گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر کی کہانی A Small Place in the Sun by Patrick O Flaherty (Canada)









گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر کی  کہانی

A Small Place in the Sun

by

Patrick O Flaherty (Canada)

(1939-2017)

مترجم:   غلام محی الدین
                                                                                                        
          
 یہ ایک مسیھی  آئرش خاندان کا ہے جو جنگ عظیم دوئم میں نازیوں کے حملے میں اپنی جا 
 بچا کر کینیڈا کے صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ کے شہر لبریڈور کے ایک چھوٹے سے گاؤں لونگ بیچ میں

 آباد ہو گیا تھا۔  یہ خاندان خاصا توہم پرست واقع ہوا تھا۔  ا س وقت اس کے پاس موقع تھا کہ وہ

 امریکہ بوسٹن میں آباد کاری کر لے لیکن اس نے اپنے ہجرت والے ملک کینیڈا میں ہی بسنے کا

 فیصلہ کیا۔  اگرچہ اس گاؤں میں  ذرائع آمدن محدودتھے لیکن اپنے وطن کی محبت میں اس نے
 یہیں رہنے کو ترجیح دی۔  یہاں سہولیات نہ ہو نے کے برابر تھیں۔  چاروں سمتوں تین میل دور تک نہ تو کوئی ہسپتال تھا نہ ہی کوئی بڑا سکول اور نہ ہی کوئی مارکیٹ۔  نزدیک ترین اگر کوئی اچھا سٹور تھا توگاؤں کے شمال میں ایبی ٹیکر سٹور تھا یا تو اس کی دوسری سمت تین میل دور برنٹ پوائنٹ سٹورتھا۔  ان کے درمیان کوئی اور دکان نہیں تھی۔
         
اس گھر کا سربراہ پیٹرک بارنی تھا۔  گھر میں اس کی ماں، بیوی معالی اور ان کے پانچ بچے رہ رہے تھے جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔  وہ بڑی سادگی سے زندگی گزار رہے تھے اور مذہب سے لگاؤ رکھتے  تھے۔  پیٹرک بارنی کو ا س جگہ آئے آٹھ سال ہونے کو تھے کہ گرمیوں کے اختتام پر رات کے دس بجے اس کے محلے کے ایک شخص کین سلیڈ جو کہ اس کے گھر سے ایک چوتھائی میل دور رہتا تھا، نے اس کے دروازے پر دستک دی۔  ان دنوں اس گاؤں میں اتنی رات گئے کسی کا یوں چلے آنا برا شگون سمجھا جاتا تھا۔  پیٹرک کم گو، اپنے آپ میں مست رہنے والا اور اپنے تک محدود رہنے والا انسان تھا جبکہ اس کی بیوی  معالی جو کسی زمانے میں استانی رہ چکی تھی، نرم دل اورصابر و شاکرخاتون تھی۔  پیٹرک کی ماں خاص طور پر اس بات سے پریشان تھی کہ کین سلیڈ اس رات گئے ان کے پاس کیوں آیا؟  وہ سب سے زیادہ توہم پرست خاتون تھی۔  اس نے صبح سے ہی یہ پیشین گوئی کر دی تھی کہ ان کے خاندان کے ساتھ کچھ برا پیش آنے والا ہے کیونکہ پو پھٹے اس نے پورچ کے دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز سنی تھی۔  اس نے اس وقت جب پورچ میں جھانکا تو ان کا بوڑھا کالا گھوڑا ڈینڈی پورچ میں داخل ہو کر کچن کی کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔  ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔  اس بات سے اسے خدشہ ہو گیاتھا کہ ان کے ساتھ کچھ انہونی ہونے جا رہی تھی۔  وہ اس واقعے کو منحوس قرار دے رہی تھی جو اس کی نظر میں بے حد غیر معمولی تھا اور اس گھر میں کسی کی موت بھی واقع ہو سکتی تھی۔  کین سلیڈ اس گھر کے لئے اجنبی تھا۔  طرح طرح کے وسوسے اس کے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے اور سوچ سوچ کرپریشان ہو رہی تھی کہ وہ کیوں آیا؟ اور وہ بھی اتنی رات گئے۔  وہ دعا مانگنے لگی کہ خدا خیر کرے۔
               
اوہ! ماں یہ کین ہے، پیٹرک نے کہا جو اس وقت کرسی پر بیٹھا آرام کر رہا تھا۔  وہ اٹھا اور دروازہ کھول کر کین سلیڈ سے گفتگو کرنے لگا۔ کین بھی ایک مچھیرا تھاتو پیٹرک اس سے اس سے کام کاج کے بارے پوچھنے لگا۔ کین نے اپنی پریشانی ظاہر کی اور بولا کہ مچھلیاں ختم ہو رہی ہیں۔ آج دن بھر صرف پچیس مچھلیاں ہی پکڑ سکا حالانکہ اس موسم میں چالیس پینتالیس مچھلیاں پکڑنا تو معمولی بات ہوا کرتی تھی۔  یہ جگہ سوکھ گئی ہے۔  ایک تو آج کل مندا ہے اور جب بیچنے جائیں تو صحیح قیمت بھی نہیں ملتی۔  کاروبار تہس نہس ہو کر رہ گیا ہے۔ 

پیٹرک کی بیوی معالی،جو اس وقت کچن میں پنکھے سے آگ بھڑکا رہی تھی، نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کین سے کہا، تم ساحل کے کناروں کی بجائے سمندر کے اندر جا کر مچھلیوں کا شکار کرو تو تمہاری یہ شکایت  دور ہو جائے گی۔  تمہارے سامنے تو ایک وسیع ساحل ہے، تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔  اگر مزید مچھلی پکڑنی ہو تو شمالی ساحل پر بھی جایا جا سکتا ہے۔   پھر مڑ کر اپنے خاوند سے مخاطب ہو کر بولی کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ رات کو ٹھنڈ ہو جائے گی جبکہ تم اس بات پر شرط لگا رہے تھے کہ موسم گرم ہی رہے گا۔ 

پیٹرک نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ اپنی آنکھیں کھجانے لگا۔  اس نے اپنی بیوی کو نظر انداز کرتے ہوئے کین کو کہا، ہاں! سب کچھ ٹھپ ہو اہے۔  گرمیوں کے اس عرصے میں توشکار عروج پر ہوتا ہے لیکن مایوس ہو کر اس موسم میں اس پیشے کو ترک کرنا عجیب بات محسوس ہوتی ہے!  اس نے یہ بات افسردگی سے کہی۔  پھر اس کا دھیان اپنے پانچ بچوں کی طرف گیا جن کو اس وقت تک سو جانا چاہئے تھا، لیکن وہ ابھی تک شطرنج کھیلتے ہوئے آپس میں لڑ رہے تھے اورریڈیو   سن رہے تھے۔ 
       ان کا شور رات کے ماحول کو خراب کر رہا تھا۔  اس کے دیکھتے دیکھتے منجھلے بیٹے بارہ سالہ الفانسو

 نے چھوٹے بھائی نو سالہ ہنری کوبلی کے دم پر پاؤں رکھنے پراور اپنی چھوٹی بہن الزبتھ کو چٹکی

 کاٹنے پر تھپڑ رسید کیا۔  کین سلیڈ نے جب بچوں کو مار پیٹ کرتے دیکھا تو حیران ہوا لیکن کچھ نہ

 بولا اور اپنے ہاتھ اوور کوٹ میں ڈال دیئے۔ 

اس کی ماں کا خدشہ اس وقت سچ نکلا جب ان کی ایک گائے بیمار پڑ گئی اور ٹھنڈے فرش پر دھرنا مار کر بیٹھ گئی۔  وہ شدت سے کپکپا ر ہی تھی۔  اس کو کھڑاکرنے کی تمام تدا بیر ناکام ہو گئی تھیں۔  ایسی بیماری سے کوئی شاذ و نادر ہی بچ پاتی تھی۔  اس نے ایک بچھڑا دیا تھا جسے گائے سے دور کر کے پورچ میں  باندھ دیا گیا تا کہ وہ بیماری سے محفوظ رہے۔   اسے بوتل سے دودھ پلایا جانے لگا کیونکہ اگر وہ اس وقت اپنی ماں کا دودھ پیتا تو وہ بھی بیمار پڑ جاتا۔  انہیں پتا چلا کہ ایبی ٹیکر کے قصبے کے ایک ڈنگر ڈاکٹر نے اس مرض کا علاج دریافت کر لیا تھا اور اس علاج سے وہ دو گائیوں کو صحت یاب کر چکا تھا۔  پیٹرک اس مخمصے میں تھے کہ اس  ڈاکڑکی خدمات لی جائیں یا نہ، کیونکہ وہ کافی مہنگا معالج تھا اور ایسی بیماری اس زمانے میں لا علاج تصور کی جاتی تھی۔  اس کے علاج کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جانورکے پیٹ میں ہوا بھر دیتا تھا اورا گر اس کے بعد وہ خود بخود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو اس کی بیماری دور ہو جاتی تھی۔  کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے آزما ہی لیا جائے اور ڈاکٹر کو بلا لیا گیا۔  گائے کے تھنوں میں ہوا بھری اور وہ کھڑی ہو گئی اور پوری طرح صحت یاب ہو گئی۔  اب بچھڑے کو اصطبل منتقل کر دیا گیا۔  اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے دو بیٹوں جمی اور الفانسو نے سنبھال لی۔  وہ با قاعدگی سے اصطبل کی صفائی کرتے۔  بچھڑے کی کھرلی دن میں کئی بار اچھی طرح صاف کرتے۔  اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بوڑھے کالے گھوڑے پر بھی توجہ دی۔  اس کے کھروں سے گھاس پھوس، چکنی مٹی، ٹانگوں، جسم، میان اور بالوں کو دھو کر اچھی طرح کنگھی کرتے۔  اس طرح گھر سے بیماری نکل گئی۔

 موسم خزاں آگیاپر مچھلیوں کی صورتحال بہتر نہ ہوئی۔  پیٹرپر کافی قرض چڑھ گیا اور اس میں  روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔  قرض خواہ اسے تنگ کرنے لگے تو اس نے ہمسائے صوبے ایک وہاں  نوواسکوشیاکے دارالخلافہ ہیلی فیکس میں  قسمت آزمائی کی تواسےایک اچھی نوکری مل گئی ۔ اس   نے اپنی رہائش وہاں کے بورڈنگ ہاؤس میں رکھی ۔  پیٹرک نے  نوکری ایک ڈاکٹر کےہاں   

کی جس  کا مالک ڈاکٹر بھٹناگر  ہی  تھااور اسی عمارت میں رہتاتھا۔  وہ جرمنی کرتے کرتے وہاں کئی میں سال گزار دیئے۔وہ اسی   بورڈنگ ہاؤس میں ہی رہتاتھا۔وہ جرمنی کا مہاجر تھااور ہیلی فیکس  میں پرپریکٹس کرتا تھا۔ 

 اس نے  جنگ عظیم  دوئم میں عملی طورپر حصہ لیا تھا۔  اس وقت تک جنگ تقریباً ختم ہو چکی تھی۔  وقت گزاری کے لئے وہ کم و بیش اکثر رات کوپیٹرک کے پاس آجاتا اور جنگ کے قصے سنایا کرتا تھا۔  اس طرح وہ دونوں تنہائی کے ساتھی بن گئے تھے۔  پیٹرک نے آہستہ آہستہ اپنا تمام قرض اتار دیا تھا۔  اپنی نوکری اور ڈاکٹر کی مہمات کے قصے وہ اپنے خطوط میں لکھ دیا کرتا تھا۔
  
 ایک دن پیٹرک کو ایمرجنسی میں  چٹھی لینی پڑی کیونکہ اس کی چھوٹی بیٹی لوسی سخت بیمار پڑ گئی

 تھی۔  اسے پیچش اور اسہال لگ گئے تھے  اور اس کا وزن کم ہو رہاتھا۔  وہ روز بروز کمزور سے کمزور


 تر ہو رہی تھی اور اس کی بیوی معالی نے بڑی تشویش ظاہر کی تھی اور اسے فوری آنے کو لکھا

 تھا۔  برنٹ پوائنٹ سے ڈاکٹر لوسی کودو بار دیکھنے کے لئے آیا تھا لیکن اس کے علاج سے کوئی افاقہ نہ ہوا تھا۔  معالی کو یہ فکر لا حق ہو گئی تھی کہ کہیں لوسی  مر ہی نہ جائے اس لئے گھبراہٹ میں اس نے پیٹرک کو تاربھیج دیا تھا تاکہ  لوسی کی نازک حالت کی آگاہی کر دے۔  پیٹرک بارنی تار پڑھ کر پریشان ہو گیا اور واپسی کے لئے رخت سفر باندھا۔  وہ اپنے ساتھ مچھلی کا تیل، وٹامن بی اور مالٹوں کی بوری لایا۔  اس کے علاوہ  کیتھولک روزری، عقیدے کی منا جات کے تمغے (ماں، بیوی معالی، پانچ بچوں، اپنے لئے اور ڈھوڑ ڈنگروں کے لئے) خوبصورت ڈوریوں  کے ساتھ بھی لایا اور ہر ایک کے یہاں تک کہ ڈھور ڈنگڑوں کے گلے میں ڈال دئیے تا کہ اس کی برکت سے گھر پر رحمت برسے اور بلائیں ٹل جائیں۔  اس کے علاوہ اس کی کمر سے ایک موٹی سی چمڑے کی پیٹی بندھی ہوئی تھی۔  اس نے اسے اتارا تو اس میں ڈالروں کے نوٹ ٹھسے ہوئے تھے۔  اس کوبینکوں پر اعتبار نہیں تھا اور وہ رقم اپنی پیٹی یا میٹریس میں چھپا کر رکھتا تھا۔  اس نے تمام بچوں اور بیوی کے سامنے وہ رقم انڈیل دی اور ہر ایک نے اسے گنا۔  رقم  سترہ سو ڈالر تھی جس کی اس دور میں بڑی اہمیت تھی۔  آج وہ امیر تھا۔  تمام لوگوں نے اس رقم کی ڈھیریاں بنا لیں۔  رات کو ان کے سب سے بڑے بیٹے جمی جو ابھی نو بلو غت میں تھا، کے کان میں اپنے والدین کی گفتگو پڑی۔  وہ اس بات پر سوچ و بچار کر رہے تھے کہ اس رقم کا کیا جائے۔  دونوں والدین اس بات پر سو فیصد متفق تھے کہ اس سے لونگ بیچ میں کوئی چھوٹی سی دکان کھولی جائے کیونکہ آس پاس دور دور تک کوئی اچھی دکان نہ تھی۔  برنٹ پوائنٹ اور ایبی ٹیکر قصبوں میں سے اس نے کوئی ایک چننا تھا جہاں سے وہ ہول سیل خریداری کر سکے۔  برنٹ پوائنٹ میں بڑے ڈیلر ویل جانسن اور رون وڈفائنز تھے جبکہ ا یبی ٹیکر میں ایڈم ٹیکر  سب سے بڑا ڈیلر تھا۔

 اگلے دن پیٹرک بارنی اپنے بیٹے جمی کے ساتھ ایبی ٹیکر قصبے کی اور ہو لیا۔  اس نے سمندر کے


 نمکین پانی کو دیکھا اور اونچے اونچے قہقہے لگانے لگا۔  مچھیرے کے طور پر تو اس کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی۔  اگر وہ پھر سے یہ کام کرتا تو اس کے سر پر جو تھوڑے بہت بال رہ گئے

 
تھے وہ بھی غائب ہو جانے تھے۔  تجارت میں اسے امید تھی کہ چار پیسے بچا پائے گا۔  تجارت کا


 پیشہ معتبر بھی شمار کیا جاتا تھا۔  اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ کبھی تجارت کر سکتا تھا۔  اس کی


 بیوی اور اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ تجارت میں کمائی کے بعد وہ اپنی بڑی بیٹی گولڈولن کو ڈاکٹر،


بیٹے  جمی کو وکیل بنائیں گے اور دوسرے بچوں کو بھی اعلیٰ  تعلیم دلوائیں گے۔  جمی ایبی ٹیکر 

 تھا۔  اس کے باپ نے نیلا سوٹ اور سر پر بہترین ہیٹ پہنا ہوا تھا۔  ہیلی فیکس سے وہ سلیقہ

شعار اور سٹائلش بن کر واپس آیا تھا اور گا ؤں والے بھی یہی سمجھتے تھے۔  جمی نے یہ جگہ

  نہیں دیکھی  ہوئی  تھی۔  اس جگہ ہر سال جولائی کے مہینے ایک شاندار پیریڈ ہوا کرتی تھی۔اسے  

 
وہ پریڈ دیکھنے کی شدید خواہش تھی۔  وہ خوش تھا کہ دکانداری کے بعد وہ ایسے تہوار دیکھنے کا


 موقع ملے گا۔
          
مٹی سے اٹی سڑک پر چلتے چلتے وہ تھک گئے تھے۔  وہ جب سٹور پر پہنچے تو اس کے مالک ایڈم ٹکر

 کی ایک بڑی سی گاڑی کھڑی تھی۔  اس شاندار کار کو بہت سے لوگ اشتیاق سے دیکھ رہے

 تھے۔  سٹور میں گاہکوں کی بھیڑ تھی۔  یہ بہت بڑی دکان تھی جو اشیاء سے بھری ہوئی تھی۔  جمی

 دیکھ رہا تھا کہ  دکان میں بیچنے والا سامان علیحدہ علیحدہ خانوں میں مختلف عنوانات کے تحت رکھا

 گیا تھا۔  بچوں کا سیکشن، گراسری سیکشن،کپڑوں کا سیکشن، عورتوں، مردوں اور بچوں کے خانے،

 خشک اشیائے خوردنی وغیرہ کے الگ الگ شیلف بنائے گئے تھے۔  ماں صرف گراسری اور

 خوراک سے متعلق اشیاء کی ہی خریداری کرتی تھی لیکن سٹور آ کر پتہ چلا کہ دنیا خوراک سے

آگے بھی ہے۔  جمی سلیقے سے اشیاء دیکھ کر بہت محظوظ ہوا۔  اس کے علاوہ وہ کاؤ نٹروں پر کھڑے خزانچیوں کی کارکردگی دیکھ کر بھی متاثر ہوا۔  سٹور کے آخری حصے میں بند ڈبے پڑے تھے۔  وہ وہا ں بیس منٹ تک  کھڑے سٹور کا جائزہ لیتے رہے۔
         
کافی دیر کے بعد ایڈم ٹیکر نمودار ہوا اور جمی کے والد سے ہاتھ ملایا۔   اس نے پیٹرک کے ہیٹ کی تعریف کی اور اس کے سر سے اتار کر خود پہن لی۔  پھر اسے عقب میں لے گیا جہاں اس کا دفتر تھا۔  جمی کو کہا کہ  پیارے لڑکے یہاں انتظار کرو، ہم ابھی واپس آتے ہیں۔  دفتر کا دروازہ بند کر دیا گیا۔  اس کے دفتر کی کھڑکی اتنی اونچی تھی کہ وہ اپنی ایڑیاں اٹھا کر بھی دفتر کے اندر  نہیں دیکھ سکتا تھا۔  وہ کھڑے کھڑے تھک کر پاس پڑے باکس پر بیٹھنے لگا تو ایک کلرک نے اسے سختی سے اس پر بیٹھنے سے منع کر دیا اور کہا کہ  اس میں پڑے  بسکٹ ٹوٹ سکتے ہیں۔ چنانچہ اسے کھڑا ہی رہنا پڑا۔  جمی کو کلرک کا ٹوکنا اچھا نہیں لگا اور اس نے سوچا کہ اگر اس کا باپ باہر ہوتا تو و ہ کلرک اسے اس طرح کبھی نہ ڈانٹتا۔ کھڑے کھڑے وہ تھک گیا تو وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔  دروازے کی کھڑکی کے پاس کھڑے ایک ہم عمر نے جمی کو منہ چڑایا۔  جمی  اس لڑکے کو کھڑکی دھندلی ہونے کی وجہ سے نہ پہچان پایااور دروازہ عبورکرنے کے لئے چلتا رہا تو دوبارہ اُس لڑکے نے پھر نہ صرف منہ چڑایا بلکہ جمی کی رانوں کے دو شاخے کو پکڑ کر اوپر نیچے کرنے لگا۔  اِس بار جمی نے اسے پہچان لیا۔  وہ کین سلیڈ کا بیٹا ہیرلڈ سلیڈتھا۔  کچھ لڑکے سٹور کے باہر کھڑے یہ دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے اور اسے دیکھ کر اپنے اپنے دو شاخوں کو مسلنے لگے اور پوچھا کہ کیا تمہیں گھوڑے نظر آئے؟   جمی کوان کی باتوں کی سمجھ نہ آئی لیکن غصہ ضرور چڑھا۔  اس کےمن میں آیا کہ ان سے بھڑ جائے لیکن اس لئے چپ رہا کہ کہیں بات بڑھ نہ جائے۔  اتنے میں اسے تین نو عمر لڑکیاں نظر آئیں جو اچھل کود کر رہی تھیں، غالباً وہ آپو ٹاپو کھیل رہی تھیں۔  وہ چھلانگ لگاتیں تو ان کے سکرٹ اچھلنے کے ساتھ اوپر ہوتے اور ان کے پیٹ اور زیر جام نظر آ نے لگتے۔   لڑکے اس منظر کو دیکھ کرلطف اندوز ہوتے۔

لڑکوں نے پھر جمی کو اکساتے ہوئے پوچھا،کیا تم نے گھوڑے دیکھے؟
          
جمی ان لڑکوں کو نظر انداز کر کے واپس اندر کی طرف چلا آیا اور شو کیس میں سجائے کھلونوں کو دیکھنے لگاجو اس کادل موہ رہے تھے۔  یکایک اسے خیال آیا کہ اس نے زندگی میں کیا بننا ہے۔  اس کا باپ چاہتا تھا کہ وہ وکیل بنے اور اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پادری بنے، لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹیچر بنے گا۔  شو کیس میں دیکھتے دیکھتے اس کی نظریں ایک ایسے کھلونے پرپڑیں جس میں چھ شکاری تھے جنہوں نے بندوقیں تانی ہوئیں تھیں۔   اسے اُس وقت ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ ایک نجات دہندہ ہے جو عوام الناس کو ڈاکوؤں سے بچانے کے لئے سنگلاخ چٹانوں میں خوبصورت وادی میں ڈاکوؤں کا تعاقب کر رہا ہے۔  شو روم کے شیشے سے ناک لگا کر وہ بڑے انہماک سے کھلونے دیکھنے میں مگن تھا کہ اس کا باپ اور ایڈم دفتر سے باہر نکلتے دکھے۔  وہ اس وقت کینیڈا کے بچوں کے ماہانہ الا ؤنس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔  ایڈم کہہ رہا تھا کہ بچوں کے ماہانہ الاؤنس کی وجہ سے لونگ بیچ میں کاروبارکو کوئی خطرہ نہیں اور تم یہ بات اپنے پلے باندھ لو کہ تم بہت کمائی کرو گے۔  ان دونوں کے چہرے سرخ تھے۔  جمی نے اپنے باپ کو اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔
     
تمہارا کیا نام ہے پیارے لڑکے؟ ایڈم نے پوچھا۔
              
میرا نام جیمز بارنی ہے جناب، جمی نے پر جوش طریقے سے جواب دیا۔
            
ایڈم نے اسی کلر ک، جس نے اسے بسکٹوں کے باکس پر بیٹھنے سے منع کیا تھا، سے مخاطب ہو کر کہا، ہیرس!جمی کو پودینے والی کینڈی دے دو۔  ہیرس نے اسے کینڈی دی جو جمی نے اپنی جیب میں رکھ لی۔ 

اچھا پیڈی،تومیں تم سے بعد میں تفصیلاً بات کروں گا،یہ کہہ کر ایڈم جانے لگا۔  پیٹرک بھی دوبارہ ایڈم کے دفتر میں اپنا ہیٹ لینے کے لئے چلا گیاجو وہ بھول آیا تھا۔
 
 جب باپ بیٹا سٹور سے باہر نکلے تو سڑک سنسان تھی کیونکہ بارش ہو رہی تھی۔  ان کے جوتے بارش سے بھیگ رہے تھے۔  جمی کو یہ پتہ تھا کی اس کی ماں اِس بات پر انہیں ڈانٹے گی کہ کیوں جوتے گیلے کر کے آ گئے ہیں لیکن اس وقت اس نے اپنا ذہن جھٹک دیا اور اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔  اُس نے پہلی بارمحسوس کیا کہ اس کے باپ کا ہاتھ کتنا کھردرا اور سخت تھا۔  اس نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑ ے رکھا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔

Popular posts from this blog