کہانی 59 / 3 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتب 2 ۔۔۔۔صفحات 15۔ ۔ Eyes of a Blue Dog Gabriel Garcia Marquez Nobel Laureate 15 pages Final Draft 59

 


کہانی 3کتاب 2


 

 

بلوری چشم امراؤ جان ادا

Eyes of A Blue Dog

By

Gabriel Marcia Marquez   (Nobel Laureate)

Columbia (1928-2014)

 

 

'  بلوری چشم  امراؤ جان ادا  ' ' گیبریل کا ایسا افسانہ ہے جو جنگ عظیم دوم کے انسانیت سوز سلوک کے بعدلکھاگیا۔ جس میں لوگوں میں  تنہائی ،غربت ،مفلسی،بے بسی۔ قحطالرجال ، مفلوک الحالی اور بے روز گاری پیدا ہوگئی تھی۔اس  افسانے میں راوی  تنہائی کا شکار ہے اور اپنی ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل اپنے خوابوں کے ذریعے کرتاہے۔ وہ افسانے میں لکھتاہے :

رات کا وقت  تھا۔کمرے میں ہم دونوں  ہی تھے۔جاڑے کا موسم تھا۔وہ  جانِ جاناں آتش دان کے پاس گئی اور اپنے  مرمری ہاتھ شعلوں سے گرم کرتے ہوئے میری طرف مدبھری نگاہوں سے ایسے دیکھا جیسے وہ مجھ سے جاننا چاہ رہی ہو کہ مجھے ٹھنڈتو نہیں لگ رہی ۔لیکن اس وقت سردی سے زیادہ    میں اپنے اندر کی تنہائی محسوس کررہاتھا ۔ اس کے بعد وہ                           ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور اس کے گول شیشے سے مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔ان آہوچشم بلورہی نظروں کا محور  میں تھا۔وہ غزالی  آنکھیں    چاروں اطراف سے گھوم پھر کر مجھ پرپڑ کر قیامت ڈھارہی تھیں۔عام حالات  میں بھی اس کے نرم گرم دہکتے نین  معنی خیزانداز میں  میرا جائزہ لیتے رہتے تھے۔وہ اپنی  میک اپ           ِکٹ  میں کنجی لگاتے وقت بھی   مجھے تک رہی تھی۔ اس نے ڈھکن کھول کر  سنوارنے والی کریمیں اورموتیوں کی  مالا نکالی ، اداؤں سے میک اپ کیا اور  سامان  واپس ڈبے میں ڈال کربند کرکے تالہ لگا دیا اور مستانہ چال چلتی ٹیبل لیمپ کے پاس گئی اور لیٹ گئی۔اس کا خیال تھا کہ جب وہ گہری نیند میں ہوتی تھی تو میں اس کے خوابوں  سے اس کے دل کی باتیں  جاننے کی کوشش کرتاتھا۔وہ ب جان لیتا تھا جو وہ  اپنی  جاگتی حالت میں نہیں جان سکتاتھا۔

میری دشمن میری تنہائی تھی۔ لوگ تو کساد بازاری، بے روزگاری ، دہشت ناک ماحول اور قحط الرجالی کی وجہ سے پریشان تھے ۔ بے بسی سے ان پر اجنبیت طاری  ہوگئی تھی لیکن میرا سب سے بڑا مسئلہ  تنہائی تھی۔۔سردموسم میں اس احساس میں اضافہ ہوجاتاتھا۔ وہ رات خاموش تھی جس نے میری اس کیفیت کو زیادہ  کربناک  کردیاتھا ۔   اس لئے میں  اپنے اکیلے پن کے احساس کو کم سے کم کرنے کے لئے  اسے    ہر حالت میں اپنی نظر وں  کے دائرے میں رکھنا چاہتا تھا۔تاکہ مجھے یہ احساس ہوتا رہے کہ میری  کوئی جان گسار ہے۔وہ میری مجبوری کو بھانپ گئی تھی  اور میرے آتش شوق کو بھڑکانے کے لئے  حیلوں بہانوں سے  ادھر ادھر ہوجاتی اور پھر اچانک سامنے آجاتی ۔آنکھ مچولی  کا  یہ کھیل  روح فرسا تھا۔ میں اس کے ظالمانہ      انداز  سے تڑپ کررہ جاتاتھالیکن میری دلچسپی  کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی تھی۔ وہ ایک بار پھر آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ گئی اور اس میں سے میری طرف دیکھنے لگی۔وہ حور کی طرح تھی۔ اسے حق حاصل تھا کہ وہ مجھ پر اپنے رنگ روپ اور رنگ ڈھنگ  کے وار کرے ۔ اس کو کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔جتنا چاہے، جیسے چاہے جبر کرسکتی تھی۔میں نے اپنی الٹی سمت والی  دیوار کو دیکھاجو اندھے آئینے کی طرح تھی  ۔ وہ میرے پیچھے ہی بیٹھی ہوئی تھی اور میرے  سامنے دیوار،اس لئے میں اسے نہیں دیکھ سکتاتھا۔۔۔۔لیکن میں اپنی  سوچوں اور تخیلات میں اس کا تصورکرسکتاتھا۔۔ مجھے میری پشت  پر اس کی    سحر انگیز تیز نگاہیں میری پشت  پر ارتعاش پیداکررہی تھیں۔ میں تھوڑاسا مڑا تاکہ اس کاعکس چراؤں  ۔اسے  جب ایسا محسوس ہوا کہ میں ایساکرنے جارہاتھاتو اس نے  اپنی نظریں نیچی  کر لیں ۔ وہ  تمام وقت گم سم رہی۔ایسا لگتاتھا کہ   اپنی طرف سے وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ مجھ سے اس وقت چھپی ہوئی تھی ۔میں  نے اس کا شک دور کرنے کے لئے کہا  کہ وہ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میں  اسےدیکھ  سکتا ہوں۔آنکھ مچولی نہ کھیلے اور  کھل کر سامنےآ جائے۔ اس نے شرماکر  میری طرف دیکھااور  بولی  'تم صحیح نہیں کہہ رہے،مجھے دیکھنا ناممکن  تھا۔۔میں نے اس سے پوچھا کیوں؟ اس کی ساکن آنکھیں  اپنی چولی پر گڑی ہوئی تھیں ۔'کیونکہ تمہارا چہرہ دیوار کی طرف تھا یا میں لیمپ کے پیچھے تھی ،یا میک اپ کےوقت تمہارا زاویہ ایسا تھا کہ میری پیٹھ تمہاری طرف تھی۔ ار تمہاارا ' اس نے جواب دیا۔اس پر میں نےاپنی کرسی کا رخ پھیر لیا۔اس وقت سگریٹ میرے منہ میں تھا۔جب میں نےشیشے کی طرف رخ کئے رکھاتواس وقت شرماکر لیمپ کے پیچھے ُچھپ گئی ۔اب اس نے اپنے  چرمری   ہاتھوں  کو   آتشدان کے سامنےایسے کھولا جیسے کہ کوئی مرغی اپنے پر کھولتی ہے اور ینکنے لگی ۔ اس کی انگلیاں اس کے چہرے کو چھپالیتی تھیں۔'شائد مجھے سردی لگ گئی تھی'۔اس نے کہا۔ یہ برف کا شہر تھا۔'وہ آتشدان کےقریباًاوپر بیٹھ گئی۔گرمی کیُ لوسےکچھ دیر بعداسکا چہرہ  تانبے کی طرح سرخ ہوگیا اور اس نے کہا کہ چونکہ گرمی کی حدت برداشت سے باہر ہوگئی تھی اس لئے وہ  خود کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ج کپڑوں سے باہر آنا     چاہ  رہی  تھی ۔ اس نے ایک ایک کرکے اپنے کپڑے اتار دئیے ۔یہ نظارہ دیکھا تو میری روح کوسکون آگیا۔اس کے بعد میں نے اپناچہرہ دوبارہ دیوار کی طرف کرلیا۔اس نے مجھے ادا         دکھائی اور  بولی   دوسری طرف                 نہ دیکھو۔کسی صورت ایسا نہ کرو۔منہ اس کی  طرف  ہی رکھوں ۔اسے دیکھتا

ر ہوں ۔ ۔ مجھے  اسے دیکھتے رہنا  ہوگا۔اسی انداز میں بیٹھ  جاؤں  جیسے پہلے بیٹھا تھا۔اس کا جسم آتشدان کے شعلوں سے  تانبے کی طرح دہک رہاتھا ۔ میری ازلی خواہش تھی کہ میں اسکے پیٹ کی جِلد کے ان نشانات کو جو کسی کےپیٹنے سے جسم پر پڑتے تھے ،دیکھوں ۔اس وقت میں نے  اسے کہاکہ اسے کچھ دیر اور اس حالت میں دیکھنا چاہتا تھاتووہ بے حس وحرکت بیٹھ گئی اور آگ سینکنے لگی ۔مجھے ایسا لگتا تھاکہ وہ دھات کی بنی ہوئی تھی'۔اسکے پنجوں  کارخ  جو شعلے کی طرف تھا ،  اب ذرا           ساتبدیل ہوگیاتھا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ  وہ تمام واردات  مسمریزم کی حالت میں دیکھ رہاتھا۔ اس کیفیت میں  مجھے یاد پڑا کہ میں نے  اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ محض کانسی کا ایک ایسا چھوٹا سا ایسامجسمہ تھی  جسے  عجائب گھر میں سجایاجاتاہے۔وہاں رکھنے سے تمام   نوادرات  کی قدروقیمت  اس کے  سامنے ہیچ تھی لیکن میں اسے سب سے قیمتی اس لئے سمجھ رہاتھا کہ  اس وقت  وہ میرے ساتھ تھی۔میری تنہائی دور کرنے کے لئے میراساتھ دے رہی تھی۔

یہ تھی میری محبوبہ  !            وہ میرے  ہر خواب میں آتی تھی۔  وہ حسین ترین دوشیزہ تھی لیکن خواب میں  وہ 'کتیا' کے روپ میں آتی تھی۔اس  کا جسم اور آنکھیں نیلی تھیں ،لیکن  باقی تمام جسم ایک نارمل انسان کی طرح کا ہوتاتھا۔ میرا تعلق ہسپانیہ سئے ہے اور ہم اپنی  جان سے پیاری محبوبہ کو کتیا  کہہ کر پکارتے ہیں،اس لئے  میں اسے  اس کے خواص کی بناپر ' بلوری  چشم   امراؤ جان ادا ' کہتاتھا۔سوتے وقت میری یہ عادت تھی کہ میں الٹا لیٹتا کرتا            تھا ۔ خواب میں  ایسا لگتاتھاکہ میراجسم کھوکھلاہوگیاہواور میری ِجلد اورکھال ایک تانبے کی  پلیٹ کی طرح ہوگئی ہوور پھر جب میرے اندر خون جوش مارتاتوایسا لگتاکہ کوئی میرے پیٹ پر دستک دےرہا ہواور میں اپنے  پیٹ کے اس کی تابنے  جیسی   آواز  بستر میں سناکرتاتھا۔ بلوری چشم  امراؤ جان ادا' اور میں  اکیلے تھے۔ دونوں پر تنہائی کی اذیت طاری تھی۔ہم دونوں کی دلی خواہش تھی کہ  منفرد حیثیت ختم کرکے ایک دوسرے میں  گم ہو جائیں۔ساتھ مل کر ہر طرح کاکھیل  کھیلیں لیکن ایسانہیں ہوسکتا تھاکیونکہ میں یہ سب باتیں خواب میں دیکھتاتھا۔میں اس  کی   باتیں سنتا تھا۔یہ سب  باتیں  میرے  خوابوں میں ہی پائی جاتی تھیں۔اس کے باوجود ہم خوش  اور دنیا کے جھنجھٹوں سے آزاد تھے۔ مزے میں تھے۔اس نے خواہش ظاہر کی  کہ  میں اپنے کان اسکی  پسلیوں سے اس وقت لگاؤ ں جب  وہ بائیں کروٹ  لیٹی ہو ۔اس وقت اس کے دل  کی دھڑکن اور گونج سنوں تاکہ مجھے اس کے صحیح جذبات کا اندازہ ہو سکے۔اس کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ میں ایسا کروں۔اس نےمیرا مشاہدہ کیاتھا کہ اس نےمجھے گہری سانسیں لیتے دیکھا تھا اور میری کیفیت سے مکمل طور پر واقف تھی۔ اس کی چال مستانی تھی۔سالہاسال سے وہ ایک ہی جیسی چلتی تھیں ۔اس کی چال میں ہم آہنگی پائی جاتی تھیں۔وہ اصلیت تک رسائی حاصل کرناچاہتی تھی۔وہ مجھے  اچھی لگتی تھی۔

'یہ میں ہی تھی جو تمہارے خوابوں میں روزانہ آیاکرتی تھی اور آتی رہوں گی  ' اس نے کہا۔اس کے بعد نیپکن پریہ الفاظ کندہ کروں گی اور کسی ریستوران میں ویٹر کو آرڈرکرنے سے پہلےاسکی  دیواروں، دروازوں کےرنگ و روغن پراپنے ناخنوں سے،میزوں کی وارنش پر چاقوسے کھرچ کر اور ہوٹلوں کی بھاپ والی کھڑکیوں، سٹیشنوں،عوامی عمارات پراپنا  پیار  طاہر کرنے کے لئے  ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا  ' لکھوں گی۔ اس  کا جنون ا خیالوں تک ہی محدود نہ رہا ۔ایک بار ایساہواکہ وہ ایک میڈیکل سٹور گئی اور اس نے وہاںوہی خوشبو سونگھی جواس نےاپنے کمرے میں سونگھی تھی۔سٹور کے فرش کی صاف ستھری  نئی ٹائیلوں کو دیکھا۔اس کے بعد وہ کلرک  کے پاس گئی اور اسے  بتایا کہ وہ ہمیشہ ایک ایسے آدمی کاخواب دیکھاکرتی تھی جواسے  ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا  پکارا کرے۔اس پراس کلرک نے اس کی طرف دیکھ کرکہا۔مادام  تم  تصور میں ہی نہیں  بلکہ حقیقت میں بھی ایسی ہی ہوگی ۔اس پر اس نے  اس کلرک  سے  اسے درخواست کی کہ وہ اس آدمی کو ڈھونڈنے میں مدد دےجس نے پہلی بار یہ الفاظ اداکئےتھے۔اس بات پر اس نے  کتیا کے چہرے والی دوشیزہ کو معصوم سمجھا ، ہنسنے لگااور کاؤنٹر کے دوسرے کونے کی طرف چلاگیا۔وہ صاف ستھری ٹائیلوں کو دیکھتی اور اس کی بو سونگھتی رہی۔اس نے اپنا پرس نکالا اس میں سے سرخ  رنگ کی  لپ سٹک نکالی اور اس سے   ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا  ' لکھا۔ کلرک کو  اس کی یہ بات نہ بھائی۔وہ  اس کے پاس آیااورکہاکہ اس نےفرش کی تمام ٹائلیں گندی کردی تھیں۔ اسےایک گیلا کپڑا دیا اور کہاکہ اسے صاف کرے۔میں یہ سب غور سے دیکھتا رہا۔

خواب میں ایک روز میں کونے میں جھولتی ہوئی کرسی  پر بیٹھاتھا۔'ہرروز میں اس  لقب  کو یاد کرنے کی کوشش کرتا  اور امید کرتا کہ ایک دن ضرور ت وہ اس کی طرف پوری طرح مائل ہوجائے گی۔لیکن خواب میں ہونے والی باتیں اور واقعات میں ہمیشہ بھول جایاکرتاتھا۔میں نے تہیہ کرلیا کہ اگر میں پورا خواب نہ بھی یا د رکھ  پاؤں لیکن میں مقام اور جگہ کوتو ضرور یاد رکھوں گا۔بدقسمتی سےتمام تر کوششوں کے باوجود میں کامیاب نہ ہوسکا۔ میں نے جب اسے یہ بات بتائی تو  اگلی رات اس نے لیمپ کے پاس اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچیں  اور گہری سانس لے کربولی،'تم نے  کم از کم اتناہی بتادیا ہوتاکہ کس شہر میں اس نے سب سے پہلے ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا لکھا تھا۔اگرچہ خواب مجھے یاد نہیں رہتے تھے لیکن سونے کے بعد اٹھتا تو میری ذہنی حالت ایسی ہوتی جیسے سوتے میں کوئی ایسی شئے واقع ہوئی  تھی اور اس نے میرے دل و دماغ پر اثر چھوڑا ہے۔اور میں تصورات میں کہانی گھڑلیتا۔

شعلے کے اوپرخواب ہی کی حالت تھی   اس لئے  میں میں نے اس سے اپنے چمکتے ہوئے دانت ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ دوری کی ملاقات سے میں تشنہ رہتا ہوں  اور میں اب تمہیں چھوناچاہتاہوں۔اس نے اپناچہرہ اوپراٹھایاجواس وقت آتش دان کی طرف تھااوراسکی بانہوں کی طرح جل رہاتھا۔ میں اس وقت جھولنے والی کرسی پر بیٹھا تھا۔اس نے میری طرف نگاہ ڈالی  اور گویاہوئی 'تم نے یہ بات مجھے کبھی بھی نہیں  کہی ۔ میں تمہاری یہ خواہش پوری کروں گی  اگر تم مجھے جاگتے ہوئے ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا' کہو۔'میں نے اسے جواب دیا کہ  حقیقت  میں میں ایسا ہی چاہتا تھا۔میں یہ نام یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔لیمپ کے دوسری طرف سے اس نے کہاکہ میں اسے سگریٹ دوں۔سگریٹ کا آخری حصہ بھی میری انگلیوں سے غائب ہوچکاتھا۔میں سوچوںمیں گم بھول گیاتھا کہ میں سگریٹ پی رہاتھا۔اس نے کہا کہ خواب سے بیداری کے بعدمیں اسے کیوں یادنہیں رکھ پاتاکہ میں نےپوچھا کہ ' ریوڑوں کی رکھوالی کرنے والی  وفادار بلوری کتیا۔ ' کب اور کہاں لکھاگیاتھا۔اورمیں نے اسےکہا'کہ مجھے اس میکانیت کا علم نہیں کہ کیوں خواب والی باتوں کو بھول جاتے ہیں ۔میں نے کہا کہ یہ بات مجھ تک ہی محدود نہیں تم بھی یہ یادنہیں رکھ سکتیں کہ کہاں  کہاں  ' بلوری چشم والی امراؤ جان ادا لکھا تھا۔اس پروہ افسردہ ہوگئی ۔

ایک رات میں ایک خواب  میں میں کرسی سے اٹھا اور لیمپ کے قریب گیا۔وہ کچھ دوربیٹھی تھی۔میں اس کی طرف چلتاگیا۔ میرے  ہاتھوں میں سگریٹ کی ڈبی اور ماچس تھی  ۔میں اس  کے پاس پہنچااورسگریٹ پیش کی۔اس نے سگریٹ اپنے منہ میں دبالی اور اس سے پہلے کہ میں ماچس کی تیلی سے سگریٹ سلگاتا ۔اس نے اپنا            رخ آتشدان کی طرف کرلیا۔اس نے اطلاع دی کہ شہروں کی تمام دیواروں پر اس نے  ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا  ' لکھاہواتھا۔ اگر میں نے اسے حاصل کرنا ہو تو جاگنے پر اس نے ایک بار پھر کہا ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا ' یاد رکھنا پڑے گا۔ اس نےٹھنڈی سانس لی،اسے یاد آیاکہ اس کی ٹھوڑی جھکی ہوئی تھی۔اور اس  کی ایک آنکھ آدھی بندتھی ۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ تھا۔ اس نے  ایک لمباکش لیا۔ سگریٹ اپنی انگلیوں میں پکڑا اور کہا کہ اس کا جسم  گرم ہونا شروع ہوگیا تھا۔اس نے نیم گرم جوشی اور لمحاتی انداز میں ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا ' کہا۔اندازایساتھاجیسے اس نے یہ بے دلی سے کہاہو۔وہ  کاغذ  شعلے کے پاس لائی تاکہ میں پڑھ سکوں۔ اس نے اس کو انگوٹھے اور ایک انگلی سے پکڑاہواتھا ،اس کو گھمایاتومیں نےدیکھا کہ اس پر 'اوپر' لکھاتھااور اس کاغذمیں سلوٹیں پڑی تھیں۔اس نے اسے جلایا  تو   وہ فرش پر گر کر راکھ میں تبدیل ہوگیا۔

ہم نے ایک دوسرے کو اپنے پنے خوابوں میں  کئی سال دیکھا ۔کبھی کبھارتو وہ گہرا خواب آنے سے  پہلے ہی موجود ہوتی تھی۔ ہم گہری نیند کے مزے لے رہے ہوتے تھے لیکن اس وقت ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے جب کوئی کھٹکا ہوتا  یا  کوئی چمچہ گرجاتاتھا پھر آہستہ آہستہ ہمیں یہ پتہ چلنےلگا کہ ہماری  خواب کی رفاقت  کسی اور شئے کی مرہون منت  تھی ۔کوئی واقعہ یاچیزپہلے واقع  ہوتی  تھی  پھر ہم ایک دوسرے سے دوردور سے ملتے  تھے۔ہماری  خوابوں کی  ملاقاتیں ختم بھی اسی طریقے پر ہوتی تھیں جب صبح کے وقت کوئی چمچہ گرتا تھا  یا کوئی آواز سنائی دیتی تو ہماری نیند کھل جاتی  تھی اور جداہوجاتے تھے۔

اب  اس لیمپ  سے آگےوہ مجھے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کہ وہ پہلے ماضی میں دیکھاکرتی تھی۔ماضی بعید کے خوابوں  کی طرح سے جب میں  اپنی کرسی کواپنی ٹانگ سے گھمایااور اس کی طرف منہ کیا جس کی اس وقت  راکھ جیسی آنکھیں  لگ رہی تھیں تو میں نے اس سے پہلی بار پوچھاکہ تم کون ہو؟اوراس نے مجھے کہا'میں نہیں جانتی ۔' پر میں نے  اسے کہا ، 'میں سوچتاتھا کہ ہم نے ایک دوسرے کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔'              اس پر وہ  لاتعلقی اور بے رخی  سے بولی ، ' اس نےاس کمرے میں مجھے  ایک بار خواب میں دیکھا تھا ۔'اس پر میں نے اسے کہا ، ' مجھے اب معمولی باتیں بھی  یاد آنا شروع ہوگئی  تھیں ۔اس نے کہا ،' کتنی عجیب بات تھی۔اب مجھے بھی یقین ہو  گیا تھا کہ ہم  ایک ہی منزل کے راہی  تھے۔'۔اس نے بتایا '  زندگی بڑے سکون سے گزررہی تھی جب توپوں کی گھن گرج اور جنگی جہازوں نے ہوسِ اقتداراور وسائل پر قبضے اور اپنے اپنے نظریات کے  پرچار کی خاطر ہماری زندگی اجیرن کردی ۔جانیں، عمارات اور اقدار کو تہس نہس کردیا ۔اب سکھ اورسکون خیالی اور تصوراتی ہی رہ گیا تھاجس کو ہم خواب اور تخیلاتی طور پرہی حاصل کرسکتے  تھے کیونکہ اصل میں تو کوئی ایسی صورت نہیں۔ دکھ درد اور طیش سے اس کی شکل تانبے کی سی ہوگئی۔' یہ کہہ کر اس نے سگریٹ کے اوپر نیچے دو کش لئے۔میں کھڑاتھا،میرا رخ لیمپ کی طرف تھااورمیں نے اسے اوپر سے نیچے ایسےدیکھا۔وہ پیلی ،نرم،لوچدارکانسی  لگ رہی تھی۔

'میں تمہیں چھوناچاہتاہوں ' میں نے اسے کہااوراس پروہ بولی'اس سے سب کچھ تباہ و برباد ہوجائےگا۔'میں نے اس کو جواب دیا۔'اب اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ برباد ہوجائے جو جنگوں نے پہلے ہی کردیاتھا۔انسانیت ،پیار ،محبت، چاشنی ختم کردی تھی ۔ اور ہر طرف تیرگی کے سائے چھائے ہوئے تھے ۔اب سکون اور محبت ہم خوابوں میں ہی حاصل کر سکتے تھے  تو اور کچھ کریں یا نہ کریں ہم صرف اپنے اپنے تکیے  پلٹ دیں  تو شائد ہم مل پائیں اور تنہائی کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔ دوبارہ  مل سکیں'۔ میں نے اپنا ہاتھ لیمپ پررکھ دیا۔اس نے کوئی حرکت نہ کی۔'  اگرتم لیمپ کے پیچھے سے دوسری طرف لے آؤتوہم ڈراؤنے خواب دیکھ کر جاگ جائیں گے اور کوئی پتہ نہیں کہ دنیا کے کس خطے میں پائے جائیں گے'لیکن میں نے اصرار جاری رکھا۔'مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔'میں نے بھی کہا۔'اگر تم اپنے تکئے کوالٹ دوگی تو ہم پھر مل سکیں گے۔اس نے کہالیکن جب تم نیند سے اٹھ جاؤ گے توپھر ہماری ملاقات  بھول چکے ہوگے'۔میں نے کونے کی طرف بڑھنا شروع کیا۔وہ پیچھے کھڑی رہی اور اپنے ہاتھ شعلوں سے گرم کرتی رہی اور میں ابھی تک کرسی سے ایک طرف نہیں پہنچاتھاجب میں نے  اپنے پیچھے سے اسے یہ کہتے سنا،'جب میں آدھی رات کوجاگاتو میں کروٹیں بدلتارہا۔تکئے کاکنارہ میرے گھٹنے کوجلارہاتھاجو صبح تک  یہی دہراتا رہا  کہ میری' ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا ۔'  

اس کے بعد میں نےاپنا چہرہ دیوار کی طرف کئے رکھا۔جب دوپہر کے دو بجے میں  اس سے بہت پہلے ہی جاگ چکاتھا۔میں دروازے کی طرف گیا ۔میں نے اسے کھولنے کے لئے دروازے کی کنڈلی اپنے ہاتھ میں پکڑی تو مجھے اس کی سردآواز سنائی دی'دروازہ مت کھولنا'۔یہ  جگہ خوابوں سے بھری پڑی ہوگی'۔میں نے اس سے پوچھاکہ اس کو اس بات کا کیسے علم ہواتواس نے کہاکیونکہ چند لمحات پہلے وہ بذات خود وہاں موجود تھی اور جب مجھے یہ احساس ہواکہ میں اپنے پیٹ کے بل  لیٹ رہاتھاتو مجھے وہاں سے جاناپڑا۔تو وہ بھی   وہاں سے چلی گئی۔میں نے اس وقت تک آدھا دروازہ کھول دیاتھا۔میں ذرا سا مزید آگے بڑھاتو ایک سرد،پتلی  ہوا نے مجھے تازہ سبزیوں کی زمین اور گیلے کھیتوں کا احساس دلایا۔اس کی آواز پھر سنائی دی۔میں نے دروازہ جوکہ دروازے کے قبضوں کے ساتھ جڑاہواتھا،کھولناجاری رکھا۔میں نےاسے کہا ' مجھےتوکوئی بھی باہر دکھائی نہیں دے رہا بلکہ مجھے کھیتی باڑی کی خوشبوآرہی تھی۔'اس کی آواز کچھ فاصلے سے آئی  تھی ۔میں تم سے بہتر جانتی تھی۔میں جو دیکھ رہی تھی اس میں ایک خاتون دکھائی دے رہی تھی جو کھیتوں اور دیہات کے بارے میں خواب دیکھ رہی تھی اور جو شہر کو کبھی نہیں چھوڑسکتی تھی۔وہ شہر چھوڑنے کے قابل نہ تھی۔میں نے بھی ایک ایسی خاتون کوکسی ماضی کے خواب میں دیکھاتھالیکن میں جانتاتھاکہ اس دروازے کو جسے میں نے اب پوراکھول دیاتھاتو اس نے شعلے پر ہاتھ باندھے رکھے اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا'یہ وہی  حسینہ  تھی جس کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ کسی دیہات میں ایک گھر ہواس کے بغیر وہ شہر چھوڑنے کے قابل نہیں تھی۔جب دروازہ کھول دیا تو مجھے اٖحساس ہواکہ وہ  میرے پچھلے خواب میں آئی تھی لیکن اب اسے تقریباًآدھے گھنٹے بعد مجھے ناشتے کے لئے باہر جاناتھااورمیں نے کہا'خواہ کچھ بھی ہو مجھے یہاں سے جانے کے بعد اسے چھوڑناہی ہوگا۔

گھر کے باہر تیزہواکاجھونکاآیالیکن اس کے بعد خاموشی چھاگئی اور وہ جوکوئی بھی سویاہواتھا۔اس کی سانسیں صاف سنی  جاسکتی تھیں،کو اس کے بستر سے سناجاسکتاتھا۔کھیتوں سے آنے والی ہوامیں مہک تھی۔اب مزید بوئیں یاخوشبوئیں نہیں رہ گئی تھیں،کل میں تمہیں ان ہواؤں کی وجہ سے شناخت کرلوں گا۔میں نے اسے کہا۔جب تم گلی کوچے میں کسی ایسی عورت کو' ' بلوری چشم والی امراؤ جان  ادا 'کودیواروں   پر لکھی  پہنچان لوں گا۔اور اس نے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔جوکہ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے کہ وہ خود سپردگی کوناممکن بنارہی تھی جس تک رسائی نہیں ہوسکتی تھی،کے بارے میں کہا'اس کے باوجودتمہیں اس شئے کے بارے میں دن کو کبھی یاد نہیں آئے گا۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کودوبارہ  شعلوں پر رکھ دیا ۔اس کی رنگت اور خدوخال  گھٹا ٹوپ بادلوں کی طرح تاریک ہوگئے۔'تم دنیا کے ایسے شخص ہو جو کہ خواب سے بیداری کے بعد کسی شئے کویاد نہیں رکھ  سکتا            اور ہم سب تنہائی کی آگ میں جلتے رہیں گے۔دنیاکے ظلم وستم اسی طرح سے لوگوں پر قہر بن کو ٹوٹتے رہیں گے۔اجنبیت   اور بیگانگی میں روزافزوں اضافہ ہوتارہےگا۔

تم اس وقت کوبھول جاؤ جب ہر سو بہار کا موسم ہوتا تھا ۔کوئلیں گایا کرتی  تھیں۔پیار محبت اور شانتی تھی ۔اب  وسائل چھیننے کی ہوس نے نفرت کی آگ بھڑکادی ہے جس میں کمی ہونے کی بجائے روز بروز اضافہ ہورہاہے۔اب لوگوں کی افلاس،بے بسی اور لطیف جذبات خوابوں میں پورے کئے جاسکتے ہیں۔جب حقیقت معلوم کریں گے تو وہ اب سب   بکھرا ہوا ملےگا۔

تجزیہ

کولمبیا 1925 تا  1955  دہشت گردی  سے بھرپورملک تھا۔وہاں قومی سیاسی جماعتوں لبرل اورکنزرویٹومیں خونی  مقابلے ہوتے رہتے تھے۔گوریلا جنگ نےملک کی سلامتی کو شدید خطرات میں مبتلا کیا ہواتھا۔1928  کی ہڑتال میں تشدد کے خوفناک واقعات ہوئے اور جنگ عظیم دوم میں افراتفری اور اضطراب میں اضافہ ہواجب کولمبیا متحدہ افواج کا ساتھی بنا۔ جورج ایلی سر گیٹن جس کاتعلق لبرل پارٹی سے تھااقتدار میں آیا۔اس کا منشور تھا کہ وہ غریبوں اور مزدوروں  کی مدد کرے گااور1947 میں اس نے اقتدار حاصل کیا اور 1948 کو اسے قتل کردیاگیا۔ہنگامے ہوئے اور ہزاروں انسان قتل کردئے گئے۔اس کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں مین گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔عام افراد پر تشدد کے واقعات پیش آنے لگے۔ 1953میں فوجی انقلاب آگیاتو جنرل گسٹاپوروجاس پینیلا نے اقتدار سنبھالااور 1955میں مخلوط حکومت قائم ہوئی لیکن گوریلا جنگ جاری رہی جس میں ڈیڑھ لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ بلوری چشم امراؤجان ادا اس عرصے میں لکھی گئی۔اگرچہ اس افسانے میں سیاسی چپقلش کے بارے میں بات نہیں کی گئی لیکن گارشیا ایک سرگرم سیاسی کارکن تھا جسے ملک بدرکردیاگیاتھاکیونکہ ریاست اس سے خطرہ محسوس کرتی تھی۔

جنگ عظیم دوم کے بعد جو ادب آیا وہ جادوئی حقائق پر مبنی تھاجس میں دیومالائی قصے کہانیاںاور تخیلات شامل ہیں۔ماورائی قصے شامل کئے جانے لگے جس کی بنیادی وجہ جنگوں کے بھیانک عواقب سے فرار حاصل کرناتھا۔اس کہانی میں  کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

گارشیا خوابوں کے ذریعے  اپنی خواہشات کی عکاسی کرتاہے۔اپنی تنہائی اور تجرد کی کیفیت پیش کرتا ہے جس میں  افراد کے درمیان حقیقی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی خواہ ان میں کتنی ہی خواہش پیداکیوں نہ ہو۔جاگتے ہوئے نرمادہ کو بالکل نہیں چھوسکتا ،نہ ہی مل سکتاہے اورنہ ہی ایک دوسرے کو قابو کرسکتا ہے، نہ کسی کے ساتھ حقیقی  طور پر رہ سکتاہے۔نیند میں جب وہ کسی آوا زکو سنتے ہیں یا دیکھتے یا کوئی کام بھی کرتے ہیں تو جاگنے پر وہ بھول جاتے ہیں۔اسی طرح ناری کو بھی نیند سے جاگنے پر اپنا خواب یاد نہیں رہتا۔خواب میں وہ بے حد جذباتی ہوتے ہیں اور ہیجان کی کیفیت میں تمام منازل طے کر لیتے ہیں لیکن وہ سب تخیلاتی ہوتا ہے۔ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی،۔وہ دونوں ایک ہی خواب دیکھتے ہیں۔انہیں  شبہ بھی ہوتا ہے کہ رات کچھ دیکھا ہے لیکن یاد کچھ نہیں ہوتا۔تھوڑی سی پرچھائیں یاد رہتی ہے لیکن اصل خواب یاد نہیں آتاحالانکہ رات میں انکے جذبات عروج پرہوتے ہیں۔ادبی لحاظ سےجذبات برانگیختہ ہوتے ہیں  لیکن حقیقی رومان انگیزی سے محروم ہوتے ہیں ۔ان میں ملاپ کبھی نہیں ہوپاتااور ہمیشہ فاصلے پر ہی رہتے ہیں۔

اس میں تنہائی کا احساس پیدا کیاگیاہے جو کہ گارشیا کے ابتدائی ادب میں عام ہے۔وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے جس میں ادب کی گہری ترین خواہشات ظاہر ہوتی ہیں ۔تاہم گارشیا کی دیگر کہانیوں کے برعکس اس میں جنسی خواہش پائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے  کےاحساسات اور جذبات کو ایک دوسرے کے سامنےپیش کرتےہیں۔لیکن عورت خوف کی وجہ سے مرد کو چھونا نہیں چاہتی،اگر وہ ایسا کرے گی تو ان کے مابین رابطہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہو جائے گاجبکہ خاتون کامقصد پائیدار تعلقات برقرار رکھنا ہے۔ اگر ملاپ ہو جائے گا تو یہ تعلق ٹوٹ جائے گااور اس ربط کو خواہ وہ دور سے ہے، کو  وہ  تم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ ایسا کرنے سےوہ تنہارہ جائے گی ۔سگریٹ پینا بھی نفسیاتی طور پر جنسی اشتہا کی علامت ہے۔اس میں جذباتی سرگرمی پائی جاتی ہے جو صرف خواب تک ہی محدود ہوتی ہے۔بلورچشمی  نازنین میں حقیقی تجرد  کیاہوتا ہے۔بیان کرتی ہےدونوں کےدرمیان حقیقی تعلق میں احساس محرومی پایاجاتاہےکیونکہ خواب سے جاگنے کے بعد وہ خاتون اسے یاد بھی نہیں رہےگیاسلئے وہ دونوں حقیقی زندگی میں تنہا ہیں۔وہ کبھی مل نہیں سکتے۔ان کے تعلقات لاشعوری ہوتے ہیں۔گارشیاقاری کی عصبیت جو کہ صحبت ،رفاقت اور خواہشات پر مبنی ہوتی ہیں کو چیلنج کرتا ہے۔فاصلہ اور علیحدگی اس خواہش کا لازمی عنصر ہے۔

جب وہ لیمپ کے پیچھے  گئی اور پیچھے مڑکردیکھا  تو میں یہ سمجھاکہ  وہ میری طرف دیکھ رہی ہے۔مجھ پرپہلی بار نظرکرم کررہی ہے۔مجھے لگاکہ میری قسمت جاگ اٹھی ہے۔میں نے اس کی پھسلنے والی  آنکھوں کو جو اس وقت ہلکی سی نم  تھیں ،کی حدت محسوس کی جو میرے کندھوں پر پڑرہی تھی تو میں نے جانا کہ وہ ہی نہیں بلکہ میں بھی  اسے پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔میں نے سگریٹ سلگایا۔اپنی ٹانگیں متوازن رکھ کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے  گہرا کش لیا۔وہ لیمپ کے پاس کھڑی مجھے اور میں اسے دیکھتارہا۔ہم دونوں ہر رات ایک دوسرے میں کھوئے رہتے تھے ۔ میں اس کی نظروں میں ہر رات  چمک دیکھاکرتاتھا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ  پیار سے کہہ رہی ہو ' ریوڑوں کی رکھوالی کرنے والی  وفادار بلوری کتیا۔' اس نے یہ تاثر  گھر کے کونے کھدرے میں قائم کیاہواتھا۔

 یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہےجب راوی آرام دہ گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوتاہے اور ایک نازنین کو خواب میں کتیا کے روپ میں دیکھتا ہے ۔ اس کی آنکھیں نیلی ہیں ۔ تمام تر افسانہ ایک ترسے ہوئے راوی کی لطیف جذبات کی تشنگی کے جذبات کا اظہار ہے ۔ وہ زمانے کے مظالم کا شکار ہے۔طاقتور ممالک کا  وسائل اور زمینوں پر قبضہ کرنے کی ہوس اور حرص نے اخلاقی اقدار اور انسانیت کا            جنازہ              نکال کر رکھ دیاہے۔ ہر طرف بدامنی ، افلاس اور جبر کی وجہ سے امن                  و  آشتی سکڑ کر رہ گئی ہے۔ راوی تنہائی کا شکار ہے ۔اسے نہ تو ذہنی سکون ہے اور نہ دنیاوی۔ اس کی خواہشات کے ساتھ احساس گناہ، شرم اور جرم کے احساسات شامل ہیں ۔ انہیں وہ شعوری طورپر دبا دیتا ہے کیونکہ   شعوری حالات میں  حاصل کرنا اس کے لئے ناممکن ہے اس لئے اس کی خوہشات لاشعور میں چلی جاتی ہیں اور روپ بدل کو خوابوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔چونکہ اس کا شعور اس وقت سماجی، اخلاقی اور قانونی قواعد سے آزاد ہوتاہے اس لئے اس کی حقیقی خواہشات  روپ بدل کر  کم طبو کے ساتھ خوابوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور اسے ذہنی آسودگی مہیاکرتی ہیں ۔ خواب میں  اس کی  خیالی محبوبہ  جو اس کے جنسی  جذبات  کی تسکین کرتی ہے ،کتیا کی شکل میں نظر آتی ہے جس کا چہرہ تو جانور کا ہے لیکن دھڑ اور اور باقی جسم ایک دوشیزہ  کا۔ وہ خوابوں میں ہر وہ کام کرتاہے جو وہ شعوری حالت میں نہیں کر سکتاہ۔ وہ کتیا اس سے باتیں کرتی ہے ۔ جاگ جانے پر خواب اسے بھول جاتے ہیں۔ایک خواب میں محبوبہ نے مٹی کے تیل کے لیمپ پر ہاتھ رکھا ہوتا ہے ۔وہ دونوں چند منٹوں تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں۔ راوی اس کے حسن میں  کھوجاتا ہے۔ اسے اس کی آنکھیں سب سے زیادہ پرکشش لگتی ہیں اور وہ انہیں کہتا ہے خوبصورت بلوری آنکھیں۔سپین کے محاورے کے مطابق وہ اسے پیار سے کتیا کا نام دیتا ہے۔ بعدمیں وہ اسے بلورچشمی   محبوبہ کے لقب سے نوازتا ہے۔ وہ اس کے اعصاب پر چھا جاتی ہے اور ہر جگہ بلورچشمی محبوبہ لکھتارہتاہے۔وہ اسے دل وجان سے چاہنے لگتا ہےلیکن اصلیت یہ ہوتی ہے کہ وہ  اس کے لاشعور میں بسی ہوتی ہے جو تحلیل نفسی کے مطابق  اس کو صرف اس وقت ہی ظاہر ہوتی ہے جب اس کا دماغ سماجی، مذہبی، قانونی اور دیگر پابندیوں سے آزاد ہو۔اس کا ذہن  سچائی کو پرکھنے والا نہ ہو۔اس پر گناہ،شرم  اور جرم کے احساسات کا غلبہ نہ ہو جو یا تو ہوائی قلعے تعمیر کرکے یا پھر حقیقت سے فرار حاصل کرنے سے ہو سکتاہے جیسےکہ انشقاقی خلل شیزوفرینیامیں مبتلا افراد میں یا پھر وہ خواب میں ظاہر ہوتے ہیں جہاں کردار مسخ شدہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔خواب دیکھنے والے بے تکی حرکات کرتے، صدیوں کا فاصلہ منٹوں سیکنڈوں میں طے کرتے اور جنسی  ، سماجی اور اقتصادی محرومیوں کا مداوا کرتے نظر آتےہیں ۔بعض اوقات اپنی مراد بر آنے کے لئے بھوت پریت ،آسیب ، کالا جادو اورٹونے ٹوٹکے کابھی سہارا لیاجاتاہے۔یہ افسانہ اس دور میں لکھا گیا جب ڈیڑھ کروڑ عوام جنگ عظیم دوم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ہر طرف اقتصادی بدحالی،ننگ بھوک ،افلاس  اور بیماری تھی۔قحط اس قدر تھا کہ جنگی ہیروؤں کو جنہیں سلطنت نے سرکاری فوجی اعزازات سے نوازا تھا ،بیکار پھر رہے تھے۔ دیوالیہ ہوگئے تھے اور بھوک مٹانے کے لئے اپنی بھوک مٹانے کے لئے خوراک کی دکانیں لوٹاکرتے تھے ۔ ایسی خوفناک صورت حال میں اس ادب کا آغاز ہوا جس کا مقصدغیر حقیقی وجود کے ذریعے اپنی لاشعوری خواہشات کی تسکین تھا اور ایسا ادب اس وقت کی ضرورت بھی تھی کیونکہ اس طرح سے احساس محرومی اور خیبت کی شدت کم ہوجاتاتھا۔گارشیا نےیہاںاپنی محبوبہ کوکتیا کہاہے جو اس سے رابطہ خوابوں خیالوں میں ہی کرسکتی ہے۔ خواب سے بیدار ہونے پر اس کے دامن کی بجائے اپنا ہی گریبان پکڑا ہوتا تھا اور خواب میں ہونے والے تمام واقعات بھول جاتے تھے۔اگرچہ ان کی حقیقت تو نہ تھی لیکن ذہنی آسودگی کے لئے وہ مفید تھے۔

وہ بلورچشمی  نازنین ہ  کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔وہ ہر جگہ اسے تحریر کرتا ہے۔دیواریں اور میڈیکل سٹور کا فرش اس نام لکھ لکھ کر بھر دیتا ہے۔یہ ایک اجباری رد عمل ہوتا ہے۔راوی کو اس کے نینوں کی خوبصورتی کا خبط سوار ہو جاتا ہے۔وہ اس کی حرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیتاہے اوراسے سراہتا رہتا ہے۔وہ ڈریسنگ ٹیبل پر جاتی ہے آئینے میں اسے دیکھتی ہے۔میک اپ کرتی ہےاور اس شبہے کا اظہار کرتی ہے کہ کوئی اس کے خواب  سے متعلق باتیں کر رہا ا ہوگا ور اس کے رازوں کو بیان کررہاہوگا۔وہ دوبارہ لیمپ کے پاس آجاتی ہے۔دونوں ہی شدید سردی کی شدت  محسوس کرتے ہیں اورمحبوبہ  دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل پر چلی جاتی ہے اور میک اپ ٹھیک کرتی ہے۔راوی اس کی ایک ایک حرکت بیان کرتا ہے ۔

راوی جب اپنا چہرہ دوبارہ اس کے سامنے لاتاہے تو وہ حسینہ  کہتی ہےکہ اسے ٹھنڈ لگ رہی ہے،آگ کا بندوبست کرےاور اپنا لباس اتارنا شروع کر دیتی ہے ۔راوی اسے کہتا ہے کہ وہ اسے اس حالت میں دیکھنا چاہتا تھا۔وہ حسینہ اسے بتاتی ہے کہ کبھی کبھار یہ سوچتی ہےکہ وہ دونوں دھات سے بنے ہیں اور کہتی ہے کہ حقیقی زندگی میں اگر کبھی وہ ملے تووہ  اپنے کان اس کی پسلیوں پر لگائے گاتاکہ اس کے دل کی دھڑکنوں کی گونج سن سکے اور اس کی محبت کا اندازہ ہو سکے۔وہ کہتی ہے کہ راوی اسے شعوری حالت میں حقیقی طورپر حاصل کر سکے۔اگر اسے خواب یاد آجائے تو وہ اس کے پاس آجائے گی اور جیتی جاتی زندگی میں اسے اس وقت پہنچان لے گی جب وہ  اسے  ' بلوری چشم   امراؤ جان ادا    'کے نام سے پکارے گا۔ افسانے میں  تمام واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ صرف ذہنی عیاشی ہے اس سے  وقتی تسکین  پاناہے۔ کہتا ہے کہ وہ  اپنے خواب یاد رکھے۔لیکن وہ ہربار بھول جاتا ہے۔اس کی خیالی محبوبہ  کی خواہش ہے کہ اگر اسے پورا خواب یاد نہیں رہتا تو کم از کم اس شہراور مقام کو ہی یاد رکھے جہاں ان کی محبت پروان چڑھی تھی لیکن بیدار ہونے پر اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔راوی کی خواہش ہے کہ وہ اپنی دلبر کوچھوئے اوراس سے جنسی تشفی پائے۔وہ اس سے سگریٹ مانگتی ہے  جو جنسی تشنگی کی علامت ہے اور وہ اس بات پر حیران ہوتی ہے کہ جہاں جہاں بھی اس نے ' بلوری چشم امراؤ جان ادا ' لکھا ہے، وہ مقامات اسے  یاد کیوں نہیں رہتے ۔ راوی عہد کرتا ہے کہ اگر کل وہ اس فقرے کو یاد رکھ سکاتووہ اپنی محبوبہ کو ڈھونڈ پائے گا کیونکہ خواب میں اس کی محبوبہ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ ' بلوری چشم  امراؤ جان ادا'  کہے گا تووہ اسے پہنچان کر اس کے پاس چلی آئے گی اور اس کی بن جائے گی۔

اس کی جنسی تشنگی  مختلف طریقوں سے خوابوں میں ظاہر ہوتی ہے۔جب وہ راوی کا دیاہوا سگریٹ پیتی ہےتو کہتی ہےکہ اس کاجسم گرم ہو رہاہے۔ یہ اس بات کاا اظہار ہے کہ وہ ان کی   اپنی ناآسودہ خواہشات ہیں ۔ ہونٹوں میں سگرٹ دبانا جنسی  علامات ہیں۔وہ اس بات پر خوش ہےکہ وہ جواس کی کپکپی سے خوفزدہ ہے،گرم ہونے کے بعدراوی کا خوف ختم ہوجاتاہے۔۔اس کے خوابوں کا جنازہ اس وقت نکلتا ہے جب سوتے وقت کوئی شور ہوتا ہے یا چمچہ گرتا ہے۔اس افسانے کے حالات و واقعات سب فراری رد اعمال ہیں۔ حقیقت سے فرار ہےاور جو مہیب اور اندوہ ناک واقعات جنگوں نے چھوڑے ہیں اور انسانیت کی تضحیک کی ہے میں شامل اذیت ، گناہ،بے بسی، شرم اور جرم کے شدید اثرات کو خیالی طور پر کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

میڈیکل سٹور کا کلرک اس حسینہ پر زور دیتا ہے کہ اس نے اپنی لپ سٹک سے تمام فرش پر بلوری چشم  امراؤ جان ادا' لکھ کر گندہ کردیا ہے۔

وہ اسے گیلا کپڑا دے کر کہتا ہے کہ اسے صاف کرے۔ جو جذبات کےقتل اور خون کی علامت ہے ۔ دنیا میں جنگوں اور دشمنیوں نےتباہی  مچائی ہے۔ان بھیانک یادوں کو فلاح وبہبود کے اعمال کر کےان برے کاموں کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔ کلرک بھی خاتون کی طرح تنہائی کا شکار ہے۔وہ بھی خاتون کو چھو نہیں سکتا ۔اسےبھی بھیانک ماحول اور افراتفری ملی ہے ۔

راوی کی اپنی ذات کے بارے میں معلومات صرف اتنی ہیں کہ وہ آرام دہ جھولنے والی کرسی پر بیٹھتااور جھولتا ہےاور سگریٹ نوشی کرتا ہے۔خاتون کے بارے میں              اس کی رائے ہے کہ وہ دھات کا ایک چھوٹا سا مجسمہ ہے جس کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی کہ عجائب گھر میں پڑی ہوئی ایک ننھی سی شئے کی ہے جوایک کونے میں پڑی ہو۔وہ ایک بے جان چیز ہے جس کے کوئی جذبات و احسات نہیں ہیں۔ اس کی سوچیں اب تخیل    والی  نہیں رہیں۔ وہ اپنے جسم سے کوئی نئی چیز پیدانہیں کرسکتے۔ ایک بار تو خاتون کو راوی سے اس طرح کی بوآتی ہے جیسے کہ ادویات کی آتی ہے۔یہ لاشعوری طور پر ذہنی بیماری ظاہر کرتی ہے۔جب راوی اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑاہوتاہےتو خاتون کی نگاہیں اس کا ایکسرے کر رہی ہوتی ہیں۔یہ جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔

چونکہ راوی مناظر خواب میں دیکھ رہا ہے۔ پس منظر کی تفصیل کرتے وقت  اس کی   شخصیت آشکار ہوگئی ہے جس سے اس کی خوبیوں خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔اس کے جذبات،آرزوئیں، تمنائیں،امنگیں  عیاں ہو جاتے ہیں۔خوابوں میں لاشعوری طور پر واضح تنہائی  دکھائی دیتی ہے۔لاشعور میں بنیادی خواہشات ۔ڈر ،خوف اور تنہائی ہے۔وہ ایک ہمنوا چاہتا ہے۔وہ جیون ساتھی چاہتاہےاور خیالوں میں اسے حاصل کربھی لیتا ہے لیکن چمچ کی آواز( دنیاوی خلل) اس کی خواہشات کا ستیاناس کر دیتی ہے۔

خاتون کاکردار بے نام ہے۔راوی  قید تنہائی میں مبتلا ہےجس کوآگ،راکھ اور دھات کی علاما ت کے طور پر پیش کیاگیاہے جو پاؤڈر اور قرمزی لپ سٹک سے بنائی گئی ہے۔اس کے لمبے،بڑے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو وہ مرغی کے پروں سے تشبیہ دیتا ہےجواس کی حقیقی یا تخیلاتی کمزوری اور احساس کمتری کو پیش کرتا ہے۔افسانے میں جب وہ افسردہ ہوتی ہےتو اس کارنگ سرخ ہوجاتا ہےا س قت وہ ایک پلیٹ کی مانند لگنے لگتی اور  اس کی جلد نرم، پیلی اور لوچدار ہے جوتانبے سے ملتی ہےلیکن یہ رنگت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔جب وہ سورہی ہوتی ہےتووہ کہتی ہےکہ ہائے میرادل!وہ اس میں کانپتی رہتی ہے اور تنہائی ختم کرنے کی جستجو کرتی رہتی ہے۔

'  بلوری چشم  امراؤ جان ادا   ' ' گیبریل کا ایسا افسانہ ہے جو جنگ عظیم دوم کے انسانیت سوز سلوک کے بعدلکھاگیا۔ جس میں لوگوں میں تجرد اور تنہائی ،غربت ،مفلسی،بے بسی۔ قحط، مفلوک الحالی اور بے روز گاری پیدا ہوگئی تھی۔اس دور میں ہسپانوی ادب  میں یورپ میں عموماً لیکن لاطینی امریکہ میں  قابل ذکر ترقی  ہوئی۔ جدید ادب کی جگہ تخلیقی ادب نے لے لی  جس میں جادوئی سچائی پر زیادہ لکھا جانے لگا۔اس دور کے ہسپانوی ادیبوں کو فرانسیسی میں 'آوینٹ گارڈی' کہاجاتا ہے۔جس کا مطلب ادبی طور پر ترقی یافتہ اور بےباک ادب ہے۔گیبریل گارشیا مارکیوز کاان ممتاز ادیبوں میں اہم ترین مقام ہے لیکن اس نے یہ ارجن ٹینا کےادیب' جارج لوئیس بورجس'  کی طرز تحریر کااثرقبول کیاجسے اس نے برملا تسلیم کیا ۔بورجس نے نیااسلوب اپنایاجو تخیلاتی تھا۔حقیقی دنیا کو نظر انداز کرتا تھااور ماورائی اور جادو ٹوناٹوٹکا وغیرہ کواہم شمار کرتاتھا۔اس کا ادب روائتی علامتی تہذیب اور روایت سے مختلف تھا۔جورجس اور گارشیانے حقیقت کی بجائے کہانی کے متن پر زور دیاجس میں وقت اور خلاکا  نظریہ واضح کیا۔

فرانس کی ترقی یافتہ اور بہادرانہ ادب کی حیثیت آفاقی تھی۔اس کی جزوی وجہ تو لاطینی امریکی ادب تھا جو گارشیاماکیوز اور جولیو کارٹزر کاتھاجنہوں نے اپنی عمر کابیشتر حصہ اپنے مادر وطن سے باہرگزارا  اور ان کے قومی ادیبوں نے بھی برطانوی اور امریکی تحریک کو اپنا لیاتھاجسے مابعدجدیدیت کہاگیاجس میں تحلیل نفسی پر زیادہ  زور دیا گیا تھا جن میں جیکوئس لاکن اہم تھا جس نے اس دور کی صحیح عکاسی کی۔

دوسری تکنیکی اور سماجی اثرات کی بنیادپرلاطینی امریکی ہی تھی جن میں جادوئی حقیقت پسندی تکنیک استعمال کی گئی جہاں دیومالائی قصے ،تخیلات، ماورائی قوتوں کو حقیقی زندگی میں بیان کیا جاتا تھا۔ بلوری چشم امراؤجان ادا ہسپانوی ترقی یافتہ نڈر ادب کی تحریک کے اوائل میں لکھا گیاافسانہ ہے جس میں عصری اور ماضی قریب اور بعید کا ادب شامل ہےجن میں مابعدجدیدیت اور جادوئی حقیقت پسندی دونوں ہی تجربے کے طورپر شامل کئے گئے ہیں۔ 

خواب ایک لاشعوری عمل ہے۔اس کہانی میں میں وہ یہ عمل بیان کرتا ہے جوخواب  دیکھنے والےکا شدت سے،جسمانی اور حقیقی ماحول میں وسیع طورپر بیان کرتا ہے۔یہ افسانہ لاشعوری الجھنوں کی وسعت بیان کرتا ہے لیکن گارشیامنفرد ہے۔اس کہانی کو بتانے میں لاشعور ی خواہشات پیش کرتا ہے۔


 

 

 

Life history

Gabriel  Garcia   Marquez

Nobe  Laureate

Nobel  Laureate  (1982)

Columbia

1928  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔1914

 

حالات زندگی 

گیبریل گارشیا مارکیوز  کولمبیا میں 1928  میں پیدا ہوا۔ اسے اس کے ننہال نے پالا۔  وہ   اپنی ادبی زندگی   کا سہرا  ان کے سر باندھتا ہے۔ اس  کی نانا  اور نانی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ نانی بچپن میں ایسی کہانیاں سنایا کرتی تھی جن میں  تخیلات پائے جاتے تھے ، وہ تفصیل میں نہیں جاتی تھی بلکہ اسے کہتی تھی کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق مکمل کرے۔  اس لئے اس نے جو ادب تحریر کیا ہے اس کی تفصیل کا بیان اپنے قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔اس کا نانا  کولمبیا  کی جنگ آزادی میں کرنل تھا۔فوج نے اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ اسے اپنی جنگ کے قصے کہانیاں بیان کیا کرتا تھا جس نے اس کی سیاسی سوچ اور نظریات قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ کمیونسٹ خیالات کا علمبردار تھا۔

گیبریل گارشیا ماکیوز کے واالد کا نام  گیبریل ایلجی یو  گارشیا   (Gabriel Elgio Garcia )اور والدہ کا نام لیوسا سیٹیاگا مارکیوز(  Luisa Santiaga Marquez )   تھا۔ وہ کولمبیا کے شہر آرا کاٹا کا (Aracataca) میں پیدا ہوا۔ اس نے ہائی سکول Barranquilla))   وہیں سے کیا۔ یہ شہر سماجی سرگرمیوں کا مرکز  تھا۔ہر وقت تقریبات  ہوتی رہتی تھیں۔ 1947 میں اس نے  دارالخلافہ بگوٹا کی نیشنل یونیورسٹی کولمبیا سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد وہ  بارینکیولا  واپس آگیا۔

اس کے افسانے 1948 میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ اس نے 1957 میں Mercedes Barchaسے شادی کی۔ وہ سیاحت کا شوقین تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ وہ کمیونسٹ ممالک، فرانس، میکسیکو  رہا۔ فیڈرل کاسٹر و نے انقلاب کی کامیابی کے بعد اسے کیوبا بلایا۔ وو اس کا گہرا دوست تھا۔اس نے تصانیف کے ساتھ صحافت میں نام کمایا۔ اس کا لقب  Gabo /   Gabito تھا۔کولمبیا  جرائم پیشہ لوگوں کا ملک تھا۔ منشیات فروشی اور اسلحہ کی سمگلنگ عام تھی اور اب بھی ہے۔ اس نے بدنام زمانہ منشیات کے سمگلر  (ُPablo Escobara)پر  آرٹیکل لکھے جو اس زمانے میں بے تاج بادشاہ تھا۔اس نے بہت سی فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور ڈرامے بھی لکھے ۔ اس کے اعلیٰ ادب پر اسے  نوبل انعام ( لٹریچر)    کا 1982 میں حقدار قرار دیا گیا

 مکمل اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Leaf   Storm  ( 1954)  , No One Writes to the Colonel   ( 1962-66) ,    One Hundred Years of Solitude ( 1967)  ,   Autumn of The Patriach  (1979-81) ,   Chronicles Of  A Death Foretold  (1982) ,  Collected Stories of Garcia Marquiz (1984)

یہ کہانی Collected Stories of Garcia Marquiz سے لی گئی ہے ۔ اوہ 87 برس کی عمر میں 2014 میں فوت ہوا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ  نسیان کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اور نمونیا  سے فوت ہوا۔


Popular posts from this blog