بلا اشتعال خنجر زنی کا مقابلہ - جارج لوئس بورگز


 

  بلا اشتعال   خنجر زنی کا مقابلہ     

Man on the Pink Corner

Jorge Luis Borges

Nobel Laurette

مترجم :  غلام  محی  الدین

میں ایک لکھاری ہوں اور نت نئے موضوعات  کی تلاش میں رہتاہوں۔ یہ کہانی ایک بے نام شخص  کی ہے جس کاراوی  میں خود ہی ہوں ۔یہ واقعہ  ایک شاندار عمارت 'سانٹا ریٹا'کے نائٹ        کلب میں پیش آیا جہاں  چاروں  طرف رنگ و بو کی بہار چھائی ہوئی تھی۔کال گرلز چاروں  طرف پھدکتی  پھر رہی تھیں۔کچھ  تو    شراب نوشی   میں مشغول تھیں ، کچھ   اس علاقے کے قدیم    مقبول  ڈانس  'ٹانگو'  میں مگن تھیں  اور کچھ    اپنے شکار کی تلاش میں تھیں۔میں   بھی اس محفل کا حصہ تھا اور ایک ایک لمحہ  بھرپورانداز میں گزار رہاتھا۔محفل اپنے عروج پرتھی کہ ایک  اجنبی مکمل سیاہ لباس میں ملبوس   دندناتا ہوا اندر آ یا۔اس کی تقلید میں بہت سے مسلح افراد  داخل ہوگئے۔ وہ اس گروہ کا  سربراہ تھا اور باقی اس کے  اراکین۔اس نے اپنا نام 'فرانسسکو رئیل '   اور  لقب 'یارڈ ماسٹر ' بتایا۔ وہ               ان غنڈوں  کاسردار  تھا۔اس نے مست ماحول میں دخل در معقولات کی اور  مجھے اور دیگر شرکا کو حقارت سے  دھکیل کررعونت سے کہا ،                           '           میں بیونس ایرز  کے شمالی علاقے سے آیاہوں۔امیرا نام  فرانسسکو ہے اور میں یارڈ ماسٹر ہوں ۔اپنے گروہ کا سردار ہوں اور انکی حفاظت  اور مفادات کا محافظ ہوں ۔ میں  اس علاقے میں اپنی دھاک جمانے اور اپنی سرداری  کی وسعت کے لئے آیاہوں ۔میں  ایک ماہر خنجر زن ہوں اور  عوام الناس  کو عمومی اور  یہاں کے سب سے بڑے             ماہر  کو مقابلے کی دعوت دیتاہوں۔میں تم سب لوگوں کو للکار رہاہوں  کہ اگر تم  میں سے کسی میں  بھی جرات ہے تو مجھ سے  خنجر زنی کا  مقابلہ کرے ۔مجھے پتہ چلاہے کہ یہاں   کا سردار بھی موجود  ہے جو خود کو  طرم  خاں سمجھتا ہے اور 'دا                             سٹکر' کے لقب سے نوازا جاتاہے یا لوگ اسے 'روسینڈو ریئل  ہواریز' کے نام سے پکارتے  ہیں۔ اگر  کسی کو میری بہادری  اور میرے گروہ کی طاقت پر شک ہے   تو ابھی میرے سامنے آئے اور  مقابلہ کرے۔  اس وقت  تو میں اپنے گروہ کو آگے نہیں لارہا بلکہ میں خود ہی سامنے آرہاہوں۔میں دعویٰ کرتاہوں ،جو بھی میرے مقابل آیا ،میں اسے کاٹ کر رکھ دوں گا۔'

 روسینڈو                     ہواریز  اس علاقے کے  قانون شکنوں   کا سردار تھا  وہ اس وقت اپنی محبوبہ کے ساتھ مست تھا۔  یارڈ ماسٹر کی اکسانے والی   ، متکبرانہ    باتوں  پر   اس نے مکمل ضبط کا مظاہرہ کیا ۔اس کا موڈ  اس وقت کسی سے لڑائی کا نہیں تھا  ۔ وہ  خاموش بیٹھا رہا۔ اس کی محبوبہ کو اس کا اس طرح سے چپ رہنا ، نہ بھایا۔ وہ اسے   بہادر اور خنجر زنی میں یکتا سمجھتی تھی۔ روسینڈو  کا  یارڈ ماسٹر کی دھمکیوں پر خاموش رہنا اس کی نظر میں  ذلت کی علامت تھی۔ اس نے روسینڈو کو بار بار اکسایا کہ یارڈ ماسٹر کا چیلنگ قبول کرکے اسے مزا چھکائے ۔ اسے  یقین  تھا کہ اس کا عاشق یارڈ ماسٹر کو قتل کرکے مقابلہ جیت لے گا۔ہواریز  کی معشوقہ کانام ' لا  لوجانیرا' تھا ۔وہ ارجنٹائن کی سب سے خوبصورت  دوشیزہ تھی ۔ روسینڈو   ہواریز            نے اس وقت  فرانسسکو        یارڈ ماسٹر سے لڑنے کی بجائے                     نفرت سے اپنا خنجر کھڑکی سے باہر پھینک   دیا اور اپنی  ہار مان کرکے یارڈ ماسٹر  کی حکمرانی تسلیم کرلی  اور نائٹ کلب  چھوڑ کر نکل گیا۔' لا  لوجانیرا' کو  یہ بات نہیں بھاتی۔ اس کے نتھنے سکڑ گئے  اور  اس نے اسے حقارت سے دیکھا۔وہ اس کے معیار پر پورا نہ اترا۔   اس پرہواریز کے مخالف             یارڈ ماسٹر  نے قہقہہ لگایا۔ جواریز کی  ڈرپوکی پر وہ اسے نفرت سے  برابھلا کہنے لگی ۔ وہ چونکہ وہاں کے سردار کی داشتہ تھی اس لئے یارڈ ماسٹر نے اس پر اپنا حق جتایا  اور اتراتے ہوئے اس کےپاس آگیا  اور اس کے گلے میں اپنے بازو حائل کردیں  جس  کی دعوت اس نے قبول کرلی اور ' لا  لوجانیرا'  یارڈ ماسٹر  کے ساتھ خوشی سے  نتھی ہوگئی ۔ ' لا  لوجانیرا'  اپنے عاشق روسینڈو    ہواریز سے فوراً            ہی  بے وفائی کر لی  اور یارڈ ماسٹر کی ہر غیر مناسب حرکت پر اس کا ساتھ دینے لگی۔وہ اس کے سامنے    روسینڈو         کی   خواہیاں  کرنے لگی   اور  اسے نامرد   کہا ۔یارڈ ماسٹر کے سر پر شہوت  سوار  تھی ۔ وہ اسے لے کر ہال سے باہر چلا گیا۔

میں یہ تمام معاملہ دیکھ رہاتھا۔ مجھے یارڈ ماسٹر کے متکبرانہ رویے پر رنج ہوا۔ میراا س معاملے میں کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن اس کی  ہم جنوب والوں  پر حقارت سے مجھے دکھ ہوا۔' لا  لوجانیرا'   یارڈ ماسٹر سے رنگ رلیاں منانے چلی گئی۔ جب یارڈ ماسٹر اس کی کمر کے گرد ہاتھ ڈال کر چلاگیا تو مجھے حسینہ  کے عمل پر شدید ندامت اورشرم  محسوس  ہوئی۔

  تھوڑی دیر بعد  فرانسسکو رئیل  یارڈ ماسٹر شدید زخمی  حالت میں  کلب میں  داخل ہوا۔ اس   کی چھاتی میں خنجر گھونپاگیاتھا۔اس کا خون بہہ رہاتھا۔وہ ضرب اتنی گہری  تھی   کہ اس کی  جان جانے کا  پورا خطرہ تھا۔ ' لا  لوجانیرا             '              یارڈ ماسٹر کے ساتھ ہی    زارو قطار روتی ہوئی اندر آئی۔

نائٹ کلب میں موجود  لوگوں  نے  حیرانی سے انہیں دیکھا۔ یارڈ ماسٹر  تکلیف سے بلبلارہاتھا۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر خون کے دھارے کو روکتاہوا  پورے ہال میں ایک طرف سے دوسری   طرف دوڑتے ہوئے جاتاتھا اور پھر واپس آتاتھا۔ خون کے پھوارے فرش پر گررہے ہیں۔جب لوگوں کو اس کی نازک حالت کاعلم ہوا تو ان میں سراسیمگی چھاگئی ۔ وجہ دریافت کرنے کے لئے لالوجوارینا سے استفسار کیاگیا تواس نے کہا  کہ ایک اجنبی شخص جو روسینڈو ہواریز نہیں تھا ،نے یارڈ ماسٹر کو کہا کہ وہ اس کے خنجر زنی کے مقابلے کے چیلنج کو قبول کرتاہے اور اس سے لڑنا چاہتاہے۔یارد ماسٹر نے خنجر نکالا تو پھرتی سے اس نے اس کی چھاتی پر زوردار ضرب لگائی  اور بھاگ گیا۔وہ  اجنبی اندھیرے میں آیااور کام دکھا کر  چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔

چونکہ آخری وقت  لالو  جانیرا  یارڈ ماسٹر کے ساتھ تھی  ، تو اس کے علاوہ کسی نے بھی اس واقعے کو نہیں دیکھا تھا اس لئے وہ صورت حال کی وضاحت کررہی تھی ۔ یارڈ ماسٹر کے لوگوں  نے اس پر الزام لگایا کہ اسی نے یارڈ ماسٹر کو قتل کیاہے۔میں نے بھی زور شور سے ان  کا ساتھ دیا۔  لالو جانیزا کی تلاشی لی گئی۔ اس کے لباس کا بڑے غور سے جائزہ لیاگیا تو اس کے کپڑوں پر خون کا کوئی داغ نظر نہ آیا۔ کسی نے پھر آواز لگائی کہ یارڈ ماسٹر کو اسی نے قتل کیا ہے جس سے  یارڈ ماسٹر کے ساتھی  مشتعل ہوگئے اور اس کی  تلاشی لینے لگے۔ انہوں نے اس کے جسم اور لباس کا ایک ایک حصہ چھان مارا  لیکن اس سے  آلہ  ء واردات  برآمد ہوااور نہ ہی اس کے لباس پر خون کا دھبہ ملا۔وہ غصے سے لال پیلے ہورہے تھے اور فوری انتقام لینا چاہتے تھے لیکن  انہیں بالکل  اندازہ نہیں ہو پارہاتھا کہ یہ واردات کس کی ہوسکتی تھی۔عواقب بتارہے تھے کہ وہ بے گناہ تھی ۔ جب لالوجانیراکے پلے سے کچھ نہ نکلا تو میں نے مشتعل ہجوم کو کہا کہ  وہ دھان پان سی لڑکی ہے جو یارڈ ماسٹر پر کسی طور غالب نہیں آسکتی  ۔اس سے کوئی ثبوت برآمد نہیں ہوا اور اس میں ہمت نہیں کہ وہ اتنی  گھناؤنی واردات کرسکے۔وہ بے گناہ  لگتی  تھی ۔ لالو جانیرا نے کہا کہ وہ جس طرح کی تسلی کرنا چاہیں کرلیں ۔وہ فرانسسکو رئیل یارڈ ماسٹر کے ساتھ شاندار وقت گزار رہی تھی اور وہ  بڑے رومانی   موڈ میں تھے کہ  یہ سانحہ پیش آگیا۔ اس دوران یارڈ ماسٹر فرش پر گر پڑااور تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کی کیفیت دیکھ کر سکوت  طاری ہوگیا۔ لالو جانیرا   کی حالت بگڑ گئی اور روتے ہوئے کہا ،' کیا جری جوان تھا جو کڑک دار آواز میں سب کوللکار رہاتھا  ،اس نے  روسینڈو کو          ڈرا کر مقابلے سے دست بردار کروا دیا تھا لیکن اب   یہ حالت ہے کہ وہ  خود سے اپنے منہ سے مکھیاں بھی نہیں اڑا سکتا۔

 یہ سب کیسے ہوگیا۔سب لوگ قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ غیر متوقع طورپر ان پر قیامت  آن پڑی۔اتنے میں انہیں   گشتی پولیس   کا ہارن سنائی دیا تو  وہ ہ چوکنے ہوگئے  اور قانون کے شکنجے  سے بچنے کی  تدبیر کرنے لگے۔ انہوں نے پولیس کے آنے سے پہلے اس جرم کے تمام نشانات مٹانے شروع کردئیے۔ یارڈ ماسٹر کوپوری طرح لوٹ لیا اور اس کی لاش کو ندی میں بہا دیا تاکہ فوری طور پر دیکھی نہ جاسکے۔

پولیس   روٹین کے گشت پر آئی تھی۔   جرائم پیشہ  افراد      کا مجمع دیکھ کر تفتیش  شروع کردی۔ہر ایک سے پوچھ گچھ کرنے لگی۔ یہ سلسلہ رات بھر جاری رہا۔پوپھٹنے سے پہلے  پولیس چلی گئ۔ نائٹ کلب کا ماحول نارمل ہو گیا۔ میں   رات  بھر  کے ہنگامے میں بڑھ بڑھ کر پولیس کاساتھ دیتا رہا اور   تھک  ٹوٹ  کر چور ہو چکا تھا۔ میری حالت خراب  ہوگئی ۔ میں لڑکھڑاتا ہوا  قدم بہ قدم اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھتا رہا۔گرتا پڑتا میں گھر پہنچا تو   لا  لوجانیرا'   نہادھوکر میک اپ کرکے میرا انتظار کر رہی تھی۔میں نے اپنی آستین سے اپنا چھپاہواخنجر نکالا ، اس پر  فرانسسکو ریئل یارڈ ماسٹرکا خون جم چکاتھا۔ میں نے اس  کے حقارت سے پیش آنے کا بدلہ  لے لیاتھا۔ یارڈ ماسٹر  کا گھمنڈ  اور حقارت آمیز رویہ  خاک میں ملادیاتھا۔ جنوب پر حکمرانی دوبارہ حاصل کر لی تھی اور  اور فرانسسکو کا لالو جنیرا کو حاصل کرنا مجھے اچھا نہیں لگاتھا۔فرانسسکو کومارکر میں  نے بدلہ بھی لے لیاتھا اور لالو جانیرا  پا لی تھی ۔  اب  وہ میری بغل میں تھی۔کب تک رہے۔۔۔پتہ نہیں۔

 نوٹ

یہ  افسانہ بورگزکی کتاب ' اے یونیورسل  ہسٹری  آف ان اکوئٹی ' سے لیاگیاہے۔یہ افسانہ بورگز کے ان افسانوں میں  سے ایک ہےجواس نے اس زمانے کے  خنجر آزمائیوں کے  مقبول مقابلوں پر لکھا ہے۔ ایسے مقابلے ان دنوں  ارجنٹینا   میں عام ہواکرتے تھے۔ایک دوسرے کو نیچادکھانےاور اپنی بہادری کاسکہ منوانے یا اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کئے جاتے تھے۔اگرچہ وہ  غیر قانونی ہوتے تھے لیکن  وہ اس  دور میں ایک روائت کے طورپر  خفیہ طور پر جاری و ساری  تھے اور عوام میں  ان مقابلوں کو پذیرائی حاصل تھی۔لوگ خنجر زنی   کی باقاعدہ تربیت حاصل  کیاکرتے تھے ۔اپنا خنجر اپنی آستین میں ایسے چھپاتے تھے کہ  دوسروں کی نظروں میٍں نہ آپاتاتھا۔اس واقعے کا میں چشم دید گواہ ہوں۔

اس افسانے کا پہلا حصہ 26 فروری 1927 میں  'پولیس لیجنڈ'  کے عنوان سے ایک جریدے 'مارٹن فئیرو' میں چھپا۔اس کے بعد وہ 1928 میں 'مون فائوٹ' کے  عنوان سے فرانسسکو کے نام سے اور تیسری بار یہ 'مین  آف نیبرہوڈ 'کےعنوان سے چھپااور پھر یہ 'اے یونیورسل  ہسٹری آف ان اِ کوئٹی  کا حصہ بنادیاگیا۔

س کہانی پر اسی عنوان سے 1962  میں  ایک فلم بھی بنائی گئی ہےجس کی کہانی کو تھوڑا بہت  تبدیل کردیاگیاتھااور کینز کے فلمی میلے میں اس کی نمائش بھی کی گئی اور تعریف کی گئی۔1970  میں 'دا مین آن  پنک  کارنر ' کے سلسلے کی ایک کہانی  روسینڈو  جوآریز کے نقطہ نظر سے بھی بیان 

کی گئی ہے جس میں اس نے اس واقعے کی تفصیل لکھی ہے۔


Life history

Gabriel Garcia   Marquez

Nobel Laureate (1982)

Columbia

1928-2014

 حالات زندگی

 گیبریل گارشیا مارکیوز  کولمبیا میں 1928  میں پیدا ہوا۔ اسے اس کے ننہال نے پالا۔  وہ   اپنی ادبی زندگی   کا سہرا  ان کے سر باندھتا ہے۔ اس  کی نانا  اور نانی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ نانی بچپن میں ایسی کہانیاں سنایا کرتی تھی جن میں  تخیلات پائے جاتے تھے ، وہ تفصیل میں نہیں جاتی تھی بلکہ اسے کہتی تھی کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق   اسے بیامن کرو اس لئے اس نے جو ادب تحریر کیا ہے اس کی تفصیل   کا بیان اپنے قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔  اس کا نانا  کولمبیا           کی جنگ آزادی میں  کرنل تھا۔  فوج نے اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ اسے اپنی جنگ کے قصے کہانیاں بیان کیا کرتا تھا جس نے اس کی سیاسی سوچ  اور نظریات قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ کمیونسٹ خیالات کا علمبردار تھا۔

گیبریل گارشیا ماکیوز کے واالد کا نام  گیبریل    ایلجی یو  گارشیا                                                     (Gabriel Elgio Garcia )اور والدہ کا نام لیوسا سیٹیاگا مارکیوز  Luisa Santiaga Marquez) )            تھا۔  وہ کولمبیا کے شہر آرا کاٹا کا (Aracataca) میں پیدا ہوا۔ اس نے ہائی سکول Barranquilla))   وہیں سے کیا

 یہ شہر سماجی سرگرمیوں کا مرکز    تھا۔ہر وقت تقریبات  ہوتی رہتی تھیں۔ 1947 میں اس نے     دارالخلافہ بگوٹا کی  نیشنل یونیورسٹی کولمبیا سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور  اس کے بعد وہ  بارینکیولا     واپس آگیا۔

اس کے افسانے 1948 میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔  اس نے 1957 میں Mercedes Barcha  سے شادی کی۔ وہ سیاحت کا شوقین تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ وہ کمیونسٹ ممالک، فرانس، میکسیکو  رہا۔ فیڈرل کاسٹر و   نے انقلاب کی کامیابی کے بعد اسے کیوبا بلایا۔ وو اس کا گہرا دوست تھا۔  اس نے تصانیف کے ساتھ صحافت میں نام کمایا۔ اس کا لقب  Gabo /   Gabito تھا۔کولمبیا  جرائم پیشہ لوگوں کا ملک تھا۔ منشیات فروشی اور اسلحہ کی سمگلنگ عام تھی اور اب بھی ہے۔ اس نے بدنام زمانہ منشیات کے سمگلر                 (                 ُPablo Escobara)پر  آرٹیکل لکھے جو اس زمانے میں بے تاج بادشاہ تھا۔اس نے بہت سی فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور ڈرامے بھی لکھے ۔ اس کے اعلیٰ ادب پر اسے  نوبل انعام ( لٹریچر)    کا 1982 میں حقدار قرار دیا گیا

اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Leaf   Storm  ( 1954),No One Writes to the Colonel   ( 1962-66),One Hundred Years of Solitude ( 1967)

Autumn of The Patriach  (1979-81),Chronicles Of  A Death Foretold  (1982),Collected Stories of Garcia Marquiz (1984)

یہ کہانی Collected Stories of Garcia Marquiz     سے لی گئی ہے۔                    ۔ اوہ 87 برس کی عمر میں 2014 میں فوت ہوا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ   نسیان کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اور نمونیا  سے فوت ہوا۔


Popular posts from this blog