا یہ وہ جگہ رہی ہوگی جہاں بالغ سہارے کے لئے اپنی کہنی رکھتے ہوں گے لیکن اس وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ جگہ وہ ہے جہاں میں نے جھکنا ہے۔ اُس کی بناوٹ ایسی تھی کہ وہ دہلیز ذرا اونچی تھی اور زیادہ گہری نہیں تھی لیکن میں اوپر چڑھنے میں طاق تھا اس لئے میں پاؤں رکھ کر اس پر چڑھ گیا۔ اوپر چڑھ کر بیٹھے رہنا بہت مشکل امر تھا۔ اِس جگہ پر میں صرف اپنے گھٹنے ہی ٹیک سکتا تھا۔ وہاں پر پکڑنے کے لئے کچھ نہیں تھا اس لئے اس پوزیشن میں زیادہ دیر تک رک نہیں سکتا تھا۔ میں نے گرفت حاصل کرنے کے لئے اس تھوڑی سی نکلی ہوئی جگہ کو پکڑ لیااور جو جو گناہ میں نے کئے تھے ذرا اونچی آواز میں بیان کرنا شروع کر دیئے۔ لگتا تھا اس دفعہ میں نے صحیح جگہ منتخب کی تھی کیونکہ اِس وقت میں نے ایک آواز سنی۔

 

یہاں کون ہے؟

         

یہ میں ہوں، میں فوراً بولا تاکہ وہ میری آواز کی طرف دیکھ سکے اور ویسے ہی واپس نہ چلا جائے۔ یہ آواز اُس مقام سے آئی تھی جہاں پر میں چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اپنی گرفت وہاں پر مضبوط کر رکھی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک جوان پادری دیکھا جس کے چہرے پر حیرانی تھی اور وہ دیکھ رہا تھا۔ میں اس وقت فادر کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔ ہم ایک دوسرے کے سامنے ایسے تھے کہ میں سر کے بل اور پادری پاؤں پر کھڑا تھا اور ہم باتیں کر رہے تھے۔

         

فادر مجھے معاف کر دیں میں نے بہت زیادہ گناہ کئے ہیں اور یہ میرا پہلا اعتراف گناہ ہے۔ میں نے یہ بات ایک ہی سانس میں بیان کر دی اور میں نے شیڈ سے اپنا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہی رہنے دیں تاکہ وہ

میرا چہرہ دیکھ سکے۔

         

تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟ فادر نے غصے سے کہا۔  میں جس حالت میں تھا اس میں اسے غیر مہذبانہ آواز کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے میری گرفت اس شیڈ پر ڈھیلی پڑگئی اور میں ڈولتا ہوا دھڑام سے فرش پر آپڑا۔ وہ لوگ جو اعتراف گناہ کے لئے بیٹھے تھے،گرنے کی آواز سے اٹھ بیٹھے اور ان کے چہروں پر حیرانی کے تاثرات تھے۔ پادری نے درمیانی دروازہ کھولا اور باہر آگیا۔ اس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھا لیا اور میرے پاس آگیا۔ میری بڑی بہن بھی یہ آواز سن کر دوڑتی ہوئی اعترافِ گناہ کے دروازے کے باہر آکر کان لگا کر کھڑی ہوگئی۔

         

اے چھوٹے گندے کافر لڑکے! مجھے پتہ تھا کہ تم یہ کروگے۔ مجھے پکا یقین تھا کہ تم ہماری بے عزتی کا سبب بنو گے۔ میں تمہیں اب اپنی نظروں سے ایک منٹ کے لئے بھی اوجھل نہیں ہونے دوں گی۔ میری بڑی بہن نورما نے کہا۔ اِس سے پہلے کہ میں سنبھل کر اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہوں، اُس نے کود کر مجھے مارا اور ایک کلپ میری کان پر لٹکا دیا۔ اُس کی اِس حرکت نے مجھے اتنا خوفزدہ کر دیا کہ میرے منہ سے اس وقت چیخ بھی نہ نکل پائی لیکن اندر سے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں حقیقت میں مر چکا ہوں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر میں چیخا، فادر غصے سے بولا۔ یہ سب کیا ہے؟  پہلے سے بھی زیادہ غصے سے نورما نے کہا کیا میں ایک بدتمیز لڑکے اور گناہ گار کو اس کے گناہوں کی سزا نہیں دے سکتی؟ فادر نے اسے کہا اٹھو اور اس لڑکے سے معافی مانگو  ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔

تو تمہارا اعترافِ گناہ کرنے کا یہ طریقہ ہے؟  فادر نے مجھ سے پوچھا۔

میں نے ہچکی لیتے ہوئے کہاکہ میں معافی مانگتا ہوں۔

تمہارے جیسے مضبوط لڑکے نے یقینا بہت سے گناہ کئے ہوں گے۔ کیا یہ تیرا پہلا اعتراف گناہ ہے؟

جی ہاں فادر۔

         

بہت برا، بہت برا، وہ غمزدہ آواز میں بولا۔ تم نے اپنی زندگی میں سنگین گناہ کئے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ آج تم اپنے گناہوں سے کیسے چھٹکارا پا سکتے ہو۔ تم یہاں بیٹھ کر انتظار کرو تاکہ پرانے گناہگاروں کو فارغ کر لوں۔ ان کی آنکھوں سے تم دیکھ سکتے ہو کہ وہ اتنے پریشان نہیں ہیں۔

         

جی اچھا! میں انتظار کروں گا، میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ میری بڑی بہن جو فادر کے پیچھے کھڑی تھی،نے یہ بات سن کر میرا منہ چڑایا۔ میں نے اس کو جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ فادر نے جو پہلی بات کی تھی، سن کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ کوئی عام شخص نہیں ہے۔ یہ شخص دوسرے لوگوں سے بہت ذہین تھا۔ میں نے اپنے گناہوں کے بارے میں سوچا تو مجھے فادر کی بات سچ لگی۔ میں اپنی سات سالہ زندگی میں پہلی بار اپنے گناہوں کے بارے میں بتانے جا رہا تھا، وہ لازماً اُن لوگوں سے بہت زیادہ ہوں گے جو ہر ہفتے آکے اپنے گناہوں کو معاف کراتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فادر مجھے ایسی مقدس آیات یاد کرنے کے لئے دے دے جو میرے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے ہوں یا بشپ کے پاس بھیج دے یا پھر دونوں سزائیں دے دے۔ میں نے اپنے ضمیر کو اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ باقی سب کچھ صحیح ہوگیا۔ اپنے ضمیر کو پرکھا تو باقی سب ٹھیک تھالیکن میں دادی ماں کو نہ معاف کر سکا اور اس سے متعلق منفی خیالات کو ذہن سے نہیں نکال پایا۔

         

تھوڑی دیر بعد فادر واپس آیا اور مجھے اپنے ساتھ اعتراف گناہ کے بکس میں لے گیا۔ مجھے وہاں ایک کونے میں بٹھایا  اور خود دوسرے کونے میں بیٹھ گیا۔

فادر بولا،  ہاں  اب   بتاؤ۔۔ وہ تمہیں کس نام سے پکارتے ہیں؟

جیکی۔ میں نے جواب دیا۔

تمہارے گناہ کیا ہیں جیکی؟  فادر بولا۔

اِس عرصے میں میں نے اپنے تمام گناہوں کی فہرست کو منظم کر لیا تھا اس لئے مجھے جواب دینے میں آسانی پیدا ہوگئی۔

میں اپنی دادی کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بھی بنا لیا تھا، میں نے جواب دیا۔

ایسا لگتا تھا میرا یہ جواب سن کر اسے صدمہ ہوا کیونکہ وہ یہ بات سن کر کافی دیر خاموش رہا۔

میرے خدا!  یہ تو بہت سنگین بات ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے جس نے تم کو یہ سوچنے پر مجبور کیا؟ فادر نے پوچھا۔

میں اس طرح سوچنے پر معافی مانگتا ہوں لیکن وہ اتنی عجیب و غریب ہے جو دادی اماں کے بارے میں ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔

وہ کیسے قابلِ نفرت ہے؟  فادر نے پوچھا۔

         

اس کے پاس ایک بڑا برتن ہوتا ہے جسے وہ اپنے سر پر اٹھائے رکھتی ہے، ایک بہت بڑا پانی کا مگ ایک ہاتھ میں ہوتا ہے۔ میں نے اس بات کو ایسے لہجے میں کہا جیسے میری ماں اس بارے میں اظہار کرتی تھی کہ جیسے  یہ کوئی بڑا گناہ کر رہی ہو۔ میں نے یہ بات اس لئے کہی کہ میرا لہجہ اور تاثرات فادر پر میرے بارے میں مثبت اثرات ڈالیں۔

اوہ!  تو یہ بات ہے۔ فادر کے چہرے کے تاثرات سے مجھے لگاکہ وہ میری بات سن کر بہت متاثر ہوگیا ہے۔

اور وہ نسوار پیتی ہے۔  اپنی انگلیوں میں نسوار ڈال کر اپنے نتھنوں سے سونگھتی ہے،  میں بولا۔

واقعی یہ تو بہت بڑی برائی ہےَ  فادر نے کہا۔

اور وہ ننگے پاؤں پھرتی ہے فادر  ُ  میں نے کہا۔

میں نے جذبات میں اپنی بات جاری رکھی اور بولا۔  وہ یہ جانتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر جمعے کو میری بڑی بہن کو پیسے ؎دیتی ہے اور مجھے نہیں۔ میرے پاپا بھی اس کا ؎ساتھ دیتے ہیں اور مجھے ڈانٹتے ہیں۔ ایک رات میں اتنا پاگل ہو گیا تھا کہ میں فورک لے کر اپنی دادی ماں کو مارنا چاہا۔

اور مارنے کے بعد تم اُس کے جسم کا کیا کرتے؟ فادر نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور کوڑے دان میں پھینک دوں گا۔میں نے جواب دیا۔

جیکی کیا تم جانتے ہو کہ تم ایک بے حد برے بچے ہو؟  فادر بولا۔

میں بھی اپنے بارے میں یہی سوچ رہا تھا۔ میں نے اپنی بڑی بہن کو بھی میز کے نیچے سے فورک سے مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلی۔

لڑکی جو تمہیں مار رہی تھی وہ تمہاری بڑی بہن ہے؟  فادر نے پوچھا۔

ہاں فادر!

میں تو کامیاب نہیں ہوا لیکن کوئی نہ کوئی تو ضرور ہو جائے گا اور اسے فورک سے مار ڈالے گا، میں نے کہا۔  اس بار وہ بچ نہیں پائے گی۔

 لیکن اس کے لئے بڑی جرأت اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں بھی بہت سے لوگوں کو ایسے ہی انداز میں مارنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں ہمت نہیں کہ میں یہ کر پاؤں۔ مجھے پھانسی سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ پھانسی بڑی درد ناک موت ہوتی ہے،  فادر بولا۔

میں نے گہری دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا کہ واقعی پھانسی سے بہت تکلیف ہوتی ہے؟  مجھے پھانسی کے موضوع پر بات کرنے میں دلچسپی تھی اس لئے میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کیا آپ نے کسی کو پھانسی لگتے ہوئے دیکھا ہے؟

درجنوں اور وہ سارے کے سارے درد ناک چیخیں مارتے ہوئے مرگئے،  فادر بولا۔

اوہ!  میں گھبرا کر بولا۔

 بہت اذیت ناک موت۔ میں ایسے بہت ے لوگوں سے بھی ملا ہوں جنہوں نے اپنی دادیوں کو قتل کیا ہے، بعد میں ان کے یہ تاثرات تھے کہ ان کو قتل کرنا بالکل بھی صحیح نہیں تھا۔ ان کو قتل کرنے کے بعد انہیں بہت زیادہ قیمت چکانی پڑی۔ پھانسی میں درد ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ فادر بڑے اطمینان سے بولا۔

 

فادر میرے ساتھ دس منٹ تک گفتگو کرتا رہا اور پھر ہم دونوں اس جگہ سے باہر آگئے۔ مجھے اُس سے الگ ہوتے ہوئے دکھ ہوا کیونکہ تمام مذہبی لوگوں سے جن سے میں ملا تھا،ان میں سب سے دلچسپ فادر تھا۔  سورج غروب ہو چکا تھا۔ تاریکی چھا چکی تھی۔ ساتھ والے ٹریک پر ٹرین جا رہی تھی۔ میرا من فادر سے باتیں کرکے ہلکا ہوگیا تھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میرے گناہ معاف ہوگئے ہیں،اب میرے مرنے کے بعد میری روح نہیں بھٹکے گی اور جلنے سے فرنیچر پر کوئی نشان نہیں پڑے گا۔

 

بڑی بہن نورما باہر بینچ پر بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔ میرے ساتھ پادری کو دیکھ کر وہ جل گئی اور برا منہ بنایا۔ فادر اس کے ساتھ کمرے سے باہر کبھی نہیں نکلا تھا۔ فادر مجھے اس کے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور جاتے وقت مٹھی بھر کچھ چیزیں مجھے دے گیا۔

فادر نے تمہیں کیا دیا؟  بہن نے مجھ سے پوچھا۔

تین  بسکٹ۔میں نے جواب دیا۔

تین  بسکٹ؟  اس نے بڑی حیرانی سے پوچھا،  تو تم نے اپنے گناہوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہوگا۔

سب کچھ بتایا۔میں نے جواب دیا۔

تم نے دادی اور دوسرے معاملات کے بارے میں بتایا؟  بہن نے پوچھا۔

ہاں۔

دراصل بہن گھر جا کر یہ خبر دینا چاہتی تھی کہ میں ایسا گنہگار ہوں جس کی معافی نہیں ہو سکتی اور وہ یہی توقع کر رہی تھی۔

کیا تم نے فادر کو یہ بھی بتایا کہ تم مجھے فورک سے قتل کرنا چاہتے تھے؟ بہن نے پوچھا۔

یقینا!میں نے بتایا تھا۔

اور اس پر اس نے تمہیں تین  بسکٹ دے دیے۔

ہاں۔

ٹھنڈی سانس لے کر وہ ریلنگ سے اتری، یہ بات اس کی سوچ کے برعکس تھی۔ جب ہم مین سڑک پر آئے تو اس نے مجھے شک کی نظر سے دیکھا۔  تم نے تینوں بسکٹ کھا لئے تھے۔ اب تمہارا منہ کیوں چل رہا ہے؟  ا کہ اب تم کیا کھا رہے ہو؟

چاکلیٹ۔

کیا یہ بھی فادر نے تمہیں دیئے تھے؟

کچھ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔چھا بننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں بھی تمہاری طرح گناہگار بنوں گی۔

Frank O'Connor

1903 - 1966

 

   ُ  فرینک۔ او۔ کانر  ُ کا اصلی نام مائیکل۔او۔ ڈونوون  تھا۔ وہ17ستمبر1903کو آئرلینڈ کے شہر   ُ کورک   ُمیں ایک غر یب خاندان کے گھر پیدا ہوا۔  اس کی ماں برتن مانجھ کر اور دوسروں کے گھروں میں صفائی کرکے گزارہ کرتی تھی۔ اُسے چودہ سال کی عمر میں سکول چھوڑنا پڑا۔ اُس عمر تک اپنی فطری دلچسپی کی وجہ سے اس نے تمام شہرہ آفاق مقبول ادیبوں کو پڑھ لیا تھا اور خود لکھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سکرین رائٹر بھی تھا۔  س کی اہم تصانیف میں قابل ذکر درج ذیل ہیں:

 

٭      The Stories of Frank O' Conner (1953)           ٭      Guest of a Nation

 

٭      Collected Stories                                      ٭      The Oedipus Complex

 

٭      The Big Follow

 

         

اس نے جو فلمیں تحریر کیں وہ درج ذیل ہیں:

          ٭      Guest of a Nation                            ٭      The Rising of the Moon

 

فرینک نے آئرلینڈ کی سیاست، مذہب، رسوم و رواج،عقائد اور روایات کو بڑے مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔  وہ کیتھولک تھا اور پہلا اعتراف The First  Confession  ا س کی منتخب کہانیوں میں سے لی گئی ہے۔  وہ  10مارچ   1966کوڈبلن  (Dublin)  آئرلینڈ میں ؎  فوت ہوا۔

Popular posts from this blog