Chating ( Ticket Please ) ' by Narendra waghela) گپ شپ پلیز


 

Chatting ' by Narendra  waghela)







 

 

عالمی ادب 

گپ  شپ  پلیز

Chatting Please

واگھیلا  نریندر

Narendra Vaghela (World acknowledged Writer)


پیشکش  و تجزیہ  : غلام  محی الدین

' مدھو، میری چیک بک اور پاس بک لاؤ ۔ میں نے بنک جاناہے۔'  موہن داس  چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہتا ہے۔'  ایڈی کہاں ہے؟' ۔۔۔

' وہ ابھی تک حسب معمول گھوڑے بیچ کر سو رہاہے۔دل کرتا ہے اسے تھپڑ مار کر اجگاؤں' مدھو کہتی ہے 'اور آج بجلی کا بل بھی اتار ناہے، ورنہ دس فیصد جرمانہ  پڑجائے گا۔'

'جرمانے سے یادآیاکہ پروفیسر کے پیسے بھی لوٹانے ہیں۔ پھیری والے کو دینے کے لئے اس سے  پکڑے تھے۔اب لوٹانے تو پڑیں گے'۔

'اوہ!'مدھو نے کہا۔

'ارے دس بج گئے ، ایڈی ابھی تک نہیں اٹھا۔'

'رات دیر سے سویا ہے۔ پہلے تو گیارہ بجے تک سو جایا کرتا تھا لیکن اب کئی روز سےوہ کمپیو ٹر میں گھسا رہتا ہے۔جاکر اب   رات  دو تین بجے  سوتاہے۔ '

کوئی کام کرتا رہتا ہوگا۔۔۔جاؤ ، چیک بک  اور پا س  بک لے آؤ۔'

  'گڈ مارننگ ڈیڈی 'ایڈی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتا ہے۔

'  گڈ آفٹر نون ہی کہہ لو۔۔۔ابھی اس کے ہونے میں کون سی کسر باقی ہے'۔ موہن جل کر بولا۔

  اس کی بات کا جواب دیئے بغیر  کھانے کی میزپر بیٹھ جاتا ہے اور  موبائل  پر چیٹنگ   کرنے لگتا ہے ۔

'ایڈی، ڈبل روٹی پکڑانا۔' موہن کہتا ہے۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ پھر کہتا ہے 'بریڈ اور بٹر دو ایڈی۔'وہ پھر بھی نہیں سنتا تو موہن ذرا اونچی آواز میں اپنی بات دہراتا ہے ۔

'کیا؟'۔۔۔'بریڈ بٹر، موہن پھر بولتاہے۔'لیکن وہ چیٹنگ میں مصروف رہتا ہے۔اتنے میں مدھو چیک بک اور پاس بک لے آتی ہےاور ایڈی کو طنزیہ کہتی ہے،

 'ہوگئی تیرے دن کی شروواد!'۔

ایڈی  اس کی پرواہ نہیں کرتا اوراپنے کام میں مگن رہتا ہے۔موہن کہتا ہے۔'میں اب چلتا ہوں۔'

'سنو! پاس بک میں اندراج پورا کروا لینا۔'۔۔۔'آف کورس۔'موہن  کہتا ہے۔

'اور کھانے میں کیا بناؤں؟'وہ کچھ نہہں کہتا  ۔

'تمہیں  ڈبل روٹی اور سبزیاں کھانی چاہیئں۔'  مدھو اسے مشورہ دیتی ہے ۔

 'دال چاول بنا لینا۔میں  چلتا ہوں۔'

 'کچھ کھا لو۔'

' نہیں، میں کچھ نہیں کھاؤں گا۔میں باہر جارہاہوں،وہاں ہی کھا لوں گا۔'ایڈی اپنی والدہ  کی بات پر کہتا ہے۔

موہن  شام کو واپس آتاہے تو اس کا پڑوسی پروفیسر قریبی  پارک میں کسرت  کر رہا ہوتا ہے،کی  اپنے موبائل سے اپنی تصویر کھینچتا ہےاور فیس بک پر لگا دیتا ہے۔

'گڈ ایوننگ۔ تم نے  ورزش کرلی  پروفیسر؟'

'گڈ ایوننگ، ارے کاہے کی کسرت!اس محنت نے تو میری جان ہی نکال دی ہے۔'

'اس سے پہلے کہ تمہاری جان نکلے ،اپنا سو روپیہ لو جو تم نے کل چائے والے کو آن لائن ٹرانسفر کیاتھا۔

'موہن، تم اپنی رقم آن لائن کیوں ٹرانسفر نہیں کرلیتے؟ انہیں آن لائن بھیجاکرو۔ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم فوری طور پر منتقل ہو جاتی ہے۔ کہیں جانا اور وقت ضائع  نہیں کرنا پڑتا اور بنک کے دھکے نہیں کھانے پڑتے۔'۔

'اس جھنجھٹ میں کون پڑے' موہن کہتا ہے

تمام کام نپٹا کے وہ  آٹھ بجے گھر لوٹتا ہے۔

' کیا ایڈی  آگیا ہے؟'

'نہیں۔

' وہ اسے فون لگاتا ہے تو وہ بند ملتا ہے۔

' ایڈی کو فون کررہاہوں،وہ اٹھا ہی نہیں رہا۔پتہ نہیں ،وہ کیا کرتااور کہاں جاتا ہے'

'میں نے اسےسکوٹر پر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔'پروفیسر کے   گیارہ سالہ بیٹے بنٹی کہتا ہے جو اس وقت  انہیں  کھیر دینے آیاہے

 'انکل،ایک منٹ دیں، میں  پتہ چلاتا ہوں ۔' وہ فیس بپر جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایڈی  ساحل  کیفے میں چار گھنٹے پہلے اپنی گرل فرینڈکے ساتھ  چاکلیٹ کھا اور ملک شیک پی رہاتھا۔' وہ  فیس بک (ایف۔بی)  سے  اس کی تازہ ترین سرگرمی جو اس نے ایف بی پر لگائی تھی  ،دیکھ کر کہتا  ہے'

'کیا؟'

بنٹی نفیس بک پر اپ ڈیپ موہن کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

'ایف۔ بی  سے ہرایک کو تمام باتوں کا علم ہوجاتا ہے۔کون ،کہاں،کس کےساتھ گھوم رہا ہے، سب پتہ  چل جاتا ہے۔'بنٹی  ان کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔

' اس سے کیسے پتہ چل جاتا ہے؟کس کو پتہ چل جاتا ہے؟'موہن  تجسس سے پوچھتا ہے۔

' ایف بی   ایک ایسا  پروگرام ہے جس سے پوری دنیا کی لمحہ بہ لمحہ خبر ملتی رہتی ہے ۔' بنٹی جواب دیتا ہے ۔

'نہیں! نہیں، نہیں!ذرا رکو۔ ایک منٹ رکو۔ تم یہ  کہہ رہے ہو کہ تم فیس بک دیکھ کر بتا سکتے ہوکون ، کہاں ، کس کے ساتھ گھوم رہا ہے ، سب کچھ پتہ چل جاتا ہے۔'موہن کو یقین نہیں آتا۔

'ہاں۔اور صرف اتنا ہی نہیں، یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون کیا کھا رہا ہے کیا پی رہا ہے، کس کے پاس کتنے کتے یا پالتو جانور ہیں۔ کون کب پیدا ہوا ، کس کی موت ہو گئی ۔اگر اس پر کوئی اطلاع دے توان سب چیزوں کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔ یہ سب باتیں سچ ہیں ۔' اتنے میں اس کا والد  جو پروفیسر ہے ،اسے ڈھونڈتا ہوا آجاتا ہے ۔

'بنٹی تم   اپنا ہوم ورک کرنے کی بجائے یہاں کیا کر رہے ہو؟'

'ممی نےآنٹی کو کھیر دینے کو بھیجا تھا۔' وہ ی بول کروہ  چلا جاتا ہے۔اتنے میں ایڈی  گھر میں داخل ہوتا ہے۔

'کھانا کھالو'۔

'نہیں ۔ میں کھا کے آیا ہوں۔'

'تھوڑا سا کھا لو بیٹا۔مدھو نے تمہاری پسندیدہ سبزی بنائی ہے اور پروفیسر کے گھر سے کھیر بھی آئی ہے۔' تو ایڈی  کھانے کی میز پر بیٹھ جاتا ہے۔

'کہاں تھا تو ؟'مدھو  پوچھتی ہے

' مارٹن کیفے! وہاں ہاٹ چاکلیٹ اور ملک شیک   اچھا ملتا ہے۔کیا ایسا ہی ہے ایڈی۔' موہن   کھانا کھاتے ہوئےبولتا ہے۔

ایڈی چپ رہتاہے۔۔۔سبزی کیسی بنی ہے ؟' مدھو  موہن سے پوچھتی ہے۔

' ایک دم   َبڑھیا۔اس میں نمک ذرا سا کم ہے۔'

'میں نے تو پورا نمک ڈالا تھا۔ایڈی کیا تم بھی ایسا ہی سمجھتے ہو۔مزید نمک نہ ڈالنا ، تمہیں  بلڈ پریشر ہے '۔

ایڈی سنی ان سنی کرکے کھاتے ہوئے موبائل  پر چیٹنگ کرتا رہتا ہے۔

' کھاتے وقت تو نگوڑا موبائل رکھ دیا کرو۔'مدھو کہتی ہے۔

 اہم کام کر رہاہوں۔'

'چاول دینا بیٹا، تمہاری انٹرن شپ کیسی  جا  رہی ہے؟' موہن   دریافت کرتاہے

۔' ٹھیک سے چل رہی ہے۔'

' تم اس کے بارے بتاؤ گے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے سب لوگ پوچھتے ہیں، چونکہ ہمیں   اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اس لئے   ہم  بتا نہیں پاتے۔' مدھو  پوچھتی ہے۔

 'کیا بتاؤں۔۔۔ اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔آپ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ  میں کیا سمجھ آئے گی؟'  'کیا تم نے سمجھایا اور ہمیں سمجھ نہیں آئی۔تم نے سمجھا کر دیکھا ہے کبھی؟'

'اس قصے کو چھوڑ ہی دیں۔آپ کو سمجھاتے سمجھاتےمیں خود سب بھول جاؤں گا۔'

'دیکھا! اعلیٰ تعلیم دلانے  کے لئے پوری زندگی مصائب کا سامنا کرو۔پڑھاؤ ،لکھاؤ،بڑا کرو اور بچے بڑا ہونے کے بعد کیابولیں گے۔' موہن دکھی ہو کر بولتا ہے۔یہ سن کر ایڈی اٹھ  کر جانے لگتا ہے

'او۔کے، او۔کے۔تم اب کہاں جارہے ہو، کھانا تو کھالو۔تم  ہمیں کبھی بھی  ڈھنگ سے کوئی جواب نہیں دیتے۔میں  نے تم سے جو بات کی اس میںکون سی بات  غلط ہے؟   مدھو بولتی ہے ۔ 'تمہیں اسے یہ بات  آرام   اور نرمی سے بھی  بول سکتی تھیں۔' موہن کہتاہے۔ پھر وہ سونے چلے جاتے ہیں۔  مدھو بستر پر کروٹیں بدل رہی ہے۔

 'کیا ہوا؟' 

'۔' نیند نہیں آرہی ۔

 'کیا سوچ رہی ہو؟'

'سماں کتنی تیزی سے بدل  رہا ہے۔اس  متغیر موسم میں  ہمارا بیٹا کتنی تیزی سے آگے  بڑھ رہا ہے۔  ' مدھو کہتی ہے، ہم چونکہ جدید تکنیک کو نہیں جانتے اس لئے ہمیں اس  شئے کا علم نہیں کہ ایڈی کیا کررہا ہے۔' موہن  اس کی ہاں ملاتا ہے۔۔۔۔' جب بھی اس سے بات کی جاتی ہے ۔ہاں، نہ میں جواب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ فون کا جواب ہی نہیں دیتا' مدھو اضافہ کرتے بولتی ہے۔

'میرا  فون تو اٹھاتا ہی نہیں ۔آج بنٹی نے ہی معلوم کرکے بتایا کہ چاربجے وہ مارٹن کیفے میں تھا۔' موہن  تڑکا لگاتا ہے۔۔

اگلے روز اسے پروفیسر ملا ۔اس نے آن لائن بنک ٹرانسفر کا ذکر چھیڑ دیا  ۔ ۔'دیکھو موہن۔ ماحول سے مطابقت کے لئے اقدار بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔اپنے بچوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں  ان کی

سوچ کے مطابق  سوچنا پڑتا ہے۔' ان کی طرح جینا پڑتا ہے۔اب میرے بیٹے  بنٹی کوہی لے لو ،

گیارہ  سال کا بچہ ہےلیکن انٹرنیٹ کے بارے میں سب جانتا ہے،رقم  آن لائن کیسے ٹرانسفر کر سکتے ہیں   ، کے اقدامات اس  کی انگلیوں کی نوک پر ہیں۔۔ اس نے انٹر نیٹ پر ہر قسم کے اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں۔ انسٹاگرام، وٹس ایپ، ٹویٹر، وی پی این، ٹک ٹاک  وغیرہ ۔ میں مستقل طور پر اس کے اکاؤنٹ چیک کرتا رہتا ہوں کہ کہیں وہ کوئی غلط  سائٹ پر تو نہیں جا رہا ۔ہماری نسل کے لوگوں کے لئے یہ وقت طلب مرحلہ ہے۔ تم سوشل میڈیا استعمال کیا کرو ، یہ بہت فائدہ مند ہے۔' پروفیسر اسے مشورہ دیتا ہے۔

'تمہاری باتیں سچ ہیں ۔تم جانتے ہو ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایڈی ہمارے ساتھ مختصر ترین بات کرتا ہے۔ ہر وقت موبائل پر بات کررہا ہوتاہے یا ٹائپ کررہاہوتا ہے، کھاتے وقت بھی فون استعمال کرتا رہتا ہے ۔اس پر نہ ہو تو کمپیوٹر پر ہوتا ہے۔ کل بنٹی نے بتایا کہ وہ چار بجے کہاں تھا۔'موہن اسے اطلاع دیتا ہے۔

'بنٹی نے؟'پروفیسر پوچھتا ہے۔

'ہاں۔'

ْانٹرنیٹ سے؟'

   'ہاں ۔'موہن  کہتاہے۔

' میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔تمہیں سوشل میڈیا کے بارے میں سیکھنا شروع کر دینا چاہیئے۔

یہ آسان ہے۔تم اسے جلد ہی استعمال کرنے لگو گے۔'

'کیا تم پاگل ہو پروفیسر؟'

'میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔انٹرنیٹ سیکھ لو۔'

' ایڈی  موبائل اور کمپیوٹر کا  ماہر  بن گیا ہے۔چوبیس گھنٹےانٹرنیٹ میں ڈوبا رہتا ہے۔اسے اس بلا سے نکالنے کی بجائے مجھے اس میں ڈال رہے ہو۔'

' میں تمہیں یہ نہیں کہہ رہا  کہ تم ہر وقت  سوشل میڈیا  میں گھسے رہو۔ '

'میں پریشان ہوں۔میں ایڈی کی اس عادت سے تنگ آگیاہوں۔اسے اس سے نکالنے کی بجائے تو بول رہا ہے کہ میں  خود اس برائی میں پڑ جاؤں؟

  'میں یہ نہیں کہہ رہا کہ  کہ تو ہر وقت سوشل میڈیا میں غرق رہو۔تم اس کے ذریعے ایڈی کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہو۔۔' پروفیسر بولتا ہے۔

'مثلاً'۔موہن سوالیہ نشان سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔

'جیسے آج وہ بنا بتائے چلا گیا،تم سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم کر سکتے ہو کہ وہ اس وقت کہاں ہے ،کس کے ساتھ ہے ،کیا کررہاہے ۔تم یہ سب پتہ لگا سکتے ہو کیونکہ وہ اپنے ایف بی دوستوں کو اپنی ہر سرگرمی اس پر بتاتا رہتا ہے۔'

۔۔۔'ہاں، خیال تو اچھا ہے' ،

 'میرے پاس بنٹی کا پرانا فون ہے  جو تمہارے موجودہ فون سے بہتر ہے۔وہ میں تجھے دے دیتا ہوں۔میں  یا بنٹی تمہیں اسے استعمال کرنا سکھا دے  گا۔' پروفیسر تجویز دیتا ہے۔

'میں اسے تو سیکھ لوں گا مگر سوشل میڈیا  تک دسترس کیسے ہوگی؟

'کیا تم سیکھنے کے لئے آمادہ ہو؟'

'ہاں۔'موہن رضامندی دیتا ہے۔

'فیس بک اکاؤنٹ کھولنے کے لئے نام اور پاس دورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔' اس نے موہن نے شاختی کارڈ لیا، اس کے کوائف درج کئے' ۔  اس کا ایف ۔ بی اکاؤنٹ  بنا یا اور اس کا پاس ورڈ سیٹ  کیا۔ اکاؤنٹ کھولنے کے بعد کہا کہ یہ تمہارا  ایف ۔بی اکاؤنٹ ہے، تمہیں اپنی تاریخ پیدائش  لازماً یاد رکھنا ہوگی۔'

'شکریہ ۔ موہن کہتا ہے۔

'  میرے رجنی کانت ! امید ہے باقی اکاؤنٹ اورسوشل میڈیا تمہیں بنٹی سکھا دے گا۔ میں اسے  کہہ  دوں گا۔'

اگلے روز بنٹی موہن کو سوشل میڈیا سکھانے کےلئے آتا ہے اسے  تفصیل سے سوشل میڈیا کے بارے میں سمجھاتا ہے ۔

 ' تمہاری فو ٹو کھینچنی ہے  ۔ اپنی فوٹو کھنچواؤ۔ '  بنٹی  کہتا ہے۔موہن   کھڑا ہو کو پوز مارتا ہے ۔

'سوشل میڈیا میں شامل ہونے کی مبارکباد قبول ہوانکل۔۔۔۔اب   آپ کا انسٹاگرام  اکاؤنٹ بناتا ہوں ۔'

'شکریہ بنٹی۔'

ایڈی آجاتاہے۔وہ موبائل ہر چیٹنگ کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے والدموہن   کے ہاتھ میں نیا فون دیکھ کر پوچھتا ہے ۔' یہ کس کا فون ہے۔'

'میرا ہے۔کیوں؟

'یہ تو سمار ٹ فون ہے۔کیا استعمال آتا ہے؟'

 'ہاں۔۔۔ اپنی فیس بک چیک کرو" موہن ایڈی کو بولتاہے۔۔۔۔ایڈی دیکھتا ہے، اس کے باپ کی فرینڈ رکویسٹ آئی ہوئی ہوتی  ہے۔

پروفیسر وہاں آجاتا ہے۔ وہ انہیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے'واہ! آئیڈیا کام کررہا ہے۔

'پروفیسرتم  ہم تینوں کی  فوٹو لو۔' وہ ان تینوں کی  فوٹو جو سوشل میڈیا میں ڈال  دیتا ہے۔ چند منٹ بعد موہن کے منہ سے' واہ 'نکلتا ہے۔

'کیا ہوا؟'پروفیسر پوچھتا ہے۔

' تین دل اور لائیک آئے ہیں ۔'کیا بات ہے۔ واہ!'پروفیسر تعریف کرتا ہے۔

 اگلے روز   جب  موہن ایف بی کھولتا ہے تو دیکھتا کے ایڈی بھی اف بی پر ہے ۔

'ایڈی تمہاری امی بریانی بنارہی ہے۔باہر سے کھانا نہ کھانا۔'

'او۔کے پاپا۔' ۔

'کیا آئس کریم کھاؤ گے؟'مدھو نے لکھواتی ہے۔

'؛ہاں'۔

'تو میں آئس کریم منگوا رہی ہوں۔ 'اس طرح ان کی باقاعدہ بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔۔۔'پاپا ، آپ کو تو ایف۔ بی اور واٹس اپ استعمال کرنا آگیا ہے۔'

'ہاں'۔

اگلے روزبنٹی اس کا  انسٹا گرام اکاؤنٹ   انسٹال کرنےاپنے والد کے ساتھ آجاتا ہے۔'

' کوئی  نام اپنے ذہن میں لاؤ'  بنٹی  کہتا ہے

۔' موہن داس' ۔

' نہیں انکل ،اپنا نام نہیں ۔کوئی ایسا نام جو فرضی ہو اور انوکھا ہو۔'

'کیا انوکھا نام رکھنا ضروری ہوتا ہے؟ '

'ہاں انکل۔' وہ سوچنے لگ جاتا ہے ۔ بنٹی سے پوچھتا ہے،

 'تمہاا انسٹاگرام  اکاؤنٹ کس نام کا ہے؟'

'ٹیکی  داس'  ۔

 ،'تمہارے اکاؤنٹ کا نام کیا ہےپروفیسر؟'

 'ایک پیگ اور سہی۔'

موہن داس اسے کہتا ہے کہ کیا تو واقعی ٹیچر ہے۔یہ کیسا نام رکھاہے؟'

 'تو کیا ہوا؟ اس نام سے لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں۔' پروفیسر بولتا ہے۔

'ہاں ! تو  ۔'۔۔۔'مل گیا بنٹی اچھل کر بولتا ہے۔

' کیا؟' ارے بتا ، کیا نام رکھا ہے؟

  '   گپ شپ  پلیز!'۔بنٹی کہتا ہے

' بہترین۔'

موہن کو ایڈی کا فون آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ  سوچ رہا تھا کہ وہ  اپنے برانڈ کوڈیجیٹل د نیا میں متعارف کروائے۔اس طرح  زیادہ لوگ دیکھیں ا ور  رائے دیں   گے اور اس پراڈکٹ کا اثر  ناظرین پر  زیادہ مؤثر ہو گا۔۔اس کی قیمت معقول  رکھی جائے گی  جو ان کی قوت خرید میں ہوگی۔اس لئے ہمیں ایسی پیشکش کرنی چاہیئے جس میں ترغیب ، ڈسکاؤنٹ ، پروموشن وغیرہ بتائی جائیں ۔'  

'تمہاری پراڈکٹ کیا ہے؟ پاس بیٹھا پروفیسر  پوچھتا ہے۔

'ابھی فائنل نہیں کی۔'

' میرا خیال ہے کہ تم اپنے  ڈیجیٹل مارکٹنگ کے پروگرام میں ابھی پوری طرح تیار نہیں ہو۔ تمہارے پا س کوئی پراڈکٹ ہے ، نہ واقفیت اور نہ ہی تجربہ۔اس کے لئے مزید تفصیلات درکار ہیں۔اس لئے جب تک جامع پروگرام نہ ہو اسے شروع نہ کرو۔تم اپنے ساتھ تمام انٹرنز کو کہو کہ وہ اپنی اپنی پروڈکٹس اور پروگرام پیش کریں اور بحث مباحثہ کے بعد مارکیٹ میں پراڈکٹ لانچ کریں۔اس کے آغاز سے پہلےدلچسپ   ریلیں بنا کر ٹک ٹاک پر لگاؤ۔

' ریلیں کیا ہوتی ہیں؟ موہن  پوچھتا ہے۔

' یہ وڈیو ہوتی ہیں  جس کا دورانیہ پندرہ بیس سیکنڈ تک ہوتا ہے ۔اسے ٹک ٹاک میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ ہوتی ہیں اور ہر کوئی انہیں دیکھتا ہے۔'پروفیسر تفصیل بتاتا ہے۔

'اچھا !'موہن  بولتا ہے۔

اگلے دن  صبح  سیر کے لئے پارک جاتا ہے تو بنٹی  ناچ ناچ کر کسرت کرتے ہوئے  اپنی وڈیو بنا رہا ہے۔

'یہ کیا کر رہے ہو؟

'  ریل بنا  کر ٹک ٹاک پر  لگاؤں  گا۔لیکن ایسی  وڈیوز کو ابھی کم لوگ دیکھتے ہیں۔ '

موہن  کے ذہن میں آتا ہے کیوں نہ وہ بھی اس کے ساتھ مل کر ناچ ناچ کر کسرت کرے۔' اس نے یہ آئیڈیا بنٹی کو دیا تو اس نے کہا آئیڈیا تو اچھا ہے۔ ان دونوں نے مل کر وڈیو بنائی اور اپ لوڈ کردی۔ چند گھنٹوں بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کو سینکڑوں  لائکس ملیں۔تو انہوں نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ایڈی بھی دیکھتا ہے۔ایک دفعہ ایڈی اور موہن ایک دکان پر  خریداری کررہا ہوتا ہے اور ایڈی سٹور کے باہر کھڑا ہوتا ہے ۔ ایڈی کے دوست بھی وہاں آتے ہیں ۔ایک دوست ایڈی سے پوچھتا ہے،

'کیا کررہے ہو'۔

'گھر کا سامان لینے آئے تھے۔' بنٹی بولتا ہے۔

اور تم لوگ؟'۔۔۔'کچھ نہیں ، بس ایسے ہی۔' اتنے میں موہن دکان سے خریداری کرکے بیگ اٹھائے باہر آتا ہے۔اور ایڈی کو بولتا  ہے ' چلو، چلیں۔'

'ارے انکل! ہم نے آپ کی ریلز دیکھی ہیں۔'

'کیا ایسا ہے؟ 'موہن داس  حیرانی ہو کر کہتا ہے۔

'آپ گووند ہ جیسا ڈانس کرتے ہو۔ بہت اچھا لگتا ہے' تمام دوست  یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔'شکریہ ، شکریہ۔' موہن داس  کہتاہے۔

'آپ کا اکاؤنٹ استعمال کرنے والا نام بھی  ایک دم انوکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کوئی آکر آپ سے  گپ شپ کرنے لگے گا۔ کیا تم  بھی ان کی ریلیں  دیکھتے ہو؟ وہ ایڈی سے پوچھتے ہیں ۔۔۔'ہاں۔ ایڈی  جواب دیتا ہے۔۔۔'آپ نے  کی ریل میں  آج  بھی   بڑی خوشی سے سانتا کلاز کی طرح جھوم جھوم کر ڈانس کیا ہے ۔آپ کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں ۔ ْ ایڈی کا ایک دوست بولتا ہے۔وہ سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑتے ہیں۔

'مجھے ہمیشہ لوگ  'گپی ' کہہ کر پکارتے تھے۔ ساری عمر ایسے ہی گزری ۔اس میں کوئی برائی نہیں ہےلیکن ابھی بھی اچھا لگتا ہے '۔ موہن داس  جواب میں کہتا ہے۔

'انکل ، پھر ملتے ہیں، بائی۔ ایڈی بائی۔'

ایڈی کو بہت غصہ آتا ہے۔وہ سامان لے کرگھرمیں اخل ہوتا ہے ۔

'اس کا تو مجھے علم ہی نہیں تھا، لوگ ہماری ریلیں بہت پسند کرتے ہیں۔' موہن داس  کہتا ہے۔

' بند کرو یہ سب!' ایڈی غصے سے دھاڑتا ہے۔'کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے۔بنٹی کو دیکھیں اور اپنی عمردیکھیں، اور کتنا شرمندہ کرواؤگے مجھے!وہ  آپ کی تعریف نہیں ، آپ کا مذاق اڑا رہے تھے ۔آپ نے میرے دوستوں کے سامنے مجھے ذلیل کروایا ۔میں صبح صبح کام کررہا ہوتا ہوں اور آپ مجھے  پیغام بھیج دیتے ہو۔تماشہ لگایا ہوا ہے۔آپ کی وجہ سے میں اپنی ریل پر کام نہیں کر پارہا ۔آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔جب سے آپ کے پاس یہ فون آیا ہے، آپ کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا۔مجھے یہ سب پسند نہیں۔'ایڈی غصے سے اپنے باپ پر چنگھاڑتا ہے۔

'اپنے باپ کو سوری بول بیٹا۔۔۔میں نے کہا ناں سوری بول اپنے پاپا کو۔۔۔ سنا نہیں ، میں نے کیا

کہا۔'مدھو غصے سے کہتی ہے۔

'میں کیوں بولوں سوری؟'

'چپ، ایک دم چپ۔آج تمہیں اسے پاپا  کہتےشرم آرہی ہے۔تجھے کیا لگتا ہےکہ جو وہ یہ کررہا ہے ،اپنے لئے کر رہا ہے۔ تم سمجھتے ہوکہ انہوں نے کوئی نیا شوق پال لیا ہے'مدھو کا پارہ آسمان پہ ہے۔

'شوق ہی تو ہے۔شوق نہیں تو اور کیا ہے؟بیکار پیغامات بھیجتے رہتے ہیں اور فضول فضول تصویریں بھیجتے رہتے ہیں۔ان کا دماغ ٹھکانے نہیں ہے۔ دوسروں کے سامنے آپ کو پاپا کہنے میں مجھے شرم آتی ہے۔ایک ہی گھر میں رہ کے کون ایک ایک دوسرے کو ٹیگ کرتا ہے۔بچے کے ساتھ ڈانس کی ریل بناتا ہے۔انہیں اپنی عمر کا تو  سوچنا چاہیئے۔' ایڈی روانی میں بولتا جاتا ہے ۔

' تمہاری اپنے پاپا کے بارے میں کتنی خراب رائے ہے۔یاد ہے! تم نے ہمارے ساتھ  کب بات کی تھی ؟۔۔۔یاد ہے ! تم نے ہمیں آخری بار کب گلے لگایا ؟۔۔۔اور تم وہ سب چھوڑو، کیا تمہیں یاد ہے  کہ  یہ پوچھا ہو کہ کیا ہم نے کھانا کھالیا۔۔۔ اور تم اپنے پاپا پر برس پڑے۔۔۔اور اب کہہ رہے ہو کہ پاپا اب پہلے جیسے نہیں رہے۔تو خود کیوں نہیں رہا پہلے جیسا !بار بار  تجھے فون کرتے تھے، تم نے کبھی نہیں اٹھایا۔ میں فون کرتی ہوں تو گھنٹی بج بج کے بند ہو جاتی ہے۔تم یہ نہیں بتاتے کہ تیری زندگی میں کیا چل رہا ہے اور بتانا ضروری بھی نہیں سمجھتا ۔جب سے یہ فون لے کر آئے ہیں، تم نے  اب تھوڑی سی بات  کی ہےہم سے۔'مدھو نے اپنے دل کی پوری بھڑا س نکالی۔

'میں ہمیشہ آپ کے لئے ہمیشہ غلط ہی رہا ہوں' ایڈی بولتاہے۔

'مانتی ہوں، مانتی ہوں' مدھو بولی۔'وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہے ۔اچھی بات ہے ۔لیکن ماں باپ کوتو ۔۔۔انہیں بھی تو پیار چاہیئے۔انہیں بھی تو تھوڑا وقت چاہیئے۔'۔۔

یہ سن کر ایڈی وہاں سے چلا جاتا ہے۔ موہن اداس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔فون دراز میں رکھ دیتا ہے ۔ایڈی اپنے کمرے میں اپنے موبائل پر لگ جاتا ہے۔اگلی صبح والدین کھانے کی میز پر بیٹھے   ہوتے   ہیں۔ موہن اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے۔ایڈی آتا ہے اور گڈ مارننگ بولتا ہے۔ اپنا فون بند کرکے میز پر رکھ دیتا ہے۔والدین میں سے کوئی بھی اس کی گڈ مارننگ پر جواب نہیں دیتا، اس پرایڈی فون اٹھاتا ہے اور کچھ ٹائپ کرتا ہے۔
 ' سوری پاپا۔مجھے اپنی بدتمیزی پر واقعی افسوس ہے' ایڈی  پیغام بھیجتا ہے۔۔۔۔ موہن پیغام پڑھتا ہے تو اسے تھپکی دیتا ہے۔ایڈی اٹھ کر اپنے والد کو گلے لگا لیتا ہے۔مدھو خاموشی سے سب دیکھتی ہے اور بولتی ہے '،' کھانا تیار ہے۔ ایڈی اٹھتا ہے اور کھانا  چننے میں ماں کی مدد کرتا ہے۔

' ' گپ شپ انکل ، گپ شپ  انکل!' بنٹی بھاگتا ہو آتا ہے۔۔۔  ۔ اس کے پیچھےپیچھے پروفیسر بھی ہے۔

'تم اب  بہت  مشہور ہو گئے ہو۔ بھابھی دیکھئے ، آپ نے جو ریل بنائی ہے ،اس کو بیس لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے اور آپ کے پیروکاروں کی تعداد س لاکھ ہوگئی ہے۔

تجزیہ

نریندرا  واگھیلا ایک  عالمی انعام یافتہ بھارتی  ادیب ہےجس نے  اپنے اس افسانے میں  ایسی ہلکی پھلکی کہانی پیش کی ہے جس میں  عمری  اور  نسلی تفاوت  کی وجہ سےاختلافات پیدا ہو جاتے ہیں ۔یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔نوجوان نسل اور  بزرگوں  کے افکار میں  خلا پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ اختلاف قدرتی  ہے ۔ایک طرف  تجربہ اور بصیرت ہوتی ہے تو دوسری طرف جذبہ اور جدید تیکنالوجی۔ پرانی نسل جس ثقافت سے گزری ہے وہ جدید  کے برعکس ہے۔نئی نئی ایجادات نے ان کا علم ، وسیع معلومات اور نت نئی ایجادات نے سوچ اور مہارت کی سطح بدل کر رکھ دی ہے۔ اس کہانی میں بھی کچھ اس طرح کا ذکر ہے۔نوجوان  بیٹا ڈیجٹل تجارت  کی تربیت لے رہاہے اورانٹر نیٹ پر کوئی ایسی پراڈکٹ متعارف کروانا چاہتاہے جو عوام الناس  کی ضروریات  کم سے کم خرچ سے حاصل کر سکے۔کون سی پراڈکٹ ایسی ہے جس میں  لوگ دلچسپی لیں ، ان تک اشتہارات زیادہ سے زیادہ پہنچیں  اور وہ خریدیں ۔۔اس  کے لئے اسے جدید تکنیک کا سہارا لینا پڑتا ہے اور وہ اپنے کام میں اتنامحو رہتا ہے کہ دن رات موبائل اور کمپیوٹر سے چمٹا رہتاہے۔والدین کی طرف توجہ نہیں دے پاتااور وہ پریشان رہتے ہیں ۔بیٹا جذباتی طور پر ان سے فاصلہ رکھنے لگتا ہے۔ والدین اور بیٹے کی ترجیحات ایک دوسرے  سے مختلف ہیں۔والد کوشش کرتا رہتا ہے کہ اپنے بیٹےسے کم از کم فون کے ذریعے ہی رابطہ  قائم رکھےجو محدود ہی رہتا ہے۔کہانی  کے آغاز میں ان کے باہمی تعلقات محدود  سے محدود ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہےاور ان کے مابین لطیف  جذبات کی شدت  کم  ہوتی جاتی ہے۔لیکن جب موہن نئی تیکنالوجی اپناتا ہے تو یہ فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔

اس افسانے کے اہم موضوعات  میں ادیب نے  یہ باور کرانےکی کوشش کی ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نےافراد کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے بات نہیں کرتے اور  گپ شپ  میں مصروف  رہتے ہیں۔جدید ابلاغ کی سمت تبدیل ہو گئی ہے۔ تازہ ترین معلومات ایک بٹن کی دوری پر ہیں اور وہ معتبر ہوتی ہیں جبکہ بزرگوں کے پاس کمپیوٹر جتنا علم نہیں ہوتا۔

اس میں ایک موضوع یہ بھی ہے کہ معمولی سے معمولی حرکات ، اشارے کنائے بھی دوسروں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔اس میں'  گپ شپ 'ایک استعارہ بن گیا ہے جو اس  کی شناخت کا باعث بن گیا ہے۔اس کے چھوٹے معصومانہ  اعمال اس کی کہانی میں موجودگی اور محبت ظاہر کرتے ہیں۔

اس میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ  پرانی  نسل کو جدید تقاضوں کے مطابق اپنی  

معلومات کو  بڑھانا چاہیے۔انہیں نئی ایجادات  سیکھنی چاہیں ۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو ان  میں نسلی تفاوت کم کیا جا سکتاہے۔

اس کہانی میں فریقین کے درمیان  جذباتی مصالحت کی خواہش پائی جاتی ہےجو والدین کی طرف سے زیادہ شدت سے پائی جاتی ہے۔یہ کہانی پاکستان کے لحاظ سے اتنی ہی اہم ہے جتنا دنیا کے دیگر ممالک میں جہاں  ہر خاندان میں جدید تقاضوں کے مطابق مصالحت کی ضرورت ہے۔اس کہانی کی ثقافت ویسی ہی ہے جو کسی ترقی پذیر ملک میں پائی جاتی ہے۔ابلاغ میں تفاوت ہے۔سمارٹ فون نے زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔اگرپرانی نسل  تھوڑی بہت بھی نئی تکنیکیں سیکھ لے تواس کی تنہائیاں دور ہو سکتی ہیں۔اعتماد کے ساتھ نئی نسل سے ابلاغ کرسکتی ہے۔اور نئی نسل سے دوریاں کم ہو سکتی ہیں۔ اس میں مقابل پارٹی کوبھی پرانی نسل کے تجربات اور بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے،ان سے سرد رویہ نہیں اپنانا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

پیشکش و تجزیہ  : غلام  محی الدین

' مدھو، میری چیک بک اور پاس بک لاؤ ۔ میں نے بنک جاناہے۔'  موہن داس  چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہتا ہے۔'  ادیتیا(ایڈی) کہاں ہے؟' ۔۔۔ وہ ابھی تک حسب معمول گھوڑے بیچ کر سو رہاہے۔دل کرتا ہے اسے تھپڑ مار کر اٹھاؤں' مدھو ہتی ہے 'اور آج بجلی کا بل بھی اتار ناہے، ورنہ دس فیصد جرمانہ  پڑجائے گا۔'

'جرمانے سے یاد آیاکہ پڑوسی پروفیسر کے پیسے بھی لوٹانے ہیں۔ پھیری والے کو دینے کے لئے اس سے لئے تھے۔اب لوٹانے تو پڑیں گے۔ '

'اوہ!'مدھو نے کہا۔

'ارے دس بج گئے ، ادیتیا ابھی تک نہیں اٹھا۔'

'رات  دیر سے سویا ہے۔ پہلے تو گیارہ بجے تک سو جایا کرتا تھا لیکن اب کئی روز سےوہ کمپیوٹر  میں    ُ گھسا رہتا ہے۔  رات  دو تین بجے جاکر سوتاہے۔ '

'کوئی کام کرتا رہا ہوگا۔جاؤ اور چیک بک  اور پا س  بک لے آؤ۔'اتنے میں  ادیتیا (ایڈی) آکر کہتا ہے۔' گڈ مارننگ ڈیڈی۔'

'تھوڑی دیر میں گڈ آفٹر نون ہو جائے گا۔' موہن کہتا ہے۔ لیکن ایڈی  اس کی بات کا جواب دیئے بغیر  کھانے کی میز موبائل میں چیٹنگ میں  لگ  جاتاہے۔

'ایڈی، ڈبل روٹی پکڑانا۔' موہن کہتا ہے۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ پھر کہتا ہے 'بریڈ اور بٹر دو ایڈی۔'وہ پھر بھی نہیں سنتا تو موہن ذرا اونچی آواز میں اپنی بات دہراتا ہے  تو ایڈی کہتا ہے۔۔۔'کیا؟'۔۔۔'بریڈ بٹر، موہن پھر بولتاہے۔'لیکن وہ چیٹنگ میں مصروف رہتا ہے۔اتنے میں مدھو چیک بک اور پاس بک لے آتی ہےاور ایڈی کو طنزیہ کہتی ہے 'ہوگئی تیرے دن کی شروواد!'وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اوراپنے کام میں مگن رہتا ہے۔موہن کہتا ہے۔'میں اب چلتا ہوں۔'

'سنو! پاس بک میں اندراج پورا کروا لینا۔'۔۔۔'آف کورس۔'موہن  کہتا ہے۔

'اور کھانے میں کیا بناؤں؟'وہ کچھ نہ بولا تو مدھونے کہا'تمہیں  ڈبل روٹی اور سبزیاں کھانی چاہیئں۔' ۔۔ 'دال چاول بنا لینا۔میں آتا ہوں۔'موہن  یہ بول کر چلاجاتا ہے۔

وہ ایڈی  کوکہتی ہے 'کچھ کھا لو۔'

' نہیں، میں کچھ نہیں  کھاؤں گا۔میں باہر جارہاہوں،وہاں ہی کھا لوں گا۔

موہن  شام کو واپس آتاہے تو اس کا پڑوسی ہے  جو ایک پروفیسر ہے ، پاس  کے پارک میں ورزش کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ اپنے موبائل سے اپنی تصویر کھینچتا ہےاور فیس بک پر لگا دیتا ہے۔

'گڈ ایوننگ۔ تم نے کسرت کرلی ہے پروفیسر۔'

'گڈ ایوننگ، ارے کاہے کی کسرت!اس محنت  نے تو میری جان ہی نکال دی ہے۔'

'اس سے پہلے کہ تمہاری جان نکلے ،اپنا سو روپیہ لو جو تم نے کل چائے والے کو آن لائن  ٹرانسفر کیاتھا۔

'موہن، تم اپنی رقم آن لائن کیوں ٹرانسفر نہیں کرتے؟ انہیں آن لائن بھیجاکرو۔ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم فوراً چلی جاتی ہے۔ بینک نہیں جانا پڑتا۔بنک کے دھکے بار بار نہیں کھانے پڑتے۔'۔۔۔'اس جھنجھٹ میں کون پڑے' موہن کہتا ہے

تمام کام نپٹا کے وہ   آٹھ بجے گھر لوٹتا ہے۔' کیا ایڈی  آگیا ہے؟'۔۔۔'نہیں۔' وہ اسے فون لگاتا ہے تو وہ بند ہوتا ہے۔۔۔' ایڈی کو فون کررہاہوں،وہ اٹھا ہی نہیں رہا۔پتہ نہیں ،وہ کیا کرتااور کہاں جاتا ہے'

'میں نے اسےسکوٹر پر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔پروفیسر کے   گیارہ سالہ  بیٹے بنٹی نے کہا جو اس وقت  انہیں  کھیر دینے آیاتھاکہتا ہے ۔ 'انکل،ایک منٹ دیں، میں  پتہ چلاتا ہوں ۔' وہ فیس بک پر جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایڈی  ساحل سمندر کے کیفے میں چار گھنٹے پہلے اپنی گرل فرینڈکے ساتھ  چاکلیٹ کھا اور ملک شیک پی رہاتھا۔ فیس بک (ایف۔بی) پر ان کی تصاویر دیکھ کر کہتا ہے'

'کیا؟'

بنٹی نے فیس بک پر اپ ڈیپ موہن کے سامنے رکھ دی۔'ایف۔ بی  سے ہرایک کو تمام باتوں کا علم ہوجاتا ہے۔کون ،کہاں،کس کےساتھ گھوم رہا ہے، سب پتہ  چل جاتا ہے۔'بنٹی بولا

موہن حیران ہو کر بولا ' اس سے کیسے پتہ چل جاتا ہے؟کس کو پتہ چل جاتا ہے؟'۔۔۔'پوری دنیا کو جس کا اکاؤنٹ ہے۔' بنٹی جواب دیتا ہے ۔

'نہیں ! نہیں، نہیں!ذرا رکو۔ ایک منٹ رکو۔ تم یہ  کہہ رہے ہو کہ تم فیس بک دیکھ کر بتا سکتے ہوکون ، کہاں ، کس کے ساتھ گھوم رہا ہے ، سب کچھ پتہ چل جاتا ہے۔'موہن کو یقین نہیں آیاتھا۔

'ہاں۔اور صرف اتنا ہی نہیں، یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون کیا کھا رہا ہے کیا پی رہا ہے، کس کے پاس کتنے کتے یا پالتو جانور ہیں۔ کون کب پیدا ہوا ، کس کی موت ہو گئی ہے۔ان سب چیزوں کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔ یہ سب باتیں سچ ہیں ۔' اتنے میں اس کا والد اسے ڈھونڈتا ہوا آجاتا ہے اور کہتا ہے،'بنٹی تم   اپنا ہوم ورک کرنے کی بجائے یہاں کیا کر رہے ہو؟'

'ممی نےآنٹی کو کھیر دینے کو بھیجا تھا۔' وہ یہ کہہ کر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔اتنے میں ایڈی  گھر میں داخل ہوتا ہے۔۔۔'کھانا کھالو'۔۔۔'نہیں ۔ میں کھا کے آیا ہوں۔' ایڈی کہتا ہے۔۔۔'تھوڑا سا کھا لو بیٹا۔' مدھو نے تمہاری پسندیدہ سبزی بنائی ہے اور پروفیسر کے گھر سے کھیر بھی آئی ہے۔' تو وہ کھانے کی میز پر بیٹھ جاتا ہے۔۔۔'کہاں تھا تو ؟'مدھو نے پوچھا۔

' مارٹن کیفے۔ وہاں ہاٹ چاکلیٹ اور ملک شیک   اچھا ملتا ہے۔کیا ایسا ہی ہے ایڈی۔' موہن   کھانا کھاتے ہوئےبولتا ہے۔۔۔ایڈی چپ رہتاہے۔۔۔سبزی کیسی بنی ہے ؟' مدھو  موہن سے پوچھتی ہے۔۔۔' ایک دم   َبڑھیا۔اس میں نمک ذرا سا کم ہے۔'۔۔۔'میں نے تو پورا نمک ڈالا تھا۔ایڈی کیا تم بھی ایسا ہی سمجھتے ہو۔مزید نمک نہ ڈالنا 'مدھو کہتی ہے۔۔۔ایڈی سنی ان سنی کرکے کھاتے ہوئے موبائل  پر چیٹنگ کرتا رہتا ہے۔۔۔' کھاتے وقت تو نگوڑا موبائل رکھ دیا کرو۔'مدھو کہتی ہے۔۔۔' اہم کام کر رہاہوں۔' ایڈی بولتاہے۔۔۔'چاول دینا بیٹا، تمہاری انٹرن شپ کیسی چل رہی ہے؟' موہن   دریافت کرتاہے۔۔۔' ٹھیک سے چل رہی ہے۔' ایڈی جواب دیتاہے۔۔۔' تم اس کے بارے بتاؤ گے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے سب لوگ پوچھتے ہیں، چونکہ ہمیں   اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اس لئے   ہم  بتا نہیں پاتے۔' مدھو  پوچھتی ہے۔۔۔'کیا بتاؤں، اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔آپ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ  میں کیا سمجھ آئے گی۔' ایڈی  جواب دیتا ہے ۔۔ ۔ 'کیا تم نے سمجھایا اور ہمیں سمجھ نہیں آئی۔تم نے سمجھا کر دیکھا ہے کبھی۔'۔۔'اس قصے کو چھوڑ ہی دیں۔آپ کو سمجھاتے سمجھاتےمیں خود سب بھول جاؤں گا۔' ایڈی    جواب دیتا ہے۔

'دیکھا! اعلیٰ تعلیم دلانے  کے لئے پوری زندگی مصائب کا سامنا کرو۔پڑھاؤ ،لکھاؤ،بڑا کرواور  بچے بڑا ہونے کے بعد کیابولیں گے۔' موہن دکھی ہو کر بولتا ہے۔یہ سن کر ایڈی اٹھ  کر جانے لگا۔۔۔'او۔کے، او۔کے۔تم اب کہاں جارہے ہو، کھانا تو کھالو۔تم نے ہمیں ڈھنگ سے کوئی جواب نہیں دیا،میں  نے تم سے جو بات کی اس میں غلط کیا ہے؟   مدھو نے کہا۔۔۔'تمہیں اسے آرام سے  اور نرمی سے بول سکتی تھی۔' موہن نے کہا۔ پھر وہ سونے چلے جاتے ہیں۔  مدھو بستر پر کروٹیں بدل رہی ہے۔۔۔ 'کیا ہوا؟'  ۔۔۔' نیند نہیں آرہی مدھو بولتی ہے۔ ۔۔ 'کیا سوچ رہی ہو؟' موہن پوچھتا ہے۔۔۔'سماں کتنی تیزی سے بدل  رہا ہے۔اس  متغیر موسم میں  ہمارا بیٹا کتنی تیزی سے آگے  بڑھ رہا ہے۔' مدھو کہتی ہے۔۔۔ ہم چونکہ جدید تکنیک کو نہیں جانتے اس لئے ہمیں اس  شئے کا علم نہیں کہ ایڈی کیا کررہا ہے۔' موہن  اس کی ہاں ملاتا ہے۔۔۔۔' جب بھی اس سے بات کی جاتی ہے ۔ہاں، نہ میں جواب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ فون کا جواب ہی نہیں دیتا' مدھو اضافہ کرتے بولتی ہے۔۔۔'میرا  فون تو اٹھاتا ہی نہیں ۔آج بنٹی نے ہی معلوم کرکے بتایا کہ چاربجے وہ مارٹن کیفے میں تھا۔' موہن  تڑکا لگاتا ہے۔۔

اگلے روز اسے پروفیسر ملا ۔اس نے آن لائن بنک ٹرانسفر کا ذکر چھیڑ دیا  ۔ ۔'دیکھو موہن۔ ماحول سے مطابقت کے لئے اقدار بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔اپنے بچوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں  ان کی سوچ کے مطابق  سوچنا پڑتا ہے۔' ان کی طرح جینا پڑتا ہے۔اب میرے بیٹے  بنٹی کوہی لے لو ، گیارہ  سال کا بچہ ہےلیکن انٹرنیٹ کے بارے میں سب جانتا ہے،رقم  آن لائن کیسے ٹرانسفر کر سکتے ہیں   ، کے اقدامات اس  کی انگلیوں کی نوک پر ہیں۔۔ اس نے انٹر نیٹ پر ہر قسم کے اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں۔ انسٹاگرام، وٹس ایپ، ٹویٹر، وی پی این، ٹک ٹاک    وغیرہ ۔ میں مستقل طور پر اس کے اکاؤنٹ چیک کرتا رہتا ہوں کہ کہیں وہ کوئی غلط کام تو نہیں کررہا ۔ہماری نسل کے لوگوں کے لئے یہ وقت طلب مرحلہ ہے۔ تم سوشل میڈیا استعمال کیا کرو ، یہ بہت فائدہ مند ہے۔' پروفیسر نے کہا۔

'تمہاری باتیں سچ ہیں ۔تم جانتے ہو ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایڈی ہمارے ساتھ مختصر ترین بات کرتا ہے۔ ہر وقت موبائل پر بات کررہا ہوتاہے یا ٹائپ کررہاہوتا ہے، کھاتے وقت بھی فون استعمال کرتا رہتا ہے ۔اس پر نہ ہو تو کمپیوٹر پر ہوتا ہے۔ کل بنٹی نے بتایا کہ وہ چار بجے کہاں تھا۔'موہن اسے اطلاع دیتا ہے۔

'بنٹی نے؟'پروفیسر نے پوچھا۔۔۔'ہاں۔' موہن نے کہا ۔۔۔ْانٹرنیٹ سے؟'  ۔۔۔ 'ہاں ۔'موہن نے کہا۔

' میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔تمہیں سوشل میڈیا کے بارے میں سیکھنا شروع کر دینا چاہیئے۔یہ آسان ہے۔تم اسے جلد ہی استعمال کرنے لگو گے۔' پروفیسر مشورہ دیتا ہے۔۔۔'کیا تم پاگل ہو پروفیسر؟'۔۔۔'کیوں موہن ؟' پوفیسر  پوچھتا ۔۔۔'اتنی دیر سے کیا رونا رو ہا ہوں کہ ایڈی  موبائل اور کمپیوٹر کا کیڑا بن گیا ہے۔چوبیس گھنٹےانٹرنیٹ میں ڈوبا رہتا ہے۔اسے اس بلا سے نکالنے کی بجائے مجھے اس میں ڈال رہے ہو۔'۔۔' میں تمہیں یہ نہیں کہہ رہا  کہ تم ہر وقت  سوشل میڈیا  میں گھسا پڑا رہ۔ ' پروفیسر کہتا ہے۔۔۔'میں پریشان ہوں۔میں ایڈی کی اس عادت سے تنگ آگیاہوں۔اسے اس سے نکالنے کی بجائے تو بول رہا ہے کہ میں اس میں گھس جاؤں۔'۔۔۔  'میں یہ نہیں کہہ رہا کہ  کہ تو ہر وقت سوشل میڈیا میں غرق رہو۔تم اس کے ذریعے ایڈی کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکو گے۔' پروفیسر بولتا ہے۔

'مثلاً'۔موہن  سوالیہ نشان سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔۔'جیسے آج وہ بنا بتائے چلا گیا،تم سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم کر سکتے ہو کہ وہ اس وقت کہاںہے ،کس کے ساتھ ہے ،کیا کررہاہے ۔تم یہ سب پتہ لگا سکتے ہو۔' پروفیسر بتاتاہے۔۔۔'ہاں، خیال تو اچھا ہے' موہن  کہتا ہے۔۔۔ 'میرے پاس بنٹی کا پرانا فون ہے  جو تمہارے موجودہ فون سے بہتر ہے۔وہ میں تجھے دے دیتا ہوں۔میں تمہیں اسے استعمال کرنا سکھا دوں گا۔' پروفیسر تجویز دیتا ہے۔۔۔'میں اسے تو سیکھ لوں گا مگر سوشل میڈیا  تک دسترس کیسے ہوگی؟'موہن بسوال کرتاہے۔'کیا تم سیکھنے کے لئے آمادہ ہو؟' پروفیسر نے کہا۔۔۔'ہاں۔'موہن رضامندی دیتا ہے۔

'فیس بک اکاؤنٹ کھولنے کے لئے نام اور پاس دورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔' اس نے موہن نے شاختی کارڈ لیا، اس کے کوائف درج کئے' ۔  اس کا ایف ۔ بی اکاؤنٹ  بنا یا اور اس کا پاس ورڈ سیٹ  کیا۔ اکاؤنٹ کھولنے کے بعد کہا کہ یہ تمہارا  ایف ۔بی اکاؤنٹ ہے، تمہیں اپنی تاریخ پیدائش  لازماً یاد رکھنا ہوگی۔'۔۔ شکریہ ۔ موہن کہتا ہے۔

' ہیلو  میرے رجنی کانت ! امید ہے باقی اکاؤنٹ اورسوشل میڈیا تمہیں بنٹی سکھا دے گا۔ میں اسے بول دوں گا۔'

اگلے روز بنٹی موہن کو سوشل میڈیا سکھانے کےلئے آیا،اس نے تفصیل سے سوشل میڈیا کے بارے میں سمجھایا۔ تمہاری فو ٹو کھینچنی ہے  ۔ اپنی فوٹو کھنچواؤ۔ '  بنٹی  کہتا ہے۔موہن   کھڑا ہو کو پوز مارتا ہے ۔۔۔سوشل میڈیا میں شامل ہونے کی مبارکباد قبول ہوانکل۔  آپ کا انسٹاگرام  اکاؤنٹ کل کھولیں گے۔۔۔'شکریہ بنٹی۔کہ ایڈی آجاتاہے۔وہ موبائل ہر چیٹنگ کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے والد سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کا فون ہے۔موہن بتاتا ہے کہ یہ اس کا ہے۔کیوں؟ ۔۔۔'یہ تو سمار ٹ فون ہے۔کیا استعمال کرنا آتا ہے؟'۔۔ ۔ 'ہاں۔۔۔ اپنی فیس بک چیک کرو" موہن ایڈی کو بولتاہے۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کی فرینڈ رکویسٹ آئی ہوئی ہے۔

پروفیسر وہاں آجاتا ہے۔ وہ انہیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے'واہ! آئیڈیا کام کررہا ہے۔'موہن، چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔سب لوگ اب تک وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔' مدھو بولی۔۔۔'چلو۔ میں بالکل تیار ہوں۔' اس نے کہا۔ 'چلو ، ہم تینوں کی سیلفی لیتے ہیں۔' وہ اس  فوٹو جو سوشل میڈیا میں پھینک دیتے ہیں۔ چند منٹ بعد موہن کے منہ سے واہ نکلتا ہے۔'کیا ہوا؟'پروفیسر پوچھتا ہے۔۔۔' تین دل اور لائیک کے نشان  آئے ہیں۔'۔۔۔'کیا بات ہے۔ واہ!'پروفیسر نے تعریف کی۔اس نے دیکھا ایڈی بھی ایف بی استعمال کر رہاتھا۔اس نے اسے پیغام بھیجا،'ایڈی تمہاری امی بریانی بنارہی ہے۔باہر سے کھانا نہ کھانا۔'۔۔'او۔کے پاپا۔' ۔۔۔'کیا آئس کریم کھاؤ گے؟'مدھو نے لکھوایا۔۔۔'؛ہاں'۔ اس نے جواب دیا۔۔۔'تو میں آئس کریم منگوا رہی ہوں۔'۔۔اس طرح ان کی باقاعدہ بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔۔۔'پاپا ، آپ کو تو ایف۔ بی اور واٹس اپ استعمال کرنا آگیا ہے۔'۔۔'ہاں'۔

اگلے روزبنٹی اس کا  انسٹا گرام اکاؤنٹ   انسٹال کرنےاپنے والد کے ساتھ آگیا۔۔۔' کوئی  نام اپنے ذہن میں لاؤ' پروفیسر نے کہا۔۔۔' موہن داس' اس نے کہا۔۔۔' نہیں انکل ،اپنا نام نہیں ۔کوئی ایسا نام جو فرضی ہو اور انوکھا ہو۔' ب۔۔۔ 'کیا انوکھا نام رکھنا ضروری ہوتا ہے؟ ' ۔۔۔'ہاں انکل۔' وہ سوچنے لگ جاتا ہے ۔بنٹی سے پوچھتا ہے 'تمہاے انسٹاگرام  اکاؤنٹ کس نام کا ہے؟'۔۔۔'ٹیکی  داس'  پھر وہ پروفیسر سے پوچھتا ہے ،'تمہارے اکاؤنٹ کا نام کیا ہےپروفیسر؟'۔۔۔  'ایک پیگ اور سہی۔' موہن داس اسے کہتا ہے کہ کیا تو واقعی ٹیچر ہے۔یہ کیسا نام رکھا؟'۔۔۔ 'تو کیا ہوا؟ اس نام سے لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں۔۔۔'ہاں ! تو  ۔'۔۔۔'مل گیا بنٹی اچھل کر بولا ۔۔۔' کیا؟' موہن  پوچھتاہے۔'ارے بتا ، کیا نام رکھا ہے؟۔۔۔            '   ٹکٹ پلیز'۔بنٹی کہتا ہے۔۔۔'ارے بہترین۔'

موہن کو ایڈی کا فون آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ  سوچ رہا تھا کہ وہ  اپنے برانڈ کوڈیجیٹل نیا میں متعارف کروائے۔اسے زیادہ لوگ دیکھیں اور اپنی رائے دیں  اور اس پراڈکٹ کااثر  ناظرین پر ہو۔اس کی قیمت معقول ہو جس کا بوجھ وہ اٹھا سکیں۔اس لئے ہمیں ایسی پیشکش کرنی چاہیئے جس میں ترغیب ، ڈسکاؤنٹ ، پروموشن وغیرہ ہوں۔'  ۔۔۔ 'تمہاری پراڈکٹ کیا ہے؟ پاس بیٹھا پروفیسر  پوچھتا ہے۔ ۔۔ابھی فائنل نہیں کی۔' ایڈی یہ کہہ کر فون کاٹ دیتاہے۔

' میرا خیال ہے کہ تم اپنے  ڈیجیٹل مارکٹنگ کے پروگرام میں ابھی پوری طرح تیار نہیں ہو۔ تمہارے پا س کوئی پراڈکٹ ہے ، نہ واقفیت اور نہ ہی تجربہ۔اس کے لئے مزید تفصیلات درکار ہیں۔اس لئے جب تک جامع پروگرام نہ ہو اسے شروع نہ کیا جائے۔ایڈی کو کہو کہ وہ اپنے ساتھ تمام انٹرنز کو کہے کہ وہ اپنی اپنی پروڈکٹس اور پروگرام پیش کریں اور بحث مباحثہ کے بعد مارکیٹ میں پراڈکٹ لانچ کریں۔اس کے دوران کوئی دلچسپ   ریلیں بنا کر ٹک ٹاک پر لگائیں۔'پروفیسر اسے مشورہ دیتا ہے۔۔۔۔' ریلیں کیا ہوتی ہیں؟ موہن  پوچھتا ہے۔۔۔' یہ وڈیو ہوتی ہیں ۔فلمیں ہوتی ہیں۔اسے ٹک ٹاک میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ ہوتی ہیں اور ہر کوئی انہیں دیکھتا ہے۔'پروفیسر تفصیل بتاتا ہے۔۔۔'اچھا ، سوچتے ہیں۔'موہن  بولتا ہے۔

اگلے دن وہ اٹھا اور پارک میں گیاتو دیکھا کہ  بنٹی  ناچ ناچ کر کسرت کررہاتھا اور اپنی وڈیو بنا رہاتھا۔'یہ کیا کر رہے ہو؟ موہن  داس نے پوچھا۔۔۔'  ریل بنا  کر ٹک ٹاک پر  لوڈ کروں گا۔لیکن ابھی اس کو کم لوگ دیکھتے ہیں۔ ' اس کے ذہن میں آتا ہے کیوں نہ وہ بھی اس کے ساتھ مل کر ناچ ناچ کر کسرت کرے۔' اس نے یہ آئیڈیا بنٹی کو دیا تو اس نے کہا آئیڈیا تو اچھا ہے۔ ان دونوں نے مل کر وڈیو بنائی اور اپ لوڈ کردی۔ چند گھنٹوں بعد انہوں نے دیکھا کہ  ان کو سینکڑوں  لائکس ملیں۔تو انہوں نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ایڈی بھی دیکھتا ہے۔ایک دفعہ ایڈی اور موہن ایک دکان پر ہوتے ہیں تو ایڈی کے دوست بھی وہاں کھڑے ہوتے ہیں ۔ایک دوست ایڈی سے پوچھتا ہے'کیا کررہے ہو'۔۔۔'گھر کا سامان لینے آئے تھے۔' بنٹی بولتا ہے۔۔۔'اور تم لوگ؟'۔۔۔'کچھ نہیں ، بس ایسے ہی۔'اس کے دوستوں نے کہا۔ اتنے میں موہن دکان سے خریداری کرکے بیگ اٹھائے باہر آتا ہے۔اور ایڈی کو کہا چلو، چلیں۔

'ارے انکل!ہم نے آپ کی ریلز دیکھی ہیں۔'۔۔۔'کیا ایسا ہے؟ 'موہن داس  حیرانی سے بولتا ہے۔'آپ گووند جیسا ڈانس کرتے ہو۔ بہت اچھا لگتا ہے' تمام دوستوں نے  یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔۔۔'شکریہ ، شکریہ۔' موہن داس  کہتاہے۔۔۔'آپ کا اکاؤنٹ استعمال کرنے والا نام بھی  ایک دم انوکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کوئی آکر آپ سے ٹکٹ مانگے گا۔ کیا تم  بھی ان کی ریلز دیکھتے ہو؟'انہوں نے ایڈی سے پوچھتے ہیں ۔۔۔'ہاں۔ ایڈی  جواب دیتا ہے۔۔۔'آپ آج بھی   بڑی خوشی سے ٹکٹ کاٹتے ہیں سانتا کلاز کی طرح۔ْ ایڈی کا ایک دوست بولتا ہے۔وہ سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔'مجھے ہمیشہ لوگ کنڈکٹر کہہ کر پکارتے تھے۔ ساری عمر 'پیچ مار لو اور ٹکٹ پلیز کہتے گزری ۔یہ میرس پیشہ تھا۔اسم میں کوئی برائی نہیں ہےلیکن ابھی بھی اچھا لگتا ہے '۔ موہن داس  اپنی رائے دیتا ہے۔

'انکل ، پھر ملتے ہیں، بائی۔ ایڈی بائی۔'

ایڈی کو بہت غصہ آتا ہے۔وہ سامان لے کراندر جاتا ہےتو مدھو کہتی ہے،' سنو، ریل کیسے بنائی جاتی ہے۔'۔۔۔'اس کا تو مجھے علم ہی نہیں تھا، لوگ ہماری ریلیں بہت پسند کرتے ہیں۔' موہن داس  کہتا ہے۔۔۔' بند کرو یہ سب!' ایڈی غصے سے دھاڑتا ہے۔'کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے۔بنٹی کو دیکھیں اور اپنی عمردیکھیں، اور کتنا شرمندہ کرواؤگے مجھے!وہ  آپ کی تعریف نہیں کررہے تھے، مذاق اڑا رہے تھے وہ آپ کا۔آپ نے میرے دوستوں کے سامنے مجھے ذلیل کروایا ۔میں صبح صبح کام کررہا ہوتا ہوں اور آپ مجھے  پیغام بھیج دیتے ہو۔تماشہ لگایا ہوا ہے۔آپ کی وجہ سے میں اپنی ریل پر کام نہیں کر پارہا۔آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔جب سے آپ کے پاس یہ فون آیا ہے، آپ کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا۔مجھے یہ سب پسند نہیں۔'

'اپنے باپ کو سوری بول بیٹا۔۔۔میں نے کہا ناں سوری بول اپنے پاپا کو۔۔۔ سنا نہیں ، میں نے کیا کہا۔'مدھو غصے سے کہتی ہے۔

'میں کیوں بولوں سوری؟'

'چپ، ایک دم چپ۔آج تمہیں اسے پاپا  کہتےشرم آرہی ہے۔تجھے کیا لگتا ہےکہ جو وہ یہ کررہا ہے ،اپنے لئے کر رہا ہے۔ تم سمجھتے ہوکہ انہوں نے کوئی نیا شوق پال لیا ہے'مدھو کا پارہ آسمان پہ ہے۔

'شوق ہی تو ہے۔شوق نہیں تو اور کیا ہے؟بیکار پیغامات بھیجتے رہتے ہیں اور فضول فضول تصویریں بھیجتے رہتے ہیں۔ان کا دماغ ٹھکانے  نہیں ہے۔میں اس وقت آپ کو  پسند نہیں کررہاپاپا۔ دوسروں کے سامنے آپ کو پاپا کہنے میں مجھے شرم آتی ہے۔ایک ہی گھر میں رہ کے کون ایک ایک دوسرے کو ٹیگ کرتا ہے۔بچے کے ساتھ ڈانس کی ریل بناتے ہیں۔انہیں اپنی عمر کا تو  سوچنا چاہیئے۔' ایڈی روانی میں نولتا چلا گیا۔

' تمہاری اپنے پاپا کے بارے میں کتنی خراب رائے ہے۔یاد ہے! تم نے ہمارے ساتھ  کب بات کی تھی ؟یاد ہے ! تم نے ہمیں آخری بار کب گلے لگایا ؟۔۔۔اور تم وہ سب چھوڑو،یاد ہے جب تم نے یہ پوچھا ہو کہ کیا ہم نے کھانا کھالیا، اور تم اپنے پاپا پر برس پڑے۔۔۔اور اب کہہ رہے ہو کہ پاپا اب پہلے جیسے نہیں رہے۔تو خود کیوں نہیں رہا پہلے جیسا !بار بار  تجھے فون کرتے تھے، تم نے کبھی نہیں اٹھایا۔ میں فون کرتی ہوں تو گھنٹی بج بج کے بند ہو جاتی ہے۔تم یہ نہیں بتاتے کہ تیری زندگی میں کیا چل رہا ہے اور بتانا ضروری بھی نہیں سمجھتا ۔جب سے یہ فون لے کر آئے ہیں، تم نے  اب تھوڑی سی بات  کی ہےہم سے۔'مدھو نے اپنے دل کی پوری بھڑا س نکالی۔

'میں ہمیشہ آپ کے لئے ہمیشہ غلط ہی رہا ہوں' ایڈی بولتاہے۔

'مانتی ہوں، مانتی ہوں' مدھو بولی۔'وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہے ۔اچھی بات ہے ۔لیکن ماں باپ کوتو ۔۔۔انہیں بھی تو پیار چاہیئے۔انہیں بھی تو تھوڑا وقت چاہیئے۔'۔۔ یہ سن کر ایڈی وہاں سے چلا جاتا ہے۔ موہن اداس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔فون دراز میں رکھ دیتا ہے ۔ایڈی اپنے کمرے میں اپنے موبائل پر لگ جاتا ہے۔اگلی صبح والدین کھانے کی میز پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ایڈی   بھی ان  کے پاس  بیٹھ جاتا ہے۔اپنا فون رکھ دیت اہے۔ موہن اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے۔ایڈی آتا ہے اور گڈ مارننگ بولتا ہے۔ اپنا فون بند کرکے میز پر رکھ دیتا ہے۔والدین میں سے کوئی بھی اس کی گڈ مارننگ پر جواب نہیں دیتا، اس پرایڈی فون اٹھاتا ہے اور کچھ ٹائپ کرتا ہے۔ ' سوری پاپا۔مجھے اپنی بدتمیزی پر واقعی افسوس ہے' ایڈی  پیغام دیتا ہے۔۔۔۔ موہن پیغام پڑھتا ہے تو اسے تھپکی دیتا ہے۔ایڈی اٹھ کر اپنے والد کو گلے لگا لیتا ہے۔مدھو خاموشی سے سب دیکھتی ہے اور بولتی ہے ' کھانا تیار ہے۔ ایڈی اٹھتا ہے اور کھانا  چننے میں ماں کی مدد کرتا ہے۔

' 'ٹکٹ انکل ، ٹکٹ انکل!' بنٹی بھاگتا ہو آتا ہے۔۔۔  ۔ اس کے پیچھےپیچھے پروفیسر بھی ہے۔'تم اب  بہت  مشہور ہو گئے ہو۔ بھابھی دیکھئے ، آپ نے جو ریل بنائی ہے ،اس کو بیس لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے اور آپ کے پیروکاروں کی تعداد س لاکھ ہوگئی ہے۔

تجزیہ

نریندرا      واگھیلا ایک  عالمی انعام یافتہ بھارتی  ادیب ہےجو اپنے اس افسانے میں  ایسی ہلکی پھلکی کہانی پیش کی ہے جو گھر یلو باسیوں کی نسلی تفاوت  کی وجہ سے پیش آتی ہے۔یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔نوجوان نسل اور  بزرگوں  کے افکار میں  خلا پایا جاتا ہے۔یہ اختلاف  قدرتی  ہے ۔ایک طرف  تجربہ اور بصیرت ہوتی ہے تو دوسری طرف جذبہ اور جدید تیکنالوجی۔پرانی نسل جس ثقافت سے گزری ہے وہ جدید  کے برعکس ہے۔نئی نئی ایجادات نے ان کا علم ، وسیع معلومات اور نت نئی ایجادات نے سوچ اور مہارت کی سطح بدل کر رکھ دی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں بھی کچھ اس طرح کا ذکر ہے۔نوجوان  بیٹا ڈیجٹل تجارت  کی تربیت لے رہاہے اورانٹر نیٹ پر کوئی ایسی پراڈکٹ متعارف کروانا چاہتاہے جو عوام الناس  کی ضروریات  کم سے کم خرچ سے حاصل کر سکے۔کون سی پراڈکٹ ایسی ہے جس میں  لوگ دلچسپی لیں ، ان تک اشتہارات زیادہ سے زیادہ پہنچیں  اور وہ خریدیں ۔۔اس  کے لئے اسے جدید تکنیک کا سہارا لینا پڑتا ہے اور وہ اپنے کام میں اتنامحو ہوتا ہے کہ دن رات موبائل اور کمپیوٹر سے چمٹا رہتاہے۔والدین کی طرف توجہ نہیں دے پاتااور وہ پریشان رہتے ہیں ۔بیٹا جذباتی طور پر ان سے فاصلہ رکھنے لگتا ہے۔ والدین اور بیٹے کی ترجیحات ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔والد کوشش کرتا رہتا ہے کہ اپنے بیٹےسے کم از کم فون کے ذریعے ہی رابطہ رکھےجو محدود ہی رہتا ہے۔اس کاوالد ٹکٹ کلکٹریا بس کنڈکٹر  ہے اور اس کی زندگی  'پینچ مار لو یا ٹکٹ پلیز ' کرتے گز ری ہے۔ کہانی  کے آغاز میں ان کے باہمی تعلقات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہےاور ان کے مابین لطیف  جذبات کی شدت  کم  ہوتی جاتی ہے۔لیکن جب موہن نئی تیکنالوجی اپناتا ہے تو یہ فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔

اس افسانے کے اہم موضوعات  میں ادیب نے  یہ باور کرانےکی کوشش کی ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نےافراد کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے بات نہیں کرتے اور چیٹنگ میں مصروف  رہتے ہیں۔جدید ابلاغ کی سمت تبدیل ہو گئی ہے۔ تازہ ترین معلومات ایک بٹن کی دوری پر ہیں اور وہ معتبر ہوتی ہیں جبکہ بزرگوں کے پاس کمپیوٹر جتنا علم نہیں ہوتا۔

اس میں ایک موضوع یہ بھی ہے کہ معمولی سے معمولی حرکات ، اشارے کنائے بھی دوسروں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔اس میں' پینچ مارلیں  یا ٹکٹ پلیز'ایک استعارہ بن گیا ہے جو اس  کی شناخت کا باعث بن گیا ہے۔اس کے چھوٹے معصومانہ  اعمال اس کی کہانی میں موجودگی اور محبت ظاہر کرتے ہیں۔

اس میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ  پرانی  نسل کو جدید تقاضوں کے مطابق اپنی معلومات کو  بڑھانا چاہیے۔انہیں نئی ایجادات  سیکھنی چاہیں ۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو ان  میں نسلی تفاوت کم کیا جا سکتاہے۔

اس کہانی میں فریقین کے درمیاں جذباتی مصالحت کی خواہش پائی جاتی ہےجو والدین کی طرف سے زیادہ شدت سے پائی جاتی ہے۔یہ کہانی پاکستان کے لحاظ سے اتنی ہی اہم ہے جتنا دنیا کے دیگر ممالک میں جہاں  ہر خاندان میں جدید تقاضوں کے مطابق مصالحت کی ضرورت ہے۔اس کہانی کی ثقافت ویسی ہی ہے جو کسی ترقی پذیر ملک میں پائی جاتی ہے۔ابلاغ میں تفاوت ہے۔سمارٹ فون نے زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔اگرپرانی نسل  تھوڑی بہت بھی نئی تکنیکیں سیکھ لے تواس کی تنہائیاں دور ہو سکتی ہیں۔اعتماد کے ساتھ نئی نسل سے ابلاغ کرسکتی ہے۔اور نئی نسل سے دوریاں کم ہو سکتی ہیں۔ اس میں مقابل پارٹی کوبھی پرانی نسل کے تجربات اور بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے،ان سے سرد رویہ نہیں اپنانا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 Book 4 ' Ticket Please'

 

 

**** Book 4 Story 21 'Ticket  Please ' by Narendra  waghela)

 

ٹکٹ پلیز

Ticket Please

    واگھیلا  نریندر

Narendra Waghela (World acknowledged Writer)

پیشکش و تجزیہ  : غلام  محی الدین

' مدھو، میری چیک بک اور پاس بک لاؤ ۔ میں نے بنک جاناہے۔'  موہن داس  چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہتا ہے۔'  ادیتیا(ایڈی) کہاں ہے؟' ۔۔۔ وہ ابھی تک حسب معمول گھوڑے بیچ کر سو رہاہے۔دل کرتا ہے اسے تھپڑ مار کر اٹھاؤں' مدھو ہتی ہے 'اور آج بجلی کا بل بھی اتار ناہے، ورنہ دس فیصد جرمانہ  پڑجائے گا۔'

'جرمانے سے یاد آیاکہ پڑوسی پروفیسر کے پیسے بھی لوٹانے ہیں۔ پھیری والے کو دینے کے لئے اس سے لئے تھے۔اب لوٹانے تو پڑیں گے۔ '

'اوہ!'مدھو نے کہا۔

'ارے دس بج گئے ، ادیتیا ابھی تک نہیں اٹھا۔'

'رات  دیر سے سویا ہے۔ پہلے تو گیارہ بجے تک سو جایا کرتا تھا لیکن اب کئی روز سےوہ کمپیوٹر  میں    ُ گھسا رہتا ہے۔  رات  دو تین بجے جاکر سوتاہے۔ '

'کوئی کام کرتا رہا ہوگا۔جاؤ اور چیک بک  اور پا س  بک لے آؤ۔'اتنے میں  ادیتیا (ایڈی) آکر کہتا ہے۔' گڈ مارننگ ڈیڈی۔'

'تھوڑی دیر میں گڈ آفٹر نون ہو جائے گا۔' موہن کہتا ہے۔ لیکن ایڈی  اس کی بات کا جواب دیئے بغیر  کھانے کی میز موبائل میں چیٹنگ میں  لگ  جاتاہے۔

'ایڈی، ڈبل روٹی پکڑانا۔' موہن کہتا ہے۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ پھر کہتا ہے 'بریڈ اور بٹر دو ایڈی۔'وہ پھر بھی نہیں سنتا تو موہن ذرا اونچی آواز میں اپنی بات دہراتا ہے  تو ایڈی کہتا ہے۔۔۔'کیا؟'۔۔۔'بریڈ بٹر، موہن پھر بولتاہے۔'لیکن وہ چیٹنگ میں مصروف رہتا ہے۔اتنے میں مدھو چیک بک اور پاس بک لے آتی ہےاور ایڈی کو طنزیہ کہتی ہے 'ہوگئی تیرے دن کی شروواد!'وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اوراپنے کام میں مگن رہتا ہے۔موہن کہتا ہے۔'میں اب چلتا ہوں۔'

'سنو! پاس بک میں اندراج پورا کروا لینا۔'۔۔۔'آف کورس۔'موہن  کہتا ہے۔

'اور کھانے میں کیا بناؤں؟'وہ کچھ نہ بولا تو مدھونے کہا'تمہیں  ڈبل روٹی اور سبزیاں کھانی چاہیئں۔' ۔۔ 'دال چاول بنا لینا۔میں آتا ہوں۔'موہن  یہ بول کر چلاجاتا ہے۔

وہ ایڈی  کوکہتی ہے 'کچھ کھا لو۔'

' نہیں، میں کچھ نہیں  کھاؤں گا۔میں باہر جارہاہوں،وہاں ہی کھا لوں گا۔

موہن  شام کو واپس آتاہے تو اس کا پڑوسی ہے  جو ایک پروفیسر ہے ، پاس  کے پارک میں ورزش کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ اپنے موبائل سے اپنی تصویر کھینچتا ہےاور فیس بک پر لگا دیتا ہے۔

'گڈ ایوننگ۔ تم نے کسرت کرلی ہے پروفیسر۔'

'گڈ ایوننگ، ارے کاہے کی کسرت!اس محنت  نے تو میری جان ہی نکال دی ہے۔'

'اس سے پہلے کہ تمہاری جان نکلے ،اپنا سو روپیہ لو جو تم نے کل چائے والے کو آن لائن  ٹرانسفر کیاتھا۔

'موہن، تم اپنی رقم آن لائن کیوں ٹرانسفر نہیں کرتے؟ انہیں آن لائن بھیجاکرو۔ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں رقم فوراً چلی جاتی ہے۔ بینک نہیں جانا پڑتا۔بنک کے دھکے بار بار نہیں کھانے پڑتے۔'۔۔۔'اس جھنجھٹ میں کون پڑے' موہن کہتا ہے

تمام کام نپٹا کے وہ   آٹھ بجے گھر لوٹتا ہے۔' کیا ایڈی  آگیا ہے؟'۔۔۔'نہیں۔' وہ اسے فون لگاتا ہے تو وہ بند ہوتا ہے۔۔۔' ایڈی کو فون کررہاہوں،وہ اٹھا ہی نہیں رہا۔پتہ نہیں ،وہ کیا کرتااور کہاں جاتا ہے'

'میں نے اسےسکوٹر پر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔پروفیسر کے   گیارہ سالہ  بیٹے بنٹی نے کہا جو اس وقت  انہیں  کھیر دینے آیاتھاکہتا ہے ۔ 'انکل،ایک منٹ دیں، میں  پتہ چلاتا ہوں ۔' وہ فیس بک پر جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایڈی  ساحل سمندر کے کیفے میں چار گھنٹے پہلے اپنی گرل فرینڈکے ساتھ  چاکلیٹ کھا اور ملک شیک پی رہاتھا۔ فیس بک (ایف۔بی) پر ان کی تصاویر دیکھ کر کہتا ہے'

'کیا؟'

بنٹی نے فیس بک پر اپ ڈیپ موہن کے سامنے رکھ دی۔'ایف۔ بی  سے ہرایک کو تمام باتوں کا علم ہوجاتا ہے۔کون ،کہاں،کس کےساتھ گھوم رہا ہے، سب پتہ  چل جاتا ہے۔'بنٹی بولا

موہن حیران ہو کر بولا ' اس سے کیسے پتہ چل جاتا ہے؟کس کو پتہ چل جاتا ہے؟'۔۔۔'پوری دنیا کو جس کا اکاؤنٹ ہے۔' بنٹی جواب دیتا ہے ۔

'نہیں ! نہیں، نہیں!ذرا رکو۔ ایک منٹ رکو۔ تم یہ  کہہ رہے ہو کہ تم فیس بک دیکھ کر بتا سکتے ہوکون ، کہاں ، کس کے ساتھ گھوم رہا ہے ، سب کچھ پتہ چل جاتا ہے۔'موہن کو یقین نہیں آیاتھا۔

'ہاں۔اور صرف اتنا ہی نہیں، یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون کیا کھا رہا ہے کیا پی رہا ہے، کس کے پاس کتنے کتے یا پالتو جانور ہیں۔ کون کب پیدا ہوا ، کس کی موت ہو گئی ہے۔ان سب چیزوں کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔ یہ سب باتیں سچ ہیں ۔' اتنے میں اس کا والد اسے ڈھونڈتا ہوا آجاتا ہے اور کہتا ہے،'بنٹی تم   اپنا ہوم ورک کرنے کی بجائے یہاں کیا کر رہے ہو؟'

'ممی نےآنٹی کو کھیر دینے کو بھیجا تھا۔' وہ یہ کہہ کر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔اتنے میں ایڈی  گھر میں داخل ہوتا ہے۔۔۔'کھانا کھالو'۔۔۔'نہیں ۔ میں کھا کے آیا ہوں۔' ایڈی کہتا ہے۔۔۔'تھوڑا سا کھا لو بیٹا۔' مدھو نے تمہاری پسندیدہ سبزی بنائی ہے اور پروفیسر کے گھر سے کھیر بھی آئی ہے۔' تو وہ کھانے کی میز پر بیٹھ جاتا ہے۔۔۔'کہاں تھا تو ؟'مدھو نے پوچھا۔

' مارٹن کیفے۔ وہاں ہاٹ چاکلیٹ اور ملک شیک   اچھا ملتا ہے۔کیا ایسا ہی ہے ایڈی۔' موہن   کھانا کھاتے ہوئےبولتا ہے۔۔۔ایڈی چپ رہتاہے۔۔۔سبزی کیسی بنی ہے ؟' مدھو  موہن سے پوچھتی ہے۔۔۔' ایک دم   َبڑھیا۔اس میں نمک ذرا سا کم ہے۔'۔۔۔'میں نے تو پورا نمک ڈالا تھا۔ایڈی کیا تم بھی ایسا ہی سمجھتے ہو۔مزید نمک نہ ڈالنا 'مدھو کہتی ہے۔۔۔ایڈی سنی ان سنی کرکے کھاتے ہوئے موبائل  پر چیٹنگ کرتا رہتا ہے۔۔۔' کھاتے وقت تو نگوڑا موبائل رکھ دیا کرو۔'مدھو کہتی ہے۔۔۔' اہم کام کر رہاہوں۔' ایڈی بولتاہے۔۔۔'چاول دینا بیٹا، تمہاری انٹرن شپ کیسی چل رہی ہے؟' موہن   دریافت کرتاہے۔۔۔' ٹھیک سے چل رہی ہے۔' ایڈی جواب دیتاہے۔۔۔' تم اس کے بارے بتاؤ گے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ مجھے سب لوگ پوچھتے ہیں، چونکہ ہمیں   اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اس لئے   ہم  بتا نہیں پاتے۔' مدھو  پوچھتی ہے۔۔۔'کیا بتاؤں، اس کے بارے میں کیا بتاؤں۔آپ کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ  میں کیا سمجھ آئے گی۔' ایڈی  جواب دیتا ہے ۔۔ ۔ 'کیا تم نے سمجھایا اور ہمیں سمجھ نہیں آئی۔تم نے سمجھا کر دیکھا ہے کبھی۔'۔۔'اس قصے کو چھوڑ ہی دیں۔آپ کو سمجھاتے سمجھاتےمیں خود سب بھول جاؤں گا۔' ایڈی    جواب دیتا ہے۔

'دیکھا! اعلیٰ تعلیم دلانے  کے لئے پوری زندگی مصائب کا سامنا کرو۔پڑھاؤ ،لکھاؤ،بڑا کرواور  بچے بڑا ہونے کے بعد کیابولیں گے۔' موہن دکھی ہو کر بولتا ہے۔یہ سن کر ایڈی اٹھ  کر جانے لگا۔۔۔'او۔کے، او۔کے۔تم اب کہاں جارہے ہو، کھانا تو کھالو۔تم نے ہمیں ڈھنگ سے کوئی جواب نہیں دیا،میں  نے تم سے جو بات کی اس میں غلط کیا ہے؟   مدھو نے کہا۔۔۔'تمہیں اسے آرام سے  اور نرمی سے بول سکتی تھی۔' موہن نے کہا۔ پھر وہ سونے چلے جاتے ہیں۔  مدھو بستر پر کروٹیں بدل رہی ہے۔۔۔ 'کیا ہوا؟'  ۔۔۔' نیند نہیں آرہی مدھو بولتی ہے۔ ۔۔ 'کیا سوچ رہی ہو؟' موہن پوچھتا ہے۔۔۔'سماں کتنی تیزی سے بدل  رہا ہے۔اس  متغیر موسم میں  ہمارا بیٹا کتنی تیزی سے آگے  بڑھ رہا ہے۔' مدھو کہتی ہے۔۔۔ ہم چونکہ جدید تکنیک کو نہیں جانتے اس لئے ہمیں اس  شئے کا علم نہیں کہ ایڈی کیا کررہا ہے۔' موہن  اس کی ہاں ملاتا ہے۔۔۔۔' جب بھی اس سے بات کی جاتی ہے ۔ہاں، نہ میں جواب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ فون کا جواب ہی نہیں دیتا' مدھو اضافہ کرتے بولتی ہے۔۔۔'میرا  فون تو اٹھاتا ہی نہیں ۔آج بنٹی نے ہی معلوم کرکے بتایا کہ چاربجے وہ مارٹن کیفے میں تھا۔' موہن  تڑکا لگاتا ہے۔۔

اگلے روز اسے پروفیسر ملا ۔اس نے آن لائن بنک ٹرانسفر کا ذکر چھیڑ دیا  ۔ ۔'دیکھو موہن۔ ماحول سے مطابقت کے لئے اقدار بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔اپنے بچوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں  ان کی سوچ کے مطابق  سوچنا پڑتا ہے۔' ان کی طرح جینا پڑتا ہے۔اب میرے بیٹے  بنٹی کوہی لے لو ، گیارہ  سال کا بچہ ہےلیکن انٹرنیٹ کے بارے میں سب جانتا ہے،رقم  آن لائن کیسے ٹرانسفر کر سکتے ہیں   ، کے اقدامات اس  کی انگلیوں کی نوک پر ہیں۔۔ اس نے انٹر نیٹ پر ہر قسم کے اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں۔ انسٹاگرام، وٹس ایپ، ٹویٹر، وی پی این، ٹک ٹاک    وغیرہ ۔ میں مستقل طور پر اس کے اکاؤنٹ چیک کرتا رہتا ہوں کہ کہیں وہ کوئی غلط کام تو نہیں کررہا ۔ہماری نسل کے لوگوں کے لئے یہ وقت طلب مرحلہ ہے۔ تم سوشل میڈیا استعمال کیا کرو ، یہ بہت فائدہ مند ہے۔' پروفیسر نے کہا۔

'تمہاری باتیں سچ ہیں ۔تم جانتے ہو ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ایڈی ہمارے ساتھ مختصر ترین بات کرتا ہے۔ ہر وقت موبائل پر بات کررہا ہوتاہے یا ٹائپ کررہاہوتا ہے، کھاتے وقت بھی فون استعمال کرتا رہتا ہے ۔اس پر نہ ہو تو کمپیوٹر پر ہوتا ہے۔ کل بنٹی نے بتایا کہ وہ چار بجے کہاں تھا۔'موہن اسے اطلاع دیتا ہے۔

'بنٹی نے؟'پروفیسر نے پوچھا۔۔۔'ہاں۔' موہن نے کہا ۔۔۔ْانٹرنیٹ سے؟'  ۔۔۔ 'ہاں ۔'موہن نے کہا۔

' میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔تمہیں سوشل میڈیا کے بارے میں سیکھنا شروع کر دینا چاہیئے۔یہ آسان ہے۔تم اسے جلد ہی استعمال کرنے لگو گے۔' پروفیسر مشورہ دیتا ہے۔۔۔'کیا تم پاگل ہو پروفیسر؟'۔۔۔'کیوں موہن ؟' پوفیسر  پوچھتا ۔۔۔'اتنی دیر سے کیا رونا رو ہا ہوں کہ ایڈی  موبائل اور کمپیوٹر کا کیڑا بن گیا ہے۔چوبیس گھنٹےانٹرنیٹ میں ڈوبا رہتا ہے۔اسے اس بلا سے نکالنے کی بجائے مجھے اس میں ڈال رہے ہو۔'۔۔' میں تمہیں یہ نہیں کہہ رہا  کہ تم ہر وقت  سوشل میڈیا  میں گھسا پڑا رہ۔ ' پروفیسر کہتا ہے۔۔۔'میں پریشان ہوں۔میں ایڈی کی اس عادت سے تنگ آگیاہوں۔اسے اس سے نکالنے کی بجائے تو بول رہا ہے کہ میں اس میں گھس جاؤں۔'۔۔۔  'میں یہ نہیں کہہ رہا کہ  کہ تو ہر وقت سوشل میڈیا میں غرق رہو۔تم اس کے ذریعے ایڈی کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکو گے۔' پروفیسر بولتا ہے۔

'مثلاً'۔موہن  سوالیہ نشان سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔۔'جیسے آج وہ بنا بتائے چلا گیا،تم سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم کر سکتے ہو کہ وہ اس وقت کہاںہے ،کس کے ساتھ ہے ،کیا کررہاہے ۔تم یہ سب پتہ لگا سکتے ہو۔' پروفیسر بتاتاہے۔۔۔'ہاں، خیال تو اچھا ہے' موہن  کہتا ہے۔۔۔ 'میرے پاس بنٹی کا پرانا فون ہے  جو تمہارے موجودہ فون سے بہتر ہے۔وہ میں تجھے دے دیتا ہوں۔میں تمہیں اسے استعمال کرنا سکھا دوں گا۔' پروفیسر تجویز دیتا ہے۔۔۔'میں اسے تو سیکھ لوں گا مگر سوشل میڈیا  تک دسترس کیسے ہوگی؟'موہن بسوال کرتاہے۔'کیا تم سیکھنے کے لئے آمادہ ہو؟' پروفیسر نے کہا۔۔۔'ہاں۔'موہن رضامندی دیتا ہے۔

'فیس بک اکاؤنٹ کھولنے کے لئے نام اور پاس دورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔' اس نے موہن نے شاختی کارڈ لیا، اس کے کوائف درج کئے' ۔  اس کا ایف ۔ بی اکاؤنٹ  بنا یا اور اس کا پاس ورڈ سیٹ  کیا۔ اکاؤنٹ کھولنے کے بعد کہا کہ یہ تمہارا  ایف ۔بی اکاؤنٹ ہے، تمہیں اپنی تاریخ پیدائش  لازماً یاد رکھنا ہوگی۔'۔۔ شکریہ ۔ موہن کہتا ہے۔

' ہیلو  میرے رجنی کانت ! امید ہے باقی اکاؤنٹ اورسوشل میڈیا تمہیں بنٹی سکھا دے گا۔ میں اسے بول دوں گا۔'

اگلے روز بنٹی موہن کو سوشل میڈیا سکھانے کےلئے آیا،اس نے تفصیل سے سوشل میڈیا کے بارے میں سمجھایا۔ تمہاری فو ٹو کھینچنی ہے  ۔ اپنی فوٹو کھنچواؤ۔ '  بنٹی  کہتا ہے۔موہن   کھڑا ہو کو پوز مارتا ہے ۔۔۔سوشل میڈیا میں شامل ہونے کی مبارکباد قبول ہوانکل۔  آپ کا انسٹاگرام  اکاؤنٹ کل کھولیں گے۔۔۔'شکریہ بنٹی۔کہ ایڈی آجاتاہے۔وہ موبائل ہر چیٹنگ کر رہا ہوتا ہے وہ اپنے والد سے پوچھتا ہے کہ یہ کس کا فون ہے۔موہن بتاتا ہے کہ یہ اس کا ہے۔کیوں؟ ۔۔۔'یہ تو سمار ٹ فون ہے۔کیا استعمال کرنا آتا ہے؟'۔۔ ۔ 'ہاں۔۔۔ اپنی فیس بک چیک کرو" موہن ایڈی کو بولتاہے۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کی فرینڈ رکویسٹ آئی ہوئی ہے۔

پروفیسر وہاں آجاتا ہے۔ وہ انہیں دیکھتا ہے اور کہتا ہے'واہ! آئیڈیا کام کررہا ہے۔'موہن، چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔سب لوگ اب تک وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔' مدھو بولی۔۔۔'چلو۔ میں بالکل تیار ہوں۔' اس نے کہا۔ 'چلو ، ہم تینوں کی سیلفی لیتے ہیں۔' وہ اس  فوٹو جو سوشل میڈیا میں پھینک دیتے ہیں۔ چند منٹ بعد موہن کے منہ سے واہ نکلتا ہے۔'کیا ہوا؟'پروفیسر پوچھتا ہے۔۔۔' تین دل اور لائیک کے نشان  آئے ہیں۔'۔۔۔'کیا بات ہے۔ واہ!'پروفیسر نے تعریف کی۔اس نے دیکھا ایڈی بھی ایف بی استعمال کر رہاتھا۔اس نے اسے پیغام بھیجا،'ایڈی تمہاری امی بریانی بنارہی ہے۔باہر سے کھانا نہ کھانا۔'۔۔'او۔کے پاپا۔' ۔۔۔'کیا آئس کریم کھاؤ گے؟'مدھو نے لکھوایا۔۔۔'؛ہاں'۔ اس نے جواب دیا۔۔۔'تو میں آئس کریم منگوا رہی ہوں۔'۔۔اس طرح ان کی باقاعدہ بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔۔۔'پاپا ، آپ کو تو ایف۔ بی اور واٹس اپ استعمال کرنا آگیا ہے۔'۔۔'ہاں'۔

اگلے روزبنٹی اس کا  انسٹا گرام اکاؤنٹ   انسٹال کرنےاپنے والد کے ساتھ آگیا۔۔۔' کوئی  نام اپنے ذہن میں لاؤ' پروفیسر نے کہا۔۔۔' موہن داس' اس نے کہا۔۔۔' نہیں انکل ،اپنا نام نہیں ۔کوئی ایسا نام جو فرضی ہو اور انوکھا ہو۔' ب۔۔۔ 'کیا انوکھا نام رکھنا ضروری ہوتا ہے؟ ' ۔۔۔'ہاں انکل۔' وہ سوچنے لگ جاتا ہے ۔بنٹی سے پوچھتا ہے 'تمہاے انسٹاگرام  اکاؤنٹ کس نام کا ہے؟'۔۔۔'ٹیکی  داس'  پھر وہ پروفیسر سے پوچھتا ہے ،'تمہارے اکاؤنٹ کا نام کیا ہےپروفیسر؟'۔۔۔  'ایک پیگ اور سہی۔' موہن داس اسے کہتا ہے کہ کیا تو واقعی ٹیچر ہے۔یہ کیسا نام رکھا؟'۔۔۔ 'تو کیا ہوا؟ اس نام سے لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں۔۔۔'ہاں ! تو  ۔'۔۔۔'مل گیا بنٹی اچھل کر بولا ۔۔۔' کیا؟' موہن  پوچھتاہے۔'ارے بتا ، کیا نام رکھا ہے؟۔۔۔            '   ٹکٹ پلیز'۔بنٹی کہتا ہے۔۔۔'ارے بہترین۔'

موہن کو ایڈی کا فون آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ  سوچ رہا تھا کہ وہ  اپنے برانڈ کوڈیجیٹل نیا میں متعارف کروائے۔اسے زیادہ لوگ دیکھیں اور اپنی رائے دیں  اور اس پراڈکٹ کااثر  ناظرین پر ہو۔اس کی قیمت معقول ہو جس کا بوجھ وہ اٹھا سکیں۔اس لئے ہمیں ایسی پیشکش کرنی چاہیئے جس میں ترغیب ، ڈسکاؤنٹ ، پروموشن وغیرہ ہوں۔'  ۔۔۔ 'تمہاری پراڈکٹ کیا ہے؟ پاس بیٹھا پروفیسر  پوچھتا ہے۔ ۔۔ابھی فائنل نہیں کی۔' ایڈی یہ کہہ کر فون کاٹ دیتاہے۔

' میرا خیال ہے کہ تم اپنے  ڈیجیٹل مارکٹنگ کے پروگرام میں ابھی پوری طرح تیار نہیں ہو۔ تمہارے پا س کوئی پراڈکٹ ہے ، نہ واقفیت اور نہ ہی تجربہ۔اس کے لئے مزید تفصیلات درکار ہیں۔اس لئے جب تک جامع پروگرام نہ ہو اسے شروع نہ کیا جائے۔ایڈی کو کہو کہ وہ اپنے ساتھ تمام انٹرنز کو کہے کہ وہ اپنی اپنی پروڈکٹس اور پروگرام پیش کریں اور بحث مباحثہ کے بعد مارکیٹ میں پراڈکٹ لانچ کریں۔اس کے دوران کوئی دلچسپ   ریلیں بنا کر ٹک ٹاک پر لگائیں۔'پروفیسر اسے مشورہ دیتا ہے۔۔۔۔' ریلیں کیا ہوتی ہیں؟ موہن  پوچھتا ہے۔۔۔' یہ وڈیو ہوتی ہیں ۔فلمیں ہوتی ہیں۔اسے ٹک ٹاک میں استعمال کیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ ہوتی ہیں اور ہر کوئی انہیں دیکھتا ہے۔'پروفیسر تفصیل بتاتا ہے۔۔۔'اچھا ، سوچتے ہیں۔'موہن  بولتا ہے۔

اگلے دن وہ اٹھا اور پارک میں گیاتو دیکھا کہ  بنٹی  ناچ ناچ کر کسرت کررہاتھا اور اپنی وڈیو بنا رہاتھا۔'یہ کیا کر رہے ہو؟ موہن  داس نے پوچھا۔۔۔'  ریل بنا  کر ٹک ٹاک پر  لوڈ کروں گا۔لیکن ابھی اس کو کم لوگ دیکھتے ہیں۔ ' اس کے ذہن میں آتا ہے کیوں نہ وہ بھی اس کے ساتھ مل کر ناچ ناچ کر کسرت کرے۔' اس نے یہ آئیڈیا بنٹی کو دیا تو اس نے کہا آئیڈیا تو اچھا ہے۔ ان دونوں نے مل کر وڈیو بنائی اور اپ لوڈ کردی۔ چند گھنٹوں بعد انہوں نے دیکھا کہ  ان کو سینکڑوں  لائکس ملیں۔تو انہوں نے اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں ایڈی بھی دیکھتا ہے۔ایک دفعہ ایڈی اور موہن ایک دکان پر ہوتے ہیں تو ایڈی کے دوست بھی وہاں کھڑے ہوتے ہیں ۔ایک دوست ایڈی سے پوچھتا ہے'کیا کررہے ہو'۔۔۔'گھر کا سامان لینے آئے تھے۔' بنٹی بولتا ہے۔۔۔'اور تم لوگ؟'۔۔۔'کچھ نہیں ، بس ایسے ہی۔'اس کے دوستوں نے کہا۔ اتنے میں موہن دکان سے خریداری کرکے بیگ اٹھائے باہر آتا ہے۔اور ایڈی کو کہا چلو، چلیں۔

'ارے انکل!ہم نے آپ کی ریلز دیکھی ہیں۔'۔۔۔'کیا ایسا ہے؟ 'موہن داس  حیرانی سے بولتا ہے۔'آپ گووند جیسا ڈانس کرتے ہو۔ بہت اچھا لگتا ہے' تمام دوستوں نے  یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔۔۔'شکریہ ، شکریہ۔' موہن داس  کہتاہے۔۔۔'آپ کا اکاؤنٹ استعمال کرنے والا نام بھی  ایک دم انوکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کوئی آکر آپ سے ٹکٹ مانگے گا۔ کیا تم  بھی ان کی ریلز دیکھتے ہو؟'انہوں نے ایڈی سے پوچھتے ہیں ۔۔۔'ہاں۔ ایڈی  جواب دیتا ہے۔۔۔'آپ آج بھی   بڑی خوشی سے ٹکٹ کاٹتے ہیں سانتا کلاز کی طرح۔ْ ایڈی کا ایک دوست بولتا ہے۔وہ سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔۔'مجھے ہمیشہ لوگ کنڈکٹر کہہ کر پکارتے تھے۔ ساری عمر 'پیچ مار لو اور ٹکٹ پلیز کہتے گزری ۔یہ میرس پیشہ تھا۔اسم میں کوئی برائی نہیں ہےلیکن ابھی بھی اچھا لگتا ہے '۔ موہن داس  اپنی رائے دیتا ہے۔

'انکل ، پھر ملتے ہیں، بائی۔ ایڈی بائی۔'

ایڈی کو بہت غصہ آتا ہے۔وہ سامان لے کراندر جاتا ہےتو مدھو کہتی ہے،' سنو، ریل کیسے بنائی جاتی ہے۔'۔۔۔'اس کا تو مجھے علم ہی نہیں تھا، لوگ ہماری ریلیں بہت پسند کرتے ہیں۔' موہن داس  کہتا ہے۔۔۔' بند کرو یہ سب!' ایڈی غصے سے دھاڑتا ہے۔'کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے۔بنٹی کو دیکھیں اور اپنی عمردیکھیں، اور کتنا شرمندہ کرواؤگے مجھے!وہ  آپ کی تعریف نہیں کررہے تھے، مذاق اڑا رہے تھے وہ آپ کا۔آپ نے میرے دوستوں کے سامنے مجھے ذلیل کروایا ۔میں صبح صبح کام کررہا ہوتا ہوں اور آپ مجھے  پیغام بھیج دیتے ہو۔تماشہ لگایا ہوا ہے۔آپ کی وجہ سے میں اپنی ریل پر کام نہیں کر پارہا۔آپ پہلے جیسے نہیں رہے۔جب سے آپ کے پاس یہ فون آیا ہے، آپ کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا۔مجھے یہ سب پسند نہیں۔'

'اپنے باپ کو سوری بول بیٹا۔۔۔میں نے کہا ناں سوری بول اپنے پاپا کو۔۔۔ سنا نہیں ، میں نے کیا کہا۔'مدھو غصے سے کہتی ہے۔

'میں کیوں بولوں سوری؟'

'چپ، ایک دم چپ۔آج تمہیں اسے پاپا  کہتےشرم آرہی ہے۔تجھے کیا لگتا ہےکہ جو وہ یہ کررہا ہے ،اپنے لئے کر رہا ہے۔ تم سمجھتے ہوکہ انہوں نے کوئی نیا شوق پال لیا ہے'مدھو کا پارہ آسمان پہ ہے۔

'شوق ہی تو ہے۔شوق نہیں تو اور کیا ہے؟بیکار پیغامات بھیجتے رہتے ہیں اور فضول فضول تصویریں بھیجتے رہتے ہیں۔ان کا دماغ ٹھکانے  نہیں ہے۔میں اس وقت آپ کو  پسند نہیں کررہاپاپا۔ دوسروں کے سامنے آپ کو پاپا کہنے میں مجھے شرم آتی ہے۔ایک ہی گھر میں رہ کے کون ایک ایک دوسرے کو ٹیگ کرتا ہے۔بچے کے ساتھ ڈانس کی ریل بناتے ہیں۔انہیں اپنی عمر کا تو  سوچنا چاہیئے۔' ایڈی روانی میں نولتا چلا گیا۔

' تمہاری اپنے پاپا کے بارے میں کتنی خراب رائے ہے۔یاد ہے! تم نے ہمارے ساتھ  کب بات کی تھی ؟یاد ہے ! تم نے ہمیں آخری بار کب گلے لگایا ؟۔۔۔اور تم وہ سب چھوڑو،یاد ہے جب تم نے یہ پوچھا ہو کہ کیا ہم نے کھانا کھالیا، اور تم اپنے پاپا پر برس پڑے۔۔۔اور اب کہہ رہے ہو کہ پاپا اب پہلے جیسے نہیں رہے۔تو خود کیوں نہیں رہا پہلے جیسا !بار بار  تجھے فون کرتے تھے، تم نے کبھی نہیں اٹھایا۔ میں فون کرتی ہوں تو گھنٹی بج بج کے بند ہو جاتی ہے۔تم یہ نہیں بتاتے کہ تیری زندگی میں کیا چل رہا ہے اور بتانا ضروری بھی نہیں سمجھتا ۔جب سے یہ فون لے کر آئے ہیں، تم نے  اب تھوڑی سی بات  کی ہےہم سے۔'مدھو نے اپنے دل کی پوری بھڑا س نکالی۔

'میں ہمیشہ آپ کے لئے ہمیشہ غلط ہی رہا ہوں' ایڈی بولتاہے۔

'مانتی ہوں، مانتی ہوں' مدھو بولی۔'وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہے ۔اچھی بات ہے ۔لیکن ماں باپ کوتو ۔۔۔انہیں بھی تو پیار چاہیئے۔انہیں بھی تو تھوڑا وقت چاہیئے۔'۔۔ یہ سن کر ایڈی وہاں سے چلا جاتا ہے۔ موہن اداس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔فون دراز میں رکھ دیتا ہے ۔ایڈی اپنے کمرے میں اپنے موبائل پر لگ جاتا ہے۔اگلی صبح والدین کھانے کی میز پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ایڈی   بھی ان  کے پاس  بیٹھ جاتا ہے۔اپنا فون رکھ دیت اہے۔ موہن اخبار پڑھ رہا ہوتا ہے۔ایڈی آتا ہے اور گڈ مارننگ بولتا ہے۔ اپنا فون بند کرکے میز پر رکھ دیتا ہے۔والدین میں سے کوئی بھی اس کی گڈ مارننگ پر جواب نہیں دیتا، اس پرایڈی فون اٹھاتا ہے اور کچھ ٹائپ کرتا ہے۔ ' سوری پاپا۔مجھے اپنی بدتمیزی پر واقعی افسوس ہے' ایڈی  پیغام دیتا ہے۔۔۔۔ موہن پیغام پڑھتا ہے تو اسے تھپکی دیتا ہے۔ایڈی اٹھ کر اپنے والد کو گلے لگا لیتا ہے۔مدھو خاموشی سے سب دیکھتی ہے اور بولتی ہے ' کھانا تیار ہے۔ ایڈی اٹھتا ہے اور کھانا  چننے میں ماں کی مدد کرتا ہے۔

' 'ٹکٹ انکل ، ٹکٹ انکل!' بنٹی بھاگتا ہو آتا ہے۔۔۔  ۔ اس کے پیچھےپیچھے پروفیسر بھی ہے۔'تم اب  بہت  مشہور ہو گئے ہو۔ بھابھی دیکھئے ، آپ نے جو ریل بنائی ہے ،اس کو بیس لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے اور آپ کے پیروکاروں کی تعداد س لاکھ ہوگئی ہے۔

تجزیہ

نریندرا      واگھیلا ایک  عالمی انعام یافتہ بھارتی  ادیب ہےجو اپنے اس افسانے میں  ایسی ہلکی پھلکی کہانی پیش کی ہے جو گھر یلو باسیوں کی نسلی تفاوت  کی وجہ سے پیش آتی ہے۔یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔نوجوان نسل اور  بزرگوں  کے افکار میں  خلا پایا جاتا ہے۔یہ اختلاف  قدرتی  ہے ۔ایک طرف  تجربہ اور بصیرت ہوتی ہے تو دوسری طرف جذبہ اور جدید تیکنالوجی۔پرانی نسل جس ثقافت سے گزری ہے وہ جدید  کے برعکس ہے۔نئی نئی ایجادات نے ان کا علم ، وسیع معلومات اور نت نئی ایجادات نے سوچ اور مہارت کی سطح بدل کر رکھ دی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں بھی کچھ اس طرح کا ذکر ہے۔نوجوان  بیٹا ڈیجٹل تجارت  کی تربیت لے رہاہے اورانٹر نیٹ پر کوئی ایسی پراڈکٹ متعارف کروانا چاہتاہے جو عوام الناس  کی ضروریات  کم سے کم خرچ سے حاصل کر سکے۔کون سی پراڈکٹ ایسی ہے جس میں  لوگ دلچسپی لیں ، ان تک اشتہارات زیادہ سے زیادہ پہنچیں  اور وہ خریدیں ۔۔اس  کے لئے اسے جدید تکنیک کا سہارا لینا پڑتا ہے اور وہ اپنے کام میں اتنامحو ہوتا ہے کہ دن رات موبائل اور کمپیوٹر سے چمٹا رہتاہے۔والدین کی طرف توجہ نہیں دے پاتااور وہ پریشان رہتے ہیں ۔بیٹا جذباتی طور پر ان سے فاصلہ رکھنے لگتا ہے۔ والدین اور بیٹے کی ترجیحات ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔والد کوشش کرتا رہتا ہے کہ اپنے بیٹےسے کم از کم فون کے ذریعے ہی رابطہ رکھےجو محدود ہی رہتا ہے۔اس کاوالد ٹکٹ کلکٹریا بس کنڈکٹر  ہے اور اس کی زندگی  'پینچ مار لو یا ٹکٹ پلیز ' کرتے گز ری ہے۔ کہانی  کے آغاز میں ان کے باہمی تعلقات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہےاور ان کے مابین لطیف  جذبات کی شدت  کم  ہوتی جاتی ہے۔لیکن جب موہن نئی تیکنالوجی اپناتا ہے تو یہ فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔

اس افسانے کے اہم موضوعات  میں ادیب نے  یہ باور کرانےکی کوشش کی ہے کہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نےافراد کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے بات نہیں کرتے اور چیٹنگ میں مصروف  رہتے ہیں۔جدید ابلاغ کی سمت تبدیل ہو گئی ہے۔ تازہ ترین معلومات ایک بٹن کی دوری پر ہیں اور وہ معتبر ہوتی ہیں جبکہ بزرگوں کے پاس کمپیوٹر جتنا علم نہیں ہوتا۔

اس میں ایک موضوع یہ بھی ہے کہ معمولی سے معمولی حرکات ، اشارے کنائے بھی دوسروں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔اس میں' پینچ مارلیں  یا ٹکٹ پلیز'ایک استعارہ بن گیا ہے جو اس  کی شناخت کا باعث بن گیا ہے۔اس کے چھوٹے معصومانہ  اعمال اس کی کہانی میں موجودگی اور محبت ظاہر کرتے ہیں۔

اس میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ  پرانی  نسل کو جدید تقاضوں کے مطابق اپنی معلومات کو  بڑھانا چاہیے۔انہیں نئی ایجادات  سیکھنی چاہیں ۔اگر وہ ایسا کر لیتے ہیں تو ان  میں نسلی تفاوت کم کیا جا سکتاہے۔

اس کہانی میں فریقین کے درمیاں جذباتی مصالحت کی خواہش پائی جاتی ہےجو والدین کی طرف سے زیادہ شدت سے پائی جاتی ہے۔یہ کہانی پاکستان کے لحاظ سے اتنی ہی اہم ہے جتنا دنیا کے دیگر ممالک میں جہاں  ہر خاندان میں جدید تقاضوں کے مطابق مصالحت کی ضرورت ہے۔اس کہانی کی ثقافت ویسی ہی ہے جو کسی ترقی پذیر ملک میں پائی جاتی ہے۔ابلاغ میں تفاوت ہے۔سمارٹ فون نے زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔اگرپرانی نسل  تھوڑی بہت بھی نئی تکنیکیں سیکھ لے تواس کی تنہائیاں دور ہو سکتی ہیں۔اعتماد کے ساتھ نئی نسل سے ابلاغ کرسکتی ہے۔اور نئی نسل سے دوریاں کم ہو سکتی ہیں۔ اس میں مقابل پارٹی کوبھی پرانی نسل کے تجربات اور بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے،ان سے سرد رویہ نہیں اپنانا چاہیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی