Blue & White about ADHD by Daniel James Pike Full Bloom 2022 winner


Blue & White about ADHD by Daniel James Pike 




 

 

Blue & White . Winner Full Bloom Film Festival 2022 & Toronto Independent  Film Festival of CIFT 2022

 

سیاہ و سفید

Blue & White

ڈینیل جیمز پائیک ( عالمی انعام یا فتہ)

Daniel James Pike

 

مترجم و تجزیہ :        غلام  محی الدین

 

رات کا وقت ہے ۔ہیری کے کپڑے لانڈری میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ وہ بستر پر مضمحل پڑا

موبائل دیکھتے دیکھتے  سو جاتا ہے۔اس کی سائڈ ٹیبل پر چارکتب رکھی  پڑی ہیں۔صبح  الارم بجتا ہے۔وہ اسے بند کرکے سوجاتا ہے۔ کچھ دیر بعد پھر الارم بجتا ہے ، وہ ٹھنڈی آہ بھرتا ہے اور آنکھیں ملتا ہوا بے دلی سے اانگڑائیں  لیتےاٹھ کر غسل خانے چلا جاتا ہے اور تازہ دم ہو کر الماری سے دوائی  کی شیشی نکالتا ہے اور اس میں سے ایک کیپسول نکال کر  کاؤنٹر پر رکھ دیتا ہے تاکہ وہ کافی   کے ساتھ لے سکے۔  کافی بنانے کے لئے رکھ دیتا ہے ۔مشین سے کافی بن کر نکلنا شروع ہوجاتی ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ اس نےاس کے نیچے کپ تو رکھا ہی نہیں تو وہ فورا ً کپ رکھ دیتا ہے ۔کافی پیتے ہوئے وہ  کمپیوٹر پر  طرح کے اشتہارات دیکھتا ہے'اس کا موبائل بجتا ہے۔وقت نو بج کر چھ منٹ ہوئے ہیں۔

'ہیلو!'

' ہائے !  ہماری آج نو بجے بزنس  میٹنگ طے ہے۔کیا تمہیں یاد نہیں ہیری؟'

'اوہ، ہاں ۔ میں ایک منٹ میں آن لائن آ  رہا ہوں جینیفر۔'

'اوکے۔'اوکے، بائی ۔'

وہ فون جھنجھلاہٹ میں میز پر رکھ دیتا ہے۔کمپیوٹر پر 'آج کے کاموں کی فہرست' کھولتا ہے تو  شروع میں ' پی۔ ایم ۔آئی  سے نجی میٹنگ صبح نو بجے۔ فون 7165477546 '  لکھی ہے۔

وہ آن لائن جاکر ہیلو بولتا ہے لیکن  اس کا کیمرہ کام نہیں کرتا۔

'ایک  لمحہ رکو۔ میں کیمرہ صحیح کرتا ہوں۔' وہ کمرہ ٹھیک کرکے 'ہائے!' بولتا ہے

دوسری طرف ایک  جینیفر  ہوتی ہے۔

'ہائے ! اب ہم آمنے سامنے آن لائن موجود ہیں  ہیری ۔کیا تم  تازہ ترین رپورٹ کمپیوٹر سکرین پر مجھے نہیں دکھاؤ گے؟'

'آں ۔۔۔آں ، دراصل میں اس پر ابھی کام کررہا ہوں لیکن میں اسے آج ہی مکمل کرکے تمہیں بھیج دوں گا  ۔'

'اوہ! او کے۔ ہم اس پر  دوبارہ آن لائن   بات کرلیں گے۔۔۔اب ہم اس   پراجیکٹ پر بات کر لیتے ہیں جو ہم نے  پچھلے ہفتے کی تھی جس میں ہم نے یہ طے کیا تھا کہ سال کے اختتام پر ہم نے اپنی سالانہ کارکردگی کی  عطیہ دہندگان   کے لئے اثر انگیز  رپورٹ بنانی تھی۔ہمیں اس بات کویقینی بنانا تھا کہ ہمارے سرپرست اس کو پڑھ کر خوش ہو ں لیکن اس سے  زیادہ اہم  بات یہ ہے کہ ۔۔۔(کمپیوٹر کی سکرین دھندلی ہو جاتی ہے اور گفتگو کٹ جاتی ہے۔)

ہیری کے موبائل پر ای میل آنے کی گھنٹی بجتی ہےِ۔ اپنی ای میل کھولتا ہےلیکن اس کے موبائل اور کمپیوٹر  دونوں بند ہو جاتے ہیں ۔ ۔۔۔ وہ  بے خیالی میں اپنی انگلیاں الٹی سیدھی کرتا

رہتا ہے۔اس کے فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔

' تمہیں اتنی رات گئے فون کرنے کی معذرت چاہتی ہوں ہیری۔میں تمہیں یاددہانی کرا رہی ہوں کہ کل ہماری سالانہ کارکردگی کی رپورٹ ہر حال شیرل تک ضرور پہنچ جانی چاہیئے۔کیا تم  تازہ ترین  رپورٹ  اس وقت مجھے بھیج سکتے ہو، یا کہ وہ ابھی  تیار نہیں ہوئی۔'

'اوم۔۔۔اوم۔۔۔میں ابھی بھی اس پر کام کررہاہوں۔۔۔میں معذرت خواہ ہوں۔'

'او کے۔تو مجھے اتنا بتا دو کہ وہ کمپیوٹر کی کس ڈرائیو  میں  محفوظ ہے تاکہ میں میں اسے اپنے کمپیوٹر پر کھول کر پڑھ لوں  اوراسے مکمل کر لوں۔'

'نہیں ! میں  اس پر کام کررہا ہوں ۔ تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔میں آج رات اسے لازماً مکمل لرلوں گا۔ مجھے اس پر مزید محنت کرنا ہے۔'

'فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ۔تم اسے رہنے دو،یہ کام میں اپنے ذمہ لیتی ہوں۔'

'نہیں۔۔۔نہیں ۔۔۔میں  کر لوں  گا ۔۔۔میرا آج کا دن برا تھا۔میں عدم توجہی کا شکار رہا۔ماحول ساز گار نہیں تھا ۔ملی جلی      آوازیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں ۔میں نے اس پر دھیان نہ  دینے کی جتنی کوشش کی ،  کامیاب نہ ہوپایا۔ میں ذہنی  طور پر مضطرب  رہا لیکن مجھے اس بات کا مکمل احساس ہے کہ یہ رپورٹ کتنی اہم ہےاور میں اسے رات کو تیار کرلوں گا۔۔۔اوکے؟'

'ہیری ، او کے۔ میں تمہاری مشکل سمجھ سکتی ہوں ۔لیکن تم جانتے ہو کہ ہم نے سالانہ رپورٹ  صبح شیرل کو  لازماً پیش کرنی ہے ۔'

'میں اسے آج رات مکمل کرلوں گا اور ۔۔۔اوم۔۔۔اور ، جوں ہی وہ مکمل ہوئی میں اسی وقت تمہیں ای میل کردوں گا۔۔۔او کے؟'

'او۔کے ۔۔۔شب بخیر ۔ہم اس پر صبح بات کریں گے۔۔۔اوکے؟'

'او کے۔ بائی ۔'

'بائی۔'

وہ  پچھلے سال کا حساب کتاب نکالتا ہے  ، اس پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتا  اور بلا کسی رپورٹ کے بند کردیتا ہے۔ ۔وہ کاؤنٹر کی طرف جاتا ہے تو اس کا صبح کا کیپسول  وہاں ایسا ہی رکھا ہوتا ہے ۔ وہ اسے دیکھ کر  کھوکھلی ہنسی ہنستا ہے اسے اپنے روزمرہ  کاموں میں مشکلات پر ہنسی آتی ہے۔اسے اپنی تنہائی اور بیگانہ پن پر ترس آتا ہے۔

تجزیہ

سیاہ و سفید ( بلیو اینڈ وائٹ) افسانے میں ڈینییل  ایک ایسےشخص کی روزمرہ زندگی کا ذکر کرتا ہے جو بے توجہی،  بوریت اور اکلاپے کا شکار ہے۔ اسے اپنی نارمل زندگی اور روزمرہ معمولات میں  مطابقت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔اس میں کہانی کا آغاز جاگنے ،کاموں کی تحقیق، فیصلہ سازی ، اپنے ذہنی انتشار پر ضبط لانے ، کام میں رکاوٹیں دور کرنے اور اپنے اندرونی خلفشار کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے۔اس کا بیانیہ کم و بیش اکثرابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔وہ کام ٹالتا رہتا ہے ، ہچکچاہٹ ، وقوفی تناؤ ،اور مایوسی محسوس کرتا ہے ۔اس کہانی میں  غلط فہمی  کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس میں ڈینیل یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ایک  غیرنارمل انسان  کا   ادراک اور بین الذاتی روابط کیسے متاثر کرتاہے۔ یہ افسانہ سیدھے سادے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس میں نہ تو کوئی پیچیدگی ہے اور نہ ہی ڈرامائی انداز، بلکہ اس کی جگہ اس نے چھوٹی موٹی ناکامیاں،باطنی کشمکش  اور تحفظ کے امور کا ذکر کیا گیا ہے۔افسانے کے آخر تک  یہ تاثر پیش کیا گیا ہے کہ اس کا کام ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔

اس افسانے کے موضوعات  اعصابی  نظام میں  نقص، خاص طور پرنفسیاتی  مریض کی ،اور ان کی نیت اور خارجی حقیقت میں تفاوت پایا جاتا ہے۔یہ افسانہ اس شئے کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایسے مریضوں کو وقت کی قدر، توجہ کے ارتکاز ، اپنے اضطراب پر کنٹرول ،اور فیصلہ کرنے  میں کتنی دشواری پیش آتی ہے۔

اس افسانے کا عنوان 'بلیو اینڈ وائٹ ' اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں  شخصیت کے دو متضاد پہلو پیش کئے گئے ہیں۔نیلے کی جگہ سیاہ   ترجمہ کیا گیا ہے جس کا مطلب مایوسی ،پژمردگی،اپنی ذات تک محدود رہنا، ،یا گہرے شدید جذبات  ظاہر کرنا ہے جبکہ  سفید سے مراد  سادہ ، معصوم ،پاک صاف،خالی پن، صاف صفحہ  اور کسی کام کو کر سکنے کے استعارے  ہیں۔ان دونوں کو اکٹھے پڑھا جائے تو اس سے مراد باطنی جذباتی زندگی  اور خارجی خالی پن  بیان کیا گیا ہے۔ایک ذہن  میں رنگ برنگے پھول ہوتے ہیں،اسے نادر خیالات آتے ہیں لیکن ایسے شخص کی زندگی سطحی ، اور خالی ہوتی ہے۔ یہ جو کچھ وہ باطنی  طور پر محسوس کرتی ہے ( نیلا/ سیاہ) اور اس کے بارے میں دنیا جو سوچتی ہے(سفید) کی قربت ہے۔ ہیری  کی  تمام  علامات  اے ڈی ایچ ڈی  کی ہیں جو  نفسیاتی تناظر  میں  بیان  کی گئی ہیں ، لیکن اس نے شائد عمداً  یہ  اصطلاح استعمال نہیں کی  کیونکہ وہ اس افسانے کو رومانی رنگ بھرنا چاہتا تھا۔

اس افسانے کا مقصد  کہ انسان کی  قدروقیمت  اس بات سے نہیں ماپی جانی چاہیئے کہ اس نے کام مکمل کیا ہے، بلکہ اس کی کارکردگی  کا معیار یہ ہونا چاہیئے کہ اس نے اپنے اندرونی انتشار کے باوجود اسے  کام کرنے میں  کتنی  محنت اور کوشش کی ہے۔اس معاشرے میں جو مؤثر کارکردگی  کی بنا پر انعام و اکرام سے نوازتی ہے ، ایسے مریض جو               ان دیکھی قوتوں کے خلاف  لڑرہےہوتے ہیں  ،کا احساس کرنا چاہیئے۔اور  ان کا نچلّا پن، سکون سے نہ بیٹھنا اور اس کے بارے میں پہلے سے فیصلہ کردینا اگر وہ سست ، یا غیر منظم تھے  کو ناقدانہ انداز میں نہ دیکھنا  بلکہ اس کی نہ دکھنائی دینے والی  تکالیف  محسوس کی جانی چاہیئں۔کسی کی ناکامی شکست نہیں کہی جا سکتی  بلکہ اس کے ذاتی قبولیت  کی طرف ایک قدم ہے۔ایسی کوشش کی جاتی رہنی چاہیئے۔

نفسیاتی تناظر میں سفید و سیاہ ( بلیو اینڈ وائٹ ) افسانے کو دیکھا جائے تو یہ اے ڈی ایچ ڈی  خلل کے ساتھ جذباتی  حرکیات کو بھی شامل کرتی ہے۔میگن کی خود کلامی ، رکاوٹیں ڈالنے والی سوچیں ،اور ذہنی انتشار اس کی توجہ  بٹاتی ہیں اور اس نے جو ارادہ کیا ہوتا ہے ، پورا کرنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔وہ انہیں منظم نہیں کر پاتا، ، کسی ایک خاص نکتے پر مرتکز نہیں رکھ  سکتا،اور ارادے بدلتا رہتا  ہے۔وقت میں کوئی کام کرنے کا دباؤ،اور انٹرویو کا خوف اس میں اضطراری کیفیت  میں اضافہ کر دیتے ہیں،  جو اے ڈی ایچ ڈی کی بدولت پائے جاتے ہیں۔اس کی تنقیدی صلاحتییں خواہ  وہ اس کی اپنی ذات سے متعلق ہوں یا ، کسی دوسرے معاملے میں ہوں، یایا فیصلہ سازی کا خوف ہو میں ذاتی توقیر شامل ہوتی ہے۔اسے اپنی بدنامی کا خوف ہوتا ہےجو اسے اپنی ذات میں ہوتا ہے۔جو ایسے مریضوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو جن کی مشکلات کو سمجھنا مشکل ہواس کی کاہلی یا نااہلی کی وجہ سے۔

علاوہ ازیں، کہانی  میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ایسے مریض کو سماجی مدد دی جائےتو اس کے علاج معالجہ میں مدد ملتی ہےلیکن اگر کوئی اس سے ہاتھ کھینچ لے تو یا اس پر اعتبار کرنا چھوڑ دے تو اس کے بوجھ میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔اس طرح سے یہ نفسیاتی نمونوں سے مماثلت رکھنے لگتا ہے جس میں وہ ماحول میں فٹ رہتا ہے۔اس کے بیانئے کی قوس س کی اپنی  شفقت کو  دوبارہ سے فریم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود کو نامکمل شخص یا ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اس میں نقائص پائے جاتے ہی کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اسے دور کرنے  کی ہمت پیدا کردیتا ہے۔

 ایسا مریض جینیاتی  نقص کا شکار ہوتا ہے ۔اسے جذباتی دورے پڑنے کی علامات   جیسی علامات پائی جاتی ہیں ۔اس کا فوری زود رنج ہونا  اس کے اعصاب کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے دماغی خلل پیداہو جاتا ہےڈی ایس ایم 5 ، میں اے ڈی ایچ ڈی  میں توجہ کو کسی ایک جگہ پر مرکوز رکھنا ، اپنے حواس کو قابو میں رکھنا ،اور اس کی ان اشیاء کے بارے میں یادداشت  میں مسائل پائے جاتے ہیں۔اس افسانے میں یہ نادیدہ اعمال حقیقی طور پر پیش کئے گئے ہیں۔انہی وجوہات کی بنا پراسے اے ڈی ایچ ڈی قرار دیا گیا ہے۔

سیاہ و سفید ( بلیو & وائٹ)کے افسانے ، میں اے ڈی ایچ ڈی  کی مکمل  کلاسیکی  علامات پائی جاتی ہیں  جیسے کہ اس میں انتظامی صلاحیت نہیں پائی جاتی،اس کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ  کوئی کام کیسے شروع کیا جائے  اور اسے کتنے مراحل میں تقسیم کیا جائے؛ اس کا ذہنی فتور؛ وقت     کا تعین کرنے میں ناکامی ، کام کب شروع کیا جائے، اس پراجیکٹ  کے لئے کتنا وقت دیا گیا ہے،دئیے گئے وقت میں تکمیل اور وقت کی قدر و قیمت کا تعین نہ کرنا؛  جذباتی بے قاعدگیاں ، ناامیدی ، باطنی دباؤ وغیرہ کی علامات پائی جاتی ہیں۔اس افسانے میں وقوفی بوجھ پایا جاتا ہے۔ ہیری کی کام سے متعلق یادداشت  

دیگر مسائل کے  وزن  تلے دب جاتی ہے جس کا نتیجہ کم فہمی  کی صورت میں نکلتا ہےجو اس کی کارکردگی پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔اس کے  باطن اور خارج میں عدم وقوفی تناظر پایا جاتا ہے، اس کی کیا کرنے کی خواہش ہے  اور وہ کیا کرسکتا ہے میں جب واضح تفریق پائی جاتی ہے تو اس ناکامی کی وجہ سے اس میں احساس شرم ،پریشانی، اضطراب، اورسوچ بچار پائے جاتے ہیں  جس کے نتیجے میں  اس کی کارکردگی میں انحطاط واقع ہو جاتا ہے۔اسے اگر ذاتی نظریے  کے عدسے  میں دیکھا جائے،تو اس کی  بار بار کی مسلسل ناکامیوں عزت و وقار اس کی اپنی نظروں میں کم ہوجاتی ہےجس سے اس کی رائے اس کی اپنی نظروں میں  گرجاتی ہے۔

یہ افسانہ لطیف انداز میں  ماحول کی اہمیت بھی بیان کرتا ہے۔آس پاس کے حالات، شور شرابہ ،لوگوں کا سلوک ،مزاحمت پیدا کرنے والے عوامل  اور ناپسندیدگی اس پے باطنی طور پر دباؤ   ڈالتے ہیں ۔یہ  تمام مل کر اس کو ذہنی طور پر مفلوج کر لیتے ہیں ، اس میں نفسیاتی تصادم پیدا کرتے ہیں۔اس کی خواہشات،اور وقوف میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

یہ افسانہ اس بات  کا ذکر بھی کرتا ہے کہ ایسے شخص کی کسی مسئلے کو سلجھانے میں اس کی کاوشیں سراہنے کی بجائے اس   کے کام میں    کیڑے نکال کراسے نااہل سمجھتے ہیں  جو اس کی باطنی  ابتری  اور بدنامی  کا باعث بن جاتے ہیں ۔اس افسانے میں  ڈینیل ہیرو  کو اپنی ذات پر عدم بھروسہ ،قبولیت اور جذبہ ذاتی رحم کو بھی شامل کرتا ہے ۔

اس افسانے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں ایسے مریض کےلئے  جذبہ ہم روی پیدا کیا جائے،اسے  بدسلیقہ ، روزمرہ زندگی میں ناکام ،نااہل اور وقوفی لحاظ سے کمتر خیال  نہ کیا جائے۔

اس کو توجہ مرکوز  نہ کرنے کی بیماری ہوتی ہے۔اس کی کاوشیں  ان دیکھی رہ جاتی  ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے جذبہ ہمدردی اور اس کی مشکلات کو جینیاتی  نقص کی بنا پر تسلیم کیا جائے  جس سے خارجی کام ،  خواہ وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو،اس پر بہت زیادہ ذہنی دباؤ  ڈالتا ہے۔ ڈینیل  اس بات کا مشورہ دیتا ہے کہ  ایسے مریض  سے تحمل  کا برتاؤ کیا جائے س کے کام کو جو وہ آہستہ آہستہ کرتے ہیں ، کو برداشت کیا جائے  اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

یہ افسانہ اگرچہ یورپی ماحول میں لکھا گیا ہےلیکن اس کا موضوع  جنییاتی ہے۔تمام بنی نوع انسان کا کردار نظام عصبی کنٹرول کرتا ہے ،یہ ہر انسان میں ایک ہی فارمولے کے تحت کام سر انجام دیتا ہے، اگر اس کے وظائف میں نارمل انسانوں سے زیادہ یا بہت کم  پائی جائے تو یہ اس کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایسا رویہ تمام ثقافتوں میں پایا جاتا ہے ،جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔اے ڈی ایچ ڈی  اور ذہنی صحت کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، ان بیماریوں کی غلط تشخیص  کی جاتی ہے۔اس لئے اس کی تشخیص صرف ماہرین نفسیات سے ہی کروائی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی