انکشاف Revelation Flaherty ‘O’ Connor (U.S.A) 1925-1964

 

                                                                                                                                      انکشاف

Revelation

Flaherty ‘O’ Connor

(U.S.A)

1925-1964

ترجمہ      و         تجزیہ                           :              غلام      محی              ا                       لدین

ڈاکٹر کی چھوٹی سی انتظار گاہ  مریضوں سے تقریباًبھری ہوئی تھی۔کلائڈ ٹرپن اپنی بیگم روبی ٹرپن   (مسز کلائڈ) کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔  کلائڈ لنگڑا کر چل رہا تھا۔ کمرے کے وسط میں ایک میز پڑی تھی جس پر جرائد پڑے تھے۔ وہ ایک طرف کھڑی ہو کر کمرے کا جائزہ لیا۔ایک کرسی خالی نظر آئی۔ صوفے پر  غلیظ کپڑوں میں ملبوس پانچ چھ سال کا ایک بچہ لیٹا ہوا تھا۔             اس کے بازو اطراف میں پھیلے تھے۔  ناک بہہ رہی تھی اورنیلی نیکر پہنی ہوئی تھی۔      اس نے سوچا کہ اس کے والدین کو اسے کچھ تو تہذیب سکھانی چاہیئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی والدہ کرسی پر بیٹھی تھی۔مسز کلائڈ کو توقع تھی کہ اسےدیکھ کر وہ اٹھ بیٹھے گا اور اسے بیٹھنے کے لئے جگہ دے دے گا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس نے اس کی ماں کی طرف دیکھا جو پرانے بوسیدہ  کپڑے پہنے  بوڑھی   سفید فام اجڈ  ۔ جاہل عورت       وائٹ ٹریش) بیٹھی تھی ، اس نے بھی کوئی اثر نہیں لیا ۔

اس نے اپنے میاں  کے کندھے پر    ہاتھ رکھا اور             اتنی        بلند آواز میں کہا  کہ        کمرے میں بیٹھے تمام لوگ سن لیں اور کہا کہ اس خالی کرسی پر بیٹھ جاؤ اور اس نے اسے اس کرسی کی طرف دھکیل دیا۔  کلائڈ  درمیانے قد کا گٹھے ہوئے جسم کا مالک تھا۔اس کا قد بیوی سے چھوٹا تھا۔ وہ اپنی بیوی کی بات سن کر ایک روبوٹ کی طرح        چلتا ہوا بیٹھ گیا۔ اس نے اس کی بات کی پیروی اس طرح کی جیسے وہ اس کا عادی ہو۔  وہ خود کھڑی رہی ۔ اس وقت کمرے میں اس کے خاوند کے علاوہ    مریضوں میں ایک  ضعیف  بھی تھا۔ جس کے ہاتھوں کا رنگ زنگ جیسا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنے پر رکھے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔  یا تو وہ سویا ہوا  یا مرا ہوا  یا پھر ڈھونگ رچا رہا تھا تاکہ اسے اپنی کرسی نہ چھوڑنا پڑے۔ مسز کلائڈ نے باقی کمرے میں نظر گھمائی۔ اس کے سامنے ایک خوش لباس خاتون بیٹھی تھی جس کے بال سرمئی تھے۔ ان دونوں کی نظریں دو چار ہوئیں جس نے خفیہ طور پر یہ پیغام دیا کہ اگروہ  لڑکا اس کا ہوتا تو اسے تہذیب سکھا دیتی اور بیٹھنے کے لئے جگہ چھوڑ دیتا۔

کلائڈ نے ایک لمبی سانس لی اور ایسا لگا جیسے وہ اٹھنا  چاہ رہا ہو لیکن اس کی بیوی نے اسے بیٹھے رہنے کو کہا۔ تمہارے پاؤں میں زخم ہے تمہیں بیٹھے رہنا چاہیئے۔ کلائڈ نے میز سے اخبار اٹھانے کے پاؤں ہلایا تو اس کی سرخ و سپید  پنڈلی پر زخم  نظر آیا جو سوجا ہوا تھا۔ 

اس مہذب خاتون نے متجسس ہو کر پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے؟

اسے گائے نے  ٹانگ مار کر زخمی کر دیا ہے۔ مسز کلائڈ نے کہا۔

اوہ                !                       افسوس ہوا۔ ۔۔ ہو سکتا ہے  کہ بچہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے اور تمہیں جگہ دے دے۔ یہ سن کر بھی وہ بچہ ڈھٹائی سے لیٹا رہا۔ فکر نہ کرو۔ کوئی مریض فارغ ہو کر چلا جائے گا تو بیٹھ جاؤں گی۔  وہ سوچ رہی تھی کہ یہ ڈاکٹر اتنے نوٹ چھاپتا ہے اور اتنی توفیق نہیں کہ ڈھنگ کی انتظار گاہ بنا دے۔ گیراج جتنا کمرہ رکھ چھوٖڑا ہے۔ میز پر ایک طرف           سبز            رنگ کا  ایش ٹرے   سگریٹ کے ٹکڑوں  سے بھرا پڑا تھا۔ اسے خالی کرنے کی کسی نے زحمت تک نہیں کی تھی۔ دیواروں کے ساتھ کرسیاں نہیں رکھی گئی تھیں۔ایک نرس   ڈاکٹر کے دفتر کا  دروازہ کھول کر   مریض کو بلاتی تھی۔ سیکرٹری بیٹھ کر ریڈیو سن رہی تھی       اور استقبالیہ کا کام کرتی تھی۔ ایک گلدان میں مصنوعی پھول رکھے گئے تھے۔ ایک نرس جس نے اپنے بھورے بالوں کی چوٹی بنائی ہوئی تھی ،نے نئے مریض کو بلایا۔

مسٹر اینڈ مسز کلائڈ بڑی خوشحال زندگی گزار رہے  تھے۔ ان کی ایکڑوں پر محیط کھیتی باڑی تھی۔اس کے علاوہ ان کا ایک فارم تھا جن میں انہوں نے مویشی اور دیگر جانور پالے ہوئے  تھے۔ وہ ان کی صحت کا خیال رکھتے تھے۔ان کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے  انہوں نے اپنی زمین میں جانوروں کو نہلانے کے لئے کنکریٹ کا حوض  بنا رکھا تھا جس میں  انہیں  خشک کرنے اور مالش کے لئے ہ ہلکی سی ڈھلوان  بنائی ہوئی تھی۔   کھیتی باڑی اور مویشیوں کی دیکھ بھال اور دیگر امور کے لئے وہ  حبشیوں   اور ٹریش گوروں کی  خدمات حاصل کرتے تھے۔  کلائڈ خود انہیں  واپس        اپنے ٹرک پر واپس  چھوڑ تا تھا۔ان کا رقبہ ہائی وے پر تھا۔

مسز کلائڈ  کٹر کیتھولک تھی ۔     اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مزدوروں کا خیال رکھتی  تھی۔ وہ خود کو رول ماڈل سمجھتی تھی۔   عبادت گزار  تھی۔باقاعدگی سے گرجے جاتی تھی۔میاں بیوی میں بہت بنتی تھی۔  ان میں بہت پیا ر تھا۔

کلائڈ اور وہ حسب معمول اپنے فرائض نبھا رہے تھے۔ کلائڈ گائے نہلا رہا  تھا کہ گائے نے اسے ٹانگ  مار دی اور وہ ڈاکٹر کے پاس چلے آئے۔  وہ   حادثہ کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ نرس نے دروازے سے سر نکال کر نئے مریض کو بلا لیا۔ ایک خاتون  اٹھی۔ اپنے کپڑے سنوارے  اور چلی گئی۔

 دیکھنے میں مسز کلائڈ               دراز قد،           لمبی ٹانگوں والی  باوقار اور حسین خاتون تھی۔ قیمتی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ شستہ گفتگو  کرتی تھی۔  اعلیٰ متوسط طبقے سے  تھی۔  اس میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ یہ کہ وہ           تھوڑی بہت فربہ تھی لیکن  اتنا بھی نہیں کہ اس کے حسن کو گہنائے بلکہ وہ اسکے حسن میں اضا  فہ  کرتی تھی۔بحثیت مجموعی وہ خوبصورت پیکیج تھی۔     مسز کلائڈاس کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی فربہی کی وجہ سے وہ اس میں پھنس  کر رہ گئی۔ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے ڈیلے ادھر ادھر گھماتے ہوئے کہنے لگی کہ مجھے اپنا وزن کم کرنا پڑے گا۔

 تم موٹی تو ہرگز نہیں ہو۔مہذب خاتون نے    جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

اوہ               !              میں ہوں۔ کلائڈ جو من کرے کھاتا ہےاور اس کا وزن کبھی 175 پونڈ سے اوپر نہیں جاتا  میں چیز چکھ بھی لوں تو جسم سنبھالا نہیں جاتا۔ مجھے اصولاً 125 پونڈ ہونا چاہیئے لیکن 180 پونڈ کی ہوں۔

اس  سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ذرا سی صحت مند ہو لیکن جس طرح کے تمہارے خدو خال  اور نین نقش ہیں تم      بہت  خوبصورت ہو، مجموعی طور پر بڑی اچھی لگتی ہو۔  تھوڑا بہت گوشت چڑھ جاتا ہے لیکن تمہارے  سامنے کوئی معنی  نہیں رکھتا۔  تم کسی بھی حسینہ کو شکست دے سکتی ہو۔ تم بہت سکسی  ہو۔مہذب خاتون نے تعریفی لہجے میں کہا۔

اس مہذب خاتون کی بغل میں ایک نوبالغ لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جو ایک موٹی سی نیلی کتاب پڑھنے میں محو تھی۔ وہ شائد اس کی بیٹی تھی۔وہ 18-19        سال کی لگتی تھی۔ اس کتاب کا عنوان              '               انسانی نشو و نما                            '            تھا جو غالباً        اس کی درسی کتاب تھی۔اس کا چہرہ کیل مہاسوں سے نیلا پڑا ہوا تھا۔ وہ موٹی اور بھدی تھی اور اس نے سوچا کہ ایک نوجوان لڑکی کے لئے  یہ کتنی تکلیف دہ ہے۔ اسے اس پر رحم آنے لگا۔

  مسز کلائڈ  47 سالہ تھی لیکن  اس کے کسی حصے   پر جھریاں نہیں تھیں  ما سوائے آنکھوں کے کے ارد گرد ۔ وہ بھی اس لئے کہ وہ بہت ہنستی  تھی۔   اس لڑکی      سے آگے صوفے پر وہ غلیظ لڑکا ابھی بھی ٹانگیں پسارے پڑا  تھا۔ اس سے آگے دبلی پتلی خاتون  نے موٹے کپڑے کی   چھوٹی قمیص اور شرابی رنگ کا پاجامہ  پہنا ہوا تھا۔۔  اس کے لبوں کے کناروںپرتھوک جمع تھی۔اس اجڈ              (ٹریش چٹی چمڑی والی  ) عورت نے بیٹے کی تربیت بھی ایسی ہی کی تھی۔ وہ  دونوں اپنی جگہوں پر ایسے چمٹے ہوئے تھے کہ قیامت ہی انہیں اٹھا سکتی تھی۔ ان کی سیدھ میں ایک لاغر معمر  خاتون تھی جو ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہی تھی جس نے پھولدار لباس پہنا تھا۔ اس کے بال گندے              تھے جو  گوندھے گئے تھے۔  وہ بھی مزدور ٹائپ تھی اور حبشیوں سے بھی بد تر تھی۔

کچھ لوگوں کو تمیز ہی نہیں۔ صرف اپنا ہی سوچتے ہیں اور دوسروں کا خیال نہیں کرتے۔ اس نے یہ بات  میلے کچیلے بچے اور اس کی ماں کو سنانے کے لئے کہی تھی لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔       اس کی بات سن  کرموٹی لڑکی نے مسز کلائڈ کی طرف نا پسندیدگی سے دیکھا اور پھر اپنی توجہ کتاب پر مبذول کر لی۔

ریڈیو پر انجیل کی تلاوت کی جا رہی تھی۔ مسز کلائڈ  کو  اس بات کی عادت تھی کہ       دیکھے        لوگوں نےاپنے پاؤں میں کیا پہنا ہوا ہوتا تھا۔ نظریں چرا کے  اس نے  مہذہب  خاتون کے پاؤں کا  جائزہ لیا۔ اس نے  سرخ اور کالے  رنگ کےسوئیڈ جوتے پہنے ہوئے تھے  جو اس کے کپڑوں  سے مناسبت          رکھتےتھے۔  موٹی، کیل مہاسوں والی لڑکی نے سکاؤٹ جوتے اور موٹی جرابیں پہنی ہوئی تھیں۔ ضعیف خاتون نے ٹینس کے جوتے اور گوری اجڈ مزدور خاتون نے رات کو پہننے والے سلیپر پہنے تھے۔ اس کے آگے  ایک نوجوان سرخ بالوں والی   خاتون     بیٹھی تھی۔ وہ اس کے پاؤں نہیں دیکھ پائی کیونکہ انہیں اخبار نے جو وہ اس وقت پڑھ رہی تھی نے چھپایا ہوا تھا۔  وہ عام گوری تھی اور اجڈنہیں تھی۔اس کے علاوہ بھی چند مریض تھے لیکن وہ عام گورے تھے۔ ان کا تفصیلی جائزہ نہ لے پائی۔

  بستر پر اسے فوری نیند نہیں آتی تھی تو  وہ  لوگوں کی  مالی ، اقتصادی اور معاشرتی  حیثیت  کی درجہ بندی کرتی تھی۔  اس  کے حساب سے  نچلی ترین سطح پر حبشی      اور رنگدار نسل  تھی جن کو ہر وقت روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے۔ اس سے اوپر اجڈ مزردور اور گھٹیا گوری چمڑی والے          دیوالیہ  لوگ(          گورے ٹریش)، اس سے اوپر       رنگدار اور گورےجو مکانات کے مالک، اس سے اوپر مکان اور زمیندار کے مالک  (جس میں وہ خود آتے تھے)                                     ، اس سے اوپر امیر ، جاگیر داراور صنعت کار جو حویلیوں اور محلوں کے مالک تھے۔  اسے ایک درجہ بندی میں  مشکل پیش آتی جو   ایسے لوگوں کے متعلق تھی         جو  اس کے نزدیک اچھے   تھے  ،تعلیم یافتہ تھے، اچھی ملازمتیں کرتے تھے               لیکن کرایہ دار تھے۔       جن کی کوئی جائیداد نہیں تھی۔            اس نے رنگدار لوگوں کے  الگ  درجے بنائے ہوئے تھے   وہ رنگدار  جو صاحب جائیداد تھے جیسے    اس گاؤں کا         رنگدار دندان سازجس کے پاس دو لنکن گاڑیاں ،       ایک نہانے والا تالاب اور ایک فارم ہاؤس تھا        کے متعلق      وہ تذبذب میں تھی کہ اسے       کس درجے میں شامل کیا جائے ۔          

 اس کے ذہن میں یہ بھی خیال آتا تھا اگر    حضرت عیسیٰ ؑ  اس سے پوچھیں کہ کس روپ میں دنیا          آنا چاہے گی تو   اس کا انتخاب حبشی  اور ٹریش کے  علاوہ  کسی بھی روپ میں آنے کے لئے تیار تھی۔ ان درجات سے اسے سخت نفرت تھی۔  پھر بھی اگر مجبور کیا جاتا  تو وہ یہ کہتی کہ اسے  انتظار کی فہرست میں رکھ لیا جائے اور جب کوئی اور جگہ خالی ہو تو اس کو  اس درجے میں بھیج دیا جائے۔۔۔اگر پھر بھی مجبور کیا جائے تو وہ اجڈ گوری  کبھی نہ بنے گی بلکہ ایسی حبشن  بننا پسند کرے گی جو مہذب ہو۔ انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا بھی وہ اسی درجہ بندی سے جائزہ لر رہی تھی۔  اتنے میں کمرے میں گھڑیال نے وقت کی گھنٹی بجائی۔

یہ بہت خوبصورت ہے مہذب خاتون نے کہا۔

مسز کلائڈ نے گھڑیال  کی طرف دیکھ کر کہا کہ اس کا سنہری  فریم بہت قیمتی  ہے۔  وہ بہت اچھا لگتا ہے۔

 ہاں۔ تم نے صحیح کہا۔ مہذب خاتون نے کہا۔

وہ  خاتون جس کے ہونٹوں کے اطراف تھوک جمی ہوئی تھی نے کرسی پر پہلو بدلااور کلاک پر دیکھنے لگی اور مسز کلاڈ  سےپوچھا کہ یہ کلاک کہاں سے مل سکتا ہے۔

اس کی بات کاٹتے ہوئے مسز کلائڈ نے کہا کہ ایسا کلاک اس کے گھر میں بھی ہے ۔ وہ ہمیشہ بہترین اشیا کا ہی انتخاب کرتی ہے۔ گھٹیا شئے کا تو سوچ ہی نہیں سکتی۔  تم اسے                              '                 گرین سٹیمپ          ' سے لے سکتی ہو۔ میں نے بھی وہیں سے خریدا تھا۔ ایک اچھا سٹور ہے اور ہر شئے مناسب داموں پر مل جاتی ہے۔میں اپنی جیولری ہمیشہ وہیں سے خریدتی ہوں۔مسز کلائڈ نے کہا۔ اس خاتون کا حلیہ دیکھتے ہوئے  سوچا کہ اسے              کلاک کی بجائے     ایسے صابن  کی ضرورت ہے جو اس   کا            غلیظ منہ  صاف  کر سکے۔

اس    بات پر موٹی بھدی لڑکی نے جھنجھلا کر              کتاب زور سے بند کی اور خفگی نظروں سے اس کی             آنکھوں میں آنکھیں       ڈال کر طرف دیکھا جن میں ایسی چمک تھی  جیسے رات کو اندھیرے میں نیو سائن  پر روشنی پڑنے  سے آتی تھی۔

 مسز کلائڈ کو سمجھ نہ آئی کہ ایساکیوں ہوا۔ اس نے سمجھا کہ اس موٹی بھدی  نے اس کے پیچھے کوئی شئے دیکھ لی تھی یا  کھڑکی کے پیچھے باہر سڑک پر کوئی شئے نظر آگئی تھی۔ اس نے پیچھے مڑ کر  اس کے نظروں کے زاویے کی طرف دیکھا تو پردے کے پیچھے آتی جاتی ٹریفک         کے سائے  نظر آرہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں  غیر معمولی  چمک کیوں آئی کی حقیقت کا اندازہ نہ کر پائی۔

مس فنلی۔ نرس سے نئے مریض کا نام پکارا۔  چیونگم چباتی ہوئی خاتون           جو اخبار پڑھ رہی تھی ، اٹھی اور مسز کلائڈ کے سامنے سے گزر کر ڈاکٹر کے دفتر میں چلی گئی۔ اس نے سرخ رنگ کی ایڑی والا جوتا پہنا تھا۔             مسز کلائڈ اسے تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے بھدی کیل مہاسوں          والی لڑکی کی نظریں خود پر پڑتے دیکھیں جن میں               اس کے لئے ناپسندیدگی صاف نظر آ رہی تھی۔  وہ حیران ہوئی کہ وہ اسے کیوں ایسے دیکھ رہی تھی۔ یہ اس کا وہم تھا کہہ کر اس نے خود کو تسلی دی۔

 مہذب  خاتون نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج موسم اچھا ہے۔ زیادہ گرمی نہیں۔

تم آج سوتی کپڑے پہن سکتی ہو۔   مسز کلائڈ نے کہا۔

کیا تمہارے پاس روئی چننے والی مشین ہے۔ مہذب خاتون نے پوچھا۔

نہیں۔ وہ روئی چنتے وقت آدھی روئی چھوڑ دیتی ہے ۔ اس لئے نہیں رکھی۔ مسز کلائڈ نے کہا ۔ ہمارے پاس چند ایکڑ زمین ہے  جس میں ہم روئی کاشت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں  مویشی           اور خنزیربھی پال رکھے ہیں۔ مرغیاں بھی ہیں جن کا میں   خودخیال رکھتی ہوں۔ مسز کلائڈ نے کہا۔

ایک شئے جس سے میں نفرت کرتی ہوں وہ یہ کہ میں خنزیروں کو بالکل پسند نہیں کرتی کیونکہ وہ بہت بد بو دار ہوتے ہیں۔  ٹریش خاتون نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے منہ کو صاف کرتے ہوئے کہا۔

مسز کلائڈ نے اس کی بات کو بات کو بالکل بھی اہمیت           نہ دی۔  ہمارے تمام مویشی صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ان سے  بو نہیں آتی۔  اس بچے کی طرح گندے اور بدبو دار نہیں ہوتے  جو ہر وقت  منہ میں ہاتھ     ڈالے  رکھتا ہے۔  ہم نے مویشیوں کے لئے پختہ حوض بنائے ہوئے ہیں۔  کلائڈ انہیں                  پائپ سے  پانی ڈال کر  روزانہ نہلاتا ،          مالش کرتا  اور  سہ پہر کو سیر  کرواتا ہے۔  فرش کو بھی صاف          کرتا ہے۔  (تمہارے پاس مویشی نہیں ہیں  جو سیر کراؤ              ۔            مسز کلائڈ                نے دانت پیستے ہوئے دل میں کہا کہ اپنی اوقات میں رہو۔ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ تم اتنا  ہی سوچو   جتنا تمہارے پاس ہے  )                کلائڈ اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے حبشی  اور سفید فام  اجڈ مزدوروں کو گھر خود چھوڑتا ہے۔         میں  انہیں خوش آمدید  کہتی  ہوں،میں ان کو بذات خود ٹھنڈا پانی پلاتی ہوں            ۔ ڈھول بجا کر انہیں کام پر بھیجتی ہوں ۔ جواب میں وہ بھی ڈھول بجاتے ہیں    اور کام ختم ہونے کے بعد  الوداع کہتی ہوں۔  یہ کہہ کر اس نے                زندہ دلی سے قہقہہ لگایا۔  یقین کرو کہ میں ان  مزدوروں کو خوش رکھنے کی کو شش کرتی ہوں۔ اگر ایسے لوگوں سے کام لینا ہو تو ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اور محبت برتنی چاہیئے ۔               ہم انہیں سہولیات دیتے ہیں ۔اس نے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔ اگر نہیں دیں گے تو  ہمیں بھگتنا پڑے گا۔

میں تو اتنا جانتی ہوں  اس گوری اجڈ عورت نے  بڑی نفرت سے کہا کہ حالات کچھ بھی ہو جائیں دو چیزیں تو مجھ سے کبھی نہ ہو پائیں گی۔ ایک یہ کہ         حبشیوں کو اچھا سمجھنا اور ان سے محبت  کرنا     اور دوسرا   مویشیوں  اور سوروں کو نہلا کر سیر کرانا ۔

یہ بات سن کر مسز کلاڈ اور مہذب  نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اس بات پر آنکھوں ہی آنکھوں میں متفق ہو گئیں کہ تمہیں کچھ کرنے سے پہلے  وہ اشیا         تمہارے پاس ہونی چاہیئں  اور ان کے بارے میں علم ہونا چاہیئے ۔ وہ جب بھی کوئی بات مہذب  خاتون سے جس میں  کم رتبہ لوگوں کے بارے میں حقارت پائی جاتی                تھی اپنی رو میں  کہہ جاتی ۔   بھدی لڑکی خشونت سے اس کی طرف  دیکھتی جس سے   اسے گفتگو  کا تسلسل  برقرار رکھنے میں مشکل در پیش آتی۔

مسز کلائڈ  نے         سوچا           کہ وہ موٹی بھدی اور کیل مہاسے والی لڑکی   اغلباً   مہذب خاتون کی بیٹی تھی                    نیلی آنکھوں اور چہرے   کسی حد تک  ملتے تھے۔خاتون کا چہرہ   چمکدار   اور تازہ تھا   جبکہ لڑکی کا چہرہ                 داغدار اورمر جھایا ہوا تھا ۔ اسے اس پر بہت رحم آیا۔بدصورت ہونا ایک بات ہے اور بدصورت   بنا کر  محسوس کروانا دوسری     ۔   اس نے سوچا۔

ایک  بہت بڑا سایہ پردے کے باہر سے نظر آیا جو اس کے پیچھے تھا اور اس کا عکس سامنے  والی پیلی دیوار پر پڑا۔ اس کے بعد عمارت  کے باہر ایک سائیکل سوار رکا۔  ایک حبشی لڑکا  اپنی میلی کچیلی سفید پینٹ پہنے کیمسٹ کی دکان سے ادویات  کی سپلائی لے کر ڈاکٹر کے پاس آیا۔ اس نے ایک ٹرے  پکڑی ہوئی تھی جس کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اس نے ٹرے کو اس جگہ رکھا جس میں سیکرٹری اور نرس جھانکا کرتی  تھی اور سیکرٹری کو تلاش کرنے لگا۔ وہ اس وقت اپنے دفتر میں موجود نہیں تھی۔ اس نے اپنے بازو چھجے پر ٹکا دیئے اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ اس             نے اپنا  ایک ہاتھ اٹھایا اور بالوں پر پر خارش کرنے لگا ۔

تم وہ بٹن دیکھ رہے ہو لڑکے۔ اسے دباؤ۔ مسز کلائڈ نے کہا۔ گھنٹی بجے گی اور وہ آ جائے گی۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے دبا دیا۔

وہ کبھی کبھار دفتر سے باہر بھی چلی جاتی ہے۔ لڑکے نے کہا۔ یہ کہہ کر وہ  لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ کاؤنٹر پر تھے۔ گھنٹی سن کر نرس آگئی۔ اس نے اسے کچھ رقم دی۔لڑکے نے بل کاٹ کر باقی رقم واپس کردی۔ نرس نے اسے 15 سینٹ  ٹپ دی۔ وہ خالی ٹرے لے کر واپس چلا گیا۔ دروازہ آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔

حکومت کو تمام کالوں کو  ان کے آبائی افریقی ممالک  واپس بھیج دینا چاہیئے۔ گوری اجڈ اور پھوہڑ عورت نے کہا۔

   دنیا میں بھلائی کے لئے انہیں نکال باہر کرنا اچھا ہے۔     بوڑھے گورےنے ہاں میں ہاں ملائی۔

اوہ! میں تو اپنے کالے دوستوں کے ساتھ ایسا کرنا کبھی نہیں چاہوں گی۔ مہذب  خاتون نے کہا۔

ان کالے لوگوں کے علاوہ بھی امریکہ میں   ایسی غلاظت بھری پڑی ہے۔مسز کلائڈ نے کہا۔ اس کی مراد چٹے دیوالیہ اجڈ لوگوں          (   ٹریش ) سے تھی۔

اس پر کیل مہاسے والی لڑکی نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔دانت پیسے اور تیزی سے اپنا ہونٹ اندر باہر کرنے لگی۔ یہ منظر مسز کلائڈ کے لئے   تکلیف دہ  تھا اس نے اپنے لئے ایسا خراب رویہ اپنی زندگی میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ پریشان تھی کہ وہ لڑکی ایسا کیوں کر رہی تھی جبکہ وہ اسے پہلی بار ہی دیکھ رہی تھی۔  اس کے انداز سے یہ بھی لگ رہا تھا کہ وہ اسے زندگی بھر ناپسند کرتی رہے گی۔ 

مسز کلائڈ نے اس لڑکی کی نا پسندیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ان حبشیوں کو واپس افریقہ بھیجنا نا ممکن ہے۔ وہ واپس نہیں جانا چاہیں گے۔ بے شک وہ یہاں رہیں لیکن اچھا بن کر رہیں ۔

وہ کبھی  نہیں سدھریں گے ۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں انہیں افریقہ بھیج دیتی۔ سفید چمڑی والی عام خاتون نے اپنی رائے دی۔

حبشیوں        نے  یہاں آکر قبضہ جما لیا ہے۔ جس طرح انہیں غلام بنا کر لایا گیا تھا اسی طرح سے انہیں واپس جانا ہو گا۔ اجڈ گوری نے کہا۔

 اب ایسا کرنا   ناممکن ہو گیا ہے ۔حبشیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں نہیں بھیجا  جا سکتا۔ انہوں نے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ مسز کلائڈ نے کہا۔اگر تم انہیں واپس بھیجنا چاہو گے  تو  وہ  غائب ہو جائیں  گے ، زمین پر لیٹ جائیں گے ،  احتجاج ، تشدد ، ماتم  اور واویلا کریں گے۔ غصے میں امن عامہ تباہ کریں گے  ،  سڑکوں    پر  ٹائر جلائیں گے ۔ دھرنا دیں گے،         عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے  اور ہر حربہ استعمال کریں گے جو انہیں ملک بدری سے بچائے۔ مسز کلائڈ نے کہا۔

کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اس کے بعدملک کا کیا حال ہو     جائے گا۔ مسٹر کلائڈ نے کہا۔

کیا ہوگا کلاڈ۔ اس کی مسز نے وضاحت چاہی۔

ان حبشیوں  کی جگہ چٹی چمڑی والے اجڈ   لوگ             (ٹریش گورے  )لے لیں گے۔ کلاڈ نے  آنکھیں  جھپکاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔  کمرے میں  کچھ افراد نے زور دار قئقہہ لگا یا ماسوائے گوری اجڈ    اور کیل مہاسے والی لڑکی  کےجبکہ معمر خاتون جو گھریلو لباس  میں تھی، نگاہیں فرش پر کئے خاموش بیٹھی رہی۔   اس کا چہرہ تاثرات سے خالی تھا۔ لیکن وہ وہ ضعیف جو تمام وقت سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا  اور اس کے ہاتھ تمام وقت گھٹنوں پر تھے جاگ کر زور  زور قہقہے لگا نے لگا۔  دوسرے لوگوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ یہ بات چونکہ مسز کلائڈ نے کی تھی ، موٹی  لڑکی نے اسے خاص طور پر اور  کمرے  کے افراد کو ایسے دیکھا  کہ جیسے وہ سب  متعصب       اور  احمق تھے۔

ریڈیو پر ایک گیت چل رہاتھا۔۔۔ تم اپنے رستے جاؤ میں اپنے۔۔۔ پھر ہم سب اپنے اپنے رستوں سے آپس میں  مل جائیں گے۔ ۔۔، ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے  ۔۔۔ ہرموسم میں ہنسیں گے۔۔۔ مسز کلائڈ کو وہ گانا پسند آیا لیکن پورا نہ سنا اور  کہنے لگی۔ اس کا مشن ہے کہ ضرورت مندوں کو جو کوئی بھی  اس کے  پاس آتا ہے ، مایوس نہیں کرتی۔ حبشی ہوں ، چٹی چمڑی والے اجڈ اور گھٹیا ہوں یا سفید پوش ، وہ ان کے ساتھ  ہمدردی سے پیش آتی ہے ۔ ایسا کرنے پر وہ فخر کر تی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کا شکر ادا کرتی  ہے کہ اس نے ایسا رحمدل بنایا۔ وہ سمجھتی  ہےکہ  کوئی شخص جتنا بھی غریب اور مجبور ہو      ۔ خوبصورت یا موٹی ، بھدی ، کیل مہا سے والی ،کی مدد کرنی چاہیئے۔       اس نے ڈینگیں مارتے ہوئے کہا۔  حضرت یسوع مسیح             !              تیرا شکر ہے کہ تو نے  اسےحبشی، گوری اجڈ ، بھدی اور مغرور نہیں بنایا۔   تیرا           شکریہ، شکریہ ، شکریہ۔ جب بھی میں اس کی نعمتیں   شمار کرتی ہوں تو خود کو 180 پونڈ کی بجائے 125 کا ہی سمجھتی ہوں۔  اس کی یہ بات  سن کے موٹی بھدی لڑکی نے اس پر  ایک   زہریلی  نگاہ ڈالی۔

تمہارے بیٹے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟  مہذب  خاتون نے چٹی اجڈ خاتون سے پو چھا۔

اسے السر ہے۔  جب سے یہ پیدا ہوا ہے اس نے مجھے ایک پل بھی سکھ کا سانس  نہیں لینے دیا۔   اس کی بہن بھی ایسی ہی ہے۔ مجھے ان سےبھلائی  کی  کوئی امید نہیں۔ اجڈ عورت نے  جواب دیا۔

تم ان سے یہی ہی حاصل کر پاؤ گی۔ مسز کلا ئڈ نے  کہا۔( تم خود بھی ایسی ہو۔ کاہل ، پھوہڑ ۔ تمہیں قارون کا خزانہ بھی دے دیا جائے تو جلد ہی چٹ کر دو گی۔ دیوالیہ ہو جاؤ گی۔ اس نے سوچا  کہ ان جیسے لوگوں کی اتنی ہی مدد کی جائے جس سے وہ ایک وقت اپنا پیٹ بھر سکیں )

اس کی بات سن کر کیل مہاسے والی لڑکی  نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور  تند  وتیز نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ مسز کلائڈ نے اس کی یہ حرکت نوٹ کی اور سوچنے لگی  کہ اس نے ایسی کوئی بات بھی اسے نہیں کی جو اسے گراں لگے  پھر بھی وہ ایسا کیوں کر رہی تھی۔ نا پسند کیوں کر رہی تھی ۔  اپنا اندرونی خوف  دور کرکےاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر  کہا کہ کیا تم کالج جاتی ہو؟ میں نے تمہیں درسی کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔   وہ چپ رہی  اور  بدستور مسز کلائڈ کو گھورتی رہی۔کوئی جواب نہ دیا۔

 اس کی والدہ کو اپنی بیٹی کی اکڑ پر ندامت ہوئی اس  نے کہا کہ اس خاتون نے تم سے سوال پوچھا ہے                        '                          میری گریس۔'

میرے کان ہیں۔

اس کی والدہ ایک بار پھر شرمندہ ہو گئی ۔کھسیانی ہنسی       ہنستے            ہوئے کہا کہ      وہ           ویلسلے کالج            میسا چوسٹس  جاتی ہے  ۔ ان گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی اس نے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہر وقت پڑھتی رہتی ہے۔ کتابی کیڑا ہے۔بہت اچھی طالبہ ہے۔انگریزی، ریاضی، تاریخ ، نفسیات اور معاشرتی علوم میں ہمیشہ اول آتی ہے۔ بہت مصروف رہتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے تفریح کے لئے بھی کچھ وقت نکالنا چاہیئے ۔

لڑکی نے  دونوں کو غصے سے ایسے دیکھا جیسے کہ وہ ان کو اڑتے ہوئے جہاز سے نیچے پھینکنا چاہ رہی ہو۔ اس

لڑکی کی تو  سوچ ہی الٹ ہے۔ اس کی والدہ نے سوچا۔  تہذیب تو اس کو چھو کر بھی نہیں  گئی۔ وہ بڑبڑائی۔

 میرے بیٹے کو بخار ہے۔ اجڈ گوری نے کہہ کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔یہ عام  بچوں جیسا نہیں۔اس میں سرے سے تمیز ہی نہیں۔وہ کئی بار بہت کمینگی دکھاتا ہےحالانکہ وہ در اصل ایسا نہیں ۔  اگر کوئی اس کی بات کا برا منا لے تو وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔جب بیمار ہو جاتا ہے تو نیک بن جاتا ہے۔یہ اس کی عادت ہے ۔

مسز کلائڈ سوچنے لگی کہ اگر میں کسی کا دیس نکالا کروں گی تو وہ اس جیسے لوگ ہی ہوں گے۔ اس نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں حبشیوں سے بد تر لوگ بھی رہتے ہیں جو خنزیروں سے بھی گندے اور بدبودار ہیں اس نے  اپنے من میں کہا ۔

میرے خیال میں ایسے لوگ جو معاشرے پر بوجھ ہیں یا غیر سماجی روایات رکھتے ہیں  ، تو زیادہ قابل رحم ہیں۔ ان پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے۔  مہذب خاتون نے آہستہ سے کہا۔

یسوع مسیح کی عنائت ہے کہ اس نے مجھے عمدہ وصائف سے نوازا ہے۔میں اپنے روٹین میں روزانہ کوئی ایسا نیک کام کرتی  ہوں جس پر میں خوش ہو کر  قہقہے لگاتی ہوں۔اس نے مجھے اچھا شوہر عطا کیا ہے۔مسز کلائڈ نے کہا۔

لڑکی نے اس کی بات سن کر دانتوں کے پیچھے سے طنزیہ آواز نکالی جو سیٹی بجانے جیسی تھی۔ اس کی والدہ نے غصے سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا  اور اپنا منہ سختی سے بھینچ لیا اور گویا ہوئی۔

میرے نزدیک بدقسمت انسان وہ ہے جو نا شکرا ہو۔ جس کے پاس سب کچھ ہو لیکن بے اعتنائی برتے۔میں ایک ایسی لڑکی کو جانتی ہوں جس کے والدین بہت اچھے ہیں جو اسے ہر سہولیت مہیا کرتے ہیں جس کا ایک چھوٹا بھائی ہےجو اسے بے پناہ محبت کرتا ہے ۔ وہ بہترین لباس پہنتی ہے اور عمدہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہے لیکن اس کے منہ سے ایک بار بھی شکر کا لفظ نہیں سنا بلکہ دن بھر شکوے شکائتیں کرتی رہتی ہے۔

 اس کی بات سن کر مسز کلائڈ نے پوچھا  ۔ کیا اسے راہ راست پر لانا مشکل ہے؟کیا اس کا کچھ نہیں ہو  سکتا؟

لڑکی نے یہ سنا  تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔

میرا خیال بھی ایسا ہی ہے۔ اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ جب اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گا تو عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ موٹی بھدی  لڑکی  کی والدہ نے کہا۔

ویسے اگر چہرے پر ہنسی لائی جائے  تو               اس سے کسی کا کچھ  نہیں جاتا       اوردوسروں کے جذبات مجروح نہیں ہوتے۔مسز کلائڈ نے کہا۔

وہ تنقید تو بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔ مہذب خاتون نے افسردگی سے کہا۔

مجھ میں یہ خوبی ہے  اور میں شکر گزار ہوں     کہ میری فطرت بہت اچھی ہے۔عمدہ مزاج اور نفیس خیالات کی مالک ہوں۔ میں ان نعمتوں پر خوشی سے چیخنا چاہتی ہوں۔ حضرت عیسیٰ ؑ میں تیرا جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے۔ مجھے وہ  کچھ بھی نہیں دے سکتا تھا یا ان نعمتوں سے محروم بھی کر سکتا تھا۔ کلائڈ کسی اور کا خاوند بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔اس کا رواں رواں خوشی سے کانپ رہا تھا۔ شکریہ حضرت عیسیٰؑ             شکریہ۔ اس نے اونچی آواز میں کہا۔

اچانک موٹی نیلی کتاب مسز کلائڈ            کی بائیں آنکھ پر   لگی۔   اس نے دیکھا کہ لڑکی                       اس کی طرف             کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ  کہتی،   لڑکی             تیزی سے اس کے پاس آئی اور اور دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن دبوچ لی۔اس نے اپنی ماں کو چیختے ہوئے سنا۔ ایسا لگا کہ اس کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو۔ کلائڈ  حیران و پریشان ہو گیا اور ڈر کے مارے  بھاگا۔ مسز کلائڈ نے اسے آواز دی تو وہ کمرے کے کونے میں دبکا ہوا تھا۔  وہ بزرگ جو اس سے آگے بیٹھا تھا، ڈاکٹر کے دفتر میں گھس گیا۔ اور فون کرنے لگا۔  سیکرٹری کمرے میں آ گئی۔

تم اپنی اس حرکت کے بارے میں کیا کہنا چاہو گی مسز کلائڈ نے لڑکھڑاتی آواز میں     حملہ آور لڑکی سے  پوچھا۔ اس لڑکی نے اپنا سر اٹھایا اور غور سے مسز کلائڈ کو دیکھنے لگی۔اور آہستہ سے کہا۔         '             بڈھی         مسے      والی  خنزیر      !        جہنم میں جاؤ جہاں سے تم آئی ہو                    '       ۔ اس کی آواز آہستہ لیکن  بالکل صاف تھی۔ اس کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔ مسز کلائڈ کو  خوف میں دیکھ کو وہ مطمئن بھی تھی اور خوش بھی         کہ اس نشانہ  ٹھیک  لگا تھا۔ تم خبیث ، مکار، متعصب اور گھٹیا عورت ہو۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔

مسز کلائڈ پھر سے کرسی میں دھنس گئی۔  اور سر ایک طرف لڑھکا دیا۔ ایک لمحے بعدلڑکی نے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ ڈاکٹر اور اس کا سٹاف بھاگا ہوا  انتظار گاہ میں آیا۔ڈاکٹر  نے خالی  سرنج نرس کو تھما دی۔           ڈاکٹر اور سیکرٹری نے لڑکی کو بڑی مشکل سے قابو کرکے ابجیکشن لگایا۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے  دونوں ہاتھ لڑکی کی ماں کے کندھوں پر رکھے  جو       فرش پر بیٹھی کانپ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور میری گریس کے ہاتھ اپنی گود میں رکھے ہوئے تھے۔لڑکی کی انگلیوں کو اس نے ایسےپکڑ رکھا تھا جیسے ماں اپنے بچے کی انگلیاں  پکڑ کر چلتی ہے۔

ڈاکٹر  نے کہا ۔ میں اس  کا انتظام کرتا ہوں۔ آؤ۔ اب مسز کلائڈ کی گردن کا معائنہ کرتا ہوں ، اس نے  مزاحیہ انداز  میں کہا۔اس کی گردن پر ہلالی نشان پڑ گئے تھے اور گردن سوج گئی تھی۔بائیں آنکھ  کے آس پاس زخم اور نیل پڑ گئے تھے۔

مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور کلائڈ کو دیکھو۔ اس نے ڈاکٹر کو  دھکا دے کر کہا۔

میں اسے بھی             ایک منٹ     میں دیکھ لوں گا۔ اس کی نبض ٹٹولی  اور اس کے کندھے تھپتھپائے اور کہا جاؤ اور گھر جا کر آرام کرو۔

مجھے تھپکی دینے کی بجائے میرے خاوند کو دیکھو۔ اس نے ڈاکٹر کو غراتے ہوئے کہا۔

اپنی زخمی آنکھ پر برف رکھو۔ اس کے بعد وہ              چوکڑی مار کر فرش پر بیٹھ         گیا             اور کلائڈ                      کی پنڈلی کا معائنہ کرنے لگا اور اسے لے کر اپنے دفتر چلا گیا۔ جب ایمبولینس پہنچی اس وقت لڑکی کی والدہ       فرش پر بیٹھی   ہچکیاں لے رہی تھی۔  سٹاف اسے سٹریچر میں ڈال کر لے گیا۔                   نرس نے لڑکی               کی والدہ کی اشیا سمیٹنے میں مدد کی ۔

 اجڈ خاتون نے ایک لمحے کے لئے بھی نظریں لڑکی کے چہرے سے نہ ہٹائیں۔ جب  وہ ایمبولینس میں چلی گئی تو اس نے تبصرہ کیا کہ وہ لڑکی دماغی مریضہ لگ رہی تھی۔                   اس کا بیٹا ابھی بھی اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔ اس پر اس واقعے کا کوئی اثر نہ ہوا۔

 سیاہ فام خاتون نے کہا۔ ہاں وہ ذہنی مریضوں کے ہسپتال ہی لے جائی جائے گی۔

 اجڈ عورت بولی خدا کا شکر ہے کہ وہ پاگل نہیں۔

  اتنے میں کلاڈ لنگڑاتا ہوا  آگیا اور میاں بیوی اپنے گھر چلے  گئے۔

اس کے گھر کے  طرفین  پھول اپنی بہار  دکھا رہے تھے۔آس پاس گھنے درخت تھے۔ اس غیر متوقع حادثے     سے دونوں کی بھوک اڑ گئی تھی۔           انہوں نےکمرے کے پردے کھینچے  اور سو گئے۔ کلاڈ نے اپنا زخمی پاؤں تکئے پر اور اس کی بیوی نے اپنی زخمی آنکھ پر برف رکھی  پھر سوتی کپڑے کی پٹی گیلی کرکے آنکھ پر رکھ کر سو نے کی کوشش کرنے لگی۔  رات بھر لڑکی کے فقرات اس کے ذہن میں گونجتے رہے اور ان پر غور کرتی رہی۔ اس نے مجھے دوزخی خنزیر  کا لقب دیا۔ کہا کہ میں بوڑھی ہوں ۔ جہنم سے آئی ہوں اور وہیں  جاؤں گی۔  کیا میرا ظاہر اور ہے اور باطن اور۔کیا میں مکار اور دوغلی ہوں۔کیا میں شوخی        بازہوں۔ساری رات ان سوچوں میں بیت گئی۔ جس انداز سے اس ہلکی لیکن صاف آواز میں کہا تھا  ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے خیالات میں پر یقین تھی۔ اسے اپنی رائے کی سچائی  میں کوئی شک نہیں تھا۔ میں ایسی             تونہیں ہوں ۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی لیکن اس کے انکار کی کوئی اہمیت نہ تھی۔اس لڑکی کی غضبناک نفرت انگیز آنکھیں اس کے الفاظ  جس انداز میں ادا  کئے گئے تھے ان میں صداقت تھی۔ اس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔وہ پیغام اس کو دیا گیاتھا۔ اسی کو تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اس پر ہی حملہ آور ہوئی تھی جو کہ معزز، محنت کش، ہمدرد، سخی  اور مذہبی خاتون تھی۔یہ اس پر انکشاف تھا لیکن     اسے  یقین تھا کہ اس موٹی بھدی لڑکی کا تجزیہ غلط تھا۔

روتے روتے اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے۔ اس کی آنکھیں بری طرح جلنے لگی تھیں۔ اس دوران اس کی آنکھوں سے کپڑا نیچے گر گیا ۔ کلائڈ ساتھ لیٹا خراٹے لے رہا تھا ۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ لڑکی نے اسے کیا کہا تھا لیکن اس کا  دوزخی والا عکس ذہن میں نہیں لانا چاہتی تھی۔ اس نے کلائڈ کو ہلایا اور پوچھا کہ ٹانگ کا زخم کیسا ہے تو اس نے جواب دیا کہ سخت درد ہے۔ کرتے کرتے رات بیت گئی ۔  وہ  اگلے روز وہ سہ پہر تک نہ اٹھ پائی۔

  اگلی صبح  اس نے روٹین کام شروع کیا۔ اس کی آنکھ کے اوپر کا زخم سیاہی مائل نیلا پڑ چکا تھا۔  وہاں ابھار پڑ گیا تھا جو طوفان گزرنے کی علامت پیش کر رہا تھا۔ اس کا نچلا ہونٹ خوفناک حد تک سوج چکا تھا۔ اس نے اپنے کندھوں کو جھٹکا دیا اور گھر کے باہر والے حصے میں آ گئی اور مویشیوں کے باڑے چلی گئی۔ وہ اس وقت ایک           ایسی جنگجو لگ رہی تھی جو بغیر اسلحہ جنگ پر جارہی ہو۔  سورج ا س وقت پیلا پڑ چکا تھا جو کٹائی کے چاند کی طرح اور مغرب کی طرف تیزی سے اوپر جا رہا تھا درختوں کی قطاروں کے اوپر جا رہا تھا  ۔ سڑک اونچی نیچی تھی اور وہ  سڑک پر ادھر  کنکر بکھرے پڑے تھے۔ اس  کو بھی ٹھوکر لگی۔  مویشیوں کا حوض  ایک ٹیلے پر بنایا گیا تھا جو سڑک کے آخری سرے پر  اور غلہ گودام کے قریب تھا اس کے ارد گرد چار فٹ اونچا  لوہے کا  جنگلہ بنایا گیا تھا۔ حوض  کنکریٹ کا تھا تا کہ مویشی نہا کر اپنا پانی وہاں خشک کر سکیں ۔ وہاں سے انہیں کھیتوں میں لے جایا جاتا تھا۔  وہاں کھاد ڈالنے کے لئے استعمال ہو سکیں۔ کلائڈ اس وقت کنکریٹ  کے  بالائی حصے کےپاس کھڑا تھا ۔ جس کے اندر فرش تھا۔ نیچے کی طرف پانی کا پائپ   لمبے پائپ  سے جڑا ہوا تھا۔ مسز کلائڈ اس کے پاس آ کر مویشیوں اور ان کے ایک سال سے چھوٹے بچوں کو دیکھنے لگی۔کلائڈ کہتا تھا کہ سور بہت ذہین ہوتے ہیں لیکن وہ اس سے اختلاف کرتی تھی ۔ اس کے نزدیک وہ کتے سے زیادہ  سمارٹ ہوتے ہیں۔ انہوں نے جو سور پالے تھے ان میں سے ایک  تو خلا باز بھی      رہا  تھا لیکن وہ  زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکا کیونکہ اسے  خلا نوردی والے لباس میں ہی رکھا گیا     تھا تو اسے دل کا دورہ پڑار وہ مر گیا۔

مجھے  ٹیوب دو    تاکہ میں پانی لگا سکوں ۔ حبشیوں کی چھٹی کا وقت ہو گیا ہے۔ ان کو گھر چھوڑ  آؤ اور اپنی ٹانگ کی حفاظت کرو ۔ مسز کلائڈنے مزاحیہ انداز  میں کہا۔

ایسا لگتا ہے تم نے کوئی پاگل کتا کھا لیا ہے۔ اپنی بیوی کے مذاق کو نظر انداز کرتا ہوا لنگڑا کر چلنے لگا۔ وہ پائپ سے مویشیوں کو نہلانے لگی۔  اس کے بعد وہ  چبوترے پر آ گئی  اور سوروں کی باڑ دیکھنے لگی  جہاں نو سور، ان کے ایک سال سے کم  عمر کے بچے جن کی رنگت      کلیجی  جیسی  تھی  اور ایک حاملہ  جو چند ہفتوں بعد بچہ جنم دینے والی تھی ایک طرف لیٹی تھی۔ بچوں کی ننھی ننھی ہوشیار آنکھیں  فرش پر کھانے کی اشیا دھونڈ رہی تھیں

تم نے مجھے اس طرح کا پیغام کیوں دیا۔ اس نے                 آہستہ سے  خود سے پوچھا۔ اگرچہ اس لڑکی نے یہ بات سرگوشی میں کہی تھی لیکن اس کے ذہن میں گونج رہی تھی۔ میں کس طرح ایک انسان کے ساتھ خنزیر بھی ہوسکتی ہوں۔ یہ دونوں چیزیں ایک ہی وقت میں کیسے ہو سکتی ہیں۔میں اس وسوسے سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہوں۔ اس کی آزاد مٹھی بند تھی۔ دوسرے ہاتھ سے پانی ڈال رہی تھی۔  بیس گائیں، نو خنزیر                          کی صفائی  جاری تھی۔ ایک مزدور تازہ کٹی ہوئی گھاس کے پاس کھڑا تھا۔

کلائڈ                 کو مزدوروں کو واپس چھوڑنا ہو گا۔            شام کو اس کے میاں نے کہا۔  وہ  اٹھی ۔ عقبی پورچ میں گئی۔ وہاں سے پلاسٹک کی بالٹی  میں برف ڈالی اور پانی سے بھرا  تاکہ ان مزدوروں کو ٹھنڈا پانی پلا  دے۔ واپسی پر وہ   ایسا ہی  کیا کرتی تھی۔ان کا چھوٹا ٹرک درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ اس میں کئی    خواتین مزدور  اور ایک لڑکا        بیٹھے تھے ۔ ہیلو  !            تم کیسے ہو۔  مسز کلائڈنے پانی کی بالٹی رکھتے ہوئے کہا۔

 ہیلو                مسز کلائڈ                !              ہم صحیح  ہیں۔ اس کی آنکھ کی سوجن اورنیلا پن دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا۔کیا کہیں تم گر گئی تھیں ؟                    بوڑھی حبشن نے پوچھا۔اس کے دانت نہیں تھے۔ اس نے پرانا ہیٹ             پہنا ہوا تھا  جو کلائڈ نے اسے دیا تھا۔ دو خواتین کم عمر تھی اور ان کا وزن بھی کم تھا۔ انہوں نے نئے چمکدار سبز رنگ کے ہیٹ پہنے  ہوئے    تھے۔

 پانی پیو۔ مسز کلائڈ نے کہا۔

تمہارے ساتھ کوئی بری بات نہیں ہوئی ہو گی۔  مسز کلائڈ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے      ایک نے کہا۔  ان  کاخیال تھا       کہ اسے کوئی زک نہیں پہنچا سکتا۔

 تم ضرور کہیں گری ہو گی ؟ معمر خاتون نے کہا۔

کلائڈ  کو گائے نے ٹھوکر مار دی تھی ۔ ہم ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ وہاں ایک  موٹی بھدی کیل مہاسوں سے بھری لڑکی  جسے پہلی نظر میں دیکھتے ہی میں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں  تھی۔ اسکی آنکھوں میں کوئی شئے عجیب تھی  جو میں معلوم نہ کر سکی         ۔  اس         کی ماں      اور میں آپس میں باتیں کر رہے تھے  کہ اچانک ایک موٹی سی کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی  مجھے کھینچ کر ماردی۔

ارے نہیں !                لیکن کوئی وجہ تو ہو گی۔وہ بغیر وجہ ایسے کیسا کر سکتی تھی۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟       اس خاتون نے پو چھا۔

وہ اسے ایمبو لینس میں              دماغی ہسپتال لے گئے ہیں۔اس سے پہلے کہ وہ اسے لے جاتے اس کو انجیکشن  دیا گیا۔ اس نے مجھے  دو ٹوک الفاظ میں صاف آواز میں  کچھ کہا۔۔۔ اس نے وقفہ کیا اور بولی۔  اس نے مجھے کہا ۔۔۔  کہنا چاہا         پھر رک گئی ۔وہ ان الفاظ کو دہرانے سے اجتناب برت رہی تھی۔

اس نے تمہیں ضرور کوئی بہت بری بات کہی ہو گی۔ جتنی عورتوں کو میں جانتی ہوں، تم ان میں سب سے اچھی ہو۔

تم خوبصورت بھی ہو۔ نوجوان لڑکی نے کہا۔

اور گٹھے ہوئے جسم کی مالک بھی۔دوسری لڑکی نے لقمہ دیا۔   سفید فام  عورتوں سے بہتر ہو۔

صحیح کہا۔ تم مذہبی بھی ہو۔ بوڑھی عورت نے کہا۔

مسز کلائڈ مزدوروں کی خوشامد سے واقف تھی۔اسے پتہ تھا کہ ان کی باتوں کا کوئی مطلب نہ تھا۔۔۔ ہمت کر کے اس نے  لڑکی کے الفاظ ادا کئے  کہ اس نے مجھے                 '             بڈھی         مسے      والی  خنزیر      !        جہنم میں جاؤ جہاں سے تم آئی ہو                    '         کہا ۔

اس نے ایسا کیوں کہا۔ میں اسے قتل کر دوں گی۔ میں اسے تمہارے سامنے ہی قتل کر دوں گی۔ نوجوان حبشن نے جذباتی ہو کر کہا۔

تم خوبصورت بھی ہو۔ نوجوان لڑکی نے کہا۔

اور گٹھے ہوئے جسم کی مالک بھی۔دوسری لڑکی نے لقمہ دیا۔   سفید فام  عورتوں سے بہتر ہو۔

صحیح کہا۔ تم مذہبی بھی ہو۔ بوڑھی عورت نے کہا۔

مسز کلائڈ مزدوروں کی خوشامد سے واقف تھی۔اسے پتہ تھا کہ ان کی باتوں کا کوئی مطلب نہ تھا۔۔۔ ہمت کر کے اس نے  لڑکی کے الفاظ ادا کئے  کہ اس نے مجھے کہ              میں بڈھی                 مسے           والی دوزخی خنزیر ہوں اور         دوزخ میں جاؤں گی۔

اس نے ایسا کیوں کہا۔ میں اسے قتل کر دوں گی۔ میں اسے تمہارے سامنے ہی قتل کر دوں گی۔ نوجوان حبشن نے جذباتی ہو کر کہا۔

وہ اس وقت ہسپتال میں ہے۔ اس نے مجھے مکار، متعصب، دوغلی بھی کہا۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو اسے خیال آیا کہ اس نے انہیں یہ ہدائت نہیں دی تھی کہ پانی پینے کے بعد بالٹی پورچ میں چھوڑ دیں۔ وہ واپس آئی توٹرک سے اس نے ان لوگوں کو تبصرہ کرتے ہوئے سنا کہ وہ لڑکی کتنی بہادر اور عظیم تھی جو سچ اس کے سامنے اگل دیا۔  البتہ اس کے ساتھ اسے گھٹیا بھی بولنا چاہیئے تھا۔

بیوقوف لوگ۔  تمہیں کسی حبشی اور چھوٹے لوگوں کوان کی اوقات میں ہی رکھنا چاہیئے۔ ان کو صرف ان کا کام بتانا چاہیئے  اور بس۔ اس نے جلتے ہوئے خود کلامی کی۔ان کوآئندہ مزدوری پر  کبھی بھی نہیں رکھوں گی۔اس تبصر ے نے  اسے چیر کر رکھ دیا۔  

یہ سنتے ہی اس کی انا  کو بڑا دھچکا لگا اور وہ سر تھام کر سوچنے لگی  کہ وہ اپنے بارے میں کتنا غلط سوچتی تھی اوراپنی خامیوں کا تدارک کیسے کر سکتی ہے۔  اس  موٹی لڑکی کے انکشاف پر انہوں نے مہر ثبت کر دی تھی۔

کلائڈ ان کو اپنے چھوٹے ٹرک میں چھوڑنے چلا گیا۔ وہ اسے ہائی وے پر جاتے ہوئے دیکھنے لگی اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو وہ وہاں سے ہٹ گئی اور خود کو سنبھالا۔ اپنے کندھے سیدھے کئے اور ٹھنڈی سانس لی۔ بھدی لڑکی نے مجھے اتنا برا پیغام کیوں دیا ۔ خود سے پوچھا۔ اس نے اگرچہ بات سرگوشی میں کی تھی لیکن اس کا پیغام صاف اور واضح تھا جو اس کے کانوں میں بڑی تیزی سے مسلسل گونج رہا تھا۔ میں کیسے بیک وقت انسان  اور خنزیر ہو سکتی ہوں اس نے جھنجلا کر سوچا۔ میں اس سوچ سے کس طرح چھٹکارا حاصل کر سکتی ہوں۔  میں دوزخی ہوں تو کیسے نجات حاصل کر سکتی ہوں۔ ایک ہاتھ سے           بڑےحوض  پانی ڈال رہی تھی اور دوسری مٹھی بند تھی۔  دوسری طرف چراگاہ تھی جہاں اس کی بیس گائیں گھاس چر رہی تھیں۔  وہاں تازہ  گھا س کا ڈھیر پڑا تھا جو کلائڈ اور ایک مزدور نے کاٹ کر رکھا تھا۔اس کے آگے ان کے  سر سبز کھیت تھے  اور اس سے پرے دھول سے اٹی لکڑیاں رکھی تھیں اور اس سے آگے درختوں کا جھنڈ تھا۔ ان کے پیچھے  سورج سرخ ہو ریا تھا۔   مسز کلائڈ کے ذہن میں  بار بار لڑکی کا انکشاف ذہن میں آ رہا تھا۔

وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر سر انجام دینے والی خاتون تھی۔  میں کیسے  خنزیر ہو سکتی ہوں۔ یہاں ہر طرف غلیظ لوگ موجود ہیں لیکن میں ان جیسی نہیں۔اس لڑکی کی رائے میرے بارے صحیح نہیں۔اگر تم کو ڑا کرکٹ جیسے لوگوں کو پسند کرتی ہو تو جاؤ خودبھی ان میں مل کر ایک ہو  کر ان جیسی بن جاؤ۔حضرت                      مسیح                     ؑ                 اگر لوگوں  نے مجھے برے انسان کے روپ میں دیکھنا تھا تو تو نے مجھے ایسا کیوں نہ بنایا۔ اس نے کلائی سے پائپ ہلایا اور پانی سانپ کی طرح ہوا میں بل کھانے لگا۔۔۔

میں کن                فضول باتوں میں الجھ کر رہ گئی ہوں۔  اس نے سوچا۔ پگڈنڈی پر بیٹھ گئی اور غم غلط کرنے کے لئے بیئر پینے لگی اور  ساتھ والے جوہڑ میں تھوکتی رہی اور سوچتی رہی۔۔۔یا مجھے اس نے حبشن بنایا ہوتا ۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور          سیاہ فام نہیں بن سکتی۔  اس نے گہرے طنز سے کہا۔۔۔لیکن              اس کو اچھا بن کے   دکھانے           کے لئے میں ا  س جیسا بننے کی کوشش تو کر سکتی ہوں۔سڑک کے درمیان لیٹ کر ٹریفک جام کر سکتی ہوں۔   د نگا فساد کر سکتی ہوں۔  اس کے ذہن کی کیفیت یکا یک تبدیل ہو گئی۔ اسے تمام ماحول پر اسرار لگنے لگا۔ چراگاہ زیادہ سر سبز لگنے لگی۔ نظارے رنگ برنگے لگنے لگے۔ ہائی وے  کی لکیر رومانوی لگنے لگی۔ اسے فضا معطر لگنے لگی۔ وہ اونچی آواز میں  کہنے لگی۔۔۔ بڈھی مسے والی خنزیر۔۔۔ اس کی آواز ہر طرف پھیل گئی۔ اس کی گونج اس کے کانوں میں ٹکراتی تو اور زور سے کہتی۔ مجھے سورنی پکارو۔               مجھے بڈھی                مسے والی     خنزیر جو جہنم سے آئی ہے اور واپس جہنم جائے گی،  پکارو۔ اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ ایک  چھوٹے سے حادثے نے اسے کیا سے کیا بنا دیا تھا۔ جب وہ چیخ چیخ کر تھک گئی  تو  وہ غصے سے بولی۔۔۔ اے بھدی لڑکی آخر  تم خود کو کیا سمجھتی ہو جو مجھے ایسا کہا؟

چھوٹے ٹرک میں اسے ہائی وے پر کلائڈ نظر آیا اور  تیزی سے غائب ہو گیا۔ دور سے وہ ایک کھلونا لگ رہا تھا۔ اس نے سوچا کسی بھی لمحے بڑا ٹرالا اسے ٹکر مار کر اسے اور  بیٹھی سواریوں کو ہلاک کر سکتا تھا۔  وہ وہیں کھڑی ہو کر خالی ذہن سے       ہائی وے          دیکھتی رہی۔ اس کا جسم اکڑ گیا تھا۔ پٹھوں میں درد ہونے لگا تھا۔  کچھ دیر بعد کلائڈ کا ٹرک پھر نظر آیا ۔ اس وقت اس کا رخ الٹا  تھا۔ وہ گھر واپس آ رہا تھا۔وہ اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔ جوں جوں وہ قریب آتا گیا اس کی دگرگوں حالت میں قرار آتا گیا۔اس کی زندگی میں رونق آنے لگی۔ اس دوران  مویشی     حوض کے کونے میں جمع ہو گئے۔ بہار پراسرار طریقے سے واپس آ رہی تھی۔ سورج درختوں سے نیچے آ گیا تھا۔ وہ وہیں کھڑی رہی۔اس نے اپنا سر اٹھایا ۔ آسمان پر ایک نارنجی لکیر رہ گئی تھی۔ قرمزی رنگ چار سو پھیل رہا تھا جو تاریک ہوتا گیا۔ اس نے پادریوں کی طرح اپنا ہاتھ بلند کیا۔اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ اس نے  ایک پل کو دیکھا جس کا ایک سرا زمین پر تھا اور وہ آسمان کی  طرف      بلند ہو رہا تھا اور جنت کی طرف جارہا تھا ۔ اس نے سوچا  انسان پیدائشی طور گناہ گار پیدا ہوا ہے۔ اس سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا کفارہ ادا کرکے جنت تک رسائی حاصل کرنی چاہیئے۔

وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ میں واقعی مسے والی سورنی ہوں۔ جہنم سے آئی ہوں اور واپس جہنم جاؤں گی۔ ان میں باقی ماند ہ عمر اپنے گمراہ کن نظریات کی تلافی کروں گی۔ لڑکی کے انکشاف نے اس کی زندگی بدل ڈالی تھی۔ وہ ٹیلے سے اتری ۔ پانی کی ٹونٹی کو بند کیا اور اپنے گھر کے تاریک حصے کی طرف بڑھنے لگی۔ آس پاس جھینگروں کی آوازیں آنے لگیں۔  اسے وہ روحانی آوازیں لگیں  جو ستاروں کی روشنی میں اوپر   کا رخ کر کے شکر ادا کرہی تھیں۔اس نے عہد کر لیا کہ وہ اپنی غلطیوں کا پراشچت کرے گی۔

 

تجزیہ

فلینری  'او          '               کانر   نے اپنے اس افسانے      انکشاف          (ریویلیشن)  میں ہیروئن مسز کلائڈ کی روحانی بے خبری کو اجاگر کیا ہے۔ دنیاوی معاملات  کو منصفانہ طور پر ادا کرنے کے باوجود وہ ایسے عقائد رکھتی ہے جو مذہب کے بنیادی اصولوں سے انحراف  کرتے ہیں۔ نسلی تعصب، خوشامد پرستی، خود پرستی، نر گسیت اور شیخی خوری  اس کی شخصیت کا حصہ ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر ہے۔  

اس نے اپنے خانگی پس منظر میں یہ افسانہ لکھا۔ اس میں اس نے امریکیوں کے رہن سہن کے بارے میں بتایا ہے۔  اس میں اس نے بتایا ہے کہ امریکی ایک متعصب قوم ہے جن میں نسلی اور مذہبی تعصب کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔دوسروں کے بو د و باش اور انداز معاشرت              پر نکتہ چینی کرتاہے۔ان کو برے برے القابات دیتا ہے۔

امریکہ نے اسے وہ کردار مہیا کئے جو اسے اس افسانے میں درکار تھے۔ اس نے انہیں اجاگر کیا۔ اس میں بنیادی کردار ہی نسلی اور معاشرتی تعصب کا شکار ہے۔ مختلف طبقات کے بیا نات اور ان کی بھانت بھانت  بے وقوفانہ تشریح             اس کے     کیتھولک عقائد  کے خلاف  ہے۔ ہیروئن خود کو اعلیٰ حیثیت   کی انسان سمجھتی ہے۔ اپنی اقدار کو دوسروں سے بر تر سمجھتی ہے۔ خود کو مذہبی، سخی اور ہنس مکھ سمجھتی ہے۔دوسروں کو اپنے سے حقیر  سمجھتی       ہے۔ حبشی، سفید فام اجڈ اور نوعمر کیل مہا سوں والی بھدی لڑکی وغیرہ              کی حیثیت اس کے نزدیک حشرات الا رض جیسی ہے۔اس نے بتایا       کہ عام امریکیوں          میں ان کے بارے میں ایسے ہی تصورات پائے جاتے ہیں۔

فلینری اس افسانے  کا انجام غمناک بناتی ہے جو  پلاٹ کو مزید جاندار بنا دیتاہے۔ اس سے کہانی زیادہ قابل یقین ہو جاتی ہے۔ لڑکی کا غیر متوقع رویہ        اس کے لئے حیران کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔  اس نے  بھدی لڑکی  کو  پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی ایسی بات کہی ہوتی ہے جس سے وہ چڑ کر اس سے نفرت کرے لیکن اس کی شروع سے لے          کر آخر تک  ناپسندیدگی  اس کی سمجھ سے بالا تر ہے۔

    فلینری   اوائل بلوغت سے ایک مہلک بیماری میں مبتلا  ہو گئی تھی۔ وہ عمر بھر اس سے جنگ کر رہی  تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ  وہ ا پنے قلم میں  افسردگی اور شخصیت کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سے اس کی زندگی کی تلخیوں کا تنقیہ نفس ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی کا گمبھیر پن کی تلخی کو ذہن سے نکالنے کا  بند و بست ہو جاتا ہے۔

فلینری نے اس افسانے میں مذہب کی اہمیت بیان کی ہے۔ رابرٹ میکاون کےنزدیک  اس نے اپنے کیتھولک  عقائد کو اپنی کتابوں میں بہت اہمیت دی ہے۔ وہ اس کی مبلغ بھی تھی۔ وہ اپنے مذہب  کے مطابق سزا اور جزا پر یقین رکھتی تھی     کہ اعتقاد انسانی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک نصیب، تقدیر اور قسمت آفاقی ہیں۔ ان پر کسی انسان کا کوئی اختیار نہیں۔اس کو اپنے نظریے پھیلاتے وقت اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کہانی کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ معاشرتی حقائق کو سامنے رکھتی ہے۔ وہ پس منظر ایک کہانی کے کے قابل یقین پلاٹ کے ساتھ جس میں کردار سازی ایسے کی جاتی ہے  کہ وہ حقیقت کے قریب ترین دکھائی دے۔

انکشاف (ریویلیشن)میں میں موضوع کو فلینری نے   اس انداز میں متعارف کروایا گیا ہے کہ قاری سماجی            تفاوت              سے کشمکش کو             ایسے بڑھاوا دیتی  ہے کہ افسردگی پیدا   ہو پھر اسے ختم کرنے میں مذہب کا سہارا استعمال کرتی ہے۔ سماجی درجہ بندی کے تحت اعلیٰ ، متوسط، زیریں                اور ان کے وصائف بیان کرنا  نسلی تعصب ہے جو نفرت  پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح خوبصورتی اور بدصورتی کے معیار قائم کر کے بھی متعصبانہ رویہ اپنایا ہے۔  دوسروں پر تنقید اور اعتراض بھی منفی رویہ پیدا کرتے ہیں۔ ہیروئن کی ڈینگیں بھی  ناپسندیدہ عمل ہے جس کا لڑکی برملا اظہار کرتی ہے  اور منفی رد عمل دکھاتی ہے۔ کہانی کےآخر میں اسے احساس دلاتی ہے کہ وہ جذبات سفلی ہیں۔

فلینری  تمام کہانی میں تسلسل سے ہر لمحہ  اپنی باتوں سے اور واقعات سے تصادم کی تحریک اور تخلیق پیدا کرتی        رہتی ہے۔ وہ اپنے اس مقصد میں کہانی کے آغاز سے اختتام تک سرگرم رہتی ہے۔ وہ دیگر کرداروں کا بھی مشاہدہ کرتی رہتی ہے۔ اس دوران   شامل افراد اور اپنی گفتگو  میں مخصوص لوگوں کے لئے مخاصمانہ رویہ ظاہر کرنے کے بعد اخلاقیات کا درس دیتی ہے۔

اس کہانی میں او کانر نے کرداروں کو  کم عقل بنا کر پیش کیا ہے جو امریکیوں کا عمومی رویہ  ظاہر کرتا ہے۔ وہ انتظار گاہ میں مریضوں کی تفصیل بیان کرکے ان کی شخصیت اور بیماریوں کی نوعیت بیان کرنا چاہتی ہے۔ تال میل میں اپنی ذات کو برتر اور دیگر تمام لوگوں کو کمتر ثابت کرتی ہے ۔اس  میں وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ سب لوگ اس کی آرا سے متفق نہیں۔

ایک اور بات جو اس میں واضح ہے                   وہ یہ کہ وہ  تمام کہانی میں سب سے زیادہ سرگرم نظر آتی ہے ۔ دوسروں کو اپنی باتوں میں مصروف رکھتی ہے۔ اس میں مسز کلائڈ نمایاں ہے۔ وہ اپنی شخصیت اور کردار کو دوسروں کے لئے مثالی بنا کر پیش کرتی ہے۔  دوستانہ گفتگو  سے وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ امریکی             منہ بند کرکے نہیں بیٹھتے بلکہ  ایک دوسرے  سے تال میل رکھنا            پسند کرتے ہیں۔  اس نے تمام کہانی میں جو رویہ اپنایا ہے اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ امریکی عوام               محفلوں       میں بحث و مباحثہ  کرنا ان کی عادت ہے۔

اس کہانی میں اس نے علامتیت  بھی پیش کی ہے۔ لڑکی کی ناپسندیدگی، تمام وقت اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ،  نفرت میں بتدریج          اضافہ ہونا اور آتش فشاں کی طرح بھٹ جانا   سب علامتی ہیں۔  ڈاکٹر کے کلینک میں  وہاں  کم ذہن سے اعلیٰ ذہانت والے لوگ تھے۔ ان سب کے خیالات پیش کئے گئے ہیں ۔  ہر ایک اپنی سماجی حیثیت اور عقل کے حساب سے رائے دیتا ہے۔ چہرے کے تاثرات،  ناگوار       ، نفرت،    پھیکی ہنسی، غرانا، قہقہے وغیرہ                         ادبی علامتیں ہیں۔اس کی یہ  تلنیکیں    ادبی    لحاظ سے اہم شمار ہوتی ہیں۔

یہ کہانی            ' او                     'کانر              کی کامیابی کا دروازہ             ہے۔ اس نے اس دروازے  سے اپنے اعتقادات ،            ایمان کو دوسروں            کے    سامنے اس انداز میں پیش کیا کہ ان کو بھی ترغیب ملے اور اس اعتقاد پر عمل کرنے لگ جائیں ۔      اس نے  انسانیت کے بارے میں اعتقادات اور عدم اعتقادات ،    ایمان کو دوسروں  کے سامنے اس انداز میں پیش کیا کہ قارئین کو بھی ترغیب ملے اور اس اعتقاد پر عمل کرنے لگ جائیں۔ اس نے انسانیت کے بارے میں اعتقادات اور عدم اعتقادات غیر یقینی اور وہ اسرار جس کی بنیاد پر وہ ان پر قائم رہتے ہیں، بیان کئے۔ وہ کئی طریقوں سے اس بات سے متاثر ہوئی۔       اپنی پوری زندگی میں    اور یہ اس کی ادبی کہانیاں اور تصانیف ہی تھیں جن کی بدولت نا قدین کا منہ بند کیا اور اپنے اعتقادات پر ڈٹی رہی۔

اس کہانی نے اس کے اعتقادات کو پیش کیا ۔ اس نے کردار ، متن اور کہانی کو اس انداز میں بڑے اعتماد سے پیش کیا جو اس کے ایمان کو آگے بڑھانے میں        موزوں تھے۔

 

Mary Flannery ‘O ‘ Connor

1925-1964 (USA)

 

حالات زندگی

 

میری فلینری      ' او              '     کانر              '                          25 مارچ                   1925             کو        امریکی ریاست   جارجیا         کے شہر                   '                سواناہ                      '              میں پیدا ہوئی۔وہ اپنے والدین                   ایڈورڈ                               فرانسس '          او                '                کانر                 اور                      '                       ریجینا                      کلائن            '                          کی اکلوتی اولاد تھی۔اس کے والد ین متمول خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ملیڈگیج  ویل(  Milledgeville) میں زرعی  اراضی اور  فارم ہاؤس تھا۔  ان کے ساتھ اس کی کنواری خالہ  ' کیٹی       '       بھی رہتی تھی۔   اس کا         والد جائیداد کی   معیار اور تشخیص   (اپریزل   )کے لئے  ونسنٹ رہا کرتا تھا  لیکن ہفتے کے آخری دو دن گھر گزارا کرتا تھا۔ چھ سال کی عمر میں اس نے سکول جانا شروع کیا۔ پہلے سینٹ ونسٹن گرامر سکول          گئی ۔  پانچویں میں وہ سیکرڈ ہارٹ گرامر سکول  آف گرلز            چلی گئی۔ دو سال وہاں رہی اور  تیرہ سال کی عمر میں  1938 میں ایک تجرباتی پائلٹ سکول پی باڈی ہائی سکول   میں داخلہ لے لیا جو مصوری  اور فنون لطیفہ    کی تعلیم میں بے مثال تھا۔           جہاں اس کے فنون کے شوق        کو  فروغ ملا۔           وہاں وہ آرٹ ایڈیٹر رہی   اور کوٹ کے کالروں کے ریشمی ڈیزائن  ( لیپل )                 میں ماہر ہوگئی اور انہیں بنا کر بازار میں فروخت کرنے لگی۔   جب وہ تیرہ سال کی تھی تو اس کی صحت    تیزی سے  بگڑنے لگی اور اسے ایک مہلک بیماری                '                   لیو پس            '           نے آن لیا۔

اس کے والد کی خواہش تھی کہ وہ  بیلے ڈانسر بنے  لیکن وہ نہ مانی۔ ایڈورڈ 1941 میں فوت ہو گیا ۔   اس کے بعد اس نےجارجیا سٹیٹ کالج  سے               1945 میں گریجوایشن کی۔ وہ  کالج کی تمام تصانیف میں کارٹون بناتی تھی۔ اسے                                          '                آئیؤ     ا                  رائٹرز             ورکشاپ      '                   میں وظیفہ ملا تو وہ وہاں چلی گئی۔ 1947  میں اس نے وہاں سے  فائن آرٹس میں ایم۔اے  (ایم۔ ایف۔ اے   ) کیا اور  اسے          'آئیؤ فکش ایواڈ                     'سے نوازا گیا۔

وہ پکی  کیتھولک تھی۔باقاعدگی سے عبادات                کیا  کرتی تھی۔ مذہبی اقدار کے فروغ میں مدد دی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی تھی  کہ مذہب پر ایمان قوت مشاہدہ میں اضافہ کرتا ہے۔

وہ ایک مہلک مرض میں مبتلا تھی ۔ اس کے تمام بال جھڑ گئے۔ وہ روزانہ  خود پر انجیکشن لگاتی تھی۔ بیماری سے لڑتے ہوئے وہ 39 سال کی عمر میں 1964 میں  فوت ہوگئی اور                             '                         میلیڈ                       گل ویل                          اندلوسیا                      '                                 میں دفن ہے۔

فلینری کا یہ افسانہ(Relevation)                       ْ                       ریلیویشن               '             Everything that Rise Must Converge              سے لیا گیا ہے۔

 

اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Works

Wise  Blood ;    The Complete Stories    ;  The Cartoons  ;    The Violent    Bear It  Away ;    Mystery and Manners :    Occasional Prose ; The Habitat of Being    :   Letters of           Flannery ‘O’ Conner  ; A Prayer Journal ;  A Good Man Is Hard To Find ; Everything that Rise Must Converge.

    Awards

Iowa Fiction Award ( 1947 ) ;  Henry Award   (1953)

The National Bank Award  for Fiction  ( 1964)


Popular posts from this blog