اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے ( چوتھی قسط ) Sons And Lovers 4th Episode By D. H. Lawrence (1885-1930) United Kingdom


 

 اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے   ( چوتھی قسط )

Sons And Lovers  4th Episode 

By

D. H. Lawrence (1885-1930)

United Kingdom

 

حالات زندگی، ناول کاپس منظر اور ادبی مقام  (4)

 

مرتب : غلام محی الدین

 

حالات زندگی           

ڈی۔ ایچ۔لارنس برطانیہ میں  1885  میں ایسٹ  وڈ میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام آرتھرجان لارنس تھا جو برنسلی کولیری میں کان کن تھا۔اسکی ماں کا نام لیڈیا بیرڈ سال تھا جوایک لیس بنانے والی فیکٹری میں کام کرتی تھی۔ اس کا باپ دس سال کی عمر سے ہی کوئلے کی کان کنی کررہاتھا۔اس کی ابتدائی زندگی ایسٹ وڈ میں گزری جہاں جگہ جگہ کوئلے کی چٹانیں، گڑھے، تہہ خانے، اونچ نیچ  زمین اور کھڈے پائے جاتے تھے۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم بیو ویل بورڈ سکول سے حاصل کی۔ 1850سے پہلے برطانیہ میں کسی سطح پر بھی تعلیم مفت نہیں تھی لیکن اس کے بعد قانون سازی کے تحت میونسپلٹیوں کو ٹیکس وصول کرنے کا اختیار دے دیا گیا جنہوں  نے تعلیمی ٹیکس لگاکر اپنی آمدنی میں اضافہ کیااوراس رقم سے پرائمری  تک کی تعلیم مفت کردی۔پرائمری سکول کے بعد کی تعلیم مہنگی تھی اور غریب طبقات کی بس سے باہر تھی۔اگر کوئی بہت ذہین ہوتا تو ہی مزیدتعلیم حاصل کر نے کے مواقع نصیب ہوسکتے تھے۔ویسٹ وڈ گاؤں کاوہ  پہلابچہ تھا جسے اعلیٰ قابلیت  اور غیر نمایاں کارکردگی دکھانے پر نوٹنگھم کاؤنٹی  نے مزید تعلیم کےلئے وظیفہ دیااوروہ اپنی قابلیت سے آخر ی سال تک وظیفہ حاصل کرتارہا۔ویسٹ وڈ کی کاؤنٹی   نوٹنگھم تھی جو اس کے گھر سےدس میل دور تھی ۔دو میل دور ریلوے سٹیشن تھا جہاں تک اسے روزانہ پیدل آنا جانا پڑتاتھااورباقی آٹھ میل وہ ٹرین پر طے کرتاتھا۔وہ نوٹنگھم ہائی سکول میں داخل ہو گیا ۔ وظائف حاصل کرتے کرتے اس نے نوٹنگھم کالج یونیورسٹی سے ٹییچنگ کی ڈگری حاصل کر لی۔ خانگی تنازعات کی بدولت ا س نے ابتدائی عمر سے ہی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے تنقیہہ نفس کے لئے لکھنا   شروع کر دیا جس سے اس کے من کا غبار ہلکا ہو جاتا تھا۔بچپن سے ہی چاند ستاروں، طلوع و غروب آفتاب، باغوں بہاروں، پھولوں، ساحلوں، تاریخی عمارات، پہاڑوں ،کھلے میدانوں، کھیت کھلیانوں، قدرتی مناظر، جنگلوں ، خوبصورت درخت اسے مسحور کردیتے اور وہ ان پر شاعری، نثر نگاری یا تصویرکشی  من لگاکر شوق  سےکرنے لگا۔وہ حسن کی ہر جہت کا اپنے انداز میں مشاہدہ کرتا اور منفرد انداز میں لکھا کرتا تھا۔

نزدیکی جنگلات شروڈ علاقےکےتھےجواس کے گھر کے مشرق میں واقع تھےاور اس کے لئے خاص مقام رکھتے تھے ۔ اس  مقام کاذکراس نے اپنی تصانیف میں گاہے بگاہے کیاہے۔اسے اپنے تعلیمی اخراجات کے علاوہ گھریلو ضروریات  میں بھی حصہ ڈالناپڑتاتھا۔ 1901میں جب مالی تنگی مزید بڑھ گئی تو ایک بار  پڑھائی چھوڑناپڑی ۔اس نےایک سرجیکل کمپنی میں جونیئر کلر ک کی نوکری کر لی لیکن اس دوران اسے نمونیا ہوگیا اور وہ نوکری چلی گئی۔

اس کی رہائش مضافاتی علاقے میں تھی جہاں حفظان صحت کے اصولوں کا خلاف ماحول تھا۔میونسپل کمیٹی اس غریب علاقے کی صفائی پرتوجہ نہیں دیتی تھی۔ ایک دفعہ اس کی ماں اسے قریبی سر سبز علاقے ہیگ کے فارم ہاؤس لے کے گئی جو ایک زرخیز علاقہ تھا۔ ہری بھری فصلیں، جنگلات اور باغات، دریا اور سر سبز وادیا ں تھیں۔اسے وہ علاقہ اس کے دل کو بھاگیا۔دلکش مقام کی بدولت اپنی روح کی تسکین کے لئے وہاں اکثر جانے لگا۔ اس کے وہاں کثرت سےجانے کی دووجوہات  تھیں۔ایک تو یہ تھی کہ قدرتی نظاروں سے عشق کی بناپر وہ شعر و شاعری اورخوبصورت مناظر کی  مصوری کر لیتا تھااور دوسرا  یہ صحت افزامقام تھاجو اس کی صحت کی بحالی کیلئے  موزوں تھی۔

 اس فارم ہاؤس  کانام ویلی ہاؤس تھا۔اس کا مالک چیمبرز خاندان  سے تعلق رکھتاتھا۔ اس خاندان کے افراد پڑھائی لکھائی میں دلچسپی رکھتے تھے ۔تعلیمی قابلیت اور ادبی مشاغل کی وجہ سےلارنس اس خاندان میں مقبول ہو گیا۔ ناول میں  اسےویلی فارم ے مالک کو اس نے لیورز خاندان   لکھاہے جبکہ حقیقت میں وہ چیمبر خاندان تھا۔وہاں اسکا انتظار کیا جاتا تھا۔ وہ ان کے خاندان کے رکن کی طرح تصور کیا جانے لگا۔ اس کی دوستی خاص کر اس کی ہم عمر لڑکی جس کا نام  جیسی چیمبرز  تھا جو ناول میں مریم لیورز کے نام سے یاد کی گئی سے ہو گئی۔ ان میں گہری چھننے لگی۔جوکئی دہائیاں چلی مگرلارنس کی والدہ کی رحلت کے بعدانکی دوستی ختم ہو گئی۔ اس دوران لارنس کی دوستی ایک اور لڑکی لوئی بروزسے بھی رہی جسے کلارا کے نام سے اس ناول میں پکاراگیا۔وہ جیسی چیمبرز کی گہری سہیلی تھی۔

لارنس 1902 سے1906 تک ایک ثانوی سکول میں ٹیچر اسسٹنٹ رہا۔ اس دوران اس نے ادب پر طبع آزمائی جاری رکھی۔اس نے وہاں اپنے ناول' لیٹیشیا' کا پہلا مسودہ لکھا جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے 'دی وائٹ پی کاک' رکھ دیا گیا۔1907میں اسے نوٹنگھم شائرگارڈئین کی مختصر کہانیوں کے مقابلے میں پہلے انعام کا حقدارقرار دیاگیا۔اس کے بعد اس نے باقاعدہ عملی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور لندن منتقل ہو گیا اور ایک سکول میں نوکری کر لی۔ساتھ ساتھ لکھنا بھی جاری رکھا۔جیسی چیمبرز نے لارنس کی شاعری کی کتاب کو ایک مشہور پبلشر فورڈ ہرمن ہیوفر کو ارسال کی تو اس نے اس کی ایک مختصر کہانی’گل داؤدی کی خوشبو‘کو اپنے دی انگلش رویو نامی رسالے میں شائع کر دیا۔ اس بات سے لارنس کی مزیدحوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

ناول میں تویہ طے ہے کہ لارنس کے اپنی ماں کے ساتھ بے حد قریبی تعلقات تھے۔اس کا اقرار اس نے اپنے ناول سفید مورمیں جو1910میں چھپا، میں کیا ہے۔ ماں کے کینسر اور موت نے اسے ہلا کے رکھ دیا۔اسے دنیا کی سدھ بدھ نہ رہی اور وہ  شدیدمریضوں کی طر ح باؤلا ہو گیا۔بنیادی طور پر ناول جیسی چیمبرزاور اس کی ماں کی باہمی رقابت پر مبنی ہے۔جس میں اس نے ایڈیپس الجھن کی ایک جہت بیان کی ہے۔اس کا یہ ناول چھپنے کے بعد جیسی چیمبرز اسکےسرد، خود غرضانہ اور ناروا رویے سے نالاں ہو گئی۔ اس سے ترک تعلق کر لیا اور اسکے بعد اس سے کبھی بات تک نہ کی۔لارنس کی  دوستی ایسٹ وڈ کی لوئی بروز سے برقراررہی جس کے ساتھ لارنس نے ایک وقت منگنی بھی کر لی تھی لیکن جلد ہی ایک اور خاتون فریڈا ویکلی سے معاشقے   کی وجہ سے وہ منگنی توڑ دی۔ 

لارنس کی  1911میں ایک  کہنہ مشق   ناول نگار  ایڈورڈ گارنیٹ سے ملاقات ہوئی جو ایک جید تجزیہ نگار بھی تھا۔ اسکے علم اور بصیرت سے متاثر ہو کرلارنس نے اسے اپنا دوست نمااستاد بنا لیا اور اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لئے اسکی رہنمائی حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان دنوں اس کی ایک رفیق کار ٹیچر ہیلن کورک نے اپنی ناکام محبت کی دکھ بھری کہانی سنائی تو اس نے اس کو بنیاد بنا کر ناول 'دی ٹرس پاسر' لکھا۔پھر اس کانام تبدیل کرکے 'پال موریل' رکھا جسے ایڈورڈکے مشورے سے  اپنے اس ناول کا نام' پال موریل 'کی جگہ 'اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے 'رکھ دیااوراس میں موجود کردار دہرائے۔ اسے لکھتے وقت وہ  نمونیہ کا شکار ہو گیا۔  1921 میں نوٹنگھم کالج یونیورسٹی میں اس کی ملاقات ایک شادی شدہ خاتون فریڈا ویکلی سے ہوئی جو اسی یونیورسٹی کے جدید انگریزی کے ٹیچر ارنسٹ ویکلی کی بیوی تھی اور اس سے اسکے تین بچے تھے۔ معاشقے نے جنون کی کیفیت اختیار کرلی  تو انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور جرمنی بھاگ گئے جہاں اس کی محبوبہ فریڈا کے والدین رہتے تھے۔لارنس کو اس عشق میں یونیورسٹی کی نوکری چھوڑنا پڑی۔اس نے اب فری لانسر ادیب کے طور پر لکھنا  شروع کر دیا۔جرمنی میں وہ میٹز کے مقام پر رہنے لگا جو جرمنی کی چھاؤنی تھی۔ یہ گاؤں جرمنی اور فرانس کی سرحد پر واقع تھا۔ اس وقت جرمنی اور فرانس  کا علاقائی ملکیت پرتنازعہ چل رہا تھا۔ فرانس برطانیہ کا اتحادی تھا اور جرمنی کا دشمن۔لارنس برطانوی تھا۔ اس کا وہاں رہنا فوج کو مشتبہ لگا اسلئے اسے برطانوی جاسوس سمجھ کر گرفتار کر لیا گیا۔ فریڈا کے والد نے اسے رہائی دلوائی۔ اس کووہ جگہ چھوڑنا پڑی اوروہ میونخ کے جنوب میں ایک چھوٹے سے قصبے میں منتقل ہو گیا۔ بڑے مراحل طے کرنے کے بعدان فریڈا کی اپنے خاوند ارنسٹ ویکلی کے ساتھ طلاق کے معاملات طے ہوگئے اور اس نے لارنس سے شادی کر لی۔وہاں انہوں نے ہنی مون منایا۔ اس واقعے کا ذکر اس نےاپنی ایک نظم میں کیا جو اس نے اپنی تصنیف ’وی ہیو کم تھرُ و: ہم کامیاب ہو گئے‘جو 1917 میں چھپی بیان کی۔اسی عرصے میں اس نے کان کنوں پر ڈرامے لکھے جن کا عنوان  'دی ڈاٹر۔اِن۔ لاء:  '  تھا جو کان کنوں کی اجڈ، گنوار لہجے اور بولی میں لکھے گئے تھے جو اس کے مرنے کے بعد شائع ہوئے۔اس کے بعد وہ جرمنی سے اٹلی منتقل ہو گئے وہاں اس نے 'ٹوائلیائٹ اِن اٹلی:  اٹلی کی دھند' لکھی۔ اسی وقت اُس نے ایک ناول بھی لکھنا شروع کیا جس کا نام 'مسٹر نون تھا' جو اس وقت مکمل نہ ہوسکا۔ 

 لارنس نیوزی لینڈ کی ایک ادیبہ کیتھرین منسفیلڈ جس کی  مختصر کہانیوں کو پسند کرتا تھا،سے ملاقات ہوئی تو اس نے ویلز کے شاعر ڈبلیو۔ ایچ۔ ڈیویز کا ذکر کیا جو فطرت پر شاعری کرتا تھا جو اسے پسند تھی۔اس سے متائثرہو کر  اس نے ’دی رین بو: کہکشاں‘لکھی جس پر فحش نگاری  کا لیبل لگادیاگیا اور شائع نہ ہو سکی۔ اسکی زندگی میں سیاسی  انتشاراوراقوام عالم کی جنگ و بدل  کی وجہ سےقرار نہ تھا۔حکومتیں اسے ایک جگہ ٹک کر نہیں رہنے دیتی تھیں۔ وہ ایک مقام زینور میں’وِمن ان لوّ:محبت میں گرفتار خواتین‘ پر ناول لکھ رہا تھا کہ اسے پھر جاسوسی میں دھر لیا گیا۔ اس بار اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ برطانیہ کے خلاف جرمنی کی آبدوزوں  کوسگنل بھیج رہا تھا۔دلبرداشتہ ہوکر اس نے وہ ناول لکھنا بند کر دیااور پھر کئی سال بعد 1920 میں اس نے مکمل کر کے چھپوایا۔آج وہ ناول اس کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

 جنگ عظیم اول کی ہولناکیوں میں فوجیوں کی چیرہ دستیاں عام تھیں۔1917میں  اسے کارنوال کی رہائش کو کسی فوجی قانون کے تحت چھوڑنا پڑا۔اسکا تذکرہ اس نے اپنی  سوانعمری ’کینگرو‘میں کیا جو 1923میں چھپی۔ برکشائر میں اس نے مختصر کہانیوں پر مشتمل کتاب' ونٹری پی کاک:سردیوں کا مور‘ لکھی۔اس کی زندگی کے مہ و سال خانہ بدوشوں کی طرح گزرے۔ اس نے عسرت کی زندگی گزاری۔

 اپنے جنگی دور کے تجربات کو اس نے ’سیوّج پلگرمّج:ظالمانہ ہجرت‘کے لقب سے نوازا۔اس نے برطانیہ   1912میں چھوڑا تھا۔  1930میں اپنی موت سے پہلے وہ صرف دو بار چند دنوں کے لئے برطانیہ آیا اور باقی زندگی ٹھوکریں کھاتے گزاری ۔ اس طویل عرصے میں وہ مسلسل سفر میں رہا۔اس دوران وہ آسٹریلیا ، اٹلی، سیلون(سری لنکا)، امریکہ، سسلی،سارڈینا، مالٹا،  نیومیکسیکو اور فرانس گیا۔اس نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔ اس کے ایک ناول’دی لوسٹ گرل: گم شدہ لڑکی‘ پر اسے ادبی انعام سے نوازا گیا۔ اس کی موت کے بعدبھی کئی ناول چھپے جو مشہور زمانہ ہوئے۔وہ نیو میکسیکومیں ٹی۔ بی سے چوالیس برس کی عمر میں 1930 میں فوت ہوا۔ اسکے مرنے کے بعد اس کی بیوہ نے اپنے نئے دوست ارنسٹ کی مدد سے1935میں لارنس کی قبر کھود کر تابوت نکالا۔ اس کی لاش جلا کر اسکی راکھ کو دفن کر دیا پھر 1950 میں  اس کی بیوہ نے ارنسٹ سے شادی کر لی۔'لیڈیز        چیٹرلے لو 'اس کی تصانیف میں سخت تنازعہ کاشکار رہی اور اسے  فحش ادیب کہاگیا،

 

اس کی اہم تصانیف درج ہیں۔ 

Odour of Chrysanthemums (1911)

The White Peacock (1911)

The Trespasser (1912)
Sons & Lovers (1913)

The Prussian Office and Other Stories (1914)

The Widowing of Mrs. Holroyd (1914)

The Rainbow (1915)

Twilight in Italy (1916)

Look! We Have Come Through! (1917)

New Poems (1918)

Women in Love (1920)

The Last Girl (1920)

Touch and go (1920)

Psychoanalysis and the unconscious (1921)

Sea and Sardinia (1921)

Tortoises (1921)

Aaron’s Rod (1922)

England My England (1922)

The Fox (1922)

Birds, Beasts and Flowers (1923)

The Captain’s Doll (1923)

Kangaroo (1923)

The Ladybird (1923)

St Mawr (1925)

The Woman who Rode Away (1925)

The Plumed Serpent (1926)

The Rocking-Horse Winner (1926)

Mongs in Mexico (1927)

Lady Chatterley’s Lover (1928)

The Man Who Died (1929)

Apocalypse (1930)

The Boy in the Bush (1930)

Love among the haystacks (1930)

The Virgin and the Gypsy (1930)

Sketches of Etruscan Places (1932)

 

ناول کا پس منظر           

یہ ناول  ڈی ۔ایچ ۔لارنس کی سوانعمری شمار کیا جاتا ہے۔  اسے اس نے اس وقت لکھنا شروع کیاجب اس کی والدہ شدید بیمار تھی۔وہ اپنی والدہ سے بے حد محبت کرتاتھا۔ اس میں بنیادی کردار اسکی ماں، وہ اور اسکی محبو بائیں مریم  لیورزاور شادی شدہ خاتون کلاراتھیں۔ اس کی والدہ اس کے والد سے ہمیشہ نالاں رہی۔ ا پنی ماں کی ناکام خانگی زندگی کا اسےبہت رنج تھا۔اسکے نزدیک  ماں نے کسی کمزور لمحے میں ایسے شخص سے شادی کی  تھی جو اس کے لائق نہ تھا۔ علم، عقل، رتبے، نفاست میں اس سے کمتر تھا۔ لارنس نے اپنی زندگی میں جس طرح کے واقعات اپنے گھر میں دیکھے وہ اسکے لئے اذیت ناک تھے۔ اس کا ذکر اس نے ناول کے پہلے آدھے حصے میں بیان کیا ہے۔یہ دور 1850 سے 1930 کے عرصے پرمحیط ہے۔ان دنوں  پسے ہوئے طبقے میں  شعوری بیداری  پیداہورہی تھی کہ  وہ سرمایہ دار وں کے ہاتھوں پس رہے تھے۔وہ ان کا استحصال کررہے تھے۔خواتین مساوات  کاحق مانگ رہی تھیں۔ان کے ذہن میں  عزت نفس کے ساتھ ساتھ اقتصادی بہتری   کا احساس اجاگر ہوناشروع ہوگیاتھا۔جبر واستبداد سے نجات حاصل کرنے کے لئے

انہوں نے متوازی تنظیمیں  قائم  کرلی تھیں  ۔

   دوسری  طرف  سرمایہ  داربھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں   کر     پا رہے تھے کیونکہ ان کی  کانوں اور صنعتوں کی آمدن یقینی نہ تھی۔ مصنوعات  اور کوئلے کی قیمتوں میں طلب اور رسد میں کمی بیشی کی بدولت حتمی اندازہ نہیں لگا پارہے تھے  کہ انہیں نفع ہوگا بھی یا نہیں اور اگر فائدہ مند ہوگا بھی تو کتنا؟ لیبراور انتظامیہ کے درمیان تنازعات روز بروز شدت اختیار کر رہے تھے۔کشاکشی   روز بروز بڑھ رہی تھی ۔وقت نے ثابت کیاکہ مالکان  اور مزدوروں کی آمدن میں تفاوت  میں بے پناہ فرق آتاجارہاتھا۔ امیر امیر تر اور غریب کو روٹی کے لالے پڑنے لگے تھے۔

لارنس کا باپ  والٹر موریل  دس برس کی عمر سے ہی کام پر لگ گیا تھا۔ وہ ہفتے میں چھ دن بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا   تھا۔سال میں اسے صرف دو چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ ملتی تھیں۔ غربت سے نجات صرف تعلیم کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔1890سے پہلے برطانیہ میں تعلیم نجی اوربہت مہنگی تھی۔ صرف امراء ہی اسکا خرچہ برداشت کر سکتے تھے۔ بیسویں صدی میں اب  حکومت نےقانون سازی کے تحت میونسپل کمیٹیوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ تعلیمی ٹیکس لگا کر پیسہ تعلیمی بورڈوں کو دیں تاکہ عوام الناس  تعلیم حاصل کریں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائمری تک تعلیم مفت کر دی گئی جبکہ ا س سے اوپر کی تعلیم  بدستور بہت مہنگی رہی لیکن اگر کوئی بچہ پرائمری سکول میں عمدہ کارکردگی دکھاتا تو اسے اگلے گریڈ کے لئے وظیفہ مل جاتا اور وہ مفت تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ ڈی۔ایچ۔لارنس کے باپ کے بچپن میں یہ سہولت موجود نہیں تھی اسلئے وہ ان پڑھ رہا اور اسے تعلیم کی اہمیت کا شعور حاصل نہ ہو سکا۔اس نے ان عوامل کو جو اسکی زندگی میں پیش آئے تحریری شکل میں بیان کرنے کا ارادہ کیا ۔ اسلئے تمام ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ ناول کا زیادہ تر حصہ اسکی سوانعمری پر مشتمل ہے۔

 'سنزاینڈ لوّرز: نرینہ اولاد اور ان کے معاشقے‘ اس نے 1908میں لکھنا شروع کیا تھااور ماں کی وفات سے پہلے مکمل کر لیا تھا لیکن ماں کی بیماری کی وجہ سے پریشانی میں وہ بھول گیا کہ کہاں رکھا تھا۔ وہ مسودہ گم ہو گیا اوربسیار تلاش کے باوجود نہیں ملا۔ اس وقت اس ناول کا نام' پال موریل' تھا۔یہ ناول اسکی پرورش کے حالات بیان کرتا تھا۔

 لار نس نے دوبارہ مسودہ لکھا تو اس ناول کوکوئی بھی چھاپنے کو تیار نہ تھا۔سب سے پہلے اس نے ایک چھاپہ خانے جس کا نام 'بی۔ڈبلیو۔ہیُوبشے' نامی کمپنی کو اشاعت کے لئے بھیجا۔اس نے اس پر فحش نگاری کا الزام لگا کر چھاپنے سے معذرت کر لی۔پھر وہ مسودہ اس نے ا سے ایڈورڈ گیریٹ کے پاس بھیجا جس نے اسکی کتاب کے  80صفحات حذف کر دئیے۔اور اس ناول کے 432صفحات کر دئیے۔

 اس نے ناول کا تیسرا مسودہ  'ہینن مین' کوتبصرے کے لئے بھیجا۔ ناول پڑھنے کے بعد اس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اسی دوران اسکی ایڈورڈ گارنیٹ سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس سے بہت متائثر ہوا اوراسے اپنا استاد تسلیم کر لیا۔ایڈورڈ نے ناول کے بارے میں تجاویز پیش کیں کہ اگر لارنس اپنی ماں کے کردار کو قابل قبول   بنائے اور اس کے خانگی تعلقات کودلچسپ انداز میں پیش کرے تو وہ مسودہ اشاعت کے قابل ہوسکتی تھی۔اس نے مشورہ دیاکہ پال کی کی بہتر انداز میں کردار سازی کرے اور ناول کا نام تبدیل کرکے 'سنز اینڈ لوورز:اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے 'رکھے تو اس میں جان پڑسکتی تھی۔ مسودے کے اس تبصرے نے اس میں نئی روح پھونک دی۔اس میں پھر جوش آ گیا اور لگن سے ان ہدایات پر عمل کیا۔

 اس نے نظرثانی کرکے اس ناول کو ایک بار پھر لکھا۔یہ چوتھا مسودہ حتمی تھا۔ اس نے گارنیٹ کو بھیجا۔ لارنس نے اسے اپنے ناول کا خلاصہ بیان کرتے اسکی اہمیت بیان کی۔ ٹریجڈی کے ان  جذباتی پہلو ؤ ں کو اجاگر کیاجن کا شکار اس دور کے جوان ہو رہے تھے۔وہ ناول کا عنوان تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن تجویز قبول کرتے ہوئے اس کا نام’سنز اینڈ لوورز(اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے‘)رکھ دیا ۔اٹلی میں قیام کے دورا ن اس نے اپنے ناول ۔اولاد نرینہ اور انکے معاشقے‘ کو حتمی رنگ دیا اور اسکا چوتھا مسودہ تیار کیا جو بالآخر 1913 میں چھپا۔

 

ادبی مقام

 ایک مشہور امریکی ناقد بیری سکا ٹ سیئرچیمپ نے 28نومبر  2019کو لارنس کی ادبی خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے  نیویارک ویو آف سلیکٹڈ ایسسیزمیں سدا بہار ادیبوں کے بارے میں تبصرے شائع کئے۔ اسے ایساجنسی ہیجان  انگیختہ ناول نگار، ڈرامہ نگاراور شاعرسمجھا گیا جو  آرٹسٹ کے روپ میں ان کا برملا اظہار کر رہا تھا۔ اسے آوارہ منش انسان سمجھا گیاجو مقفع مسجع  اور مرصع  نثر نگاری کی تہہ میں فحاشی پھیلارہا تھا۔ اس کے ناول لیڈی چیٹرلیز لوورکو برطانیہ میں فحش نگاری کا ٹھپہ لگا کر اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ جیمز جوائس نے لارنس کو  ایک گندے ذہن والا ادیب کہا جبکہ ورجینیا وولف نے اس کو نچلی سطح کا  ادیب کہا۔ ریبیکا ویسٹ نے 1930 میں اسکی تپ دق میں چو الیس سال کی عمر میں وفات پر اسکے لئے تعزیت نامے شائع کئے  البتہ اس میں بھی اس نے دعوی ٰکیا کہ  لارنس پر فحش نگاری کا جو بھی الزام لگایا گیا وہ صحیح تھا۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کیا گیا کہ وہ ایک ایسا فطین ادیب تھا جس کی موت کے انیس سال بعد 1949 تک اسکی درگت بنتی رہی۔ اس کے بعد اس پر علمی مباحثے بند ہوگئے۔معاشر تی ارتقاء، حقوق نسوانیت اور صنعتی ترقی میں مزدوروں کی تحاریک نے ادب کو بھی قدامت پرستی سے نکالا اور وہ موضوعات جو چند عشرے پہلے طبو تھے،مقبول ہونے لگے۔انداز بیاں اور موضوعات جو وہ انیسویں صدی دور میں سامنے لایا تھا، اس میں اس نے بنیادی محرکات کی لفاظی اس انداز میں کی تھی کہ وہ اس وقت  کے قارئین اور ناقدین کو جنسی لذت کے موضوعات لگے۔ عہد جدید میں وہ موضوعات اور طرز بیان ہیجانی تلاطم کے لحاظ سے اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔

اس کی یہ کتاب جو اسکی سوانعمری شمار کی جاتی ہے، میں اس نے اپنی ذات کے بارے میں تمام باتیں کھل کر ایماندارانہ طریقے سے لگی لپٹی رکھے بغیربیان کر دی ہیں۔ اسکے اسلوب فن میں خوبصورت لفاظی ادبی شاہکار تصور کی جاتی ہے۔وہ الفاظ سے آسانی سے کھیلتا ہے۔خوب تراش خراش کرتا ہے۔ اسکے خطوط،حسین  نظاروں، پھولوں، سبزہ زاروں، پہلی جنگ عظیم کی منظر کشی، مضامین، تجزیے ، سہیہ کے مرنے کی کہانی، سفر نامے،قدیم مسمار شدہ محلات، قلعے، عمارات ، پرندوں، قدیم امریکیوں سے ملاقاتوں،وغیرہ اس اندازمیں لکھے گئے ہیں کہ اس سے پوری طرح اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کو پڑھ کر پوری طرح سے واضح ہو جاتاہے کہ وہ کن کن مقامات پر گیا  اور کن کن تجربات سے گزرا ۔لارنس مستقبل کا ادیب ہے۔ اس کے طبو سے متعلق موضوعات اگرچہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس نے ہر ایک کو مختلف اورانوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔ اسکے بنیادی تصورات میں انسان ہمیشہ نامکمل رہتا ہے۔ اس نے جگہ جگہ اسے اشاروں کنایوں میں بیان کیا ہے۔ ایک ایسا  تصور ہے جس میں وہ اس بات کو کہ نفس کے سوا کوئی وجود نہیں اسلئےاس کے نزدیک  اصلی علم نفس کو جاننا ضروری ہے۔ اس کے مطابق ایک آرٹسٹ کے ہاتھوں میں بے پناہ حساسیت پائی جاتی ہے جو اسکے نفس کے وجود کو سمجھ کر اپنے فن کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے۔اس نے اپنی باطنی کیفیات کو فطری کہا۔ وہ رومانیت کو ذاتی تجربات کی روشنی میں واضح کرتا ہے۔ وہ فطرت کو اس میں شامل کرتا ہے۔ اسکے نزدیک رومانیت کی ہر قسم میں فطرت بھی پوری طرح شامل ہوتی ہے جو تعلقات قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ڈی۔ ایچ۔ لارنس  ایک ایسا نامور شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار، نثر نگار، مضمون نگار، ادیب، سفرنامہ نگار اور عظیم مصورہے جو جیتے جی عزت و ستائش سے محروم رہا لیکن مرنے کے بعد اس کی قدرت ومنزلت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج وہ بیسویں صدی کے برطانوی عظیم ترین ادیبوں کی فہرست میں کافی اوپر آتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ برطانیہ کی انیسویں صدی کی ریت، روایات،سخت کیتھولک اور مذہبی عقائد، پس ماندہ معاشرے اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت کے دور میں ایسے ادب کی گنجائش نہیں تھی اسلئے اس دور کے سقراط، ارسطو بلیدان    چڑھے ۔ ڈارون، آئن سٹائن، گیلیلیو گیلیلی  جیسے عظیم سائنسدان پر زبردست تنقید کی گئی۔ ڈی ایچ۔لارنس بھی  اس تنقید سےمبری ٰنہیں تھا۔ انفرادی سوچ کا قبول نہ کیا جاناکوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ عصر حاضرمیں اس کتاب  'اولاد نرینہ اور انکے معاشقے'  پر فلم اور ٹی۔وی سیریل بنائے گئے ہیں۔ اس کے اس ناول پرتنقید ہوئی کہ  ااس نےفرائیڈ کے ایڈیپس کمپلیکس کے نظریے کو فروغ دیاہے۔

جس گھر میں وہ پیدا ہوا وہاں آج کل اسکے نام پر میوزیم بنا دیا گیا ہے۔بیویل بورڈسکول جس میں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، کا نام تبدیل کرکے گریزلے بیویل ڈی۔ایچ۔ لارنس پرائمری سکول رکھ دیا گیا ہے۔آج یہ ناول برطانیہ کے کلاسیکی ادب میں شامل ہے اور بیسویں صدی کے پہلے سو ناولوں کی فہرست میں نویں نمبر پرآتا ہے۔

 

اضافی نوٹ

 

اس ناول کی بہتر تفہیم کے لئے سگمنڈ فرائیڈ کے نظریے کے ان پہلوؤں کو جاننا اہم ہے جن کو بنیاد بنا کر یہ ناول لکھا گیا ہے۔ بچے میں پرورش کے دوران جنسی خواہش کیونکرجنم لیتا ہے قارئین کی آسانی کے لئے بیان کیا گیا ہے۔اس سے ناول کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔  فرائیڈ نے شخصیت کی تشکیل تین بڑے موضوعات کے تحت بیان کی۔


الف) شخصیت کی ساخت
ب)شخصیت کی نشوونما کے مدارج
 ج)  توانائی کی حرکتیت یعنی شدید توانائی جو اسے کسی عمل کرنے کیلئے متحرک کرتی ہے 

الف)  شخصیت کی ساخت

فرائیڈشخصیت کی بنیاو دہنی کیفیات قرار دیتا  ہے جس میں شعور، تحت الشعوراور لاشعور اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

شعور حالات و واقعات سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کا نام ہے۔ ذہن کے اس حصے میں ہر شئے بر نوک زباں ہوتی ہے۔شخصیت کی تشکیل میں اس کی اہمیت کم ہوتی ہے۔

تحت شعور یا نیم شعور۔ ذہن کی بناوٹ میں اہمیت کے لحاظ سے شعور سے زیادہ  اور لاشعور کے مقابلے میں کم اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ایسے عوامل جو ایک وقت شعور میں ہوتے ہیں، تمام کے تمام یاد نہیں رکھے جا سکتے کیونکہ ہم اپنے ذہن میں کسی شئے یا واقعے کی مقدار زیادہ سے زیادہ ایک مقررہ  حدتک ہی یاد رکھ سکتے ہیں۔ اگر غیر ضروری اشیاء کو بھلایا نہ جائے تو نئی چیزیں سیکھی نہیں جا سکتیں اور مخصوص حد سے آگے  نہیں جایا جا سکتا۔ اس کے علاوہ ایسے واقعات جن کے ساتھ شرم، گناہ، جرم،جنس اور ناگوار احساسات منسلک ہوں فرد میں احساس ندامت پیدا کرتے ہیں جس سے  ذہن میں تناؤ، تشویش اور اضطراب پیدا ہو جاتاہے۔اس لئے پریشانی پیدا کرنے والے واقعات کو شعوری سطح پر دبا دیا جاتا ہے تاکہ وہ حافظے میں نہ آئیں۔ اہمیت کے لحاظ سے وہ ذہن میں ایک ہفتے  یا اس سے زیادہ تک دبے رہتے ہیں۔ اگر ان کو اپنی مرضی سے یاد کیا جائے تو حافظے میں واپس آ جاتے ہیں ورنہ وہ  لاشعورر میں چلے جاتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان واقعات کو بھول جاتے ہیں۔

ذہنی بناوٹ میں لاشعور سب سے اہم شمار کیا جاتا ہے۔ایسی معلومات یا واقعات جو تحت الشعور میں ہوتے ہیں وہ اگر یاد نہ کئے جائیں یا دہرائے نہ جائیں تو وہ ذہن کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں۔وہ ہمیشہ وہاں موجود رہتے ہیں۔ شعوری سطح پر نمودار نہیں ہوتے لیکن بلاواسطہ طور پر حرکات و سکنات سے ظاہرہوتے رہتے ہیں۔            

 ب) شخصیت کے نموئی مراحل

 فرائیڈ کے نزدیک شخصیت ایک پیچیدہ عمل ہے۔اور اس کی تشکیل میں ایک سے زیادہ عوامل حصہ لیتے ہیں۔اس کے ڈھانچے میں تین بنیادی عناصر ہیں جو پرورش کی تمام منازل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ عناصر لاذات،انا اور فوق الانا ہیں۔

لاذات۔۔ فرائیڈ کے نزدیک لاذات لاشعور کا پہلا  عنصر ہے جو پیدائش کے وقت سے ہی شیر خوار میں موجود ہوتا ہے۔یہ عنصر خواہشات کی فوری تسکین چاہتا ہے۔یہ اصول لذت کے تحت کام کرتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف سے فوری نجات اور اپنی ضروریات اور خواہشات کو فوری طور پر پورا کرنا۔اگراس کی خواہشات کی تسکین نہ ہو تو شیر خواراپنی ضروریات خیالوں میں ہی پوری کر لیتا ہے جیسے شیر خوار بچے کودودھ نہ ملے تو انگوٹھاچوسنے لگتا ہے یا جوانی میں سراسر ناکامیوں پر ہوائی قلعے تعمیر کرنے لگتا ہے۔ 

انا۔۔ لاشعور کا و ہ حصہ ہے جو کسی حد تک شعوری ہوتا ہے۔ اس عنصر میں شیر خوار یا بچے میں یہ اتنی عقل پیدا ہو جاتی ہے کہ کسی حد تک حقیقت کا ادراک کر لے۔ شیر خوار دودھ کے حصول کے لئے اتنا انتظار کرنا سیکھ جاتا ہے کہ اسکی ماں یادیکھ بھال کرنے والا شخص دودھ گرم کرکے لائے۔اس عنصر میں حقیقت سے بتدریج آگاہی حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

فوق ا لا نا۔۔شخصیت کے اخلاقی پہلوؤں کی نشوونما کرتی ہے۔ یہ پانچ سال کی عمر میں بننا شروع ہوتی ہے۔ یہ حقیقت کی بجائے دیانتداری اور سچائی کی نشوونما کرتی ہے۔

شخصیت کے تینوں لاشعوری عناصر ( لا ذات ، انا  اور فوق ا لانا ) بچے کی پیدائش سے شروع ہوتے ہیں جو عمر کے پہلے پانچ سالوں میں شخصیت کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس بنیاد پر شخصیت کی عمارت تشکیل ہوتی ہے۔ان ابتدائی سالوں کو جس میں بچے میں تخیلاتی، حقیقت پسندی، جنسی اور اخلاقی  اقدار پیداہوتی ہیں،فر ائیڈ نے اس کے لئے عمر کی پانچ منازل بیان کیں۔

پہلے پانچ سال تک بچہ مکمل طور پر بالغوں کا محتاج ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جائے وہ شعوری طور پر تو بھول جاتا ہے لیکن اسکے لاشعور میں آخری سانس تک رہتا  ہے اور اسکے کردار اور اعداد و اطوار میں بلاواسطہ طور پر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔شخصیت کی تشکیل میں بچے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ  اسکا ذہن حقیقت پسندانہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اکتسابی طور پرعملی زندگی گزارنے کے  وصائف پیداہونا شروع ہو جاتے ہیں۔فرائیڈ کے مطابق پہلے پانچ سال اہم ترین ہیں لیکن شخصیت کی حتمی تشکیل بلوغت میں مکمل ہوتی ہے جس میں خارجی اور باطنی عوامل ان وصائف کو بہتر یا کم کر سکتے ہیں۔اس نے نموئی عمل کی کئی منازل بیان کیں جو درج ہیں۔

پہلی منزل بچے میں والدین کا رویہ، باہمی تعلقات، ان کی پرورش کے طریقے، سماجی اور اقتصادی رتبہ، بچے کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے،  اہم ہے۔ اس عمر میں شیر خوار کی بنیادی ضرورت منہ کے ذریعے خواہشات کی تسکین ہے۔ وہ ہر شئے کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ منہ کے ذریعے تسکین حاصل کرنے کے اس مرحلے کو دہنی منزل کہتے ہیں جو پیدائش سے تقریباً ڈیڑھ دو سال تک رہتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں بچہ ہر طرح کی لذت منہ سے حاصل کرتا ہے اور ہر شئے کو فوری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انتظار نہیں کرتا۔ ’لبیڈو‘ جو شہوت پیدا کرتی ہے،کی توانائی کے ذریعے فوری لذت کا حصول کرتا ہے۔  یہاں بچہ نرگسیت کا  شکار ہوتا ہے اورخود سے محبت کرنے لگتا ہے۔

بچے کی زندگی میں سیکھنے کی دوسری سٹیج مبرزی منزل ہے جس میں بچہ انتظار کرنا سیکھنے لگتا ہے اورچند منٹوں تک وقت صبرکرنا شروع کر دیتا ہے۔  اس کی انا کا تعقل بننا شروع ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ یہ وہ عمر ہے جس میں اس کی بول و براز کا احساس پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ اسکوپاخانے اور پیشاب کی احتیاجات کا علم ہوتا ہے۔ اسکی تربیت کی جاتی ہے کہ کس جگہ پر اور کس وقت پر ان کا اخراج کرنا ہے۔ اگر اس پر ضرورت سے زیادہ سختی کی جائے تو وہ انہیں کوئی قیمتی شئے سمجھنے لگتا ہے اور کونوں کھدروں میں کرنے لگتا ہے۔ جوانی میں ایساشخص وہمی، کسی پر بھروسہ نہ کرنے والا، خود پر کم اعتماد رکھنے والا بہت زیادہ کنجوس یا  بہت زیادہ فضول خرچ بن جاتا ہے۔ یہ  تین چار سال کی عمر تک  جاری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اس عمر میں اخلاق،آداب، سلیقہ، خود پر کنٹرول پانا سیکھاجاتا ہے۔

اگلا مرحلہ جنسی منزل ہے۔ یہ عمر تین چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے اور پانچ سے سات سال کی عمر تک قائم رہتی ہے۔اس عمر میں بقول فرائیڈبچے کو جنس کی شناخت ہو جاتی ہے۔ لڑکا اپنی ماں کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ والد کو اپنا رقیب سمجھتا ہے۔ دلی خواہش کرتا ہے کہ وہ اس کے راستے سے ہٹ جائے۔وہ ماں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ باپ چونکہ اس سے طاقتور ہے اور مکمل طور پر اس کا محتاج ہے اسلئے وہ اپنی خواہشات کو اس کے سامنے دباتا بھی ہے کہ کہیں غصے میں آ کر اسکا عضو تناسل ہی کاٹ نہ دے۔والدہ بھی اسکی طرف مائل ہوتی ہے۔ وہ بھی لاشعوری طور پر جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔اسی طرح بیٹی ماں کو اپنا رقیب سمجھتی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر سمجھتی ہے کہ اسکے باپ پر وہ قبضہ کر کے بیٹھی ہے اور اس نے اسکا عضو تناسل کاٹ دیا ہے تا کہ وہ اپنی ماں سے جنسی عمل نہ کر سکے۔اسلئے باپ پر اب مکمل طور پر اس کا حق ہے۔باپ بھی اپنی بیٹی کو بیٹے پر ترجیح دیتا ہے اور اس کے لاشعور میں بھی اس سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس تصور کو نفسیاتی زبان میں اوڈیپس کمپلیکس اورآختگی کمپلیکس کہتے ہیں۔ ڈی-ایچ لارنس نے اپنے اس ناول میں ایڈیپس کمپلیکس کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ تصور مذہبی، اخلاقی، قانونی اور سماجی طور پر قابل قبول نہیں اسلئے اس پر فرائیڈ کوشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔جس کے جواب میں اس نے کہا کہ جنسی جذبات و احساسات کم و بیش اکثر عمر بڑھنے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہ صرف ان میں ہی موجود رہتے ہیں جن کی اپنے والدین سے والہانہ جذباتی وابستگی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ اوڈیپس کمپلیکس کا شکار رہتے ہیں۔اس عرصے میں نومولود اور طفل کے جتنے شدید سفلی جذبات ہوں گے، ان کو ظاہر ہونے سے روکنے کے لئے وہ اتنی قوت سے دبائے گا اور وہ بھول جائے گا۔لیکن وہ مستقل طور پر اس کے لاشعور میں چھائے رہیں گے جیسا کہ ڈی-ایچ-لارنس کے ادب میں ظاہر ہوتا ہے۔اگلی منزل کو فرائیڈ نے مخفی سٹیج کہا۔ اس کے مطابق بچے میں پہلے پانچ سالوں میں شخصیت کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ یہ تقریباً بارہ سال کی عمر تک رہتی ہے۔باقی وصائف ان بنیادوں پر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔پانچ سال گزرنے کے بعد والدین، سکول، ہمجولی، مذہب اسکے کمپلیکس کو کم کر دیتے ہیں۔جو باتیں پانچ سال کی عمر تک بچہ سیکھ چکا ہوتا ہے، ماحول ان میں تقویت  یا استرداد پیدا کرتا ہے۔نفسیاتی نمو کا یہ عرصہ طویل اور پر سکون ہوتا ہے۔حقیقت پسندی پیدا ہو جاتی ہے۔ اندرونی خلفشات کم سے کمتر ہوتے جاتے ہیں اور بڑے اعتماد  اخلاقی، مذہبی اور اور سماجی  معیار کے مطابق مسائل کا حل ڈھونڈنے کی صلاحیت اجاگر ہوتی ہے۔

آخری منزل اس نے تناسلی منزل کہی جو نو بلوغت سے شروع ہوتی ہے اور بلوغت یا جوانی تک رہتی ہے۔ اس عمر میں شخصیت کی عمارت مکمل ہو جاتی ہے۔جنسی اور ذہنی پختگی حاصل ہو جاتی ہے۔جنسی خواہشات بلوغت میں پھر سے  بڑے زور شور سے نمودار ہو جاتی ہیں اورخود پر ضبط پیدا کرنا بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے جو بلوغت کے بعد کی عمر تک ضبط میں آ جاتا ہے۔           

ج)شخصیت کی حرکتیت  

 فرائیڈ نے شخصیت کی حرکتیت میں جبلت زیست اور جبلت مرگ کا تصور پیش کیا۔جبلت زیست میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی دائمی بقا رہے۔ انسانی جسم تو فانی ہے اسلئے وہ کوئی ایسے کام کرنا چاہتا ہے کہ اس کا نام اس کے مرنے کے بعد بھی لیا جاتا رہے۔ شہرت، دولت،علم و فضل، علوم و فنون۔، افزائش نسل، شاعری، مصوری، گلو کاری، علمی ادبی اور سائنسی تخلیق وغیرہ دائمی زندگی حاصل کرنے کی چندمثالیں ہیں۔ زندگی کی جبلت کے بر عکس انسان میں مرنے کی جبلت بھی پائی جاتی ہے۔ 

ولیم، پال اور ان کی ماں زندی بھر اس کشمکش میں مبتلا رہے۔ احساس محرومی، نا آسودگی، بوریت، افسردگی اور مرنے کی خواہش اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ اپنے رومانی مقاصد کو حاصل کرنے میں لا شعوری طور پر ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ   مرنے کی خواہش اسلئے بھی پیدا ہوتی ہے تاکہ خواہشات، ذمہ داریوں، ناکامیوں، دکھ، غم، مشکلات سے فرار حاصل کیا جا سکے۔

کسی کی زندگی کا سب سے آرام دہ وقت ماں کی کوکھ ہوتی ہے جس میں بلا تردد اسکی تمام خواہشات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ اسلئے لا شعوری طور پر وہ دوبارہ ماں کے پیٹ میں واپس جا  کر سکون حاصل کرنا چاہتا ہے اور فرائیڈ کے مطابق یہ زبردست مباشرت سے علامتی طور پر پوری ہو سکتی ہے۔ افسردگی اور بوریت بھی موت کی لاشعوری علامت ہے جو کہ ڈی-ایچ-لارنس نے اس ناول میں بڑی کامیابی سے پیش کی ہے۔


 

 

 


Popular posts from this blog