Book 3 Story 13 موت سے بالا تر ہوس Death Constant beyond Love Gabriel Garcia Marquez( Nobel Laureate)
موت سے بالا تر ہوس
Death Constant beyond Love
Gabriel Garcia Marquez( Nobel Laureate)
ڈاکٹر نے سینیٹر ‘ون سیمو سانچز ‘کو یہ خبر دے کر اس کے سر پر بم پھوڑ دیا کہ وہ چھ ماہ گیارہ دن کے بعد اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر جائے گا۔ اندوہناک خبرکے باوجود اسے اس روز اسے ایک دوشیزہ سے محبت ہو گئی جسے اس نےاتفاقاً اپنی سیاسی مہم کے دوران ایک سمگلروں کی بستی میں دیکھا تھا ۔ وہ گاؤں دن میں عام طور رہتا تھا لیکن رات کو وہاں مجرموں کی حکومت ہوتی تھی ۔حکام بالا اندرون خانہ ان کی سرپرستی کرتے تھے اور ان سے ملے ہوئے تھے۔ اس گاؤں کا رخ سمندر کی طرف تھا جو کھلاتھا اور بغیر کسی سمت کے تھا۔ وہاں جہاز لنگر انداز تھے۔کسی کے گمان میں بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس وقت اسی مقام پر ایک سینیٹر کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا ۔یہ بڑی بد قسمتی تھی کہ وہ غریب عوام کا ان داتا بنا ہوا تھا۔ اس پورے ہجوم میں اگر کسی نے اپنے لباس پر ایک خصوصی بڑا سا پھول ٹانکا تھا تو وہ صرف سینیٹر سانچز کی قمیص پر تھا۔ اس وقت اس کی نظر ' لارا فرینہ ' پر پڑ گئی ۔سانچز کو وہ تمام پھولوں سے بڑھ کر لگی اور وہ اس پر دل و جان سے فریفتہ ہوگیااور اس کا دل اس کی قربت کے لئے تڑپنے لگا۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے لئے اس صحرائی گاؤں آیا تھا۔ اسے ہر چار سال بعد الیکشن پر ریلیاں ، جلسے جلوس نکالنے پڑتے تھے ۔اپنی شکل دکھا کر سہانے خواب دکھانا پڑتے جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد حاصل کر کے نہ صرف اسمبلی پہنچتا بلکہ طاقتور عہدہ بھی حاصل کر لیتا۔ پروگرام کے مطابق اس کی سیا سی مہم میں اس کی ویگنیں صبح ہی پہنچ گئی تھیں اور حاضرین کی تعداد میں اضافے کے لئے بھاڑے کے مزدور ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے گئے تھے تاکہ نفسیاتی اثر ڈالا جا سکے کہ وہ عوام الناس میں کس قدر مقبول تھا۔ رات کوسرکاری معاون انتظامی اور حفاظتی جیپوں نے ذمہ داریاں سنبھال لینا تھیں جو اپنے ساتھ قرمزی مشروب بھی لائے تھے۔ کو لمبیا کے اس صحرائی گاؤں میں جھلسا دینے والے جھکڑ چلتے رہتے تھے۔ سینیٹر سانچز ہجوم میں گھرا ہوا تھا۔ وہ ا س وقت صحرا کی لو سے بچا ہوا تھا کیونکہ وہ ائر کنڈیشنڈ کار میں مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لوگوں کے پرتپاک استقبالی نعروں کاجواب دینے کے لئے باہر نکلاتو ہوا کا تھپیڑا آیا اور اس کی ریشمی قمیص آگ کا شعلہ بن گئی۔ وہ پسینے میں نہاگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صابن کی جھاگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وجہ سے وہ اپنی عمر سے زیادہ لگ رہا تھا۔ اس کی حقیقی عمر 42 سال تھی۔وہ کمزوراور بوڑھا لگ رہا تھا۔ وہ عوام پر اپنی قابلیت کا مزید رعب ڈالنے کے لئے لاطینی زبان بھی سیکھ رہا تھا۔اس نے ایک جرمن حسینہ سے شادی کی تھی اور اس سے پانچ بچے تھے اور سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ اس دورے سے تین مہینے پہلے تک وہ خود بھی اپنی نجی اور ازدواجی زندگی سے بالکل مطمئن تھا لیکن جب اسے ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اگلی کرسمس نہیں دیکھ پائے گا اور اس سے پہلے مر جائے گا تو اس پر نہ چاہتے ہوئےموت کی دہشت طاری رہنے لگی۔ پروگرام کے مطابق دوپہر کی ریلی کے اختتام پر اس نے ایک گھنٹہ آرام کرنا تھا اور وہ اس وقفے میں 'لافرینہ کے مزے لینا چاہتاتھا۔ اس نے اس پھول کو جو اس نے پہنا ہوا تھا،سوکھنے سے بچانے کے لئے پانی کے برتن میں رکھ دیا۔ یہ وقت اس نے خلوت میں گزارنا تھا۔ اس مقصد کے لئے ایک خصوصی کمرہ تیار کیا گیا تھا۔ وہ نقاہت سے بچنے کے لئے ہلکی پھلکی مشروبات اور دلیہ وغیرہ لیتا رہا تھا۔ وہ گوشت اور چاول وغیرہ نہیں لے رہا تھا کہ اس سے اس کا پیٹ بوجھل ہو جاتا اور اسے نیند آنے لگتی۔ اس سے اس کو الرجی ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ وہ اپنا درد دور کرنے کے لئے نسخے کے مطابق ادویات بھی لے رہا تھا ۔وہ سہ پہر میں سستانے کے لئے ایک جگہ رک گیا۔ وہ جھولے میں بیٹھ گیا۔ پیڈسٹل پنکھا فل سپیڈ سے چل رہا تھا۔لو سے بچنے کےلئے اس نے اپنی قمیص اتار دی اور پندرہ منٹ تک اس کے سامنے لیٹ گیا۔ اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بار بار اپنی موت کا خیال ستا رہا تھا۔ اس سے چھٹکارے کے لئے اس نے با ر بار سر کو جھٹکا دیا۔ اس راز سے صرف ڈاکٹر اور وہ واقف تھا کہ موت اس کے سر پر تھی ۔اس نے نہ کسی کو بتایا تھا اور نہ بتانا چاہتا تھا۔ اس اذیت کو اس نے از خود ہی جھیلنے کا فیصلہ کیا۔ روزمرہ معمولات باقاعدگی سے ادا کرتا رہا۔وہ یہ اس لئے نہیں کر رہا تھا کہ وہ بہادر تھا بلکہ شرمندگی سے بچنے کے لئے ایسا کر رہا تھا۔ اس وقفے میں اس نے اس خوبصورت لڑکی کے بارے میں معلومات کرلیں۔ وہ ایک فراڈ ئیے نیلسن فرینہ کی بیٹی تھی جواس کا سپورٹر تھا جو کسی ناجائز کام کروانے کے لئے سفارشیں کرواتارہاتھالیکن سینیٹر نے منع کردیاتھا۔ آرام کے بعد وہ دوبارہ عوام میں آگیا۔ اس وقت اس نے لینن کی پتلون اور پھولدا قمیص پہنی ہوئی تھی۔ گولی کھانے سے سر درد تو دور ہو گیا تھا لیکن موت کا خوف اس کی روح کی گہرائیوں میں گونج رہا تھا۔ وہ اس سے چھٹکارے کے لئے عوام میں گھل مل گیا۔ عوام اپنے قائد کو دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لئے پر جوش تھے اور ایک دوسرے کو دھکا دے کر اور اس سے ہاتھ ملا کر خود کو خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہے تھے۔اس کے بعد وہ سٹیج پر چڑھ گیا ۔ ٹرکوں پر بھاڑے کے مزدور شور زدہ ماحول گرمی کی لو برداشت کرنے کے عادی تھے۔ جلسے میں شامل افراد نعرے لگانے لگے۔ اس نے ہاتھ لہرا لہرا کر ان کو خاموش کرایا۔ سٹیج کا رخ سمندر کی طرف تھا جس کاپانی گرم تھا۔اس نے اپنی تقریر شروع کی۔ الفاظ اس کے منہ سےتواتر سے نکلنا شروع ہو گئے۔ وہ ہزاروں بار سیاسی تقریر کر چکا تھا۔ اس نے کیا کہنا ہےاسے پوری طرح یاد تھا۔ وہ لفاظی کا ماہر تھا۔ بڑے اعتماد سے سبز باغ دکھاتا تھا۔ وہ بڑے وقار اور اعتماد سے بول رہا تھا۔ اس کے موقف میں وعدے تھے،مخالفین پر نکتہ چینی تھی۔ وہ جوش خطابت میں کہہ رہا تھا ۔'ہم یہاں فطرت کو شکست دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ' اس نے اپنی تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا جو کہ اس کے راسخ عقیدے کے برعکس تھا۔ وہ عوام کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے حق میں نہیں تھا بلکہ انہیں محتاج بنا کرذرا سی سہولت دے کراپنے مذموم غیر قانونی دھندےخفیہ طور پر برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد اس نے کہا ،'ہم اپنے ہی وطن میں لاوارث ہو کر رہ گئے ہیں۔ سامراجی قوتوں نے ہمیں بھوکا پیاسا رکھ چھوڑا ہے۔جنگیں ہم پر مسلط کر دی گئی ہیں۔ اسلحہ سازی ، ایٹم بم اور راکٹ سازی نے ہمارے وطن کےموسم اور آ ب و ہوا کو نہائت گرم کر کے ہمیں مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔یہ سب سامراجیوں کی سازش ہے ۔ ہم اپنے ہی ملک میں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تم میرا ساتھ دیتے رہو ۔جلد ہی میں تمہیں تمام مصائب سے چھٹکارا دلاؤں گا۔ لوگ یہ بات سن کر اس کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے۔ کاغذی جہاز بنا کر اڑانے لگے۔ آتش بازی کرنے لگے اور راکٹ چھوڑنے لگے۔ ان میں کئی کاغذی جہاز اور راکٹ تو سٹیج پر آ کر گر رہے تھے۔ ٹرکوں سےکٹے ہوئے لدی پھدی شاخوں والے درخت نکالے گئے اور شوریدہ زمیں میں گا ڑ دئیے گئے۔اس کے ساتھ کارڈ بورڈاور لکڑیوں سے بنے گھروں کے ماڈلوں کوچھکڑوں پر رکھ دیا گیا اور جلو س کے ساتھ لے جایا جانے لگا۔ وہ ما ڈل سالہا سال سے جلسے جلوسوں میں استعمال ہو رہے تھے۔ اب ان کی اصلی حالت بگڑنے لگی تھی۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے نوٹس بورڈ تھے جن پر اس نے اپنا منشور اور کارکردگی بیان کی ہوئی تھی۔ ۔ ۔۔ ' ہم ہر جگہ درخت لگا کر گرمی کا مقابلہ کریں گے۔ہر ایک کو سر چھپانے کی جگہ دیں گے۔' ایسا ڈرامہ وہ چوتھی بارہر چار سال بعد انتخاب کے دنوں کیا کرتا تھا۔عوام ان وعدوں سے نہال ہو رہے تھے۔ سینیٹر نے اپنی تقریر آگے بڑھاتے ہوئے ان سے وعدہ کیا کہ خشک سالی دور کرنے کے مصنوعی آلات استعمال کرکے بارش کروائے گا۔بنجر زمینوں کو زرخیز بنوائے گا۔ ڈیری فارموں کا جال بچھائے گا۔ یہ اس کے منشور کی اولین ترجیحات میں تھا ۔اشتہارات میں اس کے کارہائے نمایاں کی فہرست اور زیر تکمیل اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبؤں کی نمائش کی گئی تھی۔ وہ پچھلے بارہ سالوں میں عوام الناس میں ایسےحربوں سے جیت رہا تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس نے اپنےایک بڑے سپورٹر'نیلسن فرینہ ' کو اپنے جلوس میں نہیں دیکھا۔وہ با اثر شخص تھا لیکن جرائم پیشہ تھا۔ اسلحے اور منشیات کے دھندے میں ملوث تھا۔وہ جعلی شہریت بھی چاہتا تھا اور اس سے ہر ناجائز کام میں اس کی مدد کا خواستگار تھا۔ نیلسن اگرچہ اس کے پاس جلسے میں نہیں آیا تھا لیکن اسکے جلسے جلوس کو سامنے والے سمندر میں جھولے پر بیٹھ کر دیکھ رہاتھا۔ اس کے ساتھ اس کی نوجوان بیٹی بھی تھی ۔ نیلسن کی بیوی بیٹی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعدہی فوت ہو گئی تھی جسے ولندیزی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔نیلسن نے دوسری شادی نہ کی۔ اس کی بیٹی بہت خوبصورت تھی۔ رنگ روپ، جسم، قد کاٹھ ماں پر گیا تھا اور وہ صحیح طور پر فخر کرتا تھا کہ اس نے دنیا کی حسین ترین لڑکی کی پرورش کی تھی۔ نیلسن فرینہ نے سینیٹر سانچز کی پہلی سیاسی ریلی میں بھرپور حصہ لیاا تھا اور سانچز سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے اپنے خلاف مقدمات کی کاروائی سے استثنیٰ دلوایا جائے لیکن اس نے سفارتی انداز میں ایساگول مول جواب دیا تھاجس کا جواب نہ تو نفی میں تھا اور نہ ہی ہاں میں۔اس کے بعد اس نے چپ سادھ لی تھی اور مناسب وقت کا انتظار کر نے لگا۔ اسے اپنے مطالبات منوانے کے لئےاپنے منصوبے کے مطابق آج کا دن وہ موزوں ترین سمجھتا تھا۔ وہ خود کو جھلسانے کے لئے باہر نہ آیا۔سینیٹر کی تقریر ختم ہوئی اور جلسہ اختتام پذیر ہوا اور لوگوں کی تالیوں کی گونج کم ہوئی تو وہ جھولے سے اترا اور جہاز کے جنگلے پر آ کر کھڑا ہوگیا جہاں سے سانچز اسے صاف دیکھ سکتا تھا۔ روایت تھی کہ سینیٹر ریلی کی صورت میں شکایات سننے کے لئے گلی محلوں میں جایا کرتا تھا اور مسئلے کی نوعیت کے مطابق فوری احکامات جاری کیا کرتا تھا۔ ریلیوں میں موسیقی، ترانے اور آتش بازی باقاعدہ ہوتی رہتی تھی۔ وہ ان کے مسائل غور سے اور بڑی ہمدردی سے سنتا اور اس کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی تھی کہ وہ حقیقی یا بہت کم مدد کرکے سائلین کی تشفی کر دیتا تھا۔ایک گلی میں وہ بینڈ باجے کے ساتھ داخل ہواتو ایک مکان کی چھت پر ایک خاتون ہاتھ ہلا ہلا کر اونچی آواز میں کچھ بول رہی تھی۔ موسیقی کے شور میں اس کی آواز دب گئی تھی۔سینیٹر نے دیکھا تو شور بند کروا کے اس کی فریاد سنی۔ سینیٹر۔ میرا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ۔ مجھے پانی لانے جانے کا بڑا مسئلہ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ پانی ڈھونے کے لئے ایک گدھا چاہیئے تاکہ میں پاس والے گاؤں سے پانی لا سکوں۔ میرے چھ بچے ہیں اس کے لئے پانی کے مٹکے بھر لانا مشکل ہے۔خاتون نے کہا۔سینیٹر نے اس خاتون اکے چھ نحیف دبلے پتلے بچوں کو دیکھا اور پوچھا، 'تمہارا خاوند کدھر ہے؟' 'وہ روزی کمانے کے لئےعروبہ شہرگیاہے۔ اسے کام تو نہیں ملا لیکن ایک عورت ہاتھ لگ گئی جس کے دانتوں پر ہیرے جوہرات جڑے تھے اور اس کے ساتھ مقیم ہو گیا ہے۔' اس نے مذاقاً کہا۔ اس کی بات سن کر مجمع نے زور دار قہقہہ لگایا۔ 'ٹھیک ہے۔ تمہیں گدھا مل جائے گا۔' سینیٹر نے کہا۔ اس خاتون کو اس کے معاونین نے گدھا مہیا کر دیا۔ اور اپنے ساتھ نوٹس بورڈ پر اس کار ہائےنمایاں کو جلی حروف میں لکھ دیا کہ سینیٹر سانچز نے ایک خاندان کی حاجت روائی کی اور اس ضرورت مند کو گدھا مہیا کیا۔اسی طرح گلیوں میں چلتے پھرتے لوگوں کو چھوٹے موٹے تحائف دیئے، وہاں ایک ایسے مریض کو جسے چارپائی پر ڈال کر وہاں لایا گیا تھا کودوائی بھی لے کر دی اور اسے اپنی کارگزاری میں ظاہر کردیا۔اس کے دورے کے آخری نکڑ پر جنگلےکے پاس اس کی نظر 'نیلسن فرینہ'پڑی جواسے دیکھ رہا تھا۔ وہ غمزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ سینیٹر نے اس کاسرسری اندازمیں حال احوال پوچھا۔ 'ہیلو!نیلسن کیسے ہو۔' 'ٹھیک ہوں۔' نیلسن نے مرجھائی آواز میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی اور افسردگی تھی۔ اس کی بیٹی نے جب اپنے باپ کو کسی سے باتیں کرتے سنا تو وہ کمرے سے باہر آ کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اس نے ایک ایسا سستا سا لباس پہنا ہوا تھا جو ریڈ انڈین پہنتے ہیں۔ اس نے اپنے سر پر بو ٹائی لگائی ہوئی تھی اوراپنے تمام چہرے پر دھوپ کے اثر سے بچنے والی کریم لگائی ہوئی تھی۔اس لڑکی کو اس نےپہلے دیکھ لیاتھا ۔ایسی نوخیز حسینہ اس نے تمام عمر کبھی نہیں دیکھی تھی اور اسے حاصل کرنے کے لئے تڑپ رہاتھا۔ابھی تک اس کی امید نہیں بر آئی تھی۔ موت کا خوف اس کے ذہن سے کافور ہو گیا۔ہوس چھاگئی۔ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔اے خدا ! تم نے کیا حور تخلیق کی ہے۔ کاش وہ مجھےمل جائے۔ اس کے سینے سے ایک ہوک اٹھی۔ رات کو اس جگہ جہاں اس نے قیام کیاتھا، میں وہاں اپنی پارٹی کے اراکین کے ساتھ عوام کے تاثرات ، جلسے کےنتائج اور جیتنے کی حکمت عملی پر گفتگو کر رہا تھا۔جلسے کے بعد ایسی میٹگیں معمول کا حصہ تھیں۔وہ انہیں پسند نہیں کرتا تھا لیکن یہ لازماً کرنا پڑتی تھیَں ۔ نیلسن فارینہ نے اپنی بیٹی کو اس کے پاس بھیجا۔ وہ پہنچی تو سینیٹر کے محافظ دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے اسے وہیں روک لیا اور بتایا کہ سینیٹر میٹنگ میں مصروف ہے۔ اس کمرے میں ائر کنڈیشنڈ نہیں تھا اور اس کی قمیص پسینے سے شرابور تھی۔ وہ پنکھے کے سامنے بیٹھا میٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنا پسینہ خشک کر رہا تھا۔ پنکھے کی ہوا بھی آگ برسا رہی تھی۔ ہم یقیناً ہوا ئی محل تعمیر نہیں کرتے۔بیداری میں خواب نہیں دیکھتے اور نہ ہی ہوا میں تیر چلاتےہیں۔ ہم عملی لوگ ہیں۔کاغذی شیروں کا شکار نہیں کرتے۔ خیالوں کی دنیا نہیں بساتے بلکہ حقیقت پسند ہیں۔ سینیٹر اپنے معتمدین کو کہہ رہا تھا۔ ہم زندگی کو عملی طور پر دیکھتے ہیں۔بکریوں کی غلاظت، گائیوں کے گوبر کو ٹھکانے لگانے اور ان سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیوریج نظام نہ ہونے سے پیچش، ہیضہ اور پیٹ کی بیماریوں کو دیکھتے ہیں اور ان کا تدارک کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ ہمیں اندازہ ہے۔ ہمیں سب معاملات ٹھیک کرنے چاہیئں لیکن ہماری مجبوریاں ہیں۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ ہماری حدود ہیں۔ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ تم، نہ میں اور نہ ہی حکومت ان مسائل کو سلجھا سکتی ہے۔ کیا ایسا نہیں؟ اس بات پر سب کارکن چپ رہے۔وہ کچھ دیر خاموش رہا ۔ پاس پڑی ہوئی نوٹ بک میں سے ایک ورق پھاڑا۔ اس کی تتلی بنائی اور ہوا میں اڑا دی جو پورے کمرے میں گھوم کر نیم وا دروازے سے لہراتی ہوئی باہر کی دیوار سے چیک گئی۔ سینیٹر نے موت کا غم اپنے ذہسے اتارتے ہوئے اعتماد کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور سب کو اپنی طرف متوجہ کئے رکھا۔ اپنی بات بڑھاتے ہوئے اس نے کہا ۔ مجھے ان باتوں کو دہرانے کی قطعی ضرورت نہیں جو تم پہلے سے ہی جانتے ہو۔ میری سوچ اور فکر تمہارے لئے بھی اتنی ہی اہم ہےجتنی میرے لئے ۔ٹھہرے ہوئے پانی اور ریڈ انڈین کے پسینے سے اب میرا جی بھر گیا ہے جبکہ تم ان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو۔ نیلسن فرینہ کی بیٹی کمرے کے باہر اونگھتے ہوئے محافظوں کےساتھ بیٹھی انتظار کر رہی تھی ،نے کاغذ کی تتلی کو باہر آتے دیکھا ۔ تتلی دیوار سے ٹکرائی تو وہ سیدھی ہو کر دیوار سے جڑ گئی تھی۔ لڑکی اٹھی اور اپنے ناخنوں سے اس کاغذ کو دیوار سے اکھاڑنے کی کوشش کی تو کمرے کے اندر سے تالیوں کی آواز آئی۔جس پر محافظ کی اونگھ ٹوٹی ۔ اس نے لڑکی کو دیکھا اورخواب آلود آواز میں کہا کہ یہ کاغذ نہیں اترے گا کیونکہ وہ دیوار سے چپک گیا ہے۔ لڑکی یہ سن کر بیٹھ گئی۔ لوگ میٹنگ سے نکلے تو سینیٹر کے ہاتھ دروازے کی چٹخنی پر تھے اور وہ ان کے آنے کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔اسکی نظرنوجوان لڑکی پر اس وقت تک نہ پڑی جب تک کہ سب لوگ چلے نہ گئے۔اسے دیکھ کر بولاتو اسے ایسا لگا کہ اس کے دل نے دھڑکنا بند کردیاہے۔اسے اپنی دلی مراد پوری ہوتی نظر آئی۔ لیکن اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کیا: 'تم یہاں کیا کر رہی ہو؟' 'بابا نے آپ کے پاس بھیجا ہے'۔ لڑکی نے جواب دیا۔ سینیٹر نےمحافظوں کو اور پھر کڑی نگاہوں سے لڑکی کوسر سے پاؤں تک گھورااوراس کی خوبصورتی سےمست ہوگیا۔اس وقت وہ اپنی موت کاغم بھول کر اس کمسن کے حسن وشباب میں کھو گیا لیکن اپنے جذبات کو چھپا کر کہا 'اندر آ جاؤ'۔وہ سوچ رہا تھا کہ نیلسن نے اس بچی کو میرے پاس کسی لئے بھیجا۔ وہ اندر گئی تو دیکھا کہ پنکھے کی تیز ہوا میں ہزاروں بڑی رقم والے کرنسی نوٹ تتلی کی طرح تمام کمرے میں اڑ رہے تھے۔ 'دیکھ لو کہ کرنسی نوٹوں جیسی گندی اور بے وقعت شئے تتلیوں کی طرح بھی اڑ سکتی ہے۔ بیٹھ جاؤ '۔ وہ ایک سٹول پر بیٹھ گئی۔ اس نے اس کا جائزہ لیا تو وہ بھرپور جوان تھی لیکن ابھی کلی تھی۔ پھول بننے کے لئے تیارتھی۔ اس کا جسم نرم و نازک تھا اور پھولوں کی طرح مہک رہا تھا۔ اس کے بال ریشمی تھے اور ایسے تھے جیسے کہ گھوڑی کی گردن کے بال ہوا میں لہرا رہے ہوتے ہیں یا تتلیاں ایک پھول سے مستی میں اڑتے ہوئے جاتی ہیں تو ان کے پر اوپر نیچے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لڑکی کی بڑی آنکھیں کسی شئے کو دیکھ رہی تھین۔ سینیٹر نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا تو گلاس میں پڑے ہوئےاس کےخصوصی پھول پر تھیں۔ اس نے وہ وہاں سے نکالا اور لڑکی کو پیش کر دیا۔ 'میں نے ان پھولوں کے بارے میں اپنے 'راؤہچا سکول 'میں پڑھا تھا۔ 'لڑکی نے کہا۔ سینیٹر چارپائی پر بیٹھ گیا اور پوچھا۔' تمہارا نام کیا ہے؟' 'لارا فرینہ۔' لڑکی نے جواب دیا۔سینیٹر پھولوں کی اقسام کے بارت میں باتیں کرتا ہوا اپنی قمیص کے بٹن کھولنے لگا۔اس نے اپنے دل پرسوئیوں سے ایک گودنے کا نشان (ٹیٹو) کھدوایا ہوا تھا۔ اس نے پسینے سے بھیگی ہوئی قمیص زمین پر پھینک دی اور اسے کہا کہ اس کے جوتے اتارنے میں مدد دے۔ لارا فرش پر چارپائی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی اور اس کے تسمے کھولنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے کھولے کیونکہ اس نے مردوں کے لمبے تسمے کبھی نہیں کھولے تھے۔ یہ دیکھ کر سینیٹر بولا ۔' تم ابھی بچی ہو ۔ تم یہ سب نہیں کر سکو گی۔ تم سے نہیں ہوگا۔میں تمہیں سب سکھادوں گا'، اس کی گال تھپتھپاتاہوا بولا۔ 'میں اب بچی نہیں رہی۔ کیا تمہیں یقین نہیں آ رہا۔ میں بھر پور جوان ہوں۔ میں ایک ماہ بعد اپریل میں 19 سال کی ہو جاؤں گی'۔ یہ سن کر سینیٹر نے غور سے اس کے جسم کا جائزہ لیا۔ اس میں دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ سینیٹر ہنستے ہوئے بولا ۔'اس طرح تو ہم دونوں کا برج حمل (ایریز) ایک ہی ہے۔ کس دن پیدا ہوئی تھی؟' 'گیارہ کو'۔ لارا بولی۔ 'یہ تنہائی کی علامت ہے۔ ایسے لوگ خود کو تنہاسمجھتے ہیں۔ کیاایسا نہیں۔' سینیٹر نے کہا۔ لارا نے اس کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔ سینیٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے آگے بڑھے۔ اس سے پہلے وہ کسی کو پہلی ہی نظر میں دل نہیں دے بیٹھا تھا۔ اب اس کی محبت اس کے بالکل قریب تھی اور میسر تھی۔ وہ اپنی عزت و وقار کو بھی نہیں کھونا چاہتا تھا اور آگے بھی بڑھنا چاہتا تھا۔ وہ فرش پر بیٹھی بوٹوں کے تسمے کھولنے میں الجھی ہوئی تھی تو سینیٹر نے اسے اپنی دونوں ٹانگوں میں بھینچ لیا۔اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور چارپائی پر لٹا کر اسے کہا کہ مجھ سے کوئی بھی محبت نہیں کرتا۔ سینیٹر نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔وہ چپ رہی۔ وہ اس سے کھیلنے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی سکرٹ کے نیچے کوئی آہنی شئے پہنی ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا تو آہنی انڈر وئر پہنا تھا جس پر تالہ لگا ہوا تھا۔لارا کا دل خوف سے دھڑک رہا تھا۔اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔سینیٹر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔لارا کو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ اس نے خود کو قسمت کے حوالے کر دیا۔ سینیٹر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس سے بغل گیر ہو گیا۔ 'اس تالے کی چابی دو۔' سینیٹر نے کہا۔ 'وہ میرے باپ کے پاس ہے۔' لارا نے کہا۔ اس نے مجھے کہا ہے کہ 'تم اپنے سرکاری پیڈ پر اپنے کسی آدمی کے ہاتھ خط لکھ کر بھیجوجس میں وعدہ کرو کہ اس کے تمام بگڑے ہوئے کام سنوارو گے تو وہ یہ یقین دہانی لے کر چابی اس ہرکارے کے ہاتھوں بھیج دے گا۔' سینیٹر یہ سن کر حیران بھی ہوا اور اسے شدید غصہ بھی آگیا۔اس کا چہرہ اندھیرے میں تھا۔ اس نے اپنے منہ میں اسے ماں بہن کی گالیاں دیں۔ اس نے اپنے مکروہ دھندوں کو جاری رکھنے کے لئے اپنی نوخیز لڑکی کی دلالی کی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کافی دیر تک سوچتا رہا۔ اپنا جسم ڈھیلا کر دیا۔ مراقبے میں چلا گیا۔ اس کو کوئی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے کہا کہ نیلسن اور اس جیسے لوگوں کو نہیں چھوڑے گا۔ انہیں یا تو خود مار دے گا یا مروا دے گا۔اس کا دماغ کھول رہا تھا۔ اس نے ٹھنڈے ٹھنڈے سانس لئے تو سکون آیا۔ جب اس کی کپکپی ختم ہو ئی تو بولا۔ 'لارا۔ایک بات بتاؤ۔ تم نے میرے بارے میں کیا سوچا ہے۔ تم کیا کہنا چاہتی ہو؟' 'کیا تم اپنے بارے میں حقیقی رائے جاننا چاہتے ہو؟ 'لا را نے پوچھا۔ 'ہاں ۔ میں تمہاری سچی رائے جاننا چاہتا ہوں۔' سینیٹر نے کہا۔ 'تو۔۔۔تو ۔۔۔ سب لوگوں کی متفقہ رائے ہے کہ تم اگرچہ تمام صاحب اقدار لوگوں سے بد ترین ہو لیکن ان سب سے مختلف ہو۔ ' لارا نے جواب دیا۔' میں بھی ان سے متفق ہوں۔' سینیٹر نے اس پر اپنٰی آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر سوچتا رہا جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس پر خفتہ آرزو غالب تھی۔آنکھیں کھول کر بولا ۔' اپنے کتے کے بچے باپ سے بول دو کہ مجھے اس کی تمام شرائط منظور ہیں۔میں اس کے تمام معاملات سیدھے کر دوں گا۔ مجھے اس کی شرطیں منظور ہیں۔ میں خط لکھ کر اپنے ہرکارے سے چابی منگواتاہوں۔' 'اگر تم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو میں خوشی سے رضامند ہوں۔ خود جا کر اپنے باپ سے کنجی لے آؤں گی۔ 'لارا نے کہا۔ سینیٹر نے اسے جانے سے روک دیا ۔ 'یہیں رہو۔ کنجی کے بارے میں بھول جاؤ۔ میرے ساتھ سو جاؤ۔ جب تم تنہا ہوتے ہو تو تمہارے پاس کوئی نہ کوئی ساتھ ضرور ہونا چاہیئے۔' اس نے ہرکارے کوکنجی لانے بھیج دیا۔ یہ سن کر لارا نے اپنا سر سینیٹر کے کندھے پر رکھ دیا اور اپنی نظریں پھول پر جما دیں۔سینیٹر نے لارا کو کمر سے پکڑ لیا اور اس کی بغل میں سر چھپا لیا۔ اس پر موت کی دہشت ایک بار پھر طاری ہو گئی۔ وہ چھ ماہ گیارہ دن بعد مر جائے گا۔ وہ تمام عرصےاپنا غم لارا کے ساتھ غلط کرے گا۔ سکینڈل، بدنامی
جائے بھاڑ میں۔ وہ سکون سے مرنا چاہتا
تجزیہ
(ڈیتھ کانسٹنٹ بیونڈ لو )'گیبریل مارکیوز کا افسانہ' موت سے بالا تر ہوس'
کا بنیادی موضوع مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے اس مقولے پر مبنی ہے کہ 'بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست'۔ زندگی جمود کا نام نہیں ۔ وقت اور حالات کے ساتھ اس کے رخ بدلتے رہتے ہیں۔خوبیاں، خامیاں، طاقت، کمزور لمحات ،الجھنیں، خوشی ، غم ، وقار ، ذلت اور دیگر حالات میں رد عمل تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ احساسات و جذبات اور دنیا کی ہر شئے تغیر پذیر ہے۔ بھوک کے بعد محبت اور جنس شدید ترین محرک ہے۔ چاہنا اور چاہا جانا ہر ایک میں فطری طور پر موجود ہے۔اس کی خاطر سولی پر بھی آنکھیں بند کر کے خوشی سے چڑھا جاتا ہے لیکن ان سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے جو ان سب کو مات دے دیتی ہے اسے موت کہتے ہیں۔ وہ مستقل عمل ہے۔ باقی اشیا وقت اور عمر کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن موت بر حق ہے۔ وہ دائمی ہے۔اس بات کو کہ محبت اور موت کی نوعیت اور ماہیت کتنی قسم کی ہوتی ہےجاننا کا ر آمد ہے۔جبرائیل گارشیا مارکیوز اس افسانے میں اس کا اظہار کرتا ہے۔اس نے پیغام دیاہے کہ ہوس کےآگے سب نیچ ہے۔ اس میں انسان کی موت کی جنس کے سامنےبے وقعتی بیان کی گئی ہے۔یہ کہانی اس نے 1970 میں لکھی ۔ اس نے ایک تو سیا ست میں بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقربا پروری بیان کی ہے اور دوسرا جنسی بے راہ روی کی قوت بیان کی ہے۔سیاستدان اپنی وقتی جنسی آسودگی کے لئے تمام اصول اور قوانین ہوا میں اڑا دیتاہے۔ سینیٹر ایک بدنام زمانہ بے ایمان سیاستدان ہے جو اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنے ذاتی مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ اپنی آنے والی موت کی گھڑی کو جو چند ماہ بعد سر پر ہے، کے اضطراب کو کم کرنے کے لئے اپنی نام نہاد محبت کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ کہانی اس موڑ پر ختم ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبت حاصل کئے بغیر مر جاتا ہے۔ سانچز کی لارا سے محبت ایک ہوس کے سوا کچھ نہیں جس میں وہ اپنے خاندان سے بے وفائی کا مرتکب ہو تا ہے۔اپنی محبت حاصل کئے بغیر مر جاتا ہے جس میں طرفین بد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ کہانی ایک سیاست دان کی حرص، ہوس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس میں اس کا لالچ بے ایمانی اور ڈھونگ کی علامت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی مصنوعی لیاقت بھی ہے جس میں وہ ہر شئے کو بڑے منظم طریقے سے پورا کرتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اپنی موت کو قبول کرتا ہے۔ اس کے فائدے کے لئے وہ اپنی محبت کو استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنی کمزور جسمانی حالت اور ذہنی کمزوری کو تصوراتی اور ہوائی قلعے تعمیر کر کے پورا کرتا ہے۔ وہ آخری وقت میں لارا کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی موت کم سے کم خوف پیدا کر دینے والی ہو اور باقی ماندہ زندگی خوشگوار انداز میں گزار سکے۔بد قسمتی سے اس کی تدبیر کار گر ثابت نہیں ہوتی اور اسے مزید تنہا کر دیتی ہے۔ سانچز اس کہانی میں کہیں بھی ہیرو نہیں لگتا اور نہ ہی ہے۔اس کی حیثیت وجود نہ ہونے جیسی ہے جو اپنی موت کا بہادری سے مقابلہ نہیں کرتا بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چھپتا ہے۔ وہ چیختا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کے آخری دن آ گئے ہیں۔ وہ بوریت محسوس کرتا ہے۔ تنہائی اسے کاٹ کھاتی ہے۔ یہ طاقت، دولت ، موت کا خوف ، حرص اور ہوس کی داستان ہے۔ لوگ اس کی بدطینتی سے آگاہ ہیں لیکن ذاتی مفاد کے لئے اورسانچز کے ڈر سے وہ اس کے جلسے جلوسوں میں آتے ہیں۔ اپنی موت کے بحران میں اس کی تنہائی، بوریت اور ذہنی اذیت دور کرنے کا حل لارا ہے ۔ وہ ان مشکل لمحات میں سانچز کے مطابق اسے آسودگی دے سکتی ہے۔ اس کہانی 'ہوس موت سے بھی بالاتر' Death Constant Beyond Love) ) کا تعلق جادوئی حقیقت پسندی کے ساتھ ہے۔ اس نے اس کے ذریعے امکانی موقف اپنایا اور اسے عملی بنایا۔ قاری سانچز اور لارا کے کردار کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ اسے وہ گاڑیوں ، سٹرا بیری پھل اور سوڈا پیش کرتا ہے۔ ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھنے کی بدولت وہ زیادہ وقت صحرا کی لو سے بچ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر وہ گاڑی سے باہر آتا ہے تو لو برداشت نہ کر پاتا اور گرمی سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس کا تحمل جو وہ گاڑی میں ظاہر کر رہا ہوتا ہے،ختم ہو جاتا ہے ۔تاہم اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت سانچز اپنی اس گھبرائی ہوئی کیفیت کوکنٹرول کر لیتا ہے۔وہ گرمی کی حدت میں اضافے کے لئے ریشمی قمیص اور ہلکے رنگ کے صابن کی جھاگ کی علامات استعمال کرتا ہے۔ گیبریل کے ادب میں سرمایہ داری نظام کے خلاف اور کمیونزم کے حق میں مواد پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں حقیقت پسندی کو مقدم رکھتا ہے اور وہ لاطینی امریکہ کی ثقافت کے مطابق ہوتے ہیں۔اس نے یہ تمام اوصاف ڈیتھ کانسٹنٹ بی یونڈ لوو میں بیان کئے ہیں۔ فلسفی پال ریکوئرکےمطابق مارکسی ادیب کسی شئے کی تشریح کرتے وقت بد گمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیان کو متن کے اندر چھپاتے ہیں۔ وہ متن کو براہ راست بیان نہیں کرتے بلکہ پیغام چھپا ہوتا ہے جسے قاری کو اپنی عقل استعمال کر کےسمجھنا ہوتا ہے۔ اس افسانے میں اس کے تصور میں ایک خیالی گاؤں (روزی ڈا ویرے) ہے جس کے مکین اس کے مزارعوں کی طرح ہیں وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ اس کی اور باسیوں کی معاشرت میںمماثلت رکھتے ہیں۔ اقدار، روایات، عقائد یکساں ہیں۔ عوام اسے نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ وہ ان کی مشکلات دور کرنے میں اپنے کردار کو اہم سمجھتا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ ' ہم اپنے ملک میں لاوارث نہیں ، نہ ہی خدائی یتیم ہیں اور بھوک پیاس اور برے موسم جھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ ہم اپنی ہی سرزمین پر جلاوطنی کی زندگی نہیں گزار سکتے۔' اس کی تقاریر اس شئے کو تقویت دیتی ہیں کہ اس نے ان کی دنیا مثالی بنانی ہے۔ ان کے معیار کو اعلیٰ بنانا ہے۔ وہ عوام کو سہانے خواب دکھاتا ہے اور جہاں ضرورت ہو مذہب کو بھی استعمال کرتا ہے۔ وہ انجیل مقدس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جہان سے اٹھا لئے گئے ہیں وہ واپس آئیں گے اوردکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ ان کی تقلید میں وہ عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ اس طرح سے وہ خود کو ان داتا کہتا ہے۔ جس طرح حضرت یسوع مسیح یروشلم کی گلیوں میں معجزے دکھاتے رہے سینیٹر نے بھی وہی طریق اپنایا ہے اور گلی گلی کوچے کوچے جا کر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔اس کے سیاسی استحصال کے باوجود عوام اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مارکسسٹ تصور کو حقیقت بنا دینے کے نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ عوام الناس کی آس ہی نہیں بڑھاتا بلکہ دیہاتیوں کے ساتھ تعلقات میں نظریے کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو اہم شمار کرتا ہے جن میں خوبیاں ہیں اور ان کا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ وہ بذات خود بورژوائی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے مطابق وہ ان کے حقوق کا ہی دفاع کرتا ہے لیکن بظاہر وہ غریب عوام کے ساتھ ہے۔ لیکن وہ ریاکار ہے۔ اسے امت کی کوئی پرواہ نہیں۔ تمام کہانی کا مقصد موت کی پائیدار حیثیت اور حقیقی ہونے کے بارے میں بتانا ہے۔ یہ مستقل ہے اور ہر پر آنی ہے لیکن کئی ہوس میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ مرنا بھول جاتے ہیں۔باقی تمام اشیا اس کے سامنے ناپائیدار ہیں۔ اس کے باوجود وہ دنیاوی امور کو نبھا رہا ہے۔ موت اس کے روز مرہ کے معاملات تبدیل نہیں کر سکتی۔ الیکشن کا جیتنا، لارا سے محبت اور موت کا خوف سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بوریت سے اس میں افسردگی طاری ہو جاتی ہے جو بذات خود عارضی موت کی علامت ہے۔ وہ موت قبول کرتا ہے اور وقتی لذت کا سامان لارا میں ڈھونڈتا ہے۔ آخری حصے میں وہ اپنی ہوس کو موت پر ترجیح دیتا ہے۔ محبت اور موت موضوعات بنیادی تصورات ہیں جن کے مقابلے میں باقی تمام موضوعات یعنی رشوت، بدعنوانی ، غربت اور سیاسی جوڑ توڑ مدھم پڑ جاتے ہیں۔ مارکیوزکے اتمام افسانوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ایک صورت حال میں تشریح مختلف پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے۔ لارا کا اس کے آفس میں آنے ، بستر پر لٹانے کی تفصیل سینیٹر، لارا ۔ اس کے باپ نیلسن فرینہ اور محافظوں کے لئے مختلف ہو گی۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں اس کی وضاحت کرے گا۔ سانچز کی ہوس، لارا کا کترانا، نیلسن کا اپنے مقدمات ختم کروانا اور محافظ کا سینیٹر اور لارا کے بارے میں وضاحت اپنے اپنے کردار کی وضاحت ہر ایک کی صورت حال میں جذبات واحساست اور تشریح مختلف ہو گی۔ اس کے افسانوں میں وہ کئی مقامات پر جو واقعہ پیش کرتا ہے وہ مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے اور ہر ایک اپنے انداز میں تشریح کرتا ہے۔ کہانی کا خاتمے کے وقت قاری کے ذہن میں کئی سوالات رہ جاتے ہیں، جسے قاری اپنی سوچ کے مطابق حل کرتا ہے۔ جیسے وہ اور لارا اکٹھے سو جاتے ہیں۔ وہ کنجی کا خیال ترک کر دیتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے، آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا کوئی سکینڈل بنتا ہے۔ اس کے بیوی بچوں اور عوام کا رد عمل کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ کے بارے میں قاری از خود نتیجہ نکال لیتا ہے۔