اک وہ بھائی .... The Brother Robert Coover (1932 ---) USA









اک وہ بھائی

The Brother

Robert Coover 

(1932 ---) USA


مترجم و تجزیہ:  غلام محی الدین


میرا بڑابھائی موٹا، کاہل، گول گول نیلی آنکھوں والا ہر وقت آسرے کی تلاش میں رہتا ہے۔  وہ مجھ سے بیس سال بڑا ہے اور ہر شخص سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ کام لینے کے لئے نظر کرم  خاص طور پرہمیشہ مجھ پر پڑتی ہے۔ ہمارے کچھ کھیت اور مویشی ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر ہے۔ وہ زبانی جمع خرچ کرتا ہے۔ جب بھی کسی کو اُس سے کوئی کام پڑے تو ٹال مٹول کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فکر نہ کرو، ہو جائے گا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ وہ اِس اعتماد سے امید  بندھاتا ہے کہ بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود یقین کرتے ہی بنتی ہے۔ اگر سوچا جائے تو اُس کو سمجھنا نا ممکن ہے کیونکہ جس کا وہ وعدہ کرتا ہے وہ ایفا نہیں ہوتا۔ بھلا کوئی کام بغیر عملی مدد کے مقرر وقت میں کیسے ختم ہو سکتا ہے؟  وہ کیسے کسی کام کو پایہ تکمیل پہنچائے گا،  کی تفصیل جاننے کی اجازت تک نہیں دیتا۔ اس سے کئی  پوچھوبھی تو وہ ڈانٹ دیتا ہے۔  

 ایک چھوٹا بھائی ہونے کی حیثیت سے اس کی بات ماننا میرا اخلاقی فرض تھا۔  ہر صورت ایک احمق کی طرح اس کی یقین دہانیوں کو قبول ہی کرنا پڑتا  تھا۔  وہ اپنے بڑے ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا تھا لیکن چونکہ خونی رشتہ تھا اور عمر میں بھی بڑا تھا اس لئے اس کی تمام باتوں کو درگزر کرنا پڑتا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹے بھی تھے جو اس کی طرح کسی کام کے نہیں تھے۔ اس کی بیوی اسے ہمیشہ ڈانٹتی رہتی یہاں تک کہ اس کو کھانا بھی نہیں دیتی تھی۔ یکدم اسے ایک بحری بیڑہ بنانے کا شوق چرایاجو  حضرت نوح  کے بیڑے کی سی وسعت رکھتا ہو۔  وہ اسے بنانے میں پاگل پن کی حد تک مخلص تھا۔ اس نے اپنی اولاد اور اپنی بیوی کو ہم سے دور ہی رکھا اس لئے ہم ان کے بارے میں یا تو جانتے ہی نہیں تھے یا کم جانتے تھے۔ ہم تو کیا ساری دنیا کو معلوم تھا کہ وہ انتہائی خود غرض شخص تھا لیکن وہ اتنے اعتماد سے فرمائش کرتا کہ کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔  میرے لئے تو یہ اخلاقی  اورمعاشرتی مجبوری تھی کہ اپنے رشتے کی وجہ سے اُس کی خواہش پوری کر دیتا تھا۔  میں یہ سوچتا تھا کہ خون تو پھر خون ہے اور اگر وہ زیادتی بھی کرے گا توسہہ لوں گا اِس بات کی تسلی تھی کہ کم از کم  مجھ سے اور میری بیوی سے کوئی زیادتی نہ ہو۔ وہ جیسا بھی تھاآخر وہ بڑا بھائی تھا، میرا خون تھا۔  اس سے خونی رشتہ تو ڑا تو نہیں جا سکتا تھا۔ وہ ایک خبطی انسان تھا، جو چیز اس کے ذہن پر مسلط ہو جائے وہ اسے مکمل کرکے ہی رہتا تھا۔

میری بیوی ٹوکتی تھی کہ میں آج تک کیوں اس کا ہر کہا مانتا تھا اور غلام بنا ہوا تھا۔ اُسے میری تابعداری کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ نہ توکبھی وہ ہماری مدد کو آیااور نہ ہی کسی اور کے کام آیا پھر بھی میں کیوں اس کی تمام باتیں مانتا تھا؟  میری سمجھ میں بھی نہیں آتا تھا۔ ہماری کچھ زرعی زمین تھی جن میں ہم کھیتی باڑی کرتے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ اس نے آج تک میرا کبھی ہاتھ نہ بٹایا تھا۔ مجھے خراب ترین موسم میں بھی کھیتی باڑی کرنا پڑتی تھی۔ تمام کام کرنا پڑتے تھے۔ ٹریکٹر چلاتا، بیج بوتا، پانی دیتا، فصلیں کاٹنا،فروخت کرتا، بیج خریدتا، کھاد خریدتا، وغیرہ وہ کچھ بھی نہ کرتا لیکن آدھا حصہ لینے کے لئے ضرور پہنچ جاتا۔ پوری دھونس جماتا کہ ہم پر اس

 کا حق تھا اور پورے دعوے سے اپنا ہر مقصد حاصل کر لیتا تھا۔ اُس کی بیوی بھی اسے گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ وہ  ہمیشہ اس کا کھانا بھی نہیں پکاتی تھی۔ وہ کھانا زیادہ تر ہمارے گھر سے ہی کھاتا تھا۔  وہ ہر وقت اِدھر اُدھر گھوتا رہتا۔ لکڑیوں کی تلاش کرتا رہتا۔ اُس کو ایک ایسا  بنانے کا شوق تھا جس میں درجنوں مویشی، گودام اور  بہت زیادہ سواریاں سما سکیں۔  اس کی بیوی بھی ایک شاہکار چیز تھی جس کے دل میں ایک دفعہ خدا دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ وہ گاؤں کے قریب اونچے ٹیلے پر چڑھ گئی اور تین دن تک مسلسل آسمان کی طرف دیکھتی رہی کہ شایداُسے خدا نظر آجائے۔ اُس دوران بارشیں بھی ہوئیں، برفباری بھی ہوئی لیکن اس نے جنگلی پھلوں سے گزر اوقات کی۔  واپس آئی تو اس کے گھر والے حیران رہ گئے کہ وہ زندہ کیسے واپس آگئی؟  بھائی کا گھر الگ تھا جس میں بھینسیں، گائے اور دیگر چوپائے پالے ہوئے تھے۔  چوپائیوں کا خیال اس کے بیٹے کرتے تھے۔اس کا کام صرف احکامات جاری کرنا ہوتا تھا۔ اس کے بیٹے بھی سر پھرے تھے۔ وہ بھی اپنے آپ میں رہتے اورکسی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے۔  اجنبیوں کی مانند رہتے  تھے یہاں تک کہ مجھے بھی ان کی شکلیں اور ناموں کی واجبی سی ہی پہنچان تھی۔ خدا جانے اس کے ذہن میں کیا خبط سوار تھا کہ اس نے جہاز نماز کشتی، جسے وہ بیڑا کہتا تھا، کو بنانے کے لئے مجھے منا لیا۔  مجھے اُس کام کے لئے پہاڑوں پر جا کر سینکڑوں درخت کاٹنے پڑے۔ اُس نے گاؤں کے کئی دوسرے لوگوں کو بھی اس کام پرلگایا ہوا تھا لیکن ان کو بہت کم مزدوری دیتا تھا۔  مجھ سے مفت کام کرواتا تھا لیکن میرے لئے اُس نے یہ سہولت مہیا کی ہوئی تھی کہ وہ میرے کٹے ہوئے درخت کسی مزدور سے اٹھوا لیتا تھا۔  

میری بیوی بہت اچھی، بہت محنتی ہے۔ وہ میرے چوپایوں کو اکیلے ہی سنبھالتی ہے پھر بھی اتنی ہمت بچا رکھتی ہے کہ گھر واپسی پر مجھے تازہ اور گرم کھانا کھلائے۔  باتیں کرے اور میری مُٹھی چاپنی کرے۔ وہ اپنے گھنے کالے ریشمی بال اپنے چہرے سے اٹھا کر چوٹی کر تی ہے۔ دن بھر کے کام کاجوں سے تھکنے اور امید سے ہونے کے باوجود میں اس کی آنکھوں میں پیار ہی دیکھتا ہوں۔ اس کا مخلصانہ اور پیار بھرا سلوک  میرے دل پر بڑا اثر کرتا ہے۔ میرے بھائی کا رعب چلانا اسے سخت نا پسند ہے لیکن وہ میری خاطر اس کا لحاظ کر لیتی ہے۔  جب وہ مجھے جلی کٹی سنا کر مجھے بیکار کہتا ہے تو میں اسے یاد دلاتا ہوں کہ میری حاملہ بیوی اور میں دن رات کام میں پستے رہتے ہیں اور تجھے اپنے مطلب کی پڑی رہتی ہے۔ تمہیں علم ہے کہ دریا  سے مچھلیاں کون پڑتا ہے۔ گھر کے لئے لکڑیاں کون کرتا ہے،، کھیتی باڑی کے تمام مراحل طے کرکے تمہیں گھر بیٹھے کھلانا اور متفرق کام۔۔۔یہ سب کون کرتا ہے؟

میر ابڑا بھائی شروع سے ہی ایسا تھا۔ مجھے پورا خدشہ تھا کہ میرا باپ اسے عاق کر دے گایاگھر سے نکال دے گا مگر پتہ نہیں وہ کیسے بچ گیا۔ اگر وہ اسے مار مار کر نکال باہر کرتا تو کم از کم میں تو بڑے بھائی کے غضب سے بچ جاتا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ منع کرنے پر بھی وہ زبردستی کام کرواتا تھا۔ نہ صرف مجھے (میرا اُس سے خونی رشتہ ہونے کی بنا پر کام کا کسی حد تک کہہ سکتا تھا) بلکہ گاؤں والوں کوبھی بیگارپر مجبور کرتا تھا یا پھر بہت کم پیسوں پر اُن سے مزدوری کرواتا تھا۔ اس کے خناس ذہن میں صرف اور صرف بڑا بیڑا بنانے کا بھوت سوار تھا۔ کوئی دوسرے اُس کے پاس ایک دو دن سے زیادہ نہیں ٹکتے تھے لیکن وہ مجھے نہیں چھوڑتا تھااوراُس وجہ سے میرا کھیتوں کا کام ادھورا رہ جاتا تھا۔ اس کے ساتھ اُس کا بیڑا بنانے میں تار کول بھی استعمال کیا جاتا تھا جس سے میرے کپڑوں اور جسم میں بدبو پید اہو جاتی تھی۔ میری بیوی کو وہ نہ صرف  برداشت کرنا پڑتی بلکہ ان نہایت گندے کپڑوں کو  دھونا بھی پڑتا۔ مہینوں اور سالوں کی محنت کے بعد بالآخر وہ بیڑا تیار ہو گیا۔ ایک دفعہ میں پیدا ہونے والے بے بی کے پنگھوڑے کے لئے بچی ہوئی لکڑی لینے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ میرا بھائی، اس کے بیٹے اور ان کی بیویاں بیڑے پر سوار تھیں۔ اس کے علاوہ میں نے دیکھا کہ اس میں کئی گائیں، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اناج، گھاس پھوس اور جانوروں کے کھانے کا چارہ بھی رکھا ہوا تھا۔ میں نے بھابھی کی آواز سنی جو اسے دھمکی دے رہی تھی کہ وہ واپس گھرلوٹ آئے ورنہ اسے گھر میں گھسنے نہیں دے گی۔ گھروں میں ایسی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ ایسی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا چونکہ میری بیوی امید سے تھی اس لیے میں نے بیڑے سے بچی کھچی لکڑیوں سے ہونے والے بے بی کے لئے پنگھوڑا بنا لیا۔ اُس کے اوپر خوبصورت نقش نگاری کی۔ میری بیوی پنگھوڑے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ ہم نے لڑکے کا نام    ُ  نیتھئیل  ُ  اور لڑکی کا   ُ  این  ُ  رکھنے پر اتفاق کر لیا تھا۔  

اُس نے پوچھا لکڑی کہاں سے لائے؟  

میں نے کہا وہ لکڑی جو بیڑے کے بعد بچ گئی تھی۔تم آج پھر وہاں گئے تھے؟  بیوی نے پوچھا۔

ہاں۔ یہ لکڑی لینے گیا تھا۔  میں نے جواب دیا۔

کیا اس کا بیڑا مکمل ہو گیا ہے؟  اب وہ کیا کر رہا ہے؟  کیا اس بیڑے کے بعد اس نے اپنا گھر چھوڑ دیا ہے اور خاندان اس میں منتقل ہو گیا ہے؟  بیوی نے پوچھا۔

اس کی بیوی کہتی ہے کہ اگر وہ بیڑے میں رہے گا تو کیا اسے بچھو کے کاٹنے کا خوف نہیں ہوگا؟  تم چوپایوں، اپنے بیٹوں، اُن کی بیویوں  اورغلہ کے ساتھ بیڑے میں سوار  رہو۔ میں نہیں آؤں گی۔میرے بھائی نے بیوی کو  کہا،   ُ  تم احمق عورت ہو۔  میں پچھلے چھ ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ یہاں بہت زیادہ سیلاب آئے گا۔  مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوگا۔   

 مجھ سے یہ بات سنی تومیری بیوی نے قہقہہ لگایا۔ وہ قہقہہ اتنا جاندار تھا کہ میں نے یہ کئی سالوں میں پہلی بار سنا تھا۔

چوپایوں میں تم نے کیا کیا دیکھا؟  بیوی نے پوچھا۔

گائیں، بھینسیں، بکریاں، گھاس پھوس اور اناج وغیرہ بھی دیکھے تھے۔  چوپائے شور مچا رہے تھے۔ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

بیوی یہ سن کر اور بھی ہنسی پھر کہا کہ مجھے یقین ہے اس بیڑے میں جوئیں بھی ضرور ہوں گی۔

میں نے جواب دیا۔تم صحیح کہہ رہی ہو کیونکہ وہ ہمیشہ گندا رہتا ہے۔ نہاتا نہیں ہے۔

اس پر ہم دونوں زور زور سے ہنسے۔

دیکھو!  میرا خیال ہے اس بیڑے میں ابھی دیمک نہیں ہوگی۔

ہاں!  تم صحیح کہہ رہی ہو، میں نے دیمک نہیں دیکھی۔  بیڑا چونکہ نیا ہے دیمک کچھ عرصے بعد لگے گی۔

تو ہمیں اسے دیمک کا تحفہ دینا چاہیے۔میری بیوی نے رائے دی۔

میری بیوی میرے قریب آگئی اور میرا ہاتھ گول پیٹ پر لے گئی۔ میں نے ہاتھ سے نیچے حرکت محسوس کی تو میں نے اسے کہا کہ بچے نے پیٹ میں چھلانگ لگائی ہے۔ میں نے اس کی حرکت محسوس کی ہے۔ تین چار ماہ کے حمل میں ایک نارمل بے بی ماں کے پیٹ میں حرکت شروع کر دیتا ہے۔ خانگی ماحول، خوراک میں غذائیت کی مقدار اور ذہنی کیفیت شامل ہوتی ہے جو یہ طے کرتی ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے کی صحت کیسی ہوگی۔ بیوی نے محسوس کیا کہ پیٹ کے اندر بچہ زور زور سے ٹانگیں مار رہا تھا۔ میں نے فکر مندی سے اسے پوچھا کہ کیا اس کی حرکات سے اسے درد ہو رہا ہے؟  اس نے کہا’نہیں‘ بلکہ اچھا لگتا ہے۔ اس پر میں نے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا،    نیتھییل خوب بہت خوب!  اس کے بعد برتن میں جو جوس بچا تھا وہ ہم غڑاپ سے پی گئے۔ اگلی صبح ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں اٹھے،اُس وقت بارش ہو رہی تھی۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ فصل کے لئے یہ بہت ضروری تھی چونکہ بارش بہت تیز ہو رہی تھی اس لئے ہم گھر کے اندر ہی رہے اور گھر کے اندر جو کام کرنے تھے وہ نمٹائے۔


 شام کو جب بارش ہلکی ہوئی تو میں گھر سے باہر نکلا۔ میں اپنے بھائی کے پاس جا کر اسے کہنا چاہتا تھا کہ اس کے بیڑے میں طرح طرح کے جانور ہیں۔ کیا وہ اس میں دیمک بھی شامل کرنا چاہتا ہے؟   لیکن یا خدا، میں نے دیکھا کہ اب اُس کی بیوی بھی بیڑے میں آگئی تھی۔  وہ کچھ نہ بولی جو کہ غیر معمولی بات تھی اور ان کے بیٹوں نے بھی کوئی بات نہ کی۔ وہ بھی انہونی بات تھی۔  وہ سب کے سب بیڑے کے او پر کھڑے تھے۔  میں بولا  ’ آج بارش خوب ہوئی ہے۔ ہے ناں؟‘  میرے بھائی نے مجھے دیکھااورکچھ نہ بولا بلکہ اپنا ہاتھ طنزیہ انداز میں اٹھایا پھر بیڑے کی ریلنگ پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ تمام لوگ بارش میں بھیگے ہوئے تھے اور اب بھی بھیگ رہے تھے کیونکہ بارش پھر کچھ تیز ہوگئی تھی چنانچہ میں نے اس وقت یہ مناسب نہ سمجھا کہ بارش کی وجہ سے اس کے بیڑے کودیمک کا تحفہ ملے گا، کہوں اور گھر آگیا۔ میں نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی وہ ہنسی اور بولی کہ پورا ٹبر ہی پاگل ہے۔ تمہارے بھائی نے پورے خاندان کو بھی احمق بنا دیا ہے۔ اس نے میرے لئے خصوصی پیسٹری بنائی اور اس کے ساتھ تازہ گوشت بھونا۔ رات بھر بارش ہوتی رہی اور اس کی تیزی برقرار رہی یہاں تک کہ پورا ہفتہ بارشیں ہوتی رہیں۔ زمینوں میں گھٹنے گھٹنے پانی کھڑا ہو گیا جس نے فصلوں کو برباد کر دیا۔ میرے لئے یہ بھی مشکل ہو گیا کہ میں اپنے جانوروں کو کچھ کھلاؤں۔ میری بیوی بولی، ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ وہ روتی رہی اور کہا کہ کاش ہم نے بھی کوئی بیڑا بنا لیا ہوتا اور اس میں فصلیں اگا لیتے۔ یہ بات میرے ذہن میں پہلے کبھی بھی نہیں آئی تھی۔  


اس وقت بھی جب بارش زور و شور سے ہو رہی تھی اور گھر کے اندر، باہر اب تو یہ ڈر لگ رہا تھا کہ پورا گھر پانی سے بھر جائے گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اپنے بھائی کے پاس جاؤ ں اور اس سے بیڑے میں پناہ کی درخواست کروں لیکن میری بیوی نے سختی سے منع کر دیا۔ کہا کہ کبھی نہیں اور اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ جب بارش نہ تھمی تو میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ ہمیں اپنا وقار اور فخر بھول جانا چاہیے اور اس سے مدد مانگ لینی چاہیے۔ میں یہ کہہ کر گھر سے باہر نکلا۔ باہر تالاب میری گردن تک پہنچ رہا تھا۔ میں کئی جگہ پھسلا اور ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ بالآخر اس جگہ پہنچ گیا جہاں پر بیڑا موجود تھا۔ میں نے اسے اونچی آواز میں بلایا،   میرا بھائی آیا، اس نے میری طرف دیکھا اور کچھ نہ بولا۔ میں نے اسے درخواست کی کہ کیا میری بیوی اور میں تمہارے بیڑے میں اس وقت تک پناہ لے سکتے ہیں جب تک یہ طوفان تھم نہیں جاتا؟  اِس پر بھی اُس نے ایک لفظ نہ کہا۔ میں پھر بولا،  کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہم پر آفت آن پڑی ہے؟  میرا گھر پانی سے ڈوب گیا ہے۔ میری بیوی اُمید سے ہے۔ وہ بھیگ رہی ہے۔ میں بھیگ رہا ہوں۔ ہمیں بخار ہو جائے گا۔ ہمارے ہونے والے بچے کی جان کو خطرہ بھی ہے۔ کیا ہم تمہارے پاس آکر ٹھہر نہیں سکتے؟  اس نے میری باتیں سنیں، کچھ نہ کہا طنزیہ انداز میں ہاتھ اوپر اٹھایا اور نیچے کرتے ہوئے واپس بیڑے میں چلا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ یہ میرا سگا بھائی ہے۔ میں آگے جا کر بیڑے کو پیٹنے لگا کہ وہ میری مدد کرے۔ میں نے اس کی بیوی کو،اس کے بیٹوں کو اور وہ لوگ جو تمام اندر تھے چلّا چلّاکر مدد مانگی۔ میں نے بیڑے پر مکے مار مار کر سب کو وہ تمام صلواتیں سنائیں جو مجھے یاد تھیں بلکہ کچھ تو میں نے ایجاد کرکے بھی اسے دے ڈالیں مگرکوئی بھی باہر نہ آیا۔  


میں مایوسی میں ان پر لعنت بھیج کر سسکیاں لیتے ہوئے واپس چل دیا۔ بارش اب بھی بہت شدت سے برس رہی تھی۔ کئی مقامات تو مجھے تیر کر پار کرنے پڑے۔ اتنے میں مجھے اونچا سا ٹیلہ نظر آیا۔  میں نے اس پر چڑھنا مناسب سمجھا۔  اس پر چڑھا تو میرے پاؤں زمین پر لگے کیونکہ اس سے پہلے تو تیر ہی رہاتھا۔  مجھے پہاڑ کی زمین کا احساس بہت اچھا لگا۔ وہاں کچھ دیر رہا، اس کے بعد تھوڑا سا اور آگے گیا۔  اگلی چیز جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہآدھا ٹیلہ بھی بارش کے پانی سے ڈٓوب گیا تھا اور پانی کی سطح مزید بلند ہو رہی تھی۔  وہاں سے میں نے اپنے بھائی کا بیڑا پانی میں تیرتا ہوا دیکھا۔ میں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا۔ اس کے جواب پر کسی نے بھی ہاتھ نہ ہلایا پھر میں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا تو میں بے حد خوفزدہ ہوگیا اور گھر کی طرف تیرنے لگا۔  اپنی بیوی کے بارے میں بہت فکر مند ہوگیا۔ اس کا نام اونچی اونچی آواز میں پاگل کی طرح لیتے ہوئے تیرتا رہا۔  بارش برابر جا ری تھی لیکن جب دیکھا کہ اس وقت اپنے گھر نہیں جا سکتا تو دوبارہ ٹیلے پر آگیا۔ بارش اسی طرح جاری رہی اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا ایک دن مزید میں اس بارش کو سہہ پاؤں گا؟  اپنے بھائی کا بیڑا بھی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔  وہ سب جا چکے تھے۔  میں حیران تھا کہ اسے کیسے علم تھا کہ طوفان آئے گا۔ میں نے اسے پاگل سمجھا تھا اور اس کا بیڑا بنانے میں اُس حرامی کی مدد بھی کی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ احمق کون تھا۔ وہ یا میں؟  اگلے روز جب میں اپنے گھر گیا تو اپنی بیوی کو جس حالت میں پایا۔ اسے دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھی اور ہمارا ہونے والا بچہ بھی اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔ 


تجزیہ

 ُ    وہ مروت اورا خلاقیات کے تحت خاموش رہتے ہیں اور نہ چاہنے کے باوجود اس کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں لیکن جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو بڑے بھائی کی حرکتوں پر تنقید بھی کرتے ہیں اور اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ 


بڑے بھائی کے بیوی بچے بھی ہئں لیکن راوی اور اس کی بیوی کی ان سے میل ملاقات نہیں۔ انہوں نے انہیں کم  ہی دیکھا ہے۔ اس بار حالات معمول سے ہٹ کر تھے کیونکہ بڑا بھائی اسے مجبور کر رہا تھا کہ اس کے لئے بحری بیڑا بنائے۔نہ جانے اس کے ذہن میں یہ خیال کیسے آگیا تھا کہ ایسے مقام پر جہاں کبھی کبھی بارش ہوتی تھی اور پانی گاؤں سے کو سوں دور تھا، اسے بحری بیڑا بنانے کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی۔ راوی کو نزدیکی ٹیلوں سے درخت کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس نے سینکڑوں درخت کاٹے جنہیں اس کے بھائی نے بیڑا بنانے میں استعمال کیا۔  بڑا بھائی یہ کام مزدوروں سے بھی کروا سکتا تھا لیکن وہ تو مزدوری مانگتے تھے اور وہ مفت بر تھا۔بڑے  بھائی  کے بیڑے پر کام کی وجہ سے وہ کھیتی باڑی پر توجہ نہیں دے پا رہاتھا لیکن اگر فصل نہ اگاتے تو وہ آنے والے دنوں میں کیا کھاتے  اس لئے وہ میاں بیوی کسی نہ کسی طرح اتنی زمین میں بیج ڈال دئیے کہ اگر وقت پر بارش ہو گئی تو ان کے گزارے کے لئے اناج  اگ آتا۔اس کا بھائی اس سے پیسے بھی خرچ کرواتا۔ راوی اور اس کی بیوی  بیڑے پر تنقید کرتے اور طنز کیا کرتے تھے ا۔ وہ اس بات پر حیران بھی تھے کہ اسے بیڑا بنانے کی اسے کیا سوجھی۔ اس کے ذہن میں یہ خیال کیسے آیا۔اس کے بارے میں اتنی معلومات اسے کیسے حاصل ہوئیں۔خدا خدا کر کے بیڑاتیار ہوگیا تواس کے بڑے بھائی نے اس میں اپنے جانور، غلہ اور بیوی بچوں کو منتقل ک دیا۔ راوی نے ااس بارے پنی بیوی کو بتایا تو تو وہ مل کر اس پر ہنسنے لگے۔ اس کی مذمت کی اور اس پر فقرات کسے۔


خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ا  بیڑا مکمل ہونے سے اگلے روز ہی بارش شروع ہو گئی۔ راوی اور اس کی حاملہ بیوی خوش ہوگئے کہ وقت پر بارش ہو رہی ہے اور ان کی فصل اچھی ہو جائے گی۔ بارش کی ایسی جھڑی لگی کہ دن رات بارش ہوتی رہی۔  بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میاں بیوی گھر میں ہی دبک کر بارش رکنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب پانی سے اس کا گھر بھرنے کگا تو وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس گیا اور اسے درخواست کی کہ اس کا گھر ڈوب رہا ہے اسے اور اس کی بیوی کو عارضی طور پرپناہ دے دے جس پر بڑے بھائی نے سنی ان سنی کر دی۔بارش موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ بیڑے پر پناہ کی درخواست کی ناکامی پر  باہر کا پانی اس کے سر سے اوپر تک پہنچ چکا تھا اس لئے وہ تیر کر گھر پہنچنا چاہتا تھا لیکن وہ نہ پہنچ سکا اور  وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگا۔ ٹیلے پر سے اس نے دیکھا کہ اگر بارش اسی طرح ہوتی رہی تو وہ ٹیلہ بھی بارش میں ڈوب جائے گا۔ اس کے بڑے بھائی کا بیڑ اٹیلے کے پاس سے تیرتا ہو دور نکل گیا اور وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس نے اپنے گھر کی طرف دیکھا تو وہ ڈوب چکا تھا۔ بارش ختم ہونے پرجب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی اور اس کے پیٹ کا بچہ دونوں مر چکے تھے۔ یہاں کہانی ختم ہو جاتی ہے۔


رابرٹ روور  نے جس دور میں یہ کہانی لکھی  وہ منفی خیالات پنپنے (نیگیتوزم) کی تحریک کا دور تھا۔ جنگ عظیم اول  ( 1914-18)  اور جنگ عظیم دوم  ((1939-4دو کروڑ جانیں نگل چکی تھیں۔جس نے زندگی کے تمام شعبوں کی بنیادیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مذہبی، سماجی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور فنون لطیفہ کی اقدار تبدیل ہو گئی تھیں۔ستارہویں صدی کی وکٹورین روایات دم  توڑ گئی تھیں۔ وکٹورین کے دور میں جو  جنگ عظیم سے پہلے کا دور تھا، میں زندگی کے تمام شعبہ جات میں اچھائی اور سچائی کے فروغ کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ادب، مذہب، اخلاقیات میں تمام تر برائیاں ہونے کے باوجود سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی تھی۔ اس میں اخلاقیات پر زور دیا جاتا تھا۔ ہیرو جتنی بری حالت میں بھی ہو، اس کے دشمن جتنے ظالم ہی کیوں ہوں ِ، ہیرو کی آخر میں کامیابی ہوتی ہے۔ سچائی کی فتح ہوتی ہے۔ اس زمانے میں پہیہ ایجاد ہوا تو اقدار بدلنے لگیں۔ صنعت روز بروز ترقی کرنے لگی۔ جنگ عظیم اول نے  ان اقدار پرمزید برا اثر ڈالا مزدوروں اور سرمایہ داروں کے مابین تنازعات۔ خانگی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی زندگی، شہروں کی طرف نقل مکانی، صحت اور تعلیم وغیرہ پر اثرات ظاہر ہونے لگے۔


ہروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم پھٹنے کے بعد انسانیت پر ضرب کاری پڑی اور سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔سوال شدت سے سر اٹھانے لگے کہ حقیقت کیا ہے، سچ کیا ہے۔ جدیدیت والا  نظریہ جس میں بد نظمی کو باقاعدہ نظم وضبط میں لاکر حقیقت تک رسائی تک رسائی حاصل کی جاتی تھی، پر سوال اٹھنے لگے۔ سچائی کیا ہے، حقیقت کیا ہے کا مفہوم بدل گیا۔ یہ تحریک  مابعد جدیدیت حقیقت کو ایک اضافی اصطلاح (relative term ) قرار دیتی ہے۔ اس کے نزدیک سچائی وہ ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ ہر ایک کی سچائی کا معیار مختلف ہے۔ وہ اپنے زاویے سے حقیقت کا ادراک کرتا ہے۔ کیا وہ شئے جسے میں صحیح کہتا ہوں 

 ِ، کیا وہ واقعتاً  درست ہے ، معتبر ہے؟ کا یقین نہیں۔  ابلا  غ عامہ بھرپور طریقے سے عوام الناس کو ہر موضوع پر علوم  سے نواز تا ہے۔ کیا سچ ہے، کیا جھوٹ ہے، پتہ نہیں۔ متحارب گروہ ایک دوسرے کے خلاف دلائل دیتے ہیں۔ زور بیاں، فصاحت و بلاغت اور منطق کی بدولت سب صحیح لگتے ہیں لیکن اسکے نزدیک حقیقت اور سچائی وہی ہو گی جسے وہ سچ سمجھے گا۔ کوور کے نزدیک بھائی کے بارے میں جو تلخ  حقائق پائے جاتے تھے وہ اس  کے نزدیک سچ تھا اور بیان کر دیا۔ اس میں اس نے حالات سے اختلاف ( differ) بھی کیا  اور  وہ نظریہ اپنایا ہے جو اس کے نزدیک درست تھا۔  راوی نے اپنی سوچ کے مطابق سچائی کو مؤخر بھی کیا جب وہ اپنے بھائی اور بچوں کی بے وفائی کے باوجود اس سچائی کو در گزر کیااور اس کے بارے میں  فیصلہ نہ کیا۔ یہ  مؤخر (defer)  پن کی مثال ہے۔ جس میں حقیقت کی جعلی نمائندگی والی سوچ کو بھی اپنایا ہے۔ کون سا مذہب، اقدار، معاشیات، سیاسیات،ثقافت، اخلاقیات، معاشرتی منوالصحیح ہیں کیا حقیقت نام کی کوئی شئے وجود رکھتی ہے، پر سوالات کھڑے کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ بھی مانتا ہے کہ ایسی بات بھی نہیں کہ حقیقی شئے کا وجود ہی نہیں کیونکہ موجود تو ہے لیکن وہ کیا ہے، کے بارے میں یقین نہیں۔۔ قدر و قیمت ہی نہیں۔ اس مخمصے میں پڑکر چیزیں بکھرتی  لی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملات منظم ہو نے کی بجائے انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں  (destruction)۔  اس کہانی میں بھی انتشار ہی انشار نظر آتا ہے۔


اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ  ایک تحریک پیدا ہوئی جس نے مادیت کی طرف رخ موڑ لیا۔ ہر شئے کی اصلیت تلاش کی جانے لگی۔ صرف ان اشیاء کو سچ مانا جو کہ نہ صرف ظاہر بلکہ دیکھی، چھوئی اور محسوس کی جا سکے۔ اس تحریک کو  جدیدیت (ماڈرنزم) کہتے ہیں۔ صنعتی ترقی، انسانیت کی توہین اور لاشوں کی سیاست نے ہر شعبے میں تلخی، زہر اور منفی پن پیدا کر دیا۔ مذہب، سیاست، ثقافت، اقتصادیات، موسیقی، بصری سمعی فنون، ڈرامے، فلموں  اور دیگر فنون میں وکٹورین  اقدار کو رد کر دیا۔ نئی اقدار متعارف کروائی گئیں۔ مستقبل، تخیل، اعلیٰ اخلاق اور سچائی کے معیار، آزادی رائے اور  علامتیت کو فروغ ملا۔ بورثوائی طبقے سے اعتماد اٹھ گیا۔   ُ  فطرت اور انسان   ُ،    ُ  معاشرہ اور انسان  ُ ،   ُ  انسان اور انسانیت    ُ،  ُ   بطور اپنی ذات اور دیگر انسان   ُ   ،    ُ  سیاسی رشوت خوری   ُ،     ُ  اخلاقیات   ُ ،    ُ   خواتین کو  با اختیار  بنانے    ُ،،    ُ  ناساز گار حالات    اورُ  ُ  جنسی نمو    ُجیسے موضوعات پر لکھا جانے لگا۔ زندگی کے ہر شعبے میں  بنیادی تبدیلیاں پیدا ہو گئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر سوالات اٹھنے لگے۔ کمیونزم، سوشلزم کی تحاریک نے جنم لیا۔لوگ مذہب سے دور ہونے لگے۔ زندگی کی تلخیوں کو سمجھ کر ان کا اظہار کرنے لگے۔ معاشرے کی بری اور منفی تصویر کشی کی جانے لگی۔  لوگوں کی سوچ منفی ہو گئی اور وہ ہر شئے کی منفی حقیقت بیان کرنے لگے۔اس کے بعد جنگ عظیم دوم بھوٹ پڑی  تو جدیدیت نے بھی پلٹہ کھایا اور اس کہ جگہ مابعد جدیدیت  (پوسٹ ماڈرنزم) نے  لے لی۔اس کہانی میں ٰیہ تمام خواص ہیں 



مابعد جدیدیت (پوسٹ ماڈرنزم) نے جنگ عظیم دوم کے بھیانک نتائج دیکھے۔ منفی پن میں اضافہ ہو گیا اور ہر شئے میں خرابیاں نکالنے لگے۔ مذہب کو رد کر دیا گیا۔ اس کے خلاف لکھا جانے لگا۔  ادب میں ایسے واقعات جو  مقدس صحیفوں  میں دئےء ئیے  گئے تھے ے،  ادیب ان سے روگردانی کرنے لگے۔  اس دور  میں ان کے نزدیک حقیقت صرف وہ ہے جو انسان کے ذہن میں ہوتی ہے۔ ہر شخص کے لئے حقیقت کا معیا رمختلف  ہوتاہے۔


   ُ  دا برادر   ُ  میں بھی یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔   رابرٹ روور نے حضرت نوح علیہ کے واقعے کو منفی ردعمل کے طور پر بیان کیا ہے۔ مذہب کے خلاف لکھا ہے۔ حضرت نوح کے بیڑے میں تو راہ راست پر چلنے والوں کی معاونت کی گئی تھی اور انہیں بیڑے میں سوار کرا لیا گیا تھا  اور  خدا کی راہ سے بھٹکنے والوں کو سزا دی گئی تھی اور وہ ڈوب کر مر گئے تھے۔ اس افسانے میں  اس  نے مذہب  سے انحراف کیا ہے۔  اس میں گھناؤنا   اور تاریک طنز پایا جاتا ہے۔اس میں اس نے منطقی طور پر اس میں  اس نے یہ فرضیہ قائم کیا ہے  اور انداز بیاں ایسا اپنایا ہے کہ قارئین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور مذہبی ا، اخلاقی اور سماجی

 ُ   ُ ایک وہ بھائی   ُ  (دا  برادر) امریکہ کے ادیب   ُ  رابرٹ لوول کوور   ُ  کا   افسانہ دو بھائیوں کی کہانی پر مشتمل ہے جس کا راوی چھوٹا بھائی  ہے۔ وہ براہ راست تمام واقعات بیان کرتا ہے۔ راوی کی بیوی امید سے ہے اور اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ اسکی ہر بات مانتی ہے۔ ان میں پیار ہے۔اس کا ایک بھائی ہے جو  اس سے بیس سال بڑا ہے۔ وہ خود غرض اور اتھرا ہے۔کاہل اور کام چور ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا اوروہ کبھی دھونس اور کبھی جذباتی طور پر بلیک میل کر کے راوی سے ہر کام کرا لیتا ہے ہے۔ان کی کچھ زرعی زمین ہے۔ وہ کھیتی باڑی کرتا ہے اوربڑا بھائی حق جتا کر پیداوار کاآدھا حصہ اڑا لیتاہے۔ اس کی بیوی اور

اقدار سے دور کر دیا جاتا ہے۔


اس کی تکنیک غیر معمولی ہے  لیکن اس کی اپنی نہیں، اصلی نہیں بلکہ عہد نامہ قدیم سے مستعار لی ہے۔وہ کہانی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس میں استدلال پایا جاتا ہے۔فعل حال میں ادا کرتا ہے۔ کرداروں کے نام استعمال نہیں کرتا۔ بڑا بھائی، میری بیوی، بھائی کی بیوی بچے، مزدور وغیرہ کے نام استعمال کرتا ہے۔ مقدس انجیل کی مزاحیہ تمثیل بناتا ہے۔ ڈرامائی صورت حال بنا کر نکتہ چینی کرتا ہے۔ وہ عام بول چال کی زبان میں کہانی بیان کرتا ہے۔  


یہ افسانہ اس کے ابتدائی  تحریروں  میں  سے ایک ہے۔بیس کہانیوں پر مشتمل  مجموعے    ُ   Prcksongs &  Descants    '  میں کالا  گمبھیر منفی طنز پایا جاتا ہے۔     اس کے نقطہ نظر کے تحت جنگ و جدل  اور سرمایہ داروں نے معصوم لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور مذہب۔ ملکوں پر غاصبانہ قبضوں اور وسائل پر قبضوں نے نیک لوگوں کا ناطقہ بند کردیا ہے جس کی عام مثال اسکے اس نے  مابعد جدیدیت کو حقیقی زندگی میں استعمال کیا۔ ڈائلاگ، محل وقع، سیٹنگ، حقیقی ماحول کے مطابق کی۔کردار سازی میں راوی نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی اور قارئین کومعاملات تک براہ راست رسائی دی ہے۔  بڑے بھائی کا رویہ اور بیڑے کا مذہبی اقدار کے خلاف استعمال ہے۔  روور نے بڑی نفاست سے اقدار میں منفی تبدیلی کو اس افسانے میں بیان کیا ہے۔



Robert (Lowell) Coover 

(1932 -) USA


رابرٹ  (لوول) کوور چار فروری  1932  میں  آئیوواکے شہر چارلس سٹی میں پیدا ہوا۔  اس کے نو بہن بھائی تھے۔  اس کے والدین   ُ  ایلی نائس  ُ  منتقل ہوگئے جہاں اس نے ثانوی سکول تک تعلیم حاصل کی۔  سکول کے زمانے سے ہی ادب میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اپنے سکول کے جریدہ کا ایڈیٹر بن گیااور اس میں مضامین لکھنے لگا۔  وہ بیس بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔  اس نے  ایلی نائس  ُ   یونیورسٹی میں 1949میں داخلہ لیاپھر1951میں انڈیا نا یونیورسٹی میں چلا آیا جہاں اس نے سلویاویی زبا ن میں ڈگری حاصل کی۔ اس کا باپ بھی ادبی رسالے کا ایڈیٹر تھا۔  وہ 1953سے1957تک نیوی میں رہا اور کوریا کی جنگ لڑی۔  اس نے1961میں شکاگو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔  1965 میں اس نے انسانیت کے مطالعات  میں ایم۔اے کیا۔  ابتدا سے ہی اس نے امریکی ادب اور ثقافتی حیثیت کو چیلنج کیا۔  کوور  اپنی تحریروں میں حقیقت کے ساتھ تخیل بھی شامل کرتا ہے۔  اس نے مذہب، بچوں کا ادب، پریوں کی کہانیاں، لوک ریت اور لوک کہانیوں پر کئی کتب اور مختصر کہانیاں لکھی ہیں۔  اُس کی اہم تصانیف  درج ہیں 

٭ Pricksongs and Descants (1969) ٭ Baby Sitter (1969)

٭ The Public Burning (1977) ٭ The Origin of Brunish (1966)

٭ Step Mother ٭ Geralds Party (1986(

٭ A Night and the Movies (1987) ٭ The Universal Baseball Association (1968)




Popular posts from this blog