قومہ Comma By Hilary Mantel

 




  


قو                             مہ

Comma

By

Hilary Mantel

مترجم : غلام  محی الدین

میری چوپلین  میری گہری سہیلی تھی  جس کاخاندان مفلوک الحال تھاجو ایک  کھولی میں کس مپرسی کی حالت میں رہتا تھاجبکہ میرے خاندان کی مالی حال بہتر تھی۔ میرے والدین  نےمجھے سختی سے منع کیاہواتھاکہ اس کے نزدیک بھی نہ پھٹکوں ۔چونکہ آس پاس کوئی اوربچہ نہں تھااس لئے وہ میری واحد دوست تھی ۔میں اس کےبنارہ نہیں سکتی  تھی جس وجہ سے مجھے سزابھی ملتی رہتی تھی۔وہ مجھ سے دوسال بڑی تھی۔ 'میری جوپلین دس سال کی تھی۔مجھے  ایک ایسی مہم یادآئی  جو ہم نے تجسس میں سر کی تھی جس  کے نتیجےمیں ہم نے  ایک شخص   کا جسم دیکھ جو ایک کومہ  ( جنین )کی مانندتھا۔ مجھے  یہ واقعہ یادآیا   تو میں 'میری چوپلین ' کودیکھ رہی تھی جو جھاڑیوں میں خود کوگھسیٹ رہی تھی۔ اس کے دونوں گھٹنے  پھیلے ہوئے تھے ۔شدید ترین گرمی میں ( اوریہ مہینہ جولائی  کاتھا)  رینگتے وقت اس کی ناک کی نوک پر مٹی اورریت سے گھونگھے کا ایک حصہ رہ گیاتھا۔ہم گھاس اور جھاڑیاں جوہمارے کانوں تک اونچی  تھیں  ،میں  اندر جارہی تھیں۔ گھاس چبھ رہی تھی اور ایسی سفید لکیریں  پڑرہیں تھیں جو  قدیم قبائل میں ان کی ننگی ٹانگوں پر  پائی جاتی تھیں۔بعض اوقات ہم  دونوں ایسے اکٹھے اٹھتیں جیسے کسی  ناقابل بصیرت ڈوریوں نے اوپرکھینچ لیاہو۔اس کھردری گھاس کی بالیوں سے خود کو الگ کرتے ہوئے ہم ایک دوسرے کےزیادہ قریب آجاتی تھیں اور ہم اندازہ لگاتیں کہ ہمیں کہاں کارخ کرناچاہیئےاور کہاں نہیں جانا چاہیئےاور پھر جہاں ہمیں دیکھے جانے کاڈر ہوتا  یا ہمارے اذہان میں خطرے کاسگنل بجتا ،ہم پھرتی سے جھاڑیوں کے اندر  نہائت نیچے چھپ جاتی تھیں کہ اگرخدا بھی ہمیں ان کھیتوں  میں دیکھ رہاتھا تو وہ ہمیں آدھا ہی دیکھ پائے۔

گھاس میں دبی ہم ایک دوسرے سےسرگوشیوں میں  باتیں کرتی رہتی تھیں۔میری چوپلین نےچو خانوں والی چھوٹی نیکر پہنی تھی جواسے پچھلے سال پوری تھی ۔اس کے بازو دبلےپتلےتھے اور اس کے گھٹنوں کے چپو ایسے تھے جیسے ہڈی کی پرچ ہو۔اس مشقت میں ہماری  ٹانگیں زخمی ہوگئی تھیں ۔اس کےباوجود میری چوپلین کی سرگوشیاں اورطنزیہ قہقہے جاری تھے۔ اس کے نتھنےپھولے ہوئے تھے۔اس کے بالوں کوکسی نامعلوم ہاتھ جو شائد اس کے اپنے ہی بھائی  کاہوسکتاتھا، نے سفیدربن سے باندھ رکھاتھا جس سے اس کےبالوں کی چوٹی چوہے کی دم بن گئی تھی ۔سہ پہرتک اس نےخود کوایک سمت سے ترچھا کرلیاتھاجس سے اس کاسرایسے پارسل کی طرح بن گیاتھا جسے صحیح  طورپرپیک  نہ کیاگیاہو۔میری  چوپلن نے مجھ سے سوال کیا'کیاتم امیرہو؟'

اس سوال پرمیں حیران  رہ گئی۔اورکہا'میں ایسانہیں سمجھتی۔ہم اوسط درجے میں آتے ہیں۔کیاتم امیر ہو؟         ' میں نے بھی اس سے پوچھ لیا۔

اس نےاپنی نیلی آنکھوں اوراپنے ہاتھوں کو بھیک مانگنےوالےکشکول   کی مانندکرتے ہوئے کہا۔وہ تو  خیرات پرپل رہی تھی۔اس کے  کپڑوں پر پیوند لگے تھےلیکن  مجھے وہ کوہ قاف کی  پری سمجھتی تھی۔وہ کہاکرتی تھی کہ ان پریوں کی   کہانیوں میں تم ایک جنگل میں عمارت کے کسی تکونی حصے کے نیچے رہتی ہوگی ۔تمہاری چھت پر گھاس پھونس اورپھول ہوتےہوں گے۔تمہارے پاس ایک ٹوکری جس  میں  جگہ جگہ کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے  پڑے ہوں گے اپنے سامنے رکھ کر اپنی دادی  ماں  کاہاتھ بٹارہی ہوگی۔۔تمہاراگھر کیک کابناہواہوگا۔وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ذکر سے مجھےدادی ماں یادآگئی۔

ایک بار میں   دادی ماں کےگھرگئی تو وہ اکیلی تھی ا  ور میں اسکی تنہائی دورکرنےگئی تھی۔مجھےیہ علم نہیں تھاکہ وہ  اس وقت کوئی کام کر رہی تھی ۔وہ  باربار ٹکٹکی باندھ کر دیواریں گھورنے لگتی اور کئی دفعہ تو اس نے مجھے گھرواپس بھیج دیالیکن اکثر اوقات مختلف کاموں میں میری مدد لیتی تھی۔کبھی کبھار وہ مجھے کہتی کہ مٹروں سے دانےنکالو۔بسااوقات وہ میرے ہاتھ میں اون کاگولہ  پکڑادیتی اور خود ُبنناشروع کردیتی۔اور کہتی گولے کوزمین پر گرنے نہ دوں اور اسے ہاتھ میں پکڑ کربیٹھی رہوں۔توجہ اس کی طرف ہی رکھوں۔ اور جب  میں  شکائت کرتی  کہ میرے بازوتھک گئے تھے اور اس گولے کو رکھ دوں تو اس کاجواب آتاکہ اسےاس جملےکامطلب نہیں آتااوربڑبڑاتی رہتی کہ جیسے اسے تھکےہوئے لوگوں کی کیفیت کا پتہ نہیں اور اور وہ مجھے یعنی اپنی پوتی کو چانٹا مارکر دکھادے گی کہ تھکے ہوئے لوگ کیسے ہوتے تھے۔

دادی کی باتوں سے مجھےمیری توجہ کہیں اورچلی جاتی جس کامرکز 'میری چوپلن                'ہوتی ۔مجھے سختی سے منع کیاگیاتھاکہ اس کا نام میری زبان پرنہ آئے۔اس کا سوچتی تومیرامن بوجھل ہوجاتاکہ میں اس کانام زبان پرلانے سے خودکوکیسے روکوں۔جتنا میں کوشش کرتی تو اس کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتاتھا۔اس کی نحیف و نزار شکل سامنے آجاتی۔وہ قحط زدہ  اور ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔اس لئے   وہ جب ساتھ نہ ہوتی تومجھے شک ہوتاکیا وہ زندہ تھی یا  مرگئی تھی۔لیکن اگلی صبح سورج کی  پہلی کرن کے ساتھ اپنی  کھولی  کی دہلیزپر کھڑی سامنے کےدروازے پرجھک کر طنزیہ انداز میں ہنس رہی ہوتی اور اپنے ہاتھ کوفراک کےنیچےلےجاکرخارش کررہی ہوتی اور میری طرف دیکھ کر چڑانے کے انداز میں اپنی زبان اتنی زیادہ باہر نکالتی کہ مزید باہر نہ نکل سکتی ۔جب میری والدہ  گھر سے نکلتی تو وہ شائد اسے دیکھ لیاہوگا  یاشائد نہیں دیکھاہوگا۔۔۔

توہم  اس وقت ہاتھاوے سر کرنے کے مشن پرتھیں ۔ہاتھاوے ایک نیاگھر بنا تھا جس میں امیررہتےتھےاورہمارامقصد یہ تھاکہ معلوم کیاجائےکہ وہ کیسے ہوتے ہیں ۔ہم سہ پہروں  کوعام طورپر اپناوقت بھنبھناہٹ ،خماری،بیماری،خانہ بدوشی میں صرف  کرتی تھیں ۔اس دن بھی اپنے مشن  کی تکمیل کےلئے  ہم آہستہ آہستہ ہاتھاوے کے گھر کے اندرگھس گئی تھیں ۔اس موسم گرماتک میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ گھر کبھی وہاں تھا۔میرا خیال تھا کہ وہ گھر اس وقت بناہوگاجب میں چھوٹی بچی تھی کیونکہ اب ہمارے گاؤں کی حدود چاروں طرف پھیلنے لگی تھیں۔ہماراگھر اب مرکز سے  دور ہوگیا تھا۔ ہاتھاوےکومیری  چوپلین نے دریافت کیاتھا۔اس  نے مجھ سے پہلے اس گھر کو جو ایک طرف بنایاگیاتھا،نوٹ کیاتھا۔اور ہم دونوں اس بات پرپوری طرح متفق تھے کہ وہ کسی امیر کاگھر تھا کیونکہ وہ پتھریلی اینٹوں سے بناتھا۔اس میں مالک نے شاندار مینار بھی بنایاتھا۔گھر میں ایک باغیچہ بھی تھا۔ اس  کی چار دیواری اتنی اونچی نہیں تھی کہ ہم اسے پھلاندنہ سکتیں۔ہم  دیوار پرچڑھ کرآہستہ آہستہ دوسری طر ف  جھاڑیوں میں اتر جاتے تھے اور باغیچے میں پھولوں کی بہاردیکھتے تھے جو گرمی کی تمازت سے  مرجھاگئی  تھیں۔ لان  سورج کی گرمی سے جھلس گیاتھا۔اس عمارت کی اونچی لمبی کھڑکیاں روشنی میں چمک رہی ہوتی تھیں۔اوروہ جگہ جہاں سےہم گھر میں داخل ہوتے وہاں ایک کھلا صحن تھا۔وہ اتنا اعلیٰ تھاکہ اسکی تعریف کرنے کے لئے نہ میرے پاس الفاظ تھے اور نہ ہی میری چوپلین کےپاس۔اسلئے اس پربات کرنابیکارتھا۔

ہم ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں  گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ راستے میں گپ شپ کیاکرتے۔ایک دفعہ ہم اسی طرح کی آوارہ  گردی کےلئے نکلے ہوئے تھے تو میں نے میری چوپلین سے کہا کہ کیااسے ہونق اور احمق کے معانی آتے تھے؟۔۔۔اس دن والدہ نے میرے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہاتھا کہ و ہ مجھے گھر سےنکال دےگی کیونکہ مجھ سے گھر کاایک برتن ٹوٹ گیاتھا۔مجھے ان کے معانی نہیں آتے  اسلئے میں نے تم سے  یہ سوال کیاتھا۔

ہاتھاوے  گھرمیں  جب ہم پہلےدن گھسےتودن بھر ہم جھاڑیوں میں چھپےرہےتاکہ اس گھرکے مالک کودیکھیں جوبہت امیرتھا۔ جس نے اپنے چمکدار دروازوں سے کسی وقت بھی باہرنکلناتھا۔ ہمیں اس بات کااشتیاق تھاکہ امراکی شکلیں کیسی ہوتی ہیں۔وہ کیاپہنتے ہیں۔کیسے چلتے ہیں ۔ان کی عادات کیسی ہوتی ہیں ۔وہ کیاکیا حرکات کرتے ہیں۔اس  انتظار کے دوران میری چوپلین نے مجھے سرگوشی کی 'کیاتمہاری  والدہ  کو پتہ  ہے کہ تم اس وقت  یہاں ہو؟'

'یہ بات تم پر بھی لاگوہوتی ہے۔'میں نے اسے اسی انداز میں جواب دیا۔

جیسے  جیسے دن ڈھلتاجارہاتھامیری چوپلین  نے جھاڑیوں میں ایک مستقل ٹھکانابنالیاتھاجہاں وہ آسانی سے کسی کی نگاہوں میں آئے بغیرچھپ سکتی تھی۔اگرمیرے علم میں یہ ہوتاکہ یہ کام اتنابورکرنےوالاتھاتومیں لائبریری سےکوئی کتاب لےآتی اور دن بھریہاں بیٹھ کرپڑھتی رہتی۔

میری چوپلین خشک گھاس کےسرکنڈوں کوانگلی پرگھماکر  کبھی کبھی ہلکی سروں میں گنگناتے ہوئےجھاڑیاں صاف کرتی رہی۔میں نے   اسے بتایاکہ میرے والد نےمجھےہدائت کی تھی کہ میں رقم جمع کروں کیونکہ کچھ عرصہ بعد مجھے اورتمہیں  اصلاحی سکول جاناہوگا ۔

'اصلاحی سکول کیاتھا؟' میری  جوپلین نے پوچھا۔

'یہ وہ جگہ تھی جہاں تمہیں روزانہ پیٹاجاناتھا۔'میں نےجواب دیا۔

'مجھے کس قصورپرماراجاناتھا۔' میری  چوپلین نےپوچھا۔

'کوئی قصورنہیں۔بس ان کاکام صرف پیٹناہی ہوگا۔' میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ایساممکن بھی تھالیکن یہ معلوم نہیں تھاکہ وہ ہفتے اور اتوار کوبھی مارتے تھےیاعام دنوں میں ہی ایساکرتے تھے۔مجھ پر غنودگی طاری ہونے کگی ۔

میراخیال تھا کہ سب  کوایک قطارمیں کھڑاکردیاجاتاہوگااورایک ایک کرکے پیٹاجاتاہوگااور تمہاری باری پرتمہیں پیٹاجائے گا ۔'

میری باتیں کرتی کرتی ایک چھوٹی سی لکڑی سے زمین کھودتی رہی۔۔۔'جب تمہاری باری آئے گی تو بچی ! تمہاری ایک موٹے ڈنڈے سے ٹھکائی ہوگی جس سےتمہیں دن میں تارے نظرآئیں گے۔وہ تمہارےسرپرکاری ضربیں لگائیں گےاور اس وقت تک لگاتے رہیں گے جب تک تم بیہوش نہیں ہوجاؤگی ۔ ' اس بات پرہماری اصلاحی سکول کے معاملات پر گفتگواختتام پرپہنچی ۔ میں نے  اس کی لرزادینے والی باتوں کااثرنہ لیا۔اس وقت میں اپنی ٹانگوں کوتہہ کرکے بیٹھی تھی اورپورے جسم کابوجھ ان پرتھاجس سے ان میں ٹیسیں پڑناشروع ہوگئیں۔میں جھنجھلاگئی اور میری چوپلین کوگھرواپس جانے کااشارہ کیا۔

میری  چوپلین نے زمین کھرچناجاری رکھااور کہا 'چوکڑی مارکربیٹھ جاؤ۔'

'اس طرح سے بیٹھنا گستاخی ہے ۔'میں نےکہا۔

'سنو۔میں  اسی اندازمیں  اس وقت سے بیٹھ رہی ہوں جب  تم  ایک ننھی بچی تھی اورہروقت بستر پرپڑی رہتی تھی۔میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ تمہارے گھر میں کیاکیاہوتاتھا۔'میری  جوپلین نے کہا۔

اس کی باتوں پرمیں پھر سے ہوش میں  آگئی ۔ 'میرے  گھر میں کیاکیاہوتاتھامیری جوپلین ۔  بتاؤ۔ 'میں نےپوچھا۔

'کچھ ایسی چیزیں ہوتی تھیں جن  کےتومیں نام بھی نہیں جانتی۔'میری  جوپلین نےکہا۔

'کس قسم کی چیزیں؟'میں نےپوچھا۔

'کمبل میں کچھ لپٹاہوتاتھا۔اس میں کوئی جانور ہوتاتھا؟'میری نےکہا

میں نے طنزیہ طورپرکہا۔۔'جانور!۔۔۔کمبل میں کون ساجانورلپیٹاجاسکتاتھاپاگل؟'

'ایک کتا،اگروہ چھوٹاہوتو۔' میری  چوپلین نے کہا۔

میں نے اس کی  بات میں سچائی دیکھی،لیکن میں بال کی کھال اتارناچاہ رہی تھی، میراچہرہ سرخ ہوگیا۔۔۔'کیااس کمبل میں کتاہوتا تھا؟نہ۔نہ۔نہ۔صحیح بتاؤ۔وہ کیاتھا۔ میں نے کہا۔کیا اس کے بازو تھے؟اگر ایساتھاتووہ انسان ہی ہوگا۔'

'لیکن اس کی شکل انسانی نہیں تھی۔'میری نے جواب دیا۔اس نےراز                         راز ہی رہنے دیا۔۔۔

میں ناامیدہوگئی۔''اس کی شکل کیسی تھی؟ میں نے سوال کیا۔

'کومہ ۔۔۔کومہ۔۔۔کومہ  کی شکل جیسے کہ  ایسے بچے  کی جووقت سے پہلے پیداہوگیا ہو یا  سات ماہ کے  لاروا والی ۔۔'۔اس نےسوچ کر آہستہ سے کہا۔'کیاتم نے وہ کتابوں میں نہیں دیکھا۔'میری  جوپلین نےکہا۔'وہ شائد ماں کےپیٹ میں پیدائش سے پہلے ہونےوالےجنین کی   شکل کی ببات کررہی تھی

میری کے اس انکشاف پرکسی نتیجے پرنہیں پہنچاجاسکتاتھا۔

'تمہیں اس  کو  مزید  جاننے کےلئے مزیدانتظارکرناپڑے گا۔اگرایسانہ کیاتوتم کبھی نہ جان پاؤگی اور اس امیر آدمی کو صرف میں ہی دیکھ پاؤں گی۔' میری  چوپلین نےکہا۔

'لیکن  اس جنین یا کومہ دیکھنے کے لئے رات بھر انتظارنہیں کرسکتی۔ ہم اتنی دیر سےیہاں پرہیں اور میں  نے سہ پہر کی چائے بھی نہیں پی۔'

''فکرنہ کرو۔تمہارے والدین کواس بات کی نہ توپرواہ ہوگی اور نہ تمہاری غیرموجودگی انہیں  پریشان کرے گی۔'میری  چوپلین نےکہا۔

وہ درست تھی۔ہم بہت دیر تک باغیچے کی جھاڑیوں میں چھپ کربیٹھی رہیں اورکچھ بھی سامنے نہ آیاتوہم چلےآئے۔

وہ موسم گرماکادن تھا۔جولائی کے مہینے کےآخری دن چل رہےتھے۔بالغ اس موسم کی مناسبت سےشام کاسفید لباس پہن کر ساحل سمندر پرجانے کی تیاری کررہےتھے۔میری ماں نے مجھے دیکھاتواس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔اسے میرا چہرہ دیکھ کر ایسالگا جیسے میں بہت مشقت کرکے آئی تھی۔

'تم کالی کشمش لگ رہی ہو۔تمہارے کپڑے چپکےہوئے ہیں ۔چہرے پردھبے پڑے ہیں۔کیا تم نے سیاہ رنگ  اپنے جسم پرانڈیل لیاہے؟  ''ماں نے پوچھا۔تم کہیں کسی گھاس میں تونہیں تھی۔سورج کی گرمی نے تمہارایہ حال تونہیں کردیا؟'

ان دنوں لانڈری اس طرح ہوتی رہی ۔کپڑے دھونے کےبعدخشک کرنے کے لئے انہیں جھنڈے کی طرح کھول کر تاروں پر لٹکادیاجاتاتھا۔گرمیوں میں دوسرے موسموں کی نسبت  دیرتک روشنی رہتی تھی۔

'جب تم پہلےیہاں آئی تھی توتم بجلی کی روشنی تلے بیٹھی تھی  توتم  ٹھیک تھی اور سورج  کےنیچےنہ بیٹھنے سے جلی ہوئی تھی اور نہ ہی تمہیں خارش تھی اور نہ ہی تمہارے چہرے ۔ہاتھ پاؤں اور جسم پرٹھنڈی پٹیاں رکھناپڑنی تھیں۔نہ ہی تمہاری جلد سبزی کی طرح چھری سے چھیدی ہوئی تھی۔تم تکلیف  میں توتھی لیکن  ہلکی سی۔تمہیں نیند آنے پرسلادیاگیاتھالیکن بستر کی حدت میں تم دن  رات جاگتی رہی ۔ جسم کے ان حصوں پرجہاں کیڑوں نےکاٹاتھاوہاں  ناخنوں سے خارش کرتی رہی۔اس قسم کی کوئی  شئے اس لمبی گھاس میں ہوگی  جس میں تم دن بھربیٹھی رہی ۔اس کے علاوہ بھی اورکیڑےہوں گے جنہوں نےتمہیں کاٹا۔ کیا تم جاسوس بن کر جھاڑیوں میں بیٹھی رہی اور اسی وجہ سے یہ سب ہوا۔اس سے رات تم پربھاری پڑے گی ۔ تیرے دل کی دھڑکن جوش جذبات سے بہت زیادہ ہوجائے گی۔'

صبح  کی روشنی میں صاف ہوامیں تم باورچی خانے میں تکلیف  کے ساتھ جگہ جگہ  پھرنے لگوگی ۔میری خالہ اس وقت باورچی خانے میں مصروف تھی۔۔وہ ڈونگے میں کارن فلیکس انڈیل رہی تھی۔ جب وہ پوری طرح انڈیلے جا چکے تو اس نےماں کی طرف دیکھا اور ان کی آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئ خفیہ  بات  ہوئی۔

خالہ کی پلکیں اور منہ ہلکاسامڑاجس سے مراد یہ تھی کہ وہ ہاتھاوے گھرکےبارے میں کوئی بات کرناچاہ رہی تھی لیکن والدہ نے اشارے سے منع کردیااور بات ٹالنےکے لئےبولی کہ'' اگر چھوٹی بچیاں اس طرح کی حرکات کریں توبرامحسوس ہوتاہے۔'

'اس میں   کیا  برائی ہے؟'۔۔۔میں نےسوال کیا۔'میں پوچھ رہی تھی ۔جب والدہ ایک سلنڈر کی طرح پھٹ پڑیتووہ اوتاؤلی ہوگئی۔'اس نے کہاکہ 'جب تم دن بھر وہاں دھوپ میں جلتی رہی تویقیناً میری جوپلین بھی تمہارے ساتھ ہوگی۔کیاایسانہیں ؟اگر یہ ثابت ہواکہ وہ بھی وہاں تھی تومیں تمہاری چمڑی ادھیڑدوں گی۔میں تمہیں آخری بارتنبیہ کررہی ہوں کہ اس کی سنگت چھوڑدواورتم اچھی  طرح  جانتی ہوکہ میں اپنی بات کی پکی ہوں۔'

'میں وہاں میری چوپلین کےساتھ نہیں تھی۔'میں نےتیزی سے بہادری  سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ہوئے کہا۔

'توپھرکس کےساتھ تھی؟'

میرے ذہن میں جوپہلانام آیاوہ خارش کاتھا۔

خالہ  نےیہ سناتواپنے نتھنے پھلائے اور قہقہہ لگایا۔'خارش،جوئیں، لیکھیں،پسو  اس شیریں مٹھائی میں توبہت لذت آئی ہوگی۔یہ میٹھی ایمبرائیڈری توعمدہ  رہی ہوگی۔ان میں سے نے بھی مجھے حیران نہیں کیا۔گھٹیا شیلاجوپلین کےگھر میں تو ایسے حشرات الارض بہتات سے مفت میں دستیاب  تھے۔اپنی زندگی سے ایک دن کےلئے بھی اس ننھی گھٹیا عورت  کواپنےگھرمیں گھسنے نہ دینا۔میں ہمیشہ سےکہہ رہی تھیں ،وہ لوگ جانوروں کی طرح رہتے ہیں ۔ان کے پاس توبستربھی نہیں ۔کیا تمہیں اس بات کاعلم تھا؟'

 'جانور بھی اپناٹھکانہ صاف رکھتے ہیں۔' ماں نے کہا۔ 'لیکن  میری جوپلین کبھی بھی گھرصاف نہیں کرتی ۔وہ تمام لوگ گندگی  کےڈھیرمیں سورؤں  کی طرح کاٹھ کباڑمیں رہناپسند کرتے  ہیں۔'

'کیا سورآپس میں لڑاکرتے تھے۔'میں نے پوچھالیکن انہوں نے میرے سوال کونظراندازکردیا۔وہ ایک ایسے واقعے کویاد کررہی تھی جومیری پیدائش سےپہلے رونماہواتھا۔ایک خاتون نے ہمدردی میں انہیں دم پخت کردیاتھااورمسز جوپلین نے اہم  خیال نہ کیااور اس  تھوک دیا اور مہذب لوگوں کی طرح 'نہیں'۔۔۔'شکریہ' کہا اور اس کی مدد کی پیشکش قبول نہ کی۔۔یہ قصہ عمر بھر ایسے انداز سے سنایاجاتاجیسے کہ تازہ ترین واقعہ ہوا ہو اور پہلےکبھی نہ بتایاگیاہو۔میری  والد ہ ہمنواہوئی  اور اسی لہجے میں  کہا،کہ 'یہ  قصہ عمر بھر ایسے انداز سے سنایاجاتاتھاجیسے کہ تازہ ترین واقعہ ہوا                  ہو،اورپہلے کبھی نہ بتایاگیاہو ۔ میری والدہ ہمنواہوئی اور مخصوص لہجے میں بولی ،ختم ہوتے ہوئے موسم خزاں میں، وہ الفاظ جس پر وہ کہانی ختم ہوجاناتھی، کہ 'اس نے اس طرح  اس غریب روح کوپامال کردیاجس نے اس پر رحم کھاکر پسندے بھیجےتھےجواس کونہ دئیے ہوتے توبعد میں وہ خودبھی کھاسکتی تھی۔'

'آمین ۔'اس ڈرامےکےآخری حصےپر جوں ہی روشنی کا بٹن کھلاتو پختہ سڑک  پرروشنی ہوگئی اور میں آسمان کوغور سے دیکھنے لگی۔اور میری چوپلین میراانتظارکرنے لگی۔

'کیاتم نے کھاناکھالیاہے؟ا'س نے پوچھا۔

'نہیں۔'

میری جوپلین  سےسوال پوچھنابیکارتھا کیونکہ اس کے پاس کبھی کچھ نہیں ہوتاتھا۔'میرےپاس ٹافیوں کےلئے کچھ پیسے ہیں۔'میں نےکہا۔

ایک صبح گھر میں نکلنے سے پہلے میں باورچی خانے کےدروازے پرکھڑی تھی تو میں نے سناکہ میری  چوپلین پرشہدکی مکھیوں نےحملہ کردیاتھا۔میں نے اسے بتایاکہ ہاتھاوے کی مہم جوئی سے میں بیمارہوگئی تھی اور مجھے کیڑوں والی بیماری ہوگئی تھی۔

اگست کامہینہ شروع ہوگیاتھا۔اورچولہے کوئلوں اور لکڑیوں سے خالی ہوگئے تھے۔سڑکوں پرتارکول ا بل رہی تھی ،اور بھڑوں کی یلغار ایک مدھم پیلے رنگ سے اپنے شکارپریلغار کھڑکی میں لٹک رہی تھی۔اس موسم میں ہر سہ پہر ایک گھن گرج ہوتی تھی اور ماں کہاکرتی تھی ،کہ 'یہ کل  ہی ختم ہوگی۔'موسم گرماایک سفلی پیالہ تھا جس میں درزیں تھیں اورہم اس پیالے کےنیچے آتے تھے ،لیکن یہ کبھی نہ  ٹوٹتاتھا۔گرمی سےکبوتربھی بدحال ہوکرگلی میں گرجاتے تھے۔

میری والدہ  اورخالہ اس بات کادعویٰ کرتیں کہ اگرچائےپی جائےتوگرمی کی حدت کم اثرکرتی تھی جودراصل سچ نہیں تھا۔والدہ عرشےکی کرسیاں  دور دوربچھادیتی اس سے اس کی گوری گوری ٹانگیں ننگی ہوجاتی تھیں  ۔پھروہ اپنے ہاتھوں  میں سگریٹ ایسے دباتیں جیسے مرد حضرات   اپنی مٹھی میں کس کرزور زورکش لیتے ہیں ا ور ان کی  انگلیوں سے سگریٹ  کادھواں نکلتاتھا۔لوگوں نے ان کے آنے جانے کوبھی نوٹ نہیں کیاتھا۔تم ریڈی میڈ خوراک دکان سے آئس لولی خرید لیتیں جوکہ فریزر میں جمی ہوتی تھیں۔ماں کہاکرتی تھی۔

میں میری چوپلین سےمل کردن بھرسرگرمیاں   کرتی تھی    لیکن  شام پانچ بجے ہماری پوری سرگرمیاں ختم ہوجاتی تھیں ۔اس دوران جوجو واقعہ بھی ہاتھاوے گھرکے نزدیک کیاجاسکتاتھا، ہم کرلیتے تھے۔مجھے اپنے ماتھے پر سرد پتھر جوکہ ہاتھاوے کی دیوارمیں لگاتھاپرلٹکایاکرتی تھی جسے ہمیں بعدمیں اچھی طرح  محسوس کرسکتی تھی  جو محرابی  دیوار میں لگاتھا،واپس جانےسےپہلے،مجھےاپنےسینڈلوں میں  وہ عمدہ کنکریادہےکہ میں اسے کس طرح اس میں سے نکال کرخالی  کرتی تھی لیکن میرے سینڈل  دوبارہ  کنکروں سےبھرجاتےتھےاورمیرے تلووں میں چبھتے تھے۔مجھے پتوں کامخملی چمڑےکااحساس بھی ہوتا،جہاں ہم کھدائ کرتے تھے۔اس کے پنجے کی انگلیاں نرمی سے میرے چہرے کو ٹٹولتیں۔میری چوپلین  کی گفتگو میرے کان میں  آتی 'نکھٹو' میراباپ کہتا تھا۔اسی طرح میری والدہ بھی یہ کہتی تھی کہ۔۔۔میں جب بھی کوئی کتاب  پڑھنے کی کوشش کرتی،تووہ نقطہ میرے ذہن میں مدھم  ہو جاتا اور میرااذہن کھیتوں کے آر پارگھوم ریاہوتا ؛میرے ذہن میں میری چوپلین  کی شکل  آجاتی ،اس کا دانت پیسنا، منہ، گندہ چہرہ ،اس کا بلاؤز جواس کی چھاتیوں سے اوپرہوتا۔ان جگہہوں سےننگی ہوتی  جہاں اسے نہیں ہونا چاہیئے تھااوراور پھر اچانک ہی اپنے بلاؤز کی آستین کو کھینچاکرتی۔،ذرا سے چھونے سے شرماجاتی،اگر  اسے کہنی سے دھکادیاجاتاتووہ روٹھ جاتی تھی:ایک طرف ہوجاتی۔اس کی گفتگو متاثرکرتی،قسمت پرجوطے شدہ تھی :مارپیٹ بازومروڑنا،کھال کھینچنا۔میں اس شئے پرہی سوچتی تھی جومجھے دکھاناچاہتی تھی اور میں اس کےالزام کےلئے  خود کو پہلے سے تیاررکھاکرتی تھی،خصوصی طورپر وہ الزام جس کاتعلق کھیتوں کے ساتھ پایاجائے۔ ۔ ۔میں   وقت  کی پابندنہیں تھی ۔میں کہہ سکتی تھی اورکومہ زدہ شخص کو دیکھنے کےلئےتیاررہتی تھی اور اس کوتلاش کرتی تھی ۔ کومہ  میں اکیلے ہی تلاش کرتی تھی اس میں میری چوپلین بالکل بھی شامل نہیں کرتی تھی۔اس لئےمجھےاس کے بعد بھی دیرتک وہاں رہنا پڑتاتھا۔جھاڑیوں میں  چھپی رہتی۔اس میں خوابیدہ اورسرکی جنبش ہوتی۔میری  چوپلین نے مجھے کہنی ماری؛میں جھاڑیوں میں  پوری طرح جاگ گئی۔میرامنہ خشک تھا۔میں خوفزدہ  ہوکر چیخ مارنے لگی تھی اور اس نےاپنے ہاتھ کاپنجہ میرے منہ پررکھ دیااور کہا'دیکھو۔'

سورج ڈھل چکاتھا، ہلکی ہلکی ہواچل رہی تھی۔گھر کےاندرایک لیمپ جلادیاگیاتھاجولمبی کھڑکیوں کے دوسری طرف تھا۔ان میں اسے ایک کھڑکی  کھول ری گئی، اورہم نے دیکھا:پہلے کی ایک آدھی کھڑکی سے؛ایک وقفہ ہوا؛اورپھر دوسرا۔اس میں کوئی شئے روشنی میں آگئی۔اس میں ایک اونچی اورلمبی کرسی ظاہرہوئی جس میں  پہیے لگے ہوئے تھے۔اسے ایک خاتون آسانی سے  دھکیل رہی تھی۔وہ آسانی سے پتھروں کے فرش پرتیزی  اور آرام سےچل  رہی تھی۔وہ خاتون ہی میری دلچسپی کاباعث تھی۔کرسی  پرکیا تھا ،کاکوئی علم نہ تھاکیونکہ وہ حصہ مکمل تاریکی  میں تھا،اس کی صورت  ایسی تھی اور کہ اس پرکوئی معذور شخص تھی جس نےپھولوں   کافراک پہنا                      ہوا  تھاجس پر میری نگاہ گئی،اس کےسر کےبالوں کی  شکل گھنگریالی  تھی؛ ہم اس کےاتناقریب نہیں تھےکہ اس کی بوسونگھ سکتی تھیں۔لیکن میرااندازہ تھا کہ اس نے پرفیوم لگائی ہوئی تھی ، گھر سےجوروشنی نکل رہی تھی۔لگتاتھاکہ وہ اس روشنی کےساتھ ناچ رہی تھی جوجب آنگن میں آرہی تھی تو خوشنمالگ رہی تھی۔اس کامنہ ہلا؛وہ بول رہی تھی ،ہنس رہی تھی،کرسی  پرپڑےاندرونی بنڈل کودھکیلا۔اس نےکرسی نیچےرکھ دی۔بڑی احتیاط سےاسےرکھا۔ایسے لگاکہ وہ کسی ایسے نشان کوجواس کرسی پرتھا،جانتی تھی ۔اس نے اپناجائزہ لیا ۔اپنی  گالیں موڑیں  نرم مزاج شگفتہ  ،ڈوبتی  ہوئی روشنی میں، اس کےبعد اس کی  بہلانے کی طرف مڑی جوبنڈل کےسرکےاوپرتھاجوکہ دوسری  تہہ تھی۔اس موسم میں کوئی کمبل یاشال تھی؛دیکھو۔'وہ کس طرح اسے لپیٹ رہی ہے؟' میری جوپلین  نے میری طرف  منہ کرکےکہا۔

میں نے دیکھا۔اس کےچہرے پرایک تاثرتھا۔جوکہ لالچی لگ رہاتھااورکھویاتھا۔اس کاچہرہ دھواں دھواں ہورہاتھااس نے۔ان کمبل کوآخری بارتھپتھپایا اورپھر مڑگئی اور ہم نے اس کےسینڈلوں کی ٹک ٹک پختہ فرش  پرسنی جو فرانسیسی  کھڑکی سےگزری اور لیمپ کی روشنی میں غائب ہوگئی۔

'کوشش کرواور اس میں دیکھو۔اوپراچھلو، ان کوغور سے دیکھو۔'             میں نےمیری چوپلین کواکسایا۔وہ مجھ سے لمبی تھی۔وہ ایک دفعہ ،دودفعہ،تین دفع  کودی لیکن ہربار کرگرکراہتی؛ہماری شدید خواہش تھی کہ دیکھیں گھر کےاندر کیاتھا۔میری چوپلین ڈگمگاتے ہوئے  اپنے گھٹنوں  پر چڑمڑہوئی؛  ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے معلومات  حاصل  کرنے کےلئےکہاں تک جاناتھا۔ہم نےاس بنڈل کاجائزہ لیا جوکرسی پرتھااوراس کی تفتیش کرنے لگیں۔اس  کی شکل، کمبل کےنیچے، دائرےمیں بھنور کی طرح دکھائی دی؛اس کےسر پرشال پھیلی ہوئی تھی جواس طرح   کی تھی جیسا کہ  کسی کوکمبل میں لپیٹا گیا ہو ۔۔وہ سچی تھی:وہاں ایک جسم  دیکھ کرمیرا سر گھوم رہاتھا

''زوردار آواز نکال کر اسے اپنی طرف متوجہ کرو۔میں نے کہا۔

'میں نہیں نکال سکتی۔'اس نےجواب دیا۔

تو۔۔۔یہ میں  ہی تھی،جس نے جھاڑی بوٹیوں  کی اوٹ سے،کتے ۔۔۔جی ہاں۔۔۔کتے کی طرح  بھونکا۔لیکن اس کاوقت  اس کاسر مڑا ہوا تھا اس لئے اس کاسر نہ دیکھ پائی ؛اوراس سےاگلے لمحے ،آنگن میں سائے  حیرت  زدہ ،اور پھر ایک  پودے کے درمیان  جوکہ بڑے بڑے چینی کےبرتنوں  میں 

 تھے، میں ایک خاتون داخل ہوئی پھولوں کےلباس میں،اپنی  آنکھوں  کاسائبان لگایا اور براہ راست ہماری طرف دیکھا لیکن جھاڑیوں میں چھپاہونے کی وجہ سے ہم نظر نہ آئے۔وہ ایک بنڈل پرجھکی۔جو ایک بہت بڑے لاروے کی طرح تھااورکچھ بولی؛اس نے اپنی نگاہ ایسے اوپراٹھائی جیسے کہ وہ  ڈھلتے سورج کا جائزہ لے رہی تھی۔پھر وہ پیچھے مڑگئی۔اپنے ہاتھ ہینڈل پر رکھے،اورنرم ونازک آگے پیچھےہوتے ہوئے جھولتی ہوئی جانے لگی اور اپناتوازن قائم رکھا۔اسکاجھکاؤ  مخصوص انداز میں ہچکولےکھارہاتھا اس کو اس طرح سیٹ کیاکہ اس شئے کےسر کو گرمی سےبچایا جائے ؛عین اسی وقت ،دوبارہ جھکی اور سرگوشی کی،اور اپنی شال کو دوبارہ اوڑھ لیا۔

اور ہم نے دیکھا۔۔۔کچھ بھی نہیں ہم نے ایسی شئے دیکھی کوابھی تک ظاہرنہیں ہوئی تھی ؛ پیدانہیں ہوئی تھی،بنی نہیں تھی ۔ میں نے سوچا کہ شائدوہ چہرے جیسی کوئی شئے تھی جوابھی نامکمل تھی اور تکمیل کے مراحل میں تھی ۔حتمی تکمیل کے بعد وہ  اس طرح کی بنے گی ،کا ،اندزہ نہیں تھا۔شائد چہرے کی قسم کی اور شئے ہوجسے جیسے چہرہ تصور کیاجائے،یاخدا کی جب وہ دنیاکی تخلیق کررہاتھا،۔ایک  خالی جگہ ،ہم نے دائرہ، جس پر کوئی خصوصیت اور رنگ روپ نہیں تھا،سے نکل رہاتھا، اس کاکوئی معانی نہیں تھا اور اس کا شکارکرنا ایساتھاکہ اس کی سکڑتی ہڈیوں  پرحملہ کرے۔میں نےایک بزدل کی طرح اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کوڈھانپ لیا   اور میری چوپلین نے مجھے زور سے ٹھوکامارتے ہوئے کہا۔

'خاموش !  خاموش۔' اس سے مجھے درد ہوا ۔اس سے میری آنکھوں میں آنسوبے اختیار نکل آئے۔

لیکن  میں نے اپنی آنکھوں کوملااوراٹھ کھڑی ہوگئی۔مجھ میں تجسس پیداہواجومچھلی کے کانٹے کی طرح گلے میں پھنس گیاجونہ نگلا جارہا تھااور نہ اگلااور پھردیکھاکہ وہ شئےآنگن میں اکیلی تھی۔وہ خاتون ایک بارپھر داخل ہوئی۔میں نے میری چوپلین کو سرگوشی کی ۔'کیامیں اب میں سمجھ گئی تھی ،ہاں اب میں پوری طرح سمجھ گئی تھی جب  میری والدہ نے کہاتھا'امیر لوگ اس قسم کی تخلیق کرنے میں بہت ہی برے ہوتے ہیں۔اس امیرکواپنی تخلیق میں کوئی سہل طریقہ استعمال کرنا چاہیئے تھا۔اس کےلئے مہربان ہوجاناچاہیئے تھا،اسے کمبل میں لپیٹناچاہیئے تھا۔'میری چوپلین نے مجھے کہاکہ 'وہ اس پرپتھر پھینکناچاہے گی تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا  وہ جنین 'ا بول سکتاتھا۔اس نے اپنی  جیب میں ہاتھ ڈالا۔میں نےدیکھاکہ  اس کے ہاتھ میں ایک گول کنکرتھاجواس نے ساحل سمندر سے اٹھاکراسےخصوصی شکل دی تھی۔وہ کھڑی ہوئی اور ہاتھ گھماگھماکرزورسے اس کی طرف پھینک دیا۔جوٹھیک نشانے پرپہنچا۔ہم نے اس

کنکرکواس پرپڑتے دیکھا۔ اس کے منہ سے چیخنے کی آواز سنی جوانسانی نہیں تھی  بلکہ کسی اور کی تھی۔

میں کامیاب ہوگئی۔میری جوپلین نے بغلیں بجاتے ہوئے کہا۔ایک لمحے کے لئے کھڑی رہی ۔اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھاتھا۔وہ شئےچیخنے کےفوری بعد  خوفزدہ ہوئی الیکن  اس کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوکرکرپرسکون ہوگئی۔وہ زخمی ہوکربکھر گئی تھی ۔  تیزقدموں سے چلتی ایک خاتون آئی ،لمبے،محرابی سایوں والےد رختوں  کی طرف دیکھ کرچٹکی بجائی اور غور سے کڑی نگاہوں سے جائزہ لینا شروع کردیا۔اس نے دروازوں ،ان کے سایوں، گلاب کےپھولوں کے باغیچوں کودیکھاجوسوکھ گئے تھےاورتاریک پھولوں کافراق  جواس نے اس وقت پہن رکھاتھا،کارنگ مدھم پڑگیاتھا۔اس کی پتیاں  اندھیرے میں نظر نہیں آرہی تھیں۔وہ وہیل چیئر کی طرف تیزی سے گئی۔ایک سیکنڈ کےلئےرکی۔اس کاہاتھ اضطراری طورپر اسکے سرپرابھرنے والے گومڑ کی طرف گیااور اسے ہلکے سے سہلانے لگی اور اس کارخ موڑکراپنے گھر کی طرف کرلیااور اونچی آواز میں بولی ۔بیٹری لاؤ۔

اس خاتون کی اونچی اور کرخت آوازنے مجھے صدمہ پہنچایا۔میں نے سنجیدگی سے سوچاکہ وہ آواز  ایک بطخ  یاکبوتر کی طرح تھی؛وہ ایک بار پھر مڑی اورآخری شئے جوہم نے گھربھاگنے سے پہلےدیکھی کہ وہ خاتون ایک بارپھر اس پرجھکی اوراس پرشال لپیٹ دی جوان ہڈیوں کے لئے بھاری تھی۔ ہم نے شکل دیکھی  تووہ اس جیسی تھی  جیسے کہ میر ی چوپلین نے اس وقت دیکھی تھی جب میں بچی تھی اور اس نے ہمارے گھر کمبل میں لپٹی ہوئی تھی۔۔۔وہ ایک نامکمل تخلیق تھی۔وہ جنین تھی  جسے میری چوپلین نے کومہ کانام دیاتھا اور ماں نے کہاتھاکہ امیر لوگ عام طورپر مکمل تخلیق نہیں کرسکتے۔میری والدہ  کی بات پوری ہوئی تھی اور ہمارا تکسس بھی اسے دیکھنے کے بعد ختم ہوگیا۔

میری چوپلین  ستمبر میں  اصلاحی سکول میں تھی۔میراخیال تھا کہ ہم دونوں ایک ہی کلاس میں ہوں گی لیکن مجھے سکول میں ڈبل پروموشن مل گئی تھی ۔اس لئے میں اگلی جماعت میں چلی گئی۔میری چوپلین  کی عمر دس سال کی تھی لیکن پڑھائی میں معمول کے مطابق  نہیں سیکھ رہی تھی۔میں کرسمس کی چھٹیوں میں اپنے گھرگئی تو میں نے جان بوجھ کر میری چوپلین کا نہ پوچھا۔سخت سردیاں تھیں۔برفباری  مسلسل ہوتی رہی۔میں موسمی شدت سے خود کو محفوظ کررہی تھی۔میں  احتیاط کررہی تھی کہ کہیں بیمارنہ پڑجاؤں ۔والدہ نے ایک بارپھر یاد دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی بات پرابھی بھی قائم تھی کہ اگر میں  میری چوپلین  سے ملی تووہ میری چمڑی ادھیڑ کررکھ  دے گی۔

وہ تمہیں کمبلوں میں  لپیٹ کر سکون دیں گےاورتم سے نہائت نرمی سے باتیں کریں گےاورتمہیں روشنی میں لائیں گے۔میں نے میری چوپلین کےچہرےپرلالچ کی ہوس دیکھی تھی۔میری  چوپلین نےاورمیں نے جزوی طورپر اس کی حالت سمجھ لی تھی۔اگر تم آٹھ سال کی ہواورمیری چوپلین دس برس کی اور تم اپناوقت مےخوری میں صرف کرتی تھی تواپنی تعمیری اور تخلیقی عمرمیں دیوار جنگلہ کودنے پرخرچ کردیتی تھی، ایک بڑی لڑکی نے مجھے خزاں میں بتایا کہ میری کو کسی اور سکول میں داخل کروادیاتھا۔

'اصلاحی سکول؟'

'نہیں۔'

'کیاوہ اصلاحی سکول نہیں تھا۔وہ ذہنی طورپرپس مندہ بچوں کاسکول تھا۔'اس نے اپنی زبان باہرنکال کر رال ٹپکاتے ہوئے  بدتمیزی سے ایک  طرف سے دوسری طرف لےجاتے ہوئے کہا۔

'کیاوہاں بچوں کو روزانہ ماراجاتاہے۔'میں نےپوچھا۔

اس  بڑی لڑکی نے اپنے دانت پیسے اور کہاکہ 'اگر کوئی بچہ بدتمیزی سے باز نہیں آتایاتوڑپھوڑ کرتاتھاتواسے سزادینے کے لئے ان کےبال استرے سے مونڈ دیئے جاتے ہیں ۔وہ اپناہاتھ منڈےسرپر پھیررہی تھی۔'

میں نےاپنےبالوں پراپناہاتھ رکھا ۔میرے بال بہت کم تھے۔ایک سرد لہر آئی اورمیرے کان میں ایک سرگوشی ، جواون کی سرگوشی کی طرح تھی،میرے سرپرایک شال کی طرح،بھیڑکی اون کی طرح نرم اورگرم۔۔۔

میری چوپلین  سے جداہوئےپچیس سال ہوگئے ۔تیس سال بھی ہوسکتے تھے ۔۔۔میں نے اسے گلی میں دیکھااور وہ بگھی گھسیٹ  رہی تھی۔اس میں کوئی بچہ نہیں تھا۔اس میں میلے کپڑوں کاڈھیرتھاجواوپرتک آرہاتھا؛ایک بچے کی ٹی شرٹ تھی جس میں جراثیموں کی بوکاجھونکاآرہاتھا۔اس میں ایک طرح سوٹ کی آستین قسم کی کوئی چیز بھی نظر آرہی تھی  اورایک طرف بھیگی ہوئی چادر بھی تھی۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک  خیال آیا۔یکایک میں نےسوچا کہ یہ ایک نظارہ تھا جو ڈرائی کلینر اور لانڈرومیٹ  کےپاس تھا۔کیا مجھے یہ بات اپنی ماں کوبتاناچاہیئے۔وہ یہ سن کر کہے گی کہ معجزے کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ اسے دیکھ کر میں خودکو روک نہ پائی اور اس کے پاس چلی گئی  اور کہا۔میری چوپلین؟

اس نے اپنی بگھی کھینچی ایسے جیسے کہ وہ اس کی حفاظت کررہی تھی ۔اس سےپہلے وہ مڑتی اس کاسراور آنکھیں  اس کےکندھے  سےاٹھی  اورمجھے تھکی نگاہوں سے دیکھا۔وہ ادھیڑ عمر کی لگ رہی تھی۔اس کاجسم موم کی طرح نہیں تھا: ایک چٹکی کااور منہ بسورنے کاانتظارکررہی تھی۔میرے ذہن میں یہ بات آئی ۔تمہیں  میری چوپلین کو زیادہ بہتر طریقے سے جانناچاہیئے۔ تمہیں اس کے ساتھ گھنٹوں گزارنے چاہییں۔اس کےارد گرد  کےماحو  ل کاجائزہ لیناچاہیئے۔

اس کی جلد کی چمڑی ڈھیلی ہوگئی تھی۔اس کی کمرمیں خم آگیاتھا۔اس کی آنکھوں میں پڑھنے کے لئے کچھ نہیں بچاتھا۔میں یہ توقع کررہی تھی  شائد۔ ایک وقفے ،ایک نشان الحاق ،ایک خالی جگہ۔۔۔ایک کےبعد ایک سوال آرہاتھا۔کہ میری  چوپلین کوپوچھوں کہ کیایہ تم ہوکیٹی؟اس نے اپنی   بگھی کو دیکھا ۔لانڈری کوتھپکا،دوبار ہ سیٹ کیا تاکہ اسے یقین آجائے کہ سب سامان اپنی جگہ پرتھا۔اس کےبعدوہ مڑی میری  طرف دیکھ کرشناسائی ظاہرکی ۔سرکوہلکاساجھٹکااور اس کے بعد فل سٹاپ۔مجھے وہ کومہ  جنین دکھائی دی۔

 

Dame Hilary Mary  Mantel

1952……….2022

U.K

حالات  زندگی

ڈیم ہیلری   میری  مینٹل   6جولائی 1952 ک'و گلو سوپ '  میں پیدا ہوئی۔اس کے والدین کانام ہنری تھامپسن  اور مارگریٹ  تھامپسن تھا۔اس نے ابتدائی تعلیم گلوسوپ سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم  لندن سکول آف اکنامکس  اور یونیورسٹی   آف شیفیلڈ  سے حاصل کی۔اس کے خاوند کا نام  جیرالڈ  میک ایوان  تھا۔اس کو بچپن سے ادب سے دلچسپی تھی اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں،

Wolf Hall; Portrait Artist of the year; Duck Frisch; The Mirror and the  Light ; Bring up the  Bodies; A Place of Greater Safety; Beyond Black; Fludded; Every Day is Mother’s Day,: A Change of Climate ; Eight Months on Ghazza Street etc.

Awards

2012  Man Brooker Prize( Bring up the Bodies and  Wolf Hall.

2004  National  Book Critics Award.for Fiction ( Wolf  Hall

وہ 22 ستمبر 2022 کو ایکسٹر  شہر میں حرکتِ قلب ہونے سے فوت ہوئی۔

 

 

 


Popular posts from this blog