Al Kindi

 




2

ابو یوسف یعقوب الِکندی

Abu Yusuf Ya’qub ibn Ishaq ibn al-Sabbah  ibn Imran

ibn Isma ibn Isma’il ibn Al۔Ash’ath Ibn Qais Alkindah

Al Kufa   (Iraq .801………873)


ْمرتب   :   غلام محی الدین 


حالاتِ زندگی

ابو یوسف الِکندی کا پورا نام ابو یوسف یعقوب بن اسحاق بن الصباح بن عمران بن اسماء بن اسماعیل بن الاشاتھ  بن قیس الِکندی تھا لیکن یعقوب

الِکندی کے نام سے مشہور تھے۔ان کےوالد کانام اسحاق  بن الصباح   تھا جو ایک محدث  تھے ۔حضرت محمد ﷺ کی سیرت   پر ان  کی مکمل دسترس  تھی ۔ ان کا خاندان عربوں کاایک   شاہی  خاندان تھا  ۔ ان  کے پردادا صحابی تھے اور دادا       الاشانتھ نے اپنے   والد کی زبانی حضور صلعم  کے قول و افعال  سن کر حفظ کیے ہوئے تھے۔ ان کے دادا الاشاتھ   ابن قیس  الِکندی  کوفہ کے گورنرتھے۔ ان  کی رحلت کے بعد اسحاق بن الصباح ( ان کے والد )وہاں کے گورنر بنا دیئے  گئے۔وہ  ایک صحابی   کے قریبی  ساتھی (تابعین )   کی صحبت میں اپنا وقت  گزارتے تھے۔ِالکندی   خاندان  نےپانچویں اور چھٹی  صدی میں  قبائل پر حکومت کی تھی ۔اب اگرچہ     وہ حکومت میں نہیں رہے تھے    لیکن ابھی بھی  وہ انتہائی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور   عباسی خاندان  کے دور میں انہیں اعلیٰ مقامات پر فائز کیا جاتا رہا۔

یعقوب الکندی  کوفہ      میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد  اعلیٰ تعلیم کے لیے بغداد چلے گئےجہاں انہوں نے   اوائل عمر سے ہی  فلسفے اور ریاضی کا مطالعہ کیا ۔ سائنسی علوم اور فلسفہ سیکھنے کے لیے یونانی اور ملک شام کی شامی زبان پر عبور حاصل کیا۔ ایک سوانح نگار الکفتی کے نزدیک   ان کو عربی اور سریانی   زبان پر پوری قدرت  حاصل تھی اور    لاطینی زبان   کسی حد تک  جانتے تھے ۔کثیرزبانوں میں مہارت نے ان کے علوم و فن سیکھنے میں  معاونت  کی اور انہوں نے قدیم  کلاسیکل اکابرین کی  کتب کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے ان میں  سائنسی علوم میں دلچسپی پیدا ہوگئی لیکن ان کا رجحان  فلسفے پر زیادہ رہا۔زبانوں پر قدرت کی وجہ سے انہوں نے بہت  سی یونانی کتب کا ترجمہ کیا۔اس کے علاوہ   انہوں  نے کئی عربی تراجم  کی نظر ثانی بھی کی جن میں افلاطون  کی  کتاب 'انیڈر' جس کا ترجمہ فلسفی  الحمسی نے کیاتھا ،بھی شامل تھی ۔انہوں نے کئی عربی تراجم کی نظرثانی بھی کی۔فلسفی کے علاوہ  وہ  حکیم حاذق  بھی تھے ۔    وہ  منطق ، فلسفہ ، جیومیٹری ، حساب دانی، بصریات ، موسیقی  اور علم نجوم کے ماہر تھے  جنہیں  انہوں نے اصلی حالت میں پڑھا ۔ ان کی سوچ  ہمیشہ منطقی رہی  اور  انہوں نے سائنسی علوم   کی  فلسفے میں تال میل  کرنے کی کوششیں کیں۔اس لیے ان کے نظریات کو فطری فلسفے  کے دائرے میں لایا جاتا ہے۔ ان کی تعلیمات کی بدولت فلسفے کا دیگر سائنسی علوم سے رابطہ قائم ہو گیا۔الفارابی ، ابنِ سینا اور ابن رشد نے بھی ان کی تقلید کی اور اسلامی نقطہ نظر کی  یونانی اور ملحدانہ   میں جگہ بنائی۔  وہ مسلسل  تصانیف  کرتے رہے   اور حکمت  میں مصروف رہے  ۔رفتہ رفتہ وہ مشہور ہوتے گئے ۔ اس وقت عباسیوں  کی حکومت  تھی  اور  انہوں نے بنو امیہ سے 750 ء میں حکومت چھینی تھی ۔ اس وقت  دمشق میں خلیفہ ہارون الرشید حکمران تھا کو اب  فاطمی جو پڑوس میں قاہرہ      کے حکمران تھے   ۔کے حملوں     فاطمیوں   جو قاہرہ کے حکمران تھے کے  متواتر حملوں  اور اندرونی سازشوں  کا ہر وقت خطرہ رہتاتھا سے مقابلے کے لیے اپنا دارالخلافہ دمشق  سے دور نئے بنائے گئے شہر  بغداد   منتقل   کر لیا۔   خلیفہ ہارون الرشید   تمام سائنسی علوم اور یونانی فیلسوف  کی تعلیمات کے تراجم لاطینی  عبرانی زبان سے عربی زبان میں منتقل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ  اس  کی یہ منشابھی تھی کہ اس کی ریاست    نجوم میں بھی ترقی کرے۔ اس پراجیکٹ کا نام  اس نے دانش گاہ  یا علوم ِ عقلیہ ( ہاؤس آف وزڈم ) رکھا۔  اسے علماء ومشائخ اور  فیلسوف کی تلاش تھی جن سے وہ  یونانی فلسفے، عیسائی ترک باز طینی   اکابرین  اور سائنسی مسودات کے تراجم کرواسکے۔  ۔ اس کے علاوہ   اسے ستاروں اور کائنات   کے عمل     کی تفہیم  و تشریح کے لیے بھی   نجومی   اور  اعداد       شناس  درکار تھے جو  رصد گاہ  یا فلک  گاہ (  آبزرویٹری ) میں  کام کریں ۔فلک گاہ  کی عمارات ہمیشہ بہت اونچی  ہوتی ہیں تاکہ فلکیات کے  مشاہدات میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ جہاں بہت ہی گھومنے والی طاقتور خوردبینیں  لگا کر آسمان ، ستاروں ، سیاروں ،  ،اجرام ِ فلکی اور بروج کا مطالعہ کر کے ان کے  بنی نوع انسان  اور دنیا پراثرات کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ  ان میں علم  الا عداد کا بھی  مطالعہ کیا جانا تھا ۔اس کا مقصد قدیم سائنسدانوں اور فیلسوف  کی معلومات سے فائدہ اٹھا کر ان میں اضافہ کرنا مقصود تھا۔

الکندی  ، الخوازمی اور ابو موسیٰ برادر وہ شامل تھے۔وہ فلسفے کی تصانیف سے بہت مشہور تھے  اور بڑی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔انہیں  دنوں   اپنی تصانیف کی وجہ سے بہت مقبول تھے  ، خلیفہ نے الکندی کو  دانش کدہ   یا علوم ِ عقلیہ ( عظیم لائبریری) کا  مہتمم بنا دیا لیکن ان کے ساتھ  الخوارزمی اور بنو موسیٰ کے بھائیوں کو ان کی مدد  کی ذمہ داری سونپ دی۔ انہوں نے وہاں   ایک  انسائیکلو پیڈیا لکھی۔  دن  رات محنت کرکے بہت سی کتب کے تراجم کیے  ۔وہ  بہت مقبول  ہو گئے لیکن ان کے بد خواہ  بھی پیدا ہوگئے جو انہیں نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ اس عظیم لائبریری  میں اس وقت تک اپنے فرائض نبھاتے رہے جب تک کہ ان کے بدخواہ اپنی ریشہ دوانیوں میں کامیاب نہ ہوگئے ۔ ان کی فلسفہ ، موسیقی، تصانیف اور دیگر خد مات کا مختصر  خاکہ درج ہے

٭فلسفہPhilosophy

الِکندی  بیک وقت  فلسفی ، ماہرا راضیات  اور سائنسدان تھے۔اپنی ہمہ گیر شخصیت کی بنا پر  اپنے دور کے 'بابائے عرب '  کہلائے جاتے تھے ۔ یہ لقب ان سے پہلےجابر بن حیان  کو دیاگیاتھا جو مسلمانوں  کی پہلے   بابائے فلسفہ تھے  ۔ ۔الکندی  یونانی  علماء عموماً اور  ارسطو کی تخلیقات کے مداح تھے لیکن ان پر افلاطون ،  پوفائری  اور پرہکلس  کی تعلیمات کے بھی اثرات تھےاور ان کے تصورات انہوں نے اپنے نظریات میں استعمال کیے لیکن انہیں  ترامیم  و جدت کے ساتھ استعمال کیا۔اس میں  شک نہیں کہ  یونانیوں  اور  اپنے فلسفے کی بنیاد نوافلاطون اور  ارسطو کے فلسفے  کے نظریات  پر رکھی لیکن  یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اس  میں  نئے پہلوؤں  میں  ضم  کیا یا  متعارف کروانے کی کوشش کی  جو کسی حد تک کامیاب رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک نئے فلسفے کاآغاز ہو گیاجس میں یونانی فلسفے کے اہم ترین موضوعات  اسلامی فلسفے میں  شامل ہو گئے۔ انہوں نے حساب دانی پر کام کیا اور  ہندوستان  کے اعداد و شمار، اضافی  مقداریں ، اعداد میں یگانگت ، سطور اور اعداد کی ضرب    کے  مسودات  تشکیل  پائے ۔الِکندی  کا اندز فکر منفرد  تھا۔اپنے ڈھب سے  سوچتے تھے۔مثال کے طور پر  بصریات  کی تحقیقات میں ارشمیدس   ky  یہ وضاحت کی ایک جنگ میں دشمن  کا آمنا سامنا کیے بغیر آئینے کے عکس میں اس کا  ُ دور سے نشانہ باندھ کر آگ لگادینا   ے نظریے کو رد کرتے تھے۔ ۔وہ اس سلسلے میں ایک معتدل سوچ رکھتے تھے  ۔انہوں نے ارشمیدس کی یہ دلیل قبول نہیں کی    کہ ہم ایک آئینے کو جس پر کسی نقطے پرکئی میلوں دور سے  بلاواسطہ  طور پرچوبیس شعائیں  ایک آئینے پرپڑ رہی  ہوں درجنوں میلوں  دور سے  کیسے آئینے کے مرکز پر  اپنی توجہ کیسے مرکوز رکھ کر بلاواسطہ دیکھ کرکیسے صحیح  نشانہ لگا  سکتے ہیں  ۔

الِکندی  کے نزدیک  اول فلسفہ'  کا نظریہ صحیح ہے جس میں  کسی مسئلے کوحل کرنے میں  اسباب و علل میں تعلق معلوم کرکے ہی حقائق تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسفہ نظریاتی علم ہے  اور اس میں کسی فلسفی کا  مقصد حقائق تک رسائی ہوتاہے اس لیے  وہ منطق و استدلال  سے حل ڈھونڈتا ہے ۔وہ الٰہیات  کی سچائی جاننے کےلئے    معلومات   حاصل کرنے کے لیے  ایک حرکت نہ کرنے والی ہستی ہ ُ چنتا ہےاور اس ہستی کو  ارسطو نے   کائنات کی تشکیل میں   یونانی دیومالاؤں  کا نظریہ قائم  کیا۔الِکندی نے  ان کے سب سے طاقتور دیوتا جو  آسمانی بجلی  برسانے کادیوتا تھا   کی عظیم ہستی  کو الِکندی نے  طاقتور ترین دیوتا   رعد وبرق ۔ وہزیوس'  کہا کہ  وہ  ایک عظیم ہستی ہے جو واحد ہے اور  کل کائنات کا م خالق ہے۔الکندی نے  یہ عقیدہ مذہب اسلام میں شامل کرلیا لیکن اس کی جگہ خالق  کا نام  'خدا ' دیا اور اسے واحد کہا ۔الکندی نے  علوم پر اپنا فلسفہ بیان کیا ۔

الکندی نے  کہا کہ علوم  دو شاخوں  میں منقسم ہے۔ ایک وہ جو نظریات قائم کرتے ہیں    جن میں سیاسیات ، اخلاقیات  شامل ،اقتصادیات   ہیں۔ اس شاخ کو انہوں نے' نظریاتی علوم کی شاخ 'کہا جس میں ہر مسئلے کو    منطق  کی روشنی میں پرکھ کر  کوئی نتیجہ نکالا جاتا ہے ۔ مذہبی  فلسفی  اپنا دائرہ     کسی مسئلے کو مذہبی مسائل تک ہی محدود رکھتے ہیں  اور منطق سے  حل ڈھونڈتے ہیں ، مفروضہ اور قیاس   بناتے ہیں اور پھر کوئی نظریہ قائم کرتے ہیں جو  اس مسئلے کا کم و بیش  حتمی حل تصور کیا جاتا ہے لیکن مزید تحقیقات انہیں صحیح یا باطل بھی قرار دے سکتی ہیں ۔

الکندی نے علوم   کی دوسری شاخ   کا نام 'عملی اور اطلاقی علوم ' کہا جن میں  طبیعیات ، ریاضیات  اور دیگر فطری علوم آتے  ہیں ۔الکندی   نے  دین اسلام  اور  دہریاتی فلسفے  میں  علمی  تضادات  کو کم کرنے کی کوشش کی  اور ان میں باہمی ارتباد پیدا کرنے کی کوششیں کیں جو درج ذیل ہے۔

فلسفے اور مذہب میں  یگانگت الکندی نے فلسفے اور مذہب   کا تقابلی جائزہ لیا۔الکندی  نے اپنے فلسفے میں ارسطو اور دیگر یونانی ملحد فلسفوں کی وضاحت میں  ایسے دلائل پیش کئے  جو الوہی علوم سے انحراف نہیں کرتے۔ اس  کے ساتھ وہ ایسے مثبت دلائل دیتے ہیں کہ یونانی فلسفے اور اسلامی فلسفے میں یگانگت  پیدا ہو۔ان کے فلسفے کے خدوخال  مندرجہ  ذیل  ہیں۔

٭ الکندی  کے نزدیک  مذہب فلسفے کا حصہ ہے۔ فلسفے  کی بنیاد الٰہیات  ہے اور توحید پر ایمان   رکھنا  لازمی ہے۔ فلسفے اور مذہب کے درمیان  منطقی لحاظ سے اتفاقِ رائے درست قرار دیا  ہے۔ مذہب اور فلسفے کے درمیان  اس بات پر اتفاق  پایا جاتا ہے  کہ خدائی  تخلیقات   مذہبی ہیں۔انہوں نے مذہب اور فلسفے کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا :

٭اسلام ایک نظریہ حیات ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہےاورلوگ رہنمائی قرآن و سنت سے لیتے ہیں  ۔مذہب کے تین درجے ہیں ۔ پہلے درجے میں    کہا کہ مذہب جزو ہے اور فلسفہ کل ۔ مذہب کا تعلق قرآن و سنت سے ہے ۔فلسفہ مذہب سے ایک درجہ اوپر ہے کیونکہ وہ مذہب کے علاوہ اور بھی بہت سےمضامین  کا مطالعہ کرتاہے۔

فلسفے اور مذہب میں دوسرا فرق یہ ہے کہ  مذہبی نقطہ فکر  الیٰیات کا علم ہے۔ منطق کا علم پیغمبروں کے علم کی طرح کا ہے۔وہ ایسا علم ہے جو خدا کی طرف سے اس پر خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ جبکہ  فلسفہ  ایک انسانی علم ہے۔

تیسرا فرق یہ ہے کہ ہم ایمان کے ذریعے سچائی تک پہنچتے ہیں۔ خدا اور رسول ہمیں  اصل حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔

چوتھا فرق  یہ ہے   اپنے علم میں فیضان  حاصل کرناہے ۔مذہب  کی اصلی روح تک رسائی کے لیے اللد نوازے گئے شخص میں امتیازی اور خصوصی  مہارتوں سے نوازتا ہے  ۔وہ اس   کو وحی ، بصیرت  اور انکشافات  عطا کرتا ہے  اور   ودیعت  کے ساتھ  طویل  تجربات  و مشاہدات  اور علم حاصل  کرنے کا جنون  پیدا کرتا ہے ۔ اس  سے وہ پوری طرح خدا کے تابع ہو جاتا ہے۔ اس کا من  نیکیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ  روح کی بالیدگی دور ہوجاتی ہے جبکہ  فلسفہ میں  معلومات   موجود ہوتی ہیں ۔  مسئلہ کا  وجودہوتاہے اور اسے سلجھانے کے منطق اور دلائل سے  وجوہات اور اثر میں تعلق کی نوعیت   معلوم  کی جاتی ہے ۔ دانشور اس بنا پر وہ کسی معااملے پر واضح نتیجہ نکالتے ہیں۔جبکہ  پیغمبر ، نبی  کی حقیقت  معلوم کرنے     کا عمل خدا کی طرف سے نازل  کردہ  ہدایات کی مکمل اطاعت پر ہوتاہے۔ وہ انہیں  من و عن عوام الناس تک پہنچاتے ہیں ۔وہ ان  ہدایات پر کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنی طرف سے کوئی  چیز پیش کرسکتے ہیں  اور نہ ہی اس میں اہلیت ہوتی ہے کہ  خدائی احکامات  میں رد و بدل کر سکیں ۔پیغامبر اس بات کا پابند ہوتاہے  کہ ان احکامات کو جو اسے  فرشتوں اور انکشافات کی صورت میں موصول ہوئے  ہیں کو عوام تک پہنچائے ۔ جبکہ فلسفی  کے ساتھ ایسا نہیں ۔ وہ اپنا بیان خود بناتاہے۔ وہ آزاد و خودمختارہے ۔ وہ منطق کے ذریعے    اسباب و علل میں تعلق قائم کرکے کوئی نتیجہ نکالتاہے اور دنیا کے سامنے پیش کرتاہے جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ بار بار کی تحقیقات سے ان نظریات  کی  تصدیق کی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس   پیغمبروں اور رسولوں پر عطا کی گئی ہدایات حرف بہ حرف سچ ہوتی ہیں جن کی اطاعت ہر شخص  پر لازم ہوتی ہے جبکہ فلسفے میں ایسا نہیں ہوتا۔

انلِکندی  اپنے فلسفے میں   'روح ' کو بر حق جانتے ہیں ۔ کیونکہ روحانی واردات  میں وحدانیت ،اخلاقیات  ، نیکی  بدی میں امتیاز اور انسانی فلاح  و بہبود پائی جاتی ہے۔الکندی   اپنے فلسفے میں  تین طرح کی تعلیمات  تسلیم کی ہیں پہلی تعلیم   خدا سے تعلق رکھنے سے متعلق ہے۔ا س تعلیم کا تقاضا ہے کہ فرد  سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ توحید اور اخلاقیات   کی نہ صرف مکمل معلومات حاصل کی جائیں  بلکہ ان پر  عمل  پیرا بھی ہوں ۔دوسری تعلیم   توحید  ہے۔ربانیت کی افادیت بیان کرتے ہیں واضح  کرتے ہیں ربانیت بھی جو وحدانیت ، اخلاقیات ،اور مفید علوم ہیں۔  یہ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں کہ  کون سے خیالات اور اعمال نیک ہیں اور کون سے برے۔ اور اگر برے حالات میں رہے تو ان میں کیاافکار اپنا کر نقصان  سے نہ صرف بچا بلکہ فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔اللد کے  نبیوں  نے باری تعالیٰ کے  نزدیک  مقبول   خوبیوں کا اعلان کیا ہے   جو نیکی  یا بدی کاباعث بنتے ہیں بیان کیا ہے۔انہوں نے ان خصوصیات کا اعلان بھی بیان فرمایا ہے جو بدی میں ہوتی ہیں۔اچھائیوں   ، ضروری ، غیر ضروری اور ان    اشیا جو اس کے بر عکس ہیں  سے اجتناب برتنے کا حکم دیاگیا ہے۔یہ فلسفے  کے مطالعے میں اہم ہیں ۔فیلسوف    اس سلسلے میں مختلف فرقوں میں بٹے  تھے اور ابھی بھی بٹے ہوئے ہیں ۔اس علمی مغالطے  کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ وہ  اپنے نظریے کو منطق سے ثابت بھی کیا جائے  ۔ ان کی رائے  اگر مثبت  ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔اور انہیں عملی طور ہر ثابت کرنا چاہیئے۔جہاں کہیں   تجربے کی ضرورت ہو  ان ک مزید تجربات  سے بھی ثابت کیا جائے۔

الکِندی کے نزدیک قرآنی دلائل  'یقینِ کامل' ہیں جو واضح اور جامع ہیں۔ان پر اعتقاد اور   یقین  واضح مقصد کی طرف لے  جاتے ہیں  اور فلسفہ کی حیثیت   کو ایسے مسائل سلجھانے میں کافی مغز ماری کرنا پڑتی ہے ۔اس کی  مثال  دہریوں کےاس سوال سے ہے جب وہ  پوچھتے ہیں کہ مردہ لوگوں کی ہڈیوں کو جنہیں مٹی کھا گئی ہے ، کو دوبارہ زندگی کیسے دے گا، کا جواب یہ ہے کہ  و  ہ خالق  ہے ۔ وہ اسے  ایسے دوبارہ زندگی دے گا جس طرح کہ اس  نے اسے اصل میں پیداکیاتھا  یا برتر اعلی ٰ کا تصورکر     اجرام فلکی    اور کائنات  کے نظام   کااستقلال  اور دائمی پن   سےانکار نہیں کر سکتے  لیکن ان  کی تشریح میں منطق پیش کر سکتے ہیں  جنہیں بنیاد مان کر مذہب  کے نقطہ نظر میں مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس طرح الکندی  نے قران و سنت  میں فلسفیانہ  تشریح کا  باب کھولا جس سے فلسفہ اور مذہب میں رابطہ پیدا ہو گیا۔انہوں نے واضح کیا کہ اسلام میں عبادات کا تصورپیش کیا گیاہے جس کا واضح مقصد   دائمی  قیام  میں   'جنت ' کا حصول ہے  ۔یہ اس میں امنگ  کی  شدت پیدا کرتاہے۔ استحصال  اور غیر منصفانہ  کو روکا جاتا ہے۔اس تحریک کو الکندی نے 'سجود' کا  نام دیا۔فلسفے میں بھی  مقاصد موجود ہیں ۔جیسے نیکی بدی ، اچھائی  برائی ، مفید  نقصان ، فلاح و بہبود وغیرہ  ہیں ۔

روح ایک سادہ شے ہےاور اس کا مواد خدا کی ذات سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اگرجسم میں رہے تو   وہ ذہن میں رہتی ہے اور عقل و دانش سے اپنے

معاملات نپٹاتی ہے اور  جب وہ جسم چھوڑتی ہے تو اس کی حیثیت آزادانہ ، خودمختارانہ اور ماورائی ہو جاتی ہے۔اس  میں خدائی صفات پیدا ہو جاتی ہیں ۔انسان جب جاگ رہا ہوتا ہے تو روح اس کے بدن میں موجود ہوتی ہے ۔

فلوطینوس کے مطابق نیند  میں  روح تن سے نکل کر دیگر روحوں سے مل جاتی ہےاوران سے روابط پیدا ہوجاتے ہیں ۔ جو خوابوں میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ خوابوں میں  وہ آزاد اور خودمختار ہوتی ہے۔عقل و دانش   کے زیر اثر نہیں ہو تی ۔ اپنمرضی سے کسی سے کوئی بھی  ، کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت گفتگو کرتی ہے۔خوابوں میں وقت ، دن ، زمانے کی قید نہیں ہوتی۔ کردار مسخ شدہ حالت میں  پیش ہوتے رہتے ہیں ، واقعات بے تکے انداز میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ ناقدانہ سوچ ختم ہو جاتی ہے اور خواب دیکھنے والا شخص  اس خواب کو سچ سمجھتا ہے۔جب وہ  نیند پوری کرلیتا ہے تو وہ دوبار ہ جسم میں داخل ہوجاتی ہے اور اسکی خدائی صفات  ختم ہو جاتی ہیں اور جسم میں قید ہو کر ذہانت ، عقل و فہم بن جاتی ہے۔ جاگنے پر خواب چند منٹوں تک یاد رہتے ہیں ۔   نیند میں سویا شخص  ایک مردے کی مانند ہوتاہے کیونکہ روح اس کے جسم سے نکل چکی ہوتی ہے اور جاگنے پر واپس جسم میں داخل ہو جاتی ہے اس لیے گہری نیند میں سوئے کسی شخص کو اچانک جگانا نہیں چاہیئے کیونکہ اس سے ہوسکتاہے کہ روح اس کے مادی جسم  کا رستہ بھول جائے اور جسم میں داخل نہ ہوسکے اور اس کی موت  واقع ہوجائے۔ روح  خواب میں جسم سے باہر ہو تو لافانی ہے اور خدائی صفات ہوتی ہیں اور اگر جسم میں ہو تو  عقل و دانش  اور ذہانت بن جاتی ہے۔ الکندی  نے فلسفے کی بنیاد'  الٰہیات '  پر رکھی   ۔انہوں نے کہا کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے خدا کی طرف   ے پیغمبر بھیجے گئے ۔ ان پر خدا باری تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل کی  گئی   جن میں عوام الناس کی رہنمائی کے لیے پیغام ہوتے تھے جسے 'وحی' کہتے ہیں جو ایک روحانی واردات ہوتی ہے۔

روح  کے لغوی معنی  پوشیدہ بات کی خبر دینا ہے ۔اس کے اصطلاحی معنی انبیاء پر نازل ہونے والے اللد کے کلام کو کہتے ہیں۔ وحی     کی دو اقسام ہیں ۔  وحی متلو اور وحی غیر متلو ۔

٭وحی متلو : وہ وحی ہے جس میں  الفاظ اور معانی  دونوں اللد کی طرف سے آتے ہیں ۔ وحی  غیر متلو : ایسی وحی جو حضرت محمدؐ   کے ذریعے بیان کی گئی ہو ۔ اس کی دو قسمیں ہیں(i حضور صلعم  نے معانی اور واقعات کی تشریح   میں بیان کی ہوں  ۔۔) (iiحضور کے قول و افعال کے ذریعے صحابہ کرام کے سامنے  بول کر یا اپنے افعال کے ذریعے پیش کی ہوں  ۔ وحی  کسی فرشتے  براہِ راست پیغمبر تک پہنچتی ہے۔کبھی فرشتہ  نظر آتا ہے اور کبھی  اس  کی صرف آواز ہی  سنائی دیتی ہے۔اللد بارک تعالیٰ  براہ راست  نبی کے  دل ودماغ میں ڈال دیتاہے ۔ دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ   وہ  بالواسطہ   طور پر پیغام  کسی فرشتے کے ذریعے پیغامبر تک پہنچاتا ہے۔ وحی  حالت ِ  بیداری میں بھی آسکتی ہے اور خواب کی حالت میں بھی، مذہب کی توضیح و تشریح میں  وحی کا مقام بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔مختصراً الکندی نے اسلام اور فلسفے میں   ربط پیداکیا ۔انہوں اس مقصد کے لیے دو نظریات پیش کیے۔پہلا نظریہ  فلسفے کے اصول و ضوابط  پر عمل کرنے سے متعلق تھا جہاں منطق   کی  زیادہ اہمیت ہے اور مذہب کا دائرہ محدود ہے ۔

ان کا دوسرا نظریہ یہ ہے کہ الٰہیات کی تعلیمات مقدم ہیں  جو کسی بھی منطق ، بصیرت ، علم و دانش سے بالا تر ہیں ۔وہ فلسفے سے اعلیٰ اور برتر ہیں ۔یہ

علم  پیغمبروں  کا ہے جو انہیں  وحی کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا  کہ خدا کا وجود ہے۔ وہ ہرجگہ پایاجاتاہے ۔خدا کے وجود کا  ایک اور ثبوت یہ ہے کہ تمام  کائنات کی ہر شے میں نظم و ضبط پایا جاتاہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات میں ایس ایسی ہستی موجود ہر جو بالکل صحیح ہےاور اپنی عظمت اور دانائی سے تمام کائنات کو منظم طریقے سے چلاتی ہے۔

ایک اہم فکری تنازعہ  فانی اور لافانی  پن   کا  بھی ہے۔ کائنات خدا نے خود تشکیل دی۔ارسطو  کے نزدیک کائنات  کانظام خلا میں عارضی ہے اورمحدود وقت  تک ہی رہے گی لیکن اسلامی مذہب میں   خدا کے وقت کی مدت لامحدود ہے۔، کیونکہ کائنات فعالیت میں  نہ حرکت کرنے کے دائمی  پن کی حامی  ہے۔الکِندی ، عظیم پیروکاروں کے برعکس،  الِکندی نے اس دلیل کو برقرار رکھاکہ دنیا دائمی نہیں ہے  لیکن  خدا کی ذات دائمی ہے۔ انہوں نے ریاضی کے کلیات کی مدد سےاسے ثابت  کیا۔کہا کہ ہر وہ جسم جو طبعی ہے،میں پانچ عناصر پائے جاتے ہیں جو مادہ، شکل و صورت ، خلا، حرکت ،اور وقت ہیں۔وہ مادی جسم میں  ایک دوسرے سےایسے منسلک ہوتے ہیں کہ وقت، خلا کی حیثیت عارضی ہوتی ہے، اس لئے اسے الگ ہونا پڑتا ہے اوروہ  ایک  محدود وقت کے لیے  ہی رہ سکتے ہیں۔جہاں تک وقت ( سیکنڈوں ، منٹوں ، گھنٹوں،سالوں وغیرہ ) کی بات کی جائے تو وہ ایک عدد ہےجس سے حرکت کی پیمائش کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی حیثیت  آگے کی بھی ہے اور پیچھے کی بھی ۔ عدد کی دو قسمیں ہیں۔ منتشر الگ الگ اور مسلسل۔وقت کی حیثیت  علیحدہ علیحدہ منتشر والی نہیں ہوتی  ۔یہ ہمیشہ مسلسل اور روانی میں ہی  چلتارہتاہے۔اس لیے اس کی تعریف کی جاسکتی ہے۔اسے ،ماضی ، حال اور مستقبل کے حساب سے پیمائش کی جاسکتی ہے ۔ دوسرے معنوں میں  وقت  پچھلے اور اگلے  واقعات کی پیمائش کرسکتاہے۔ماضی بعید، ماضی قریب ،    حال اور مستقبل  کی پیمائش کرسکتاہے۔ وقت ساکن کبھی بھی نہیں ہوتا۔ کمیت، خلا، فعالیت کے حصوں کاعلم ہے جو قابلِ پیمائش ہیں۔اس لیے کمیت کے تین تصورات ،زیادہ، ، اور محدود پن  اورلافانی  مستقل پن۔ اس لیے کیفیت کے تین تصورات پائے جاتے ہیں جو زیادہ، کم  بنیادی  تصورات ہیں عارضی پن اور مستقل پن کے اظہار کے لیے ہیں ۔  

روح کی غذا کہا۔ الکندی  کا اس بات پر یقین تھا کہ موسیقی  روح پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ انہوں نے اسے   علاج معالجے میں استعمال کیا۔

٭موسیقی

مسیقی انسانی زندگی کے لیے اہم ہے ۔وہ   جسم  کی مقناطیسی  لہروں کو متاثر کرتی ہے۔مزاج کو تبدیل کرتی ہے ۔  جس طرح کی موسیقی چند منٹوں کے لیے  سنی جائے تو  موڈ بھی اسی طرح کا  بن جاتا ہے۔  راگ بدلنے سے  غمی ، خوشی ، انقلابی  وغیرہ کی کیفیت پیدا  کی جا سکتی ہے ۔ مو سیقی سننے سے  سامع کا موڈ دھن  کے مطابق ہو جاتا ہے ۔ الکندی اپنی طب میں   مریض کو ذہنی آسودگی کے لیے ادویات کے ساتھ  موسیقی کا استعمال بھی کرتے تھے۔موسیقی  پر کتب بھی لکھیں ۔مورخ القفتی کہتا ہے کہ ان کی تصانیف میں کئی اہم  موضوعات شامل ہیں۔

کیمیائی ٭ اصول اول  کی بنیاد ٭جیومیٹری  ٭دائراتی ( سفیریکل) ٭ سیاسی ٭ستاروں سے متعلق ٭نفسیاتی کلام ٭ علم النجوم٭ طبی٭  ٭ فلسفیانہ   ٭نفسیاتی ٭منطقی ٭ اقوام عالم سے متعلق گروہی ( گلوبولر) ٭جدلیاتی ( دائیا لیکٹیکل ٭میٹرولوجیکل٭ لکندی  ایک

ان کی اہم تصانیف درج ہیں۔

٭موسیقی پر تصانیف

رسالہ فی المدخل إلى صناعة الموسيقى٭رسالہ فی الإيقاع۔

٭فلسفے پر کتب

٭التوحيد۔٭كتاب الحث على تعلم الفلسفہ٭رسالہ فی أن لا تنال الفلسفہ إلا بعلم الرياضيات۔

٭منطق پر تصانیف

  • ٭رسالہ فی المدخل المنطقي باستيفاء القول فيہ٭رسالہ فی الاحتراس من حدع السفسطائيين۔النفس پر تصانیف[٭رسالہ فی علة النوم والرؤيا وما ترمز بہ النفس۔

٭فلکیات پر تصانیف

٭کتاب فی المناظر الفلکیہ٭الرسالہ فی کیفیات نجوالمی٭الرسالہ فی رجوع الکواکب ٭الرسالہ فی الحرکات الکواکب٭الرسالہ فی علم الشعاع٭الرسالہ فی النجوم٭الرسالہ فی الہالات للشمس والقمر الاضوا النیرہ (یہ رسالہ سورج اور چاند کے گرد ہالوں کے بیان پر ہے)٭ الرسالہ فی مطرح الشعاع، الرسالہ فی رویۃ الہلال ٭رسالہ فی علل الاوضاع النجومیہ٭رسالہ فی علل احداث الجو٭رسالہ فی ظاہریات الفلک٭رسالہ فی صنعۃ الاسطرلاب۔

٭ریاضی پر تصانیف

٭رسالہ فی المدخل إلى الأرثماطيقى ٭خمس مقالات ٭رسالہ فی استعمال الحساب الہندی: أربع مقالات٭رسالہ فی تأليف الأعداد٭رسالہ فی الكميۃ  المضافہ٭رسالہ فی النسب الزمنيہ٭ہندسہ پر تصانیف٭رسالہ فی أغراض إقليدس٭رسالہ فی تقريب وتر الدائرہ٭رسالہ فی كيفيۃ عمل دائرة مساويہ لسطح إسطوانہ مفروضہ٭طب پر تصانیف٭رسالہ فی الطب البقراطی٭رسالہ فی وجع المعدۃ والنقرس٭رسالہ فی أشفيۃ السموم۔

٭طبیعیات پر تصانیف

رسالہ فی اختلاف مناظر المرآة٭رسالہ فی سعار المرآة٭رسالہ فی المد والجزررسالہ فی العطر وأنواع۔

٭ کیمیا پر تصانیت

رسالہ فی التنبيہ على خدع الكيميائيين

٭ہندسہ پر تصانیف

رسالہ فی الكريات٭رسالہ فی أغراض إقیدس ٭رسالہ فی تقريب وتر الدائرہ٭رسالہ فی كيفيۃ عمل دائرة مساويہ لسطح إسطوانہ مفروضہ۔

٭طب پر تصانیف

رسالہ فی الطب البقراط٭رسالہ فی وجع المعدۃ والنقرس٭رسالہ فی أشفيۃ السموم۔

٭متفرق   تصانیف

رسالہ فی أنواع الجواہ ر الثمينہ وغيره٭رسالہ فی أنواع السيوف والحديد٭رسالہ فی أ

٭وفات

الخوارزمی اور بنو موسیٰ برادران  جو رصد گاہ یا علومِ عقلیہ  ( ہاؤس آف وزڈم)    میں  ان کے  رفیق ِ  کار تھےالکندی  کی  فطانت  ،علم  اور روز بروز بڑھتی شہرت سے حسد کرنے لگے  اور الکندی کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہے۔ انہوں نے اور کئی دوسرے بدخواہوں نے  ان پر بہتان لگایا کہ  ان کو جس زبان پر مکمل  دسترس  نہیں تھی  ، اس کا بھی  ترجمہ   دوسروں سے کرواکر  ان پر اپنا نام  لکھ دیتے  تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ  جعل ساز تھے ۔ اس پر خلیفہ المتوکل طیش میں آگیا ۔ انہیں  سر پر ڈنڈے مارے اور حکم دیا کہ علوم عقلیہ میں جو کتب انہوں نے اپنے نام سے چھپوائی تھیں  کو الکندی کے سر پر اس وقت تک ماری جائیں جب تک ان کا سر   یا وہ کتب  پھٹ نہ جائیں ۔ اس تشدد سے ان کی بصیرت چلی گئی ۔خلیفہ وقت  المتوکل  متلون مزاج تھا۔اس نے غیر مسلموں کی  عبادت گاہوں کو  مسمار کروا دیا اور کم عقیدے والے مسلمانوں  کو سزائیں دیں ۔ وہ المامون ،المعتصم  کے   شہزادے  احمد  اور محمد کے  اتالیق بھی رہے ۔المتوکل نے اس کا بھی خیال نہ کیا  اور الکندی پر ظلم روا رکھا۔ الکندی  خوش دل تھے۔ باذوق تھے ۔ مزاح کی حس لاجواب تھی لیکن تنہا پسند تھے ۔انہوں  نے اپنی سزا سے پہلے پر تعیش زندگی گزاری۔ مے خور تھے۔ جب کبھی بیمار ہوتے تو پرانی شراب نوش کر کے صحت یاب ہو جاتے تھے  لیکن جب شراب سے توبہ کر لی تو شہد کی شراب پینا شروع کر دی کیونکہ  ان کا خیال تھا کہ ا س قسم کی شراب کا اثر جسم کے اندرونی حصے تک نہیں پہنچتا تھا۔ ان کے عصاب میں تشنج پیدا ہو گیا ، جس کا اثر دماغ پر ہوا۔ نابینا حالت میں  شدید ذہنی اذیت کے ساتھ   873 ء میں انہوں نے داغ مفارقت دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3


Popular posts from this blog