نیا گرا فالز Niagra Falls By Sandra Birdsell - 1942

 

 



نیا گرا فالز

 

Niagra Falls

By

Sandra Birdsell

- 1942

Canada

مترجم                     :                   غلام      محی          الدین

 

جنوری میں ہنری ۔جے۔ ذکریاس نے ایک ایسی فہرست بنائی جو اس نے ترجیحی بنیادوں  پر کرنا تھی۔سہ پہر کے چار بجے تھے جب اس کی بیوی الزبتھ  رین فیلڈ ہسپتال سے گیارہ میل کارچلا کر اپنے فارم ہاؤس  جا رہی تھی۔ یہ سفر است پچھلے کئی مہینوں سے روزانہ کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ  گیت سنتے ہوئے ذیلی سڑک پر کارچلا رہی تھی جو ہائی وے   سے مل جاتی تھی۔ سردیوں کےموسم میں ٹنوں برفباری کے بعد یہ سفر بہت  طویل لگنےلگتاتھا۔ ایسے موسم میں گاڑی   بڑی مہارت اور احتیاط  سے بہت آہستہ چلانا پڑتی تھی۔ ذرا سی چوک ہوئی تو گاڑی برف میں دھنس جاتی یا    حادثہ ہو جاتاتھا۔  کسی غیر متوقع صورت سے بچنے کے لئے اس تناؤ زدہ ماحول میں  وہ کسی حد تک مضطرب بھی تھی۔ جب وہ آٹے کی فیکٹری کے پاس سے گزری  تو اس نے اپنی رفتارمزید کم کر دی اور ایلس کے گرین ہاؤس پہنچ گئی۔ اس نے سوچا کہ وہ  اتر کر    اپنے خاوند  ہنری کو مطلع کر دے کہ وہ اس روز   نرسری میں بیج نہیں ڈال سکے گی پھر فوراً خیال آیا کہ وہ  اس بات کی اجازت نہیں دے گا۔ وہ ہر کام ہرقسم کے حالات میں عین وقت پر کرنے کا عادی تھا۔

وہ جب  روڑی والے راستے پر پہنچی تو اس کی کار کے ٹائر روانی اور توازن سے چلنے لگے لیکن وہ بھانپ چکی تھی کہ خصوصی مقام پر جہاں اس نے پہنچنا تھا  وہاںسردیوں میںرسائی مشکل ہو جاتی تھی کیونکہ افق کی پوزیشن ایسی ہو جاتی تھی کہ  وہ غائب ہو جاتا تھا  ، آسمان نظر آناہو جاتا تھا، زمین کہاں پر تھی  اندازہ نہیں ہو پاتا تھا  اور سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کھیتوں کے بیچ درختوں کے جھنڈ کے محل وقوع کا تو اسے پتہ تھا۔ وہاں اس وقت برف کا ایک ٹیلہ بنا ہوا تھا۔ دامن میں   لمبے لمبے سائے آسمانی رنگ بنا رہے تھے۔ وہ مردنی رفتار سے اندازاً آگے بڑھتی رہی۔  چند منٹوں بعد وہ اس عمارت کے سامنے سے گزری جس کا رنگ پیلا تھا   ۔  اس کے کھیتوں کی کانٹ چھانٹ  اور باڑ     اس مقام کی حد بندی کرتی تھی۔ یہ بھی ایک فارم ہاؤس تھا  جو اس کے میاں کے فارم ہاؤس سے دوگنا تھا اور پورے رولینڈ پر پھیلا ہوا تھا۔  اس  کے مالک              کا نام              ہنری ۔ پی۔ ذکریاس            تھا            جو  اس کے خاوند سے ملتا جلتا تھا        جو ہنری۔ کے۔  ذکریاس تھا۔ یہ  آپس میں رشتے دار نہیں تھے۔ دونوں کے ناموں میں امتیاز کے لئے اس کے میاں کو  ہنری اور پڑوسی کو ہینکس کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

جب الزبتھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً بریک لگا  دی جس سے گاڑی کے ٹائر برف پر پھسل گئے ۔اس نے سانس روک لیاکہ اس کی بے چینی  بڑھ گئی ، اس نے اپنی سانس روک لی تا کہ  اس پر قابو پا سکے  لیکن گاڑی برف پر پھسلتی چلی گئی۔ اس نے بریک اور سپیڈو میٹر سے پاؤں ہٹالئے، سٹیئرنگ کو مضبوطی سے تھام لیا  تاکہ کسی حادثے  یا برف میں دھنسنے سے محفوظ رہے۔ اس کی گاڑی ایک طرف لڑھک کر رک گئی۔  ڈھلتے سورج ، سردی اور برف میں یہ صورت خطرناک ہو سکتی تھی۔پھنسی ہوئی گاڑی صرف  ٹریکٹر یا   کھینچنے والے ٹرک   ہی اسے نکالی جا سکتی تھی۔  اگر وہ پھنس جاتی تو اسے ہینکس سے مدد لینا پڑتی جو وہ کسی صورت نہیں لینا چاہتی تھی۔  یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے ٹائروں نے روڑی کو پکڑ لیا  اور کار  پھسلن سے نکل گئی اور وہ مصیبت سے بچ گئی۔اس کے بعد اس نے کار کو بڑی آہستگی سے  بیچ سڑک میں لانا شروع کر دیا  لیکن سڑک پر تمام نشانات برف کے ڈھیر تلے دب گئے تھے ۔ اسے  نہیں پتہ چلا کہ وہ  سیدھی جا رہی تھی یا الٹی سمت۔ تازہ برفباری نے اس سڑک پر پہیوں کے نشانات بھی مٹا دئیے تھے۔اب ہینکس کا گھر بھی اوجھل ہو چکا تھا۔ تاریکی پھیل رہی تھی۔ وہ اپنے گھر سے کٹ کر رہ گئی تھی۔  اس نے گاڑی روکی اور نیچے اتری۔ اس نے برف پر چلنے والے بوٹ تو پہنے تھے لیکن ہنری کے پھسل کر برف پر گرنے سے وہ جلدی میں گھٹنوں تک آنے والے برف میں چلنے والے بوٹ نہیں پہن سکی تھی ۔ برف  رانوں تک آ رہی تھی اور اس کے ننگے گھٹنوں کو چھو رہی تھی۔  برف پر پھسل کر گرنا  عام تھا  اور بعض اوقات بڑا خطرناک ثابت ہوتا تھا اورشخص عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتا تھا۔  وہ اپنے میاں کو گرتے دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔ وہ کافی بوڑھا تھا۔   ہنری گرنے کے بعد یکدم کھڑا ہو گیا اور چلنے لگا ۔ لگ رہا تھا کہ اس نے خود کو سنبھال لیا ہے لیکن وہ  لڑ کھڑایا      اور پرندے کی طرح کھڑکی  سےٹکرا کر پھر گر     پڑا اور برف پر  ڈھیر ہو گیا ۔  اس لمحے تازہ برفباری نے اس جگہ کو گھر کے میل باکس کے پاس تھی۔ وہاں ایک گڑھا تھا، برف سے بھر  دیا۔ وہ واپس مڑی اور اپنے قدموں کے نشانات پر چلنے لگی۔ ایمبولینس فوراً ہی پہنچ گئی اور ہنری کو ہسپتال  لے کر چلی گئی۔

وہ  کار میں بیٹھ کر اپنی کپکپی دور کرنے کا انتظار کرنے لگی اور اس کے بعد گھر کے اندر آگئی۔ اس کے پاؤں سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ ایسے چل رہی تھی جیسے وہ گہرے پانی کو عبور کر رہی ہو۔ کچن میں داخل ہوتے ہی اس نے       ٹیلیفون کے پاس پڑے  کیلنڈر کو تھاما اور  معمول کے مطابق  دن بھر کے اہم ترین کام لکھنے لگی تو    لکھا تھا کہ  ایک ہفتہ بعد   8 بجے رات تک  نیاگرا فال پہنچ جانا۔  ان کی شادی کی سالگرہ تھی۔ یہ تفریحی  دورہ ہنری کے بیٹے   جان  اور اس کی بہو           شیرن   نے ان کی شادی کی سالگرہ کے اعزاز  میں بطور تحفہ پیش کیا تھا۔  اس نے پنسل سے  ہنری ہسپتال میں ہے لکھ دیا۔      اس کی لکھائی  کے الفاظ کیلنڈر   کاچوکورخانہ کم ہونے کی وجہ سے  اگلی تاریخ میں چلے گئے ۔ ہنری  رین فیلڈ ہسپتال میں اور الزبتھ فارم ہاؤس میں تھی۔ اس نے سوچاہنری کے اکلوتے بیٹے جان  کو فون کر کے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرے لیکن اس زمانے میں موبائل فون ایجاد نہیں ہوا تھا اور صرف لینڈ لائن ہی میسر تھی ۔ اس نے  فون ملایا لیکن کسی نے نہ اٹھایا۔ اس نے ہسپتال میں دیکھا تھا کہ ڈاکٹر نے  ہنری کی چھاتی زور زور سے   دبا کر اس کے سانس کو بحال کیا تھا۔ اس کے بعد وہ گہری نیند میں چلا گیا تھا۔   اس کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی ۔اسے      یقین تھا کہ  ہنری کی بیماری لمبی چلے گی۔

میں نے اسے کہا تھا کہ اب ہم نیا گرا فالز نہیں جا سکتے تو ہنری نے کہا  کہ   ٹکٹیں اور ہوٹل کی بکنگ واپس کر کے رقم خریداری میں استعمال کر لو ۔  میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا          اور اسے تسلی دی۔ اس کا اکلوتا بیٹا جان  کو فارم ہاؤس کی تجارت پسند نہیں تھی ۔ وہ بھی تاجر تھا لیکن اس نے ایک مقبول کمپنی کی فرینچائز لے رکھی تھی اور اس میں کامیاب تھا۔ ہنری نے اسے کئی بار فارم ہاؤس  چلانے کی پیشکش کی تھی لیکن وہ نہ مانا۔  ہنری کہتا تھا کہ جان اور شیرن دونوں ہی بہت فضول خرچ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھ لے کہ اس کی بیماری معمولی نوعیت کی ہے۔ اس لئے وہ خود اسے  اپنی سنگین صورت حال کے بارے میں اطلاع دے کر اسے فارم ہاؤس   کی دیکھ بھال کے لئے کہے گا لیکن اس پر نقاہت طاری ہو گئی اور وہ  گہری نیند میں چلا گیا۔

کیلنڈر پر الزبتھ نے لکھا کہ  آج سارا دن برفباری ہوتی رہی ۔    میں خود کو تنہا رہنے کی عادی بنا لوں   گی۔  اس نے چولہے پر چائے دھر دی ۔ باورچی خانے کے کلاک نے گھنٹہ بجایا۔  اس نے  دیکھا کہ    دیواریں     تازہ تازہ روغن کی گئی تھیں اس کی دحشت آہستہ آہستہ کم ہو رہی تھی۔فرنیچر پر  وارنش چمک رہی تھی۔ الماریوں میں چینی کے برتن سجائے گئے تھے۔دوسرے لوگوں کی طرح    وہ بھی چین کے ملک   کو ناپسند کرتی تھی لیکن جان اور وہ ان کے برتنوں کے شیدائی تھے۔  جہاں کہیں بھی  انمول چینی کی پلیٹیں  نظر آتیں          تو ایک پلیٹ ضرورخرید لیتے تھے ۔اس مجموعے میں  کچھ  پلیٹوں پر نیاگرا  فالز کی تھیں۔

 نیاگرا فالزتین  آبشاروں سے مل کر بنا تھا ۔ دو آبشاریں                (دا                    امیریکن فالز اور                  برائیڈل               فالز )امریکہ  سے اور ایک آبشار    (ہارس  شو فالز)                     کینیڈا سےملتی ہیں۔وہ160 فٹ بلنداور              2950 فٹ چوڑاہے ۔آبشارکاپانی پانچ لاکھ ٹن فی منٹ   مختلف سمتوں سے  گرتا ہے تو   فطرت کا یہ عجوبہ خدائی عظمت کاشاہکارپیش کرتا ہے۔پلیٹ پرچھپی تصاویر کو دیکھ کر الزبتھ کو  اپنا ہنی مون  یاد آگیا۔ ہنری اور اس نے اپنی زندگی کےدوہفتے گزارے گزارے تھے۔انہوں نے امریکہ اور کینیڈا کو ملانے والے پل ( پیس برج) سے پیدل جا کر نیاگرا فالز کاامریکی طرف کا بھی حصہ بھی دیکھاتھا ۔ دونوںممالک   سے  نظارے پر لطف تھے۔  سردیوں کے چار مہینوں کے علاوہ وہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں سے بھری ہوتی تھی۔تین  کروڑ سیاح ہر سال وہاں چھٹیاں منانے آتے تھے جن کی تعداد روزبروززیادہ ہورہی ہے ۔ہیں۔ اسے  کشتی کے ذریعے  آبشار کے نیچے  سیر( میڈ آف دا مسٹ )  کا مزاابھی تک  یاد تھا۔ ہر مسافر برساتی پہننے کے باوجود بھیگا ہوا تھا اور خوشیوں سے سراہ رہا تھا۔           وہاں کی سیر کا ایک ایک لمحہ      اور نظارے یاد آرہے تھے۔   پہاڑ پر بنے ہوئے   ہوٹلوں  سے انہیں  جنت کا منظر نظر آ رہا تھا۔ہالی وڈ ،  اوردنیا بھرکے فلمساز اور اداکار ان دنوں شوٹنگ کررہےتھے  ۔دنیا بھر  کے کھانوں کی لذت  محسوس کی جا سکتی تھی۔  دنیا کے بہترین گلوکار اور گلو کارائیں ہر جمعے کی رات وہاںسیاحوں کا دل لبھانے کےلئےشو کرتی تھیں ۔ ہر روز  آتش زنی رات نو بجےپانچ منٹ ہوتی لیکن جمعے کوآدھ گھنٹہ تک ہوتی تھی، کو یاد تھے۔ انہوں نےتاریخی عمارات  میوزیم، کارننگ  گلاس فیکٹری ، بازار اور تفریحی  دکانیں بھی دیکھی تھیں۔ وہ کسینو کو تو بھول ہی گئی تھی۔  جتنے دن بھی وہ نیاگرا فالز رہے کسی قسم کی فکر اور رنج اس کے پاس بھی نہ پھٹکا۔ وہ اس کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ ایک بار پھر وہ مزے کرنے جا رہی تھی جس کا انتظام ان کے بچوں نے ان کی شادی کی سالگرہ کی خوشی میں اس سال کیا تھا۔کے لئے کیا تھا۔۔ اس وقت سوچ لیا تھا کہ اگر اس پر کبھی مشکل پڑی تو اس کے دکھ درد دور کے تمام لوازمات یہاں موجود تھے۔

الماری میں ایک نادر  کپ اور پرچ  بھی موجود تھی  جو اس کی والدہ اپنے آبائی وطن سے لائی جس پر لکھا تھا کہ  وہ یہ اپنی بیٹی کو اس کی شادی پر تحفے میں  دے گی۔ الزبتھ نے اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر محسوس کیا۔ وہ  اسے کچن میں لے گئی ۔ اس میں پانی ڈالا  اور میز پر بیٹھ کر اور اس کے کنارے کو اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ اس وقت تک چاند آسمان پر بلند ہو رہا تھا اور چاند کے نیچے ہنری کے کھیت دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ الزبتھ  گرین ہاؤسز نرسری میں کام کرتی تھی اور ہنری فارم ہاؤس سنبھالتا تھا۔ وہ سرد موسم کو پسند کرتی تھی۔حادثےسے  پہلے تک سب کچھ بڑے سلیقے سے تمام کام وقت پر نپٹائے جارہے تھے۔حادثے کے بعدامیدتھی کہ وہ جلدصحت یاب   ہوجائے گا۔ہسپتالداخل کرایا گیا تو ڈاکٹروں نےتسلی دی کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے گالیکن الزبتھ  کو ہنری کی پیرانہ سالی کی وجہ سے شبہ تھا     کہ وہ اس  بیماری سےنکل کرفارم سنبھالنے کے قابل ہوپائے گا۔

  ہنری کی عدم موجودگی  میں  اس کی پریشانی  بڑھ جانی تھی کیونکہ  وہ      فارم ہاؤس  کےسخت  کام اس سردی کی سخت ٹھنڈی ہوا  میں کس طرح  کر  پائے گی۔  کھڑکی کے تختوں سے آتی یخ ہوا ہر شئے کو پوری طرح   برف بنادیتی تھی۔ علاوہ ازیں  ان تند و تیز سرد ہواؤں  میں الزبتھ  کو سر درد ہو جایا کرتا تھا اور اس پر افسردگی طاری ہو جایا کرتی تھی۔ اس نے اپنی چھاتی کو اپنی ہتھیلی پھیلا کر رگڑنا شروع کر دیا تا کہ ٹیسیں کم  ہو جائیں۔  وہ  اس وقت سوچ رہی تھی کہ ہنری کے سگے اور الزبتھ کے  سوتیلے بیٹے جان کو فون کرے۔  شائد وہ اپنے تجارتی سفرسے ایک دن پہلے آگیا ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی جاننے واکے نےاس کے والد کے ہسپتال  میں داخل ہونے کی خبر پہلے ہی سنا دی ۔ اس کی بیوی شیرن کو فون کرنے کا فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی بلکہ  خواہ  مخواہ  کے  سوالات کے انبار لگا دے گی جن کے جوابات سے وہ  لا علم تھی۔ پھر اس نے سوچا کہ  کیا اسے اپنی  بہن '        میکا                   '      کو فون کرنا چاہیئے؟     لیکن وہ بات کا بتنگڑ بنا دیا کرتی تھی۔ کہیں وہ اس کا سکینڈل ہی نہ بنا ڈالے۔ اس لئے اس نے  کسی کو بھی فون  نہ کیا۔ اس کے بعد اس کے ذہن میں ایر ما  کو فون کرنے کا خیال آیا۔ وہ اس کی  گرین ہاؤس میں رفیقہ کار تھی۔   وہ  معاملہ فہم تھی اور صورت حال کی نزاکت کو سمجھتی تھی۔ وہ ہنری کو اچھی طرح جانتی تھی      ۔ اس لئے اس کو بتایا جا سکتا تھا۔ یہ سوچتے سوچتے وہ سوگئی۔ 

 الزبتھ  نے اپنی آنکھیں کھولیں تو صبح ہو چکی تھی۔ وہ اس بات پر خوش تھی کہ اس نے بھرپور نیند لے لی تھی۔ سب   سے پہلے اس کی نظر ہنری کے بوٹوں پر پڑی  جو بستر کے قریب قالین پر پڑے تھے ۔ اسے تین ہفتے پہلے کی وہ بات یادآئی جب ہنری  پڑوسی           ہینکس       کے گھر سے تین میل پیدل چل کر آیا تھا۔ وہ ہینکس کو گھنٹوں  قائل کرتا رہا     کہ لبرلز کو ووٹ نہ دے لیکن وہ نہ مانا۔ اس کے پوچھنے پر کہ ہینکس سے اس نے کیا باتیں کیں تو وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اس نے اس سے مذہبی امور پر بات چیت کی تھی۔

ہر شئے  جو قانونی ہے  ضروری نہیں کہ اچھی ہو۔  ہنری کا یہ فرمان تھا۔اینٹینا ڈش نئی نئی آئی تھی  لیکن ہنری  جو بہت مذہبی تھااسے اچھا نہیں سمجھتا تھا اسلئے وہ اپنی             شہر میں رفیقہ کار ایرما کے گھر جا کر  ڈش کے پروگرام دیکھا کرتی تھی ۔      ایرما کا خاوند اپا ہج  تھا۔        وہ معمر  خاتون تھی۔  اس کی زندگی میں  بہت کم خوشیاں تھیں۔ نوکری کے ساتھ اسے اپنے خاوند کی دیکھ بھال بھی کرنا پڑتی تھی۔ وہ  جنونی تھا        اور         اس کے مذہبی لگاؤ   کا کسی سے موازنہ نہیں کر سکتی تھی ۔ وہ اپنے سوتیلے بیٹے کے بیڈ روم میں جو بچپن میں اس کا ہوا کرتا تھا۔ جان کے کھلونے ابھی بھی اسی طرح محفوظ تھے۔ اس کے بعد وہ اپنے سلائی والے کمرے گئی جہاں  اس نے لباس سینے کے  لئے کپڑے کاٹ کر ترتیب  سے رکھے گئے تھے  ۔ وہ سینے لگی تو معلوم پڑا  کہ وہ  ڈریس کے لئے ناکافی تھے۔ وہ اس میں  بافت ( ٹشو)       کے ٹکڑوں کا اضافہ کر کے  کوئی ڈیزائن    بنا کر لمبائی پوری کر کے سینا چاہتی تھی لیکن وہ اسے ابھی تلاش کرنے تھے۔ الزبتھ حال میں ہی زندہ رہتی تھی اور آنے والے کل کی فکر نہ کرتی تھی کیونکہ سب کچھ اسی دنیا میں ہی رہ جانا تھا۔  اسے احساس  ہوا کہ وہ بھی اپنی بہن میکا کی طرح سوچ رہی تھی۔ اتنے میں اس کے سینے میں درد اٹھا تو سمجھی کہ اس کو دل کا دورہ پڑا ہے لیکن وہ فوری دور ہو گیا۔

جب ہنری برف سے پھسل کر گرا تھا   تو وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے کیلنڈر سے نیا گرا فالز کا تفریحی منصوبہ   مٹا دیا۔             وہ جب بھی       ہنری کے حادثے کا  کسی سے تذکرہ کرتی  تو کہتی کہ اس میں ہنری کا کوئی قصور نہیں تھا بلکہ سخت موسم کی وجہ سے برف ہی اتنی سخت ہو گئی تھی            کہ کوئی بھی اس وقت وہاں ہوتا تو پھسل سکتا تھا۔

الزبتھ  ہنری  سے 25 سال چھوٹی تھی۔ ایرما جب اس تفاوت پر بات کرتی تو  وہ کہتی کہ گزارا ہو رہا تھا۔ اسے اس سے کوئی گلہ اور شکائت نہیں تھی۔ ہنری کی عمر کے لوگ سالہا سال سے اولڈ ایج ہومز جا چکے تھے لیکن وہ اپنے فارم ہاؤس میں  بڑی سرگرم زندگی گزار رہا تھا اور ہر کام  وقت کے مطابق کرتا تھا۔  اس نے کھیتوں کے عقب میں غلے کا گودام  اور اگلے حصے میں آب رسانی کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے رقبے کے گرد  باڑیں  لگائی ہوئی تھیں۔ اگلے دن  جان کو فون کرنے سے پہلے الزبتھ نے ہسپتال فون کر کے ہنری کی طبیعت کا پوچھا تو اس میں بہتری نہیں آئی تھی پھر اس نے جان کو فون کر کے ہسپتال آنے کو کہا۔ اس نے کیلنڈر پر لکھا ' میرے اکلاپے کا پہلا دن '  .

فروری کے وسط میں جب الزبتھ  ہائی وے سے ذیلی سڑک پر آئی جو رین فیلڈ جاتی تھی۔ اس وقت سورج عمارات کی چھتوں او سڑک پر  سخت برف کا غلاف  چمک رہا تھا۔ وہ منظر کرسمس کا سماں پیش کر رہا تھا۔ وہ ایک پیشہ ور مصور کی تصویر کی طرح لگ رہا تھا  جس میں نوکدار ستارے کی شکل کا  مقدس جھولا چمک رہا تھا جو اسے  کینیڈا اور امریکی  سرحدوں  سے الگ اور خصوصی بنا رہا تھا۔   رین فیلڈ جانے کے لئے ہائی وے سے اترنا پڑتا تھا۔ ذیلی سڑک پر          '          خوش   آمدید رین فیلڈ  ' کا بورڈ نہیں لگا ہوا تھا۔ اس کی سڑکیں   واضح اور سرحد  نمایاں اور متوازی تھے۔ اس کے تمام گھروں کو قدیم  طرز پر ہی سجایا گیا تھا کیونکہ باسی جدید تہذیب کو پسند نہیں کرتے تھے۔ الزبتھ ہسپتال جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اس کی زندگی اس حادثے کے بعد بدل چکی تھی لیکن وہ اس کا حوصلے سے سامنا کر رہی تھی۔ وہ ہنری کے کمرے میں آئی  جس نے اسے دیکھ کر کئی بار پلکیں جھپکائیں۔ اس کے منہ سے نکلا۔۔۔  چوزے۔ ۔۔کیا تم نے چوزوں کا آرڈر کر دیا ہے ؟

کیا؟ الزبتھ نے حیرانی سے پوچھا۔ بستر مرگ پر بھی اسے اپنے چوزوںکی سوجھ رہی تھی۔   ہنری  کی طبیعت سنبھل نہیں پا رہی تھی۔  یکسانیت کا شکا ر تھی۔  اس کی زندگی  ایک چھوٹے سے مکعب نما کمرے  تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔  اس کے سامنے کی کھڑکی سے پورے رین فیلڈ         کے علاقے  کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔  اس کے بستر کے پاس ایک وہیل چیئررکھی  گئی تھی۔ اس کے ایک طرف لکڑی کی چھوٹی سی الماری تھی۔       اس کے بازوؤں پر  ایک تولیہ اس طرح باندھا گیا تھا  کہ اس کا بازو عمودی انداز میں کھڑا رہے۔ اس کی گوری ٹانگیں اب تنکا بن چکی تھیں جو اس وقت بے مقصد جھول رہی تھیں۔ نرس نے اسے بستر سے اٹھا کر ویل چیئر پر بٹھایا ۔ وہ سانس لینے میں بہت تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ اس کی آواز سرگوشیوں سے اوپر نہیں اٹھتی تھی۔  اس  نے ایک بار پھر  پوچھا۔ کیا تم نے  نئے چوزوں  کے لئے کہہ دیا ہے؟  گرین ہاؤس میں اپنی ڈیوٹی پر جانے سے پہلے  فون کر دے گی۔آج انہوں نے ٹماٹروں  کی نس تبدیل کر نے کے لئے پیوند کاری   کرنا تھی۔  اس نے اپنی زندگی کو نئی ڈگر پر ڈال لیا تھا۔ رات کو سات بجے سو جاتی اور  آدھی رات جاگ کر  نیم گرم پانی پیتی اور       فارم ہاؤس کے کام نپٹاتی۔

ہنری نے آج مجھ سے بات کی ہے ۔ الزبتھ نے نرس سے  جوش میں کہا۔

 اوہ !                     اس نے الزبتھ کی بات پر حیرت کا اظہار نہ کیا۔وہ اکثر بولتا ہے۔  خاص طور پر رات کے وقت وہ ایک حادثے کے بارے میں بات کرتا ہے۔ وہ بہت  سی چیزوں کے   بارے میں باتیں کرتا ہے۔نرس نے کہا۔

کن چیزوں کے بارے میں تم باتیں کرتے ہو؟  الزبتھ نے حیرانی سے پوچھا۔ حادثے اور  چوزوں کی باتیں۔؟اس کے چہرے پر شرمندگی سے سرخی چھا گئی۔

اوہ!  اس کے علاوہ         دوسرے مریضوں اور ان کے ریڈیو کے بارے میں بھی باتیں کرتا ہے  ۔نرس نے کہا۔

          یا وہ کہتا ہے  وہ کب صحت یاب ہو جائے گا۔  کب صحیح طرح سے بولنا شروع کرے گا۔ پوچھے گا کہ کیسےہوا۔۔۔ اس کے ساتھ یہ کب ہوا۔۔۔وہ کیوں گرا۔ کیا یہ بھی کہتا ہے؟                 الزبتھ نے   وضاحت کے لئے پوچھا۔

صرف یہی نہیں   اور بھی ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہے  لیکن زیادہ تر فارم ہاؤس          کی ہی کرتا ہے۔یہ کہتے ہوئے دونوں  اس کے بیڈ کے پاس پہنچ گئیں۔   البتہ  تمہارے لئے ایک غیر متوقع خبر ہے الزبتھ۔  نرس نے کہا۔ ہنری  تم خود ہی اسے  بتاؤ کہ تم اسے اپنی صحت کے بارے میں کیا  خبر دے سکتے ہو؟  

الزبتھ نے دیکھا کہ ہنری کے سرہانے   لوہے کی ایک مضبوط سلاخ  لٹکا دی گئی تھی ۔ ہنری بڑی آہستگی سے  اوپر سرکنے  لگا اس نے سلا خ کو مضبوطی سے تھاما اور زور لگا کر بڑی مشکل سےعمودی انداز میں بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے ہاتھ زور سے کانپ رہے تھے۔ الزبتھ نے حیرانی سے اپنی گالوں پر  ہتھیلیاں رکھ دیں۔   یہ عظیم کام نہیں ہے؟ نرس نے پوچھا۔

ہاں۔ لیکن اس نے صرف ایک ہاتھ استعمال  کیا ہے۔  اس کے ذہن میں اس وقت یہ خیال آیا جب وہ ہنری کے بستر کے پاس بیٹھ کر اپنی بہن میکا کے نومولود کے لئے  سویٹر بن رہی تھی۔  اس دن         مزاج پرسی   کے لئے ہنری کا بیٹا جان بھی آیا ہوا تھا،    ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اس کے سننے کی حس بالکل ٹھیک ہے اسلئے چیخ کر بولنے کی ضرورت نہیں۔البتہ        بات  وہ صرف سر گوشیوںمیں ہی کر سکتا تھا۔  

الزبتھ کےذہن میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ ان حالات میں فارم ہاؤس چلانا مشکل ہے اور اس کی مناسب قیمت مل سکتی ہے  اس لئے اسے بیچ دینا چاہیئے ۔ وہ یہ کہنے کے لئے ہنری  کے سرہانے بیٹھ گئی اور  کہا                    '                 میرے خیال میں فارم ہاؤس کو بیچ دینا چاہیئے ۔ اس معاملے پر غور کرو                 '  الزبتھ نے اسے کہا۔

ہنری یہ سن کر چونگ گیا۔ ذرا سا پیچھے ہو کر   بولا۔ نہیں۔ایسا نہ کرو۔ اس نے غصے سے سر ادھر ادھر مارنا شروع کر دیا اور اپنے ہاتھوں  کو اپنی گالوں سے تھام لیا۔الزبتھ نے اس کے ہاتھوں کو گالوں سے ہٹانے کی کوشش کی  تو ہنری کی گالیں شدت جذبات سے لرز رہی تھیں۔

ہنری اس بات کو اتنا سنجیدہ نہ لو۔ پر سکون ہو جاؤ۔ہم اس بارے میں فی الحال بات نہیں کریں گے۔ الزبتھ نے کہا۔ اس پر  ہنری کی اضطراری کیفیت ختم ہو گئی اور الزبتھ پھر سے سوئٹر بننے لگی اوراس کا غصہ کم کرنے کے لئے کہا  کہ تم جو ورزشیں کر رہے ہو ، جاری رکھو۔ تم جلد ہی صحت باب ہو جاؤ گےتو سب مشکلات دور ہو جائیں گی۔ سب  ضبط میں آ جائے  گا۔ اس پر ہنری نے آنکھیں جھپکائیں اور کہا کہ   ہینکس کو فون کر کے کہو کہ میں  اسے اپنا فارم ہاؤس ایک سال کے لئے ٹھیکے پر دینے کے لئے رضامند ہوں۔

وہ حقئقت پسند ہے۔ ہینکس کبھی بھی فارم ہاؤس کو اتنی کم مدت کے لئے ٹھیکے  پر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس نے یہ بات جان کو کہی کہ وہ طریقے سے ہینکس سے ہنری کی بات اس تک پہنچائے۔جان جب بچہ تھا تو اس  کوپیا ر سے تھپکی دیا کرتی تھی۔ وہ بھی اسے  اچھا ہی سمجھتا تھا۔اس کے کمرے میں اس کی تمام اشیا  ابھی بھی سلیقے سے پڑی تھیں  ۔ وہ سکول میں ہمیشہ اعلیٰ نمبر حاصل کیا کرتا تھا اگر اس کے ہر مضمون میں  پورے نمبر آیا کرتے تھے اور اگر کبھی       کسی مضمون میں کم نمبر آجاتے تواپنا سر فرش پر پٹختا  شروع کر دیتا تھا۔ اساتذہ سے بحث کیا کرتا تھا کہ اسے کم نمبر کیوں دیئے۔

وہ تمہارا باپ ہے جان ! تم اسے  فارم ہاؤس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت کا  بتاؤ۔اسے سمجھاؤ۔ وہ بیچنے پر راضی ہو جائے گا۔الزبتھ نے کہا۔

جان  نے حامی بھرلی ۔وہ اپنے باپ  سے زیادہ مذہبی تھا۔   جہاں دینی معاملات آتے   الزبتھ  بات کرنے سے احتراز برتتی تھی۔  باپ بیٹا  تجارت  مذہبی ضوابط کے تحت کام کرتے تھے لیکن انہوں نے مل کر  تجارت نہیں کی تھی۔اگر انہوں نےکبھی  شراکت داری کی بھی  تھی تو  وہ کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔  جان    الزبتھ  کی اس بات سے متفق تھاکہ ہنری  کو یہ حقیقت پسند ہو نا چاہیئے ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ فارم ہاؤس بیچنے سے کیوں کترا رہا تھا۔  وہ اس معاملے کو  کیوں لٹکا رہا  تھا۔ اس وقت  وہ ایسی حالت میں تھا جس میں   صحت کی بحالی ناممکن تھی۔ وہ ایک بستر ، ایک کرسی ، ایک ڈربہ  اور ایک کھڑکی تک ہی محدود  ہو گیا تھا۔

 جان  باورچی خانے کی میز سے اٹھا اور اپنے ہاتھ الزبتھ کے کاندھوں پر رکھ دیئے   جو اس وقت کرسی پر   بیٹھی تھی ۔۔۔اور تمہارا کیا ہوگا ؟ کیا ہمیں تمہارے بارے نہیں سوچنا چاہیئے ؟      الزبتھ کا قد جان سے ایک فٹ زیادہ تھا۔ الزبتھ نے اپنا سر پیچھے کیا اور جان کی چھاتی سے لگا لیا۔ اس وقت اس کی آنکھیں بھرآئیں ۔وہ رونا چاہتی تھی ۔ اس نے پیار اور ہمدردی سے اپنی سوتیلی ماں کے کندھے دبائے ۔ زندگی میں پہلی بار اس نے الزبتھ سے شفقت کا اظہار کیا تھا۔

تم پر کڑا وقت آن پڑا ہے ہم سب جانتے ہیں۔  شیرن  اور میں اس سے بخوبی آگاہ ہیں  کہ کہ تم نے اب تک تمام نا مساعد حالات کا بہادری سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔معاملات کو کس طرح بخوبی نبھایا ہے        ہم اس کے معترف ہیں۔الزبتھ کو حوصلہ ملا کہ کم از کم کوئی تو اس کی مشکلات کا احساس ہواتھا۔  

جب سر پر پڑتی ہے  تو اپنی تمام توانائیاں اور ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ میں نے بہر طور     اپنے تئیں بہترین طریقے سے   ڈنگ ٹپایا ہے۔سب ٹھیک ہے۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔ سامنا نہ کرتی تو سب ختم ہو  جاتا۔الزبتھ کے ذہن میں آیا      کہ    وہ  اس  وقت وہ   اپنا گرین ہاؤس بنانے کی دیرینہ خواہش            کا اس کے سامنے اظہار کر دے ۔ وہ گرین ہاؤس میں کام کرتی تھی۔  تمام پودے سردی اور خراب موسم سے  محفوظ  کرنے کے لئے  چھتوں میں رکھنےپڑتے تھے۔ اس وقت کھڑکیوں سے سورج کی حرارت اس کے کندھوں پر پڑتی  تو اس  کے جسم کو ٹکور ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں پودوں اور پھولوں کی مہک  اس کی توانائی میں اضافہ کرتے تھے۔ اس کی کارکردگی میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ وہ ہر پودے کے  کیلنڈر پر دی ہوئی ہدایات غور سے پڑھتی اور اس کے مطابق عمل کرتی۔ اس کے فرائض میں گاہکوں  ،  چھوٹے تاجروں سے لین دین ، سودے بازی اور معاملات طے کرنے کے فرائض بھی شامل تھے لیکن وہ کہہ نہ سکی۔

شیرن اور میں سوچ رہے ہیں کہ ابا کبھی صحت یاب نہیں ہوگا ۔ اس لئے تمہیں اس مشکل میں کچھ راحت کے لئے  تمہیں نیاگرا فالز  کی تفریح کروائی جائے۔ جان نے کہا۔

اوہ! نہیں۔ میں تمہارے باپ کے بغیر نہیں جاؤں گی۔ اگر اکیلی گئی تو کبھی واپس نہیں آ پاؤں گی ۔ وہاں جنت کا نظارہ ہے۔ راحت ہے۔ سکون ہے ۔  کنارے  سے آبشار  کا نظارہ دلکش ہے۔لیکن ایک منٹ میں 5 لاکھ ٹن پانی کا بہاؤمجھے خوفزدہ کر دے گا۔  مجھے  یہ خدشہ ہے کہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود  اس میں گر جائے گی اور اس کی تکہ بوٹی ہو جائے گی۔  اس وقت میرے ذہن کے کسی گوشے میں دور دور تک تفریح  نہیں۔ مجھے فکر یہ کھائے جا رہی ہے کہ اگرخدا نخواستہ  ہنری کو کچھ ہو  جائے تو میں فارم ہاؤس بیچ کر شہر میں اکیلے رہنا شروع کر دوں گی۔یہ سب کیسے ہو پائے گا۔میں ہنری کے بغیر کہیں بھی جاکےکیا کروں گی؟  

یہ سن کر جان فوراً زیر لب مسکرا دیا۔ یہ مسکراہٹ اس کی پریشانی ظاہر کر رہی تھی۔ جان نے اس کا ہاتھ   ہاتھوں میں تھام لیا اور کہا۔ صحیح۔ اعلیٰ۔ شیرن اور میں بھی اسی بات کی توقع کر رہے تھے کہ تمہارا یہی پروگرام ہو گا۔ اس لئے ہم نے  اس کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ اس پر میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے تمہارا شہر میں قیام آسان ہو جائے گا۔  الزبتھ نے  سوچا کہ جان شائد اسے یہ کہنا چاہ رہا  تھا کہ شیرن اور جان نے شائد اب نسل بڑھانے کا فیصلہ کر لیا  تھااور  ہونے والے بے بی   کی دیکھ بھال کے لئے اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔

ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ  نسبتاً          چھوٹے شہر جس کا نام مور ڈن  ہے میں بسیرا کر لیں اور وہاں ڈیلر شپ لے لیں۔

مورڈن کیوں ؟ کیا  رین فیلڈ میں تمہاری تجارت اچھی نہیں جا رہی؟ الزبتھ نے پوچھا۔

اس بات پر الزبتھ نے محسوس کیا کہ جان کا چہرہ     غصے سے  لال ہو گیا ہے۔ میں رین فیلڈ کی ڈیلر شپ بھی رکھوں گا۔ جان نے جواب دیا۔ ایک اور ڈیلر شپ مورڈن میں کھولوں گا کیونکہ وہ شہر بھی پھل پھول رہا ہے۔  اس وقت  وہاں   ڈیلر شپ شروع کرنے کا صحیح وقت ہے۔

ہنری کو تم سے ہمیشہ یہ شکائت رہی ہے کہ تم فضول خرچ ہو۔ اس نے اپنا ہاتھ جان سے چھڑایا اور برتن دھونے لگی۔ اسے ڈر تھا کہ اس کی اس بات کو وہ برا منا لے گا لیکن اس کی بجائے وہ اس کے پاس آکر برتن دھونے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ وہ برتن دھو کر رکھتی اور جان انہیں تولئے سے خشک کر دیتا۔

  شیرن  کو اس وقت کچھ کام تھا۔ شام کو وہ بھی یہاں آ جائے گی۔ جان نے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم  نئی ڈیلر شپ کا انتظام  کامیابی سے  کر سکتے ہیں۔ اس نے پر سکون انداز میں کہا۔ ہم نے اس سلسلے میں  بہت عبادت کی ہے اور  خواب میں بشارت بھی ہوئی ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم یہ ڈیلر شپ لے  لیں۔

اچھی بات ہے۔ آگے بڑھو اور کر گزرو۔ الزبتھ نے  ذرا سخت لہجے میں کہا۔

اس کے لئے مجھے رقم چاہیئے ۔ میں نے رین فیلڈ کی ڈیلر شپ میں نئی مشینری خریدی ہےاور بنک مجھے مزید قرضہ نہیں دے گا۔ جان نے کہا۔

کتنی رقم درکار ہے؟ الزبتھ نے پوچھا۔میرے اکاؤنٹ میں تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔ ہنری کےسیونگ  اکاؤنٹ میں اس وقت صرف پانچ ہزار ڈالر رہ گئے ہیں۔میں نے کچھ بچت کی ہوئی ہے لیکن اس سے تو میں نے اپنا گرین ہاؤس بنانا ہے۔

یہاں سے کم از کم اس وقت پچیس ہزار ڈالر چاہیئے۔ جان نے کہا۔

اتنی رقم کا تو میں بندوبست نہیں کر سکتی۔ الزبتھ نے کہا۔

میں یہ بات جانتا ہوں۔جان نے کہا۔ اب الزبتھ کو پتہ چلا کہ جان اس کے پا س کیوں آیا  تھا۔ ۔۔ تو اس کا بندوبست کیسے ہو ؟ الزبتھ نے پوچھا۔اس کی چھاتی میں پھر سے درد شروع ہو گیا تھا۔

شیرن  کے والد نے  وعدہ کیا ہے کہ وہ  تیسرا حصہ بطور قرض دے دے گا۔ میں ہنری کے فارم ہاؤس کی مشینری بیچ دوں گا۔ اس کی مجھے معقول رقم مل جائے گی۔ جان نے کہا۔

ہنری کا فارم ہاؤس  رقبے  کے لحاظ  سے چھوٹا  تھا  ۔ اگر جان وہ مشینری بیچ دیتا  تو  اس  فارم ہاؤس  کی قد ر و قیمت کوڑی کی بھی نہ رہتی۔ الز بتھ نے سوچا۔

اماں جان ۔ جان  نے الزبتھ کو کہا۔ بچپن ا           پنے پیار کے اظہار کے لئے وہ     ا سے اس نام سےہی  پکارا کرتا تھا کیونکہ وہ اس کی پرورش بہترین انداز میں کر رہی تھی۔ ہنری کبھی دوباہ فارم ہاؤس نہیں  چلا سکتا۔ وہ اب اسے کبھی نہیں سنبھال سکے گا۔ میرا خیال ہے کہ تم اس بات کو جان چکی ہو۔ وہ یہ سچ کہہ رہا تھا۔

  تو وہ کیا کرے گی؟  الزبتھ نے کہا۔

تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر حالات اس نہج کو پہنچ گئے تو  شیرن اور میں تمہاری ذمہ داری اٹھا لیں گے۔ میری رائے میں یہ تمہارے لئے گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔اس تجارت کےمنافع میں  تین شراکت دار ہوں گے  تم، میں اور   کلیسا۔

 تم اتنی مفید پیشکش کیسے ٹھکرا سکتی ہو؟اریما  نے اگلے دن اس  نے یہ بات اس وقت کہی جب  وہ دونوں گرین ہاؤس میں  ہموار  پھٹوں کا ڈھیر           دیوار سے  لگا رہی تھیں۔ موسم نے ایسا رخ بدل لیا تھا کہ پیوند کاری کی جا سکے۔  ایروما نے جب یہ بات بار بار دہرائی  تو الزبتھ نے ناراضگی  سے اس سے پوچھ لیا کہ تم اس بات پر کیوں اتنا زور دے رہی ہو؟  ایرما ملر ایک بوڑھی عورت تھی لیکن  اپنا لیپ پوچ کر  کے خود کو جوان بنانے کی کوشش کرتی رہتی تھی اور جان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ الزبتھ اور وہ ہم عمر تھیں۔

اچھا ۔ تو یہ بتاؤ کیا تم خدا سے ساجھے داری سے منکر ہو سکتی ہو۔ مجھے بتاؤ؟  جان ایک ہوشیار تاجر ہے۔ اس نے تمہیں برابر کی شرکت کی پیشکش کی ہے۔ وہ مخلص ہے۔ تم اس کی ماں ہو۔ کیا ہوا جو سوتیلی ہو۔  بیٹا اپنی ماں اور ماں اپنے بیٹے کی مدد نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟ اس نے یہ بات اپنے غم کو کم کرنے کے لئے بھی کی تھی کیونکہ اس کی بیٹی مارلین ایک آوارہ کتے کی طرح اسے اپنا مسئلہ بتائے بغیر گھر چھوڑ گئی تھی۔ ایرما نے لکڑیوں کا بنڈل پھینکتے ہوئے پوچھا۔

اسے میری بجائے   یہ بات اپنے باپ سے کرنا چاہیئے۔ الزبتھ نے کہا۔

ایرما نے اپنی چھوٹی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا          کہ    اس نے تم سےاس لئے  بات کرنا مناسب سمجھا کیونکہ اس کے نزدیک اس وقت تم زیادہ اہم ہو۔

جان بہتر جانتا ہے کہ کس سے کیا کہا جائے۔ الزبتھ نے کہا۔  گھر آ کر  اپنا ایپرن پورچ میں لٹکانے لگی  تو  اس نے ہینکس کا ٹرک   وہاں داخل ہوتے دیکھا۔ ہنری نے اس سے کہا تھا کہ ہینکس سے فارم ہاؤس کے ایک سال ٹھیکے کے لئے اس سے بات کر نی ہے جبکہ وہ چاہتی تھی کہ ہنری  یا جان  ہی ہینکس سے بات کر ے۔ اس نے سوچا  کہ  شائد ہنری نے اسے پیغام بھیجا  ہوگا جو وہ یہاں چلا آیا۔

ہینکس نے گھر کا وروازہ کھولا  اور دروازے کے بیچ کھڑا ہو گیا۔           برفباری میں کھلے میں کام کرنے    سے اس کا       آدھا چہرہ برف سے سے جلا ہوا لگ رہا تھا۔   الزبتھ نے دیکھا کہ اس کی قمیص کا ایک بٹن ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا پیٹ ننگا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ کسی موسم میں بھی بنیان نہیں پہنتا تھا۔ اس کے پیٹ پر گھنے بال نظر آ رہے تھے ۔ جس سے اس کی مردانگی میں اضافہ ہو رہا تھا جبکہ اس کا خاوند ہمیشہ بنیان پہنا کرتا تھا۔ ہنری کی حالت اب کیسی ہے                ؟ ہینکس نے پوچھا۔ الزبتھ کی نظریں اس سے دوچار ہوئیں۔ اس سے آنکھیں ملانا الزبتھ کو مشکل لگ رہا تھا۔وہ ویسا ہی ہے۔الزبتھ نے جواب دیا۔

یہ سن کر افسوس ہوا ۔ ہینکس نے کہا۔وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے دار چینی  کے رنگ کے ہیٹ کو گھماتا رہا۔ اس کے ہاتھ نوجوانوں والے تھے۔ چھاتی چوڑی تھی۔ بال سرخی نما بھورے تھے جبکہ الزبتھ کے سیاہ تھے۔ اس کا خاوند ایک تو 72 سال کا بوڑھا اور اوپر سے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا اور اس کے کسی کام کا نہ رہا تھا اس لئے  خوبصورت ہینکس سے متاثر ہونا لازمی بات تھی لیکن اس نے اپنے جذبات قابو رکھے اور نارمل باتیں کرنے لگی۔  اسے ہینکس  پر دکھ تھا کہ اس کی بیوی کچھ سال پہلے کینسر سے مر  گئی تھی لیکن  وہ بہادری سے نئے  حالات کا مقابلہ کر رہا تھا۔   اس کے کردار کے بارے میں کوئی بری خبر نہیں تھی۔

   میں تم سے فصل کاشت کرنے والی مشین لینے آیا ہوں۔ مسٹر ہنری نے پچھلے سال کہا تھا کہ اگر میں  اس کی مرمت کر دوں تو میں اسے استعمال کر سکتا ہوں۔  ہینکس نے شائستگی سے  کہا۔ اس پر الزبتھ نے  سر ہلا دیا اور سوچا کہ وہ اتنی تہذیب اور پیار سے باتیں کر رہا تھا کیا وہ بھی اسے چاہتا تھا۔

میں نے سوچا کہ میں تمہیں آگاہ کر دوں کہ میں چھپر کے نیچے اس کی مرمت کر رہا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے اپنا ہیٹ سر پر رکھا اور دروازے سے باہر  جانے لگا تو الزبتھ نے کہا کہ ہنری نے کہا تھا کہ تم تک اس کا آداب پہنچا دوں ۔  یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا  اور  اس نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔       اس نے پوری زندگی ا میں اپنے میاں کے علاوہ کسی سے بھی  جنسی فعل نہیں کیا تھا لیکن ہینکس کو دیکھ کر اس کی سانسیں پھول جاتی تھیں۔ اس کے کانوں میں شہنائیاں بجنے لگتی تھیں۔ اپنی پریشانی چھپانے کے لئے ہینکس کو کہا  اندر آ جاؤ ۔ کافی پی کے چلے جانا۔  اس   نے اس پر الزبتھ کو ضرورت سے زیادہ گھورا  اور اپنے پیچھے دروازہ بند کیا    اور اندر آگیا۔  وہ ساکن کھڑی رہی ۔ وہ خود کو کوس بھی رہی تھی کہ اندر کیوں بلایا۔ ابھی تک اس نے ہنری کا وہ پیغام کہ وہ ایک سال کے لئے اس کا فارم ہاؤس ٹھیکے پر لے سکتا ہے ابھی تک نہیں پہنچایا تھا۔ وہ کافی پی کر شکریہ ادا کرکے چلا گیا۔

مارچ میں وہ ہنری کے پاس ہسپتال  گئی اوراس کے کمرے میں داخل ہونے والی تھی تو ڈاکٹر نے اسے راہ میں آن لیا اور بولا کہ افسوس ہے ہنری کو نمونیہ ہو گیا ہے ۔ یہ بات اس نے عجیب سے انداز میں کہی۔  اس نے جب ہنری کو دیکھا تو اس کی سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اس کی وریدوں پر نالیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک نرس آئی اور اس کے گلے میں ٹیوب ٹھونس دی اور موٹر چلا کر اس کی چھاتی سے بلغم نکال لیا۔ اس کے بعد ہنری کی سانس نارمل چلنے لگی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا تو الزبتھ کی تشفی ہوئی۔

آج   کے برفانی طوفان میں اس نے دیکھا کہ ہینکس نے برف کا  ٹنوں ڈھیر اس کے ڈرائیو وے سے صاف کر دیا تھا تا کہ وہ اپنے خاوند کو دیکھنے کے ہسپتال جائے  تو کمر تک  برف کے ڈھیر کو اسے ہٹانا نہ پڑے۔ وہ ہنری کے پاس گئی اور محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔  شائد اسے کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ ہینکس کو ابھی تک فارم ہاؤس کے ٹھیکے کا  نہیں   کہا گیا تھا ۔ وہ گھبرا گئی         لیکن اس کے منہ سے نکلا۔۔۔

اس روز وہ ہسپتال  گئی            تو ہنری نے کہا کی وہ زمین  کو تباہ کر رہا ہے۔ الزبتھ کا دل تیزی سے دھڑکا ۔

کون زمین تباہ کر رہا ہے؟۔  تو اس نے بڑی دقت سے  نمونئے کے زبردست بخار میں ہذیانی             کیفیت میں  کہا کہ ' کمیو نسٹس              ' ۔  الزبتھ  نے یہ سنا تو اس  کو ہنسی آ گئی۔

سردیوں کی وجہ سے اس کے گھر کا  فاسد مواد  بیرونی گٹر میں پھینکنے والا ٹینک برف سے جم گیا تھا اور غلاظت اور دیگر سیا ل مادے کا نکاس نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس نے جان کو اطلاع نہ دی کیونکہ وہ اپنی ہی الجھنوں میں مصروف تھا۔ اس نے   شہر سے اسے ٹینک سے پگھلانے والی کمپنی کو بلا لیا۔ انہوں نے اس پر ہفتہ سے زائد وقت مانگا  تو وہ اپنے برتن وغیرہ        باہر  صحن میں دھوتی رہی       اور غسل  اپنی رفیقہ کار ایرما کے پاس شہر جا کراس وقت تک  کرتی رہی جب تک کہ اس کا ٹینک  درست نہ ہو گیا۔

ایک بار  اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا تو  اس نے گاڑی ایک طرف لگا دی۔ہینکس نے کہیں سے دیکھ لیا۔ اس نے  منع کرنے کے باوجود ٹائر تبدیل کر دیا۔ تمہیں زحمت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ جان نے سب دیکھ لینا تھا۔ الزبتھ نے کہا۔  تمہیں رسمی ہونے کی ضرورت نہیں ہینکس نے کہا۔  جب الزبتھ کو احساس ہوا کہ اس نے سرد مہری برتی تھی  تو  شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ لال بیہوٹی ہو گئی اور خواہش کے باوجود اس کے قریب نہ گئی۔

ہنری کی حالت نہ سنبھلی اور وہ  خراب سے خراب ہوتی  گئی۔ اب تو  وہ ورزش والی سلاخ بھی استعمال کرنے  کے قابل نہیں تھا  اسلئے  سلاخ اتار دی گئی تھی۔ وہ نئی حالت پر کڑھتا رہتا تھا ۔ وہ   روز بروز اجڈ، اکھڑ اور تلخ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ  اس کا یہ رویہ اسلئے ہوا تھا کیونکہ الزبتھ نے اس سے  فارم ہاؤس بیچنے کا کہہ دیا تھا۔وہ ہنری  کی آنکھوں میں دیکھنے سے خوف محسوس کرنے لگ گئی تھی۔ بستر مرگ پر ہونے کے باوجود وہ ذہنی طور پر چست تھا۔  اس کے برعکس الزبتھ کی زندگی جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ اس پرمستقل طور پر  افسردگی چھائی جانے لگی تھی۔ مارچ اس پر بھاری پڑ گیا تھا۔ اس نے اپنے من میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ہینکس کو  ٹھیکے کی بات نہیں کرے گی بلکہ حتی الوسع  اس کا سامنا بھی نہیں کرے گی  ۔ایک دن وہ کام پر پہنچی  تو اس نے دیکھا کہ  گرین ہاؤس  ' برائے فروخت '                   لگایا ہوا تھا۔  اس نے سوچا کہ اگر وہ چاہتی تو اسے خرید سکتی تھی۔وہ واپس  گھر آ گئی۔

ہنری کے ہسپتال جانے کے بعد فارم ہاؤس   دن کے وقت خالی رہتا تھا اور یہ سب جانتے تھے۔جب اس نے عقبی دروازہ کھولا  تو اس نے  چٹائی پر ربر کے بوٹ پڑے دیکھے۔ جب اس نے کھونٹی    پر اپنا ایپرن لٹکایا  تو وہاں ہینکس کا اوور کوٹ  ٹنگا نظر آیا۔ اس پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ وہ باورچی خانے میں آئی تو وہ  حوض میں  اوزاروں کی مرمت  کر رہا تھا۔ ٹونٹی اس نے اکھیڑ کر کاؤنٹر پر رکھی ہوئی تھی۔  اس نے مڑے بغیر کہا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کون کون سی مشینیں  خراب ہیں   تاکہ میں ان  سب کی مرمتیں  کر لوں۔ یہ وہ  کام تھے  جو ہینکس نے  کرنا تھے۔   الزبتھ نے  اپنے اور اس کے لئے کافی بنائی اور  چسکیاں لیتے ہوئے  اس کو کام کرتا دیکھنے لگی ۔ اگرچہ  وہ کمرے کے دوسرے سرے پر تھا لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے بالکل قریب ہے اور اس سے راز و نیاز کر رہا ہے۔ وہ اس کی سوچوں سے بے خبر اپنے کام میں مگن رہا ۔ اس نے کام ختم کر لیا تو اپنے چکنے ہاتھ دھونے لگا  تو الزبتھ کے ذہن میں آیا کہ اس کے بعد وہ اس کی تنہائی کا فائدہ اٹھائے گا لیکن ہینکس نے ایسا کچھ بھی نہ کیا ۔ ہاتھ دھو کر باوقار انداز میں آلتی پالتی مار کر بکھرے اوزار اکٹھے کر رہا تھا۔ اس وقت وہ بالکل ہنری کی طرح  مضبوط اور طاقتور لگ رہا تھا۔وہ  اس سوچ سے چھٹکارا نہیں پا رہی تھی   اگر وہ آگے بڑھ کر  اسے دبوچ لے تو   کم عمری کی وجہ سے وہ  ہنری سےیقیناً ہر لحاظ سے   عمدہ ہو گا۔ ہینکس  نے اوزار  بکس میں ڈالے  اور کہا کہ اس نے  مشینوں کی مرمت کر لی ہے ، ہنری کو بتا دینا            ۔ الزبتھ کے ارمان دل میں ہی رہ گئے۔  الزبتھ نے  مسکرا کر    کہا کہ وہ اسے بول دے گی         اور شکریہ کہا۔            الزبتھ         کو ایسے لگا          کہ   ہینکس کے دیکھنے  کا اندازکچھ  ایسا تھا جیسےوہ اس کے کندھے کے اوپر سے  دیکھ رہا ہو اور کوئی رومانی بات سوچ رہا ہو  اور وہ  جذبات میں آگے بڑھنا چاہتا ہو  لیکن یہ بھی محض الزبتھ کی سوچ ہی تھی۔ اس نے اب بھی ہینکس سے فارم ہاؤس کے ٹھیکے پر دینے کی پیشکش کا پیغام  نہ دیا۔  اس وقت ہینکس  نے کہا  چونکہ ہنری بیمار ہے اگر وہ چاہے تو وہ کھیتوں میں بیج ڈال دے۔ وہ دل وجان سے چاہتی تھی کہ وہ  بیج ڈالے  لیکن  اس کے منہ سے نکل گیا کہ   میں فارم ہاؤس بیچنا چاہتی ہوں۔  ہینکس  کے گھنے ابروؤں  کے نیچے آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو گئی جو فوراً غائب ہو گئی۔

کیا تم اس کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہو؟ الزبتھ نے پو چھا۔

اس پر ان کی نگاہیں ملیں۔ الزبتھ نے اس کی آنکھوں میں چاہت دیکھی  پھر ان میں بے یقینی نظر آئی۔

شائد۔ ہینکس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا اور دروازہ  کھول کر آہستہ سے بند کر کے چلا گیا۔  

اس کے جانے کے بعد الزبتھ نے  اس کا کافی کا کپ اٹھایا، کنارے کو دانتوں سے کاٹا۔ کپ کے اندر اب بھی ہینکس کے سانسوں کی مہک تھی۔ اس نے اس  کے ٹرک کو واپس جاتے ہوئے دیکھا اور اس کے ذہن میں اپنا یہ فقرہ گونجا کہ میں یہ فارم ہاؤس بیچنا چاہتی ہوں۔ '         میں         '     ایسے کہا تھا جیسے وہ تمام فارم ہاؤس میرا تھا اور اس نے میری بات پر یقین بھی کر لیا تھا کہ فارم ہاؤس کی اصل مالک میں ہی ہوں۔

موسم بہار کی آمد آمد تھی۔ اپریل  کے وسط میں ہنری کو ایک اور دورہ پڑا۔ یہ پہلے سے شدید تھا۔  اس نے کیلنڈر پر بڑے  دکھ سے لکھا ۔ ان الفاظ میں اس کے اندر کا طوفان  چھپا ہوا تھا۔  وہ اس  کے ساتھ تمام  دن رہی۔  صرف تھوڑی  دیر کے لئے   کچھ زہر مار کرنے گئی تھی۔ اس کے کمرے کی کھڑکی کے پاس کے ساتھ کھڑی رہی اور نوٹس کیا کہ بالآخر موسم بہار آ چکا تھا۔ہیٹر کی گرم ہوا کمرے میں آ رہی تھی۔ مریضوں کے لواحقین  اور ملاقاتی  ہلکے کوٹ پہنے  ہسپتال داخل ہو رہے تھے۔ ان میں ہینکس کا ٹرک بھی  تھا۔  الزبتھ نے ہنری کے کمرے کا ٹب کپکپے ہاتھوں سے صاف کیا ۔ ہینکس دبے پاؤں کمرے میں داخل ہو گیا تھا تاکہ مریض چاپ سے پریشان نہ ہو۔ اس نے سر جھکا کر آداب کیا۔ اس  نے ہنری کی نزاعی حالت دیکھی۔ اس کی ناک میں نالیاں لگی ہوئی تھیں۔  اس کے پاؤں پر اس کے فضلا کا بیگ پڑا تھا۔

مجھے پتہ چلا کہ ہنری کی طبیعت  تشویش ناک ہے۔ ہینکس  نے ہمدردی  سے کہا۔ الزبتھ   کو احساس ہوا کہ چونکہ  اس کی بیوی فوت ہو گئی تھی اس لئے وہ اس کے دکھ کو سمجھ سکتا تھا۔ ہینکس  ہنری سے مختلف تھا۔  ایک بار جب  الزبتھ نے اپنی گاڑی  ہینکس  کی گاڑی  اس کی گاڑی میں اس لئے ٹھونک دی تھی جب وہ اسے آگے نکلنے کا رستہ نہیں دے رہا تھا  تو   توقع  کے مطابق اسے اپنے بازو ٹانکتے  ہوئے   غصے میں منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے             لڑنے کے کئے  الزبتھ کے پاس آنا چاہیے تھا۔ اس کے بر عکس وہ  مسکراتا ہوا  گاڑی سے باہر نکلا   ۔

سڑک پر ہوں تو ایسے واقعات  تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔اس نے کہا۔  

الزبتھ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا لیکن اس نے در گزر کر دی اور کہا کہ تمہیں کسی قسم کی بھی ضرورت ہو تو بلا جھجک  بلا لینا ۔ میں   فوراً پہنچ جاؤں گا۔       

 جان بھی آ سکتا تھا۔  الزبتھ نے کہا  پھر سوچا کہ اس کا یہ رویہ  اس لئے فراخدلانہ  تھا  کہ  وہ الزبتھ سے رومانی تعلقات پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اسے بھی اعتراض نہ تھا  لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ  سکی۔  یہ باتیں الزبتھ کو اس وقت یاد آئی تھیں جب وہ ہنری کی مزاج پرسی کے لئے آیا ہو تھا۔اس وقت ہنری نے  ایک آہ بھری اور وہ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اس کی سانس بھاری چل رہی تھی جس کے ساتھ اس کا کمبل بھی اونچا نیچا ہو رہا تھا۔ہنری ان دنوں کوئی بات نہیں کرتا تھا ۔ بس اسے خاموشی سے تکتا رہتا تھا  لیکن اس کا دماغ بالکل صحیح کام کر رہا تھا۔ وہ ایک پر کی طرح ہلکا ہو گیا تھا  اور شائد دوسرےپروں کی طرح گر رہا تھا۔

اگلے روز وہ ہسپتال پہنچی ۔ وہ تمام وقت اس کے پاس رہی۔الزبتھ کو بھوک لگی تو وہ  ریستوران چلی گئی۔ واپس آئی تو ہسپتال کے دروازے پر نرس  ملی جس نے بتایا  کہ ہنری اس دنیا سے  رخصت ہو گیا تھا اور ہسپتال نے اس کی اطلاع اس کے بیٹے کو بھی دے دی ہے۔ وہ  اس کے کمرے میں گئی۔ سب نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔اس نے بیگ میں دراز سے  ہئیر برش  اور کنگھی پلاسٹک بیگ میں رکھی۔ اس نے  سوچا کہ اب اسے رونا چاہیئے ۔ ہنری کی ادویات  اور فضلا  وغیرہ پہلے ہی صاف کئے جا چکے تھے۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ ہنری کے سلیپر، گھر کا کوٹ ، پلیٹ وغیرہ کی ضرورت نہ رہی تھی۔  اس نے ہنری کو اپنے بازوؤں  میں اٹھا لیا                 اور کھڑکی کے پاس لے گئی۔وہ ایک بچے  سے بھی کم وزنی تھا۔  ۔۔

باہر دیکھ ہنری موسم بہار آ چکا ہے۔ الزبتھ نے اسے کہا۔

جب وہ  ہسپتال  کے دروازوں کے لمبے لمبے شیشوں سے گزری تو اس وقت بارش ہو رہی تھی۔   ہنری فوت ہو گیا ہے اور آج موسم بہار کی پہلی بارش ہے۔ وہ کیلنڈر پر لکھے گی۔ اس نے ہسپتال میں دستاویزات پر دستخط کر کے  میت  حاصل کی ۔ اس کے لئے اگرچہ جان کے انتظار کی ضرورت  نہ تھی لیکن اس نے اس کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔  وہ  کا رپارکنگ گئی تو ایک کار کا دروازہ تیزی سے کھلا ۔ اس میں شیرن بھاگتی ہوئی نکلی اور اسے گلے لگا لیا۔ سب ٹھیک  ہو جائے گا۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں جان کو بتا دوں گی کہ تم ٹھیک ہو۔تم نے بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔یہ تمہاری ہمت ہے۔ہم تمہیں مزید اذیت برداشت نہیں کرنےویں گے۔  تم نیاگرا فالز جاؤ گی۔ تمہیں نیاگرا فالز جانا ہو گا۔  تم نے جو اذیتیں برداشت کی ہیں        اسے بھلانے کے لئے جانا ہوگا۔         تمہیں سکون کی تلاش میں جانا ہوگا۔


Sandra Birdsell

- 1942

Canada

 

حالات زندگی

 

سینڈرا برڈسیل  کینیڈا کے صوبہ  مینی ٹوبا        کے شہر                           '               ہیمی اوٹا                         ' میں 1942 کو پیدا ہوئی۔                             اس کا والد کینیڈا میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کی نسبت   نیدر لینڈ              سے  تھی  اور   ولندیزی زبان ( میٹیس کری)             کو زندہ رکھا ہوا تھا جبکہ فرانسیسی اور انگریزی اس کی  کینیڈین زبانیں تھیں۔            اس کی والدہ جرمن نژاد تھی جو روس میں پیدا ہوئی             تھی ۔1943    میں اس          کے        والد نے         فوج     میں نوکری کر لی تو اس کا خاندان ایک جگہ مستقل طور پر           کسی ایک جگہ رہائش نہ رکھ سکا۔ وہ اپنے گیارہ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔       اس نے ابتدائی تعلیم  موریس               سے حاصل کی۔                  اس نے 15 سال کی عمر میں اپنا گھر  چھوڑ دیا۔ وہ                                       یونیوسٹی آف  وینی پیگ                         اور یونیورسٹی آف مینی ٹوبا میں پڑھی۔ اس  کا                 گائیڈ  رابرٹ کروشن تھا۔1966     میں  وہ                     سیسلیچوان             صوبے کے دارالخلافہ  ریجائنا               منتقل ہو گئی۔                   جب وہ 35 سال کی تھی تو اس نے یونیورسٹی آف وینی پیگ مین انگریزی  تخلیقی ادب                 میں داخلہ      لے لیا۔     پانچ سال کے بعد تھرسٹون پبلشر نے اس کا سب سے پہلا ناول (نائٹ ٹریلولز) چھاپا۔                آج کل وہ اونٹوریو صوبہ                            اور کینیڈا کے دارالحکومت  اٹاوا                   میں مقیم ہے ۔

 دو  واقعات  نے  اس کی سوچ کا رخ بدل دیا۔  پہلا  واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ساڑھے چھ سال کی تھی۔ اس وقت اس سے بڑی بہن           کینسر    سے فوت ہو گئی۔اب اس کا وقفہ اپنی  دوسری بڑی بہن سے چار سال کا ہوگیا۔بڑے خاندان کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ دوسرا واقعہ 1950 میں پیش آیا جب اس کے شہر موریس میں سیلاب آیا ۔ اس نے اوپر نیچے تین کہانیاں سیلاب کی تباہ کاریوں پر لکھیں جو        اس کی تصنیف            آسیز سٹوریز                میں شامل کی گئیں۔  2007  میں        چار سال          تک یونیورسٹی آف وینی پیگ میں  پیشہ ور مصنفہ کے طورخدمات سر انجام دیں۔ 2010 میں وہ آرڈر آف کینیڈا   اور 2012 میں سیسکیچوان کے آرڈر آف کینیڈا    کی رکن منتخب ہوئی۔

         '                     برائڈ                  ڈول                        '                                         اس کے مجموعے                   '                      اگیسیز             سٹوریز                       ؛                        سے لی گئی ہے۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

 

Novels

The Missing Child (1989)

The  Chrome Suite (1992)

The Town That Floated Away (1997)

The Russland (Katya 2001)

Children of The Day (2005)

Waiting for Joe (2010)

 

Short Stories

Night Travellers (1982)

Ladies Of The House (1984)

Assassiz Stories (1987)

The Two Headed Calf (1997)

Awards

The Missing Child  (First Novel Award 1987)

The Two Headed Calf (1997 Saskatchewan Book Award)

The Town That Floated Away (1997 Saskachewan Book Award)

The Russlander (1997 Saskachewan Book  

 

 

Popular posts from this blog