ناک ( نو ز ۔۔۔۔۔۔۔۔ نکولائی گو گل )حالات ِ زند گی کتاب 2 کہانی نمبر



ناک

Nose

By

Nikolai Gogol

(Ukraine)

 

 ترجمہ و تجزیہ:  پروفیسر غلام محی الدین (کینیڈا)

 

سینٹ پیٹرزبرگ کا شہر روس کے عظیم زار پیٹر نے  تعمیر کروایا۔  خاص خٰیال رکھا گیا کہ یہ بین الاقوامی معیار اورتقاضوں کو پورا کرے۔  سفارتی  انکلوژر، تجارتی مراکز، تفریحی پارک، عظیم الشان سرکاری  وغیر سرکاری عمارات، عمدہ ہوٹل، اسینما گھر، امرا، شرفا اور سیاحوں کے لئے کلب وغیرہ  بنوائے گئے۔  شہر کے وسط میں دریائے نیوا  پر  نیفسکی شاہراہ پر  شاندار آئزک لیوسکی برج، گرد ونواح میں امرا اور سیاحوں  کے لئے مال، تفریح گاہیں ِ، عظیم الشان گرجا گھر، کپڑے کی مارکیٹ (سیڈوفیا  پراسپیکٹ)، امرا ء کا مال (. فینسی شمیم سی پویلین، گریٹ گوسٹنی ڈیور وغیرہ)، قانون ساز اسمبلی، اہم اخبارات، پولیس ہیڈکوارٹر اور دیگر حکومتی ادارے قائم کئے گئے۔  مستقبل کی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کئی اضافی پل  بنوائے جن میں  ُ ریگا  اور مامچاٹکا‘ کے مقامات کو ملانے والا پل اینچکن اہم تھا۔  شہر میں تفریح طبع کے لئے کئی اوپرا تھیٹر قائم کئے گئے۔ باغات اور پارک قائم کئے گئے۔ بناوٹ کے دوران بیشمار غلام اور مزدور اپنی جان سے گئے۔  تمام لوازمات پورے کرنے کے بعد اسے دارالخلافہ بنا دیا گیا۔

 حکومت نے  پیشے اور حیثیت کے لحاظ سے  یونیفارم متعا رف کروائے تھے  جنہیں دور سے ہی پہنچانا جا سکتا تھا۔  اس سے امن عامہ قائم کرنے میں مدد  کے علاوہ  عوام الناس کو بھی اپنے مسائل حل میں سہولت حاصل تھی۔  وردی دیکھ کے محکمے اور حیثیت کا اندازہ ہو جاتا تھا اور سائل اپنے حل کے لئے  متعلقہ شخص تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتا تھا۔  ان سب میں معزز ترین سرکار اور قانون ساز اسمبلی کے ارکین، گورنر،وزیر اور حکمران شامل تھے۔ ان کو سٹیٹ کونسلر کہا جاتا تھا۔   نوکر شاہی،وائس گورنر، جاگیر داروں اور  فوجی افسران  اور با اختیار طبقے کا  یونیفارم،  سرکاری محکموں کے کارندوں،  زرعی پیشہ وروں، ہنر منوں،  دستکاروں،  عوامی خدمات کے شعبوں میں کام کرنے والے افراد کے لئے مخصوص یونیفارم تجویز کئے گئے تھے۔ ، ر انفرادی اور اجتماعی مسائل کو حل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔  ہر ایک کے لباس سے ہی ان کے پیشے اور حیثیت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔

 مختصر تعارف کے بعد  اب میں اپنے مسئلے کی طرف آتا ہوں۔  میرا  پورا نام  ُ  فلپ آئیونو وچ  پوٹینوچی  کو فالیوفٗ ہے لیکن  عام طور پر کوفالیوف کے نام سے پکارا جاتا ہے۔  اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور کالجییٹ  اسیسر ہوں  جس کا  تعلق تفتیشی محکمے سے ہے۔  میرا عہدہ فیلڈ افسر، پروکیور منٹ افسر اور فوج میں میجر  کے مساوی ہے۔  اگلی ترقی و ائس گورنر کی متوقع ہے۔  میرا اٹھنا بیٹھنا اعلیٰ طبقے میں ہے۔     اعلیٰ  خاندان کی خواتین سے میرے ذاتی مراسم ہیں۔  سب سے نزدیکی تعلق   فیلڈ افسر کی بیوی  ُالیگزینڈر ا  گریگریفین  پوڈتوچائنا   ُ سے ہے۔ اس کے گھر آنا جانا  لگا رہتا ہے۔ بنیادی وجہ اس کی خوبصورت بیٹی ہے۔ میں کنوارا  ہوٰں  اور اپنی خصوصیت سے فائدہ اٹھاتارہتا ہوں۔ معزز خاندان  اور ان کی بیٹیاں  مجھے اپنے خاندان میں شامل کرنے کی خواہش مند ہیں۔  میرا دور دور تک خانگی ذمہ داریاں نبھانے کاکوئی ارادہ نہیں۔ اس وقت میں سینتیس سال کا ہوں اور اگلے پانچ سال تک فری لانسر ہی رہنا چاہتا ہوں۔ میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں اور ایک  نوکر  رکھا ہوا ہے۔  بدھ اور اتوار کی شام  ُ فوزنیسینسکی سٹریٹ  ُ    کاحجام   ُ آئیون  یوکوفلیفچ  ُ  میرے  اپارٹمنٹ  آ کر میری داڑھی مونڈ تا ہے۔ اس کی ہیئت عجیب و غریب  ہے۔ چہرے  سے ہونق لگتا ہے۔ پنی طرف سے وہ سٹائلش بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا لباس دیکھ کرہنسی آجاتی ہے۔  تمام تر صفائی کے باوجود اس کے ہاتھوں سے بو آتی رہتی ہے۔  حالت غیر میں رہتا ہے۔غریب ہے اس لئے میں اس کی روزی پر لات نہیں مارنا  چاہتا۔

 پچیس مارچ  بروز جمعرات صبح میں جاگا تو میری طبیعت کسیلی تھی۔ چہرے پردرد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔   میں اٹھنے پر انے ناک کو دیکھا کرتا تھا  کیونکہ وہ ستواں  تھا اور سونے پر سہاگہ  ایک تل تھا جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا۔   اٹھ کر آئینے کے پاس گیا تو  بیہوش ہوتے ہوتے بچا۔  میراچہرہ  ہموار اور سپاٹ تھا۔  ناک چہرے سے غائب تھا۔  مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میری نکسیر پھوٹ کر خشک ہو گئی تھی۔   میرا سر چکرا گیا اور ذاتی خدمت گزار کو آواز دی تو وہ نہ آیا۔  مجھے یاد آیا کہ وہ دو  روز کی چھٹی پر تھا۔  میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں َ۔  صبح  نیفسکی شاہراہ پر  سیر کرنا  میری عادات  میں شامل تھا۔ وہاں ساڈوفیا کپڑے کی مارکیٹ سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔  پھیری والے  مجھے تعظیماً آداب کیا کرتے تھے۔  میں ہر کس و ناکس کو مسکرا کر جواب دیتا تھا۔   میں ناک کے بغیر کیسے باہر نکلتا۔  خیال آیا کہ ناک کی گمشدگی کی رپورٹ فوراً  پولیس کو دی جائے۔ کپڑے پہنے، منہ پر کپڑا لپیٹا  اور عمارت کی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا  قلانچی بھرتا نیچے اترا۔  گلی  سنسان تھی، کوئی سواری نہ ملی  اسلئے پیدل چلتا گیا۔  رستے میں ایک ریسٹورنٹ تھا۔  میں  اس میں چلا گیا اور آئینہ دیکھا تو  اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ میرا ناک غائب ہو چکا تھا۔

 میں نے اپنے ہونٹ کاٹنے شروع کر دئیے اور کیفے کے باہر آ کر پیدل چلنے لگا۔  ایک ٹیکسی مجھ سے تھوڑی  دور رکی اور اس میں سے ایک عجیب و غریب شکل والی ایک شئے کودی اور ساتھ والی عمارت پر سیڑھیا ں  پھلانگتی ہوئی چلی گئی۔  میں نے غور سے دیکھا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہ  شئے اور کچھ نہیں بلکہ میرااپنا  ناک تھا۔  میں یہ دیکھ کر حیرا ن  ہوگیا۔  میں  اس کے پیچھے چلا گیا تا کہ اسے اس کو اصلی جگہ پر آنے  کا مطالبہ کروں۔  ناک نے سٹیٹ کونسلر کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی جو ریاست کا ا علیٰ  ٰترین اعزاز تھا جوکوئی اہم عوامی مسئلہ حل کرنے کے لئے آیا تھا۔  میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کان نہ دھرا۔  نیچے اترا اور یہ جا اور وہ جا۔  کل شام تک وہ ناک میرے  اپنے چہرے پر تھا لیکن اب وہ بیگانہ ہوچکا تھا۔  میں بے بسی میں اس کے پیچھے بھاگا  تاکہ اسے پکڑسکوں۔  وہ کچھ دور جا کر گرجا گھر کے پاس رک گیا۔  وہاں بہت سے عبادت گزار مناجات میں مصروف تھے۔  میں ً  ایک طرف کھڑا ہو کر موزوں وقت پر اس سے بات کرنے کا انتظار کرتا رہا۔  جونہی دعا ختم ہوئی میں نے مودبانہ  کہا کہ جناب والا! کیا یہ مناسب نہیں کہ آپ کو اپنی اصلی جگہ پر ہونا چاہئیے؟  آپ کا حقیقی مقام میرا چہرہ ہے۔  آپ واپس آجائیں۔  اس پر سٹیٹ کونسلر نے  بھنوئیں  چڑھاتے ہوئے کہا ۔ کیا آپ اپنے ہوش میں ہیں؟  خود کو سنبھالیں۔   میرا اپنا وجود ہے۔  میں کسی اور کے جسم کا  حصہ نہیں۔  ہمارا آپس میں قطعی کوئی تعلق نہیں۔  جائیں  اور میرا پیچھا چھوڑیں۔  یہ کہہ کر کر  وہ کسی اور کی داد رسی کے لئے چلا گیا۔

 میں بے دل ہو کر نیفسکی شاہراہ پر چلا گیا۔  میں یاد آیا کہ میں  تو گھر سے  ناک کی گمشدگی کی رپورٹ جمع کروانے کے لئے نکلا تھا۔  بگھی پکڑی اور پولیس چیف کے پاس چلنے کو کہا،  رستے میں سوچا کہ  ان کی تفتیش  تو بہت سست ہوتی ہے  اور  دہائی دینے کاتیز ترین  ذریعہ اخبار ہے۔  اس لئے میں نے ڈراٰٰٗ ئیور کو اخبار کے دفتر جانے کا بول دیا۔  کلرک کے پاس گیا ۔ وہ ایک عجوبہ تھا۔  شیخ چلی کی طرح کا حلیہ تھا۔  معمولی سی ضرب اور تقسیم  میں ایسے الجھا ہوا تھا جیسے فیثا غورث کا مسئلہ حل کر رہا ہو۔ کسی کا گھنے بالوں والا چھوٹا کتا کھو گیا تھا  اور وہ اس کا اشتہار بک کر رہا تھا۔  سنہری نسوار کی ڈبی سے تمباکو  نکال کر سونگھ رہا تھا۔  نسوار سونگھنا  امارت اور اعلیٰ ذوق کی علامت تھی۔  اس نے ڈھکنا کھولا تو اس اندر ایک حسینہ کی تصویر تھی۔  وہ نسوار کے گن گنانے لگا۔  نسوار سے سر درد جاتا رہتا ہے۔  اس سے بواسیر نہیں ہوتی۔ یہ  گہری سوچ میں مدد دیتی ہے۔ پھر اس نے پر اسرار انداز میں کہا کہ  اگر کسی نے اور ذریعے سے نکوٹین نہ لینی ہو تو ی یہ مدد کرتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ ایسے ہنسا جیسے  اس نے تمام مسئل کا  حل بتا دیا ہو۔  اس کی شکل دیکھ کر اور عجیب وغریب  عادات سے ہنسی پھوٹ  پھوٹ پڑتی تھی لیکن سنجیدگی لازم تھی ورنہ وہ بگڑ جاتا۔  میں نے اپنا رونا اس کے آگے رویا اور ناک کی گمشدگی کا  اشتہار دینے کا کہا۔  وہ میرے مسئلے کی سنگینی کو سمجھ گیا  اور مجھ سے ہمدردی کے بول بولے اور نسوار کی ڈبی پیش کی کہ چٹکی  بھر کر سونگھوں تو میں نے خفگی ظاہر کی۔  میں ناک کے بغیر کیسے سونگھ سکتا تھا۔  اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کسی اخبار کو ناک کی گمشدگی کا اشتہار دینے کی اجازت نہیں۔  اس کے لئے موزوں  شعبہ  پولیس اورمحکمہ صحت ہے۔  

 میں متعلقہ تھانے پہنچا۔  پولیس افسراپنے گھرپر تھا جو اس کے دفتر کے بالکل ساتھ تھا۔  مجھے اس سے رابطے کے لئے وہاں  جانا پڑا۔   اس کو میٹھا کھانے کا بہت شوق تھا۔  اس کا کمرہ مٹھائی او ر چینی کی بوریوں سے بھرا پڑا تھا جو تاجروں نے اسے بطور تحفہ دی تھیں۔  دیوار وں پر ایوارڈ کی تصاویر،  اسلحہ لٹکا ہوا تھا۔  اس نے رپٹ  درج کروانے کے پیسے مانگے جو مجھے ادا کرناپڑے۔  میں واپس پآرہا تھاتو لوگوں کی اپنے ناک کے باے میں  چہ مہ گوئیاں سنیں۔

 ایک شخص دوسرے سے باتیں کر رہاتھا کہ میجر کوفالیف کی ناک کو لوگوں نے   ُ خونوشا ینایا سٹریٹ   ُ   میں دیکھا  ہے۔  کچھ لوگ وثوق سے یہ کہہ رہے تھے کہ میجر کی ناک ٹھیک تین بجے  نیوسکی شاہراہ  پر  دیکھی جا سکتی  ہے۔   بعض دانشور وں کے نزدیک  وہ  ناک اس وقت جنکر سٹور پر موجود تھی اور وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مجمع پولیس کے قابو نہیں آرہا تھا۔ لوگوں نے میری ناک کو کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔  ایک منچلے نے جو پیسٹریوں کے کاروبار میں تھا،  نے اپنی دکان کے باہرلکڑی کے خوبصورت مضبوط  بنچ بنوا لئے تھے  اورمنہ مانگی قیمت پر اشیا بیچ رہاتھا۔  اس نے  یہ خبر پھیلائی ہوئی تھی کہ میجر کی ناک وہاں آکر ناچتی تھی۔  اسے ثابت کرنے کے لئے ایک رومال میں کچھ لپیٹ کر اونی بنیان میں کھڑکی سے ایسے ہلایا جاتا کہ جیسے کوئی ناچ رہا ہو۔  اس کی عقبی دیوار پر ایک تصویر میں ایک نوجوان لڑکی اپنی ننگی ٹانگوں پر بڑی جرابیں چڑھا رہی تھی اور ایک داڑھی والا شخص درخت کی اوٹ سے اسے تاڑرہا تھا۔  یہ تصویر  پچھلے دس سال سے وہاں تھی لیکن نئے پس منظر میں وہ زیادہ  توجہ کھینچ رہی تھی۔   پھر ایک افواہ اڑی کہ وہ ناک وہاں سے غائب ہو کر   نیو سکی شاہراہ  کے قریب  ُٹافیڈا باغ  ُ  جو کہ خسرو مرزا کے  سنگ مرمر گھر کے پاس تھا، چلی گئی تھی۔ اب لوگ،  میڈیکل  سٹوڈنٹس  سپرنٹنڈنٹ  سے پرمٹ لے کر جوق در جوق باغ میں جانا شروع ہو گئے تھے۔  دانشور لوگوں کی جہالت پر بہت افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔

  ہر طرف سے بد دل ہو کر میں  نے گھر سے نکلنا بند کر دیا۔  میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آرہا تھا کہ  یکدم ناک کیسے غائب ہو گئی۔  ذہن کے کسی گوشے  سے یہ خیا ل  ابھرا کہ  دنیا میں سو سجن اور دشمن  ہوتے ہیں۔  یہ کام کسی  بد خواہ کا ہی ہو سکتا ہے۔  اس وقت  مجھے ً  مسز الیگزنڈرا  پوٹنولی  جو  فیلڈ افسر کی بیوی تھی،  یاد آئی۔  جوں جوں سوچا ، یقین  ہونے لگا کہ  یہ اسی کی شرارت تھی۔  اس نے مجھ سےاس بات کا انتقام لینے کے لئے کہ میں اس کی بیٹی سے شادی  نہیں کر رہا تھا ، یہ کھیل رچایا تھا۔ میں نے قانونی چارہ گوئی کا فیصلہ کیا۔  اسے نوٹس بھیجا۔

 ڈئر الیگزنڈرا گریگوریفنا

 آداب  و تسلیمات۔  آپ اتفاق کریں گی کہ میرے ساتھ جو سلوک  رکھاگیاہے،  وہ  ظالمانہ  ہے۔  میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کے من میں یہ بغض کیوں پیدا ہوا۔  یقین  مانئے آپ کا یہ ہتھکنڈا  کام نہیں آئے گا اور آپ کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو پائے گا۔  اس طرح سے آپ مجھے اپنی بیٹی سے شادی کے لئے راضی نہ کر پائیں گی۔  میری ناک  کے بارے میں جو حادثہ  پیش آیا ہے، وہ  ناروا ہے۔  افسوس کے ساتھ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حالات و واقعات  اس بات کی  نشان دہی کرتے ہیں کہ اس حادثے کی ذمہ دار آپ   ہیں۔  آپ با اثر خاتون ہیں۔ آپ کے گھر صاحب اقتدار  لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کو استعمال کر کے  آپ نے معاندانہ رویہ اپنایا ہے۔   ایسا کرنا قانونی،  معاشرتی، اخلاقی اور نجی سطح  پر گھناؤنا  فعل تصور کیا جاتا ہے۔   میں اس خط کے ذریعے آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے  میری ناک کو دوبارہ میرے چہرے پر نہ  دوبارہ  نہ جوڑا  تو اس بات پر مجبور ہو جاؤں گا کہ میں داد رسی کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔

 نہایت عزت و تکریم کے ساتھ

 پلاٹن کوفا لیوف

 اس خط کا جواب مجھے اگلے روز ہی مل گیا۔

 ڈئر مسٹر پلاٹن کوفالیوف

 آپ کا خط ملا ۔ حالات سے آگاہی ہوئی۔  مندرجات  پڑھ کر حیرانی ہوئی۔  میں کسی الزام کی قطعاً توقع نہیں کر رہی تھی۔  مجھے آپ کے خط سے آپ کی ناک کے کسی مسئلے کا علم ہوا تومجھے افسوس ہوا۔اگر اس سے مراد یہ ہے کہ  میں آپ  کے ناک کو تن سے جدا کرنا چاہتی ہوں  تو میری رائے اس سے بالکل مختلف ہے۔  میں ہر طرح سے یقین دلاتی ہوں کہ آپ کے خدشات سراسر ے بنیاد ہیں۔  آپ نے اثرو رسوخ  کی بات کی تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرے گھر میں شاذو نادر ہی کوئی با اثر شخص آتا ہے البتہ آپ کا میرے گھر کثرت سے آنا جانا ہے۔   اگرچہ آپ نے میری بیٹی سے  باوقار طریقے  اور سنجیدگی سے شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کیا اس لئے  میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں  اور اب اگر آپ اس سے  شادی کی خواہش رکھتے ہیں  تو میں آپ کی تشفی کر سکتی ہوں۔

 خیر اندیش

الیگزنڈرا پوڈتوچائنا

 میرے محکمہ کی مہارت ہی یہ ہے کہ وہ حساس معاملات کی تفتیش کرکے حقائق تک پہنچے۔  مجھے اس میں کمال حاصل ہے۔  بڑے غور سے جواب کا  مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ بے قصور ہے۔  میری ناک  غائب کرنے  میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔  میں نے بہت سوچا  کہ  اور کون ہو سکتا ہے  لیکن ذہن میں کچھ نہ آیا۔

 جمعرات  بپچیس مارچ کو  حجام   ُآئیون  یوخوفلووچ‘ اپنے  ُ وزنیسینس کے سٹریٹ‘  والے اپارٹمنٹ میں حسب معمول کام پہ جانے کے لئے علی الصبح اٹھا۔  ڈبل روٹی اٹھا کراسے سونگھا۔  اسے خیال آیا کہ اس کے کوٹ میں دوائی تھی  جو اس نے ناشتے تے سے پہلے کھا نی تھی۔  اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔  اسے باہر نکالا تو وہ حیرت سے جائزہ لینے لگا کہ وہ کیا شئے تھی۔  غور سے دیکھا تو اس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔  وہ خون آلود تھی جو سوکھ چکا تھا۔  وہ شئے اور کچھ نہیں بلکہ ایک  ُناک  ُ تھی۔  اسے یاد آیا کہ بدھ اور اتوار کی رات  وہ  میجرکوفا لیوف کے ہاں جایا کرتا تھا۔   گئی ات   اپنی  طبیعت خراب ہونے اور نشے کے باوجود اس نے فرض نبھایا تھا۔  وہ  ایک با اثر شخص کو اس کی ناک سے محروم کرکے اپنے بھیانک انجام سے لرز رہا تھا۔  اس کی کیفیت مردے کی سی تھی۔  اس نے غم غلط کرنے کے لئے اس حادثے کا  اپنی  بیوی    ُپراسکوفیا  اوسی پوفنا  ُ   کو بتایا۔  یہ سن کر وہ سیخ پا ہو گئی۔   اس  پر بن برسات  برسنے لگی۔  شدیدنفرت کا اظہار کرنے لگی۔

حجام اپنی مثال آپ تھا۔  اس کی شخصیت مضحکہ خیز تھی۔  اس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔  اس کے علاوہ اس کے ہاتھوں سے ہر وقت  بو آتی رہتی تھی۔  کپڑے بے ڈھنگ انداز سے پہنتا تھا۔ دمدار کوٹ کے نیچے قمیص کی میلی آستینیں باہر کو نکلی ہوتی تھیں۔  قمیص کے کالر کھڑے رکھتا تھا۔  گلے میں بے ڈھنگے طریقے سے رومال باندھتا۔  نشے میں  ڈوبا  رہتا۔  کئی بار داڑھیاں مونڈتے ہوئے اس کا ہاتھ پھسل جایا کرتا تھا۔۔  ڈولتے ہوئے چلتا۔

   بیوی کی صلواتوں سے تسلی نہ ہوئی۔  بات بڑھاتے ہوئے بولی۔  اے جنگلی!  تم نے گھناؤنا جرم کیا ہے۔  بدمعاش!  شرابی!  میں اس کی اطلاع خود پولیس کو دوں گی۔   تم کتنے بڑے لعنتی ہو۔ میں نے اور لوگوں سے بھی سنا ہے کہ تم نے  تین لوگوں کی حجامت کے دوران ناکیں  زخمی کی ہیں۔  تم بے غیرت شراب سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔  میں ایک لمحہ کے لئے برداشت نہیں کر سکتی کہ ایک کٹی ہوئی ناک میرے گھر میں پڑی رہے۔  کوڑھ مغز!  اسے لے جاؤ۔  احمق!    اسے لے جاؤ۔ جہاں دل کرتا ہے، لے جاؤ۔  میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤ۔ 

 وہ حیران بھی تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔  اسے یاد آیا کہ پچھلی رات وہ  اپنے آپ میں نہیں۔  شائد اس کا  ہاتھ پھسل گیا تھا اور میجر کا ناک اس کے ہاتھ آگیا تھا۔   معاملہ سنگین  تھا۔   اس کا کیا کرے  وہ سوچ میں پڑگیا۔ یہ غلطی  ناقابل معافی تھی۔  پتہ چلنے پر  وہ  سلاخوں کے پیچھے جا سکتا تھا۔اسے فکر لاحق ہوئی کہ فوری طور پر  جرم کا نشان مٹایا جائے۔   اس سے چھٹکارا  حاصل کیا جائے۔   اس نے ٹیل والا کوٹ پہنا  جسے کالے رنگ کا کہا جا سکتا تھاجس کے بٹن ڈھیلے تھے اور کسی بھی لمحے گر سکتے تھے،  سرخ رنگ کا کالر کھڑا کر لیا۔  اپنی گردن میں مفلر ڈالا اورکٹے ہوئے ناک کو ایک رومال میں لپیٹا اور نکل پڑا۔  وہ اسے گھاس کے ڈھیر،  کسی گڑھے،  دروازے کے  درز یا کہیں ایسے پھینک دیا جائے جیسے کہ اتفاقیہ طور پر گرا ہو، کے ذریعے  جرم کانشان مٹانا چاہتا تھا۔  اس مقصد کے تحت وہ  اپنے اپارٹمنٹ کی بغلی گلی میں گھس گیا۔   وہ پھینکنے کا ارادہ کرتا تو کوئی آتا دکھائی دیتا  یا کوئی  واقف کا ر نظر آجاتا  اور پوچھتا کہ اتنی صبح کدھر حجامت کرنے کے لئے جا رہے ہو  تو اس کو پھینکنے کا موقعہ نہ ملتا اور وہ آگے چل پڑتا۔  وہ آگے چلتا رہا۔  اسے ایک موزوں جگہ نظر آئی اور اس نے پھینک دیا تو سڑک کی صفائی والا عملہ دکھائی دیا ،  ایک مزدور نے  پکار کر کہا کہ اس کی کوئی شئے گر گئی ہے اسلئے اسے وہ رومال اٹھا نا پڑا۔  جوں جوں دن چڑھتا جا رہا تھا، لوگ آتے جا رہے تھے۔  دکانیں کھلنا شروع ہو گئی تھیں اور اس کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی لیکن وہ ناک کو ٹھکانے لگائے بغیر واپس گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔  اس ہر صورت ثبوت مٹانا تھا۔ وہ نہ رکا اور آگے بڑھتا گیا۔

 حجام نے سوچا کہ موزوں ترین مقام ر شہر کی مشہور جگہ سینٹ آئزک پل ہوسکتی تھی کیونکہ اس کے نیچے ٹھاٹھیں مارتا ہوا  نیوا  دریا تھا  جو چوبیس گھنٹے  بے تکان  بہتا رہتا تھا۔   وہاں سے ناک کا نام و نشان مٹ جانا تھا۔ وہ  آگے بڑھنے لگا۔   رستے میں کپڑے کی پھیریوں والی اپنی  ریڑھیاں سجا رہی تھیں۔  وہ بالآخر تاریخی پل پر پہنچ گیا۔ اس نے پل خالی نظر آیا۔ وہ رک رک کر جھک جھک کر پل سے نیچے بہنے والے دریا کو دیکھنے  لگا۔  وہ رومال جس میں ناک لپٹا ہو ا تھا ، دریا میں پھینکنے  کے لئے مناسب جگہ ڈھونڈنے لگا۔  مختلف حصوں پر پل پر جھکتا اور جائزہ  لیتا۔   اسے ایک مناسب جگہ نظر آئی اور رومال جیب سے نکال پھینکنے ہی والا تھا تو اسے  پولیس افسر کی سیٹی سنائی دی جو اسے اپنے پاس بلا رہا تھا۔   دوست ۔  میں تمہاری حرکات کو بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں۔  کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ پل پر مختلف جگہوں پر جھک جھک کر کیا دیکھ رہے تھے۔  تمہارا آخر کس واردات کا ارادہ تھا۔ اس پر حجام  آیؤن  یو خوفلی وچ  کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔  اس نے بہانہ بنایا کہ وہ کسی کی حجامت کے لئے جارہا تھا۔  پل پر جھک کر دیکھ رہاتھا کہ کہیں طوفان تو نہیں آنے والا۔  پولیس افسر کو اس کی و ضاحت صحیح نہ لگی۔  وہ  اسے تھانے لے گیا۔

  سات اپریل کی شام تھی۔ میجر کی ناک غائب ہوئے پندرہ روز ہو چکے تھے۔  اسکا خادم بستر پر لیٹا چھت کی طرف اتنی زور سے تھوک رہا تھا کہ وہ چھت سے جا لگتی تھی۔  میجر نے اس کی یہ حرکت دیکھی تو اسے ڈانٹا۔   دروازے پر دستک ہوئی۔  وہ کسی ملاقاتی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔  اس نے خادم کو بھیجا۔  باہر پولیس افسر تھا۔  اس نے کوفا لیوف کا پوچھا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔  اس نے  بتایا کہ اس نے میری ناک حجام جس کا نام یوخلولوفچ تھا اور فوزنیسسکی سٹریٹ پر رہتا تھا،  کے قبضے سے تمہاری کٹی ہوئی ناک نکلی ہے۔  حجام اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہے۔  وہ میری ناک حوالے کرنے کے لئے آیا تھا۔  میں  یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑا۔  میں پولیس افسر کا مشکور ہوا  اور اس کی خدمت چائے اور تحفہ  دے کر شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تو افسر نے کہا کہ اس کے پانچ بچے ہیں وہ کرنسی کا سب سے بڑا نوٹ نقدی بطور شکرانہ لینا پسند کرے گا جو مجھے دینا پڑا۔

  میں نے ناک کو اپنے چہرے پر لگانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ چپک نہ سکا۔  اپنے خدمتگا ر کو کہا کہ عمارت میں رہنے والے ڈاکٹر کو بلا کر لے آئے تاکہ وہ ناک میرے چہرے پر صحیح طریقے سے ٹانک دے۔  ڈاکٹر آیا اور اس نے میری ناک والی جگہ اچھی طرح صاف کی۔ ناک کا اور چہرے پر خالی جگہ کی بڑی احتیاط سے پیمائش کرتا رہا اور کہا کہ میری ناک کا سائز چھوٹا  بڑا ہو رہا تھا۔  لگانے کو تو وہ ناک لگا سکتا تھا لیکن وہ کسی صورت بھی صحیح  جگہ پر نہیں بیٹھ پائے گی اور اس کا چہرہ پہلے سے بھی بھدا ہو جائے گا۔  البتہ اگر وہ چاہے تو ڈاکٹر اسے خرید سکتا ہے۔  میں نے کٹا ہو ا ناک بیچنے سے انکار کر دیا اور ڈاکٹر اپنی فیس لے کر چلا گیا۔ بعد  میں پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر بھی میرے ناک کی بدلی ہوئی شکل تھی اور میرا  مذاق اڑا رہا تھا۔

  میں مایوسی میں سو گیا۔  دنیا  میں بہت سی نامعقول واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔کئی معاملات میں تو کوسوں دور تک منطق نظر نہیں آتی۔  میری ناک سٹیٹ کونسلر کے روپ میں جگہ جگہ تماشے کرتے ہوئے، جگہ جگہ جا کر تماشے کرنا،  ڈاکٹر کا ناک نہ چپکانا وغیرہ  مثالیں تھیں۔  میں صبح  اٹھا تو ایسا  ہی  ایک اور معجزہ  پیش آیا۔  میں نے دیکھا کہ  میراناک واپس اپنی جگہ پر آچکا تھا۔  مجھے یقین نہ آیا ۔  تصدیق کے لئے  کھلے ماحول میں نکلا۔  لوگ  مجھے  دیکھ کر ہیلو کہتے تو میں خوش اخلاقی سے جواب دیتا  رہا۔  ہر ایک نے نارمل ردعمل پیش کیا۔  میں کیفے گیا، آئینہ دیکھا تو ناک اصلی حالت میں موجود تھا۔

میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا تھا؟  کیا  یہ سب عالم ارواح میں ہوا  یا میں خوابہائے بیداری میں تھا  یا لوگ من موجو کر رہے تھے۔  ناک، کنٹین والے، باغات کا نگران، پولیس افسران  اور ڈاکٹر وغیرہ روح رانجھا کر رہے تھے۔  میں نے پھر سوچا کہ اگر حقیقت میں ناک غائب ہو جائے تو واقعی انسانی زندگی اجیرن ہو جائے۔  سماجی  اور ازدواجی زندگی عذاب بن جائے۔

 تجزیہ

 گوگل نے یہ ناول خواب کی حالت میں لکھنے کا سوچا تھا لیکن بعد میں اس نے ارادہ تبدیل کرکے جیتے جاگتے  ماحول میں لکھنے کا ارادہ کیا۔  جہت اس نے جو بھی استعمال کی ہو،  اگر سرسری نگاہ میں لیا جائے تو موضوع احمقانہ اور غیر سنجیدہ لگتا ہے۔  اس میں مزاح ہے۔ سنجیدگی سے لیا جائے تو  اس عنوان میں اہل فکر کے لئے کئی اہم پہلو نکلتے ہیں۔ ناول کا نام  عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔  اگرچہ یہ عنوان سنسنی پیدا نہیں کرتا  اور بادی النظر میں بعض  لوگوں کے نزدیک یہ احمقانہ لگتا ہے لیکن موضوع کا  مطالعہ کریں تو اس میں کئی معرفت کی بایتں پوشیدہ ہیں۔  کئی ناقدین کے لئے یہ قاری  کے لئے  دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے اور اسے مجبور کر سکتا ہے کہ معلوم کرے کہ اس کے اندر کیا لکھا ہے۔ کیا اس کے اندر کوئی عقل و دانش چھپی ہوئی ہے۔

 ناک اور جسم  اگرچہ  ایک ہی وجود  ہے لیکن گوگل نے انہیں جزو بنا کر  دو  وجودوں میں پیش کیا ہے۔  ناک اور جسم کی اپنی ادئیں ہیں۔ دونوں  منفرد ہیں۔  آزادانہ اور خود مختا رانہ زندگی گزار رہے ہیں۔  گوگل نے ان دونوں حصوں کی انتقالیت کا تصور پیش کیا ہے۔   اس کے نزدیک ہر عضو  الگ بھی رہ سکتا ہے اور دوبارہ جسم میں شامل ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ عضو  اگر جدا  رہیں  تو جسم کی حیثیت نامکمل  رہتی  ہے۔  تمام  عضویات کے ملاپ سے ہی شخصیت مکمل ہوتی ہے۔  گوگل نے اس طرح سے انسانی شکست و ریخت کے عمل کو بیان کیاہے۔ کسی جزو  کے غائب ہونے سے نا مکمل پن کا  تاثر پیش کیا ہے۔

 گوگل  اس ناول  میں مافوق الفطرت کو بھی عام زندگی میں شامل کیاہے۔  ناک کا وجود جس میں وہ ہر کام عام انسانوں کی ھرح سر انجام دے رہا ہے۔  اس نے موضوع کو مزاحیہ ہی رکھا ہے اور اس کا رخ مذہب کی طرف موڑنے کی کوشش نہیں کی۔  ناک کا گرجا گھر جانا، بھوتوں کی طرح  ناچنا،   ناک کا بذات خود چلنا،  کسی  آسرے کے بغیر زندگی گزارنا،  سیر کرنا، گھومنا پھرنا، لوگوں کا  تذبذب میں پڑنا،   موقعہ محل کے مطابق اپنا رنگ روپ سائز بدلنا، کبھی رومال میں، کبھی سٹی کونسلر، کبھی اتنا چھوٹا یا چہرے کی مناسبت سے بڑا ہو جانا، کبھی ڈاکٹر کے روپ میں آکر اسے پریشان کرنا  وغیرہ جادوئی اعمال ہیں ۔

 ناک ہر بنی نوع انسان کے چہرے کا لازمی عضو ہے۔  اس کے بغیر انسانی چہرے کا تصور ہی نہیں۔  اس کی عدم موجودگی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اس لئے ہم اس پرتوجہ نہیں دیتے۔۔ چہرے پر ناک کی شکل و صورت مختلف ہوسکتی ہے۔  ستواں، پھینی۔ پتلی، موٹی، خوبصورت، بھدی ، کھڑی بیٹھی یا ملی جلی شکل۔۔۔ لیکن  نہ پائی جائے، نہیں ہو سکتا۔

 ناک کا نہ ہونا نفسیاتی طور پر آختگی کی  علامت ہے۔  جس سے مراد بانجھ پن ہے۔  اس سے لاشعوری طور پر یہ تصور جنم لیتا ہے کہ جنسی اعضا ء  بیکار کر دئیے گئے ہوں۔  افزائش نسل روک دی گئی ہو۔  گو مگو 

 کی کیفیت  رہتی ہے۔  اپنی حیثیت، رتبہ اور شادی کے فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ لوگ کیا سوچیں گے،  کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ  کوفالیوف ایک دبلی پتلی  سفید لباس میں ملبوس ایک حسینہ کو دیکھتا ہے اور اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔  اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں  اور اس سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے آگے بڑھتا ہے تو اس کے منہ پر رکھا ہوا رومال سرسراتا ہے تو اسے اپنی اصلیت یاد آجاتی ہے اور اس کے جذبات پر اوس پڑجاتی ہے کیونکہ ناک کے بغیر وہ اپنا مقصد حاصل  نہیں کر سکتا۔  اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ حسینائیں   اس کے بارے میں یہ سوچتیں کہ اس کا جسم غیر متناسب اوربے ڈھنگا تھا  بلکہ اسے یہ فکر تھی کہ وہ  اسے مرد کی صنف سے ہی گرا دیتیں۔  ایسی حالت میں وہ ان کا سامنا  نہیں کر سکتا تھا۔

 ناول میں بہت سی مضحکہ خیز باتیں بھی ہیں۔  ناک کا مکمل وجود،  سماجی حیثیت کے مطابق ہر شخص کے یونیفارم کی درجہ بندی،  ناک کو اعلیٰ ترین حیثیت عطا کرنا  عزت، طاقت اور جنسی اشتہاء کا بالاواسطہ اظہا ر ہے۔  اپنے گھر میں محصور کر لینا  کچھ مثالیں ہیں۔  آرزوئیں، تمنائیں دم توڑدیتی ہیں۔  حسد، کینہ اور کپٹ کے احساس  زیادہ پیدا ہونے لگتے ہیں۔  کو فا  لیوف  جب دیکھتا ہے کہ اس کا ناک غائب ہو گیا ہے تو وہ  سیر سپاٹے، گھومنے پھرنے، باہر نکلنے اور لوگوں سے عموماً  اور خواتین سے خصوصاً  ملنا بند کر دیتا ہے تا کہ ان کے سامنے اسے خفت نہ اٹھانی پڑے۔ اس کہانی میں مزاحیہ کردار نگاری کی گئی ہے۔ حجام کا حلیہ، خدمت گا ر کی عادات، ڈاکٹر کا رویہ،  نسوار کے سونگھنے سے سر درد  اور بواسیر جاتی رہے گی،  نکوٹین کو پھیپھڑوں میں لے جانے کی وضاحت،  تمباکو پیش کرنے کا طریقہ،  حیثیت  ظاہر کرنے کے کئے سگریٹ کی ڈبی کی قسم، اخبار کے کلرک  کا اشتہار سازی میں رویہ، پولیس اٖفسر کے کمرے کی تفصیل اور گفتگو،   اور دوسرے پولیس افسر کا جو اس کے گھر آکر ناک اس کے سپرد کرتا  ہے کی کردار سازی مزاحیہ طور پر پیش کی گئی ہے۔

 ناک عزت و وقار کی علامت ہے۔ معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کی علامت ہے۔  ُ اس نے ہماری ناک رکھ لی   ُ  فخر کی علامت ہے۔  اس سے آپ کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے۔  لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں۔ناک بلند ہونا  معتبر پن اور اچھائی سمجھی جاتی ہیں۔  ایسے افراد مثالی تصور کئے جاتے ہیں۔  دوسرے ان کی طرح  باکردار بننا چاہتے ہیں۔  ان پر فخر کیا جاتا ہے۔  وہ اپنے کئے پر بھی خوش ہوتے ہیں۔  آپ کا ظاہر و باطن مطمئن رہتا ہے۔  ضمیر پر بوجھ نہیں پڑتا۔  آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے اخلاقی، معاشرتی، مذہبی اور قانونی منوال کے مطابق کردار پیش کیا ہے۔

 ناک کٹوانا سماجی اوراخلاقی گراوٹ کہلاتی ہے۔ اس سے حزیمت کا پہلو نکلتا ہے۔  ایسے شخص کی عزت و وقا رجاتی رہتی ہے۔  معاشرے میں اس کا دانہ پانی اٹھ جاتا ہے۔  اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے۔  اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اپنے پرائے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ کم و بیش اکثر اسے اشرف المخلوقات کے درجے سے بھی گرا دیا جاتا ہے۔ وہ احساس کمتری کا شکا ر ہو جاتا ہے۔  اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اس سے ملنے برتنے سے احتراز برتا جاتا ہے۔ اسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔

 ناک  کا  نہ  پایا جانا خوف و ہراس پیدا کرتا ہے۔  انسانی زندگی میں حقیقی یا انجانا خوف  زندگی حرام کر دیتا ہے۔  اس کی روز مرہ زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔  ذہنی سکون چھن جاتا ہے۔ کسی شئے کو یکسوئی سے کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔    وسوسے گھیرے رکھتے ہیں۔  زندگی کی چاشنی ختم ہو جاتی ہے۔  خود پر اور دوسروں  پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔  کون سجن ہے اور کون دشمن  کا احساس مٹ جاتا ہے۔  فروعی معاملات پر زیادہ  سوچ و بچار کیا جاتا ہے۔  تعویذ گنڈوں، کالے علم  اور اس طرح کی دوسری اشیا کی طرف  مائل ہو جا جاتا ہے جیسے۔۔۔  اسے مجھ سے پیا ر ہے۔۔۔۔پیا ر نہیں ہے،  فیس بک پر اتنے لوگ پسند کرتے ہیں،  انسان خود کو نامکمل سمجھتا ہے۔   اپنے مقاصد سے مفاہمت کر لیتا ہے۔  محرکات بدل جاتے ہیں،  اعتماد میں کمی آجاتی ہے اور دوسرے آسانی سے غالب آسکتے ہیں۔

  ناول کا آخری حصہ کو فا لیوف کی جسمانی تکمیل کے ساتھ ہے۔ اس کا بحران ختم ہو جاتا ہے۔  راوی چین لکھتا ہے۔ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہو جاتی ہے لیکن  اسے سبق سکھا جاتی ہے کہ دنیا میں ہر لمحے تغیر و تبدل کی توقع کی جانی چاہئیے۔  وقت ایک سا نہیں رہتا۔  دنیا کے مختلف انداز اجاگر ہوتے ہیں۔  زندگی کسی وقت یکسر بدل سکتی ہے اور وقت ایک سا نہیں  رہتا۔  حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہئیے۔

  مسائل ہر شخص کو پیش آسکتے ہیں۔  اس میں اگرچہ ناک  کا لفظ  استعمال کیا گیا ہے لیکن ناک کے آگے  خالی جگہ بھی چھوڑی گئی ہے اور قاری چاہے تو اپنی مرضی سے  اس میں کوئی عضو لکھ سکتا ہے اور اس کے غائب ہونے کے بعد جو تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں، کا جائزہ لے سکتا ہے۔ 

 


 

 Life history

Nikolay   Vasilyevich Yanosky Gogol

Ukraine

1809….1852

حالاتِ زندگی

نکولائی گوگول  20 مارچ 1809 کو                        'سوروچن ٹسٹی'                           'یوکرین میں پیداہوا۔اس وقت پولٹاوا  گورنوریٹ  شہنشاہ تھا۔ اس کی والدہ  کاشجرہ نسب  ایک مشہور  فوجی لیونٹی  کوسیارسکوفسکی سے ملتاتھا۔اس  کے والد کانام ویسلی گوگول  یاھوسکی ' تھا جو ڈرامہ نویس تھا۔اس کا اپننا تھیٹر تھا تھا۔وہ اپنے ڈرامے اپنے تھیٹر میں  پیش کرتاتھا اور کافی مشہور تھا۔اس کے چچاکا بھی تھیٹر تھا۔ اس میں بھی اس کے ڈرامے پیش کئے جاتے تھے۔ بد قسمتی سے اس کا والد 15 سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔اس نے ابتدائی تعلیم نیزہین  سکول سے حاصل کی جو آج          نیسزہین گوگول    سٹیٹ یونیوسٹی بن چکی ہے۔وہ وہاں 1828 تک پڑھا۔اس نے سکول کے وقت سے ہی لکھنا شروع کردیاتھا۔وہ اپنے سکول میں بالکل بھی مقبول نہیں تھا۔ اسے'  پراسرا ر        بو              نا             'کہہ کر پکاراجاتاتھا۔وہ دو تین دوست ہی بنا  پایا۔ گوگول میں   ترقی کرنے کی خواہش کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔اس نے جرمن میں ایک  رومانی نظم لکھ کر اپنے خرچے پر قلمی نام  'وی۔الوف ' کے قلمی سے ایک رسالے میں  چھپوائی اور اسے تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں بھجوایا ۔ہر یونیورسٹی نے اس کی نظم مذاق اڑایا۔ یہ دلبرداشتہ ہوگیااور تمام رسالے خرید کر انہیں آگ لگادی۔

 یوکرین زبان میں  اس نے اپنا             پہلاناول  شائع ہوا۔ا جس کاعنوان ' ایوننگ آن اے فارم نیئر ڈنکا'            تھا۔جس نے بڑی مقبولیت پائی اور دوسراایڈیشن 1832 میں آیا۔اس کے بعد اس کے ناول اور افسانے  روسی ،جرمن۔انگریزی اور یوکرای زبان میں آتے گئے اور مقبول ہوتے گئے۔اس نے اپنے والد کاتھیٹر بھی سنبھال لیا۔خود ہی لکھتا،اداکاری بھی کرتااور اپنے تھیٹر میں پیش کرتا۔ اس کے ڈرامے نوکرشاہی پر خوب طنزکیا کرتے تھے۔کوئی ڈرامہ شنشاہ کی مرضی  کے بغیر پیش نہیں کیا جاسکتاتھا ۔ پریمیر شو کو میں بادشاہ کے سامنے پیش کیاجاتااور اسے ان ڈراموں میں یہ لگتاکہ ان میں قابل اعتراض کوئی بات نہ تھی کیونکہ وہ سمجھتاتھاکہ وہ صرف بری انتظامیہ پر ہی تنوید کررہاتھا۔

ُ                   پُشکن  کی موت کے بعد  طویل  تعریفی  نظم لکھی اور سابقہ تصانیف اس نے اپنے ناول 'میرج'اور اوورکوٹ' کو دہرایا۔اس کوشوق چرایا کہ تاریخ کاپروفیسر بنے ۔' وی             کلیف یونیورسٹی 'نے اسے  اس پوزیشن کے لئے غیرموزوں  قراردیالیکن سینٹ پیٹربرگ  نے اس کی تقرری کردی جس نے بعد میں اسے نااہل قراردیااوراسے استعفیٰ دینا پرا۔۔ُ               

اپنی عمر کے آخرہ دور میں وہ افسردگی کاشکارہوگیا۔ اپنی زیادہ تر تصانیف جلادیں۔افسردگی کا شکارہوگیا۔ اس نے کھاناپینا بند کردیااورنودن بعد بڑی اذیت سے فوت ہوا۔اسے ماسکو میں دفن ہے۔

1 میں روس میں کمیونزم آگیاجو گوگول کاسخت دشمن تھا931

س کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں

Evenings on a Farn Near Dinka (1831,,,1832;  Mirror 1835;  The  Government Inspector  1836 ; Peterburg Tales 1833…1842;   Dead  Souls  1842 etc.

Short Stories

The Tale of How Ivan Ivanovich Quarreled with Ivan  Nikiforov ich; ‘ The Portrait’ and ‘The Carriage’ etc.

 

 


Popular posts from this blog