Book 4 Blue & White about ADHD by Daniel James Pike Full Bloom 2022 winner Full Bloom Film Festival 2022 & Toronto Independent Film Festival of CIFT 2022


Blue & White about ADHD by Daniel James Pike 

 

 

 

 

A person smiling at the camera

AI-generated content may be incorrect.

 

 

سیاہ و سفید

Blue & White

 

ڈینیل جیمز پائیک ( عالمی انعام یا فتہ)

Daniel James Pike

 پیشکش  و تجزیہ :   غلام  محی الدین

ہیری کی عادت ہے کہ وہ رات    کتب بینی کرکے سوئےاس لئے وہ اپنے بستر کی بغلی  میز پر منتخب کتب رکھی ہوتی ہیں۔پچھلے کئی ہفتوں  سے اس پر کسیل مندی طاری ہے۔وہ   اپنے روزانہ معمولات بہتر انداز میں ادا کرتا رہا ہے لیکن  اب کوشش کے باوجودان میں بے قاعدگی طاری ہونا شروع  ہوگئی ہے۔وہ اپنے گھر کو صاف  نہیں کرپاتا،چیریں ادھر ادھر بکھری پڑی ہوتی ہیں۔وہ حسب عادت الارم لگا دیتا ہے تاکہ صبح  وقت پر اس کی آنکھ کھل جائے ۔ دیر تک کروٹیں بدلتے بدلتے اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔اس نے الارم لگایا تاکہ صبح  اس کی آنکھ وقت پر کھل جائے ۔

 صبح  الارم بجتا ہے۔وہ اسے بند کرکے سوجاتا ہے۔ کچھ دیر بعد پھر الارم بجتا ہے ، وہ ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور آنکھیں ملتا ہوا بے دلی سے انگڑائی ل لیتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے۔ وہ تازہ دم نہیں ہوتا اور اس کے چہرے پر پژمردگی چھائی ہوتی ہے' وہ طوعاً کرہاً اتھ کر غسل کانے سے فارغ ہو کر  الماری سے دوائی  کی شیشی نکالتا ہے اور اس میں سے ایک کیپسول نکال کر  کاؤنٹر پر رکھ دیتا ہے  جو وہ کافی کے ساتھ لیتا ہے ۔  کافی بنانے کے لئے رکھ دیتا ہے ۔مشین سے کافی بن کر نکلنا شروع ہوجاتی ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ اس نےاس کے نیچے کپ تو رکھا ہی نہیں تو وہ فورا ً کپ رکھ دیتا ہے ۔کافی پیتے ہوئے وہ  کمپیوٹر پر  طرح       طرح کے رنگ برنگے اشتہارات دیکھتا ہے'اس کا موبائل بجتا ہے۔وقت نو بج کر چھ منٹ ہوئے ہیں۔

'ہیلو!'

' ہائے !  ہماری آج نو بجے بزنس  میٹنگ طے ہے۔کیا تمہیں یاد نہیں ہیری؟'

'اوہ، ہاں ۔ میں ایک منٹ میں آن لائن آ  رہا ہوں جینیفر۔'

'اوکے۔'اوکے، بائی ۔'

وہ فون جھنجھلاہٹ میں میز پر رکھ دیتا ہے۔کمپیوٹر پر 'آج کے کاموں کی فہرست'

کھولتا ہے تو  آج کے دن کی مصروفیات  میں سب سے پہلی اسائنمنٹ  ایک اہم کلائنٹ  پی۔ایم ۔آئی  سے نجی میٹنگ کل  صبح نو بجے۔ فون 7165477546 '  لکھی ہے۔

وہ  جینیفر کو وٹس اپ پر ملاکر  ہیلو بولتا ہے لیکن  اس کا کیمرہ کام نہیں کرتا۔

'ایک  لمحہ رکو۔ میں کیمرہ صحیح کرتا ہوں۔' وہ کمرہ ٹھیک کرکے 'ہائے!' بولتا ہے

دوسری طرف اس کی  پراجیکٹ منیجر  جینیفر  ہوتی ہے۔

'ہائے ! اب ہم آمنے سامنے آن لائن موجود ہیں  ہیری ۔جینیفر نے کہا ۔کیا تم  تازہ ترین رپورٹ کمپیوٹر سکرین پر مجھے نہیں دکھاؤ گے؟'

'آں ۔۔۔اُم  ، دراصل میں اس پر ابھی کام کررہا ہوں لیکن میں اسے آج ہی

مکمل کرکے تمہیں بھیج دوں گا  ۔'

'اوہ! او کے۔ ہم اس پر  دوبارہ آن لائن   بات کرلیں گے۔۔۔اب ہم اس پراجیکٹ پر بات کر لیتے ہیں جو ہم نے  پچھلے ہفتے کی تھی جس میں ہم نے یہ طے کیا تھا کہ سال کے اختتام پر ہم نے اپنی سالانہ کارکردگی کی  عطیہ دہندگان اور سرپرستوں کے لئے  ایسی  متاثر کن رپورٹ بنانی تھی  جسے وہ پڑھ کر مطمئن  ہوں  اور  مستقبل میں بھی اپنا تعاون جاری رکھیں۔ لیکن اس سے  زیادہ اہم  بات یہ ہے کہ ۔۔۔(کمپیوٹر کی سکرین دھندلی ہو جاتی ہے اور گفتگو کٹ جاتی ہے۔)

ہیری کے موبائل پر ای میل آنے کی گھنٹی بجتی ہےِ۔ وہ اپنی ای میل کھولتا ہےلیکن اس کے موبائل اور کمپیوٹر  دونوںفروگزاشت ( گلیچ) کی وجہ سے میکانکی انداز میں  بند ہو جاتے ہیں  اور اس کی خرابی دور کرنے کا انتظار کرتا ہے۔ ۔۔۔

رہتا ہے۔اس کے فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔

' تمہیں اتنی رات گئے فون کرنے کی معذرت چاہتی ہوں ہیری۔میں تمہیں یاددہانی کرا رہی ہوں کہ کل ہماری سالانہ کارکردگی کی رپورٹ ہر حال شیرل تک ضرور پہنچ جانی چاہیئے۔کیا تم  تازہ ترین  رپورٹ  اس وقت مجھے بھیج سکتے ہو، یا کہ وہ ابھی  تیار نہیں ہوئی۔'

'اوم۔۔۔اوم۔۔۔میں ابھی بھی اس پر کام کررہاہوں۔۔۔میں معذرت خواہ ہوں۔'

'او کے۔تو مجھے اتنا بتا دو کہ وہ کمپیوٹر کی کس ڈرائیو  میں  محفوظ ہے تاکہ میں میں اسے اپنے کمپیوٹر پر کھول کر پڑھ لوں  اوراسے مکمل کر لوں۔'

'نہیں ! میں  اس پر کام کررہا ہوں ۔ تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔میں آج رات اسے لازماً مکمل لرلوں گا۔ مجھے اس پر مزید محنت کرنا ہے۔'

'فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔تم اسے رہنے دو،یہ کام میں اپنے ذمہ لیتی ہوں۔'

'نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔میں  کر لوں  گا ۔۔۔میرا آج کا دن برا تھا۔میں عدم توجہی کا شکار رہا۔ماحول ساز گار نہیں تھا ۔ملی جلی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں ۔میں نے رپورٹ  پر دھیان   دینے کی  کوشش کی ،  کامیاب نہ ہوپایا۔ میں ذہنی  طور پر مضطرب  رہا لیکن مجھے اس بات کا مکمل احساس ہے کہ یہ رپورٹ کتنی اہم ہےاور میں اسے رات کو تیار کرلوں گا۔۔۔اوکے؟'

'ہیری ، او کے۔ میں تمہاری مشکل سمجھ سکتی ہوں ۔لیکن تم جانتے ہو کہ ہم نے سالانہ رپورٹ  صبح شیرل کو  لازماً پیش کرنی ہے ۔'

'میں اسے آج رات مکمل کرلوں گا اور ۔۔۔اُم۔۔۔اور ، جوں ہی وہ مکمل ہوئی میں اسی وقت تمہیں ای میل کردوں گا۔۔۔او کے؟'

'او۔کے ۔۔۔شب بخیر ۔ہم اس پر صبح بات کریں گے۔۔۔اوکے؟'

'او کے۔ بائی ۔'

'بائی۔'

ہیری  پچھلے سال کا حساب کتاب نکالتا ہے  ، اس پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتا  اور بلا کاروائی  رپورٹ  بند کردیتا ہے۔ ۔وہ کاؤنٹر کی طرف جاتا ہے تو اس کا صبح کا کیپسول وہاں ایسا ہی رکھا ہوتا ہے ۔ وہ اسے دیکھ کر  کھوکھلی ہنسی ہنستا ہے اسے اپنے روزمرہ  کاموں میں مشکلات پر ہنسی آتی ہے۔اسے اپنی تنہائی اور بیگانہ پن پر ترس آتا ہے۔

تجزیہ

سیاہ و سفید ( بلیو اینڈ وائٹ) افسانے میں ڈینییل  ایک ایسےشخص کی روزمرہ زندگی کا ذکر کرتا ہے جو بے توجہی،  بوریت اور اکلاپے کا شکار ہے۔ اسے اپنی نارمل زندگی اور روزمرہ معمولات میں  مطابقت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔اس میں کہانی کا آغاز جاگنے ،کاموں کی تحقیق، فیصلہ سازی ، اپنے ذہنی انتشار پر ضبط لانے ، کام میں رکاوٹیں دور کرنے اور اپنے اندرونی خلفشار کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے۔اس کا بیانیہ کم و بیش اکثرابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔وہ کام ٹالتا رہتا ہے ، ہچکچاہٹ ، وقوفی تناؤ ،اور مایوسی محسوس کرتا ہے ۔اس کہانی میں  غلط فہمی  کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس میں ڈینیل یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ایک  غیرنارمل انسان کا  ادراک اور بین الذاتی روابط کیسے متاثر کرتاہے۔ یہ افسانہ سیدھے سادے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس میں نہ تو کوئی پیچیدگی ہے اور نہ ہی ڈرامائی انداز، بلکہ اس کی جگہ اس نے چھوٹی موٹی ناکامیاں،باطنی کشمکش اور تحفظ کے امور کا ذکر کیا  ہے۔افسانے کے آخر تک  یہ تاثر پیش کیا گیا ہے کہ اس کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔

اس افسانے کے موضوعات  اعصابی  نظام میں  نقص، خاص طور پرنفسیاتی مریض   کی نیت اور خارجی حقیقت میں تفاوت پایا جاتا ہے۔یہ افسانہ اس شئے کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایسے مریضوں کو وقت کی قدر، توجہ کے ارتکاز ، اپنے اضطراب  پر کنٹرول ،اور فیصلہ کرنے  میں کتنی دشواری پیش آتی ہے۔

اس افسانے کا عنوان 'بلیو اینڈ وائٹ ' اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں  شخصیت کے دو متضاد پہلو پیش کئے گئے ہیں۔نیلے کی جگہادبی طور پر سیاہ   ترجمہ کیا گیا ہے جس کا مطلب مایوسی ،پژمردگی،اپنی ذات تک محدود رہنا، ،یا گہرے شدید جذبات  ظاہر کرنا ہے جبکہ  سفید سے مراد  سادہ ، معصوم ،پاک صاف،خالی پن، صاف صفحہ  اور کسی کام کو کر سکنے کے استعارے  ہیں۔ان دونوں کو اکٹھا پڑھا جائے تو اس سے مراد باطنی جذباتی زندگی  اور خارجی خالی پن  ہے۔ایک ذہن  میں رنگ برنگے پھول ہوتے ہیں،اسے نادر خیالات آتے ہیں لیکن ایسے شخص کی زندگی سطحی ، اور خالی ہوتی ہے۔ یہ جو کچھ وہ باطنی  طور پر محسوس کرتی ہے ( نیلا/ سیاہ) اور اس کے بارے میں دنیا جو سوچتی ہے(سفید) کی قربت ہے۔ ہیری  کی  تمام  علامات  اے ڈی ایچ ڈی  کی ہیں جو  نفسیاتی تناظر  میں  بیان  کی گئی ہیں ، لیکن اس نے شائد عمداً  یہ  اصطلاح استعمال نہیں کی  کیونکہ وہ اس افسانے کو رومانی رنگ بھرنا چاہتا تھا۔

اس افسانے کا مقصدیہ ہے   کہ انسان کی  قدروقیمت  اس بات سے نہیں ماپی جانی چاہیئے کہ اس نے کام مکمل کیا ہے، بلکہ اس کی کارکردگی  کا معیار یہ ہونا چاہیئے کہ اس نے اپنے اندرونی انتشار کے باوجود اسے  کام کرنے میں  کتنی  محنت اور کوشش کی ہے۔اس معاشرے میں جو مؤثر کارکردگی  کی بنا پر انعام و اکرام سے نوازتی ہے ، ایسے مریض جو ان دیکھی قوتوں کے خلاف  لڑرہےہوتے ہیں  ،کا احساس کرنا چاہیئے۔اور  ان کا نچلّا پن، سکون سے نہ بیٹھنا اور اس کے بارے میں پہلے سے فیصلہ کردینا اگر وہ سست ، یا غیر منظم تھے  کو ناقدانہ انداز میں نہ دیکھنا  بلکہ اس کی نہ دکھائی دینے والی  تکالیف  محسوس کی جانی چاہیئں۔کسی کی ناکامی شکست نہیں کہی جا سکتی  بلکہ اس کے ذاتی قبولیت  کی طرف ایک قدم ہے۔ایسی کوشش کی جاتی رہنی چاہیئے۔

نفسیاتی تناظر میں سفید و سیاہ ( بلیو اینڈ وائٹ ) افسانے کو دیکھا جائے تو یہ اے ڈی ایچ ڈی  خلل کے ساتھ جذباتی  حرکیات کو بھی شامل کرتی ہے۔وہ جو ارادہ کرتا  ہے ، منظم نہیں کر پاتا، ، کسی ایک خاص نکتے پرتوجہ  مرتکز نہیں  کرسکتا،اور ارادے بدلتا رہتا  ہے۔وقت میں کوئی کام کرنے کا دباؤ،اور انٹرویو کا خوف اس  کی  اضطراری کیفیت میں اضافہ کر دیتے ہیں،  جو اے ڈی ایچ ڈی کی بدولت پائے جاتے ہیں۔اس کی تنقیدی صلاحتییں خواہ وہ اس کی اپنی ذات سے متعلق ہوں یا ، کسی دوسرے معاملے ، یایا فیصلہ سازی کا خوف ہو میں ذاتی توقیر شامل ہوجاتی ہے ۔ اسے اپنی بدنامی کا خوف ہوتا ہےجو اسے اپنی ذات میں ہوتا ہے۔جو ایسے مریضوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو جن کی مشکلات کو سمجھنا مشکل ہواس کی کاہلی یا

نااہلی کی وجہ سے۔

 سیاہ و سفید ( بلیو & وائٹ)کے افسانے ، میں اے ڈی ایچ ڈی  کی مکمل کلاسیکی علامات پائی جاتی ہیں  جیسے کہ اس میں انتظامی صلاحیت نہیں پائی جاتی،اس کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ  کوئی کام کیسے شروع کیا جائے  اور اسے کتنے مراحل میں تقسیم کیا جائے؛ اس کا ذہنی فتور؛ وقت  کا تعین کرنے میں ناکامی ، کام کب شروع کیا جائے، اس پراجیکٹ  کے لئے کتنا وقت دیا گیا ہے،دئیے گئے وقت میں تکمیل اور وقت کی قدر و قیمت کا تعین نہ کرنا؛  جذباتی بے قاعدگیاں ، ناامیدی ، باطنی دباؤ وغیرہ کی علامات پائی جاتی ہیں۔اس افسانے میں وقوفی بوجھ پایا جاتا ہے۔ ہیری کی کام سے متعلق یادداشت  دیگر مسائل کے  وزن  تلے دب جاتی ہے جس کا نتیجہ کم فہمی  کی صورت میں نکلتا ہےجو اس کی کارکردگی پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس کے  باطن اور خارج میں عدم وقوفی تناظر پایا جاتا ہے، اس کی کیا کرنے کی خواہش ہے  اور وہ کیا کرسکتا ہے، میں جب واضح تفریق پائی جاتی ہے تو اس ناکامی کی وجہ سے اس میں احساس شرم ،پریشانی، اضطراب، اورسوچ بچار پائے جاتے ہیں  جس کے نتیجے میں  اس کی کارکردگی میں انحطاط واقع ہو جاتا ہے۔اسے اگر ذاتی نظریے  کے عدسے  میں دیکھا جائے،تو اس کی  بار بار کی مسلسل ناکامیوں عزت و وقار اس کی اپنی نظروں میں کم ہوجاتی ہےجس سے اس کی رائے اس کی اپنی نظروں میں  گرجاتی ہے۔

یہ افسانہ لطیف انداز میں  ماحول کی اہمیت بھی بیان کرتا ہے۔آس پاس کے حالات، شور شرابہ ،لوگوں کا سلوک ،مزاحمت پیدا کرنے والے عوامل  اور ناپسندیدگی اس پے باطنی طور پر دباؤ   ڈالتے ہیں ۔یہ  تمام مل کر اس کو ذہنی طور پر مفلوج کر لیتے ہیں ، اس میں نفسیاتی تصادم پیدا کرتے ہیں۔اس کی خواہشات،اور وقوف میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

یہ افسانہ اس بات  کا ذکر بھی کرتا ہے کہ ایسے شخص کی کسی مسئلے کو سلجھانے میں اس کی کاوشیں سراہنے کی بجائے اس   کے کام میں کیڑے نکال کراسے نااہل سمجھتے ہیں  جو اس کی باطنی  ابتری  اور بدنامی  کا باعث بن جاتے ہیں ۔اس افسانے میں  ڈینیل ہیرو  کو اپنی ذات پر عدم بھروسہ ،قبولیت اور جذبہ ذاتی رحم  بھی پایا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Popular posts from this blog

فہرست دیہی معالج اور دیگر افسانے ( فرانز کافکا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مکمل کتاب بک 5 فرانز کافکا

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)