jeber Bin Hayyan






جابر بن حیان

Jabar Bin Haiyyan

815۔721Soras (Khorasan )

مرتب    :  غلام  محی الدین 


حالات زندگی  

جابر بن حیان کا  پورا  نام ابو موسیٰ بن  حیان  الذوی الحرفی تھا۔انگریزی میں انہیں 'جیبر' کہاجاتاہے۔وہ طوس( طس) میں  جو  اس وقت خراسان میں واقع تھالیکن آج کل افغانستان میں واقع ہے میں 721ء کو پیدا ہوئے۔ایران ن،افغانستان اور ترکمانستان تک پھیلا ہواہے ) سامانی حکمران قابض تھے جنہیں  بنی  امیہ نے شکست  دے کر اپنی حکومت قائم کرلی تھی ۔ مقامی آبادی زیادہ تر ایرانی تھی ۔جابر بن حیان کے آباؤاجداد یمن کے ایک قبیلے ' بنوُاذو 'سےتھے جوبنی امیہ کے دور  ( 661ء تا 680ء) میں  ہجرت کر کے  عراق آباد ہوگیا تھا جوکوفہ  کے نواح میں  دریائے فرات  کے نزدیک تھاسکونت اختیار کرلی  تھی ۔تاہم  جابر بن حیان سے متعلق  مورخین کی رائے میں فرق  موجود ہے۔ آیا وہ عربی تھے یا کوفہ سے ایران آکر آباد  ہو گیا  تھا  یاپیدائشی طور  پرایرانی نژاد تھے او بعد میں کوفہ چلے گئے تھے،کو وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ۔ان کا باقی ماندہ خاندان  ریاستی خوف سے یمن بھاگ آیااور یہیں جابر بن حیان نے پرورش پائی اور وہیں تعلیم حاصل کی۔

ان کے والد  حیان  احمد جان الُذوی اچھے کیمیا دان  اور حکیم تھے  اور اپنی  تجربہ  گاہ   میں نے نئے عطر ،ادویات اور سونا بنانے کی بھٹیاں لگائی  ہوئی تھیں ۔وہ نئے نئے عطر ،عطر اور سونا بنانے میں مصروف رہتے تھے۔ان کے والد کی فوت کے بارے میں مورخین  کی آرا مختلف ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان دنوں وہاں پر فاطمیوں کی حکومت تھی جو دراصل اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے حیان کےبارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں ۔ جن میں کسی  بھی معاملے کو وثوق سے نہیں بیان کیا جاسکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ منگولوں نے وہاں قبضے کے بعد لائبریریوں کو یا تو آگ لگادی تھی یا کتب  کو دریا برد کردیا ۔تھا۔جو کچھ  بچالیا گیا وہ  مکمل معلومات فراہم کرنے سے قاصر تھا۔اسماعیلی  فرقہ  اہل تشیع کا   ایک  فرقہ ہے جو اثنا عشریہ  ( بارہ اماموں ) سے الگ  فرقہ ہے  ۔صدیوں سے ان اسماعیلیوں کےامام اور داعی مقرر ہوتے آئے ہیں ۔اثنا عشری کی طرح  ان کے یہاں امامت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔اسماعیلی موسٰی کاظم کے بڑے بھائی اسماعیل بن جعفر کوان کے والد  جعفر صادق جو ساتویں   امام  تھے کو تمام فرقے متفقہ طور پر اپنا امام تسلیم کرتے تھے لیکن اس کے بعد ان فرقوں میں امامت کے شجرہ پر علمی تنازعہ شروع ہو گیا۔ایک گروہ نیا امام حضرت علی ؓ اولادِ نرینہ سے اور دوسرا  خاتون کی نسبت  ( حضرت فاطمہ ؓ)سے اگلے امام کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا تھا۔دونوں فرقے اپنی اپنی منطق پر ڈٹےتھے۔حٖضرت علی ؓ کی کئی شادیاں تھیں  ان میں سے کئی بیویوں کے بیٹے بھی تھے اور حضرت فاطمہ ؓ کی  اولاد نرینہ نہیں تھی۔اسماعیلیہ  ساتویں امام حضرت جعفر صادق ؓ تک تو امام مانتے تھے  لیکن آٹھواں

امام  حضرت موسیٰ کاظم کو اور مقابل فرقہ اسماعیل بن مکتوم کو آٹھواں امام مانتے تھےاس طرح سے نسلی اختلافات سے ان کے الگ الگ گروہ بن گئے۔ لیکن ان طبقات کے عقائد میں کوئی فرق نہ تھا۔

فاطمی سلطنت ( اسماعیلیہ امامت ) کی بنیاد حضرت فاطمۃ الزہرا کی  نسبت سے ہے۔ان کے نام پر سیاسی اور مذہبی ریاست قائم کی گئی۔سب سے پہلے یہ شمالی افریقہ میں بنی اس کے بعد وہ وسطی ایشیا تک پھیل گئی۔یہ 909 میں قائم ہوئی اور 1171 ء تک قائم رہی لیکن اس سے پہلے یہ مختلف ٹکڑوں پر حکومت کررہے تھے اور ملوکیت طرز طرز حکومت تھی ۔اس سلطنت کے بنیادی مقاصد میں سلطنت عثمانیہ کو ہر صورت ختم کر کے اسلامی دنیا کی قیادت کرناتھا ا اور اسمٰعیلی شیعہ کے مذہب کو دنیابھر میں پھیلانا تھا۔

عباسی        خاندان   مسلمانوں کی ُسنی  شاخ  سے تعلق رکھتے تھے۔ جو اس بات  کا دعویٰ کرتے تھے  کہ وہ تمام مسلمانوں  کے خلیفہ تھے  جو فاطمیوں کو قبول نہ تھی۔ اس لیے وہ فاطمیوں کے زیراثر علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔اس مقصد کے لیے فاطمیوں  نےعباسیوں کے حملوں کو روکنے اور اپنی ریاست کو مستحکم کرنے کے لیے مضبوط فوج اور  خفیہ تنظیم قائم کی ہوئی تھی جس  کو  بظاہر  مذہبی فرقہ کی تبلیغ  کے ذریعے عباسیوں کی ذہن سازی کرنا تھی  ۔ اصل مقصد جاسوسی  تھی۔یہ پالیسی فاطمیہ ملک  المنصور  کے دور حکومت 632 ء تا 661   میں   طے پائی   اور المہدی   باللد  بن عبداللد بن عبداللد الرازی نے 775ء تا 785 ء  نے اسے انتہا تک پہنچایا۔اس نے مبلغ سازی کو  ایک منظم طریقے سے عروج بام تک پہنچایا اور یہ   ایک مضبوط  ادارہ  بنادیاگیا ۔ اسٹیبلشمنٹ  اور فوج کے بعد یہ تیسرا اہم ترین ادارہ تھا۔نویں صدی میں اسماعیلی  مبلغین کی بدولت  یمن میں ایک مضبوط بنیاد قائم  کر لی  اور شمالی  افریقہ  کے کئی  علاقوں  پر زبردست کامیابی حاصل  کرکے  909ء تک انہوں نے اتنی قوت حاصل کر لی کہ  عباسیوں کے مقابل ایک مستحکم حکومت قائم کر لی۔انہوں نے قاہرہ کا شہر آباد کیا اور الازہر یونیورسٹی قائم کی۔اسماعیلیوں  نے 1171ء  تک حکومت کی ۔موجودہ دور میں  اسماعیلیوں کو  دو ذیلی  فرقوں میں تقسیم کیا جاتاہے جو آغاخانیہ  اورنہرہ۔اب وہ عباسیوں کے لیے خطرناک ہوگئے۔عباسیوں کو مبلغین کی تحریک کا علم ہوا تو انہوں نے مخالفین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ۔

مورخین  بیان کرتے ہیں کہ جابربن حیان کی  تصانیف  سے اس بات کی جھلک ملتی ہے کہ ان کامذہبی رجحان  فاطمی  دور کی اسماعیلی تحریک سے تھا۔   یہاں پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے  ۔ کہاجاتاہے  کہ جابر بن حیان کے والد حیان احمد جان    الذوی نے بنو عباس  کے انقلاب میں بنو امیہ  کےمبلغین  کے  حق  میں بنو عباسیہ کی  حکومت کے خلاف سازشیں کی تھیں۔ ان کوزیرِ زمین سرگرمیوں کی وجہ سے حکومت کے جاسوسوں نے پکڑکر پھانسی پر لٹکادی کچھ مورخین  جن میں سمیر ایس امر  ، عبدالغنی طاخی     شامل ہیں کے مطابق  جرائم ثابت ہونے  پر  حیان  کو سزائے موت دے دی  )کے مطابق انہیں سزائے گئی  جبکہ کوئی (دارالمعارف ، شرافت حسین، بریٹینیکا   )  لکھتا ہےکہ انہیں ملک بدر کردیاتھا اور جلاوطنی میں فوت ہوئے ۔  جہاں تک جابر بن حیان کی پیدائش کی صورت حال  کا تعلق ہے ، کے بارے میں بھی   وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔  مؤخر الذکر لکھتے  ہیں کہ جب ان کے والد فوت ہوئے اس وقت جابر  کی والدہ امید سے تھیں اور ان کے والد کی موت کے بعد انہوں نے جنم لیا۔  اس وقت وہ کچھ  (ویکیپیڈیا ، مؤرخ پال کراس  وغیرہ )  کا خیال ہےکہ جابر اسوقت چھوٹے   بچے تھے  جب  ان کے والد کا انتقال ہوا۔ عباسی خلیفہ ان کی والدہ اور اس کے خاندان پر ریاستی دہشت گردی کرنے لگا تو  ان کی والدہ  نے انہیں  اپنے رشتہ داروں کے پاس  اپنے آبائی  گاؤں یمن  بھیج دیا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کی والدہ کو مسئلک سے اختلاف کی بناپر کوڑے مار مار کر قتل کیاکیا گیا۔ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں  جن کی   توثیق اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ معلومات ٹکڑوں میں ملی ہیں  ۔

جابر بن حیان  کا ابتدائی بچپن  اپنے رشتہ  داروں میں گزرا جہاں   تعلیم و تربیت  کی سہولیات  معدوے چند تھیں ۔وہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی  لیکن وہ تسلی بخش نہیں تھی 'انہوں  نے ابتدائی تعلیم  'حربی الہمیاری ' سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کوفہ(   عراق )آگئے اور  چھٹے امام حضرت  جعفر صادق جنہوں نے ایک  بہت بڑا    مکتب ( یونیورسٹی)  قائم کی ہوئی  تھی  ،سے تعلیم حاصل کی اور  وہاں  سے  انجینئر ،حکیم حاذق اور اعلیٰ کیمیا دان بن کر نکلے۔آپ یمن سے خراسان اور خراسان سے واپس یمن آئے ۔پھر وہ یمن سے مدینہ چلے گئے۔جب ان کے استاد محترم امام جعفر صادق انتقال کر گئے تو  وہ  مدینہ سے دوبارہ کوفہ (  عراق ) چلے آئے۔یہ وہ دور تھا جب اہل عراق اور ان کے آباؤاجدا دکی مہارت   تیغ زنی  ، زرہ بکتر اور گھوڑے کوایڑی لگانے کے فن تک ہی محدود تھی۔جابر جیسی کیمیاگری لوگوں نے پہلے  کبھی  سنی  نہ دیکھی  تھی۔وہ بصرہ  (عراق)سے کوفہ ( عراق)  اور کوفہ سے خراسان تک  کے پہاڑی راستوں  کے علاوہ  کچھ نہیں جانتے تھےلیکن جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کی سائنسی معلومات فراہم کر دیں  ۔

جابر بن حیان  کا روزگار دوا سازی  اور دوافروشی تھا  ۔جوان ہونے کے بعدانہوں نے کوفہ میں رہائش اختیار کی ۔ لیکن  زمانے کے حالات کے مطابق بصرہ، خراسان، کوفہ  اور دیگر مقامات پر منتقل ہوتے رہے اور اپنی حکمت اور کیمیادانی کی وجہ سے  روز بروز مقبول  ہوتے گئے۔مروجہ  کیمیائی   تجربات میں مصروف ہوگئے۔یونانی تعلیمات  نےان پرگہرے تاثرات مرتب کیے۔وہ حکمت ، تعلیم وتدریس کے  ساتھ ساتھ کیمیائی  تجربات بھی   ۔  انہوں کرتے رہے۔انہوں نے اپنے ارد گرد  لوگوں کوسونابنانے کے جنون  میں مبتلادیکھا توخود بھی یہ روش اختیار کر لی۔کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی  کی وجہ سے وہ تجربات میں مگن  رہتے  ۔انہوں نے  کوفہ میں ایک عظیم الشان کیمیائی تجربہ گاہ

بنائی ہوئی تھی جن میں وہ اور ان کے درجنوں شاگرد دن رات کیمیائی تجربات  مصروف رہتے اور انہوں نے بہت سی انوکھی دریافتیں کیں جن کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا گیاہے۔

اس عرصے میں اتفاقاً   خلیفہ ہارون الرشید کے ایک وزیر یحییٰ برمکی کی چہیتی بیوی بستر مرگ پر جاپڑی۔ بہترین معالجوں کے علاج سے افاقہ نہ ہوا۔اس نے آخری مشورے کے لیے ایک حکیم کو دکھایا۔اس نے دوگرین  ( تین اونس )دوائی میں دو گرین  شہد ملاکر ایک قطرہ مریضہ کو پلایا تو وہ آدھے گھنٹے میں  صحت یاب ہوگئی۔ یحٰیٰ نے انہیں    بر مکی   اس کامرید ہوگیا ۔خلیفہ ہارون الرشید کو جب  ان  کے علم و فضل  اور کارناموں کا پتہ چلا تو انہوں نے ان کو   اپنے پاس بغداد  بلالیا۔جابر بن حیان طویل عرصے تک وہاں  مقیم رہے۔ ہارون الرشید علم دوست حکمران تھے۔ان کے دور میں سائنس اور طب نے بہت ترقی کی جن کی مثال  دنیا میں نہیں ملتی۔اس زمانے میں دنیا کا پہلا ہسپتال اور میڈیکل کالج بغداد میں  بنایاگیا اور بغداد اہل علم کامرکز بن گیا جہاں پوری دنیا سے  لوگ اپنی  علمی پیاس بجھانے کے لیے کھنچے چلے آئے ۔  ان کے خلیفہ ہارون الرشید سے اچھے مراسم پیداہوگئے۔اسی بناپر جابر بن حیان کو خلیفہ ہارون الرشید کےایک اور  معروف  وزیر جعفر کی سرپرستی  حاصل ہوگئی    اور ان کی  شہرت   میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب جعفر کے خاندان کا زوال شروع ہوا تو  مورخین کے مطابق  ( غیر مصدقہ )جابر بن  حیان کو ایک مکان میں قید کردیاگیا۔یہ اختلاف بھی مسئلک سے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا اور وہ  عتائب کا شکار ہوگئے۔ ایک  اور روایت  ہے کہ  ایک دن جابر پر الزامات لگاکر گرفتار کرلیاگیااور قاضی بصرہ   کی عدالت میں پیش کیا گیاجس پراسے سزائے موت دےدی گئی۔ اور 815 ء میں چورانوے سال کی عمر میں  فوت ہوگئے  اور کوفہ ( عراق) میں دفن ہوئے۔

ان کی کیمسڑی ۔  اعلیٰ خدمات کی بنا پر انہیں  عرب دنیا کا بابا ئے  کیمیا ' بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

٭تصانیف

جابر بن حیان  نے کیمیاء پر دن رات  تحقیقات  کیں اور عملی تجربات کیے ۔اس دوران وہ جو مشاہدات کرتے رہے انہیں غیر جانبدارانہ انداز میں لکھتے رہے۔انہوں نے نتائج دیکھے تو وہ بے حد حیران کن تھے۔انہوں نے ہر نتیجے پر کتاب لکھی جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تین ہزار بتائی جاتی ہے /ایک مورخ  نے اتنی زیادہ کتب  کی تصانیف پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔اس نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو دن رات انتہائی مصروف رہتاہو، تجربات، حکمت اور تعلیم وتدریس کرتاہو ۔اس کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ ہزاروں تسانیف کرے۔ یہ تعداد مبالغہ آمیز تھی البتہ اس نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے درجنوں شاگرد جو  چوبیس گھنٹے ان کی تجربہ گاہ میں  تجربات کررہے  ہوتے تھے اور اس کی  جو دریافتیں کرتے تھے کو انہوں نے جابر بن حیان کے نام سے لکھ دیا ہو۔بہر حال وجہ کچھ بھی ہو لیکن جملہ مورخین  اس نواملے پر پوری طرح متفق ہیں کہ  ان کی جراحی  اور طب میں لازوال خدمات ہیں ۔اس دور کے جراحی آلات میں ترمیم، ندرت اور نئی نئی ایجادات   ایسے کارنامے ہیں جن میں بہت سے ترامیم کے ساتھ آج بھی استعمال ہو رہے ہیں  سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔انہوں نے ان کے بارے میں  ضخیم مجموں میں بیان کیا جسے مخزنِ جابر بن حیان کہتے ہیں ۔اس میں   جابر بن حیان نے  بیماریوں کی اقسام ، علامات، طریقہ علاج،جراحی کے آلات کے بارے میں   سلسلہ وار مجموعوں کی شکل میں لکھا ہے۔جس کی

تفصیل مختصراً بیان ہے۔

جابر بن حیان کا  کیمیا ئی مخزن             The Jebirian  Corpus٭

مخزن                                   ( کارپس)    سے مراد معلومات کا ذخیر ہ ہے ۔جس میں مختلف موضوعات  کے بارے میں جامع اور معیاری طریقے سے مستند معلومات   فراہم  کیں ۔  کارپس  کا اردو ترجمہ میں نے 'مخزن کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ لاطینی کا لفظ ہے جس سے مراد  فوج ہے جو کسی ملک میں لاتعداد میں موجود ہوتی ہے۔ادبی اصطلاح میں  اشیاء کو علیحدہ علیحدہ  جمع کرکے اس کے نتائج کو منظم طریقے سے درجہ بندی  کرنا ہے ۔ نتائج معروضی طور پر خالص سائنسی اصولوں کے استعمال سے اخذ کیے جاتے ہیں ۔مواد حقیقی ہوتا ہے ۔ معروضی طور پر قابلِ پیمائش ہوتے ہیں ۔اور منضبط شرائط کے تحت قابلِ تصدیق ہوتے ہیں۔ کارپس کی جمع کارپرا'ہے۔

انہوں نے معروضی طور پر جامع  انداز  میں خلاصہ بیان کیا اور یہ نظریہ  قائم کیا کہ اگر کسی عنصر کی مقدار میں تبدیلی کر دی جائے تو اس کے خواص

میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔اگر اس میں کوئی اور عنصر شامل کردیاجائے تو بھی کیمیائی خصوصیات مختلف ہو جاتی ہیں ۔اس نظریے کے تحت انہوں نے دھاتوں  کے پگھلنے کے درجہ حرارت معلوم کرکے مختلف دھاتوں کا امتزاج کرکے نئی دھاتیں ایجاد کیں ، اوزاروں کی ساخت  ایسی بنائی جس سے طبیب کو جراحی میں آسانیاں پیدا ہوں  اور ایسےتیزاب اور  کیمیا بنائے جو علاج معالجے میں مفید ثابت ہوتے تھے۔انہوں نے

؛ بڑی مہارت اور کمال سے ہر تخلیق  میں استعمال کیا۔ ان تجربات میں؛٭ عمل تصعید ( سبلی میشن) ؛٭کشیدہ  کرنے کا عمل    ( ڈسٹیلنگ)؛٭جلن

ہونے کی وجہاورعلاج؛ ٭(کیلسی فیکنیشن )  تکسید؛ راکھ بنانےتحجر, ؛٭(کیپیلیشن)پیوند کاری ؛٭( سیمنٹیشن ) سیمنٹ کاری؛٭کانوں میں معدنیات نکلانے کے عمل  میں ایجادات کیں جن  کا ذکر آگے کیا جائے گا۔ جابرنے سائنس کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔جو آٹھویں صدی سے ستارہویں صدی تک یورپ میں مقبول رہا۔ان کی ان ایجادات کو نامور سائنسدانوں نے  استعمال کیا    جن میں جرمن ڈاکٹر ڈینی یل  سنیرٹ     جریدہ

(سمیر ایس امر عبدالغنی جریدہ ظباخی جنوری  فروری  2007 سعودی میڈیا)۔

ان کی اہم تصانیف درج ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب الجیر میں خفیہ  ضاابطوں کا  ذکر لیا۔

٭الہجر

انہوں اپنی کتاب' الہجر 'میں رموز کی زبان استعمال کی جسے بدھ مت کیمیائی ماہر ہی سمجھ سکتاتھا۔انہوں نے اس کتاب میں علامات ( سمبلز ) استعمال کیں جو عام قاری کی تفہیم سے بالاتھا۔یہ کتاب تکنیکی ماہرین کے لیے لکھی گئی۔

٭ال۔ابرین  کتاب '

ال۔ابرین   ، میں جابر بن حیان  نے  ایسے علوم جو سائنسی اصولوں پر معروضی  طور پر  نتائج اخذ کرتے  ہیں  اور باطنیت ( ایسٹورک )  والے علوم کو فلسفے کی روشنی میں بیان کیا۔

٭کتاب الدورت المکنون

جابر بن حیان  نے اپنی تصنیف ' 'کتاب الُدورت المکنون ْ میں شیشہ  اور موتی جس  کی کیمیائی ساخت  زوال پذیر ہو نےکے بارے میں مکمل تفصیل بیان کی ہے جس میں   صنعتی پیداوار کے نسخے تجویز کیےگئے ہیں ۔

٭ کتاب الخواص

الخواص '  میں انہوں نے  بیان کیا   کہ کیسےمخصوص  کیمیا کسی  عمل میں متعارف کر  شے سے  الگ کیاجاسکتا ہے۔جیسے سمندری پانی سے نمک  ۔، فولادی محلول   سے(  کاسٹنگ کرنی) قالب  بنانا ، ادرک کا بنانا، ہار سنگار ، حسن افروزی (کاسمیٹک)  کے نسخے ، جسم سے بال  الگ کرنے  ، بال  رنگنے۔ دلہن کے ہاتھوں پر  مختلف رنگوں کی مہندی کارنگ چڑھانے،وارنش  اور رنگ روغن بنانے ، ،واٹر پروف کرنے،مختلف رنگوں کی سیاہیاں بنانے  وغیرہ  کے کیمیائی مرکبات  جابر بن حیان نے ایجاد کیے۔؛٭ الرحما الکبیر ( دا گریٹ  بک آف مرسی)  ٭ کتب الاثنا  ؛٭؛اشعرا ( 112؛٭ کتب)٭کتب ال؛٭۔سبعین  ( دا بک آف سیونٹی ) ٭  کتب ال۔ماوزن  بک آف  بیلنسز )؛٭کتاب ال۔خمس  میا ( پانچ سو کتب ) ٭ترجمۃ العربیہ ٭ الکتب العربیت٭عباقر ۃ المسلمین ٭استقس کی کتاب ( بک آف الستق ) ؛٭الکحل کی کتاب ( بک آف ال۔کحل )٭کتاب روح ( بک آف سول )؛٭ شمس کبیر کی کتاب ( بک آف شمس کبیر)؛٭کتاب شمس صغیر( بک آف لٹل سن )؛٭خمس  ماعات  کی ؛٭کتاب  ( بک آف خمس ماعات )؛٭کتاب آبِ سلطانی۔ وغیرہ   جاتی ہیں ۔

ان کی  کئی کتب کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔

٭تراجم

کیمیا کے موضوع پر انہوں نے 22 کتب تصنیف کیں۔ ان کی مشہور کتب میں٭ الرحم ؛ اور٭ کتاب  المل شامل ہیں ۔ان کی بہت سی یونانی کتب کاعربی ترجمہ کیاجاچکا ہے  ۔

جابر علم کیمیا کےعظیم محقق تھے  اور بہت سے کیمیائی مرکبات کے موجد تھے۔انہوں نے  علم کیمیا کی اہمیت  پر سینکڑوں مقالے لکھے ۔انہوں کئی کتب کا ترجمہ کیا جن میں٭ کتاب الملک اور٭ کتاب الریاض  انگریزی میں ہیں۔ان کی کیمیا پر لکھی گئی کتب  نے یورپ اور ایشیا کی کیمیاگری پر بیان کیا گیا ہے۔  میں ے پناہ ترقی  کی ہے۔۔ان کی ان  تصانیف کے لاطینی زبان میں 1144ء میں تراجم ہوئے۔

ان کی  ٭' ستارہویں  پر کتاب ( بک آف سیون ٹین ) کاترجمہ 1187 ءمیں کیاگیا۔اس کتاب میں سترہ  کیمیائی تراکیب استعمال کی گئیں اور ان کے

نتائج بتائے گئے ۔

جابر کی ستر کتبشائد س ایک    کاترجمہ  کریمونا  کے جیرالڈ  نے  12ویں  صدی  میں اس کتاب کا لاطینی زبان میں کیا۔اس کام کا مسخ شدہ ایڈیشن  میں ترجمہ کیا۔  جعلی شخص نے  جو خود کو جابر کہلاتا تھا ، نے شائع کیا۔  جو قرون وسطیٰ  کی صحیح یا بالکل درست  شان و شوکت میں  لاطینی  عظمت   وای   شائد الکیمیا کی سب سے  مشہور کتاب تھی جسے فرانس  کے ایک   سائنسدان مؤرخ پال ٹوٹورانٹو   اس   نے  تیرہویں  صدی عیسوی میں  لکھاتھا جس میں   ریاضی کا  میزان طریقہ استعمال  نہیں کیا گیاتھا ۔(سمیر ایس امر  ، عبدلاغنی  ( 2007)کے مطابق ان میں  بہت سی کتب قرون وسطیٰ میں لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ان  میں  نمایاں  الکیمیا کی گیلری میں کتاب الزہرہ  ( بک آف وینس ) ہے۔انہوں نے یہ کتاب عباسی خلیفہ ہارون الرشید  کے نام  کی ہے۔

تیرہویں صدی ء میں ان کی الکیمیا  کی پراسرار    ریت کی کتاب لاطینی  زبان میں شائع  ہوئی جسے یورپ کی  کی علم کیمیا  کی  تدریسی اداروں  کے نصاب میں شامل کرلیاگیا۔یہ کتاب سادہ زبان میں لکھی گئی تھی ۔اتنی عام فہم کتاب  صدیوں تک نہیں لکھی جاسکی۔اس کتاب کا اتناہی اعلیٰ مقام  ہوگیا  جتنا کہ  ان  کے مقلد الرازی  کی کیمیا پر لکھی گئی کتب کاتھا۔یہ کتاب  1481 میں چھپی ۔اس کا اٹلی   زبان میں ترجمہ پاپائے اعظم کے مطابق 1510میں شائع ہوا تھا۔ ۔1525 ءاور ء 1530 میں ایک جریدے میں جابر   بن حیان کے کارہائے نمایاں  پر ایک ہزار صفحات  شائع ہوئے جو ان کی زندگی اور خدمات کے بارے میں تھے ۔

اب ہم ان کی ایجادات کی طرف آتے ہیں  ۔

٭اایجادت

جابر بن حیان  صرف کیمیادان ہی نہیں تھے   بلکہ  ان کی  دیگر سائنسی علوم  پربھی  مضبوط گرفت تھی۔ان کی شخصیت کا ہر پہلو  ان کے رتبے اور شہرت میں اضافہ کرتاہے۔ ہ   وماہراراضیات ، ماہر طب اور علم و دانش کا مینار، استحصال زدہ ( آپریسسو)  فلسفی ،  علم نجوم کی  طبیعیات ، شعبہ صحت  کے علوم اور سحر میں ان کی جادوگری  نظر آتی تھی۔

٭ پارےکی اہمیت کا نظریہ

ان کی تعلیمات کا خاصہ ہے کہ انہوں  نے جو کچھ بھی دنیا کے سامنے رکھا ،  کے ہر مرحلے اور تدابیرکو   لفظ بہ لفظ    انہوں نے طبعی تحقیق کے اصولوں کے تحت  نظریات پیش کیے ، جن کی  ہر شخص  تصدیق کرسکتا تھا۔انہوں نے  تجربہ گاہ میں استعمال ہونے والے 20 سے زیادہ سائنسی آلات  کے علاوہ  کیمیائی  مواد  ایجاد کیے۔

تحقیقات کے ذریعے حاصل کردہ نتائج  میں سب سے پہلا واضح  بیان جو  انہوں نے دیا                وہ  پارے کا نظریہ '   جابر نے تجربات  سے ثابت   کیاکہ   جملہ دھاتوں میں پارہ ہی   'خالص  مادہ'تھا  جس میں کسی اور عنصر کی ملاوٹ نہیں پائی جاتی  ۔اس کے علاوہ انہوں نے مادے کی سطحات اور درجات  کا نظریہ بھی پیش کیا۔

٭ مادے کی سطحات کا دھاتوں پر اثر۔   

ان جامع تحقیقات  میں دوسری جدت یہ تھی کہ  انہوں نے تحقیقات سے ثابت  کیاکہ عمل کیمیا میں تمام   ادویات اور مادے کو تین درجوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ۔ اس نظریے کی رو سے  ان کی  تاثیر میں مرحلہ وار ترقی ہوتی ہے۔پہلے اور دوسرے درجے کی سطح   والا   کیمیا     عمل  تو   وہ     دھات  کی بنیاد تبدیل کرکے نئی خواص والی دھات بن  جاتی  ہے  جبکہ    تیسرے درجے کا کیمیائی عمل    چاندی اور سونےکی دھات کےمیں حقیقی تبدیلی  لاتاہے۔ ان کے علمی  کارناموں کی وجہ سے نویں سےگیارہویں بارہویں  صدی کے  کیمیادانوں کے لیے تحقیقات کاراستہ

   آسان ہوگیا۔ انہوں  نے عناصر و مادے کی حالت  کی  اہمیت بھی بیان کی  جودرج ذیل ہے۔

٭عناصر و مادے کی حالت

تاریخ اسلام  مجموعی ' خامس'  صفحہ 56 )میں ان کی  ایجادات کے بارے میں بیان کیا گیاہے ۔علم کیمیا سے رغبت کی بنا پر ان میں  سونا بنانے کا جنون تھا۔اس   لگن میں  انہوں  نے بے شمار حقائق دریافت کر لیے اور مختلف ایجادات کیں۔ انہوں نے اپنے علم کیمیا  کی بنیاد اس نظریے پررکھی ٭ تمام دھاتوں کے اجزائے ترکیبی  گندھک اور پارہ ہیں۔انہوں نے ثابت کیا کہ   نے ثابت کیا کہ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں  میں  اجزائے ترکیبی  ملنے سے دیگر دھاتیں بنتی ہیں ۔ان کے خیال  میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ  ان کی حالت اورپایاجانے والا تناسب  ہے۔اس منطق کے مطابق  عام  اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے  دریافت کیا کہ  مادے میں گندھک کی موجودگی کی مقدار اور اس کا  باقی اجزا سے تناسب ہر دھات کے خواص کا تعین گندھک  ہی کرتی ہے ۔ان کے نزدیک گندھک  ایسی بنیادی  دھات ہے جو  تمام  دھاتوں ( پیتل ،تانبہ، جست ،لوہے، چٹانوں  وغیرہ ) میں قدرتی طور پر   خاص نسبت سے پائی جاتی ہے ۔جابر نے  قدرت کےان  فطری   اعمال  کو  دیکھا ، پرکھااور باربار تصدیق پر نظریہ قائم کیا   ۔پارے   اور گندھک           کے تناسب کی  ترتیب بدل بدل کر آزمایا تو اس کےدھاتوں  اور کیمیا   کی ہیئت اور خواص میں  تبدیلی کے نظریات  صحیح ثابت ہوئے ۔  انہوں نے دیگر کیمیادانوں کو مشورہ دیاکہ وہ اپنی تحقیقات میں پارےاور اس میں پائے جانے والے عناصر پر بھروسہ کریں تو انہیں حیرت انگیز نتائج حاصل ہوں گےاور وہ حیرت خون ،  بالوں اور انڈوں  میں  نامیاتی   وضعی ، سادہ اور صحت بخش   انقلاب لا سکیں گے۔٭ جابر بن حیان نے مادے کو عناصر اربعہ کا نظریہ بیان کیا۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے  دریافت کیا کہ مادہ  کی  تین اقسام ہیں ۔ نباتات  نباتات ۔ حیوانات۔

٭حیوانات  اور معدنیات 'Animals and Minerals

ایک قسم وہ تھی جس میں دھات آگ سے پگھل کر بھاپ بن جاتی تھیں۔ اسے انہوں نے روح کہا۔ ؛ دوسری وہ جو آگ میں جل کر مائع شکل اختیار کر لیتی تھیں اور تیسری   قسم آگ میں جل کر راکھ بن جاتی تھیں۔اس کے علاوہ انہوں نے کیمیاگری  میں کئی دریافتیں کیں۔

٭ قلم پذیری  یا قلیم ( Crystalization( بن حیان  نے  اپنے مطالعات ہمیشہ عملی طور پر تجربہ گاہ میں کیے۔ انہوں نے  قلم پذیری (کرسٹلائیزیشن )، جلن ( کیلسی نیشن )، تصعید ( سبلی میشن)، اور بخارات (ایویپوریشن)،تیزایوں  کی اقسام  (ہائیڈروکلورک ،نائٹرک،اسیٹک ،اور ٹارٹیرک ایسڈ ) پہلی بار بناکر دنیا کے سامنے پیش کیے۔،اور عمل کشید اور  رنگ و روغن کی   ایجادات  اہم ترین شمار کی جاتی ہیں۔ان کی دیگر خدمات میں  مختلف  دھاتوں کو پگھلانے کی بھٹیاں بنانا، انہیں پگھلاکر دیگر دھاتیں بنانا ہیں۔قلیم   ( کرسٹلائزیشن )کے معنی قلمیں تیارکرنا ہیں۔انہوں نے ثابت کیا کہ  گندھک کو پگھلاکر چھوڑا جائے تو اس کی قلمیں ( کرسٹل )    بن جاتی ہیں۔

٭ادویہ کو جلاکر چوناجیسابنایا (تکلیس' )۔

٭ اگر دوا جل کر راکھ ہوجائے یاکوئلہ بن جائے تواسے عمل احراق)  کہتے ہیں ، کہا۔

٭انہوں نے معلوم کیا  کہ دھات  کااگر کشتہ بناجائے تو اس کاوزن بڑھ جاتا ہے۔

٭انہوں نے بتایا کہ تصعید کے معنی جوہر اڑانا ہے۔  انہوں نے  کیمیائی تجربات میں کمال پیداکرکے اصول و قواعد مرتب کیے۔

٭دواؤں کا جوہر اڑانا اور قلم کاری   ( کرسٹلائزیشن ) کے طریقے  کی وضاحت کی۔

٭فلٹر کرنے کا طریقہ دریافت کیا اور  تین  قسم کے نمکیات معلوم کیے۔

٭چمڑے اور کپڑے کورنگنے کاطریقہ دریافت کیا اور بالوں کے لیے خضاب تیار کیا۔

یوں تو ان کی تمام تخلیقات  ایک سے بڑھ کر ایک ہیں  لیکن قرع النبیق کی ایجاد منفرد اور اہم ترین شمار کی جاتی ہے۔

٭قرع النبیق   Qura Ambeeq ( Retart )

جابر بن حیان قرع النیق  ( ریٹارٹ) کے موجد تھے۔قرع النبیق کے دو حصے تھے۔ایک حصہ میں  کیمیائی مادوں  کو پکایاجاتا تھا اور مرکب سے اٹھنے والے بخارات کو نالی کے ذریعے آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کیا جاتا  اور آبی بخارات کو ٹھنڈا کیاجاتا  تو وہ  دوبارہ مائع حالت میں تبدیل ہو جاتے ۔ کشیدگی کا یہ عمل  کرنے کے کے لیےآج بھی اس قسم کاآلہ استعمال کیاجاتاہے جسے ریٹارٹ کہتے ہیں۔

٭دیگر  خدت  میں مختللف دھاتوں،سٹیل،کپڑوں اور چمڑوں کی رنگ سازی،مینگنیز     ڈائی  اکسائیڈ کا شیشہ بنانے میں استعمال،دھاتوں کو زنگ سے محفوظ رکھنا،مختلف طرح کے روغن ، گریس  کی ایجادات کیں۔ انہوں نے سونے کا محلول بنانے میں    آبِ سلطانی (  ایکوا ریجا  کیمیا) بھی ایجاد کیا۔

٭اگرچہ الکیمیا کی قدیم  دیگر قیمتی  دھاتوں   میں تبدیل کی جاتی رہی تھی  جابر بن حیان نے اپنی زیادہ توجہ ابتدائی  اور بنیادی  طریقوں پر استعمال کی  اورکیمیائی رد اعمال اوران کے رداعمال کا مطالعہ کیا۔جس سے کیمسٹری میں  کیمیائی عوامل میں انتقالیت کا علم ہوا اور کیمسٹری نے  افسانوی دنیا سے  حقیقت کا روپ دھارا۔

٭کپڑے اور لکڑی کے لیے وارنش اور شیشے کے لیے مینگانیز ڈائی اکسائڈ تجویز کی۔

٭لوہے کو صاف کرکے فولاد بنایا۔

٭ان کے استاد جعفر بن صادق نے انہیں سکھایا کہ مختلف دھاتوں  کوباہمی طور پر ملا کر نئی دھاتیں کیسے بنائی جاسکتی ہیں۔ان کی دلچسپی اس میں بڑھتی

گئی اور وہ نئی نئی کیمیا بنانے لگے۔انہوں نے    نمک کا تیزاب (ہائیڈور کلورک ایسڈ) اورنوشادر( نائٹرک ایسڈ )کا تیزاب ایجاد کیا۔٭دھاتیں پگھلانے کے سانچے بنائے ۔

٭وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے مینگنیز ڈائی اکسائیڈ  کو شیشہ بنانے میں استعمال کی۔ دھاتوں کے بارے میں بتایا کہ یہ سب  پارے اور گندھک سے بنتی ہیں۔

٭انہوں نے موم جامہ بنایا اور گریس  بنانے کا فارمولہ ایجاد کیا۔

٭انہوں نے آبِ سلطانی ( ماءالملوک ) نام کا تیزاب  تیار کیا جس میں سوناحل ہوجاتاہے۔

٭کتابت کا طریقہ اور روشنائی ایجاد کی۔

جابر بن حیان نے مختلف قسم کے تیزاب ایجاد کیے۔

٭تیزاب

ان کے دور میں  چوتھی صدی عیسوی کے بعد سائنسی علوم میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ انہیں کیمیا اور حکمت سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ایک دفعہ ایک تجربے میں  قرع النبیق  ( ریٹارٹ ) میں  بھورے رنگ کے بخارات اٹھے اور آلہ کے دوسرے حصے میں جمع ہوکر ٹھنڈے ہوئے جو تانبے کا بناہواتھا۔حاصل شدہ مواد اتنا تیز تھا کہ اس تانبے کے  برتن  ( کٹورے ) میں سوراخ ہوگیا۔جابر نے دوسرے تجربے میں آلے کا دوسرا حصہ تانبے کے برتن کی بجائے چاندی کا  برتن بنایا تو اس میں بھی سوراخ ہوگیا۔۔چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے سے بھی یہی نتیجہ  نکلا۔انہوں نے مائع کو انگلی سے چھوا تو جل گئی۔اس کاٹ دار اور جلانے  کی خصوصیت رکھنے والے مائع کوانہوں نے' تیزاب  'کانام دیا۔پھر دیگر تمام دھاتوں پر بھی آزمایاگیا تو سونے اور شیشے کے علاوہ باقی سب میں  دھاتیں گل گئیں۔وہ مزید تجربات میں ُجٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے بنائے۔انہوں  ایسا تیزاب بھی ایجاد کرلیا  آبِ  سلطانی)جو سونے کو بھی پگھلا سکتاتھا۔ انہوں نے کیمیائی مرکبات  مثلاً انہوں نے خالص  کاربونیٹ، سنکھیا ، سلفائیڈ،اور الکحل  تیار کیے۔ انہوں نے الکحل، شورے کے تیزاب ( نائٹرک ایسڈ) اور نمک کے تیزاب ( ہائیڈرو کلورک ایسڈ) اور فاسفورس  سے دنیا کو پہلی بار روشناس کرایا، اس کے علاوہ انہوں نے دو عملی دریافتیں کیں،پہلی دریافت تصعید  یعنی آکسائیڈ بنانا اور دوسری دریافت  حل  یعنی تحلیل کرنا تھی۔ شرافت حسین  ۔۔۔۔روز نامہ دنیا سپیشل فیچر 25 فروری2018)

٭گندھک کا تیزاب  ایجاد کیا۔

٭سیسہ  کاربونیٹ ( لیڈ کاربونیٹ ،سرمہ (اینٹی منی ) ،  تانبے کے مرکبات ،پھٹکڑی ( ایلم ) اور امو نیائی  نمک تیارکیے ۔

٭مرکری آکسائیڈ اور دیگر دھاتوں کے ایسیٹیٹ  تیار کیے۔تمام دھاتوں کو کیفیت کے اعتبار سے تقسیم کیا۔

٭شراب کو ابال کر بخارات پیدا کیے اور علاج میں استعمال کی۔

٭معدنی تیزاب دریافت کیے ،نیز شورے کے تیزاب کو پھٹکڑی  اور قلمی شورے سے تیار کیا۔قلمی شورے اور نوشادر سے آبِ سلطانی ( ماءالملوک )بنایا۔،یہ  ایسا تیزاب ہے جوسونے کو گلادیتاہے۔انہیں کیمسٹری   میں 'بابائے   پیریو ڈک گولی  'بھی کہا جاتاہے۔انہوں نے مختلف سستی دھاتوں کو دوسری دھاتوں کے ساتھ ملاکر کیمیائی  طریقوں سے سونا بنانے کا طریقہ ایجاد کرنے کی کوشش کی اور  مصنوعی طریقے سے سونا بنانے کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں  نے سونے کا ملمع کرنے اور اتارنے کا طریقہ دریافت کیا۔

٭دھات کا ُکشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے اس کاوزن بڑھ جاتاہے۔ عمل کشید اور تقطیر  کا طریقہ بھی   ان کا ایجاد کردہ ہے ۔

٭ا س کے علاوہ لوہے کو زنگ  سے بچانے کے لیے لوہے پر وارنش  کرنے ،موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ  دریافت کیا۔

ان کی خدمات ریاضیات  میں بھی ہیں۔

٭ علم  الاعداد میں میزان کی اہمیت Numerology

جابر بن حیان  کی  خدمات میں علم الاعداد ( نمریالوجی )   ریاضیات  کی وہ   شاخ ہے  جس کو علمِ  میزان  میتھڈ  آف بیلنس )  کہاجاتاہے۔انہوں نے کہا کہ  کسی مادہ   میں     چار عناصر  ( گرم ، سرد، پانی اور خشکی ) کی مقدار کا متناسب تعین پایاجاتاہے۔عربی  زبان کے ہر حرف   میں ایک عدد  دیاگیا اور حروف  کی ترتیب کے لحاظ سے  ان کو مختلف صورتوں میں استعمال کیاگیا۔ جابر کی عددی تنظیم  میں  یہ دلیل دی  گئی ہے  کہ فقرے کے ہر  متن میں خفیہ  باطنی  حقائق ُچھپے ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ   دیکھے جانے والے  حقائق ( ظاہر ) بھی پائے جاتے ہیں جو  قاری کو حقائق  تک رسائی دلاتے ہیں۔ وہ حقائق جو خفیہ ہوتے ہیں میں ان چاروں عناصر کا ملاپ خاص تناسب میں پایا جاتا ہے۔ جن میں 17 یا  اس تناسب میں ہوتا ہے جو 17 پر تقسیم ہو سکے،

٭اصول ِ توازن  میزان (یAs Method of Balance ) ، 

دھاتوں کی اجزائے ترکیبی کے مطالعے میں انہوں نے بہت سی نئی دھاتیں ایجاد کیں  جس نےکیمسٹری   میں بہت مدد دی۔ اس کے  چاروں عناصر ایک  خاص ترتیب میں پائے جاتےہیں ۔دھاتوں کو پگھلا کر کسی عنصر کی کمی بیشی کی جائے تو اس دھات کی نئی شکل بن جائے گی۔انہوں نے دیکھا ہ  ہر دھات میں گندھک، اور پارہ پایاجاتا ہے اور انہوں نے تجربات سے ثابت کیا کہ ہر دھات  کی خصوصیت تبدیل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے دھات پگھلا کرمعلومات اور عوامل کی مقدار میں کمی بیشی کی تو ان کے دعوے کی تصدیق ہو گئی۔  یہ چیز وضاحت سےبیان کی  کہ  خالص عناصر، اور دھات  مفصل    ان کی جانچ معروضی طریقے سے ثابت کی۔، جس میں انہوں نے  کشیدگی کو کسرتی لحاظ سے مختلف  فطری اجزا کو الگ الگ کرکے اپنا نظریہ  ثابت کیا۔ کیمسٹری میں امونیم کلورائیڈمخصوص شکل     پیداکر سکتا  ہے ۔نئی دھاتوں     کی   تشکیل میں دلچسپی   پیدا کی اور مختلف    دھاتیں پگھلا کر ان میں کمی بیشی سے دھاتیں ملاکر  نئی دھاتیں ایجاد کیں۔چونکہ اتار چڑھاؤ ہواکی مانند یا الکحل کی طرح تھی ،جابر  بن حیان نے  الکیمیا  میں  تمام امونیم کلورائیڈ کے فن کو ایک خصوصی کنجی کے طور پر استعمال کیا۔

اب ہم ان کے فلسفے کامطالعہ کرتے ہیں ۔

٭فلسفہ Philosophy

جابر بن حیان ایک پیدائشی فلسفی تھے۔جیسےکہ  قدیم کیمیادان  اپنا فن  ان دیکھےمسائل  کو عقل  وچار سے  سلجھانے کی کوششیں کرتے تھے۔۔ ان کے طریقے کی تقلید میں جابر بن حیان  نے مسلم  راز وامور کاطریقہ اپنایا۔انہوں نے  اپنے بعید الفہم    الوہی نظریات کو   ایک ہی موضوع میں شامل کیا اور یونانی فلسفے   سے جن میں ارسطو کا نام سب سے اوپر آتا ہے  کی منطق  کو اسلامی  الہیات  کی روشنی میں واضح کیا۔ جس سے اسلامی  فطانت کا سیر بین   وسیع ہو گیا او  سنہرے اسلامی  دور کاآغاز ہوا۔

جابر بن حیان کی  فلسفے میں خدمات کا تعلق   ان کے تجربہ گاہ  میں کیے جانے والی ایجادات سے ہے۔۔انہوں نے  ارسطو کی اس منطق کو کہ کسی بھی مسئلے کا مطالعہ معروضی  طور پر کیا جائے ، اور  ان کا اس بات پر یقین کہ   کسی مسئلے کو مختلف پہلوؤں  سے مطالعہ کیاجانا چاہیئے تو اس سے  کئی پہلوؤں میں یگانگت نظر آجایاکرتی ہے اور ان پہلوؤں کا ارتباط  یکسوئی  پیدا کرتاہے جن میں مابعد از طبیعیات ،اخلاقیات  اور سائنس کو اسلامی  فلسفے کی چھتری کے نیچے لایا جا سکتا ہے،  کی تکنیکیں مکمل طور پر اپنائیں۔

ان  کی سائنس  کاماخذ 'میزان  '( بیلنس) تھا ۔ اس کے کاموں اور تجرباتی اور مشاہداتی کاموں کے علاوہ ، جابر نے کئی مشہور تصانیف لکھیں جو ان کے فلسفے کی گہرائی تک جاتی ہیں۔

جابر بن حیان  ماہر نفسیات تو نہیں تھے لیکن ان کی ایجادات اور ایجادات نے عوام الناس پر بلاواسطہ طور پر نفسیاتی اثر ڈالا۔

٭نفسیات Psychology

جابر بن حیان کی وجہ شہرت الکیمیا ہے ۔ ان کو  ماہر نفسیات کے عنوان سے نہیں نوازا گیا لیکن انہوں نے  اپنی زندگی میں  جو نظریات  پیش کیے ، جو ایجادات  اور موجود اشیاء میں  ترمیم و اصلاحات کیں  نے نفسیاتی افکار  پیدا کیے۔ ان کی معروضی سطح پر مشاہدات کا طریقہ  ایک اہم طریقہ تھا ہے جس نے  اس علم کو متاثر کیا۔

ان کا تمام طبعی علوم کو مربوط انداز میں لانے کا طریقہ  جس میں فلسفے، طب ، علاج و معالجہ  اور بعیدالفہم موضوعات  پر نظریات نے انسانی ذہن میں وسعت پیدا کی اور لوگوں  کو محسوس  ہوا کہ  کسی بھی  مسئلے اور معاملے کو غیر جانبداری سے  دیکھا جائے اور اس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیاجائے اور منظم انداز میں مشاہدہ کیاجائے تو اس مسئلے میں شامل   اشیاء کے اہم    پہلو سامنے آجاتے ہیں  اور اس سے انسانی فطرت   کے بارے میں سوجھ بوجھ پیدا ہو جاتی ہے۔

جابر بن حیان کا فلسفیاتی تناظر  طبعی اور روحانی موضوعات پر تھا ،نے غیر محسوس طریقے سے لوگوں میں نفسیاتی  سوچ پیدا کی  جس سے ذہن ، جسم اور روح کے مابین  ربط اور ہم آہنگی پیدا ہو گئی جس کے نتیجے میں موجدہ دور کے نظریات نظر آتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2

 

Popular posts from this blog