Life history and story Lyod John ....The Man in The Shed (Episode3) ..

 




 

 

( تیسری قسط )کیبن کاباسی

The Man in The Shed (Episode3)

By

Llyod Jones

مترجم : غلام محی الدین

والدہ جب تیراکی کرنے جاتی توباسی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتاتھا۔وہ باباکی غیرموجودگی میں جاتے اوراسکے گھرآنے سے پہلے واپس آجاتےتھے ۔ساحل پر سمندری حدود میں مختلف شعبوں کے لئے جو حصے مختص  کئے گئے تھے،کی لائن میں  دیکھتاتو  کےکپڑے ہمیشہ کی طرح  لٹکے ہوئے پاتاسہ پہر کو  جب نیلاآسمان اپنی روشنی کودیرتک  زمین پرپہنچاکر لوگوں کومجبورکردیتاتھاکہ سمندر کارخ کریں۔ میں  اس دن  گھرآیاتودیکھاکہ والدہ   وہ کپڑےجووہ سمندر میں پہن کرگئی تھی لٹکےہوئےتھےلیکن ان   کی حالت موزوں نہیں تھی ۔وہ جگہ جگہ نچرےہوئےتھے۔اس وقت والدہ  گھرپرنہیں تھی ۔ میرے ذہن میں فوری خیال آیاکہ کہیں  وہ کیبن  میں اس شخص کےساتھ  نہ ہو۔میں نے اصلیت  جاننےکےلئےکھڑکی سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا شروع کردیا۔دس منٹ بعد ہماری پالتواپنے گھروندےسے باہرآگئی اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے دائرے میں گھومنے لگی اورپھرگھرکےتاریک حصے کی طرف چلی گئی۔

چندلمحوں بعد والدگھر کےکسی کونے سےنکل  کرپھنپھناتا ہواآیااور تارپرسوکھے ہوئےکپڑوں کی طرف گھورکرکڑھتارہا  ۔ماں اس وقت  گھرپرنہیں تھی ۔خیال تھاکہ وہ  اس شخص کےساتھ ساحل پرگئی تھی۔بابانےمجھےکہاکہ مچھلی کےشکار کا سامان لےآؤں ۔جب ہم ساحل پہنچےتوپارکنگ کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔اس لئے باباکوکار دیوارکی پٹی پرکھڑی کرناپڑی ۔اس کےکنارےپرتیراکوں کاہجوم تھاجوقطار اندرقطارسمندرمیں چھلانگیں  لگاتھا۔سرسری اندازمیں دیکھنےسے  ایسالگ رہاتھاکہ جیسےدھوپ کی تمازت میں مویشی کھڑے ہوئےتھے۔ریت کےپاس جوخشک جگہ تھی کےآگے سمندری بگلے اڑ رہے تھے۔ باباشکاری سامان کوبیگ سےباہرنکال کر سیٹ کررہاتھااس لئے اس کی نظر ماں پر نہیں پڑی جو اس سےدور لہروں میں ایسے غوطےلگارہی تھی جیسے کوئی جھاڑیوں کےپیچھےقدم بوسی کررہاتھا۔وہ پانی دونوں ہاتھوں سے دھکیلتی اپنا سرنیچےکرتی ۔ماں کایہ روپ  اوراحساس بابا اور میرے لئےپسندیدہ نہیں تھا۔اس کے پیچھے ایک شخص اسی انداز میں تیر رہاتھاجو کیبن کاباسی تھا۔اسکی ٹانگیں لمبی تھیں۔اس نےتیراکی کا سوٹ پہناتھا۔انہیں دیکھ کرمجھے احساس ہوا کہ وہ دن بھر وہیں تھے۔بابا کےبدن پرکام والی نیلی قمیض  تھی اورپسینے سے بھیگ رہاتھا۔ ہم دیوارپرچڑھے اورریت پرچھانگ لگادی۔پانی کے دہانے پر مخصوص مقام پر ماہی گیر قطارمیں کھڑےتھے۔ان میں کئی چہرے شناساتھے اورواقف تھےلیکن

 ان کویہ علم نہیں تھاکہ باباکے خانگی حالات کیسے تھےاور نہ ہی اس کےغصے کاپتہ تھاجس سےتمام گھروالےپناہ مانگتے تھے۔

بابا نے اپناکام ختم کیااور اردگرد کاجائزہ لینے لگا۔ وہ ماں اوراس شخص کوڈھونڈرہاتھا۔میں بھی انہیں دیکھنے کے لئےایک قدم پیچھے ہٹا۔میں نے دیکھاکہ وہ دونوں اب ایک بیڑے کےپاس بڑی شان سے خالص رومانوی انداز میں آہستہ آہستہ تیر رہےتھے۔اس جگہ سمندر دوحصوں میں تقسیم ہورہاتھا۔پانی ساکن تھااور اس میں کیبن کا باسی تیررہاتھا۔ ان  دونوں کےاندازسے ایسالگتاتھاکہ وہ اس کھیل سے پوری طرح لطف اندوزہورہےتھے۔ایک بوڑھاچینی اپنے ہاتھ ڈنڈاپکڑے ایک ہی وقت میں بڑی مہارت سے دومچھلیاں پکڑرہاتھا۔اس کےقدموں میں درجنوں مچھلیاںپڑی تھیں۔اس میں درجنوں مچھلیاں پڑی  تھیں۔انہیں  زخمی کرکے خون نکالنے کی ضرورت نہیں تھی۔

ہرتیسرے غوطے کےبعد ماںاپنا منہ پانی سے باہرنکالتی اور سانس لیتی تھی۔ساحل میں اس نے ماہی گیروں کومچھلیاں پکڑتے ضروردیکھاہوگااور اس سے مزید آگے بھی۔  ہم نےاپنےجسموں پردھوپ کی تمازت سےبچنے والی کریم لگائی  ہوئی تھی ۔باباکا  دھیان اس شکارگاہ  کی طرف نہیں گیاتھاجہاں غیرمعمولی تعداد میں مچھلیاں تھیں۔پانی کے جس حصے پرباباتھاوہ ماں اور اس باسی سے دورتھا۔ باباکی  توجہ  مچھلی کے شکارپرتھی ۔وہ ان ماہی گیروں میں  شامل تھاجو اس بات پرخائف تھے کہ مچھلی ان کےہاتھ سےنکل رہی تھی کیونکہ وہ دائرے سے باہرجارہی تھیں جہاں انہوں نے شکارکے جال ڈالےہوئےتھے ۔ میں باباکےپاس کھڑاتھاجواس وقت پوری کوشش کررہاتھاکہ اپنے چہروں  کے بدلتےرنگ  اور آنکھوں  پرظاہرہونے والے خوف کوکنٹرول کرے  ۔ اس کوشش میں اس کاجسم کانپ  رہاتھا ۔وہ اس پر قابوپاناچاہتاتھا۔۔۔اورپھر بابا نے  بھی اس جوڑےکو دیکھ لیا۔ اس پرحقیقت عیاں ہوگئی تھی۔میں نے دیکھاکہ وہ آس پاس  پڑاکوئی کنکرتلاش کررہاتھاتاکہ انہیں  خبردار کرنے کےلئےان کی طرف پھینک کراحتجاج کرے۔۔اس دوران ہم نے دیکھاکہ   ایک دیوہیکل مچھلی ان  کی طرف بڑھ رہی تھی ۔اس قسم کی مچھلیاں ابتری پیداکرتی تھیں۔تمام لوگ جوہمارے ساتھ اس کنارے پرتھےاس وہیل کو  ماں کےپاس جوبیڑاتھا، کی طرف جاتے دیکھ کرگھبراگئے اوروہ لوگ جو نہائت اونچی لہروں پر سواری کرنے کے لئےان لہروں میں اپنے آلات (سرف  کاسٹر) اٹھارکھے تھےجو بارہ فٹ تک لمبے تھے،رک گئے ۔ہم اپنی قطار میں اس لہر سے دورہونےلگے۔پانی ہماری کمرتک آگیاتھااور ہم نے اپنے گھریلو تیارکردہ چمڑے کی چڑیا کو جھاگ میں وہاں ٹھہرنے کے لئے استعمال کیا۔

اچانک ہی ملاحوں نے وہیل مچھلی سے بچاؤکے لئے حفاظتی سلاخوں سےان پر حملہ کرنے کاسوچا جسے دیکھ کراس  بےقابو مچھلی  کوزبردستی رکناپڑاجس سے شورپیدا ہوا۔وہا  ں درجنوں آسٹریلوی وہیل مچھلیاں جن کانام آسٹریلیا میں ' کاہاوائی 'تھا،تنصیبات  کےگرد گھومنےلگیں۔ان میں سے  ایک ٹنوں من وزنی  مچھلی  اچھل کرریت پرآگری۔ کچھ ماہی گیروں نے ریت میں گڑھاکھودا اور اسے اس میں پھینک دیا جہاں سمندی پانی بھرگیاجس میں جھاگ تھی۔بابا بھی ان میں شامل  تھا ۔ مچھلی جس کےبارے میں یہ گمان تھاکہ وہ ابتری پیداکرے گی کوایک مچھیرے نے کانٹے سے اچک لیااور جھک کر اس کا جائزدہ لینےلگا۔ہرکوئی یہ انتظارکررہاتھاکہ اپنی شکارشدہ مچھلیوں کاحساب لگاسکیں ۔ہم وہاں سےمخالف سمت جاناچاہتےتھے جہاں روشنی زیادہ تھی اوراندازہ لگارہےتھے کہ سمندر کوعبورکرکے مخالف سمت جانا کس مقام سے ممکن تھا۔ اس جگہ اتفاق سے ایک مچھلی خود ہی آگئی لیکن اس کی حرکات نارمل نہیں تھی۔وہ عام انداز میں نہیں تیررہی تھی ۔نہ توپاس آرہی تھی اور نہ ہی دور جارہی تھی اور ایسی جگہ تھی جہاں تقسیم کرنے والی لائن  کی بیڑے کی چرخیاں  حسب منشا حرکت میں لائی جاسکتی تھیں۔اس کی وحشیانہ حرکات سے ماں ان چرخیوں میں ایسی پھنسی کہ اس کاپوراجسم اس میں جکڑ گیا۔مچھلی کوقابوکرنے اور والدہ کوبچانے کے لئے کےلئے حسابی اندازمیں کٹ کٹ کرتی  چرخی کی سمت تبدیل کی جاتی رہی۔ ماہی گیر اسے  مخصوص حرکت سے ایک خاص انداز میں اسے اپنے مطلوبہ سمت میں لاناچاہتے تھے۔وہاں موجود افراد ہنرمند،پیشہ ور اورتجربہ کارتھے۔سب ہم آہنگی سے اقدامات کررہےتھے۔ ایک فرد سلاخ کو  دائیں سے بائیں طرف کرتا اورپھر دوسرے کو تھمادیتاتھااور وہ بدلے میں اسے وہ سلاخ اگلےکو دےدیتاتھا ۔جب سلاخوں کی ادلا بدلی ہوجاتی تووہاں کھڑاایک  ماہر انہیں ہدایات دیتا کہ آگے کیاکرناتھااور کس طرح سے لائن توڑکر دوسری لائن میں  لے۔انہوں نے ایک تکنیک اپنائی جس میں باباایک بطخ کی طرح گہرےپانی میں اترگیا۔پانی اس کی کمرتک پہنچ گیا۔بابا ماں کو مصیبت سے بچانے کے لئےاس کو موقع کے مطابق بچانے کی بھرپورکوشش کررہاتھا۔ماں  اس  وقت گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔وہ اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔اپنی سی کوششیں کررہی تھی کہ خود کواس مشکل سے نکالے۔اس کےعقب میں ایک خمدار  کنڈا تھا جس میں وہ جکڑی ہوئی تھی جس سے اس کاہلناجلنا محدود ہوگیاتھا۔جیسے ہی باباچرخی گھماکرآگے گیا تو ماں کےقریب پہنچ گیا۔اس نے ہمت کرکے مزیدچرخی چلائی تووہ مزید ماں کے نزدیک ہوگیا۔اب پانی باباکی چھاتی تک آگیاتھا۔ ماں بابا کےساتھ پوراتعاون کررہی تھی اور مختلف سمتوں سے دونوں اپناپورازور لگارہے تھے۔میں نےدیکھاکہ تقسیم شدہ پانی اب دور ہوناشروع ہوگیاتھا۔ماہی گیروں کا ہجوم پورامنظر دیکھ رہاتھا۔جب انہوں نے یہ دیکھاکہ اب ماں خطرے سے باہرہوگئی  تھی تو زیادہ تر وہاں سے چلے گئے لیکن کئی آخرتک کھڑے رہے ۔ان میں میں بھی موجود تھاجویہ دیکھناچاہتاتھاکہ آگے کیاہوگا اوراختتام کیساہوگا۔

درمیانی لہر سے بابا بطخ کی طرح پانی میں چل کردورہوسکتاتھا جس سے ماں کو بچانے میں مدد مل سکتی تھی۔وہ بیڑے سے  آدھےفاصلے پرتھااوروہاں اسےاپنی سلاخ کوتبدیل کرکےاپنےبائیں طرف لاتاتو اسے چھڑانے میں مدد مل سکتی تھی ۔ وہ چاہ رہاتھا کہ ماں کے سامنے جاکر اسے سمندر کے پانی سےباہرلانے کےلئےاپنےویلڈنگ کرنے والے طاقتورہاتھوں بیوی کولہروں سے کسی نہ کسی طرح بحفاظت  نکالے ۔اس نے کوشش کی اور خود کو کھوکھلی جگہ پرلےگیاجہاں اسےاپنی سلاخ پھرسے اس ملاح کودینی اورلینی تھی۔اس نےایساہی کیااورماں  کوبڑی احتیاط سےریت پربٹھادیا۔اس نے نگاہ اوپرکی اورروروکرکہا کہ کچھ کرو۔مہربانی کرکے، مہربانی کرکے،مہربانی کرکےکچھ کرو۔اسے اس اذیت سےنجات دلاؤ۔ماں کےکندھےاٹھےہوئے تھے        اور اس کاپچھلا حصہ شکنجےمیں دباہواتھااوروہ اسے دھکیل رہی تھی۔مجھے اندازہ ہوگیاتھاکہ وہ کیاکرناچاہ رہی تھی۔اس کی جسمانی  بناوٹ  سے یہ خصوصیت تھی کہ وہ جھک کر ،قوس بناکرہی کنڈے سے نکل سکتی تھی۔وہ اپنے تئیں تدبیر کررہی تھی کہ اس کی کھال کسی طرح کنڈے سےباہرآجائے۔اس کو ہدائت  کی گئی  کہ اپناجسم ڈھیلاچھوڑدےتواس نےایساہی کیا۔اس صورت حال میں میرا خیال تھا کہ کسی نے بھی اس کے بڑھے ہوئے پیٹ پرغورنہیں کیاتھا۔پھولا ہوا ہونا ہی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔بابانے ماں کوچھڑانے کی کوشش میں  اگلاقدم اٹھانے سے پہلےاوپر دیکھاتو اسے میں  نظرآگیا۔اس نے مجھے ہدائت دی کہ میں  اپنی ماں کےقریب گھٹنوں کے بیٹھ جاؤں اور اس کامنہ پورا کھول کر اپناہاتھ اس کے منہ میں ڈال دوں۔

والدنے  ٹھنڈے دماغ سے ماں کواس  کنڈےسے آزادکروانے کاحتمی طریقہ سوچاتھا۔وہ اپنے مجھے ہدایات  میں اس پرمن وعن عمل کررہاتھا۔اس نے بتایا کہ ایساکرنےسےمجھے تکلیف توہوگی لیکن اس سے میری  والدہ کی زندگی بچ جائے گی۔اس لئے مجھےیہ تکلیف  برداشت کرناپڑے گی  یاد رکھو تمہیں بہت تکلیف ہوگی لیکن تم سے زیادہ تمہاری ماں  کوہوگی۔

میں نےاپنابازوماں کےمنہ میں گھسادیا۔اس  وجہ سے اں کےجسم کی کھال جو کنڈی  میں پھنسی ہوئی تھی کوزور سے کھینچ  گئی ۔اس سے اس کاجسم  کنڈے سے چھوٹنے میں مدد ملناتھی۔ایساکرنے سے ماں کی کھال  جسے کنڈےنے جکڑاہوا تھا، کوزورسے  دبادیااوراس کاپھولاہوا پیٹ اندرچلاگیااور کچھ جگہ بن  گئی اورہ کھال کاوہ حصہ جوکنڈے اردگرد لپٹا ہوا تھا کو وہاں  سے نکالنےکی جگہ بن گئی  اوراس کی جکڑسے باہرآگئی۔اس سے اسے موقع مل گیاکہ گلاقدم اٹھائے۔اس نے کنڈے کوزور لگاکراوپرکیاتو ماں کاجسم اس کنڈے سے چھوٹ گیااور اس کاباقی جسم بھی آزاد ہو گیا۔ماں درد سے بلبلارہی تھی لیکن میرابازواس کےمنہ میں تھااس لئے وہ چیخیں دب گئی تھیں۔وہ گھٹ گھٹ کرایسے سانس لےرہی تھی جیسے کسی کےمنہ پرتکیہ رکھ کردبایاجائے ۔۔۔میں نےبازواس کےمنہ سے نکال لیاتواس نے میرے بازو کےاگلے حصے پرتھوکااورایک موٹی سی گالی دی جو اسقدر واہیات تھی کہ میں  نے ایسی  گندی  گالی اس کے منہ سے کبھی نہیں سنی تھی اور نہ ہی مجھے اس کا مطلب آتاتھالیکن تھی کوئی انتہائی بیہودہ  گالی۔گالی سن کربابا ہلکا ساکھسیانی ہنسی ہنسا۔ کھال چھڑانے کی تدبیر پرکچھ ناظرین نے اس کی کامیابی پر تالیاں بجائیں اب ماں کاجسم توآزاد ہوگیاتھالیکن وہ اب بھی اس جگہ سے نکل نہیں سکتی تھی۔وہ ان آلات میں ایک دوسری سلاخ کی جکڑ میں تھی جووالد کے مخالف سمت تھی اور والد کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس کاکنٹرول دوسرے شخص کےپاس تھا ۔ ماں کےدائیں کندھےکےعین نیچےزخم سے صاف  دیکھاجاسکتا تھا  کہ کس جگہ سے پہلے کنڈے نے اسے جکڑاتھا۔اس کی پشت پر ایک زخم ہوگیاتھاجس  سے خون رس رہاتھا ۔میں اپنے بازوپراس کے دانتوں کے گہرے نشانات  دیکھ رہاتھاجوبازو کےاگلےحصے پرمیری چمڑی ادھڑگئی ۔میں اس زخم کودوسروں کودکھانے کوبیتاب تھا۔میں اس وقت چاہتاتھاکہ کوئی مجھ سے ہمدردی جتائے اورمیری تکلیف پرشاباشی دے، رحم آلود نظروں سے دیکھے تواس وقت مجھے باسی یادآیا۔وہ مجھے کچھ دور بیڑے کےپاس  کھڑادکھائی دیا۔وہ حادثے کی جگہ سے دورتھا۔میرے دل میں اس وقت شدید خواہش پیدا  ہوئی  کہ وہ بندہ گہرے سمندر میں غوطہ لگائے اور پھر کبھی سطح پرنہ ابھرےاور ہماری زندگیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے نکل جائے۔

بابانے  چرخی کےچمڑے کی چڑیاکوپکڑا اوراسے غور سے دیکھنے لگااور سوچنے لگاکہ مزید کیاکیاجائےتا کہ ماں اس جگہ سے بخیرنکل آئے ۔ اس وقت کسی نے بابا کےکندھے پر تھپکی دی اور اسے اور دوسرے آدمی کو کوئی طریقہ بتایا۔انہوں نے وہ استعمال کیاتووالدہ اس رکاوٹ سے نکل آئی۔اب وہ پوری طرح  آزاد تھی۔خطرے سے نکل آئی تھی اوراپنی مرضی سے  ہرجگہ جاسکتی تھی۔یہ بہت مشکل مرحلہ تھاجوبابا نے دوسروں کی مدد سے طےکرکے ماں کوبچالیاتھا۔ہم سب اکٹھے گھر آئے ۔ماں باپ اور میں خداکاشکراداکررہے تھے۔۔کسی نے  اس کی تفصیل میں بات نہ کی۔کئی گھنٹوں بعد ماں کی کار ساحل سے گھرلائی گئی۔

اگلی صبح میں باورچی خانےگیاتوماں چائے پی رہی تھی۔اورباباکوناشتہ کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔میں وہاں سے کھسکنے لگاتو اس نے میرے  قدموں کی چاپ سن لی۔اس نے اپنے نائٹ گاؤن کےپلوپکڑکر بندکئےاوران پرہاتھ رکھ لیئے۔اوراپنی کرسی کوچکردینے لگی ۔وہ مجھے کچھ دکھاناچاہتی تھی۔اس نے اپنے کندھے سے گاؤن نیچے کیااور دائیں کندھے کےبلیڈ کےنیچے اپنازخم دکھایا۔اس کےبعد اس نے میرے بازوکازخم دیکھا۔میراشکریہ اداکیا۔میری تعریف کی اور کہاکہ میں کتنابہادر تھا۔اتنی زیادہ تکلیف میں ایک لفظ بھی شکوے کانہ نکالا۔میں نے اس کی باتوں پردھیان نہ دیا۔اس نے باباسے پوچھاکیا اس دوران اس نے میرےمنہ سے چیخیں وغیرہ سنی تھیں توبابا نے منفی میں سرہلایااور اپنے ناشتے پر توجہ رکھی اورایک لفظ بھی نہ بولا۔

چھ ہفتوں بعد نیلے آسمان کے نیچےپہاڑ کی چوٹی پر والداورمیری آنکھیں اورچہرے منفی بیس ڈگری میں پھٹ رہے تھے۔ یخ بستہ ہواپگڈنڈیوں کی گھاس پربھی چل رہی تھی۔حد نگاہ تک بحری پرندے اور بگلے ہرسمت اڑرہے تھے۔جنگلے اور فارم کے دروازے کی طرف ،خاردار درختوں کےنیچےجہاںجمی ہوئی ندی تھی۔وہاں صرف ایک عقاب ۔اتنی سردی میں یہ  کشٹ ہم نے اس لئے کیاتھا کہ ہم وہاں  ایک نومولود بچے کودفن کرنے کی  جگہ دیکھنے گئے تھے ۔مردہ بچہ وقت سے پہلے پیداہوگیاتھا۔وہ ایک چھوٹا ساتھا۔اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی تھی۔ ننھاساپیارا مکھڑا! اس موقعے پرایساہی کیاجاسکتاتھا۔کئی سال بعد میں نے اس کی موت کے پروانے پر اس کےباپ کانام دیکھ تووہ باباکانہیں تھا۔ میں نےاسے بچے کو ایک نظراس وقت دیکھاتھاجب وماں نے  اسے باباکوپکڑایاتھااوراس نےاس کاخون صاف کیاتھا ۔ مردہ بچہ اس وقت گھرمیں اون کےکمبل میں لپٹاتھا ۔ والد اسے دفنانے کی جگہ دیکھنےاور میں اس کی مددکےلئے گیاتھا۔ مختلف مقامات دیکھنے کے بعد مناسب ترین جگہ منتخب کرلی تھی جہاں کھدائی کے نشان نظر نہ آنےتھے۔اس طرح ماں اب  فارغ ہوگئی تھی اور گھر کی دوسری لڑکی  میری بڑی بہن  جو ابھی نابالغ تھی   چند ہفتوں بعد اپنے حرامی بچے کوجنم دینے والی تھی۔مردہ بچہ پیداہونے کے بعد میراخیال تھا کہ کیبن  کاباسی ہمارے گھرسے چلاجائے گالیکن ایسانہ ہوااوراس کی واپسی کاکوئی امکان بھی نہیں لگ رہاتھااورمعاملات پھرویسے ہی ہوگئے تھے جیسے پہلےتھے۔

بہن کو سرکاری  کیمپوں جو حکومت نے ایسی حاملہ عورتوں کے لئے قائم کیاتھا ۔بھیج دیاگیاتھا۔بابانےفیصلہ کیاکہ میں اپنی بڑی بہن پین کےپاس موٹرکیمپ میں جاکررہوں تاکہ وہ اپنے گھرکی مکمل صفائی کرسکے۔میراسکول شروع ہوچکاتھالیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاتھاکیونکہ باپ نے مجھے وہاں بھیجنے کافیصلہ کرلیاتھا۔وہ مجھے پین کےپاس لےگیا ۔موٹر کیمپ کا دفتراستقبالیہ برف سے پوری طرح ڈھکاہواتھا۔والد نے میراسامان وہاں اتار دیااور اس نے مجھے کچھ رقم دی۔اور یہ کہہ  کر کہ میں یہ رقم میں اپنی بہن کودے دوں،چلاگیا۔اس کےعلاوہ  اس نےایک کیک بھی دیاجوچائے والے ڈبے میں  ڈال کرتولئے میں لپٹا تھا۔ ماں چاہتی تھی کہ وہ تولیہ واپس لایاجائے۔استقبالیہ کےکیبن سے ایک منہ باہرنکلا ۔مجھے دیکھ کر اجازت دےدی کیونکہ  وہ مجھے جانتاتھا۔میں نےسکول کابستہ اور بیگ جس میں میرےکپڑے ،سفری بستراور ٹوتھ برش وغیرہ تھے اٹھائے اوراپنی بہن کرموٹرکیمپ کی طرف چل پڑا۔

وہ ایک شاندار دن تھا۔ہواسورج نےوہاں کےجانوروں کاپاخانہ سوکھا دیاتھا۔مجھے وہاں کےہرکیمپ میں کوئی نہ کوئی خرابی نظرآرہی تھی۔اس علاقے میں چندگھنٹےتوگزارے جاسکتے تھے لیکن زیادہ دن گزارنے ناممکن تھے۔میرادل ساحل جانے کوکرتا تھالیکن موٹر کیمپ کےنزدیک ایک صابن کی فیکٹری تھی جومجھے بہت اچھی لگتی تھی۔اس کےقریب ہی گولف کلب تھا۔ میں اس جگہ جاپہنچا جہاں موٹر کیمپوں کی کالونی تھی۔وہاں کےرہائشی اپنےدروازےبندکرکےسورہےتھےاور کئی کیمپ خالی تھے اوران کے دروازوں پر تالے لگے تھےجن پرزنگ لگنے لگاتھالیکن میری بہن کے ڈربہ نما یمپ کادروازہ کھلاتھا۔وہ ایک رسالہ کھول کر اس میں اپنی ناک ڈبوکربڑی محوہوکر اسے پڑھ رہی تھی۔ٹرانزسٹر پرموسیقی چل رہی تھی۔وہ ایک بیمارکی حدتک زرد تھی۔اس کی ٹانگیں گلابی اور سفیدتھیں۔اس نے ورزش چھوڑدی تھی اس لئے اس پرگوشت چڑھ آیاتھا۔ایک وقت تھاکہ وہ ساحل پر شیرنی کی طرح دھاڑتی اور دوڑتی پھرتی تھی۔وہ اب اپنی غلطی کی وجہ سے دوسرے ماحول جس میں  پلاسٹک کی ورق سازی  اور فولاد کےکارخانےکی  سڑی ہوئی فضامیں دن گزارنا پڑرہے تھے۔میں نےکھلا دروازہ دیکھ کراپناسر ڈربےکے اندر گھسایا اوردیکھاکہ فرش پر دوچھوٹے بسترجہاں  پین کابوائےفرینڈ جمی اوروہ سوتی تھی اور ایک میز پڑاتھا۔میں  نے سوچاکہ میں کہاں سوؤں گاتوپین نے ساتھ والے  غلیظ کیمپ کی طرف اشارہ کردیاجسے میں نےدیکھا تونفرت سے اپنے نتھنے سکیڑلئے اور سوچاکہ ایسی گندی  جگہ پرکون سوسکتاتھا ۔صرف عقل کااندھاہی وہاں رہ سکتاتھا۔۔ ۔لیکن مجھے وہاں اس وقت تک رہناتھاجب تک میری بہن  زچگی سےفارغ نہیں ہوسکتی تھی۔

تمہیں اس ڈربے میں ہی رہناہوگا۔پین نے حتمی  فیصلہ صادرکردیا۔

جب میں نے اس موٹر کیمپ  کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تووہ پھنس گیا۔پین نےآنکھیں گھماکر  مجھے وہ دروازہ کھولتے دیکھااور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ہم دونوں نے بڑی جتن  سےاسےکھولااور اندرگئےتودیکھاکہ میزپرایک مکھی مری پڑی تھی جوشائد ٹھنڈ کی بجائے بوریت سے مرگئی ہو گی۔میں نے اپناسامان وہاں پھینکااور ان کیمپوں میں  چلاگیاجہاں  اجتماعی غسل خانے اور بیت الخلا تھے۔وہاں میری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو وہاں  کسی ایک میں رہتی تھی۔وہ بڑی ہنس مکھ  تھی جو میری والدہ کی عمر کی تھی۔بعد میں پین نے میرااس سے تعارف کروایاتواس نے خوش دلی سےکہاتوتم ہی عزت مآب ماموں ہو؟

گھر میں توکسی نےبھی  مجھ سے کبھی اس بات کاتذکرہ نہیں کیاتھاکہ مجھے  پین کی تیمارداری اوردیکھ بھال کی  ذمہ داری سونپی جانی تھی جو میری بڑی بہن کی خفیہ کارستانیوں سے پیداہوئی تھی۔کیمپ کےدفتر کےقریب بچوں کے اچھ کود کرنے والا کھانے والا  کھیل  (ٹیمپلین) پڑاتھا۔ہم نے اسےدیکھااوراتناہی ہو سکا ۔اسے میں نےاستعمال نہ کیا۔اس کے بعدہم دوبارہ پین کے   موٹر کیمپ چلے گئے۔میری بہن دروازے میں بیٹھ گئی اوررسالے کوپکڑلیا۔میں  پاس ہی کھڑا رہا۔چند منٹوں بعد اس نے اوپر دیکھا،اورمجھے وہاں دیکھ کر غصے ہوئی اور کہاکہ تم وہاں کھڑے ہوکرکیاکررہےہو؟ کیا یہاں کھڑاہونےکےلئے آئے ہو؟کوئی کام کرو۔اس نے اپنے پیچھے سے ایک رسالہ اٹھایااورمجھے کہاکہ اسےپڑھو۔میں اسے اپنے کیمپ  میں لےگیااور جوصفحہ میرے سامنےآیاوہ غذائیت کےبارےتھاجس میں خواتین نےاپنے اپنے تجربات لکھے تھے اور تجاویز پیش کی تھیں کہ کون سی اشیا غذائی لحاظ سے بہترتھیں اورکون سی نہیں۔موٹاپادورکرنےکےنسخےبیان کئے گئےتھے۔ایک خاتون نے کس طرح اپناوزن 350پونڈ کم کرکے 130پونڈکیاتھا،کاطریقہ بیان کیاتھا۔دوسرے صفحات پرمشہور شخصیات کے سکینڈل،کن کی شادیاں ٹوٹ گئی تھیں ،کن کارومانس چل رہاتھا۔اس کے علاوہ ٹی وی میں موسم کاحال بتانے والی کی شادی ہونے والی تھی وغیرہ جیسی معلومات تھیں  جن کے بارے  پین ماہر ہو چکی تھی ۔ اس دلچسپی سےوہ اپنی درسی کتب پڑھتی تو وہ اول آنےوالی طالبات میں ہوتی اوریہ گل نہ کھلاتی۔

 میں نے سرسری نگاہ ڈال کر رسالہ بندکردیااورموزوں طریقے سے وقت گزارنے کافیصلہ کیا۔ میں نے ایک لمبی تارلی اورکیمپ کے اردگردایک جنگلہ بنادیا ۔ میں چند کیمپوں کےپاس پہنچاجہاں موٹریں لگی ہوئی تھیں۔ ارد گرد گھوماتومجھے ایک ندی نظرآئی اوراس کےکنارے پرچلتاگیا۔میں ایک ایسی باڑ کےپاس پہنچاجوکیمپوں کوباقی دنیاسےالگ کرتی تھی جہاں لوگ گولف کلب  تھی ۔میں نے تین کھلاڑیوں کو گولف کےتھیلے لےجاتےہوئےدیکھا۔وہ اٹھکیلیاں کرکے ایک دوسرے کو چھیڑتے،مکے مارتے،ہنستے کھیلتے کھیلنے جارہے تھے ۔اس وقت ایک جہاز گہرے نیلے آسمان میں اڑا۔ایک کالاپرندہ  باڑ پر جھپٹا۔میں نے گولف کھیلنے والے کھلاڑیوں کےسایوں کاپیچھاکیاجوکہ کاٹی گئی گھاس میں سے ہوکرجاتی تھی اور آخر میں جوکچھ دیکھ یاسن سکتاتھاوہ ان کے قہقہے تھے۔

اس کےبعد میں نے اپنی بہن کومجھ  پرسیخ پا ہوتے دیکھا۔وہ مجھ سے اس لئےناراض  تھی کہ میں نے اس کی آوازیں کیونکر نہیں سنی تھیں اور میں اس کے پاس کیوں نہیں گیاتھا۔اسے دودھ چاہیئے تھا۔اب وہ مجھ پربھروسہ نہیں کرسکتی تھی اور جمی کاانتظار کررہی تھی۔ میں خاموشی سے اس کی ڈانٹ سنتارہا۔اس کاذمہ دار میں نے گولف کے کھلاڑیوں کو ٹھہرایا (مجھے یہ ہدائت کی گئی تھی کہ میں کوئی ایساکام نہ کروں جس سے پین نفسیاتی طورپرمجروح ہویااس کی دل آزاری ہو)اور جب اس نے اپناسردوبارہ رسالے میں دھنس دیاتومیں باڑکی طرف چلاگیاتاکہ گولف کاکھیل دیکھ سکوں۔میں نے جب بادلوں کی طرف دیکھاتووہ کئی حصوں پر رکے ہوئے تھے جبکہ باقی آسمان صاف تھا۔اس کانیلارنگ میری آنکھوں کےسامنے آگیا۔اس وقت ایک ہوائی جہاز ادھرچکرکاٹنے لگا۔ اس کے پر کمزور تھے ۔اس کانچلاحصہ سفیدتھا۔اس وقت مجھے وہ سب سے بڑی مچھلی یاد آئی جومیں نے گرمیوں کے آغاز میں ساحل پردیکھی تھی۔اس کا پیٹ سفید، بہت بڑااورموٹاتھااور اپنادرشن کراکر ادھردھرچکر لگاکرسمندری رہائش گاہ چلی گئی تھی۔مجھے یہ منظر دیکھ کر جوش آگیا۔ میرادل اس واقعے کےبعد تیزی سے دھڑکنےلگا۔ان دنوں جوآگےآنےوالےتھے اور شوروغل  اورگولف کےکھلاڑیوں کاجوش و جذبہ اور جھگڑے سنے جاسکتے تھےجن کوسن کر مین محظوظ ہوتاتھا۔پین رسالےپر نظریں جمائے پوچھتی کہ میں کیوں خوش ہوتاتھا؟

بدلتے  موسم  میں جو گرم اور طویل تھا، میں گھاس کاٹی نہیں گئی تھی۔جہاں میں وہاں کھڑاتھا  وہاں گھاس کے تنکے کانٹے بن گئے تھے جومجھے چبھ رہےتھے۔میں اس پرچل رہاتھا۔اس پرچلنےسے میرے پاؤں زخمی ہوگئے تھے اورخون رسنے لگاتھا۔میں چلتارہا۔

میں توموٹرکیمپ میں تھالیکن میرے گھرمیں دن رات کیاچل رہاتھا مجھے معلوم نہ تھا۔جب میں پین کے پاسپاس موٹر کیمپ میں آیاتھا توبرفباری کاموسم تھا۔میں شدید سردی میں باڑکےپاس کھڑاگھنٹوں سوچتارہتااورآسمان کی طرف دیکھتارہتا۔مجھے یہ تومعلوم تھاکہ ایک دن سب سامنے آجائے گالیکن اس کےلئے انتظارکرناپڑے گا۔لیکن اس وقت یہ شدید خواہش تھی کہ  گھر میں کیبن کےباسی کی وجہ سے جومسئلہ پیداہواتھا،فوراً ختم ہوجائے۔

اس مہینے کےآخر میں والد موٹر کیمپ آیا۔جمی اور پین کوبتایاکہ وہ جلد گھر واپس آرہے تھے۔اس روز تونہیں  بلکہ چند دنوں بعد ۔

کار میں والدکارویہ بالکل مختلف تھا۔وہ اچھے موڈمیں گاڑی چلارہاتھا۔میں نےاس کےبدلےہوئے رویے پرغور نہ کیا۔میں نے کوئی سوال جواب نہ کیاکیونکہ اس کا دل سنجیدہ  گفتگو کرنے کانہیں تھااسلئے اس نے موسم اور کھیلوں پرگفتگوشروع کردی۔نئے سیزن کے کھیل شروع ہونے والے تھے۔اس نےمجھے کہاکہ سکول کی سینئرٹیم میں خود کورجسٹر کروالوں کیونکہ اسے پتہ تھاکہ میرا کھیل بہتر ہوچکاتھا۔میرے کھیل کی مہارت ،قد اور وزن میں اضافہ ہوگیاتھااسلئے اپنےدرجے والی ٹیم میںاب مجھے  کھیلنے کاٹیسٹ دیناتھا۔

جوں ہی ہم گھرداخل ہوئےتووہاں کی ایک بات یاد آئی۔ سرخ اینٹ جوٹوٹ گئی تھی کو دوبارہ اپنی جگہ پرمضبوطی سے جوڑ دیاگیاتھا۔ جوخوبصورتی اور مضبوطی کایقین دلارہی تھی۔میں بھاگم بھاگ اپنےکمرے میں گیا۔اپناسامان پھینکنے سےپہلے میں کھڑکی کےپاس گیا اور  یہ دیکھنے کےلئےکہ کیاباسی اب بھی وہیں تھایاچلاگیاتھا۔اس لئے عقبی صحن کاجائزہ لینے لگااور میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ وہ جاچکاہوگا۔اس شام اور ڈنرکےبعد ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے وہ نہ آیا۔۔۔اس کے بعد بھی کئی دن  تک بھی  میں انتظار۔۔۔انتظار ۔۔۔انتظارکرتارہا  ۔۔۔وہ بالکل نہ آیااور نہ  ہی کبھی اس کاذکرہوا۔میرااندازہ صحیح ثابت ہوا۔وہ کیوں گیا مجھے اس کاعلم نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے اس پرروشنی ڈالی۔سب  سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مجھے ابھی تک  اس کے نام تک کا پتہ نہیں تھا۔

ایک عرصے بعدگھرکی تزئین وآرائش نئی توانائی سےکی گئی۔اگرچہ واشنگ مشین پرانی تھی لیکن اس میں ڈالے جانےوالے پارچات اورلباس نئے اور جدید ڈیزائنوں کےتھےجوموسم بہار کی آمدکاپتہ دےرہےتھے۔اگر ہمارے گھر کاپین کےموٹر  کیمپ والےگھرکاموازنہ کیاجائے تو ہمارے گھر کےکپڑے توبہت نرم،ملائم اور صاف ستھرے تھے جبکہ پین  کےکپڑے میلے،پرانے،پھٹے ہوئے اور مچڑے ہوئے اور لکڑی کے تختے کی طرح سخت تھے۔

میں نے جب والدہ کےتیراکی کے لباس کی پٹی جووہ کیبن کےباسی کےساتھ پہنتی تھی کوسیدھالٹکانے میں مدد کی تو میں نے اسکے بکھرےجذبات اور رومانویت یکجاہوتےہوئےدیکھا۔اس تیراکی کی قمیض کی آستین گندگی سے بھری ہوئی تھی۔اس کی پینٹوں نے جووہاں لٹکی ہوئی تھیں  نےنیااحساس پیداکردیا تھا کیونکہ وہ ٹانگوں سے  ابھری ہوئی تھیں ۔صرف جرابوں کے دونوں جوڑے صحیح تھے ۔کپڑےاکٹھاکرکے دھونےسےتازہ ہوا بحال ہوگئی تھی۔معاملات کونارمل کرنےمیں والدکاہاتھ زیادہ تھاجواس نئے سسٹم پرپورانہیں اترتاتھا جسمیں میں نے پرورش پائی تھی۔

میں اب بڑاہوگیاتھا۔بابا کی ڈینم کی وہ قمیضیں جوپرانی ہوگئی تھیں اور ان کارنگ اڑگیاتھاپہننے لگاتھا۔ان کااڑاہوارنگ مجھے  پسندتھا۔ جو اس شئے کی علامت تھی کہ مجھ پر ماضی نے گہرے اثرات ڈالے تھے۔علاوہ ازیں اس دوران میں نےاپنے بھی   کئی تجربات کرلئے تھےاور ماضی کے حالات کی سمجھ آگئی تھی لیکن میں پین والی غلطی نہیں کی تھی۔۔بابا کی قمیض نےمجھے دنیاکانیااحساس دیاتھا۔نیامعیار دیاتھااور میں وہی اپنارہاتھا۔

ماں پنگھوڑے پر بیٹھی تھی اورمجھے باباکی قمیض پہنتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔اس کے منہ سے نکلا۔

لودیکھو! اسے دیکھو! ۔۔۔کہہ کرایک لمحے کے لئےمسکرائی۔میں نےاپنی بڑی بہن پین کودیکھاجوپورے آب وتاب سے بیٹھی تھی۔اس نے میری طرف دیکھا۔دوروحیں آپس میں ملیں اور گزر گئیں۔ماں کی مسکراہٹ پھیل کرقہقہے میں بدل گئی۔

تم کیادیکھ رہے ہو؟ ماں نےکہا۔۔۔تم کس کودیکھ رہے ہو؟

  

Life history

Dr,   Martin  Llyod  Jones

Newzealand

1955………..

حالاتِ زندگی

لائیڈ جونز کا  پورا  نام              مارٹن لائیڈ جونز تھا۔وہ                                  '              لوئر                                           ہٹ ( ولنگٹن )               '         میں  پیدا ہوا،اس نے ہٹ سکول سے ہائی سکول پاس کیا۔یونیورسٹی آف ولنگٹن سے   پولیٹیکل  سائنس میں  پورے کریڈٹ  کامیابی سے مکمل کئے لیکن اسے ڈگری  نہ دی گئی کیونکہ اس کے ذمہ  لائبریری  کے جرمانے کی رقم واجب الادا تھی۔بہرحال وہ اس نے 2007 میں حاصل کرلی ۔اسے مئی 2009 میں وکٹوریا                                     یونیورسٹی سے اعزازی  ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی گئی۔ڈگری اور  سیروسیاحت کے بعد ،جونز سپورٹس کارپورٹر بنا جو رات کے پروگراموں  کی رپورٹ دیتاتھا۔اس کے ساتھ ہی اس نے  ادب میں قدم رکھ دیا۔اس کاپہلا ناول گلمورز             ڈائری 1985 میں چھپا۔یہ ایک طنز بھراناول تھاجو ایک      ایسے  نوجوان  جو نیوزی لینڈ کے چھوٹے گاؤں میں پرورش پارہاتھا کے مسائل پر تھا ۔اس کادوسرا ناول    1988 میں   چھپا              جس  کا  نام        سپلنٹر  تھا جس میں  لوئر ہٹ  جو ایک تارک الوطن  تھااور نیانیاآیاتھا ، کے مسائل  کے بارے میں بتایا۔اس نے  اپنے ناولوں میں مضافاتی علاقوں  کی حقیقت بیان کی ہے۔

جونز کابڑابھائی آسٹریلیاکاادیب ہے۔مارٹن لائیڈ جونز کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اس کاایک بیٹا جس کا نام               ایوی  ڈکر   ہے، ایک ٹیلی ویثن شو                     'سر واا ئیو ل '          ہے، پیش   کرتاہے۔اور دوسرا بیٹا جس کانام  سیم  ڈکر جونز آرٹسٹ اور ادیب ہے۔

وہ اپنی تحریوں میں حقائق لکھتا ہے اور اپنے مواد کی صحت ، اعتباریت ، اصلی اور چیلنج قبول کرنے والا ہے۔

Gilmore’s Diary(1985),  Splinter (1988), Swimming to Australia, and other Stories (1991). Biographi :An Albanian Quest (1993), A history of Silence (2013), The Cage(2018), The Fish (2022). Etc.

Awards

1989 Meridian Energy Katherine Mansfield Fellowship, 1991 Shortlisted for New Zealand Book Award in fiction.2003 Montana  Book Awards Deutz Medal, 2005 Commonwealth Writers Prize Book for Everything you Need  to   Know the world by Simon Eliot. etc.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 


Popular posts from this blog