Draft...... چھت پر ایک مہ جبین A woman on a Roof By Doris Lessing By Doris Lessing ( Noble Laurette 2007) Iran

 چھت  پرایک  مہ جبین 

 A woman on a Roof

By

Doris Lessing ( Noble   Laurette 2007)

Iran

مترجم : غلام محی الدین

جون کے ایک روزتپتی آگ میں  تین محنت کش ایک رہائشی کالونی  میں  ایک گھر کی پلمبنگ  ٹھیک کرنے اور نئی تنصیبات  پرکام کر رہےتھے۔وہ اس وقت اس کی چھت پرتھے جہاں پائپ اور نل  تپش سےآگ کا گولہ بنے ہوئے تھے۔انہیں ٹھنڈا کئے بغیرمزید کام نہیں ہوسکتاتھا۔انہوں نے سوچا کہ ان پر پانی ڈال کرٹھنڈا کیاجائے۔جب ایساکیاگیاتوپانی بھاپ بن کر       اُڑگیا ایک نے ازراہِ مذاق  کہا کہ پڑوس سے انڈے منگواکر ُابال لئے جائیں اور ڈنر پرکھائے جائیں۔ دوپہر دو بجےتک  حدت اتنی زیادہ  بڑھ گئی تھی   کہ  اشیااورآلات پر  ہاتھ بھی نہیں لگایاجاسکتاتھا ۔   کام وقتی  طورپر روکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔انہیں اپنےجیسے دیگرمحنت کشوں کےحالت کارپر ترس  آنے لگا۔

انہیں اپنے ساتھ باورچی خانے والے دستانے بھی لاناچاہیئے تھے۔۔۔اپنی یونیفارم کےایپرن اتار کر  ایک جگہ جہاں پر چمنی کا ایک فٹ  سایہ تھا،لٹکادئیےاور وہاں سکڑکرکھڑے ہوگئے۔ سوتی جرابیں گرم ہوگئی تھیں ۔کوشش کررہے تھے کہ ان پرکم سےکم سورج پڑے۔ نلوں اور اوزاروں پر برابر پانی ڈالاجاتارہاتو پہلےبھاپ، پھر شوں شوں  کی آوازآئی اور پھر وہ ٹھنڈے ہوگئے ۔

 وہ ایک  کالونی میں تھے جہاں سینکڑوں گھرساتھ ساتھ جڑے ہوئے تھے  جوایکڑوں پر محیط تھی اور دور تک چھتیں نظرآرہی تھیں ۔ ایک چھت سے دوسری چھت پر دیوارٹاپ کر نہیں جایا جاسکتاتھاکیونکہ ہر چھت کے درمیان ًدوگز کاخلاتھا   ۔ہرچھت پرچمنی تھی جو کافی اونچی تھی ۔اپنی چھت سے چمنی پرلوہے کی سیڑھی لگا کر چڑھا جاسکتاتھا اور وہاں سے بالکنی اور وہاں سے دوگز چھلانگ لگاکر دوسری  چھت پرکوداجاسکتاتھا۔

کمپنی نے اس پراجیکٹ  پرتین لوگ متعین کئے تھے۔ پینتالیس سالہ ہیری جوباقیوں  سے عمر میں بڑاتھا اوراس کے بچےبڑے بڑے  تھے۔وہ اس ٹیم کا سینئر رکن تھا۔ دوسرا رکن پچیس سالہ سٹینلے تھا جس کی تین  چارماہ پہلے شادی ہوئی تھی۔اورتیسرارکن سترہ سالہ نوجوان ٹام    تھاجس نے حال ہی میں  وہ کمپنی میں آیاتھا۔وہ غیرشادی شدہ تھالیکن اچھاکاریگرتھا۔وہ آئے تودیکھاکہ ساتھ والی  چھت  پر ایک شخص   اخبارپڑھ رہاتھا۔  ایک اور چھت جوان سے پچاس فٹ  کے فاصلے پر تھی    ، چمنی   کی اوٹ  میں  ایک گوری چٹی  دوشیزہ چہرہ جھکائےخاکی کمبل     پرلیٹی  تھی ۔ اس کے سرکے پچھلے حصے  کے سیاہ بال نظر آرہےتھے ۔اس نےاپنےننگےبازو پھیلا رکھےتھے ۔

ایسا لگتاہے کہ وہ ناری جوساتھ والی چھت پرہے،نے کچھ نہیں پہن رکھا۔سٹینلے نے غصےسے کہا۔ یہ سن کر  نوبالغ ٹام جوش میں آگیا اور اپنےدانت کٹکٹانے لگا۔ کہا 'ایسالگتاہےکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا'۔ انہوں نے دیکھا کہ اب اس  ناری نے ایک ڈبی سے سگریٹ نکالا اوراسے سلگاکرپینے لگی اور ان کی طرف دیکھا۔

 سٹینلے نے وحشیانہ اندازمیں سیٹی بجائی۔

  ایک اور چھت پر بھی ایک  خاتون  نظرآئی  جس نےاپنےدونوں  ہاتھوں  سے کندھے کےپیچھے سے سکارف  کےسرے پکڑے ہوئے تھے۔اس نے سکارف  کےاگلے حصے سے اپنااگلاجسم ڈھانپاتھا۔

یہ اس ٹیم کاپہلادن تھا۔ہیری نےکہاکہ  ہم جیسے کم دماغ لوگوں  کو چھوٹی چھوٹی چیزیں  دل بہلانے کےلئے کافی ہوتی ہیں۔اردگرددیکھ کرہی خوش ہوجاؤ۔سٹینلے اور ٹام کے ردعمل پر ہیری تبصرہ کرکے چھت پرکام کرنے کےلئے جانےلگا تومحسوس کیا کہ وہ جگہ ابھی بھی تپ رہی تھی ۔

میں ٍکوشش کرتاہوں کہ  کسی طرح  یہاں کچھ سایہ ہوجائے۔۔یہ کہہ کروہ نیچے غائب ہوگیاجبکہ سٹینلےاور ٹام کی دلچسپی ناری میں ہو گئی جو اب بھی  چمنی کے  بدلتےسائے میں  کمبل پردو چھوٹی  چھوٹی ٹانگیں   رکھ کربیٹھی تھی۔ انہوں نے اسےاپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے سیٹیاں اور تالیاں بجائیں لیکن  اس نے کوئی دھیان نہ دیا۔

ہیری  کہیں سے  ایک کمبل مانگ کرلےآیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کارویہ دیکھاتو اسے پسند نہ آیا۔آتے ہی اس نے اونچی آواز میں کہاکہ 'اب  آجاؤ'۔وہ اس کی بات سن کربادل نخواستہ اس

کی جانب چل پڑے۔۔۔

سٹینلے  حالانکہ  حالیہ  شادی شدہ تھالیکن وہ  اس ناری پرایسے گرم تھاکہ اگروہ نہ ملی تومرجائے گااور ۔۔۔ سترہ سالہ ٹام  کا تودل ودماغ پوری طرح  ناری  کے خیالوں میں ڈوب چکاتھا۔ہیری نے کمبل پھیلایا جو وہ کسی رحمدل خاتون سےمانگ کر لایاتھا۔اس کاایک سرا ٹی وی کے ائریل   او ر دوسرا چمنی کے کنڈے سے باندھ دیا۔اس سے سایہ ہو گیا ۔  وہاں انہوں نے گٹر کے ایک ٹکڑے کو تبدیل  کرنا تھا جو اپنی جگہ پر مضبوط نہیں تھااورہل رہاتھا، کمبل ٹانگنے سے بھی فرق نہ پڑاتو انہیں مجبورا  ً            سورج ڈھلنے کاانتظارکرناپڑا۔جب سورج کارخ بدلاتوچھت کی تپش ہلکی سی کم ہوگئی اور انہوں نےاپناکام شروع کردیا۔اور وہ وقت جو پہلے گرمی نے ضائع کردیاتھا ،تیزی سے کام کرکے اس کمی کوپوراکرنے لگے۔

 سٹینلےنے چھت کاچکر لگایا ۔'وہ اب بھی اپنے پیٹ کے بل لیٹی ہوئی  ہے' جس پر ٹام کھی کھی کرنےلگا۔ہیری نے اپنی ہنسی ایک حدمیں رکھی۔ٹام نے تصدیق کی وہ پرانی جگہ سےنہیں  ہلی۔۔۔لیکن  اس نے  پوری بات نہیں بتائی تھی :اس نےجودیکھاتھاوہ اپنے تک ہی رکھناچاہتا تھا۔اس کے ساتھ جو معاملہ ہواتھابتانا نہیں چاہتاتھا۔ ناری   نے پتلون اپنے پیٹ سےاتنی نیچےکی ہوئی تھی کہ اس کی تنیاں  نظرآرہی تھیں۔اس نے تیل سےاپنے جسم کی مالش کی تھی جس سے اس کےجسم کے خالی حصے چمک رہےتھے ۔ا نے اس کی طرف غور سے دیکھ کرمسکراہٹ پیش کی تھی۔ٹام نےیہ نہیں بتایاتھا۔

وہ پلمبرتھےاورکالونی کے ایک گھر میں  بائلراور نلوں کی  تنصیبات کےلئے آئے تھے۔ اگلی صبح

،جب وہ دوبارہ کام پرآئےاور چھت پرگئے تو وہ اس روز بھی    وہ ناری گزشتہ روز کی طرح  لیٹی تھی ۔ اس نے اپناسر نیچےکیاہواتھا،بازوپھیلائے ہوئے تھے۔  ایک چھوٹی سی پتلون کےعلاوہ اس نے تقریباًکچھ نہیں پہناتھا۔مسلسل  دھوپ سینکنے سے اس کا چٹاگورا پنڈا گندمی ہو گیا تھا  ۔سٹینلے نے منہ سے سیٹی بجائی  توناری نےاپناسراٹھایا،سورج کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیاگئیں ۔یہری اور سٹینلے کو دوسری چھت پراپنی طرف متوجہ دیکھاتوحیران ہوگئی لیکن پھرسرنیچے کرکےلیٹ گئی۔اس کی اس اداپر  سٹینلے اور ٹام  نے منہ سے لوفروں کی طرح سیٹیاں بجائیں۔وہ اپنے کام سے زیادہ اس خاتون میں دلچسپی لے رہے تھے۔ہیری   محتاط رہتا تھا ۔ وہ ناراضگی کےساتھ    دونوں کا مذاق اڑا نےلگا۔  حسینہ کی  جنسی ہراسانی  کی پیش روی  کو مکمل طورپر نظراندازکرنےپروہ برہم تھے۔

کتیا۔سٹینلے نے غصے سے کہا۔

اسے ہم سے  بات کرکےدوستی  کرنی چاہیئے  ۔ٹام نے کہا۔

ہیری نے خودکوسنبھالااور سٹینلے کویاددلایاکہ وہ اب شادی شدہ تھا۔اگر اس کی اس حرکت کااس کی نوبیاہتا بیوی کوپتہ چل  گیاتووہ اس بات کوقطعی پسند نہیں کرے گی۔

اے خدا!سٹینلے نے اپناہاتھ سرپرمارتے ہوئے کہا کہ اگر اس کی بیوی  اس ناری کی طرح اپناسب کچھ دوسروں کودکھاکر راغب کرےگی تووہ اسے منع نہیں کرے گا۔ہیری اس کی یہ بات سن کر

ہنسا اور بولااگر ایساعملی طورپر ہوا تو تمہاراردعمل وہ نہیں ہوگاجوتم کہہ رہے ہو۔۔۔یہ تمہاری

غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے کہ وہ گناہ  کی ترغیب نہ دے رہی ہوبلکہ سورج میں اپنا رنگ جلاکر گندمی  کررہی ہو۔

ایسی بات ہرگز نہیں۔مجھے یقین ہے کہ اس چھت پرتووہ ہرگز ایسا نہیں کررہی۔اس نے ہیری کی بات کومذاق میں ٹال دیااور اپنا کام کرنے لگ گئے ۔آج کل سے بھی زیادہ گرمی تھی۔ہیری نے کہا کہ اتنی زیادہ تپش میں کام نہیں ہوسکتا،کی خبر اپنے فورمین میتھیو کو دیناضروری  تھا۔وہ اس کےپاس گیا اورکہا کہکیاکام روک دیاجائے جب تک کہ  گرمی ذراکم نہ ہوجائےلیکن میتھیو  نے کہاکہ وہ تہہ خانے جائیں اوراس کی مرمت  شروع کردیں ۔تہہ خانے میں ان کے کام کی  شدید نگرانی کی جاتی تھی جبکہ شدید گرمی کی وجہ سے چھت پر کام کرتے وقت  ان  کی جانچ کرنےوالاکوئی نہ تھا۔کوئی روک ٹوک نہ  تھی۔سورج پر بادلوں کی اوٹ ہوئی توبہت سے لوگ جن میں زیادہ تر شادی شدہ جوڑے تھے چھتوں پر  آگئے۔خواتین نے اپنی ٹانگوں پرلمبے موزے پہنے تھےجبکہ حضرات ٹی شرٹ  اور بنیانوں میں تھے۔ان کےکندھے سرخ تھے۔جبکہ ناری اپنے کمبل پر بدستور لیٹ کرباربارکروٹ بدلتی رہی۔انہوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کےلئے جوجتن کئےوہ سب ناکام ہوگئے۔ہیلری    پیچ لینے نیچے گیاتو سٹینلے اور ٹام زیادہ جارح ہوگئے اور ناری کوکہاکہ ان کےپاس آجائے۔ وہ جس چھت پرلیٹی تھی وہ دوسری چھتوں سے جڑی ہوئی نہیں تھی اور ان سے بیس فٹ کے فاصلے پرتھی ۔درمیان میں خلاتھا۔اس کامطلب تھاکہ ایک منزل سے دوسری منزل تک  جانے کے لئےدرمیانی بالکنی  اور پشتے کوجس کاجوڑ چمنی سے تھا کوعبورکرناتھا۔وہ مزدوری والے بھاری جوتے پہنے تھے جوچھت پرپھسل پھسل جاتے تھے۔ کوششوں  کےبعدایک چھوٹے مربع پرپہنچنے میں کامیاب ہوگئے جس سے وہ حسینہ  کے بالکل سامنے آگئے تھے۔  

وہ اس وقت  بیٹھی  سگریٹ  منہ میں لئے کتاب پڑھ رہی تھی۔ اس نے ان کی طرف دیکھنابھی گوارانہ کیا۔ٹام نے  اس کی طرف بڑی دلچسپی  سے دیکھاتووہ اسے  کسی پوسٹر کی طرح لگی جو نیلے آسمان کے نیچے تھی۔اس نے پڑھتے وقت اپنی ٹانگیں پھیلائی ہوئی تھیں۔ اس  کے عقب میں انہوں دیکھاکہ   کمپنی  کی ایک  بہت  بڑی کرین    ملحقہ آکسفورڈ  سٹریٹ    پرایک نئی عمارت تعمیرمیں استعمال  ہورہی تھی ، سامان زمین سے   اوپرلےجارہی تھی اور ہٹوبچوکی آوازیں آرہی تھیں۔

سٹینلے اور ٹام نے ناری کودیکھ کر سیٹی بجائی اور پاگلوں کی طر ح بجاتے رہےتو اس نے ان کی طرف  دیکھالیکن  پھر پڑھنے لگی۔اس کی اس بے اعتنائی سے وہ جھنجھلااٹھے ۔ان کا چہرہ  اس کی بےرخی   سے سرخ ہوگیا اور  پھرسے سیٹیاں بجاناشروع کردیں۔ٹام توایک دم باؤلاہوگیاتاکہ  وہ ناری کتاب سے آنکھ اٹھاکر انہیں پھر دیکھے۔ٹام سٹینلے کےپاس ہی کھڑاتھا۔وہ چاہ رہاتھا کہ وہ  صرف  اسے ہی دیکھے ۔

وہ اس پراپناحق  سمجھتاتھا۔  ایک دوبار اس نے ٹام کی طرف نظربھر کر دلچسپی سے دیکھابھی  لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھی۔

ٹام رات بھر اس   ناری کاسوچتارہا۔ اسے ایسامحسوس ہوا کہ اس کا رویہ ٹام کے لئے دوسرے دونوں سے زیادہ اچھاتھا۔وہ اس سوچ پر خوش ہوا کہ ایک  بارناری نے اس کی طرف دیکھ کراپنا پاؤں ہلایابھی تھا ،مسکرائی بھی تھی اور غیر محسوس طریقے سے اشارہ بھی کیاتھا۔اسے ٹام نے رومانی سمجھااور اس سے اسے ایسا لگاکہ وہ  دومنزل مزید اونچاہوگیاتھالیکن اس وقت  ہیری  نے چیخ  کرکہاکہ اپنے کام پر توجہ دے جس پر وہ    دوبارہ   اپناکام کرنےلگا۔اس نے دیکھاکہ سٹینلے کے چہرے  پر شکنیں پڑی ہوئی  تھیں۔اس پرغم و غصے کی کیفیت طاری تھی۔وہ ہیری  سے اس بات پر ناراض تھاکہ ہیری اس ناری سے اتنی نفرت کیوں کرتاتھا اور انہیں اس کی طرف دیکھنے سے منع کیوں کرتا تھا۔سٹینلے  نے سوچاکہ اسےاس حسینہ سے سچی محبت ہوگئی تھیاوراسے حاصل کرنا اس کےلئے لازم ہوگیاتھا جبکہ ٹام غیرشادی شدہ تھااور وہ صدق دل سے اس بات پریقین رکھتاتھاکہ اس پراس کاحق زیادہ تھا۔

وہ اپنی چھوٹی موٹی کھیلیں مستعار کمبل کےنیچے کھیلتے رہےتاکہ سائے کےاندر رہ کر اپناکام جاری رکھ سکیں لیکن چار بجے سہ پہر کے بعد وہ اپنے کام میں پوری طرح مشغول ہوگئےکیونکہ حدت کم ہوگئی تھی ۔

سٹینلےکامزاج بہت خراب تھا۔کام ختم ہونےپر اس نےایک بار پھر ناری کادیدار کرنا چاہاتو اس نے دیکھا۔بظاہر وہ سو رہی تھی۔وہ الٹی  لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے منہ کارخ فرش کی طرف تھا ۔ اس کی پشت کھلی تھی اورگلنار زنگ رنگ کاجانگیہ پہنے تھی۔اوراس کاپوز غیرموزوں تھا۔

سٹینلےنے کہا کہ  اس کارویہ  عوامی جگہ پرفحاشی کے ذمرے میں آتاتھا  ۔چونکہ وہ اسے گھاس نہیں ڈال رہی تھی اس لئےاس کی پبلک مقام پرفحاشی کی رپورٹ پولیس کوکرنی چاہیئےلیکن  ہیری اور ٹام نے اسے سختی سے منع کردیا۔اور کہا کہ اسے اس کو کیاتکلیف  تھی۔اسے کہا کہ اسے اپنے حال پرچھوڑدے۔وہ اس کاکیانقصان کررہی تھی۔

اگر وہ میری  بیوی ہوتی اور ایساکرتی تو میں  اس کی ٹھکائی کردیتا۔سٹینلے نے کہا۔

لیکن وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ہیری نےکہا۔۔۔کیاوہ تمہاری بیوی ہے؟ ہیری اور ٹام  اس کے ایسے رویے سے ناخوش  تھے۔ٹام  کی اٹھتی جوانی تھی۔وہ محنت کوش تھا۔اپنے کام میں طاق کھلی طبیعت کا مالک تھا۔ہر معاملےپراسےلطیفے آتے تھے اور سب کوہنساتا رہتاتھا۔وہ ایک اچھی صحبت مہیاکرتاتھا۔شائد کل موسم اچھاہوجائے اس نے توقع ظاہرکی۔

اگلے روز بھی ایساہی رہا۔ٹام کا خیال تھاکہ اس روز موسم خوش گوار ہوگا لیکن  وہ  صرف اس کی سوچ تھی۔ سورج اسی طرح آگ برسارہاتھا ۔وہ جب تک چھت پررہے  اس تپتے ہوئے موسم میں  زیادہ   نہ ٹک سکے۔سٹینلے نے تجویزدی کہ  اس گرمی سے بچاؤ کے لئے تہہ خانے کاادھوراکام مکمل کیاجاناچاہیے۔ہیری نےدیکھاکہ وہ اجنبی ناری اب بھی وہاں موجودتھی۔ٹام  جانتاتھاکہ ہیری  نے یہ سب  اس لئے کیاتھاکہ سٹینلے کووہاں جانے سے روک سکےاور اس پرفقرہ کس سکے۔ٹام اسے رول ماڈل سمجھتاتھا۔

ہیری کچھ دیربعد پھر اسے دیکھنے گیاتووہ وہاں موجود نہیں تھی۔

تم جھوٹ بول رہے ہو ،سٹینلے نے کہا۔

مجھ سے شرط لگالو۔ہیری نےکہا۔ہیری اور ٹام نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

گرمی  پیچھانہیں چھوڑرہی تھی۔ہیری نے تجویز دی کہ وہ فورمین میتھیو  کےپاس جائے اور اس سے اجازت لےکہ وہ تہہ خانے میں کام کریں۔

سٹینلے نے کہاکہ عرش چھوڑنے سے پہلے تازہ ہواکے لئے ایک چکرلگالینا چاہیئے۔وہ اکیلا ادھر

چلاگیا۔ ٹام رکارہا۔وہ  ناری کو شادی شدہ سٹینلے کے چنگل سے بچانا چاہتاتھا۔وہ سمجھتاتھا کہ اس پرصرف ٹام کا ہی حق تھا۔جب ساڑھےپانچ بج چکے ۔ان کی چھت اور دیگرتمام چھتوں پرمکمل خاموشی تھی  اور آکسفورڈ سٹریٹ پر کرین اب بھی سامان نیچے سے اوپر ڈھورہی تھی تو وہ  وہاں لیٹی ہوئی نہیں تھی بلکہ وہ پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ سے اٹھ کربالکنی کی اوٹ میں کھڑی ہوگئی  تھی ۔ٹھکانہ بدلنے کی وجہ سے وہ پرانی جگہ پرنظرنہیں آئی تھی۔اس وقت اس نے سفید گاؤن پہناتھا ۔ٹام نے اسے دیکھ کر سیٹی نہ بجائی بلکہ اسے دیکھتارہا۔فرش پرپڑے کاغذات اٹھاتے ہوئے بھی اسے دیکھتا رہا۔ناری نے اپناکمبل اٹھایا۔اسے تہہ کیااوراپنے بازوپر ڈال لیا۔ٹام سوچ رہاتھاکہ اگر ہیری اور سٹینلے وہاں نہ ہوتے تو وہ اپنا دل اس کے سامنے کھول کررکھ دیتا۔وہ اپنے خواب جووہ اس کے بارے میں مسلسل دیکھ رہاتھا بیان کرتا۔خواب میں وہ ہمیشہ اس سے پیارسے پیش آتی تھی جس میں وہ اسے اپنے گھربلاتی تھی۔اس نے روشنی میں ٹام کو غور سے دیکھااور آہستہ آہستہ قدم  اٹھاتی اپنے اپارٹمنٹ  میں جانے لگی۔وہ دم بخود کھڑا رہ گیا۔اسکاسرچکرانے لگا۔اس نے چیخناچاہا اور لڑکھڑا کر گرنے لگا تواس نے کسی شئے کوپکڑلیا ۔وہ اس وقت  اشیاکو زمین پرگرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔اس  نے ایک بار پھر ناری کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں غصہ تھا۔

ہیری نے شوخی سےمنہ بناتے ہوئے کہاپیارو۔ دھیان سے سیڑھیاں چڑھواترو،اس کافرش  چکنا تھاکہ آسانی سے پھسل سکتا تھا ۔ جنونی  کیفیت  سے کہیں اپنی ہڈی پسلی نہ تڑوالینا۔ٹام کواندازہ تھاکہ ہیری نے یہ بات سٹینلے کے لئے کہی تھی تاکہ ناری کو اس کے محفوظ رکھا جا  سکے۔ وہ وقتی حرص  و ہوس میں کہیں اپنی نوبیاہتابیوی نہ گنوابیٹھے۔ناری  کو پتہ نہیں کیوں خوف محسوس ہوا اور وہ وہاں سے غائب ہو گئی ۔ٹام  کی خوشیاں عروج پرتھیں جوسنبھلتے نہ سنبھلتی تھیں۔ناری نے  اسے ہری جھنڈی دکھادی تھیلیکن ٹام کے لئے نوٹ چھوڑگئی تھی کہ اس کے گھرآکراسے ملے۔ ٹام نے اس بات کومکمل طورپر راز میں رکھا۔اسے معلوم تھاکہ حسینہ کاغصہ اس کے لئے قطعاً نہیں تھا۔

شام کوسٹینلے نے نیلے آسمان  کودیکھتے ہوئے اندازہ لگایاکہ اگلے روز بارش کے واضح امکانات تھے لیکن جب وہ اگلے روز آئے تواسی طرح  کی شدید گرمی تھی۔ اس لئے فورمین  کی اجازت سےتہہ خانے میں  کام کیاگیا اور اسے مکمل کیاگیا۔اس حالت میں وہ ناری کو چھت پرنہیں دیکھ سکتےتھے ۔وہ دن بھر پائپ فٹ کرتے رہےاورلندن کی سخت گرمی سے بچتے رہے۔دوپہرکھانے پر وہ تازہ ہوا   کے لئے چھت پرآئے۔انہوں نےدیکھاکہ شادی شدہ جوڑے  اور جوان ہلکےپھلکے چھوٹے کپڑے پہن کرچھتوں پربیٹھے تھے۔لیکن وہ وہاں نہیں تھی جس کےلئے وہ آئے تھے ۔ہوسکتاتھاکہ کسی اوٹ میں ہوجہاں سے وہ دوسروں کونظر نہ آرہی تھی۔یہاں تک کہ ہیری بھی  خطرناک  بالکنی  چڑھ کربیت الخلابھی گیا جوبالکنی کےاوپر تھی۔وہاں بھی اس کاکوئی نشان نہ تھا۔انہوں نےاپنی قمیضیں اتاردیں۔اور اپنی چھاتیوں کوہوالگانے لگے۔اپنے جوتے اتارے اور پاؤں کاپسینہ خشک کیا۔کسی نے بھی ناری کےبارے کوئی بات نہ کی لیکن ٹام نے اس کی کمی بری طرح محسوس کی۔

ناری کا کافی بڑافلیٹ تھا۔جس پرسفیدقالین بچھاہواتھااوراس کابستر چمڑے  کاتھااورلکڑی کابناہوا  چوکھٹا ڈیکوپینٹ  کیاگیاتھا۔اوپرگدہ پڑاہواتھا۔ناری نے اس وقت سیاہ چڈی پہنی ہوئی تھی۔ ٹام

کویادآیارو اس کا من بھرآیا۔اسے لگاکہ وہاں نہ آکراس ناری نے اس کےساتھ دھوکہ کیاتھا۔

کام  ختم کرنے کے بعدوہ پھر چھت پرگئے۔لیکن وہاں اب بھی کوئی نہیں تھا۔ٹام مایوس ہوگیا ۔انہوں نے متفقہ  فیصلہ کرلیا کہ اگلے روز بھی اتنی ہی گرمی ہوئی تووہ کام نہیں کریں گےلیکن

اگلے روز اتنی ہی شدیدگرمی تھی  مگر انہیں چھٹی نہ ملی اور کام پرآناپڑا۔گرمی میں کام کرنے کی ان میں سکت نہ ہوئی توہیری فورمین  کےپاس گیااور فریاد کی کہ اتنی گرمی میں کام کرنا ناممکن تھا جس پر اس نے جواب دیاکہ اس کےپاس ایسی کوئی شئے نہیں جس سے وہ  انہیں راحت   دے سکےاسلئے اس میں کام کرناپڑے گا۔اس کےپاس کوئی چارہ  کارنہیں تھا۔انہیں کام کرناپڑا ۔ دوپہر کےکھانےپروہ خاموش کھڑے رہے۔چھت پرکھلاآسمان تھا۔اور۔۔۔پھروہ کمبل اپنے ہاتھ میں لئےخراماں خراماں چلتی ہوئی اپنی چھت پرنمودار ہوئی۔اس نے سفیدگاؤن پہنا تھا۔ اس  نے ان کی طرف  پریشانی سے دیکھا۔اور چھت کے اس حصے پرچلی گئی جہاں وہ دکھائی نہ دے سکے۔ٹام اسے دیکھ کرپھولوں نہ سمایا۔اس نے خیال کیا کہ شائد وہ اس جگہ تھی جہاں ہم اسے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن وہ انہیں دیکھ سکتی تھی۔انہوں نے تپش کم کرنے کے لئے اپنی قمیضیں اتاری ہوئی تھیں لیکن ناری کےآنےپرانہوں نےدوبارہ پہن لی تھیں ۔کیونکہ انہیں لگاتھاکہ سورج ان کےننگے جسموں کوزخمی کررہاتھا۔سٹینلے اس کےغائب ہونےپرتبصرہ کررہا تھا کہ اس نےکوئی ایسی جگہ  ڈھونڈ لی تھی جہاں وہ چھپ جاتی تھی اوراسے گالیاں دینے لگا۔انہوں نےاپناکام ختم کرلیااورچمنی کےسائے میں بیٹھ گئے ۔ دوسری چھت پرایک خاتون  پیلی کھڑکی کے باکس پرپانی ڈالنے آئی جواس کےعقب میں تھی۔وہ ادھیڑعمر تھی اور پھولدارہلکا سکرٹ  پہناتھا۔اس نے انہیں' ہائے 'کہا۔ سٹینلے نے کہاکہ اس کھڑکی سے زیادہ ضروری ہے کہ ہماری پیاس بجھادو۔اس پروہ مسکراتے ہوئے بولی۔بہتر ہے یہاں سے اٹھو اورقریبی مےخانے جا  کر  اپنی پیاس بجھاؤ۔ شاباش،اٹھو اور بھاگ کے جاؤ۔سب اس پرہنس پڑے     اور وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔

تم نے اس پرسیٹی نہیں بجائی۔ ٹام نے سٹینلے پرطنزکیا۔

لو،اور سن لواس لونڈے کی بات!۔۔۔ میراچھوڑو یہ بتاؤکہ تم نے سیٹی کیوں نہیں بجائی؟سٹینلے نے کہا۔ میں نےسیٹی اس لئے نہیں بجائی کیونکہ چھٹی کاوقت ہوگیاتھا۔

موسم کاحال بیان کرنےوالوں نےپیشین گوئی کی تھی کہ موسلادھاربارش ہونے والی تھی اس لئے اس سےپہلےپہلے اپناکام ختم کرنا ضروری  تھا۔کام  ادھوراچھوڑدینانقصان دہ تھا۔کام ختم کرنےکےبعدجوں ہی وہ نیچےگئےٹام فوری طورپربالکنی  کےپاس گیا،چمنی پرچڑھ کر خودکو اونچا کیااور ناری کوادھر ادھردیکھاتووہ  سائےمیں پیٹ کےبل لیٹی تھی۔اس کےگھٹنے کھڑے تھے ۔اس کی آنکھیں بند تھیں۔دھوپ سینک سینک کراس کاگوراچٹارنگ گندمی ہوگیاتھا۔وہ  گرمی کی پرواہ کئے بغیرلیٹی تھی۔وہ کودکر اس کےپاس آگیا۔اس نے سوچاکہ اس کے ساتھ رات گزارنےکےبعد ان میں  گہراتعلق قائم ہوچکاتھا۔ناری کواس کامشکورہوناچاہیئےکہ اس نے اسے سٹینلے سےبچالیاتھااورآگے بھی  وہ اسےاس سے محفوظ رکھناچاہتاتھا۔

اگلےروز وہ چھت پر کےنیچےسیڑھیوں کےدرمیان کھڑےتھےاور عرش پرچڑھنےسے اس لئے خوفزدہ تھے کہ اس روز گرم کی شدت اوربھی زیادہ تھی۔وہ خاتون جس نے ہیری کوایک روزکمبل مستعاردیاتھا ان کےپاس آئی اورچائے کی دعوت دی۔انہوں نے قبول کرلی۔اس مہربان کانام مسز پر یٹچیٹ تھا۔وہ ان سے باورچی خانے میں گھنٹہ بھرگپ شپ کرتی رہی۔وہ پائلٹ کی بیوی تھی ۔ تیس کےلگ بھگ تھی۔وہ تیزطرار تھی۔اس کی نگاہ التفات   سٹینلے پر تھی ۔وہ دونوں ایک دوسرے سےچھیڑخوانی کرتےرہے۔ ٹام کو اس پرغصہ آرہاتھاکہ وہ کس آسانی سےاپنی بیوی اور ناری   کویکسربھول گیاتھا۔ہیری ایک کونے میں  چپکےسے بیٹھا ان کا مشاہدہ کرتا رہا۔وہ سنجیدگی سے بیٹھارہااور یہ تاثر دیتارہاکہ وہ شادی شدہ تھااور فلرٹ نہیں کررہاتھا۔

وہاں  سے اٹھنے کےبعدجب وہ اپنی پیاری میزبان مسز پریٹٹچٹ  کوچھوڑکر سیڑھیاں چڑھ رہے تھے توسٹینلے نے  خفگی سے کہاکہ موسم کاحال بتانے والے فضول   تھے ۔ان کی پیش گوئیاں اکثرغلط ہوتی تھیں۔انہوں نے آج بارش ہونے کاکہاتھالیکن گرمی پہلے سے بھی زیادہ  تھی۔اس پرمسز پریٹچیٹ نے مسکراکرکہا ۔گرمی کازورکم ہوگاتو راحت ملے گی۔

کئی لوگوں کویقیناًاچھالگے گا۔ساحل پرجاکر موج مستی کریں گے۔۔۔کیاتم کبھی ساحل پرجایا کرتی ہو مسز پریٹچیٹ؟

ایک بارگئی تھی لیکن ہرطرف گندہی گندتھااور بہت زیادہ حبس تھا۔اس نے جواب دیا۔

بالکل سچ کہا۔سٹینلے نےتائید کی۔

جوں  ہی وہ چھت پرپہنچے ،ناری وہاں موجودتھی۔تینوں اسے دیکھ کرکھڑےہوکراسے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیربعد ہیری نے سٹینلے کوٹھوکادیااور کہاکام شروع کرو۔ہمیں کم ازکم یہ ظاہر کرنا چاہیئے کہ ہم کام کررہے ہیں۔ انہوں نے وہاں  خراب پائپ  کھول کر اس کی جگہ نیافٹ کرناتھا ۔ وہ اس پرکام کرنے لگے تو زنگ لگنےکی وجہ سے پائپ کھل نہیں رہا تھا۔انہوں نے بہت زور لگایاتوبھی نہ کھلاتو سٹینلے نے گالی  دی۔کام چھوڑکرکھڑاہوگیااورپھر  چمنی کی اوٹ میں بیٹھ کر سگریٹ  سلگایااوربولا۔۔۔دفعہ کرو۔کیا ہم چھپکلیاں ہیں۔میرے ہاتھوں پرچھالےپڑگئے ہیں۔ تھوڑی دیربعدوہ ہمت باندھ کراٹھا،کئی چھتیں اوپرگیااوران کی طرف پیٹھ کرکےکھڑا ہوگیا۔ اس نے  اورایک تیزسیٹی بجائی۔اپنی انگلیاں منہ کےدونوں طرف ڈالیں ۔اس جگہ جہاں وہ تھے ،وہاں سے ناری  کا ایک کندھا جہاں سے وہ شروع ہوتاتھا ہی دیکھ سکتے تھے۔سٹینلےنے ایک بارپھر سیٹی بجائی اور پاؤں پٹخناشروع کردئیے۔ٹام اور ہیری وہاں چوکڑی مارکر بیٹھ گئے۔۔ناری کی طرف دیکھ  کراس نے پھر سیٹی بجائی  ،اس کا چہرہ سرخ ہورہاتھا۔وہ چیخا۔وہ  اس وقت پاگل لگ رہاتھا۔وہ باربارسیٹی بجاکراپنے پاؤں بھی فرش پرپٹخ رہاتھا۔ناری پراس کا کوئی رد عمل نہ ہوا۔وہ اپنی جگہ سے ایک انچ  بھی نہ سرکی۔

ہیری۔ٹام نےکہا۔

ہاں۔اس نے سختی سے جواب دیا۔۔۔یکایک وہ کسی نتیجے پرپہنچا۔وہ ٹام کی سوچ  سمجھ چکاتھا۔وہ اٹھااورتمام اوزاروں  اورزنگ آلود پائپوں کواچھی طرح تیل لگایا۔تھوڑی دیربعدانہوں نے کوشش کی تو وہ کھل گیا۔آج اتناہی۔میں میتھیوکوبتادوں گاکہ مزیدگرمی  برداشت نہیں ہورہی ۔اگر کام جاری رکھاتوہمیں ُ لولگ جائے گی  جس سےہماری جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتاتھا۔ٹام  نے   یہ محسوس کیاکہ ہیری ہمدرد تھا۔وہ اپنے ساتھیوں کی تکالیف کا احساس رکھتاتھا ۔انہیں اپنے خاندان کی طرح سمجھتاتھا۔وہ  اپنے   کام میں ماہرتھا۔ وہ اپنی ذمہ داری سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔اس کی ہیری کے لئے عزت اور بڑھ گئی۔وہ اٹھا اور عرش سے  سیڑھیاں اترکرفرش پر آگیا۔

ہیری۔ٹام نےکہا۔

 اس کے پیچھے سٹینلے ناری دیکھے بغیرچلاگیا۔ٹام کویہ صورت حال بڑی دلچسپ لگی۔اس پرجذباتی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کا دل زورزور سےدھڑکنےلگا۔ وہ چھت پررہ گیااورناری کوآنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیاکہ وہ  اس کا انتظارکرے،وہ جلد ہی واپس آجائے گا اوروہ بھی اپنے ساتھیوں کےپاس چلاگیا۔

 سٹینلے  کی طبیعت بگڑرہی تھی۔اس کا چہرہ زردہورہاتھا۔اس نے کہاکہ وہ گھرجارہاتھا۔ایسالگ رہاتھاکہ اسے              ُ لو لگ گئی تھی۔ہیری

میتھیو کو رپورٹ دینے چلاگیا۔ٹام واپس عرش پرناری سےملنےچلاگیا۔آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں  تھا۔ اوپر نیلا آسمان تھا۔اس نےلوہے کی سیڑھی پکڑی  اور ناری کے پاس جانے لگاجو وہاں  دوسری طرف  کی چھت پر خلا میں دو گز دور تھی جووہ چھلانگ لگاکرعبورکرسکتاتھا۔وہ اسے دیکھ کراٹھ بیٹھی اورسیاہ بال  اپنی گردن سے پیچھےکرنےلگی۔اپنی چھاتیوں پرجو کپڑا ڈالا تھا اسے اچھی طرح کس دیا۔اس کی ٹانگیں  نرم تھیں  ۔وہ ٹام کی طرف خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔ٹام ہونقوں کی طرح کھڑارہایہ توقع کررہاتھا کہ وہ  تعلقات  جوان دنوں  انتہائی حدوں کوچھو چکے تھے کی وجہ  سے الفت بھرے الفاظ  کہے گی۔

تم کیاچاہتےہو؟ ناری نے پوچھا۔

میں۔۔۔میں ،اس لئےآیاہوں۔۔۔میرا دل چاہ رہاہے کہ تمہارے ساتھ پہلے کی طرح محبت کروں  ۔اس نے لڑکھڑاتی زبان اپنی خواہشات بیان  کرتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ  ہلکا سا سرخ   تھااور آنکھوں میں خمارتھا۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ناری بڑی سنجیدگی سے اس کاجائزہ لے رہی تھی۔پھر اس نے  بغیر کچھ کہے اسےیکسرنظراندازکردیا اورکمبل اوڑھ کرلیٹ گئی۔

تمہیں سورج بہت پسند ہے۔کیاایسانہیں؟ ٹام  نے پوچھا۔

ناری نے کوئی جواب نہ دیا۔ ٹام اس کی خاموشی پر پریشان ہوگیا۔اسے وہ باتیں یادآنے لگیں جو گئی چند راتوں میں ناری کے گھرہوئی تھیں۔ٹام نے اسے اپنی مضبوط بانہوں کے حصار میں لیاتھا،اس کی بالوں میں پیار سے اپنے ہاتھوں سے کنگھی کی تھی۔اس نے ٹام کوبسترپر ایسی شراب پلائی تھی جس سے وہ ناآشناتھا۔اس کا دل کیاکہ وہ اس کاکمبل اتار کر اس کے کندھوں پرہاتھ پھیرے  تووہ   مان جائے گی اور اس کا موڈبن جائے گا۔وہ اس سے لپٹ جائے گی لیکن  یہ بات سوچ تک ہی رہی۔

ٹام نے ایک بار پھر وہی فقرہ دہرایا۔تمہیں سورج کی گرمی  بہت پسند ہے کیاایسا نہیں؟

ناری نے اپناسراٹھایا۔  دونوں ہاتھوں  پر اپنی ٹھوڈی رکھی اور بولی۔۔۔'چلے جاؤ'۔

ٹام  یہ سن کر حیران رہ گیا۔اپنی جگہ سے نہ ہلا۔

اس  نے پرسکون اورشائستہ زبان میں اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہاحالانکہ اس  اسے دقت پیش آرہی تھی۔اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تھکی اورافسردہ آنکھوں سے   کہا۔'سنو!' ۔۔۔اگر تم  کسی  نیم عریاں لڑکی  دیکھ کر اپنی ہوس پرضبط نہیں لاسکتےتوکیوں چھ پنس کی ٹکٹ لے کر بس پرنہیں بیٹھتے اور ریڈ لائٹ علاقے چلے جاتے۔وہاں درجنوں لڑکیاں مل جائیں گی جو تمہاری   خواہش پوری کردیں گی۔'۔یہ فقرات کہتے ہوئے اس کالہجہ تلخ ہوچکاتھا۔

ٹام کا ان الفاظ سے دل کرچی کرچی ہوگیا۔اس نے خود کوکوساکہ اس نے اپنے جذبات کے اظہار میں صحیح الفاظ کا انتخاب نہیں کیاتھا ۔اس نے خود کوسنبھالا اور ناری کوکہا۔۔۔'میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔میرے خواب وخیال میں تم ہی چھائی رہتی ہوں۔ہم نے جوپل اکٹھے گزارے ہیں انہیں یاد۔۔۔'

شکریہ ۔اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔اپنا سر نیچے کرلیااور منہ دوسری طرف کرلیا۔ٹام وہاں چپ سادھے دیرتک کھڑارہا۔وہ توقع  کررہاتھاکہ وہ کچھ اور بولے گی اور اس کے حق میں فیصلہ کرے گی لیکن ناری کی طرف سے مزید کوئی ردعمل نہ آیا۔ہلکی ہواچلی تو اسکے بال  لہرائے۔ان میں چمک تھی اور قوس و قزح بکھیررہے تھے۔اسے گزری راتیں یادآئیں کہ اس نے ان میں کیسے اپنے ہاتھوں سےکنگھی کی تھی۔اس کی کمر اضطراری حالت میں ہل رہی تھی۔ناری  کاپورا جسم نفرت اور غصے سےکپکپارہاتھا جو کہہ رہاتھاکہ وہ وہاں سے چلاجائے۔

ٹام نے اپنی اس  بے توقیری اور ذلت پر خفت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔اس نے آسمان کی طرف  دیکھا۔وہ چھتیں جو چند منٹ پہلے اس کی ٹیم اور دوسرے کارکنوں سے بھری پڑی تھیں  اجڑگئی  تھیں۔اسے ڈھلتے سورج میں شدید گرمی لگی ۔اس نے سوچا کہ یہ اس کےساتھ کتنی زیادتی تھی کہ کمپنی چاہتی تھی  کہ  اس  موسم میں کام کیاجائے۔وہ ناری کی چھت سے کودکر اپنی چھت پر   لوہے کی سیڑھی سے اترا اور دوسری سیڑھیاں پکڑ کرسڑک پر آگیا۔ناری کے لئے اس کے دل میں نفرت پیداہوگئی۔

اگلے روزوہ اٹھاتوآسمان اودی تھا۔اس پر گھنے بادلوں نے سایہ کیاہواتھا۔اسے گئی رات یاد آئی تو وہ ندامت سے مسکرایا اور سوچاکہ عرش والی ناری نے اس کی طبیعت صاف کردی تھی۔اس نے خوب ٹھکائی کی  تھی۔اس نے صحیح رستہ دکھایاتھا۔۔۔آج گرمی نہیں ہوگی۔

تینوںاپنے کام پرلگ گئے۔ٹھنڈی اورتازہ ہوائیں چل رہی تھیں۔اردگردچھتوں پرپھوہارپڑرہی تھی جوانہیں نم کررہی تھی۔سورج کی تمازت مٹ گئی تھی اور کوئی بھی سورج تاپنے نہیں آیاتھا۔سیاہ چھتیں بارش سے چمک رہی تھیں ۔اب ٹھنڈک ہوچلی تھی۔وہ سوچ رہے تھے کہ اگر موسلادھار بارش 

نہ ہوئی تووہ آج ہی اپناکام ختم کرلیں گے۔

 

Life history

  Doris  May  Lessing

(1919……2013)

Nobel  Laureate  2007

حالات زندگی

ڈورس مے لیسنگ 22اکتوبر 1919 کو کرمن شیل    (ایران ) میں پیداہوئی۔اس کاادب   بیسویں صدی  کےسماجی  اور سیاست کے اتارچڑھاؤ پر مبنی ہے۔جب وہ پانچ سال کی تھئ تو اس کاخاندان جنوبی رہوڈیشیا (موجودہ  زمبابوے)منتقل ہوگیا۔ وہاں وہ بیس سال رہااور 1949 میں  وہ انگلستان منتقل ہوگیا۔اپنے بلوغت کے سالوں میں وہ  سرگرم سوشلسٹ رہی۔ ا س نے 1950 ' دا  گراس  از سن  گنگ' میں    'گوانگ  ہوم' اور 1960 میں ' ان دا پرسوٹ آف انگلش'   لکھی۔  اس کے بعد 'انڈر مائی  سکن'یہ اس  کی سوانعمرس تھی ۔جس میں اس نے رہوڈیشیا اور برطانیہ میں گزارےوقت کی روداد بیان کی۔   

اس کاپہلاناول  'واکنگ ان دا شیڈ'1997 میں آیا۔جوایک سفید فام  کسان  اور اس  کی بیوی پر تھا  جس میں افریقہ کی نوکری  کا قصہ بیان کیاگیاتھا۔۔اس نے 1952 سے 1969 میں 'چلڈرن  آف  وائلنس ' لکھی  پانچ ناولول  مارتھا کوئیسٹ پرلکھے   جوجنوبی افریقہ اور انگلستان  سے متعلق تھے۔ 1967 میں اس  لندن میں پیش کیا۔نے 'دا گولڈن  نوٹ بک لکھی  جو ایک خاتون ادیب  کے  اپنے علم و فن کو   لندن میں  منوانے سے متعلق ہے۔ 1975 میں اس نے 'دا میمائرز  آف اے سروائیور' لکھی  جس میں ایک شخص کی نفسیاتی  اور سماجی زندگی کی عدم مطابقت پرہے۔

Short Stories

The Story of Non. Marrying  Man (1972), …And Storis (1978), African Stories…The Old  Child’s Country(1951), The sun under their feet (1973).

 Novels

Canopus in Argos :Archives , Children of Violence, The Cleft, The Golden Note book, The Grass Singing, The Memoirs of a Survivor, The Sweetist Dream, Time Bites.

Novels  written Pseudonymously under  ‘Janes  Somes’ name:

The Fifth Child (1988),Horor  Story (2001),  Swuutist  Dream  in the World (2000), The Cleft (2007)

Essays

 Time Bites(2004) ; Akfred Family (2008)

وہ  17 نومبر 2013 کو 94 برس کی عمر میں  فوت ہوئی ۔

 

 

 



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

  

Popular posts from this blog