خاتمہ بالخیر End of The Game By (Julio Cortazer (1914-1984






خاتمہ بالخیر
 End of The Game
 By
 (Julio Cortazer (1914-1984
Argentina
 

پیش کار:  غلام محی الدین 





یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔  کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتا۔  عہد بچپن بھی کیا حسین ترین تھا۔  کاش وہ کبھی پلٹ آتا۔  اگرچہ اس دور کی واپسی ہمارے بس میں نہیں لیکن کم از کم اسے یاد کر نے کا حق تو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔  رہ  رہ کر مجھے وہ لمحے یا د آرہے تھے جو میں نے’لٹیشیا‘ اور ’ہالینڈا‘ کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے گزارے۔  اپنی والدہ اور خالہ’رُوتھ‘ کے ساتھ ہم ایک چھوٹے سے گاؤں ’لوزا‘  میں رہتی تھیں۔  تیرہ چودہ کے پیٹے میں تھیں اور ہمارے مشاغل اماں اور خالہ سے سراسر مختلف تھے۔  وہ ہم پر اپنے بڑ ے ہونے کا ہر وقت رعب جماتی رہتی تھیں اورر ہم ہر ممکن کو شش کرتیں کہ ان کی بات کو رد کیا یا  ٹال دیا جائے۔  تاش، اڈا کھڈا، آپوٹاپو، میک اپ، لڑکوں کے ساتھ کھیلنے اور دیگر مروجہ مرغوب کھیلوں پر مکمل پابندی تھی۔  پر آنکھیں چرا کر موقعہ بنا کر ہم پھر بھی کھیلتی تھیں۔  وہ ہمیں خانگی کام کاج، کھانا پکانا، کپڑے سینا اور سگھڑ پن کی تربیت حاصل کرنے پر زور دیتی تھیں جو ہمیں ز ہر آلود لگتے تھے اس لئے ہم ان سے ناخوش رہتی تھیں۔  کبھی کبھی ہم اپنی بات منوا بھی لیا کرتی تھیں جیسے کہ ہم نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ ا ماں اور خالہ کھانا بنا کر برتن خود دھودیا کریں اور ہم انہیں خشک کر دیا کریں گی۔  ہم نے برتن نہ دھونے کا بہانہ یہ بنایا کہ صابن سے ہمیں ا لرجی ہو جاتی تھی تو انہوں نے ہماری ڈیوٹی دھلے ہوئے برتنوں کو خشک کرنے پر لگا دی۔  اس کے علاوہ کمروں کی صفائی، بستر کی چادریں سیدھی کرنے اور دھلے ہوئے کپڑوں کو سکھانے کے لئے ڈالنے اور اتارنے کی ذمہ داری بھی ہمیں سونپ دی گئی تھی۔  علاوہ ازیں ان کی بلی جس کا نام’جوز‘ تھا، کو نہلا نا بھی ہمارے ذمے تھا۔  کھانے کے بعد وہ قیلولہ کیا کرتی تھیں جو ہمارے کھیلنے کا  وقت ہوتاتھا۔
         
 ہالینڈا ا ور میں دوپہر کھانے کے فوراً بعد ماں ا ور خالہ روتھ کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق دھلے ہوئے برتن خشک کیا کرتی تھیں جب کہ لٹیشیاکی موجیں تھیں۔  اسے شہزادیوں کی طرح تمام کاموں سے چھوٹ دے دی گئی تھی۔  ہالینڈا اور میں دونوں نچلی منزل کے ایک ہی کمرے میں سوتی تھیں جب کہ لٹیشیا کو بالائی منزل پر الگ کمرہ دیا گیا تھا۔  اسے پوری آزادی تھی کہ جتنی دیر چاہے بستر پر رہے، جتنا مرضی  پڑھے اور رات کو جب چاہے سوئے۔  اس کو سردیوں میں نہانے کے لئے گرم پانی دیا جاتا تھا۔  جب اس کا دل کرتا اسے گرم گرم یخنی دی جاتی۔  وہ ہم تینوں سے پستہ قد اور دبلی پتلی تھی۔  ہالینڈا بھی دبلی تھی لیکن اتنی نہیں۔  میراوزن ایک سو دس پونڈ سے کبھی نہیں آگے گیالیکن لٹیشیا اتنی کمزور تھی کہ دائیں بائیں گردن بھی بڑی مشکل سے گھما پاتی تھی یا ہمارے گھر لوزا ہاؤس کے آئرن سٹینڈ کی طرح کھڑی رہ سکتی تھی۔   وہ ہماری طرح چاک و چوبند نہیں تھی کیونکہ وہ فالج زدہ تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے بستر پر ہی رہتی تھی۔  چلتی تھی تو رک رک کر۔  ہم اس پر کڑھتی تو تھیں مگر ہمیں اس سے پیار بھی بہت تھا جس وجہ سے اس کے استحقاق کو تسلیم کیا ہو اتھا۔  ویسے وہ بے حد پتلی اور لاغر ضرور تھی لیکن ہم دونوں سے خوبصورت تھی۔

جب ہم اماں اور خالہ کی چیرہ دستیوں سے اکتائی ہوتیں تو ہم ان کو چڑانے کے لئے نہلانے کے بہانے ان کی بلی پر کھولتا ہوا پانی ڈال کر اس کی چیخیں نکال دیتیں۔  خالہ اور اماں کی آنکھوں میں خون آجاتا اور غیض و غضب سے لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جاتیں اور ہم بھاگتے ہوئے ان سے معافی مانگ رہی ہوتی تھیں۔  وہ شدید غصے میں طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہوئے ہمارا پیچھا کرتی رہتیں۔  انہیں اپنی طرف دھاوا بولتے ہوئے دیکھ کر ہم قلابے مار کر باہر کا دروازہ کھول کر اتنے زور سے بند کرتیں جیسا کہ آندھی سے ہو تا تھا۔  دروازے کا کھڑاک اس وقت ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔  وہ کہتی رہتیں کہ وہ ہمیں ریل کی پٹٹڑیوں تک بھی آ کر دبوچ لیں گی لیکن پھر تھک ہار کر بیٹھ جاتی تھیں۔  ہم سرپٹ بھاگتی ہوئی برآمدہ سے گز ر کر باہر گلی میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتی ہوئی اپنی محبوب جگہ ریل کی پٹٹریوں کے سلسلے پر پہنچ جاتیں جو ہماری سلطنت، آزادی کا مقام اور کائنات تھی۔  ہم وہاں کچھ دیر کے لئے رکتے اور انتظار کرتے جب تک ہمارے اندازے کے مطابق بلی کی جلد کی جلن کم ہو گئی ہو گی اور وہ لیموں کے پیڑ تلے جمائیاں لے رہی ہو گی۔  اس وقفے کے بعد ہم واپس لوٹ آتیں۔  تب تک اماں اور خالہ کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو چکا ہوتا تھا۔  یہ شرارت ہم صرف اس وقت کرتی تھیں جب ہم نے اماں اور خالہ کو تنگ کرنا ہوتا تھا۔
حسبِِ معمول دوپہر کے کھانے کے بعد اماں اور خالہ برتن دھو کر قیلولہ کرنے چلی جاتیں۔  ہالینڈا اور میں برتن خشک کر کے کھیلنے چلی جاتیں۔  اس دوران ہمارے  پسندیدہ ترین کھیل ’سٹیچو‘(روپ۔ بہروپ)  اور ’ایٹی ٹیوڈ‘ (رویہ۔ ایکٹنگ) تھے۔  سٹیچومیں مجسمہ،دیوی، ہیروئن، بہروپ، روپ بھرنا وغیرہ ہوتا تھا جبکہ ایٹی ٹیوڈمیں مختلف روپ کے کرداروں کی ایکٹنگ کرنا ہوتاتھا۔  سوچ بچار سے فیصلہ کیا جاتا تھاکہ ریت میں کس مقبول کرداروں، د یومالائی دیویوں دیوتاؤں، ہیروئنوں، دشمن، ظالم وغیرہ کا کردار منتخب کرجائے گا۔  پھرچنندہ کردارکی جسمانی ساخت، حلیہ بشرہ، ملبوسات، زیورات اور میک اپ کرنے والے کو سٹیچو کہا جاتا تھا۔  اس کردار کو اس کی شخصیت کی خصوصیات کے مطابق سجایا جاتا تھا۔  جنگی ہتھیار یا خوبصورتی کی منا سبت سے میک اپ کیا جاتا۔  اور پھر سٹیچو کے کردار کا اظہار ایکٹنگ کر کے   اور سٹیچو کی شخصیت کو اپنے چہرے کے تاثرات اورلب و لہجے کے اتار چڑھاؤ سے اس کی عکاسی کر نے والے کو ایٹی ٹیوڈ (ایکٹریس) کا نام دیا جاتا تھا۔  جبکہ تیسری لڑکی ان دونوں کا جائزہ لیتی کہ باقی دونوں نے اپنی ذمہ داری کو کیسے نبھایا۔  کس نے بہروپیہ بننا تھا اور کس نے ایکٹریس۔۔کا انتخاب قرعہ اندازی سے کیا جاتا تھا۔  ہم تینوں سٹیچو کو سجانے اور ڈائیلاگ سازی کے لئے مشورہ کیاکرتی تھیں۔  میری اور ہالینڈا کی یہ روٹین بن گئی تھی کہ کھیل سے ایک دن پہلے ہم برتن خشک کر نے کے دوران تفصیلی منصوبہ بازی لیتی تھیں کہ کس شخصیت کا انتخاب کرنا ہے تاکہ اس میں استعمال ہونے والی اشیاء تیار کر سکیں۔  ہیروئن کے کردار کے لئے جو بھی منتخب ہوتی وہ اپنی مرضی سے سجاوٹ کا انداز منتخب کرتی۔  لباس،حلیہ، نقش و نگار، میک اپ، زیورات کے استعمال کے بارے میں اپنی پسند ناپسند بیان کرتی اور دوسری دونوں اس کی بہتری کے لئے اپنی تجاویزپیش کرتیں جو بحث کے بعد فائنل کی جاتی تھیں۔  ہم یہ کھیل ریل کی پٹٹریوں کے پاس جا کر کھیلتی تھیں۔

پٹڑیوں کے آس پاس اونچی نیچی بجری بچھی ہوئی تھی اور بہت سے چوراہے تھے۔  سرکنڈے، جڑی بوٹیاں سے بھراایک ٹیلہ تھا جس میں ایلومینیم، ٹین اور دیگر دھاتوں کی مختلف رنگوں کی پتریاں او ر نیلے، پیلے، قرمزی، سرخ اور قوس و قزح کی طرز کے چھوٹے موٹے پتھر تھے جو سورج کی روشنی میں نادر ہیرے جواہرات کی طرح چمکتے تھے۔  اس ٹیلے کی اونچائی اتنی تھی کہ ہم اس پر چڑھ کر ریل جتنا اونچا ہو جاتی تھیں لیکن ہم اس پر چڑھنے کا خطرہ مول نہیں لیتی تھیں کیونکہ وہ جگہ گھر سے صاف نظر آتی تھی۔  اس پٹریوں کی بجری کے کنارے ہمارے چہرے دھوپ سے تمتما رہے ہوتے تھے۔  ہماری گالوں اور کانوں سے گرمی پھوٹ رہی ہوتی تھی پر ہم وہاں خوشی سے چوکڑی مار کر بیٹھ جاتی تھیں۔  یہ کھیل ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔  ہم ایک دوسرے کے چہرے دیکھتیں اور مقابلہ کرتیں کہ کس کے چہرے پر زیادہ پسینہ تھا۔  پھرکچھ دیر بعد کھیل ختم کر کے خاموشی سے ریل کی پٹٹریوں کو دیکھتی رہتیں جو دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔  دوسری طرف ایک دریا بھی تھا۔  ہم اس دریا کو بھی دیکھتی تھیں جس کی رنگت کافی اور کریم جیسی تھی۔

 لٹیشیا حقیقت میں ہماری شہنشاہ تھی۔  ہم نے اس کی یہ حیثیت دل و جان سے قبول کر لی تھی۔  اس کی ایک و جہ یہ تھی کہ والدہ اور خالہ نے سختی سے تاکید کی تھی کہ اسے تنگ نہ کیا جائے لیکن ہالینڈا اور میں اس سے محبت بھی کرتی تھیں۔  وہ جو بھی صلاح دیتی، ہم اس پر کوئی اعتراض نہ کرتی تھیں۔  وہ بہت ہمدرد اور پیاری سہیلی تھی اس لئے وہ ہمارے دلوں پر راج کرتی تھی۔  گرمیاں ہوتے ہی وہ ہماری کھیلوں کی قائد بن جاتی تھی۔  ہماری کیپٹن ہوتی تھی۔  قرعہ اندازی سے سٹیچو اور ایٹی ٹیوڈ کے انتخاب کے بعد ملبوسات اور میک اپ تو گھر سے ہی تیار کرکے لے آ تیں جبکہ ٹیلے کی رنگ برنگی اشیا ء اور ارد گرد بید کے درخت کے پتوں اور ٹہنیوں سے ہی ہم کرداروں کے زیورات بناتیں اور انہیں سجاتیں۔  پھر ہم ان زیورات کو اپنے جیولری باکس میں سنبھال کر رکھ لیتیں۔
          
سوجو کہانی میں بیان کر رہی تھی، کے بارے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتی کہ وہ ہمیشہ ہی دلچسپ ہوتی تھیں۔  ہم پر یہ کھیل کھیلتے کبھی کبھی یکسانیت بھی طاری ہو جاتی تھی جس سے ہم بوریت محسوس کرنے لگتی تھیں۔  تاہم یہ کہانی اس دور کی تھی جب ہم پورے ذوق شوق سے اس کھیل سے محظوظ ہو رہی تھیں۔  اس دن ہم جو کھیل کھیل رہی تھیں اس میں ہیروئن کو لازماً اپنے قدموں میں اس وقت تک کھڑا ہونا پڑتا تھا جب تک کہ دو بج کر آٹھ منٹ والی ٹرین گزر نہ جائے۔  ٹرین کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہم میں سے جو اپنے اپنے کردار کی ادا ئیگی میں مصروف ہوتیں ِ، ایک لمحے کے لئے ہی ٹرین کی طرف دیکھ سکتی تھیں البتہ جو لڑکی باقی دونوں کی کارکردگی کو پرکھ رہی ہوتی تھی، چلتی ہوئی ٹرین کی کھڑکیوں کا جائزہ لے سکتی تھی۔  پہلے پہل تو کسی کو بھی اندازہ نہ ہو پاتا کہ ٹرین میں کیا ہو رہاتھا لیکن بار بارا دیکھنے سے کھڑکیوں میں بیٹھنے والے لوگوں کی سرگرمیاں سمجھ میں آنے لگیں۔  ایک لڑکا جس کے سر کے بال سنہری تھے اور کچھوے کی اوپری حصے کی طرح سخت تھے،ہمیشہ کھڑکی سے سر نکال کر اپنا رومال ہلایا کرتا تھا۔  وہ ٹرین سکول کے بچوں سے بھری ہوتی تھی جو ہمیں دیکھ کر شور مچاتے تھے۔

ایک دن جب ریل گاڑی کا دوسرا ڈبہ ہمارے پاس سے گزرا تو پہلی بار ایک کنکر ہالینڈا کے پاس آ کے گرا۔  دیکھا تو اسے ایک کاغذنظر آیا۔  وہ اس وقت ایک منفی کردار کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔  اس نے وہ  کاغذاٹھا کر میری طرف بڑھا دیا کہ میں دیکھوں اس میں کیا ہے۔  وہ کاغذ ایک لوہے کے پیچ پر لپٹا ہوا تھا۔  میں نے کھولا تو اُس پر بھدی تحریر میں لکھا تھا۔۔

’میں دوسرے ڈبے کی تیسری کھڑکی میں بیٹھاہوتا ہوں۔ ارئل۔بی‘۔

 ہم میں دلچسپی پیدا ہو گئی اور باہمی مشورے سے طے پایا کہ معلوم کیا جائے کہ وہ کون تھا اور کیا شئے تھی۔  دوسری طرف ہم اس بات سے پریشان بھی تھیں کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتاہو گا۔  ہمارے اذہان میں دور دور تک یہ بات نہ تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی رقعہ پھینک سکتا تھا۔  بہرکیف وہ رقعہ میرے پاس ہی رہا۔
         
اگلے روز متفقہ رائے سے لٹیشیا کو سٹیچو کا روپ بھرنے کے لئے چنا گیا۔  وہ اس کام میں ہم تینوں سے بہتر تھی۔  وہ جب بھی کوئی کردار ادا کر رہی ہوتی تھی تو وہ متانت سے اپنے چہرے کے تاثرات مجسمے کی خصوصیات کے عین مطابق بنا لیتی تھی۔  چونکہ اس کردار میں اسے اپنے جسم کو حرکت کم سے کم دینا پڑتی تھی تو وہ اکڑ کر کھڑی رہتی جس سے اس کے فالج کی وجہ سے اعضا ء کی کمزوریاں نظر نہیں آتی تھیں اور وہ بالکل تندرست و توانا لگتی تھی۔  اسے ہر طرح کے تاثرات پیش کرنے میں کمال حاصل تھا لیکن وہ ہر سٹییچو میں محبت کی دیوی کی طرح کے پاکیزگی، سخاوت، انکساری اور قربانی کے جذبات شامل کر دیتی تھی۔  اس روز اس نے   ’وینس ڈی نیلو‘ کا روپ دھارنے کا فیصلہ کیا۔  وینس ڈی میلو ایک دیوی ہے جو ہاتھوں سے معذور ہے۔  اس سٹیچوکی شخصیت کونکھار کے لئے خصوصی زیورات درکار تھے جو لٹیشیا نے اپنے تخیل سے بنائے۔  یہ سب اس نے اس ارئل۔بی کو متاثر کرنے کے لئے کیا تھا۔  ہم نے اسے سجانے کے لئے اس کے سر پر سبز رنگ کی چادر ڈالی جو لمبے کرتے کی طرح کی تھی۔  اس کے سر پر بید کے ریشوں سے بنا ہوا تاج رکھا۔  لٹیشیا نے اپنے روپ کو خامیوں سے پاک کرنے کے لئے درخت کے نیچے بار بار ریہرسل کی۔  ہم نے آدھے آستینو ں والی قمیضیں زیب تن کی ہوئی تھیں او ر بہت خوبصورت لگ رہی تھیں پرہالینڈا اور میں نے ارئل۔ بی کے سامنے نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تا کہ وہ صرف لٹیشیا کو اچھی طرح دیکھ لے۔

لٹیشیابہت با وقار لگ رہی تھی۔  جب ٹرین وہاں سے گزری تو وہ ذرا بھی نہ ہلی اور نہ گردن موڑ کر اسے دیکھا۔  اپنے ہاتھ بالکل پیچھے کر کے اس نے پشت سے ایسے لگائے ہوئے تھے کہ ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں وہ پیچھے کی طرف نہ گر جائے۔  وہ اس لمحے اصلی وینس ڈی میلو دکھ رہی تھی۔  ٹرین کے دوسرے ڈبے کی تیسری کھڑکی میں ہم نے دور سے کھڑے اس لڑکے کو دیکھ لیا۔  وہ کھڑکی سے آدھا باہر نکل کر زور زور سے رومال ہلا رہا تھا۔  وہ عمر میں ہم سے بڑا اور انگریزی ثانوی سکول کا طالب علم نظر آیا۔  اس کی آنکھیں سرمئی، بال سنہرے گھنے اور کھنگریالے  تھے۔  

لٹیشیا ساکن مجسمہ بنی رہی لیکن اس کے تاثرات سے ایسااحساس ہوا کہ جیسے اسے ارئل۔بی کو نہ دیکھنے کا افسوس تھا۔  ٹرین تو دو بج کر آٹھ منٹ پر فوراً گزر گئی لیکن ہم ساڑھے چار بجے تک اس بات پر بحث کرتی رہیں کہ ارئل کے سوٹ کا رنگ کالا تھا یا نیلا یا ہلکا سیاہ۔  اس کی عمر کے بارے میں ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ اٹھارہ سال کاہونا چاہئے لیکن دیکھنے میں سولہ کا لگ رہا تھا۔  بالآخرہم نے سوچا کہ اس کے بارے میں ہلکان ہونے کی بجائے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ شکل صورت کے لحاظ سے خوشگوار تھا۔  اگلے روزہالینڈا کی سٹیچو بننے کی باری تھی۔  اس نے ایک منفی کردار      بیلرینا  کے مجسمے‘ کاروپ بخوبی نبھایا۔  اس دیوی کی چونکہ ایک ٹانگ تھی اسلئے وہ ایک ٹانگ پر کھڑی سخت گیری اور ڈکیت کی سنگدلی دکھاتی رہی۔  ٹرین اپنے وقت پر گزری اور ارئل۔بی کھڑکی میں اچھل اچھل کر ہاتھ ہلاتا ہو ا چلا گیا۔  اس سے اگلے دوروز بہروپ دھارنے کی میری باریاں تھیں۔  معمول کے مطابق ٹرین کے گزرنے کے وقت میں اپنا کردار ادا کر رہی تھی کہ دھات کے پیچ میں لپٹا ہوا ایک رقعہ میری ناک کے بالکل قریب سے اڑتا ہوا  پاس آ کر گرا۔  میں نے اسے اٹھالیا اورپڑھنے کی کوشش کی تو بے حد خراب لکھائی کی وجہ سے کچھ پلے نہ پڑا۔  پھرہم سب نے غور کیا تو ایسا لگا کہ لکھا تھا۔۔

’خوبصورت ترین لڑکی سب سے سست ہے‘ 

بات کچھ سمجھ نہ آئی۔  یک دم لٹیشیا نے انکشاف ظاہر کیا کہ شاید یہ فقر ہ اسی کے بارے میں تھا اور وہ شرمندہ ہو کر وہاں سے چلنے لگی۔  ہالینڈا اور میں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جس میں ہلکا سا غصہ بھی تھا۔  اتنی اچھی لڑکی کے بارے میں اس طرح کا تبصرہ ہمیں بالکل پسند نہ آیا۔  ہمیں حیرانی تھی کہ ارئل کو لٹیشیا کی جسمانی کمزوری کا کیسے اندازہ ہوا کیونکہ سٹیچو کے کردار میں تو وہ مکمل ساکت تھی۔  لٹیشیا نے وہ رقعہ لے کر اپنے پاس رکھ لیا اور ہم تینوں خاموشی سے گھر واپس آگئیں۔  اس رات کھانے پر گھر والے اکٹھے بیٹھے تو ہم حیران رہ گئیں کیونکہ لٹیشیا بہت خوش لگ رہی تھی اور بات بات پر چہک رہی تھی۔  خالہ روتھ نے کئی بار حیرانی سے دیکھ کر اماں کو اشارہ بھی کیا۔
سونے سے پہلے ہالینڈا اور میں نے صورت حال پر گفتگو کی۔  ایک سوچ ہمیں یہ آئی کہ شاید اس کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ ہم تینوں میں ارئل بی نے اسی کو غور سے دیکھا تھا اور دلچسپی لے رہا تھا۔  یاارئل کے اس رقعے کے پیغام پر اسے جو غصہ آیا تھا، شاید وہ بھول چکی تھی اور خوشی کا اظہا ر کر رہی تھی۔  بہرکیف میں ارئل کو معاف نہ کر سکی۔  اس رات سوئی تو میں نے ٹرین سے متعلق کئی درد ناک خواب دیکھے۔  جیسے کہ میں صبح کے وقت ایک پٹٹری پرچل رہی تھی اور ٹرین دوسری سمت سے میری طرف آرہی تھی۔  اس میں بہت زیادہ بٹن لگے ہوئے تھے اور میں قیافے لگا رہی تھی کہ وہ دائیں سے گزرے گی یا بائیں جانب سے۔  دیکھا تو وہ میری پٹٹری پر ہی آرہی تھی۔  میں دہشت زدہ ہو کر اٹھ بیٹھی۔  صبح جاگی تولٹیشیا سر درد سے کراہ رہی تھی اس لئے وہ خواب مجھے بھول گیا۔  ہم نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ سر دردمیں اس کے لئے زیادہ چلنایا دیر تک کھڑا ہونا نقصان دہ ہو گا اوراسے مشورہ دیا کہ اس روز وہ ریل کی پٹٹریوں پر نہ جائے بلکہ گھر آرام کرے لیکن وہ نہ مانی اور ہمارے ساتھ چل دی۔

اگلے روز بھی لی جنڈ کا روپ دھارنے کی باری میری تھی لیکن نہ جانے کیوں میں نے لٹیشیا کو پیشکش کردی کہ وہ میری جگہ لے لے۔  میرا خیال تھا کہ یہ میں نے اس لئے کیا تھا کیونکہ میں جان گئی تھی کہ ارئل بی اس کو پسند کرتا تھا۔  میں لٹیشیا کو مزید موقع دینا چاہتی تھی تا کہ وہ اسے اور متاثر کر سکے۔  لٹیشیانے خود کو چینی شہزادی کے روپ میں پیش کرنا پسند کیا۔  ہم نے سادہ سے زیورات سے اسے سجا دیا۔  وہ نظریں جھکائے شرماتی لجاتی ہاتھ جوڑ کر ایسے کھڑی ہو گئی جیسے کہ چینی شہزادیاں کھڑی ہو تی تھیں۔  جب ٹرین پاس سے گزری تو ہالینڈا بید کے درخت کے نیچے لیٹی ہوئی تھی اور میں ادھر پاس ہی کھڑی تھی۔  میں نے دیکھا کہ ارئل بی صرف لٹیشیا ہی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔  لٹیشیا اپنے کردار میں گم کھڑ ی رہی۔  اس نے ٹرین کی طرف دیکھنے کی زحمت بھی گوارا ہ نہ کی۔

 پھر اس سے اگلے روزکھیل میں ہالینڈا اور میں نے مرکزی کردار ادا کرنے تھے۔  لٹیشیا نے اس دن نہ جانے کا فیصلہ کیا اور خواہش کی کہ اسے تنہا چھوڑ دیا جائے۔  چنانچہ ہم اس کے بغیر ہی پٹریوں پر پہنچ گئے۔ ٹرین گزری تو ایک اوررقعہ پھرہمارے پاس آکے گرا جو ہالینڈا نے اٹھایا اور بغیر پڑھے لٹیشیا کو لا کر دے دیا۔  اس میں ارئل بی نے اپنی بھونڈی لکھائی میں لکھا تھاکہ وہ اگلے روز سٹیشن سے اتر کر ہمارے پاس آئے گا اور تھوڑی بہت گپ شپ کرے گا۔  اس روز کے پیغام کا آخری جملہ بہت پرکشش تھا جوکچھ اس طرح تھا۔۔  

’تینوں خوبصورت مجسموں کو پیار۔۔ ارئل بی‘

اوہ  خدا!  اس کی لکھائی ناقابل برداشت تھی۔۔ اس کے دستخط ایسے تھے جیسے گیلے پینٹ پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔  ہالینڈا نے اس روز بڑی عمدگی سے سوانگ رچایا تھا۔  ہم  نے اس کے زیورات اتار ے اور اپنے جیولری بکسوں میں سنبھال لئے۔  لٹیشیا نے وہ رقعہ بھی اپنے پاس ہی رکھ لیا۔  ارئل ہمارے پاس آرہا تھا، ہمارے لئے یہ بڑی پریشان کن بات تھی۔  ہمیں اس نئی افتاد پر سوچنا اور کوئی لائحہ عمل طے کرنا تھا۔  ہمارا گاؤں بہت چھوٹا تھا۔  تمام لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔  اگر کسی نے دیکھ لیا اور اماں یا خالہ کو بتا دیا تو۔۔ہمارے تابوت ہی نظر آ نے تھے!  اس بڑے واقعے پر کیاکیا جائے، سوچوں میں غرق رہیں۔ 

خالہ روتھ نے مجھے اور ہالینڈا کو بلی کو نہلانے کو کہا۔  لٹیشیا نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔  شام کے کھانے پر ارئل بی  کے آنے کا احساس اور زور پکڑ گیا۔  ہمارا کوئی بوائے فرینڈ نہ تھا۔  حالانکہ ہماری عمر کی کئی  لڑکیوں کا کہیں نہ کہیں کانٹا جڑا ہوا تھا۔  وہ پتنگوں اور تتلیوں کی طرح اڑتی اور پھڑپھڑاتی پھرتی تھیں، گڈی گڈے کا بیاہ رچاتی تھیں اور ٹکی والی لپ سٹک لگاتی تھیں۔  ہم بھی وہ کھیل کھیلتی تھیں لیکن فرق یہ تھا کہ ہمارا کسی کابھی کوئی بوائے فرینڈ نہیں تھا۔  اب ارئل بی نہ جانے کہا ں سے آٹپکا تھا۔  اب آگیا تھا تو اس سے ملنا بھی تھا۔  ہمیں اپنی تو پرواہ نہیں تھی پر لٹیشیا کی معذوری کا غم کھائے جا رہا تھا کیونکہ اس نے جس طرح کے کردار بھی نبھائے تھے اس میں اس نے کوئی حرکت نہیں کی تھی۔  وہ سیدھی ہی کھڑی رہتی تھی جس سے دیکھنے والے کو اس کی معذوری کا پتہ نہیں چلتا تھا۔  دوسری طرف من یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ارئل بی کو حقیقت کا پتہ چلنا چاہئے تاکہ وہ ذہنی طور پر اسے قبول کر لے۔  یہ سوچتے سوچتے ہم سو نے لگیں تو ہالینڈا لٹیشیا کے کمرے میں گئی۔  تھوڑی دیر بعد وہ سراسیمگی سے واپس آئی۔  اس نے بتایا کہ لٹیشیا نے فیصلہ کیا ہے کہ کل وہ ہمارے ساتھ نہیں جائے گی۔  البتہ اس نے ایک سیل بند خط ارئل بی کے لئے لکھا ہے جو اس کے حوالے صرف اس صورت حال میں کیا جائے اگر وہ اس کے بارے میں زیادہ پوچھے۔  ہم نے اگلے روز پھر بہت اصرار کیا کہ وہ ہمارے ساتھ چلے لیکن وہ نہ مانی۔  ہم نے دوپہر کو آہستہ آہستہ کھانا کھایا۔  اس دن تو گھبراہٹ میں ہالینڈا سے ٹماٹر کی چٹنی کھانے کی میز کے کپڑے پر گر گئی جس پر خالہ روتھ نے اسے ا تھپڑ جڑ دیا۔  ہمیں پریشانی میں برتن بھی خشک کرنے یاد نہ رہے اور ہم پٹڑی کی طرف چل پڑیں۔

 ہالینڈ اور میں بے تاب ضرور تھیں لیکن اندر سے بہت خوش بھی تھیں اور راستے میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہی تھیں۔  ہم میں ایک دوسرے کے لئے ذرا سا بھی حسد نہیں تھا۔  لٹیشیا کے لئے تو بالکل بھی نہیں۔  ہالینڈا نے تجویز دی کہ جب ہم ارئل بی سے ملیں گی تو اسے یہ ظاہر کریں گی کہ ہم بہت پڑھا کو،کتابی کیڑا اور گھریلو لڑکیاں ہیں۔  اس بات سے وہ ہم سے متاثر ہو جائے گا۔  ہماراخیال تھا کہ ثانوی سکول کے لڑکے چھوٹی کلاس کی لڑکیوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ پڑھائی میں نالائق  اور لاپرواہ ہوتی ہیں۔  گڑیوں سے کھیلنے یا سویٹر کی بنائی سے زیادہ کوئی کام نہیں کرتیں۔  دو بج کر آٹھ منٹ پر ٹرین گزری تو ارئل بی نے بڑے جوش سے رومال ہلایا اور ہم نے بھی جواباً کڑھائی والے رومال زور زور سے لہرائے۔  پھر ہم اپنے کھیل میں مصروف ہو گئیں۔  تقریباً بیس منٹ کے بعد وہ ہماری طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔  اس نے کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا اور اچھا لگ رہا تھا۔  ہم تینوں بید کے درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے۔

مجھے صحیح یاد نہیں کہ ہم نے پہلی ملاقات میں کیا کیاباتیں کیں۔  وہ آ تو گیا تھا لیکن وہ بھی ہچکچا رہا تھا۔  بات کرتے ہوئے جھجھک رہا تھا۔  اس کی توجہ بھی بٹی ہوئی تھی۔  اس نے ہمارے کھیلوں، ہمارے سٹیچو اور ایٹی ٹیوڈکے کرداروں کی بہت تعریف کی۔  پھر ہمارے نام پوچھے اور استفسار کیا کہ تیسری لڑکی کیوں نہیں آئی۔  ہم نے بہانہ بنایا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔  اس کے بعد اس نے اپنے سکول کے بارے بتایا کہ وہ صنعتی سکول میں پڑھتا تھا جسے سن کر ہم پر مایوسی چھا گئی۔  کیونکہ صنعتی سکول کے لوگ مزدوری اوردستی کام کے ذمرے میں جبکہ انگریزی سکولوں کے طالب علم ذہین درجے میں شمار کئے جاتے تھے۔  وہ چاہتا تھا کہ ہم اسے وہ زیورات دکھائیں جو اپنی کھیلوں میں استعمال کرتی تھیں۔  اس نے لٹیشیا کے نام کے بارے میں بھی دریافت کیا اور جاننے کے بعد لٹیشیا ایک منفرد نام ہونے کی تعریف بھی کی۔  وہ زیورات دیکھتے وقت بھی یہ تبصرہ کر رہا تھا کہ لٹیشیانے وہ زیورات فلاں موقعہ پر پہنے تھے۔  اس کولٹیشیا کے ایک ایک مجسمے اور زیورات جو اس نے کسی بھی موقعے پر پہنے تھے، کی تفصیل ازبر تھی۔  اس نے گھما پھرا کر لٹیشیا کی ہی باتیں کیں۔  اس کی عادات اور مشاغل کے بارے میں پوچھتا رہا۔۔ وہ ہم سے مل کر خوش تو تھا لیکن اس کی توجہ لٹیشیا پر ہی مرکوز تھی۔  ایسا لگتا تھا کہ وہ لٹیشیا کی کمی بری طرح محسوس کر رہا تھا۔  جب اس نے بار بار لٹیشیا کا پوچھا تو میں نے اسے لٹیشیا کے خط کا لفافہ اسے تھما دیا جو اس نے بغیر کھولے ہی اپنی جیب میں رکھ لیا۔  اس کے بعد اس نے بڑی شائستگی سے کہا کہ اسے ہم سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور ہم سے باتیں کر کے اور وقت گزار کر بڑا مزا آیا۔  یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ واپس جانا چاہتا تھا۔  ہم اس کی آنکھوں میں افسردگی دیکھ رہی تھیں۔  ہم نے بھی زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے سے الوداعی کلمات کہے اورسنے تھے۔
تھوڑی دیر بعد ہم گھرواپس آ گئیں۔  لٹیشیا لیموں کے درخت کے نیچے کھڑی بے چینی سے ہماری راہ تک رہی تھی۔  اس نے ملاقات کے بارے میں پوچھا۔  ہم نے اسے ارئل کی شکل و صورت  اور انداز گفتگو کے بارے میں بتایا اور اس کی غیر حاضری  کے بارے میں اس کی بے چینی سے آگاہ کیا۔  یہ سن کر اس کی آنکھوں میں بے بسی اور بے چارگی بھی نظر آئی اور خوشی بھی۔  ہم اس کے پاس سے یہ کہہ کررخصت ہوگئیں کہ جانے سے پہلے برتن خشک نہیں کر سکی تھیں اس لئے وہ اب کرنے ہوں گے۔۔ جبکہ وہ لیموں کے درخت کے نیچے کھڑی بھڑوں کے چھتے کو دیکھتی رہی۔

اس رات جب ہم سونے جا رہی تھیں تو ہالینڈا نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہمارا سٹیچو اور ایٹی ٹیوڈ کا کھیل آخری سانسیں لے چکا تھا اور کل سے وہ ختم ہو جائے گا۔  لیکن جب ہم اگلے دن دوپہر کھانے پر بیٹھیں تو میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ لٹیشیا نے پر زور انداز میں کھیلنے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔  اس کے اس فیصلے پر ہم کسی حد تک خفا تھیں لیکن وہ موقعہ تبصرے یا ناراضگی کے اظہا ر کا نہیں تھا۔  کھانے کے بعد وہ ہم سے پہلے گیٹ پر کھڑی ہمارا انتظار کر رہی تھی۔  پھر ہمیں اس  کے بعداور بھی حیرانی ہوئی جب اس نے اپنے جیولری باکس سے اماں کا اصلی ہیروں کا جڑاؤسیٹ اور تمام انگوٹھیاں، یہاں تک خالہ روتھ کی زمرد کی انگوٹھی نکالی۔  اس کے علاوہ اس کی جیب میں موروں کے پر تھے۔  اگر ان حقیقی زیورات کا اماں اور خالہ کو پتہ چل جاتا تو قبرستان میں ہمارے ناموں کی تختیاں لازماً نصب ہوجانا تھیں۔  لیکن لٹیشیا ان فکروں سے آزاد تھی۔  وہ ہماری طرف بغیر دیکھے بولی کہ کوئی انہونی ہوگئی تو وہ خود بھگتے گی اور اس دن کے نتائج کی ہر طرح کی ذمہ داری قبول کرے گی۔  ہم اس کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لئے ڈرتی ہوئی اس کے ساتھ ہو لیں۔

ہم ریل کی پٹڑی پر پہنچیں۔  اس روز ہم نے لٹیشیا کو سٹیچو کے لئے جو ’لی جنڈ’چنا، اس میں تمام زیورات استعمال ہو سکتے تھے۔  لٹیشیا کی فرمائش کے مطابق مور کے پر بھی اس کے بالوں میں سجا دیئے۔  اس کے بعدلٹیشیا نے لومڑی کی کھال سے بنی ہوئی شال اپنے جسم پر لپیٹ لی اور.تمام اصلی زیورات پہن لئے۔  وہ سب اس پر بہت جچ رہے تھے۔  جب ٹرین گزری تو اس نے بڑی ادا سے اپنے پاؤں اس انداز میں  رکھے کہ اس کے زیورات سورج کی روشنی میں رہیں۔  وہ آب و تاب سے رنگ برنگی روشنیاں بکھیر کر ایک رومان انگیز سماں پیدا کر رہے تھے۔  اسکے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔  اس کا سر پیچھے جھکا ہوا تھا۔  معذوری میں صرف وہ وہی ایکشن ہی کر سکتی تھی۔  وہ پیچھے کی طرف اتنا تن کر کھڑی ہوئی تھی کہ ہمیں ڈر تھا کہ وہ پیٹھ کے بل گر سکتی تھی اور کوئی نئی مصیبت کھڑی ہو سکتی تھی۔

پھردوپہر کی ٹرین دو بج کر آٹھ منٹ کے مقررہ وقت پر نمودار ہوئی اور تیزی سے گزر گئی۔۔لیکن دوسرے ڈبے کی تیسری کھڑکی خالی تھی۔  ارئل بی ہماری طرف کھلنے والی کسی کھڑکی کی طرف نہیں بیٹھا ہواتھا۔   واقعی بچپن کے دوسرے کھیلوں کی طرح وہ ہمارا آخری کھیل تھا۔

، بچپن کے کھیلوں کو شروع یا ختم کرنے میں چاشنی تھی۔  حماقتیں، معصومیت، بھولاپن تھا۔  ان کے بارے سوچ کر کبھی پشیمانی ہوتی ہے، کبھی رنج و غم، کبھی شرمندگی، کبھی ندامت تو کبھی غصہ آتا ہے۔  ان سب  باتوں سے بڑھ کر جو جذبہ غالب ہوتا ہے، وہ پیار، خلوص اور بے لاگ دوستیوں کاہے۔

سوچتی ہوں کہاں گئیں وہ تتلی کی اڑانیں، گڈی گڈے کی شادیاں، پٹولے، قلانچیں، ٹکی والی لپ سٹک۔۔۔ !  وہ بیتے دن کہاں ہیں ِ؟ کہاں ہے وہ بچپن۔۔۔۔؟  جی ہاں وہ مٹی کی دھول میں بہہ گیاً ہے کبھی واپس نہ آنے کے لئے!     


حالات زندگی


’جولیو کارٹزر‘ ’برسلز (بلجیم)‘میں 1914  میں اس وقت پیدا ہوا جب اس کے والدین جو ’ارجنٹینا‘کے باشندے تھے، تجارت کے سلسلے میں برسلز آئے ہوئے تھے۔  اس کے والدکا نام’جولیو جوز کارٹزر‘ اور والدہ  کا نام ’ماریا ہرنیما ڈیسکوٹ‘تھا۔  وہ جنگ عظیم اول کے دوران زیورچ،جنیوا، بارسلونا اور دیگر یورپی ممالک میں گھومتے رہے اور جنگ عظیم اول کے اختتام پر وہ واپس اپنے وطن ارجنٹینا لوٹ آئے اور دارالسلطنت ’بیونس ایرز‘ میں رہائش اختیار کر لی۔  وہاں اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تو اس کی بہن اور وہ زیادہ تراپنی ماں کے پاس بیونس ایرز میں ہی رہائش پذیر رہے۔  وہ بچپن میں بیمار رہتا تھا اس لئے وہ زیادہ تر علاج معالجے کے لئے اپنے گھر پر ہوتا اور ادب پڑھتا رہتا تھا۔  اس دوران اسے ارجنٹینا کے مشہور ادیب ’جیولز ورن‘ کی تعلیمات سے محبت ہو گئی۔  اس نے رسمی تعلیم گھر پر ہی مکمل کی۔  اس کے بعد اس نے ا تعلیم و تدریس پڑھانے کی تربیت لی اور ٹیچر بن گیا۔  اس نے بیونس ایرز یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن ڈگری حاصل کرنے سے پہلے ہی اسے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔  اس نے اپنی شاعری کی پہلی کتاب1937 قلمی نام’جیولیو ڈیؤس‘کے نام سے چھپوائی لیکن بعد میں اس نے وہ نام ترک کر دیا  او ر اپنے اصلی نام سے لکھنے لگا۔  اس کے ساتھ ساتھ یونیسکو کے فرانسیسی زبان کے سرکاری مترجم رہا۔  1944میں وہ ’کویو یونیورسٹی‘میں فرانسیسی ادب کا استاد مقرر ہوا۔  پانچ سال بعد اس نے ایک ڈرامہ تصنیف کیاجس کا نام’لاس ریز‘ تھا  اور لوک کہانیوں پر مبنی تھا۔
وہ ترقی پسند ادیب تھا۔  ارجنٹیناکی ’جووان ڈومینگو پیرون‘کی پالیسیوں کے مخالف تھا اس لئے اس نے ارجنٹینا سے فرانس کے شہر پیرس ہجرت کر لی اور آخری سانس تک وہیں رہا۔  1951میں اس کی کہانیوں کی پہلی کتاب چھپی جس کا نام     ' .بیسٹیری ' تھا۔ 1956 میں ’اینڈ آف دی گیم‘ لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔  1958 میں ’سیکرٹ ویپنز‘ لکھی۔  1963 میں ’میگنم اوپس‘لکھی۔  1966میں ' ہاپ سکاچ ' لکھی جو کہ تجرباتی ادبی کتاب تھی جس میں اس نے قارئین کو اپنی مرضی سے واقعات کو اپنے اپنے انداز میں وضاحت کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔  1967 میں اس نے پال بلیک برن کی کہانیوں جس کا نام   'اینڈ آف گیمز اینڈ اد سٹوریز‘تھا ، لکھی جو بے حد مقبول ہو ئی۔  اس کتاب کا نام نئے ایڈیشن میں ’بلو اپ اینڈ ادر سٹوریز‘ رکھ د یا گیا۔  1969 میں اس نے’کرونوپائس‘، 1973میں ’آل فائرز دا فائر‘ اور 1983 میں ’وئی لووگلینڈا سو مچ‘ لکھی۔  اس نے اپنی ایک کتاب ’آن دی شارٹ سٹور اینڈ اٹس یینوارنز‘ میں نثر نگاری میں جدید رجحان پیش کیا ہے۔  اس کے علاوہ بھی اس نے کئی کتب تحریر کیں جن میں  ’لاس پری میوس‘ جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ’دی ونر‘ اور ہاپ سکاچ کا انگریزی ترجمہ ’اے ماڈل کٹ‘  اور اس کی کتاب ’ماڈیلو پارا ییمر‘ اور ’لبرو ڈی مینؤل‘ کے تراجم بھی انگریز یَ میں کئے گئے۔  کیرل ڈنلپ کے ساتھ مل کر س نے آخری ناول ’دی آٹونا ٹس آف دی کوسموروٹ‘ تھا جو ایک طنزیہ ناول تھا۔  ادبی خدمات کے علاوہ وہ  لاطینی امریکہ میں انسانی حقوق کا بھی علمبردار تھا۔  علاوہ ازیں وہ فیڈرل کاسترو کے انقلاب اور چلی کی سالویڈار کی سوشلسٹ حکومت کا بھی حامی تھا۔

اپنی زندگی میں اس نے دو شادیاں کیں۔  1963 میں پہلی شادی’آرورا بینرڈیز‘ سے ہوئی جو 1967میں اس کی بیوفائی کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔  اس کے بعد وہ اپنی ’لیتھونوی‘ گرل فرین جس کا نام ’اوگنی  کاریلیس‘ تھا،کے ساتھ رہنے لگا۔  وہ دونوں آپس میں شدید محبت کرتے تھے لیکن ان کی شادی نہ ہو سکی۔  اس کی دوسری شادی کینیڈین کیرل ڈنلپ کے ساتھ ہوئی جو1982تک چلی۔ ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہونے پر اس کی دوسری بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی لیکن اس کی پہلی بیوی اس کے ساتھ رہی اور اس کی آخری سانس تک تیمار داری کرتی رہی۔
         
جولیو ارار کارٹزر بیسویں صدی کے مقبول ترین ار جنٹائن ادیبوں میں سے تھا۔  اس کی وجہ شہرت عصری ادب کو ایک نئی سمت دینا تھی۔  اس نے نئے تجربات متعارف کروائے۔  مروجہ اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر قارئین کو اپنی کہانیوں کو قاری کے اپنے انداز میں واضح کرنے کا طریقہ اپنایا۔  وہ لاطینی امریکہ میں جدید مختصر کہانیوں کا موجد تھا۔  وہ شاعر، ناول نگار، تمثیل نگاراور افسانہ نگار تھا۔  اس نے ایڈگر ایلن پو،رابن کروسو اور مار گیورائٹ کے ادب کے ہسپانوی زبان میں تراجم کئے۔  اس نے اس میں لکھا ہے کہ کسی بھی ادیب کو کچھ لکھتے وقت غیر جانبدارانہ طریقے سے تفصیلات بیان کرنی چاہئیں اور اپنے خیالات کو ان میں قطعی شامل نہیں کرنا چاہئے تاکہ کردار از خود حقیقی کردار ادا کر سکیں،اور قاری یہ جان لے کہ جو بھی اس واقعے کے بارے میں بیان کر رہا ہے وہ اسی سے متعلق ہیں اور صحیح انداز سے بیان کئے گئے ہیں۔  وہ   1984کو پیرس میں ایچ۔آئی۔ وی  (ایڈز)کی بدولت فوت ہوا اور وہیں دفن ہے۔

Popular posts from this blog