اینجلز فار ایور قسط دوم 'گھوڑے کی گم شدگی ' ( . By Suzanne Wynn ....2nd E pisode Katie's Forever Angels )


دوسری قسط
سدا بہار فرشتے سوزین دن ( فار ایور اینجلز )
مترجم : غلام محی الدین
گھوڑے کی گم شدگی )(The Horse on the Loose)
کیٹی والدین کی وفات کے بعد اپنی خالہ رینی اور خالو جیف کے گھر میں منتقل ہوگئی۔ انہوں نے اسے سکول داخل کروا دیا جہاں اس کا جھگڑاایک اس کے کلاس فیلو کے سا تھ ہو گیا ۔ایشلی اور کرسٹینا اس کی دوست بن گئیں ۔ انہوں نے پروگراام بنایا کہ سکول کے بعدوہ ایشلی کے فارم ہاؤس پر جائیں گی اور وہاں گھوڑ سواری کریں گی لیکن باتوں باتوں میں فرشتوں کے پل کا ذکر آیا تو وہ ادھر چل پڑیں۔ کیٹی اپنی خالہ کو اس دن بھی فون نہ کر سکی۔ وہ پل کی طرف جارہے تھے تو راستے میں ایک بیابان عمارت نظر آئی جو کسی زمانے میں کان ہوا کرتی تھی۔ وہ اس میں داخل ہوئے تو کرسٹینا کاپاؤں ایک لکڑی کے تختے پر آیا تو وہ پھسل کر تہہ خانے میں جا پڑی۔ ایشلی اس کو نکالتے نکالتے خود بھی زخمی ہو گئی اور وہ بھی اس کے ساتھ تہہ خانے میں گر گئی۔ اندھیرا چھا رہا تھا۔ ارد گرد کوئی نہ تھا کیٹی نے کہا کہ وہ کسی کی مدد حاصل کرنے جاتی ہے۔ وہ پہاڑی سے اتر رہی تھی کہ اسےٹھوکر لگی اور گر کر بے ہوش ہوگئی۔جب اس کی آنکھ کھلی تو تین لوگ (دو خواتین اور اور مرد) جو بیس بائیس سال کے لگتے تھےاور بہت خوبصورت تھے ،نظر آئے۔وہ تاش کھیل رہے تھے۔ مرد نے کیٹی سے پوچھا تمہاری حالت کیسی ہے ، اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر پوچھا تمہیں اس کے نام کا پتہ کیسے چلاتو اس نے جواب دیا کہ اندازہ لگایا تھا۔سردی کے باوجود انہوں نے گرمیوں والے کپڑے پہنے ۔ اس پر ایڈوین بولا کہ مجھے پتہ نہیں تھا نورما کہ یہ بات راز میں رکھنی تھی۔تھے۔ کیٹی نے پوچھا کیا تمہیں سردی نہیں لگتی تو مرد نے کہا کہا ہمیں سردی نہیں لگا کرتی۔
ایڈوین تم نے یہ کیا کہہ دیا؟ پہلی عورت بولی۔ اوہ اوہ! مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اس بات کو راز میں ہی رہنے دینا ہے نورما، ایڈوئین بولی۔
تم کیا باتیں کر رہی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔
یہ میری بہنیں ہیں۔ ایڈوئن اور نورما اور میرا نام نیڈ گلین ہے۔
میں کیٹی ہوں جو تم پہلے ہی جانتے ہو۔۔ اور تم تینوں کی آنکھوں کو دیکھ کر ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ تم بہن بھائی ہو۔ ہماری آنکھیں؟ ہم اس ملک کے لئے جاسوسی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں نام راز میں ہی رکھنا پڑتے ہیں۔ تم اس کو سمجھ سکتی ہو ۔ ایسا ہی ہے ناں!
اگر وہ جاسوس بھی ہیں تو انہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا؟ کیٹی نے سوچا۔ انہوں نے ایسا لباس پہنا ہوا ہے جو موسم سے مطابقت نہیں رکھتا۔
نیڈ گلین، خاص طور پر ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے،تم جانتے ہو؟ ایڈوئن نے کہا لیکن اب دیر ہو چکی ہیاور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس نے کارڈ کے پتے پھینکتے ہوئے کہا۔
نیڈنے کیٹی کی طرف دیکھا اور بولا۔ ہم فرشتے ہیں۔
تم فرشتے ہو۔اور میں ایک چڑیل ہوں۔کیٹی نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔ میرا نام گلینڈو ہے جو کہ شمالی علاقے کی اچھی چڑیل ہے۔ مجھے سچ بتاؤکہ تم کون ہو؟
ہم نے سنا تھا کہ تم فرشتوں کو بلا رہی تھی۔ ایڈوئن نے کہا۔
نہیں! وہ یہ نہیں تھی بلکہ وہ اس کی دوست تھی۔نورما بولی۔
نہیں۔ وہ تو روحوں کو بلا رہی تھی۔ایڈوئن بولی۔
کیٹی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ انہیں کیسے پتہ چلا کہ میری دوست روحوں کو بلا رہی تھی؟
روحوں اور فرشتے کو بلانا دونوں ہی ایک چیز ہیں۔ایڈوئن بولی۔
میں نے تو آئس کریم سے بھی میٹھی ننھا فرشتہ آئس کریم کہا تھا۔کیٹی بولی۔
پری بھی فرشتہ ہوتی ہے۔نورما بولی۔ ہم سے مددمانگنے کے لئے یہ ایک انتہائی مخلصانہ درخواست تھی لیکن ہمارے اصول نمبر پانچ سے یہ مطابقت نہیں رکھتی۔
اصول نمبر پانچ؟ کیٹی نے پوچھا۔
التجا کرنے والے کو ذہنی یا زبانی درخواست اپنی مرضی سے ادا کرنی چاہیے۔ نورما بولی۔
ہر ایک اپنے انداز میں مدد کا طالب گار ہوتا ہے۔ اس کے لئے اس کی درخواست بھی قبول کی جانی چاہیے۔یڈوئن بولی۔ اس نے کیٹی کے بال اس کے ماتھے سے ہٹاتے ہوئے اس کا سر دیکھا جو کافی زخمی تھااور بتایا کہ اس کا سر زور سے پتھر سے ٹکرایا تھا۔ اس پر نیلا نشان پڑ سکتا ہے۔ جب ہم ندی کی پگڈنڈی پر گئے تو تم بہت زرد پڑی تھی، بہت ہی زرد۔ تم نے یہ اچھا کیا کہ ہمیں فوراً بلا لی
کیٹی اب جاگ گئی ہے اس لئے ہمیں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے، نورما بولی۔
کیٹی بولی کرسٹینا روحوں کو مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ وہ دونوں وہاں بے یارو مدد گار پڑی ہیں۔ ہمیں فوراً چلنا چاہیے لیکن مجھے واپسی کا رستہ نہیں آتا۔
تم اپنی بات بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا؟ نیڈ نے پوچھا۔
میں اپنی دوستوں کی مدد کے لئے نکلی تھی۔ اس علاقے میں کبھی نہیں آئی۔کیٹی بولی۔ یہاں سے باہر نکلیں تو شاید کچھ بتا سکوں۔
چلو ٹھیک ہے۔نیڈ بولا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے، چلو چلتے ہیں۔ اس نے اپنی ہتھیلی پرنقشہ دیکھا۔ اس نے لالٹین اٹھائی۔ ایڈوئن نے کیٹی کا ہاتھ پکڑ لیا اگر چہ اس کے سر میں ابھی بھی درد ہو رہا تھا لیکن وہ قابلِ برداشت تھا۔
تم لوگوں کی حقیقت کیا ہے؟ تم کون ہو؟ وہ عجیب و غریب اجنبیوں سے مدد حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ابھی تک تو وہ صحیح کام کر رہے تھے۔کیٹی نے سوچا۔
اس کی فکر نہ کرو۔ ہمیں تمہارے دوستوں کی مدد کرنی چاہیے، نیڈ بولا۔ وہ جا رہے تھے تو اس نے فرشتوں والا پل Angels Crossing Bridge) نظر آیا۔
تم یہاں کیا کر رہے تھے؟ کیٹی بولی۔
ہم تاش کھیل رہے تھے۔ کیا تم یہ سمجھ رہی ہو کہ ہم برج کھیل رہے تھے؟ ایڈوئن نے مزاحیہاندازمیں پوچھا۔
نورما سنجیدگی سے بولی۔تاش میں ہم رنگ پتہ کھیل رہے تھے۔
کیٹی سوچ رہی تھی کہ اگر یہ فرشتے ہوتے تو ان کے پر ہونے چاہئیں تھے نیز فرشتوں کے نام ایسے تو نہیں ہوتے۔ وہ تو جبرائیل، اسرافیل، عزرائیل جیسے ہوتے ہیں۔تمہارے نام ایسے کیوں نہیں؟ کیٹی نے پوچھا۔
وہ خصوصی فرشتے ہیں جو اعلی مرتبت لوگوں کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ ہم عام فرشتے ہیں جو عام لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کے روز مرہ مسائل حل کرتے ہیں نورما بولی۔
تو یہ حقیقی فرشتے ہیں۔کیٹی نے سوچا۔ جاسوسی اور رومانوی ناولوں میں تو ایسے نام نہیں ہوتے۔
ایسی کتب کا آغاز انیسویں صدی سے شروع ہوا۔ ہم بہت پرانے فرشتے ہیں اس لئے ان کو ہمارے نام معلوم نہیں۔ نیڈ بولا۔ اب ہمیں اپنے نام تبدیل کرکے نئے نام رکھنے چاہئیں لیکن ہم اسے اب تبدیل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ہم نے رجسٹرڈ کروا لئے ہیں۔نیڈ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے سر سے ہیٹ اتارا تو اس نے اس کے کانوں پر پروں جتنےبال دیکھے ۔ اسے یقین آگیا کہ فرشتے ہی تھے۔ ہم پانچ منٹ میں وہاں پہنچ رہے ہیں۔ کیٹی نے دیکھا کہ ان کے لباس ابخود بخود تبدیل ہو گئے اور ان کے پر بھی نکل آئے۔ نیڈ نے کھڑائیں پہن رکھی تھیں اور گھنے جنگل میں ایک جگہ پہنچ کر اس نے کہا کہ وہاں ایک دروازہ نمودار گا جس میں سیڑھی ہو گی اور ہم نے نیچے اترنا ہے۔
میں نیچے نہیں جاؤں گی۔ کیٹی (Katie)نے کہا۔
تمہاری دوستوں تک۔
پہنچنے کا یہی بہترین راستہ ہے۔ ہمارے پیچھے چلی آؤ۔ جب ہم اتر چکیں تو اس سوراخ سے تم بھی آجانا۔نورما بولی۔
اس نے اس کی تقلید کی۔ جاتے جاتے اس نے ایک جانور کی چیخ سنی۔ یہ الو ہے یا ریچھ یا لومڑی یا بھیڑیا۔ کیا یہ اڑ رہے ہیں؟ کیٹی نے پوچھا۔
فکر نہ کرو۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ راستہ بہت پرانا ہے اور خفیہ ہے۔ اسے راز دارانہ طریقے سے اندر باہر جانے کے لئے یا فرار حاصل کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہ راستہ ہمیں تمہارے دوستوں تک لے جائے گا۔
خدا کا شکر ہے کہ ایک مانوس آواز سنائی دی۔ یہ ایشلی کی آواز تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی جبکہ کرسٹینا سورہی تھی۔
تم کیسی ہو ایشلی؟
مجھے بہت شدید سردرد ہے۔ ایشلی بولی۔ اور مجھے بہت زیادہ سردی لگ رہی ہے۔
لیکن یہاں تو کوئی سردی نہیں۔کیٹی نے کہا۔
تم احمق ہو؟ ساتھ ہی اسے یہ محسوس ہوا کہ سرنگ میں گرم ہوا بھر رہی ہے۔ تو ایشلی نے کہا۔شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ نیڈ نے دیکھاکہبے ہوش کرسٹینا کو مدد کی ضرورت ہے ۔ اُس نے اسے اٹھا لیااور ہمیں کہا کہ چلو چلیں۔
سب اس سرنگ سے واپس روانہ ہو گئے۔ کیٹی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ نیڈ نے کرسٹینا کو ایک ہاتھ سے اٹھا کر سیڑھی پار کی۔ وہ چلتے چلتے کھلی ہوا میں پہنچ گئے۔
یہ کون لوگ ہیں؟ تم نے انہیں کہاں پایا؟ ایشلی نے پوچھا۔
یہ نیڈ، ایڈوائن اور نورما ہیں۔ یہ فرشتے والے پل کے نیچے تھے۔کیٹی نے جواب دیا۔
کیا تم نے ان کو ڈھونڈ ا؟ ایشلی بولی۔
نہیں۔ انہوں نے مجھے ڈھونڈا تھا۔ میں گر کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں ان کے درمیان تھی۔ نہوں نے پہلے میری مدد کی پھر تمہاری مدد کے لئے آگئے۔ وہ میرا نام جانتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کرسٹینا روحوں کو بلا رہی تھی۔کیٹی بولی۔
ناممکن! کیا تم یقین سے کہہ رہی ہو؟ ایشلی نے پوچھا۔
میں تم سے متفق ہوں کہ یہ ناممکن ہے لیکن وہ یہ سب کچھ جانتے تھے۔کیٹی نے کہا۔
یہ ہیپیوں اور خانہ بدوشیوں کی طرح لگتے ہیں۔اس نے کرسٹینا کی ماں کی 1960کی تصاویرایسے ہیپیوں کے ساتھ دیکھی تھیں۔
تب کیٹی نے دیکھا کہ ان تینوں کے کپڑے تبدیل ہو گئے تھے۔ نیڈ نے کیٹی سے پوچھا۔کیا ہم اب ٹھیک لگ رہے ہیں؟ کیا ہم کام صحیح طریقے سے کر رہے ہیں ناں؟
تم لوگ اس وقت ہیپی لگ رہے ہو۔کیٹی نے کہا۔
او میرے خدا! میرا خیال تھا کہ اس بار ہم نے حالیہ فیشن کے مطابق لباس پہن لیا ہے۔نیڈ نے کہا۔
نیڈ تم لوگوں نے آناً فاناً لباس کیسے تبدیل کر لیا؟ کیٹی نے پوچھا۔ میں نے تو نہیں دیکھا کہ تم لباس تبدیل کر رہے ہو۔اس بات کی وضاحت کے لئے یہ وقت موزوں نہیں۔نیڈ بولا۔
انہوں نے جنگل عبور کیا تو انہوں نے بہت سی مشعلیں جلتی ہوئی دیکھیں۔ ان میں کرسٹینا کی ماں، ایشلی کی ماں اور اس کے دو بھائی تھے۔ جبکہ کیٹی کی تلاش کے لئے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی تینوں فرشتے غائب ہوگئے۔ ان کے جاتے ہی آندھی اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔
ایشلی نے ماں کو بتایا کہ کیٹی نے ان کی جان بچائی ہے۔ اس کی ماں نے کہاکہ تم واقعی ہیرو ہو۔
میں نے جو نوٹ اپنی ماں کے لئے چھوڑا تھا، اس کو پندرہ منٹ پہلے ہی ملا ہے۔ وہ بے حد پریشان ہوئی اور مجھے ڈھونڈنے نکل پڑی۔ یقینا تمہارا خالو اور خالہ بھی پریشان ہوں گے۔ چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتی ہوں، کرسٹینا نے کہا۔
میری خالہ اور خالو کو تو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں۔ میرا ان میں سے کسی کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا تھا۔ میں خود ہی چلی جاؤں گی کیٹی نے کہا۔ میں ایشلی اور کرسٹیا کے والدین کے لئے تو ہیرو ہو سکتی ہوں لیکن اپنے گھر میں بے عزت ہوئی۔ خالہ اور خالو بہت غصے میں تھے۔ مجھے سزا کے طور پر رات کا کھانا بھی نہ دیا گیا۔ میرے دوست کا ایک اور پوسٹ کارڈ آیا ہوا تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے خط نہیں لکھا تھااس لئے میں نے سوچ لیا کہ اب اس سے رابطہ ختم کر دوں گی اور وہ شخص جس کا کوئی دوست نہ ہو،پر ایک کہانی لکھوں گی۔
ایشلی کے والدین ایک حادثے میں فوت ہو جاتے ہیں۔ اس کی خالہ اسے دوسرے شہر اپنے پاس لے آتی ہے ۔ وہ اسے سکول داخل کرادیتی ہے۔ اس کا کسی کلاس فیلو سے جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اگلے دن ا یشلی کیٹی کے پاس آئی اوربولی کہ کرسٹینا نے کہا ہے کہ چھٹی کے بعد ہم سیدھا اس کے ساتھ اس کے گھر جائیں کیونکہ اس نے انتہائی اہم بات کرنی ہے۔
میں نہیں جا سکتی۔ میری خالہ خالو نے مجھے منع کر دیا ہے۔ کہا ہے کہ میں سکول سے چھٹی کے بعد سیدھی واپس گھر آیا کروں۔
یہ تو بے حد غلط بات ہے۔ تم نے انہیں مطلع کرنے کے لئے فون بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس کا فون مسلسل مصروف تھا۔ علاوہ ازیں تم ہیرو ہو جس نے ہماری جانیں بچائیں۔ تم بے شک ہیرو ہو۔۔۔ میری اورکرسٹینا کی ماں بھی یہی سمجھتی ہیں۔
لیکن میری خالہ اور خالو یہ نہیں سمجھتے۔
کیا تم کرسٹینا کی مدد کے لئے سکول کے بعد نہیں رک سکتیں؟ ایشلی نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔ کیا وہ کل کے حادثے کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہے؟ کیٹی نے پوچھا۔
یقینا یہی ہوگا۔ایشلی نے جواب دیا۔ اگر تم نہیں جا سکتیں تو اپنے گھر جا کر کم از کم کرسٹینا کو فون تو کرلو۔
پاگل ہو تم بھی۔ اپنی خالہ سے فون لے کر میں کرسٹینا سے کیسے باتیں کرسکتی ہوں؟
گتو پھر میں اپنے بھائی سے کہوں گی کہ کرسٹینا کے پاس سے ہو کر تمہیں تمہاری خالہ کے گھر چھوڑ دے اور اگر تم میرے ساتھ چلو گی تو میں ایک بلی کا بچہ لے لوں گی۔
کیٹی نے خالہ کو فون کیا۔ اس نے نہ اٹھایا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے ساتھ جائے گی لیکن ساڑھے پانچ بجے واپس آجائے گی اور چھ بجے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائے گی کیونکہ وہ پارلر سے چھٹی کرکے چھ بجے کے بعدگھر واپس پہنچتی تھی۔
کرسٹینا کی کہنی سے اوپر تک پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ اس کے کمرے کا آتش داں سلگ رہا تھا۔ اس کا کمرہ رنگ برنگی تصویروں سے سجا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ تمام وقت فرشتوں کے بارے سوچتی رہی۔ فرشتوں کے نام کے ساتھ تو آخری نام نہیں ہوتا صرف پہلا نام ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے نام کے بعد گیلن کہا تھا۔ اگر ان حروف کی ترتیب بدل دی جائے تو وہ فرشتہ بنتا ہے۔
مجھے خالہ اورخالو نے سزا دی ہوئی ہے اس لئے مجھے فوری طور پر واپس جانا ہوگا۔کیٹی نے بتایا۔
میں نے تم دونوں کو اس لئے بلایا ہے تاکہ ہم تینوں ایک بار پھر جنگل جا کر کل کے واقعے کا مطالعہ کریں۔ ہم ان کو ڈھونڈیں گے۔ وہ وہیں کہیں ہوں گے۔ وہ ہمارے محسن ہیں۔کرسٹینا بولی۔
افسوس کہ میں نہیں جا سکتی۔کیٹی نے کہا۔
میں بلی کا ایک بچہ لے لوں گی۔کرسٹینا نے اسے لالچ دیا۔
یہ رشوت ہے۔ میرا خیال ہے تمہارا ہاتھ ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ دماغ بھی چل گیا ہے۔ کیٹی نے کہا۔
اچھے کاموں کے لئے رشوت جائز ہے۔کرسٹینانے جواب دیا۔
اچھا ٹھیک ہے پر جلدی چلوکیونکہ میں نے واپس گھر وقت پر پہنچنا ہے۔کیٹی نے کہا۔
کیا تم میرے لئے نوٹ لکھ دو گی؟ میں لکھ نہیں سکتی۔کرسٹینا نے ایشلی سے کہا۔ پھر وہ جنگل جانے کے لئے نکل پڑے۔
کرسٹینا نے ایک مقام پر پتھروں سے ایک دائرہ بنایا تھا۔ ان پتھروں پر مصنوعی پھول بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے مرکز میں ایک فرشتے کامجسمہ بنا تھا۔
یہ کیا ہے؟ کیٹی نے پوچھا۔
یہ ایک مقدس دائرہ ہے۔کرسٹینا بولی۔
کیا تم پاگل ہو؟ تم بیمار ہونے کی وجہ سے سکول نہیں آئی لیکن یہ سب کچھ کر لیا ہے؟ کیٹی نے پوچھا۔ اس قسم کی چیزوں کے لئے بہت محنت مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ اور تم میں بیماری کی حالت میں اتنی طاقت کیسے آگئی کہ تم یہ کام کر سکو؟
تم ان فرشتوں سے دوبارہ کیوں ملنا چاہتی ہو؟ کیٹی نے پوچھا۔
میں تم دونوں کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ ہم دائرہ کے اندر ڈانس کرکے انہیں بلائیں گیلیکن کیٹی نہ مانی اور واپس جانے پر بضد رہی۔ واپسی پر اس نے سوچا کہ اصطبل میں ایک بار پھر گھوڑوں اور جونیئر کو دیکھ لے۔ وہ اصطبل پہنچی تو صرف جونیئر وہاں تھا لیکن باقی پانچ گھوڑے غائب تھے۔ جونیئر کی ماں اور دیگر گھوڑے گھوڑ سواری کی مشق کے لئے گئے ہوئے تھے، پھر اس نے دیکھا کہ گھوڑ سوار انہیں واپس اصطبل لا رہے تھے۔ جونیئر کی ماں کی گھوڑ سوار اس کی کاٹھی اتار رہی تھی۔ اسے جونیئر پر ترس آیا کہ شاید اسے اپنی ماں کی کمی محسوس ہو رہی ہو اس لئے اس نے سوچا کہ وہ ان دونوں کو ملا دے تاکہ ان کی کی بے چینی ختم ہو۔ اس وقت تمام سائیس واپس آ گئے تھے اور گھوڑوں کی کاٹھیاں اتار رہے تھے۔ وہ جونئیر گھوڑے کو اسکی ماں کے پاس لے گئی۔ ماں بہت خوش ہوئی، اچھلی اور مستی میں گول گول چکر لگانے لگی تھی۔ ان دونوں کی خوشی دیکھ کرباقی چار گھوڑے بھی جوش میں آگئیاور سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ ابتری دیکھ کر تمام گھوڑ سواروں میں تشویش پیدا ہوگئی۔ وہ انہیں واپس لانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ ایشلی اور کرسٹینا بھی بھاگتی ہوئی آئیں۔ انہوں نے بھی گھوڑوں کو جنگلوں کی طرف بھاگتے دیکھا۔ وہ فرشتوں کو بلانے کی دعائیں بیچ میں چھوڑ کر آئی تھیں۔
تم نے یہ کیا کیا کیٹی؟ ایشلی بولی۔
میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں تو صرف جونیئر اوراسکی ماں کو آپس میں ملوانا چاہتی تھی۔
گھوڑوں کو گھیرنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ وہ تینوں وہاں کھڑی دیکھتی رہیں۔ اتنے میں تیزی سے ایک جیپ آئی جس میں اسکی خالہ اور خالو بپھرے ہوئے تھے۔ وہ اسے گھر لے گئے۔ اس کا خالو غصے میں آپے سے باہر تھا۔ وہ بولا۔کیٹی! تم ہمارے لئے عذاب لے کر آئی ہو۔ تم سے نیکی کی کوئی امید نہیں۔
باقی گھوڑے مل گئے ہیں لیکن ایک گھوڑا ابھی بھی غائب ہے۔ ایشلی کے والد کے ساتھ ہم گھوڑوں کو ڈھونڈنے کے لئے دو گھنٹوں سے کوشش کر رہے تھے۔ اب ایشلی کے والدنے کہا کہ اس گمشدہ گھوڑے کی قیمت ہمیں ادا کرنا پڑے گی۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ ایک گھوڑا کتنے کا ہے؟ ہزاروں ڈالر کا۔ جب بہت دیر ہوگئی اور تم نہ آئی تو آفس فون کیا۔ سیکرٹری تمہیں جانتی تھی کیونکہ کل تمہاری پرنسپل کے سامنے پیشی تھی۔ اس نے بتایا کہ تم ایشلی کے ساتھ چلی گئی ہوگی۔ تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ تم نے جان بوجھ کر دوسری دفعہ حکم عدولی کی۔خالو غصے میں بولتا رہا۔
خالہ نے اپنے خاوند کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کہاکہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے لیکن خالو غصے سے بے قابو تھا۔
دراصل کیٹی ان گھوڑوں کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ ماں اور جونیئر جو کئی گھنٹوں سے الگ ہوگئے تھے،کو ملانا چاہتی تھی لیکن وہ بے قابو ہوگئی۔خالہ نے کہا۔
اب تم یہ نہ کہو کہ اس کا کوئی قصور نہیں۔ اسکی وجہ سے اب ہم ہزاروں ڈالر کے مقروض ہوچکے ہیں جبکہ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں۔ اس کا قصور کیسے نہیں؟ خالو غصے سے بولا۔ میں اس کے لئے کوئی نوکری ڈھونڈوں گا اور جب تک وہ اس گھوڑے کے پیسے نہیں چکا دیتی،اسے کام کرنا ہوگا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کتنا وقت لگتا ہے پھر اس نے اپنی جیب سے سگریٹ کا ایک پیکٹ نکالا اور پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ یہ تمہارے کمرے سے نکلا ہے۔ یہ تمہارے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟
تم میرے کمرے میں گئے اور تلاشی لی؟ تمہیں میری پرائیویسی میں دخل اندازی کی جرات کیسے ہوئی۔کیٹی نے کہااورخالو نے سگریٹ کا پیکٹ اسے دے دیا۔
دراصل میں تمہارے کمرے کی صفائی کرنے گئی تھی خالہ نے بتایا۔
تم میرا کمرہ صاف کر رہی تھی یا میرے دراز؟ کیٹی نے پوچھا۔
اپنی خالہ سے ایسے نہ بولو! خالونے مزید ڈانٹا۔
کیوں نہ اس لہجے میں بولوں؟ تم لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہو۔ میری پرواہ نہیں ہے۔ میں تمہارے لئے دردِ سر بن گئی ہوں۔ مجھے تم دونوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔ کاش میں یتیم خانے یا اجنبیوں کے پاس چلی جاتی۔ میں یہاں رہنا پسند نہیں کرتی، کیٹی نے روتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے کمرے میں آئی اور بستر پر گر پڑی۔
اپنے منہ پر سرہانا رکھا اور روتی رہی پھر اس نے سرہانا زور زور سے دیوار پر مارنا شروع کر دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس روز اپنے والدین کے ساتھ ان کی کار میں ہوتی۔ اس اکیلے پن اور ذلت کی زندگی سے تو بہتر تھا کہ وہ مر جاتی۔
اتنے میں اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ اس کی خالہ تھی۔ اس نے پوچھا کہ اس کی طبیعت کیسی ہے؟
ہے،کیٹی بولی۔
تمہارے خالو کی طبیعت ذرا غصے والی ہے۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ آؤ کچھ کھالو۔خالہ نے کہا۔
مجھے بھوک نہیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دیا جائے۔کیٹی بولی پھر اس نے اپنا روزنامچہ نکالا اور لکھنے لگی۔
یہاں ہر شئے بدبودار ہے۔ میں اپنے خالہ اور خالو سے نفرت کرتی ہوں۔ نفرت۔ نفرت۔ نفرت۔ یہ بھی اچھا ہے کیونکہ وہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔
لیکن یہ بھی سن لو! کل کے بعد میں ان کو کبھی نہیں دیکھوں گی۔ کل میں ان کے پاس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلی جاؤں گی۔ یہ قصبہ ( Pine Ridge ) میرے لئے عذاب بن گیا ہے۔ مجھ میں لکھنے کی صلاحیت ہے۔ میں نے ایک کہانی لکھنا شروع کی ہوئی ہے۔ شہر جا کر اسے بیچوں گی اور اس طرح سے گزارہ کرتی رہوں گی۔ اس کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ ٹرینسے شہرجا سکے۔ جب تک اس کی کہانی نہیں بکتی،وہ سٹیشن پر سو جایا کرے گی۔ وہ کہانیاں لکھ کر بیچا کرے گی۔ اس نے کچھ کپڑے اور اپنے ماں باپ کا فوٹو اٹھایا اور اپنے بیگ میں رکھا۔ اس نے سوچاکہ کل سکول سے واپسی پر وہ بس سٹیشن چلی جائے گی اور اس منحوس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر لے گی۔ اس نے یہ بات ایشلی کو بتائیتو اس نے پوچھاکہ تم کہیں کیوں جانا چاہتی ہو؟ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ گھوڑا رات کو مل گیا تھا اور ویسے بھی میں نے اپنے والدین کو بتا دیا تھا کہ اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا۔ تم نے تو محظ ماں اور جونیئر کو آپس میں ملانے کی کوشش کی تھی۔ وہ میری رائے سے متفق ہیں۔
کل تمہارا باپ اور ماں کتنے غصے میں تھے؟ میں ان کا سامنا نہیں کر سکتی اور میرے خالو اور خالہ کا رویہ تو تم نے خود دیکھ لیا تھا۔ وہ ناقابلِ برداشت ہیں۔کیٹی بولی۔
میرے والدین غصے میں نہیں بلکہ پریشان تھے جو ایک فطری بات ہے۔ایشلی بولی۔ پلیزکہیں نہ جاؤ۔ ابھی تمہیں خالہ، خالو کے پاس آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے۔ ایک دوسرے کا مزاج سمجھنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے۔ انتظار کرو۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے اور تم بھی ان سے تعاون کرو۔
نہیں! انہوں نے میری تلاشی لی ہے اور خالہ نے سگریٹ کی ڈبی ڈھونڈ کر خالو کو دی تھی۔ مجھے ان کے پاس نہیں رہنا۔ مجھے جانا ہوگا۔
اتنے میں کرسٹینا آگئی اس نے بھی پوچھاکہ کون کہاں جا رہاہے؟
کیٹی آج گھر سے بھاگ رہی ہے۔ایشلی بولی۔
یہ قصبہ پائن رینج( Pine Ridge ) میرا گھرنہیں ہے۔ میں یتیم ہوں، میرا کوئی گھر نہیں اور میں اپنے گھر سے کیسے بھاگ سکتی ہوں؟
میں تمہارے بارے میں بہت پریشان ہوں۔ بھگوڑی لڑکیوں کے ساتھ کتنا برا سلوک ہوتا ہے کہ سن کر دل لرز جاتا ہے۔ ایشلی بولی۔
علم الاعداد کے حساب سے بھی اس وقت تمہارا گھر سے بھاگنا بہت برا ہے۔ اگر تم اس وقت بھاگ گئیں تو تم پر برا وقت شروع ہوجائے گا، کرسٹینا نے کہا۔
اوہ واقعی؟ تم اپنی روحانیت اور علم الاعداد اپنے پاس ہی رکھو۔ میں مصیبتوں سے نہیں گھبراتی۔ تم لوگوں کا خاندان ہے،محبت کرنے والے والدین ہیں۔ وہ تمہاری حفاظت کرتے ہیں۔ تم ان پر اور وہ تم پر اعتماد کرتے ہیں۔ تمہارے لئے اپنے گھر میں رہنا ٹھیک ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ان نے جذباتی لہجے میں جواب دیا۔
کیا وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے ؟اگلا حصہ تیسری قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔

Popular posts from this blog