بس اب اور نہیں مورے سیاّں No Place for You My Love By Eudra Welty (1909-2001) U.S.A












بس اب اور نہیں مورے سیاّں


No Place for You My Love 
  
  By
 
Eudra Welty (1909-2001) 

U.S.A

مترجم:پروفیسر غلام محی الدین (کینیڈا)
 

وہ انڈیانا کے شہر نیو آرلینز میں ایک ریستوران کے ہال میں بیٹھا تھا۔موسیقی کی مقبول دھن بج رہی تھی۔باہر سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں ہُو کا عالم تھا۔یوں تو اِس کا تجارت کے سلسلے میں یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن اِس باراِسے بیوی سے تو تکرار کے باعث آنا پڑا تھا۔ وہ ایک بزنس مین تھا اور تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اکثر دوسرے شہروں میں جاتا رہتا تھا۔ اِس کی بیوی اِس کی وفا پر شک کرتی تھی جبکہ وہ ہمیشہ اُس سے انکارکیا کرتا تھا۔ اِ س کی بیوی نے اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کی ملن پارٹی رکھی تھی لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ انہیں ملے اس لئے اس نے نیو آرلینز کے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کرا کے اِسے روانہ کر دیا۔
           
اپنی بیوی کے اِس فیصلے سے اِس کا خون کھول رہاتھا۔ اپنی تضحیک محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اُس ملن پارٹی میں جانے کیا گل کھلانے والی تھی، اِسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی سُبکی سمیٹ کربادل نخواستہ گھر سے یہاں چلا آیا تھا۔ ان کی شادی کو چار سال ہوئے تھے۔ کوئی بچہ نہیں تھا مگر وہ مطمئن تھا اور ازدواجی زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ اپنے حساب سے وہ روایتی خاوند کا کردار خوش اسلوبی سے نبھا رہا تھا۔ اپنی بیوی کو چاہتا تھا اور اِس بات کو کہ وہ گھر سے چلا جائے، کو ناک کا مسئلہ بنا کر اپنی ازدواجی زندگی کو داؤ پر نہیں لگا نا چاہتا تھا۔

وہ انہیں سوچوں میں گم وقت بیتانے کا پروگرام سوچ رہاتھا کہ میز کے دوسرے کنارے پر اِسے ایک جوان اور حسین خاتون نظر آئی جو ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز بیٹھی تھی۔اس نے مزید جائزہ لیا تو اس کے چہرے،بشرے، لباس اور حلئے سے اسے ایسا لگا کہ وہ نیوآرلینزسے نہیں تھی۔ وہ گرم علاقوں کی آب و ہوا سے غیر مانوس لگتی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ ایسے علاقے سے آئی تھی جہاں شدید سردی اور برفباری ہوتی تھی۔اِس کی چھٹی حس نے اسے آگاہ کیا کہ وہ یا تو شادی شدہ تھی یا پھر اس کا کسی کے ساتھ چکر چل رہا تھا۔
           
 اُس حسینہ کو دیکھ کر اِس کا دل مچل اٹھا۔ اِس نے سوچا کہ اگر اُس خاتون کے ساتھ کچھ وقت گزار لیا جائے تو اِس کا تناؤ ختم یا کم ہو سکتا تھا۔وہ  اکیلی بیٹھی تھی۔ اُس کے چہرے سے بوریت ٹپک رہی تھی۔ سوچا کہ کیوں نہ اُس سے بات چیت کر کے وقت کو دھکا دیا جائے۔اس طرح سے دل بہل جائے گا۔۔ اس لمحے کوئی ساتھی بھی چاہئے تھا۔
             
وہ نازنین ٹھوڈی اپنے بازو پر ٹکائے،کہنی میز پر جمائے پھولوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھی۔ارد گرد کی رونق سے اسے ذرا بھر بھی دلچسپی نہیں تھی۔اس نے جو ہیٹ پہنا ہوا تھا، موسم اور علاقے کی مناسبت سے غیر موزوں تھا۔ اِسے خواتین کے فیشن میں کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی پھر بھی اِسے اُس خاتون کا ہیٹ عجیب لگ رہا تھاجب کہ اُس کی دیگرتمام اشیاء پسند آئیں۔ اُس کی ہر ادا دلربانہ تھی۔اُس کی نسوانیت نے اِسے مسحور کر دیا تھا اور دل اُس کی طرف کھچا چلا جا رہاتھا۔خاتون کے چھوٹے اور مربع نما ہاتھ بہت نرم اور پرکشش دِکھ رہے تھے۔ اُس کے ہیٹ اور جسم کا سایہ پھولوں پر پڑرہاتھا۔ کچھ دیر بعد اُس نے کہنی میز سے اٹھائی تو اُس کے جسمانی نشیب و فراز اور ہیٹ کی پوزیشن بھی تبدیل ہو گئی اور اُن کا سایہ بھی۔ وہ اٹھی اور فریش ہونے کے لئے ریسٹ روم چلی گئی۔ منہ ہاتھ دھو کر آئینہ دیکھا اور اپنی زلفیں سنواریں ِ، ترچھے انداز میں ہیٹ کئے پھر اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی۔
           
آج بہت حبس ہے،اِس نے  ہمت کرکے کہا۔
           
ہاں، میں اِس قسم کی گرمی کی عادی نہیں اور اِس مقام پر پہلی بار آئی ہوں۔میں یہاں یاس و حزیمت محسوس کر رہی ہوں،خاتون کے لہجے میں شمالی علاقے کی جھلک تھی۔
           
صحیح َ کہا۔ یہاں تمام ملک سے زیادہ گرمی پڑتی ہے۔
           
میں دیکھ رہی ہوں اور محسوس بھی کر رہی ہوں۔
           
اس قسم کی گرمی میں لمبی لمبی سیروں پر چلا جاتا ہوں۔ کھلی ہوا میں بڑا سکون ملتا ہے۔
میرا مزاج بھی کچھ  ایسا ہی ہے۔ ہجوم سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے، بات چیت شروع ہو گئی۔
           
 وہ تیس بتیس سال کی تھی اور غضب ڈھا رہی تھی۔ اُس کے تاثرات سے ایسا لگتا تھا کہ وہ علاقے کو جاننے کے لئے متجسس تھی۔ 

خاتون نے گھڑیال کی طرف دیکھا، دوپہر کے بارہ بج کر چند منٹ ہوئے تھے۔ وہ اِس کی طرف دیکھ کر مسکرائی، وہ بھی جواباً مسکرا دیا۔ اُس نے اِسکے چہرے پر نظر دوڑائی تو وسطی یورپی باشندوں کی طرح کا سا حلیہ لگا جومعصومانہ تھا۔
           
 سناہے نیو اورلینزکے ساحل بہت خوبصورت ہیں؟
           
مجھے تو نہیں لگتے۔ویسے یہاں کے نواحی علاقے مچھلیوں کے شکار کے لئے مشہور ہیں۔مجھے گاڑی پر لمبی سیر پسند ہے۔ کھلی فضا میں سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔
           
یہاں سے مال کتنی دور ہے؟ اُس نے پوچھا۔
           
گلی کے نکڑپر گاڑی پارک ہوئی تھی۔ جولائی میں دوپہرکی شدیدگرمی میں لوگ کم سے کم کپڑے پہنتے تھے۔ کڑی دھوپ میں بالائے بنفشی تابناک شعائیں بے حد خطرناک تھیں جو جسم کو  جھلسا کر جلد کے کینسر کا باعث بن سکتی تھیں۔ اس لئے ذی روح کا نام نشان تک نہ تھا۔ گلیاں اور سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔
           
اس کے کندھے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے خاتون نے اپنا ہیٹ سر پر مختلف انداز میں لے لیا۔ہیٹ کا زاویہ بدلنے سے اس کا حسن مزید نکھر کر سامنے آگیا۔
           
چلتے چلتے وہ بولا، میں لمبی ڈرائیو پر جا رہا ہوں۔ میں اکیلا گاڑی چلاتا ہوں تو مجھے نیند آ جاتی ہے۔تم ساتھ چلو تو میری بیوی  یقینا بیوہ ہونے سے بچ جائے گی۔ تم شہر کے گرد ونواح بھی دیکھ پاؤ گی۔نیو آرلینز کے بارے میں جاننے کو کچھ ملے گا۔اس نے یہ بات بڑے اعتماد اور متانت سے کی تووہ انکار نہ کر سکی۔
           
 وہ خاموشی سے پگڈنڈی پرچلتے رہے۔ارد گرد بلند عمارات تھیں۔بندہ بشر نہ ہونے کی بدولت وہ جگہ دہشت زدہ لگ رہی تھی۔ایسا لگتاتھا  جیسے ویرانی میں درندے چھپ کر بیٹھے تھے۔
           
یہاں کا موسم گرما ناقابل برداشت ہے۔اس سے زیادہ تکلیف دہ موسم امریکہ کے کسی حصے میں نہیں پایا جاتا۔
           
یہ تو لگ رہاہے، حسینہ بولی۔
           
وہ دونوں گاڑی تک پہنچ گئے جو نئے ماڈل کی فورڈ تھی۔گاڑی کی چھت ترپال کی تھی اور حسب ضرورت کھل اور بند ہوسکتی تھی۔ اِس نے چھت کھلی چھوڑی ہوئی تھی۔
           
میں نے یہ کار کرائے پر لے رکھی ہے۔پارک کرتے ہوئے سکیورٹی گارڈ نے کہا تھاکہ اس کی چھت چڑھادو۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی تو اس نے مجھے احمق قرار دیا۔میں نے چھت اس لئے کھولی رکھی تھی کہ ٹھنڈی رہے۔
           
 اِس نے گاڑی آگے بڑھائی۔ ہر مقام پر رہنمائی کے لئے بورڈوں پر اشارے لگائے گئے تھے جن کی مدد سے کوئی اجنبی بھی با آسانی منزل مقصود پر پہنچ سکتا تھا۔ سڑکیں بھول بھلیوں والی، تنگ اور یک طرفہ تھیں۔ دونوں سمتوں کی عمارات بلند و بالا تھیں۔ جن میں ہر اپارٹمنٹ کے آگے بالکونی تھی۔ اگر محتاط انداز میں آگے بڑھا جا تا تو ہی بغیر حادثے کے آگے بڑھا جاسکتا تھا۔اور اگرلاپروائی سے کوئی اشارہ مس ہو جاتا تو کافی اضافی فاصلہ طے کر کے مڑنا پڑتا تھا۔اس لئے وہ چوکنا ہو کر آگے بڑ ھ رہا تھا۔جا بجا موسمی پھول کھلکھلا رہے تھے۔ کئی مقامات پر تو مجسمے بھی نصب تھے۔ وہ ان کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔
           
ان ونوں گاڑی اور فون میں جی۔پی۔ایس نقشوں کی سہولت میسر نہیں تھی اور سفر کے لئے کاغذی نقشے استعمال کئے جاتے تھے۔ اس نے رہنمائی کے لئے کار چلاتے ہوئے نقشہ اپنے آگے پھیلایا اور انگلی اس پر جما دی تا کہ سمت کا تعین کیا جا سکے۔وہ چوراہا جس پر’اریبی‘کا نشان تھا، وہاں سے اسے سیدھا نکلنا تھا اوروہاں پہنچنے کے لئے اسے پیچیدہ گلیوں سے ہوتے ہوئے پہلے شو شائن جانا تھا۔ تنگ سڑک کے ایک طرف ایک حبشی بیٹھا تھا۔ اس نے انہیں دیکھ کر ہاتھ لہرا کر الوداع کہا۔خاتون نے بھی ہاتھ لہرا کراس کا جواب دیا۔
           
 ہائی وے تک پہنچنے کے لئے مزید کئی ذیلی سڑکیں تھیں جن میں موسمی کیڑے مکوڑوں کی بھرمار تھی۔جوں توں کر کے وہ ہائی وے پہنچے۔ سڑک کے ایک طرف’مسی سیپی‘دریا جوبن پر بہہ تھا۔یہ سمندر نما دریا تھا جہاں سے امریکہ تجا رتی اور جنگی سازو سامان کی ترسیل کرتا تھا۔ نیوآرلینز انڈیانا سٹیٹ کی اہم ترین بندرگاہ تھی۔ اس علاقے پرچالیس سال تک ہسپانیہ مسلط رہا پھر برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔اسے ایک امریکی جرنیل اینڈریو جیکسن جو بعد میں امریکی صدر بھی منتخب ہوا،نے 1812 میں برطانیہ سے آزاد کروایا تھا۔اس جنگ کی خصوصیت یہ تھی کہ فرانسیسی ڈاکو  ’لیفیٹ‘اور اس کے ساتھیوں نے امریکی افواج کے شانہ بشانہ لڑکربرطانیہ کو شکست ِفاش دی تھی۔ بعد میں ان کے ناموں پر پارک اور شہر آباد ہو گئے تھے۔
           
ہائی وے کے ایک طرف دریا اور دوسری طرف جنگل اور کالے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔ وہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاتھا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، نیو آرلینزسے فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ننگ دھڑنگ حبشی بچے پارکوں میں تمازت کی پرواہ کئے بغیر کھیل کود رہے تھے۔ بعض آبادیوں میں نوجوان،بوڑھے اور بزرگ کرسیاں بچھائے سائے تلے بیٹھے نظر آرہے تھے۔ جنگلی جانور بلا خوف وخطر ہائی وے عبور کر رہے تھے۔ ہر جگہ مکھیاں مچھر اور حشرات الارض بہتات میں تھے۔
           
وہ نیو آرلینز سے کئی گھنٹے آگے آگئے تھے اور اپنی روانی میں گاڑی دوڑاتے جا رہے تھے۔ ارد گرد نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سفر کے دور ان ان میں بہت کم گفتگو ہوئی تھی لیکن جس اطمینان سے وہ اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھی تھ وہ اس کے لئے تسلی بخش احساس تھا۔ ایک جگہ پہنچے تو لاکھوں کی تعداد میں مچھر دکھائی دئیے۔اس نے خاتون کو لوشن دیا اور کہا کہ ملیریا سے بچاؤ کے لئے اپنے جسم پر مل لے۔پھر اِسے  خاتون پر پیار آیا اوربے اختیاری میں اُس کا منہ چوم لیا۔خاتون نے کوئی مزاحمت نہ کی۔
           
وہ تیزی سے آگے بڑھتے گئے۔ پھول، جنگل اور مفلس کالوں کی بستیاں آتی جاتی گئیں۔اس دوران اسے اونگھ آگئی۔ خاتون نے اسے کہنی مار کر جگایا۔ سورج سہ پہر سے بھی نیچے چلا گیا تھا۔ راستے میں مانجھی دن بھر کی محنت مزدوری کے بعد اپنے اپنے گھروں کولوٹ رہے تھے۔ کچھ نے گندھک رنگ کے لباس زیب تن کئے ہوئے تھے توکچھ نے شکار کی ہوئی مچھلیوں کے ٹوکرے سر پر اٹھا رکھے تھے۔ کچھ دریا میں چپو چلاتے ہوئے ایک طرف کو جارہے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ بندرگاہ قریب ہے۔ ذرا سا آگے گئے تو ایک بحری بیڑا نظر آیا تو اِس نے جزیرے پر جانے کا ارادہ کرلیا۔ ساحل پر درجنوں ٹرک کھڑے تھے جواُس بحری بیڑے پر سوار ہو رہے تھے۔ مزدور بھی اس میں سوار ہورہے تھے اور اِس کی کار بھی ان میں شامل ہو گئی۔عرشے پر ٹرکوں کے بیچ جگہ پر جوان مانجھی ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ سواریوں میں سیاح بھی شامل تھے۔
انہوں نے ہٹو بچو، ہٹو بچو کا شور سنا تو انہوں نے دیکھا کہ چند منچلے نوجوان ایک مگر مچھ کو زنجیروں سے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے عرشے پر لارہے تھے۔وہ جھینگوں سے بھرے ٹرکوں کی درمیانی تنگ جگہ سے اسے اندر لا رہے تھے۔ ایک بانکا تو اس کی پیٹھ پر سوارتھا، دو اسے گھسیٹ رہے تھے اور ایک اس کی دم کے ارد گرد منڈلا رہاتھا اور مسافروں کو ہٹنے کی تنبیہ کررہا تھا۔۔ اسے دیکھ کر دیگر مانجھی بھی جوش میں آگئے اور خوشی سے ناچنے لگے۔ کپتان خوشی سے ہارن بجانے لگا۔ایک میلے کا سماں بندھ گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں کو دعوت دے رہے تھے کہ وہ بھی اسے   چھو ئیں اور سواری کر یں۔ وہ بے خوف و خطر یہ خطرناک کھیل کھیل رہے تھے۔مگر مچھ اتنے قریب دیکھ کر خاتون ڈر گئی اور بھاگ کر بیڑے کی بالائی منزل پر پہنچ گئی اور اوپر سے نیچے کا نظارہ دیکھنے لگی۔ تیز ہوا سے اس کا ہیٹ اڑ کر عرشے پر جا گرا۔ ایک سیاح نے پھرتی سے اس ہیٹ کو اٹھایا اور سیڑھیاں چڑھ کر خاتون کو پکڑا دیا۔اس نے شکریہ ادا کیا۔ وہ عرشے پر ہی کھڑا رہا۔پاس کھڑے دو ساتھی آپس میں خاتون پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک بڑے اعتماد سے کہہ رہا تھا کہ وہ لیفیٹ سے آئی ہے جبکہ دوسر ا اسے مشہور جگہ سیراکیوس کی سمجھ رہا تھا جو نیویارک  ریاست کا ایک نہایت اہم تجا رتی مرکز اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کا شہر تھا۔اِس نے ان کے تبصروں پر دھیان نہ دیا۔ اِسے اُن سے کیا  لینا دینا، وہ تو اُس کے سیاہ ریشمی بالوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے، بیگ بازو میں جھولتے ہوئے اور ہیٹ ہاتھ میں پکڑے ہوئے دلکش نظارے میں کھویا ہو ا تھا جبکہ وہ پلکیں جھپکائے بغیر مگرمچھ دیکھنے میں محو تھی۔بحری بیڑا دوسرے جزیرے پر جا کر لنگر انداز ہو گیا۔ تمام مسافروں کے اترنے کے بعد انہوں نے مگر مچھ کو اتارا۔وہ اسے چڑیا گھر کو بیچ کر معقول رقم حاصل کرنا چاہتے تھے۔
           
وہ رکے بغیر آگے چل پڑے۔ راستے بھر جنگلی پھول، کٹے ہوئے درخت، سفید اور گلابی گھونگھوں اور سیپیوں کے ڈھیر، لکڑی کے کیبن، دریامیں آتی جاتی کشتیاں، بڑی مرغابیاں، بطخیں ِ، ہنس اور ننگ دھڑنگ بچے،بوڑھے مرد اور خواتین دکھائی دیتی رہیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مناظر پہلو میں بیٹھی خاتون کی دلکشی میں کھو چکے تھے۔

راستے میں گرجا گھر کا نشان آیا تو اس نے کچھ دیر وہاں رک کرسستانے کا سوچا اور گاڑی ادھر موڑ دی۔جب وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں قبرستان بھی تھا۔ وہ گاڑی سے اترے تو مچھروں اور مکھیوں کے لشکرنے ان پر حملہ کر دیا۔وہاں کھلے صحن میں پادری کا گاؤن تا ر پر لٹکا ہو ا نظر آیا۔اس کی رہائش کے دروازے کی دہلیز پر ایک بڑی مچھلی پڑی تھی۔ پادری نے اپنی کھڑکی سے انہیں دیکھا تو باہر آیا۔ان کو غور سے دیکھا۔ اپنا گاؤن اتارا، مچھلی اٹھائی اوربغیر کچھ کہے اندر چلا گیا۔  
             
میرے ذہن میں کوئی فتور تھا جو میں تمہارے ساتھ بے کیف سفرپر چلی آئی، خاتون بولی۔
           
اِس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے قریب کیا۔ گلے لگا کر اُس کی گدی کو چوما اور کہا کہ ان باتوں کو چھوڑو اوران لمحات کو یادگار بناؤ۔ کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں اورپھر واپس چلتے ہیں۔
اِس نے نقشہ دیکھا اور نزدیک ترین ریستوران کا رخ کیا۔ اندھیرا پھیل رہاتھا۔ چند میل دور ایک گرجا گھر کے سامنے نیو سائن دکھائی دیا جس پر 'بابا کا دستر خوان' لکھا تھا۔ وہ ایک بڑا سا ڈھابا تھا جو ابھی زیر تعمیر تھا۔اس پر رنگ و روغن نہیں ہوا تھا۔باہر سے وہ بہت حد تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن اندرونی حصہ پوری طرح جگمگا رہا تھا۔سامنے والے گرجا گھر کی ہلکی سی روشنی بیرونی تاریکی کو کم کررہی تھی۔
           
 اس ڈھابے میں ایک بہت بڑا ہال تھا جس کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔اس کے ایک طرف پرانی طرز کی ایسی کھیلیں رکھی گئی تھیں جن میں کرنسی ڈال کر کھیلا جاتا تھا۔ایک حصے میں گاہکوں کے لئے آٹھ میز لگائے گئے تھے اور ہر میز پر چار چار کرسیاں تھیں۔ ایک کونے میں بار تھا اور سٹول لگائے گئے تھے۔ ڈیسک کے ایک طرف جیوک باکس پڑا تھا جس پر دھنیں بج رہی تھیں۔درمیان میں ہال خالی رکھا گیا تھا جسے ڈانس فلور کے طور پر استعما ل کیا جاتا تھا۔ بجلی کی وائر نگ خطرناک انداز میں کی گئی تھی۔لکڑی کی بیلوں سے تاریں باندھ کر جا بجاقمقمے لگائے گئے تھے جس سے ہال کافی روشن تھا۔ایک میز پر ایک شخص بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ وہ اخبار نچڑا ہوا تھا جو اس نے اپنی پتلون کی جیب سے نکالا تھا۔ دوسرے میز پر چار لوگ شرط لگا کر تاش کھیل رہے تھے۔کونے میں ایک کتا پالتی مارے بیٹھا خاموشی سے ان کا منہ تک رہا تھا۔
           
وہ بار پر گئے اور سٹولوں پرجا کر بیٹھ گئے۔انہوں نے سرسری نگاہ سے ہال کا جائزہ لیا تو دیواروں پر اخبارات کے تراشے، لطیفے، کارٹون، بارمالک کے دوستوں کے فوٹو چسپاں کئے گئے تھے۔ان کے نتھنوں میں لونگ اور لہسن کے تڑکے کی خوشبوگھسی۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا کہ وہ کہاں سے آ رہی ہے۔ با ر کی ڈیسک کے کونے والا دروازہ کھلا اور ایک لڑکا برآمد ہوکر کاؤنٹر پر آگیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک موٹی سی خاتو ن جس کے سر پر روپہلی بال تھے، ایک بہت بڑے پتیلے میں جو چولہے پر رکھا تھا،ڈوئی چلا رہی تھی۔ دیگر چولہوں پر بھی کئی بڑے بڑے پتیلے پڑے تھے۔اس راستے سے گاہکوں کے لئے سامان خورد ونوش لایا لے جایا جاتا تھا۔ درورازہ کھلنے پرکچن کا پورا منظر دکھائی دیتا تھا۔
             
 نوجوان نے جوڑے کو مطلع کیا کہ یخ بستہ بیئر اور لذیذ کھا نے فوری دستیاب ہیں۔ مخصوص ڈش درکار ہو تو بالکل تازہ بنا کر پیش کی جائے گی۔
           
شکریہ۔میرے لئے سینڈوچ اور بیئر۔تم کیا لو گی؟
           
سینڈوچ۔ خاتون نے کہا۔

لڑکا آرڈر لے کر چلا گیا تو خاتون نے سوچا کہ اسے پانی کے لئے بھی کہنا چاہئے تھا۔
ہال میں گانے کی آواز کے علاوہ خاموشی تھی۔کبھی کبھار دور سے بھیڑیے یا کتے کی گہر ی سانسوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔اتنے میں دو بچے جو شکل و شباہت سے قریبی رشتہ دار لگتے تھے، صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بیرونی دروازے کو دھڑام سے کھول کر اندر داخل ہوئے، جوئے والی میز پر گئے اور بے باکی سے اس کے ارد گرد چکر لگانے لگے اور اس پر بیٹھے لوگوں کی جیبیں ٹٹولتے ہوئے کہا۔
           
کولڈ ڈرنک کے لئے پیسے دو۔۔۔کولڈڈرنک کے لئے پیسے دو۔
             
جاؤ اور ہمیں کھیلنے دو۔ابھی ہماری گیم چل رہی ہے۔
           
وہ وہاں سے ٹلے تو کتے کو گھیر لیااور اُس پر چلانے لگے۔ کتا اٹھا اور بار کے کاؤنٹر کے ڈھکن کے نیچے سے کچن کی طرف گیا اور واپس آکر سٹول کے پاس بیٹھ گیا۔ کچھ اور بچے داخل ہوئے جو مشینوں پر جا کر کھیلنے لگے۔ایک بچے نے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر چھپکلی ایسے چمٹی ہوئی تھی جیسے اسے وہاں سی کر ٹانک دیا گیا ہو۔ اس سمے چند بانکے جوان شوخ کپڑے پہنے داخل ہوئے۔انہوں نے تیز خوشبو لگائی ہوئی تھی۔وہ کھلاڑیوں کے پاس گئے اور ان کی تاش کی گیم دیکھنے لگے۔لڑکا اتنے میں اِن کاآرڈر لے آیا۔
           
سینڈوچ میں پنیر، ٹماٹر، اچار اور گوشت تھا جو سرسوں کے تیل میں تلاگیا تھا۔وہ اسے کھانے لگے۔ ایک بوڑھا شخص ہال کے عقب سے  داخل ہوا جس کی قمیص پر کھجور کا درخت بنا ہوا تھا۔اس نے پورے ہال کا جائزہ لیا۔ سب کو دیکھ کر خوش دلی سے قہقہہ لگایا۔خوبصورت خاتون کو سینڈوچ کھاتے دیکھا تو اندازہ لگایا کہ وہ اجنبی تھی۔ اس علاقے کی خواتین کی نسبت لاغر تھی۔وہ بابا تھا۔۔۔اس ریستوران کا مالک۔
           
بابا نے مسکراتے ہوئے خاتون کے سامنے کاؤنٹرسے ایک ٹھنڈی یخ بیئر کھولی اور ایک بڑا سا سینڈوچ خاتون کو بطور تحفہ پیش کیا۔ سامنے گرجا گھر سے لوگ عبادت کر کے نکل رہے تھے۔ ان میں سے کئی ریستوران میں آگئے۔ ان کے بعد بہت سی لڑکیاں چھوٹے چھوٹے قدموں اور انگلیوں کو جوڑے مسکراتے ہوئے ہال میں داخل ہوئیں اور میزوں پر بیٹھ گئیں۔ایک بوڑھا شخص جو نشے میں تھا، ڈگمگاتے ہوئے دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھالیکن کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔ جوئے کے کھلاڑیوں نے یکدم زور سے نعرہ بلند کیا۔ جیتنے والے شکست خوردہ پر فقرے کسنے لگے۔ان کی گیم ختم ہوئی تو دونوں بچے پھر ان کے پاس گئے۔ اب انہوں نے انہیں پیسے دے دئے۔ہال میں موجود جواری ہی ایسے تھے جن کے کپڑے میلے اور داڑھیاں بڑھی ہوئی تھیں۔
           
اِن دونوں کی پیٹھ ہال میں موجود لوگوں کی طرف تھی اور وہ اپنی دھن میں ڈنر کر رہے تھے۔ حضرت دوسرا سینڈوچ کھا رہاتھا جبکہ خاتون نے کچھ حصہ کھا کر چھوڑ دیا تھا اور اپنے ہیٹ سے پنکھا جھل کر گرمی مٹا رہی تھی۔بابا نے کاؤنٹر کا ڈھکنا اٹھایا اور مسکراتے ہوئے دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے ادھر دیکھا تو معلوم ہو ا کہ وہ خصوصی رات تھی جس میں جھینگا مچھلی کی مختلف ڈشوں کے ساتھ ڈانس کا پروگرام ہونا تھا۔   
خاتون سٹول سے اٹھی۔ شاید وہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی اور اپنے پاؤں سیدھے کرنا چاہتی تھی۔ اس نے کھڑے ہوکر انگڑائی لی تو اِس نے بغیر موقع گنوائے اسے اچک لیا۔اس کے ہاتھ تھامے اور اسے ڈانس فلور کی طرف لے گیا۔خاتون اِس کی اچانک حرکت پرپہلے تو حیران ہوئی پھر خود کو اس کے حوالے کر دیا۔اِس نے ایک ہاتھ خاتون کی کمر اور دوسرا اُس کے کاندھے پر جب کہ خاتون نے اپنے ہاتھ اِس کے کندھوں پر رکھے اور ڈانس شروع کر دیا۔
           
سارے سفر میں وہ لمحہ آگیا تھا جو ان کے بیگانہ پن ختم کرنے، جھجک مٹانے اورمزید جسمانی قربت کے لئے موزوں ترین تھا۔ وہ کسی ایسے موقعے کا خواہاں تھا اور اتفاقاًوہ پیدا ہو گیا تھا۔وہ ماہر ڈانسر تھا اور اپنا تمام تجربہ اور ہنر متوقع نتائج کے حصول میں لگانا چاہتا تھا۔ جن نتائج کا وہ خود کو مستحق بھی سمجھتاتھا۔
           
دورانِ رقْص ثابت ہوا کہ وہ خاتون بھی کسی سے کم نہ تھی۔ وہ پوری دلجمعی سے اِس کا ساتھ نبھا رہی تھی۔خاتون اِس کے کندھے کے اوپر سے دیکھتی رہی اور تیز اور دھنوں کی مناسبت سے بڑی خوبصورتی سے پاؤں سے پاؤں، دھڑ سے دھڑ،گھوم کر گلے لگنے، اچھلنے کودنے اور جسمانی ملاپ کرتی رہی۔ پوراہال ان کو د یکھ کر داد دے رہا تھا اور تمام لوگ بڑی دلچسپی سے ان کا ڈانس دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ بچے بھی اپنا کھیل چھوڑکر ان کا ڈانس دیکھنے لگے۔
           
اس وقت وہ آہستہ دھن پر ناچ رہے تھے۔ ایک دوسرے سے بغل گیر تھے۔ ڈانس پر قدم بڑے نپے تلے انداز میں پڑ رہے تھے۔ اس وقت یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اک دوجے کے لئے بنے ہیں۔ وہ سپین کے پیشہ ورانہ ڈانسروں کی طرح جو چہرے پر نقاب ڈال کر بغیر دیکھے نپے تلے قدموں ہر قسم کی دھن پر ناچتے تھے، کی طرح کا مل دکھائی دے رہے تھے۔ جب کسی پیچیدہ سٹیپ کو انتہا ئی مہارت سے کرتے تو ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر سراہتے تھے۔ ماحول میں مزید سحر انگیزی کے لئے بابا دیگر لوگوں کے سا تھ مچھروں جیسی آواز میں گانے لگا۔
           
اس وقت موٹی عورت جھینگا مچھلیوں کی ٹرے بھر بھر کر میزوں پر رکھنے لگی۔عقبی دروازے سے ایک بڑا پالتو ہنس اندر آیا اور فرش پر بیٹھ گیا۔کچھ لوگ گاتے رہے اور کچھ کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔
           
ڈانس میں قدم سے قدم ملاتے وقت خاتون کی نگاہ دیواروں پر چپکی ان اخباری تراشوں پر پڑی جن پر اس نے اچٹتی نگاہ ڈالی تھی۔ ڈانس کے دوران وہ خاتون ان کے قریب گئی تو ان کی تفصیل دیکھ کر سہم گئی۔ زیادہ تر تصاویر ایسی تھیں جو پولیس مقابلے، خنجر زنی،راہ زنی، لڑائیاں اور گولیاں چلانے سے متعلق تھیں۔خاتون نے اِس کے کان میں سرگوشی کی کہ وہ غلط جگہ پر آگئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ مجرم تھے۔ ان کو گولیاں چلانے میں مزا آتا تھا۔یہاں سے فوری نکل جانا چاہئے۔ بندہ پوری طرح جذبات میں گم تھا۔خاتون کی یہ بات اِسے ناگوار لگی۔وہ کسی بات کی پرواہ کئے بغیر ڈانس جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن خاتون نہ مانی۔
             واپسی کا راستہ لمباتھا۔ واپس پہنچتے پہنچتے آدھی رات ہو جانی تھی اس لئے انہوں نے ڈانس ختم کر دیا۔
واپسی پر ان کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔کیڑے مکوڑے کار کے شیشوں سے ٹکرا ٹکرا کر ونڈ سکرین پر جمع ہو رہے تھے۔ یہاں تک کہ تمام سکرین ان سے مکمل طور پر ڈھک گئی اور اسے آگے نظر آنا بند ہو گیا۔اس نے ان کیڑوں کو ہٹانے کیلئے کا ر روکی اور دروازہ کھول کر باہر نکلا تو مچھروں مکھیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ونڈ سکرین سے انہیں ہٹانے کے بعد خود کو ان سے صاف کرکے دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی دوڑا دی۔۔ وہ ڈر رہاتھا کہ کہیں اسے ملیریا نہ ہو جائے کیونکہ اس کی بیوی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتی تھی۔اس علاقے کی سڑک پر جس وقت وہ سفر کر رہے تھے، مٹی سے اٹی پڑی تھی اور گرد و غبار اڑ رہاتھا۔آسمان پر سنہری چاند اور ستارے مدھم روشنی میں ان کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے۔واپسی کا روٹ مختلف تھا۔ جنگلی جھاڑیاں، موسمی پھول، ندی نالے،ٹیلے،ناہموار میدان وسیع و عریض،پتلی،زرد ستاروں سے بھرا ہوا سمندر عجیب سا احساس پیدا کر رہے تھے۔ اندھیرے میں صحیح راستہ تلاش کرنے میں اسے دقت محسوس ہو رہی تھی۔ ایسا راستہ خاتون کے لئے بالکل نیا تھا۔
           
بے آباد دھوڑ اور آبادی والے علاقوں میں خواتین و حضرات کم سے کم کپڑوں میں کرسیوں پر بیٹھ کر گرمی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ڈھور ڈنگر لاوارث کھڑے تھے۔وہ بھی گرمی سے نڈھال تھے۔
           
پھر اِس نے کچھ سوچ کر گاڑی روک دی اور یک دم خاتون سے بغل گیر ہو کر اُسے چوم لیا۔ اس وقت وہ بات صحیح تھی یا غلط لیکن یہ سب اضطراری طور پرہو گیا تھا۔خاتون نے ساتھ دیا۔وہ راستہ عبور کرتا گیا۔ اس دوران اسے محسوس ہوا کہ خاتون نے خراٹے لینا شروع کر دئیے ہیں تو اِس نے اُسے نہ جگایا۔ وہ سوتے ہوئے بچے کی طرح معصوم لگ رہی تھی۔اس کی گود میں اس کا ہیٹ پڑا تھا۔سڑک ناہموار تھی۔وہ تیز رفتاری سے گاڑی چلارہاتھا۔اس کی کانوں کی بالیاں پینگ کی طرح جھول رہی تھیں اور وہ انہیں دیکھ کر لطف اندوزہورہا تھا۔وہ مسلسل کئی گھنٹوں سے گاڑی چلا رہا تھا۔اب اسے دور سے غلے کے گودام نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔اس کا مطلب تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کے قریب پہنچ رہے تھے۔نیو آرلینز کی عمارات نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ان کی چکاچوندروشنیاں آسمان کو چھو رہی تھیں۔پھر شہرکا پل آگیا ۔ گاڑی پر گاڑی چڑھی تھی اور ٹریفک چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھی۔
           
دو اجنبی سیر کو نکلے تھے اور تمام دن گزار کر خیر خیرت سے واپس آگئے تھے، ایک انہونی سی بات تھی۔وہ دن بھر کے واقعات کو ذہن میں لا کر حیران ہو رہا تھا۔ دن بھر کے تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو گئے تھے۔
           
 وہ پل سے باہر نکل آئے۔ کاریں قطاردر قطار شہر جا رہی تھیں۔وہ ان کے ساتھ ہو لیا۔وہ تنگ گلیوں کی بھول بھلیوں میں گم ادھر ادھر گھومتے رہے اور منزل مقصود تک پہنچے تو وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ایک جگہ پر اس نے کار رکوائی۔
           
ہم واپس بخیرت پہنچ گئے ہیں۔وہ بڑبڑایا۔اپنی جیب سے سگریٹ نکالا اور پینے لگا۔
           
مجھے پانی ابھی تک نہیں ملا۔ خاتون نے کہا۔ وہ بڑی ادا سے اتری اوربالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔
           
چلو میرے ساتھ میرے ہوٹل چلو، جو چاہو، پی لینا۔
           
وہ اس کے ساتھ ہو لی۔
           
وہ رات اس کی توقع سے زیادہ حسین تھی۔گھر سے دور یا نزدیک آج تک جتنے بھی معاشقے اس نے کئے تھے، یہ سب سے الگ تھا۔اسے اپنی خوراک مل گئی تھی۔ یہ عجیب بات تھی کہ وہ اس خاتون کے بارے میں اب بھی کچھ نہیں جانتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا نام تک معلوم تک نہ تھا۔خیر اس بات کی کسے پرواہ تھی۔اس کا تناؤ ختم ہو چکا تھا اور وہ نئے ولولے سے ازدواجی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔
           
وہ خوشی خوشی اپنے گھر گیا۔ جانے سے پہلے اپنی بیوی کیلئے پھولوں کا گلدستہ اور ڈھیروں تحائف خریدے۔
           
تمہارا ٹرپ کیسا رہا۔
           
بہت کامیاب!دو بڑے معاہدے کر کے آیا ہوں۔
           
بہت خوب! کوئی قابل ذکر بات؟ تم نے ہماری ازدواجی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ کیا؟
           
میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔میں نے نہ تم سے کبھی بے وفائی کی ہے اور نہ ہی کر سکتا ہوں بلکہ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
           
یہ ہوئی نا  ں بات!لوگوں نے خواہ مخواہ تم سے بد ظن کرنے کی کوشش کی تھی۔ تم بالکل سچے ہو۔ کیا میں سچ سمجھ رہی ہوں؟
           
سو فیصد۔تم لوگوں کی باتوں نہ آیا کرو۔میں تمہارا تھا، ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔تمہارے دوستوں کے ساتھ میل ملاپ کیسا رہا؟
           
میں تمہاری ممنون ہوں گی اگر مجھے اس بارے میں کچھ روشنی ڈالو۔
           
کس بارے میں؟
           
بیوی نے ایک پیکٹ اس کے سامنے پھینک دیا اور پوچھا۔ اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
           
اس نے وہ پیکٹ کھولا تو اس میں تصاویر تھیں۔جن میں وہ اس خاتون کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں پولیس بلاؤں،فوراً سے پہلے نکل لو۔میں تمہیں طلاق دے  رہی ہوں۔

Popular posts from this blog