نجات دہندہ لیزارس موریل - جارج لوئس بورجز

 


 


  

نجات دہندہ لیزارس موریل

The Cruel Redeemer Lazarus Morell

 By

Jorge Luis Borges

مترجم  : غلام محی الدین 

جارج لوئیس بورجس ارجنٹائن کا ایک شہرہ آفاق محقق، شاعر،ناقد، افسانہ نگار ،معلم اور دانشور ہے جس نے اپنی تصنیف 'یونیورسل ہسٹری آف ایکویٹی 1935 ' میں سلوییا کی نظم 'ڈیتھ' پرلکھا ہے۔اس نظم مین  ایک لڑکی  سلوییا  کی  زمانے کے  ظلم و ستم  سے بچنے کے لئے زندگی بھر مرنے کی  نہ صرف خواہش کرتی رہی  بلکہ  متعدد بار اس نے خود کشی کی کوشش کی لیکن آخر کار وہ  اس وقت کامیاب ہوگئی جب اس کی عمر تیس سال تھی۔ یہ نظم ' موت  اور خودکشی کی وجہ پر ہے۔

سلوییا جب دس سال کی تھی تو اس نے خود کومارنے کی کوشش کی اور ناکام رہی۔بیس سا ل کی تھی،تب بھی کوشش کی ۔اس نظم میں وہ تیس سال کی ہے۔اب کی بار اس کے مرنے کی خواہش پوری ہوگئی۔اس سے پہلے اس نے جب بھی مرناچاہااسے بچالیاگیا۔

اس نظم میں اس کی زندگی کاواحد مقصد موت ہے۔وہ کہتی ہے کہ میں خداکے پاس جانا چاہتی ہوں ۔میرادشمن ڈاکٹر ہے جو مجھے  خداسے ملنے نہیں دیتا۔ لیزارس ایک فرضی نام ہے جو انجیل مقدس میں حوالے کے لئے استعمال ہو رہاہے۔حضرت عیسی ٰؑ نے ایک مردہ کوزندہ کیاتھا جس کانام لیزارس تھا۔یہاں  اشاروں کنایوں میں  لیزارس کو   حضرت یسوع مسیح  کے روپ میں پیش کیاگیا ہے۔اس نے خود کو   لیزارس کے طور پر متعارف کرایاہے اور اسے  نر کی بجائے  مادہ  کہا ہے۔ اس نظم میں لیزارس ایک علامتی نام ہے جو وہ اپنے لئے استعمال کررہی ہے۔اس میں وہ اپنی ذاتی زندگی کی عکاسی کررہی ہے۔ وہ گلہ کرتی ہے کہ اس کی خود کشی کی کوشش کوناکام بنادیاجاتاہے۔۔۔۔کہتی ہے ۔میں نے دوبار کوشش کی،ہردس سال بعد لیکن اسے ٹال دیاگیا۔

وہ خود کشی کیوں کرتی ہے، کی وجہ بھی بیان کرتی ہے ۔ علامتی طورپر وہ اپنا موازنہ ان مظلوم لوگوں سے کرتی ہے جن کو نازی غنڈوں نے بے دردی سے بلاامتیاز    قتل کر دیاتھا۔ ان کی  کھال اتار کر اور  ان کی  ہڈیاں جلا کرطرح طرح کی اشیا بناتے تھے۔وہ زندگی  کا بھیانک  رخ پیش کرتی ہے۔وہ کہتی ہے۔۔۔میں نے خودکشی کی ،مجھے بچالیاگیا۔میں چل رہی ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نازیوں نے مجھے   جان سے مارکر میری ہڈیوں  اور جلد سے لیمپ کا چمکدار شیڈ بنادیاہے۔وہ خود کو  مقتولوں سے تشبیہ دے رہی ہے۔میرے ساتھ بھی ان   ظالموں  نے ایساہی کیا ہے۔میرے جذبات واحساسات ،  دکھ درد                             بھی  ان بے بس مقتولوں کی طرح ہوگئے ہیں۔نازیوں نے جو ظلم  کمایا  اسی طرح یہ زمانہ میرے ساتھ بھی  و یسا ہی سلوک کررہاہے۔ لوگ میرااستحصال کررہے ہیں۔میری پوری زندگی  نفسانفسی اور افراتفری کاشکار ہے جو اذیت بھری ہے۔میری اپنی کوئی شناخت نہیں ۔میری کوئی حیثیت نہیں ۔ بظاہر میں زندہ ہوں لیکن سب کچھ کھو چکی ہوں۔میرے دشمن ہرجگہ پھیلے  ہوئے ہیں۔احباب  بھی اور معالج بھی۔میری اس خواہش کو کہ میرے جسم  پر جوکھال کانیپکن  چڑھاہے  ،کواتار دےاور دیکھے کہ اس کے اندر کیاپوشیدہ ہے۔میں کون ہوں۔مجھے سمجھنے کی کوشش کرو اور کوئی  میری طرح نہیں سوچتا۔اگر لوگ میرے اندر جھانکیں گے تو میری کیفیت دیکھ کر ان پردہشت طار ہو جائے گی۔میرے اندر جتنا درد ہے،جتنی تکالیف ہیں جان پائیں گےتوان پرلرزہ طاری ہوجائے گا۔میرے جسم میں  صرف خون دوڑ رہاہے،کھال ہے اور گوشت ہےجوہر شئے سے بے حس ہےنر کاغلبہ ہے اور مادہ پس رہی ہے

 وہ کہتی ہے۔

 

The nose, the eyes pits…balls

The full set of teeth

The sour breath

Will vanish in a day

Soon, soon the flesh

The grave cave ate will be

At home on home

 

 ناک بند ہے ،آنکھیں، دھنسی ہوئی  ہیں۔کرہ چشم میں ڈیلے ابل رہے ہیں۔پورے کے پورے دانت  فوراً ہی گل سڑجائیں گے۔جسم اور جلدخالی خول رہ جائے گی              اور اذیت ہی اذیت  رہ جائے گی۔میری روح ختم ہوچکی ہے جبکہ جسم ختم ہونے والا ہے۔

And like the cat, I have nine times to die

This is Number three

What a rush!

To annihilate each decade

What a million filaments

The Peanut. Crunching crowd

Shoves in to see

بلیوں کی نو جانیں ہوتی ہیں ۔آٹھ بار مرنے کے بعد وہ دوبارزندہ ہوتی ہیں اور نویں بار مرنے کے بعد ہی وہ مرتی ہیں۔ میں تیسری بار  خود کشی کرنے جارہی ہوں۔لگتاہے کہ مجھے کامیابی کے لئے مزید  کوششیں کرناپڑیں گی۔میری عمر اس وقت صرف تیس سال ہے۔ایک طرف ظاہری شکل و صورت ہے جس میں  میراجیتاجاگتا جسم ہے لیکن  میری روح ختم ہوچکی ہے۔ وجود کااحساس ختم ہورہاہے۔لوگ کہتے ہیں کہ میری مرنے کی عمر نہیں ہے۔فطری موت دور ہے۔بلی کی طرح اپنی موت کےلئے  مجھے مزید کوششیں   کرناہوگی۔مجمع نے مجھے تنگ کیاہواہے۔مجھ میں خواہ مخواہ کی پریشانی کھڑی کی ہوئی ہے۔

Gentlemen, ladies

These are my hands

My knees

I may be skin and bone

Nevertheless, I am the same

Identical woman

The first time it happened

I was ten

It was an accident

سلوییا  کہہ رہی ہےکہ میں وہ ہوں جس کی ہستی موت کے بعد بنائی گئی تھی۔ مرا ہوالیزارس  اپنے لباس میں تھا   لیکن  اسے دوبارہ زندہ کیاگیاتھا۔اسے ایک بارپھر نئی زندگی دے دی گئی تھی۔

نئی زندگی  اسے آرام دینے کے لئے نہیں بلکہ اس کے ساتھ کھیلنےاور اذیت دینے کے لئے دی گئی تھی۔میں اپنے گھٹنوں، ہڈیوں،کھال  دیکھ  رہی ہوں اور محسوس کرتی ہوں  کہ طبعی لحاظ سے  زندہ ہو ں لیکن  وہ زندگی  اسے کوئی خوشی نہیں دےرہی ۔میں مرکر نروان چاہتی ہوں۔لیکن میں  خودکشی میں ناکام ہوگئی ہوں۔میں زندہ بچ گئی ہوں اور   ویسی کی ویسی ہوں جیسے خودکشی کی ناکام کوشش سے پہلے تھی۔اس کا مجھے دکھ ہےکہ میں پہلے جیسی ہی ہوں۔میں  اب بھی پہلے کی طرح ہوں ۔مجھ میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔مجھے  اتنی ہی کوفت ہے جتنی پہلے تھی۔

ached shut

As a seashell

they had to callcall

And pick the worms off me

Like sticky pearls

Dying

Is an art, like everything else?

Does it exceptionally well

 

سلوییا کہتی ہے کہ میں اسی طرح کی اذیت میں  مبتلاہوں۔جب میں نے پہلی بار مرنے کی کوشش کی تو میں اس وقت دس سال کی تھی اور یہ ایک حادثہ تھا۔میرا باپ اس دنیاکوچھوڑگیاتھا۔اس کی لاش میرے سامنے پڑی تھی۔ یہاں  اس نے لاشعوری طور طور پر خود کواپنے والد سے ملالیاتھا۔وہ قبر میں اس کی لاش کے ساتھ لیٹ گئی  اور خودکشی کی کوشش کی۔لیکن اسے بچالیاگیا

It’s easy enough to do it in a cell.

It’s easy enough to do it any stay put.

It’s theatrical.

اپنے نکتے پرزور دینے کے لئےاس نے یہ بات کہی کہ مجھے محسوس ہواکہ میری زندگی کاکوئی مقصد نہیں۔آزادی صرف مرنے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔جب تک میں موت سے دوررہوں گی ،میری روح قید ہی رہے گی۔یہ لیمپ کاشیڈجو دوسروں کی لاشوں سے بنایاگیاہے  وہ مجھے ناقابل قبول ہے۔میں مرنے کے بعد کسی کی عیاشی کاسامان نہیں بننا چاہتی۔

Comeback in broad day

To the same place, the same face

The same brute

Amused shout

زندگی کا یہ حصہ  بڑا گھناؤناہےکہ مجھے واپس لایاگیاہے اور موت کے منہ سے کھینچ لیاگیاہے تاکہ میں اس دنیاکے مکروہ چہرے کوپھر سے دیکھ سکوں۔روز مرہ عام زندگی مجھے خوفزدہ کررہی ہے۔وہی درد،وہی  بدبخت جوانی اور وہی زندگی کے جھمیلے ہوں گے۔

A miracle!

That knocks me out

There in a charge

یہ سب باتیں میرے دماغ کو چوٹ پہنچاتی  ہیں ۔ایسے لوگوں پر مقدمے قائم کرنے چاہیئیں جو دکھوں ،مصیبتوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔لوگ آتے ہیں۔میرےزخم دیکھتے ہیں ۔جاننا چاہتے ہیں کہ میں کیا محسوس کررہی ہوں۔ہم جیسے لوگ ان  کامذاق بن کے رہ گئے ہیں۔ایسے ٹھٹھہ اڑانے والوں کوجرمانہ کیاجاناچاہیئے اور ان پر تحقیق کی جانی چاہیئے۔

And there is a charge

 a large charge for a word or a touch

or a bit of blood

 

ایسے لوگوں کوالزام دیناآتاہے۔ان کا یہی مقصد ہے۔میری روح   قصر عنصری سے پرواز کررہی  ہے۔میں ان سب پرالزام لگاتی ہوں کہ وہ سب میری اذیت کے ذمہ دار ہیں۔

Or a piece of my hair or my clothes

So, so, Herr Dokter

So, Herr Enemy

میرا سب سے بڑامجرم ڈاکٹر ہے جس نے مجھے بچایاہے۔وہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔وہ مجھے نروان حاصل کرنے نہیں دیتا۔

I am your opis

I am your valuable

The pure gold baby

میرا جسم بہت زیادہ بڑھ چکاہے۔اس لئے میں ان کے لئے اہم شئے ہوں۔

Do not think I underestimate

Your great concern

Ash, ash….

You poke and stir

Flesh, bone, bone

there is nothing there

A cake of soap

A wedding ring

A gold filling

موت تو کچھ بھی نہیں ۔اس کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔وہ کوئی ایسی شئے نہیں  جس پر غصہ کیاجائے۔میراموازنہ ہیرے جواہرات کے ساتھ کیاجاتاہے۔میرا جسم مردوں کے استعمال کی چیز ہے۔میری روح میرے جسم سے پرواز کر چکی ہے۔وہ طبعی جسم سے بچھڑ گئی ہے۔میرے جسم میں اب جوبچاہے وہ لیمپ کاشیڈ یا اس طرح کی دیگر اشیاہیں جومیری ہڈیوں سے بنالی جائیں گی۔

Herr God, Herr Lucifer

Beware, Beware

Out of the ash

I rise with my red  air

And I eat men like air

وہ عورتوں کو تنبیہ کررہی ہےکہ تمہارے اندر شیطان سماگیاہے۔خدا، آدمی  سب کے سب نر ہیں۔ان سے دور رہو۔مرد عورتوں پر حاوی ہیں اسلئے تمہیں ترقی نہیں کرنے دی۔تم ان سے پیچھے رہ گئی ہو۔ہوسکتاہے کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ پیداہوجائیں اور مردوں سے اپنی مظلومیت کابدلہ لیں۔انہوں نے خواتین  پر بہت ظلم کیاہے۔ان کوجسمانی اور روحانی  اذیتوں میں مبتلاکئے رکھاتھا،ان سے ان تمام مظالم کابدلہ لینابنتاہے۔

تبصرہ

اس نظم میں شاعر نے   سلوییا کی  داستان بیان کی ہے جو   معاشرتی، معاشی اور  ریاستی جبر و استبداد کی دہائی دیتی ہے۔اس کو شکائت ہے  کہ نر کو مادہ پر سبقت حاصل ہے۔وہ اپنی برتری قائم و دائم رکھنے کے لئے خواتین کو محکوم بنا کر رکھتے ہیں۔ وہ  ظالم حکمرانوں کے خلاف ہے جو اپنے حریفوں کو قتل کرکے ان کی کھالیں اتروا کر ان کی ایسی اشیابناتے ہیں  جو آرائش کے طور پر استعمال کی جاسکیں ۔ظالم    بے بس  مقتولوں  کی کھالوں سے ٹیبل لیمپ کے شیڈ  ، میک اپ  ور دیگر اشیا بناکر اپنے گھروں اور خود کو سجا کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔سلوییا ان کے ایسے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔وہ حق اور سچ پر ہے۔وہ کمزورہے۔تمام تر خواہشات اور وسائل  اورارادوں کے باوجود  وہ ان فرعونوں کی قوت  کے سامنے لاچار ہے۔اس لئے وہ مرناچاہتی ہے اور  ایسی موت کی خواہش مند ہے جو بعدکی زندگی  میں انسانیت کی خدمت کرسکے۔اس کی تمنا ہے کہ مرنے کے بعد دوبار زندہ ہو اور وہ   لیزارس موریل کی شکل  ہو  جو مقدس انجیل میں ایک  مرد ہے اور جس کی خصوصیت یہ ہے کہ  وہ مردوں کا زندہ کر سکتا ہے، بیماروں کو صحت  یاب  کر سکتاہے ۔ معاشی اور سماجی تفاوت دور کرسکتاہے جو حضرت عیسیٰؑ   کانام  مبارک ہے۔ لیکن وہ جو طریقہ اپنا کر دنیائے فانی سے کوچ کرنا چاہتی ہے وہ غلط ہے۔اس کا مقصد اور محرکات تو صحیح ہیں مگر طریقہ  تصحیح طلب ہے۔وہ یزیدوں کے مظالم کے خلاف نابرد آزماہےلیکن  ان کے آگے ڈٹنے کی بجائے راہ فرار اختیار کر  رہی ہے۔

فرعون ، یزید، شمر ہر دور میں  پائے جاتے تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔وہ استحصال کرکے  مرجاتے ہیں تو ان کے حصے میں  زندگی بھر لعنتیں   آتی ہیں ۔وہ  فانی ہوجاتے ہیں لیکن ان کا مقابلہ کرنے والے  دائمی شکل  اختیار کرتے ہیں - جیسے   حضرت موسیٰ  ،حضرت  یسوع مسیح اور دیگر حق پرست  زندہ رہے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔وہ داخلی ہیں۔یزید جیسے سفاک  لوگ اپنی طرف سے کربلا بلاکر اپنے مکروہ عزائم کو پورا تو  کرلیتے ہیں  لیکن ان کے مظالم پر رہتی دنیا تک نحوست  برستی رہتی ہے۔حسینیت ہمیشہ  غالب ہوجاتی ہے۔یزید صرف انتالیس سال زندہ رہا ۔اس نے  سوچا   کہ حق پرستوں     کو شہید کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرلے گا لیکن  حسینیت  نے اپنی امت کو  سچی  راہ دکھائی اور اپنے سروں کانذرانہ  پیش کرکے   مومنوں کو مشعل راہ دکھائی اور بتایا کہ اصول پرستی کانظریہ ہمیشہ کامیاب ہوتاہے۔وہ ابد تک رہتاہے اور باطل مٹ جاتاہے۔حسینیت ابیض، صادق  اور امین ہے۔یزیدیت مکار، وحشی، جھوٹی، گھمنڈی ،اسود،باطل اور خارج ہوتی ہے۔حسینیت اور یزیدیت  کے نظریات  کاتصادم رہے گا۔وقتی طور پر اسود ، اارزل،اسفل السافلین  کامیاب ہوسکتی ہے لیکن  ہمیشہ اپنی جھولی میں نفرت  اور ذلت   ہی سمیٹتی ہے۔ہر عاشورہ پر ان کی یاد سے ایمان اور عزم تازہ ہوجاتاہے۔


Popular posts from this blog