تم ہو کیا شئے ؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ M.G. Vassanji..........What You Are?

 





  

What  You Are ?

 تم ہو کیا شئے ؟

By

M.G.Vassani

 

مترجم :غلا م محی الد ین

میں ہمیشہ سےاس بات پریقین رکھتی ہوں کہ میں افریقہ ہےافریقی امریکن   ہوں ا اورنہ ہی کسی کومیرےافریقی امریکن ہونے پر شک اورنہ کوئی اسےچیلنج کرسکتا     ہے۔یہ سچ ہےکہ میری والدہ    سمیعہ تنزانیہ کے شہر 'سواہیلی'  سےتعلق رکھتی ہے لیکن وہ مکمل طورپر نہ صرف خالص امریکی   سیاہ فام ہے بلکہ اسےاس پر فخربھی ہے۔میں دونوں والدین کی طرف سے امریکی  ہی ہوں ۔میرے آباؤاجداد سے       سفیدفام لوگوں نےجو ظلم اور غیرانسانی سلوک  روارکھا ،    انہیں غلام بناکر  طرح طرح کی صعوبتیں دیں  ،وہ    وحشیانہ اقدامات   نہ توناقابل فراموش  ہیں   ،نہ   نظراندازکیاجاسکتا ہے اورنہ  ہی اس انسانیت سوز بر تاؤکوبھلایا جاسکتاہے اوران کی پرزور مذمت  کی جاتی  ہے اور کی جاتی رہےگی۔

میلکم ایکس  سیاہ فام  آزادی  کی  جدوجہد کے سالاروں میں   ایک  بہادرشیرہے۔میں شروع  سے ہی اس بات کے  حق میں ہوں  کہ ہمیں  غلامی کی زنجیریں توڑنی چاہیئں  اوریہ بات باعث اطمینان ہے کہ اب  سیام فام  اپنی جان ہتھیلی پرڈال کر میدان میں اترآئے ہیں۔ ہماری  آبادی  نے فطین پیداکئے ہیں اوراپنی ثقافت    سے متعارف  کروایاہے ۔ہم نے دنیاکو اپنی  موسیقی،فیشن  اور  لٹریچر دیاہےجس کی دنیامعترف ہے ۔ہمارے قائدین   کے اقدامات   رہتی دنیاتک  یادکئے جائیں گے اور مخالفوں  کاانجام برا ہوتا رہےگا۔

 ہمارے لئےجوزہربھردیاگیاہے ،فیشن اوران کی  شخصیت کے بارے میں جو نفرت پھیلائی گئی ہے  ،اس پر میراطیش میں آنا  غیرمعمولی  نہیں۔گوروں کے تعصب پر مجھے حیرانی ہوتی ہے۔ ان کےرویہ جات پرصاحب علم ودانش کےلئے معقول جواز پیش کرنا مشکل ہے ۔ ماضی کے حکمرانوں نے اس نسل پرجوبھی فیصلہ کیاوہ بلاسوچے سمجھے کیایا صرف اپنے مفادمیں کیا۔  

۔۔۔بات ہورہی تھی میرے افریقی امریکن ہونے کی۔میں اپنے والدین کےساتھ تنزانیہ میں رہائش  پذیرتھی   ۔  اپنے والدین  امریکہ منتقل  ہوگئےتومیں  امریکی شہری بن گئی۔

یہ سچ ہے کہ میں سیاہ فام ہوں اوررنگت کی وجہ سے حقارت کانشانہ بنتی رہتی ہوں۔میں  

اس   ذلت کامقابلہ کیسے کروں ؟میری سیاہ فام جلدکوتعصب کی نگاہ سے دیکھنے سے کیسے 

بچاؤں ۔نفرت روکنے کے لئے کیامیں اپنی چمڑی کوچاقو سےادھیڑ دوں۔  کالے  رنگ  کو اپنے ناخنوں سے کھرچ کر سرخ خون نکال کرثابت کروں کہ میراخون  دیگر لوگوں کی طرح  سرخ ہی ہے۔میں اپنے  حبشیوں والےگھنگریالے بالوں کاکیا کروں۔انہیں کیسے ختم کروں۔ میں ان کامقابلہ کیسے کروں ؟میری رنگت کالی ہے۔ کیامیں اپنی آنکھیں بندکرلوں۔میں کیاہوں؟ ۔۔۔میں کیاہوں؟ایسی سوچیں ہمیشہ میراگھیراؤکئے رکھتی ہیں۔

مجھےوالدہ سے بےحدمحبت ہے ۔وہ  میری  ہے۔مجھ سے بھی زیادہ میری ہے۔میں اس سے اچھی کیسے ہوسکتی ہوں؟میرے نزدیک اسکامقام بہت اونچاہے۔یہ سچ ہے۔میں اب تمہیں مختلف کیوں کہوں؟میں اس موضوع کویہاں کیوں لاؤں ؟ اس کےاوروالدکےبارے میں رائےکیوں تبدیل ہوئی  ،کو  موجودہ صورت حال سےبیان  کرتی ہوں۔

میں اپنے والد کی طرف مڑی جوایک دیوہیکل  اورباوقار شخص ہےاور اپنی شائستہ گفتگوکی وجہ سےجانا جاتاہے۔وہ حقے اور پائپ کاشوقین   ہے۔جب وہ پائپ پی رہاہوتاتو وہ اپنی گفتگو میں ادب پرپرمغزبےتکان بولاکرتاہے ۔'بالڈون 'اور 'لیونگ سن سوز 'کے مقولے استعمال کرتا ہے ۔ اس  کے آباؤاجدادتنزانیہ سے ہیں لیکن  وہ امریکی  شہری  بھی ہے۔اس کانام'  مارٹن  سٹیوارٹ 'ہے اور سیاہ فاموں کی  مساوات کاعلمبردارہے۔ 1963 میں امریکہ میں  مقام

پراس نے مارچ کیااور تحریکی سرگرمیوں  میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتااوران کی فلاح وبہبود میں حصہ لیتارہتاہے۔

ماں کانام سعدیہ  ہے۔ہم  اکٹھے بیٹھے ہیں ۔وہ اٹھ کرباورچی خانے سے چائے کی ٹرے لے آتی ہے ۔اسے لب سوزاور لب دوز  چائے بے حد پسند ہے۔ناشتے میں   وہ سواہیلی کی خصوصی  بھنی  ہوئی افریقی مٹھائی کھاتی ہے  جس کی ڈلیاں  نرم، خستہ  بھوری پرت والی  اوراندرسےکھوکھلی ہوتی  ہیں اور یہ مجھے بھی  یہ بہت پسندہیں۔

باباکی   گفتگوکاموضوع آج شجرہ نسب ہے۔  اسکامانناہے کہ ہرشخص کےلئے جاننا ضروری   ہےکہ اس کے آباؤاجداد کون ہیں۔وہ میری  طرف مخاطب ہوکے کہتاہے  کہ تم  اب بالغ  ہوچکی ہو کہ تمہیں   اپنی آبائی  وراثت کےبارے میں پوری آگہی ہونی چاہیئے۔

وراثت؟میں نے پوچھا۔میں جانتی توہوں۔

بھارت والی۔اس نے کہایہ نہیں بلکہ   بھارت کے شہرگجرات  والی۔ اس نے کہا۔

گجرات! میں نے حیرانگی سے پوچھا۔

تم اس بارے میں  بہت کم جانتی  ہو۔اس نے کہا۔

گجرات ؟اس کا ذکرکہاں سے آگیا؟میرااس سے کیاواسطہ ؟ مجھے گجراتی بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔میں نےکہا۔میں افریقی امریکن ہوں۔ میں سیاہ فام ہوں اورمجھے  اس پر فخرہے۔یہ فقرات  میں نے ایسے ہی دہرائے جومیں  مارٹن سے بچپن   سے سنتی چلی آئی تھی۔

مارٹن کی والدہ جو میری  دادی       تھی فلاڈلفیا میں رہتی تھی جومجھے بہت  پیارکرتی تھی ۔باپ کی طرف سے  میرے کزن بھی جن  میں ایک  کنٹکی کے لئےباسکٹ بال کھیلتاتھااور ایک اور کزن   ارنیل میں  رہتاتھاجوکم ذہن تھاکومیں اچھی طرح جانتی تھی۔میری سوچیں بابا کی باتوں سے دھندلاگئیں ۔  لوگ  میرے بارے میں کیارائے دیتے ہوں گے  مجھے معلوم نہ تھا۔

یہ بات توطے تھی کہ  میں  مارٹن  کے  خاندان کاحصہ تھی اور مستند افریقی امریکن  تھی ۔اس لئے میں نے کہاکہ میں سب جانتی ہوں  اس لئے اس موضوع پر میں  مزید کوئی بات نہیں کروں گی۔

گھرمیں میراکمرہ الگ تھا۔میں نےاس میں جاکرکچھ پڑھنے کی کوشش کی اورمیں نے اپنی نئی کمپنی جو میں نے اپنی دوست  ارملا کی شراکت میں بنائی تھی سے متعلق چند رپورٹ پڑھیں لیکن  میرے ذہن میں اپنےوالد مارٹن  سٹیوریٹ کی باتیں گونج رہی تھی ۔میں متجسس ہوگئی کہ وہ اچانک شجرہ نسب پر ضرورت سے زیادہ زورکیوں دے رہاتھا۔ اس کی باتوں نے مجھے الجھن میں مبتلاکردیا۔اس سے میں کیسے پیچھا  چھڑاسکتی تھی۔اپنے منتشر خیالات سےاس مرکزی سوال کوکیسے دورکرسکتی تھی ؟میرے ذہن میں باربار یہ بات ابھررہی تھی کہ میں کون ہوں؟ کیاکوئی شئے تبدیل ہوگئی  ہے؟ کیادنیامیں کوئی اور شخص بھی ہے جس کا میری نسل سےکوئی تعلق ہےجومجھ سے محبت کرتاتھالیکن مجھے چھوڑکر کہیں اور  چلاگیاہے؟کیوں،میں اب کیابن گئی ہوں ؟کیامیں اپنے آبائی ملک تنزانیہ میں پیدائش سے ہی نہیں رہتی رہی  اورپھر اپنے والدین کےساتھ امریکہ نہیں منتقل ہوگئی   ؟میں اپنے سر کی تصویرلی  توایسا لگاکہ  میں وہ  خاتون ہوں  جس کاسرہی نہیں             بلکہ اس کی جگہ ایک سکارف ہےجوکہیں  کسی فرش پرگرگیاتھا۔میں اپنی  تلاش میں تھی اور  اپنی ماں کی طرح  ساڑھی پہنناور حجاب   لیناچاہتی تھی۔

اپنے باپ  مارٹن کےبارے میں میرے من میں کچھ بھی نہیں آیا۔اپنی معلومات کی بناپر ماں کےبارے میں ہی  سوچتی رہی کیونکہ وہ مسلمان تھی اوربابامسیحی۔ حیران تھی کہ اس نےاس سے شادی کی حامی کیوں بھری؟اپنی بزنس اور بابا کی باتوں نے پوری رات الجھائے رکھا۔پھر سوچاکہ  ان باتوں پرنہ سوچوں کیونکہ اگلے دن تومیں نےاپنی  تجارت سنبھالنے کے لئے وہاں سے چلے جاناتھا۔اگلی صبح جب اپنے کمرے سے باہر آئی تومیں نےخود کو ایک مردہ زومبی کی طرح محسوس کیا۔

ماں نے بڑے پیارسے مجھے اپنےگلے لگالیا تومیں    نےبھی پرجوش طریقے سےاسےجواب دیا لیکن  بہت زیادہ زور سے بغل گیرنہ ہوئی۔اس وقت  بابا نےمجھے بازوسے پکڑا اورکہاکہ مجھے  آج اپنی روانگی ملتوی کردینی چاہیئے تاکہ مجھ سے  ایک اہم موضوع پر گفتگوکرسکے۔مجھے اس وقت یہ علم نہیں تھاکہ وہ موضوع  میری زندگی کارخ ہی تبدیل کردےگا۔

خیال تواچھاہے۔میں نےطوعاًکرہاً کہا۔ناشتے کےبعدہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں ش

 بابانے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپوچھا۔یا یہ جگہ گفتگوکےلئے مناسب رہے گی؟میں نےہاں میں سرہلادیا۔ بابا میرےلئے ایک عام شخص کیسےہوسکتاتھا۔وہ میرے لئے بڑااہم  تھا۔ وہ پیار اور میری مکمل احتیاط رکھنے والا ایک بہت ہی پیاراشخص تھا۔

مارٹن سٹیوارٹ ،سعدیہ  تمیم اورمیں  تینوں                ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے۔بابا نے بات شروع کی  اور اپنا قصہ شروع کیا۔

مارٹن 1967 میں امریکہ سے تنزانیہ  امن   فوجی امن مشن پریو این اے کی طرف سے بھیجاگیا تھا۔اس دورمیں امریکی فوج میں شاذونادر ہی سیاہ فام ہوتےتھے۔اس کا شعبہ  تعلیم و تدریس تھا۔وہ  ہائی  سکول  اور اس سے اعلیٰ   سطح کے طلباوطالبات کو انگریزی  ادب  اورتاریخ پڑھاتاتھا تتنزانیہ میں     یہ مضامین مخصوص لوگ ہی پڑھاسکتےتھے۔اس دوران اس کادل کیمسٹری کی ایک ٹیچر سعدیہ تمیم  پرآگیاجوایک سنجیدہ اور باوقارخاتون تھی  جوکسی سےگھلتی ملتی نہ تھی۔مارٹن کی شخصیت کرشماتی تھی اورہر کوئی اس کی طرف کھنچاچلاآتاتھا۔سعدیہ دین اسلام پرقائم تھی اورایک نامور مشائخ وعلماقبیلےسےتعلق رکھتی تھی۔       

میراخیال تھااوراب بھی ہے   کہ یہ سب قدرت کاکرشمہ یا قسمت    یا محض تفاق   تھاکہ ان کی تنزانیہ میں ملاقات  ہوئی۔ بابانے  اپنے ایک ہاتھ سے پائپ پر پڑی راکھ کوہموار کیااور سگارکاکش لیتےہوئےکہا ۔تمہاری والدہ بہت خوبصورت تھی اوروہ اب بھی ہے  ۔اس نےماں کی طرف دیکھا،ما ں  چپ رہی۔بابا نےاپنی نظروں کارخ دوسری طرف کرلیا۔باباکو سمیعہ تمیم

حاصل  کرنے کےلئےکافی پاپڑبیلنےپڑے۔مس تمیم اسے کچھ خاص لفٹ نہیں کراتی تھی اور 

جب بھی وہ اسے کسی شئےکی پیشکش کرتا،وہ بڑی ملائمت سے مسکراکرمنع کردیتی             اور  کوئی  نہ کوئی بہانہ بنادیتی ۔مختلف  مواقع پر جب باباکا اصرار بڑھنےلگاتو اسے اصل بات بتاناپڑی  کہ اس کے والدین کی طرف سے اسے کسی نامحرم کےساتھ شام کو گھر سےباہر جانے  کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کامذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتاتھا۔

سعدیہ  تمیم کادادا الشیخ البشیری  مسلمان فقیہہ تھاجس کا علما میں ایک بڑانام تھا۔اسے  دینی تعلیم وتدریس  او ر اخلاقیات پر عبورتھااور ان پر درس دیاکرتاتھا۔لیکن  سعدیہ  کو  مارٹن سٹیورئٹ  بہت پسند تھا ،بابا   سکول کی دیگر استانیوں اور طلبا و طالبات  میں  بے حدمقبول تھاکیونکہ وہ  امریکی  شہری تھااور  پر کشش شخصیت کامالک تھا۔وہ ہالی ووڈ کے اس دور کے مشہور ایکٹر فرینک سیناترا،ایلویس پریسلے ،جان وین ،سڈنی یوآئییر سے کسی حد تک  مشابہت رکھتاتھا۔ لڑکیوں نے اس کانام سڈنی آئییر  رکھاہواتھا حالانکہ اپنے گول چہرے کی وجہ سے ان میں کم مشابہت تھی۔وہ اس لقب کو ستائشی  سمجھتاتھا۔

اس  وقت  بین الاقوامی تبادلے کےوفود  کے سلسلے میں  قصبےکےواحدتھیٹر میں ایک ڈرامہ

 منعقدکیاجارہاتھا۔سکول کو دعوت نامہ بھیجاگیا کہ انگریزی کےطلباوطالبات انہیں دیکھیں    ۔چونکہ طالبات نے جاناتھااس لئے ایک خاتون ٹیچر کی ڈیوٹی بھی ان کےساتھ لگائی گئی تھی۔ماں کو بورڈ  نے سرکاری سطح پرنامزدکردیاکہ وہ طالبات کےساتھ جائے ۔ اس  لئے سعدیہ کو ان کے ساتھ جاناپڑگیا۔اس کے والدین نےطالبات کی نگرانی کےلئے تھیٹر جانے کی اجازت دے دی ۔اس وقت تک مارٹن نے ایک چھوٹی کاربھی خریدلی تھی۔ڈرامہ ختم ہونے کے بعدوہ اسے گھرچھوڑنےسےپہلے   پام بیچ ہوٹل لےگیاجہاں حلال  خوراک  پیش کی جاتی تھی ۔وہاں انہوں نے تھیٹرکےڈرامےپر تبصرہ کیا۔اس کے علاوہ حالات حاضرہ ،شہری حقوق   اور امریکہ میں سیاہ فام آزادی کی تحریک پربات کی۔ان دنوں میلکم ایکس  تنزانیہ کادورہ کرکے واپس امریکہ چلا  گیاتھااور سیاہ فاموں کی آزادی کےعلمبردار '           سٹوکلی کامیخیل            ' ان دنوں دورے پرتنزانیہ آیاہواتھااور ایک اور آزادی کاعلمبردار 'چینوآکے 'کادورہ متوقع تھا۔سیاہ فاموں کی آزادی ایک ایسا موضوع    تھاجس پروہ دونوں  دیوانگی  کی حد تک دلچسپی رکھتے تھے۔

میں تمہارے بابا کو پسندکرتی تھی۔ماں نے کہاجوبعد میں محبت میں تبدیل ہوگیا۔میں اس سےپہلےکسی بھی ایسے شخص سےنہیں ملی تھی جومیرااتناخیال رکھنےوالااورسیاہ فاموں کوغلامی 

سےنجات دلانے میں اتناپرجوش ہو۔۔۔یقیناً اس وقت میں اس  کے عشق میں مبتلا ہو گئی  تھی 

۔لطیف  جذبات  میں شدت پیداہوتی گئی ۔اب ہم معاشقے کی ملاقاتیں کرنے لگ گئے تھے۔   تعلقات روزبروزبڑھ رہے تھے۔ملاقاتوں کاسلسلہ اگرچہ کم تھالیکن مستقل  تھا۔اس کا لمبوترا خوبصورت چہرہ دل لبھا لینےوالاتھا۔میری نظریں اس پرٹکی رہتی تھیں ۔اس کی  نسل عربی تھی۔تنزانیہ میں ہم   کرسمس بھی جوش وخروش سے منایاکرتے تھے۔

 فلاڈلفیا میں  دادی رہتی تھی ،  بھی  کرسمس بڑے جذبے سے منایاکرتی تھی  ۔میں اگروہاں جاتی تومیں بھی اس کےساتھ گرجاگھرجایاکرتی تھی لیکن دادی  دین اسلام پرقائم تھی۔ پنجگانہ نمازیں اداکرتی۔قرآن کریم اس نے ہمیشہ اپنے سرہانےرکھاہوتاتھااور صبح فجرکی نمازکےبعد تلاوت کیاکرتی تھی۔مارٹن  سٹیوارٹ  بھی کبھی کبھار نانی کےساتھ تلاوت کیاکرتاتھاجوبعد میں اس نے ترک کردیا ۔اس وقت میں بہت   چھوٹی تھی۔میں بھی  نانی  کےساتھ تلاوت میں شامل ہوجاتی تھی۔والدین نے میرانام اسلامی رکھاہواتھا ۔

دو مختلف عقیدے ہونے کی وجہ سے تم لوگوں کی شادی کیسے ممکن ہوئی؟ میں نے سوال کیا۔

بابانے کچھ دیرسوچااور پھربولاکہ اس کی وضاحت کےلئےمجھے تمہیں پوری کہانی سنانا

پڑے گی۔

 سیاہ فاموں کی آزادی کی تحریک چلانے کیلئے  سکول کے بعد ایک کیبن  جوسکول کےساتھ ہی 

 تھا ،میں ہماری  خفیہ ملاقاتیں ہواکرتی تھیں۔تمہاری والدہ اورمیں شادی کرناچاہتے تھے۔اس کے لئے مجھے سعدیہ   کے والد اور تمہارے دادا الشیخ بشیری  تمیم سےملناضروری تھا۔

وہ اتوارکادن تھا۔دن کےگیارہ بجےتھے۔ میں  نے تمہارے دادا سے تمہاری ماں کاہاتھ مانگا۔اسے اس کی ماں  (تمہاری نانی)نے تمہارے نانا اور نانا کے والد الشیخ  البشیری تمیم  کواس بارے میں پہلے ہی آگاہ کردیاتھااور  بتادیاتھاکہ سعدیہ  بھی میری  محبت میں گرفتارتھی۔

میں  جب  اس کے گھرگیاتو وہ اس وقت صوفے پربیٹھاقہوہ پی رہاتھا،اس نے مجھے کہاکہ اس کےسامنے بیٹھ جاؤں  اورمجھے بھی قہوہ پیش کیا۔باباکوتھوڑی بہت   سواہیلی اور دادا کو ٹوٹی پھوٹی  انگریزی آتی تھی۔شیخ باباکے حسب نسب،مذہب،سیاست ،تہذیب وتمدن وغیرہ   کےبارے میں تفصیلی  معلومات حاصل کرناچاہتاتھاکہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے برعکس سعدیہ سے شادی کیوں کرناچاہتاتھا۔بابانے اسے بتایاکہ میں  اس سے بےحد پیارکرتاہوں ۔وہ بھی مجھ سے بےحد پیارکرتی تھی۔وہ اس وقت ایک پرانے صوفے پر  بیٹھا  ٹیبل سامنےرکھے         کافی پی  رہاتھا۔اس کے سامنے سعدیہ کاوالد بھی بیٹھاتھا۔وہ ان معلومات کی روشنی میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا دومختلف ثقافتوں  اور مذاہب کے مابین شادی کابندھن کامیاب بھی ہو پائے گایانہیں۔ شادی  پائیدار بھی ہوگی  یانہیں۔ جب اسے یقین             ہوگیا کہ میرے خاندان اور میری پوری وابستگی          سیاہ فام نسل  کمیونٹی کی فلاح و بہبود    کےحق میں اور گوروں کے مظالم کے خلاف رہی ہے تو اس نے اپنے تئیں کوئی فیصلہ کر لیا جسے کوئی بھی نہیں جانتاتھاکہ شیخ   البشری تمیم کے ذہن میں کیاتھا۔اس نے  مجھے کہاکہ میں جمعے کی نماز کےبعد  اس کےپاس آؤں تووہ اپنافیصلہ سنادے گا۔میراپوراہفتہ پریشانی میں گزرا  ۔ تیری والدہ  کواس پرپریشانی تھی کہ میں   مسیحی تھااور حضرت عیسیٰ ؑ کے مذہب پرتھا کی بناپر کہیں ردنہ کردیاجاؤں ۔

جمعے کےبعد سعدیہ  کاوالد اور میں دونوں  شیخ  البشری کےپاس گئے۔میں  اپنے ساتھ قرآن پاک کانسخہ بھی  لےگیا جومیں  نے اس دوران کافی پڑھ لیاتھا۔ تمہاری نانی اور شیخ البشری   اپنے اپنے ذرائع سے اس دوران تحقیق کرچکے تھے  اور میں ( مارٹن ) نے بھی کسی ہندوتاجر سے قرآن حکیم خرید کر   اسلام سےآگہی حاصل کرلی تھی ۔شیخ البشری نے مجھ سے پوچھاکہ کیامیں مسیحی مذہب ترک کرکے مسلمان ہوکراپنانام شہبازرکھ سکتاہوں۔میں نے کہاکہ سوچ  کر بتاؤں  گا۔ یہ وہ دورتھاجب      عالمی باکسنگ چیمپین اوناسس کلے مسلمان ہوچکاتھا۔ مارٹن نے اس   معاملے پر سعدیہ  سے مشاورت کی جس نے کہاکہ میں شادی کی خاطر اپنامذہب تبدیل نہ کروں ۔میں نےشیخ کو بتایاکہ میں  مسلمان نہیں بن سکتا۔اس کےباوجود وہ میری شادی سعدیہ  سے کرنے پرراضی ہو گیااور ہماری شادی سواہیلی طریقے سےہو گئی  جو چنبیلی کےپھول ، بینڈ باجے اور شہنائیوں کی دھنوں میں  اداکی گئی۔بارات جلوس کی شکل میں سعدیہ  کے پڑوس سے ہوتی ہوئی گئی اور اس کی میرے ساتھ رخصتی ہوگئی۔یہاں تک کی بات کاسب کوپتہ ہے۔

۔۔۔لیکن اصلی کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہےجس کاعلم تمہارےلئےضروری ہے اورجس کے لئے یہ میٹنگ کی ضرورت پیش آئی۔مارٹن بات کرتے کرتے رک گیااور ماں  اپنی کرسی پربیٹھ کردوسری طرف دیکھنے لگی ۔پھرمڑکراس نے میری طرف پیارسے دیکھااور میراہاتھ پکڑکر اپنی طرف کھینچ لیا۔شادی کےفوراًبعدوہ امید سے ہوگئی اور مقامی ہسپتال میں مردہ بچہ پیداہوا۔وہ دونوں نہائت غمزدہ وارڈمیں بیٹھے تھے کہ ایک نرس  افسردگی کی حالت میں گھبرائی ہوئی  انکےپاس آئی اور بتایاکہ ایک بھارتی خاتون نے بھی اس وقت ایک بچی کو جنم   دیاتھااور اس کاخاندان اس بچی کواپنے پاس کسی    صورت میں  بھی اپنےپاس نہیں رکھناچاہتاتھا۔بھی اپنے پاس کیوں ؟ میں نے پوچھا۔

کیونکہ وہ اکیلی تھی۔ اس وقت کاقانون اور معاشرہ   نہ تواس کی  حقیقی والدہ اور نہ بچی کوکبھی 

   قبول نہ کرتاکیونکہ وہ ناجائزاولادتھی۔ اس کے علاوہ  وہ بہت غریب  تھی۔بابانے کہا۔

۔۔۔توتم اس مردہ بچےکی جگہ مجھے اٹھالائے۔کیایہ سب اتناہی آسان تھا؟میں نے پوچھا۔

ڈاکٹروہاں نہیں تھا یاوہ اتنازیادہ مصروف تھاکہ وہ اس پردھیان نہ دے سکااور وہ نرس  جھولے میں  ایک خوبصورت بچی ہمارے پاس رکھ گئی۔

اور دوسرابچہ؟ میں نے پوچھا

وہ لڑکاتھا   اور وہ ہمارابچہ تھا۔ ۔۔وہ اس وقت کیاکرسکتے تھے۔مارٹن نے ٹھنڈی آہ  بھری ۔اگر وہ زندہ ہوتاتواس وقت وہ اپنی دادی کےپاس      فلوریڈاہوتااور اس کے دوست احباب ،چاہنے والے اور رشتہ داراتنے زیادہ نہ ہوتے جتنے کہ اب  تمہارے ہیں۔ بابانے کہا۔

سعدیہ  جب ہسپتال سے فارغ ہوئی تو ہم نے تمہارے  اصلی خاندان کوتلاش کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور تمہیں ساتھ لےگئے۔وہ  بھی سواہیلی   میں ہی تھے۔ تمہاراحقیقی والد ہمیشہ ہمیشہ کےلئے کہیں غائب ہوگیاتھا اور تمہاری  حقیقی والدہ   بہت  بیمارتھی اور اس نےتمہیں  قبول کرنے سے منع کردیا۔اس کانام سوشیلاتھا ۔ ہم نے اس سے بات کی۔اس کا باپ  موچی تھا اور بھارت  سے آیاتھا۔ان سب کےتمام   راستے  ختم ہوچکےتھےاورملک بدری کےاحکامات آچکے تھے۔ تم ہندو خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔تمہیں ان کے ساتھ بھارت بھیج دیاجاناتھا۔وہ وہاں گجرات میں رہاکرتے تھےجہاں تم  جیسی حسب نسب والی بچی کاکوئی مستقبل نہیں  تھا ۔سعدیہ  نے ایک پرچی پراس کی ماں اور نانا کے نام لکھے تھےجو  اس نے میرے حوالے کردی۔نانا کانام   'جےرام سولنگی 'اور نانی کانام ' شانتی   'تھا۔ پرچی پرنام پڑھتےہوئےمیرے ہاتھ کانپنےلگے۔میں نےکس کر اس پرچی کو دوسرے ہاتھ میں تھام لیااور مروڑ دیااور زور و قطار رونےلگی۔مجھےبالکل سمجھ نہ آیاکہ میں کیوں رورہی تھی۔

           کاعطیہ تھی ۔تمہارے بعد حنیف  پیداہو۔ ہم نے دونوں کی پرورش کی جس کی تم گواہ ہو۔    اصلی   باپ    تم سےمنکرہوچکاہے۔تمہاری حقیقی والدہ  کاباپ ایک  موچی ہے جو اب گجرات میں ہے کی حیثیت  ایک کمی کمین اورموالی کی ہے۔وہ ہندودھرم سے تعلق رکھتے ہیں۔تمہارانام 

سعدیہ نے مسلم رکھاہے۔تمہاراشجرہ نسب وہ نہیں جوتم سمجھ رہی تھی۔ تم جوان ہو،سعدیہ کوتیری شادی کاغم کھائے جارہاہے۔وہ چاہتی ہے کہ تم اپناگھر بسالو۔اصل میں تم ہندوہوجسے مسلمان اور مسیحی عقائد والوں نے پالاہے۔اب تم اپنی  عائلی زندگی کےبارے میں ان حقائق کومدنظررکھ کر  بہتر فیصلہ کرسکتی  ہو۔اکے تحت بہتر فیصلہ کرسکتی ہو۔باکی بات سن کربابا کی باباا کی بات سن کرمیراسرچکراگیا۔ایک بھیانک حقیقت میرے سامنے آگئی۔میراحقیقی خاندان  شودرتھالیکن میری پرورش ایک افریقی امریکن  خاندان میں ہوئی۔رضاعی باپ  مارٹن  سٹیوارٹ مسیحی اور والدہ  سمیعہ مسلمان تھی۔میرانام مسلمان رکھاگیا۔میں ان دونوں کے دین کی پابندی نہیں کرتی ۔میں کسی مذہب  پرپورانہیں اترتی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مجھے جوتے کبھی فٹ نہیں آتے ۔ بائیں پاؤں کاجوتا دائیں پاؤں کے جوتے  یادائیں پاؤں کاجوتادائیں پاؤں کاسائز پرپورا نہیں آترتا۔یاتوبہت تنگ یاپھربہت کھلاہوتاہے۔۔۔جومجھے یہ یاددلاتاہے کہ میں  کسی خاندان سے تعلق نہیں رکھتی۔مجھ پر اس وقت ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ رضاعی والدین مجھے زہرلگنے لگے۔مجھے ان  سے نفرت ہوگئی۔

میں نے اس  خاتون کی طرف دیکھاجومیری رضاعی ماں تھی جس کےبالوں میں چاندی اتر آئی تھی اور ریٹائرمنٹ کےبعد  سعدیہ بسنتی  ، سیاہ یا سبز رنگ کے کھلے کپڑے پہناکرتی تھی اور وہ آدمی جومیرارضاعی والد   تھااور  اس خاتون سے شدید مھبت کرتاتھا،نے اپنے سرمئی کھلےگلے کے سویٹر میں  بٹن بغیربندکئے ،منہ میں حقے کاپائپ  لئے میری طرف دیکھ رہاتھا۔ میں چاہوں یانہ چاہوں ۔۔۔ مانوں یانہ مانوں ، وہ میرے والدین  توتھےلیکن نقلی تھے۔ہیں۔وہ میری کیفیت دیکھ کر ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ ان کودیکھکر مجھ پر خوف طاری ہوگیا۔میں خود کوتنہا محسوس کرنے لگی۔میں  بے چین  ہوکراٹھی  اورجانے لگی تومارٹن نے کہا کہ وہ باتیں جو میری تمہاری حقیقی  والدہ سے ہوئی تھیں  وہ بھی سنتی جاؤ۔

مارٹن سٹیوارٹ نے میری حقیقی ماں سوشیلا کے ساتھ ہونےوالی گفتگو کابتایا۔ سوشیلانے بتایاکہ  وہ اچھوت ہے،شودر ہے۔ نیچ ذات سے ہے جسے بھارتی ثقافت بدبودار سمجھتی ہے ۔سوشیلا جوان اور خوبصورت تھی ۔ وہ  میرے ساتھ ایک بحالی مرکز میں کام کرتی رہی ہے ۔اسےتمہاراپتہ ہے وہ اپنی والدہ شانتی کےساتھ اس لئے نہیں جاسکی کیونکہ  ہم تمہارے والدین تھےاورہم امریکی تھے۔اس لئے تم بھی امریکی شہری بن گئیں ۔

مارٹن نے بات  شروع کی اورکہاکہ سوشیلا نے بتایا  کہ میری  خواہش تھی  کہ کوئی ڈھنگ کامرد مجھ سےمحبت کرے۔مجھے  ٹوٹ کرچاہے۔ اسما طرح   کاسلوک کرے جیسےکہ ہیروفلموں میں کرتاہے۔ میں رومانس کوترس رہی تھی ۔ اوڈین سینماکامنیجر جو میری  والدہ شانتی  اور باپ جےرام سولنگی کا جا ننے   والا ہے  کبھی کبھارمجھےملنے چلاآتاہےجس کے جوتے  اس کاباپو جوتے سیاکرتاہے اور وہ اسے ہمیشہ فٹ آتے ہیں ۔باپوکے  تمام گاہک اس کی مہارت کی تعریف کیاکرتے ہیں ۔اس کالقب 'صحیح ماپ کاجوتابنانےوالا' پڑگیاہے۔تمہاری پیدائش کی کہانی بھی اس نے بیان کیجوکچھ یوں تھی۔

 میں سواہیلی میں اپنےماں باپ کےساتھ رہتی تھی۔کم سنی میں  سب سے پہلےمیری            زندگی میں اشوک نامی لڑکاآیاجس سے میں ان  کی  چھت پرجوسڑک کے پاس  تھی اس کی  چھٹی کےبعد ملاکرتی تھی۔اس وقت تمام بالغ  یاتوآرام کررہے ہوتے تھے یاپھر چائے پی رہےہوتے تھے۔اس وقت ساحل خاموش  اور سنسان ہوتاتھا۔وہ پرسکون وقت ہوتاتھا۔وہ دلیپ کماراور میں مدھوبالابناکرتی تھی۔۔۔اس  طرح کےکھیل۔مجھے فلاں جگہ چھونےدوتووہ جلدہی بڑے ہوجائیں گے،اس کے بعد انگریزی فلموں والی حرکات ،ہونٹوں کوچھونا، زبانوں کوٹکرانا  ،اس وقت ہم ہرقسم کے کھیل کھیلاکرتے تھے ۔وہ بہت چالاک تھا لیکن میں اس کی خواہش کے مطابق  سب کچھ نہ کرنے دیتی تھی۔ وہ  ایک چابک سے مجھے نہائت  چابکدستی سے ماراکرتا تھا۔اس سے مجھے بہت مزہ آتاتھا ۔ ایک دفعہ کسی نوکر نےہمیں رنگے ہاتھ پکڑلیااوراس کے باپ سے شکائت کردی کہ اشوک ایک شودر کےساتھ کھیلتاہے۔ اشوک کے والدین  نے اسے واپس بھارت  بھیج دیاتاکہ وہ  وہاں   حج کرکے اپنے گناہ بخشواکر واپس آجائے۔شودر  یہ بات کہاں سے بیچ میں آگئی۔اشوک کہاں سے ٹپک پڑا۔اس کی یادکیونکر آگئی۔۔۔اوہ

ہاں!ایک  واقعہ اور یادآگیاجسے بیان  نہ کیاتوداستان ادھوری رہ جائے گی سوشیلا نے کہا۔

یہ قصہ  اشوک  کے بھارت یاترا کے بعد پیش آیا ۔مجھ سے ایک ایسی حرکت  سرزد ہوئی تھی جو کوئی احمق اور بیوقوف لڑکی ہی کرسکتی تھی جو میرے لئے بے حد خطرناک تھی۔ یہ فعل  خودکشی کرنے سےکسی طورکم نہ تھا۔دسمبر کی اتوار کاایک دن پوری آب وتاب سے اجاگرتھا۔سوشیلا اپنے  باپو جے رام سولنگی  کےپاس پیدل ہی اس کی دکان پر جارہی تھی ۔اس کے  ہاتھ میں ایک  ٹوکری تھی  جس میں میں نے پھٹے پرانےجوتے  ڈالے ہوئے تھےجومرمت کروانے اپنے باپوکےپاس جارہی تھی۔راستے میں مجھے  اچھے خاندان کا ایک مقامی  لڑکا ملا جو سائیکل پرتھا ۔وہ بہت خوبصورت تھا۔اس نے مجھے دیکھاتومجھ پرلٹوہوگیااورمیرے  پاس آکرکہاکہ  اے موچی کی لڑکی تم  کہاں جارہی ہو۔ میں  اپنے باپو سے جوتے مرمت کرانے جارہی  ہوں ۔ لڑکی نے کہا آؤ میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں  ۔میں نے بھی نئے جوتے اس سے بنوانے ہیں۔ بائیک پربیٹھ جاؤ   ۔اس  لڑکےکے  بال کالےاورگھنےتھے۔اس کا رنگ چٹا گوراتھا۔وہ کھاتے پیتے گھر سےتعلق رکھتاتھا۔ اس نے ڈائیلاگ  مارا کہ تجھ جیسی حسینہ کاپیدل  چلنازیب نہیں دیتا۔آؤ میرےپیچھے بیٹھ جاؤ۔ میں نے ایسا ہی کیاجومجھے کبھی نہیں کرناچاہیئے تھا۔اس نے تھوڑاسافاصلہ طےکیا اورمسکراکرکہاکہ بائیک کاکیرئر ٹھیک نہیں ہے۔وہ بہت سخت ہے تمہاری  پیٹھ  زخمی کردےگا۔آؤ۔آگے ڈنڈے     پربیٹھ جاؤ اور میں سائیکل کے  ڈنڈےپربیٹھ گئی۔لڑکےنےلمباروٹ اختیار کیا ۔اس نے اپنی رانیں میری پیٹھ سے لگادیں اورمستقل  لگائے رکھیں۔اس نے بے شرمی سے سے مجھے اپنے بازوؤں میں بھرلیا۔میں اس احساس کوکبھی بھی فراموش نہیں کرسکی۔وہ ایک سایہ داردرخت کےنیچے جاکررک گیا۔مجھے تنے کےاوٹ میں لےگیا۔  باہر سے  ہم نظرنہیں آسکتے تھے ۔۔۔اوراس کا نتیجہ یہ نکلاکہ آنےوالےمہینوں میں میری  ماہواری بند ہو گئی ۔

  یہ میرےساتھ کیاہوگیا  ' شانتی ' میں نےماں سے کہا۔اس نے صورت حال باباجےرام کو بتائی۔وہ باورچی خانے سے چمٹا اور جمور لےکےآگیا اور کہاکہ وہ  اس سےمیری   بچہ دانی نکال دےگا۔ اس نے اسے ایساسمجھاجیسے کہ رحم   کوئلے کاٹکڑاتھی۔میرااس وقت  تیسرامہینہ شروع ہوگیاتھااور بچے نے ہلکی ہلکی حرکت شروع کردی تھی۔

شانتی کےچہرےپر کرب کےآثار پیداہوئےاورجے رام کوکہا کہ رک جائے۔ ہم اسے چھپالیتے ہیں۔چھ ماہ تک مجھے   پچھلے کمرے میں رکھاگیا۔وہاں    انہوں نے مجھے  پرانے استعمال شدہ اشیا،جوتوتوں ، چمڑےکےٹکڑوں ،پرانےکپڑوں ،گوند کےڈبوں ، چوہوں   اور لال بیگ کے ساتھ  رکھا۔ان کی بدبو  میرے لئے ناقابل  برداشت تھی ۔میں  ان کےساتھ کھیلتی،باتیں کرتی اور لال بیگوں کوماراکرتی تھی۔  خود کو دھونے کے لئےرات کویا سحری کے وقت چوروں کی طرح باہر نکلاکرتی۔ پرانےاخبارات کی تصاویر دیکھاکرتی ۔مجھ پرجنترمنتر کئے جاتے ۔میری ماں   اگربتیاں جلاتی  اورمیری آرتی اتاراکرتی ۔ ایک دفعہ ایک پروہت رات کوآیا اورمیرے پاس کئی گھنٹے بیٹھا رہااوردھونی دیتارہا۔ وہ عمل اس وقت بھی جاری رکھتاجب میں سورہی ہوتی  تھی ۔فکرمندی سے جے رام سولنگی  کا وزن کم ہوگیاتھا۔میں اس ذلت کی زندگی سے تنگ آگئی تھی۔میں اپنی سنگین غلطی پرپچھتارہی تھی اور خودکشی کرناچاہ رہی تھی۔میں چاہتی تھی کہ کسی طرح مجھے ساحل پر جانےدیاجائےجوجے رام کے گھرسے صرف آدھے میل پر تھا اور ساحل سمندرمیں خودکوڈبوکر مرجاناچاہتی تھی  تاکہ میری اورجے رام  خاندان کی مشکلات دور ہو سکیں ۔ جے رام سولنگی  ایسے گھورتا جیسےوہ مجھے   ماردے  گا۔ملک بدری کے بعد اب وہ گجرات ہےاور بوڑھاہوچکاہے،ھے۔ پورے ٹبرکوہر حالت میں اس ملک کوچھوڑ کربھارت واپس جاناتھا۔

۔۔۔اورپھروقت آگیا۔پیٹ میں وقفے وقفے سے مروڑاٹھنےشروع  ہوگئے۔اب کیاکیا

جائے؟کہاں لےجایاجائے؟علاج معالجےکےلئےرقم نہیں تھی۔باپ  کےایک  رحم دل  گاہک نے ترس کھاکر اس ہسپتال میں داخل کروادیاجس میں میری  بچی  کی رضاعی والدہ  سمیعہ دردز سے داخل ہوئی تھی۔اس کے  کمرے کارخ سمندرکی طرف تھالیکن  میری اولاد  بغیر کسی تکلیف سے کےپیداہوگئی جومیں  نے اسی وقت اپنی والدہ   شانتی  کےحوالے کردی،میں  نے شانتی سےپوچھا کہ کہ کیالڑکاہواہے یا لڑکی۔تواس نے کہاکہ یہ مت پوچھے،مجھے  تویہ بھی پتہ نہ چلا کہ ایک رحمدل جوڑامیری  اولاد کو اپناناچاہ رہاتھا ۔ شانتی  کے خاندان  بھارت ملک بدرہو رہےتھے ۔شانتی اور جےرام سولنگی نے اپنی بدنامی سے بچنے، اس نومولودبچی سے چھٹکارے اور بہتر مستقبل کےلئے اسے  رحمدل جوڑے مارٹن   سٹیوارٹ اورسعدیہ تمیم  کے حوالے کر دیاکیونکہ اگروہ ایسانہ کرتے تواس بچی کوبھی بھارت جانا پڑتاجہاں وہ اچھوتوں والی زندگی گزارتی۔

۔ میرا یہ ایک ڈراؤناخواب تھاجوختم ہوگیا۔مجھےجب کبھی اپنے بچےکاخیال آتاتو میرے سامنے مراہوابچہ آجاتا ہے اورسوچتی  کہ اگروہ زندہ بھی ہوتاتواس کے لئے شرمندگی کاباعث ہی ہوتا۔وقتی غلطی نےمیری  پوری زندگی بدبودارکردی تھی۔ عہد حاضر میں ترقی یافتہ مملک میں تو ایسے واقعات کوقانونی اوراورمعاشرتی سطح پرقبول کرلیاگیاہےلیکن ترقی پذیر اورمسلم ممالک میں ابھی بھی یہ طبوہے۔

سوشیلا  کچھ لمحے کے لئے رکی ۔کچھ سوچا اور کہا کہ حمل ٹھہرنے کے بعد مجھے بڑی آس تی کہ وہ  گھنے بالوں والے لڑکے کا کا پسینہ ،اس کی  خوبصورتی اور مضبوط جسم کامالک اپنے وہ وعدے جو  مجھ سے مباشرت میں کئے تھے اورہرقسم کے پیاربھرے ڈائیلاگ   بولےتھے،پورے کرے گا۔میں نے اس پر مکمل بھروسہ کیااورخود کو مکمل طورپر اس کے سپرد کردیا۔مجھے یقین تھا  کہ وہ  میرے گھرشادی  کاپیغام بھیجےگا۔ اپنےوالد کومیرے باپوکےپاس   بھیجےگالیکن  پیغام تو کیا وہ تواپنانیاجوتاجواس نے جےرام سولنگی کوسلنےکےلئے دیاتھا،لینےبھی نہ آیامیراباپو کمزور تھا۔ موچیوں کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔وہ لڑکا بعد میں  مجھے کبھی نظرنہ آیا۔ سنسنی  خیزبات یہ تھی ۔۔۔ہاں! اگرچہ مباشرت میں مجھے تکلیف  ہوئی تھی  تواس  نے میرے  کان میں سرگوشی  کی تھی    کہ  وہ درد ایک فطری عمل ہےڈارلنگ ! اس صورت میں  دردکی گولی کھالینا۔ میں تم سے محبت کرتاہوں اور تجھ سے شادی کروں گا۔اس کے بعد اس نے مجھے میرے   باپوکی دکان پراتارا۔اپنے نئے جوتوں  کاآرڈردیاورچلاگیااورایسالگاکہ وہ اس کے بعد وہ صفحہ ہستی سے ہیغائب ہوگیا۔کافی دنوں  بعد اس کےباپو جے رام سولنگی نے اس کا جوتا اس لڑکے کے گھر بھجوادیااوراس لڑکے کےوالد نے  اس کی قیمت  اداکردی ۔

میں وہ  امریکی لڑکی ہوں جس کی حقیقی ماں سوشیلا تھی  ، کسی کو اپنی روداد کیاسناؤں ۔اپنا شجرہ نسب  کیابتاؤں ؟ اصلیت جان کر مجھے اپنے رضاعی والدین سے نفرت ہوگئی ۔ میں نے مارٹن اور سعدیہ سے  کہا کہ وہ ان کےساتھ نہیں رہے گی  ۔میں  وہاں سے اٹھی اور لزبن چلی گئی۔ ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے میری  بہترین پرورش کی لیکن یہ سب انہوں نے اپنے فائدے کے لئے کیا۔اپنی نسل بڑھانے کے لئے کیا۔انہوں نے اتنی زیادہ چالاکی کی جتنا کہ مارٹن اور سعدیہ کرسکتے تھے۔میرادل ان سے چڑھ گیا۔۔اس نئی پیچیدگی سےچھٹکارا حاصل کرنے کے لئے میں انہیں چھوڑ کر نیویارک آگئی ہوں ۔انہوں نے میرا نام ' ذکیہ ' رکھاہے۔اب یہ فیصلہ قارئین پر ہے کہ کیامیں براانڈہ ہوں جو میں اپنے محسنوں کو چھوڑ آئی ہوں یا میں نے اپنے اصلی خون کاساتھ دیاہے؟


Life history

G.M. vassanji

Kenya

1950…………

حالات ِ  زندگی

جی۔ایم۔ وسانجی  کااصلی نام  معز ۔جی ۔ وسانجی ہے۔ وہ 30 مئی 1950  کو کینیا  میں پیداہوا۔ اس کے والدین بھارت سے ہجرت کرکے کینیا آباد ہوگئے۔ وسانچی  وہاں  بھارتی مہاجر کے روپ میں بڑھا۔ ۔ اس نے میساچوسٹس آف ٹیکنالوجی ا اور یونیورسٹی آف پنسلوینیا  مریکہ سے تعلیم حاصل کی۔وہ ایک ناول  نویس ، افسانہ نویس، سونع عمری نگار اور یادداشتوں کے مصنف کے طورپر مشہور ہے۔وہ ایم۔ جی وسانجی کے لقب سے لکھتاہے۔ اس کے ادب کا  بہت سی زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ وہ   

۔2020 تک اس نے نو ناول شائع کئے۔وہ امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کینیڈا منتقل ہو گیا اور اس نے  کینیڈا کی شہریت اختیار کر لی۔اس کے اعلیٰ ادب کو سراہا گیا ہے ۔وہ اپنی تحریروں میں تارکین وطن   اور مہاجرین  صنفی امتیاز  اور نسلی امتیاز کے مسائل، ، نوآبایاتی تاریخ پر لکھتاہے۔

The Gunny Sack ( 1989), No New Land ( 1991), The Book of Secrets (1994), Amriika (1999)’ ,  The in.Between World of Vikram Lall (2003). The Assassin’s Song (2007,). The Majic of Saida(2012). Nostalgia (2016), A Delhi Obsession (2019) etc.

 

Short Stories

 

Uhuru Street (1990)  inspired by Naipaul’s Miguel Street, When She was Queen (2005)

Notifications

 A Place Within(2008), Extraordinary Canadians Mordecai Richer  A canadian Novel legend) (2008), , And There Was  Kariakoo :A Memoire  of East Africa.

Awards

Canada Council Molson Prize for Arts,

وہ آج کل اونٹوریو  صوبہ میں ٹورونٹو میں رہائش پذیر ہے۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

        


Popular posts from this blog