موت سے بالا تر دائمی ہوس Death Constant Beyond Love By Gabriel Garcia Marquiz ( Nobel Laureate 1982) Columbia

  •  

 موت سے بالا تر دائمی ہوس

Death Constant Beyond Love

By

Gabriel Garcia Marquiz ( Nobel Laureate 1982)

Columbia

1928-2014

مترجم و تبصرہ                       :                      غلام محی الدین

 ڈاکٹر  نے سینیٹر      ون       سیمو سانچز        کو یہ خبر دے کر اس   کے سر پر  بم پھوڑ دیا کہ  وہ چھ ماہ گیارہ دن کے بعد اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر جائے گا۔ اس  اندوہ ہناک              خبر        کے باوجود اسے              اس روز اسے  ایک حسینہ سے محبت ہو گئی جسے اس نےاتفاقاً اپنی سیاسی مہم  کے دوران ایک سمگلروں کی بستی میں  دیکھا۔ وہ             گاؤں   عام طور پر بیابان و ویران  رہتا تھا لیکن  رات کو  وہاں مجرموں کی حکومت ہوتی تھی ۔  حکام بالا  اندرون خانہ  ان کی سرپرستی کرتے تھے اور ان سے ملے ہوئے تھے۔ اس گاؤں  کا رخ سمندر کی طرف تھا جو کھلا  تھا اور بغیر کسی سمت پر تھا  ۔ وہاں جہاز  لنگر انداز تھے۔          کسی کے گمان میں بھی نہیں  ہو سکتا تھا کہ اس وقت اسی مقام پر ایک سینیٹر کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا ۔  یہ بڑی بد قسمتی تھی کہ  وہ  غریب عوام کا ان داتا بنا ہوا تھا۔ اس پورے ہجوم میں اگر کسی نے اپنے لباس پر  ایک خصوصی  بڑا سا پھول ٹانکا تھا تو وہ  صرف سینیٹر سانچز        کی قمیص میں تھا۔ اس وقت اس  کی نظر          '                  لارا فرینہ             ' پر پڑ گئی۔  سانچز            کو    وہ  تمام پھولوں  سے بڑھ کر تھی۔

وہ اپنی انتخابی مہم کے لئے اس    صحرائی  گاؤں آیا تھا۔ اسے ہر چار سال  بعد        الیکشن                 پر ریلیاں ، جلسے جلوس نکالنے پڑتے تھے ۔          اپنی شکل دکھا کر سہانے خواب  دکھانا پڑتے جس کے نتیجے میں  عوام کا اعتماد حاصل کر کے  نہ صرف  اسمبلی پہنچتا بلکہ  طاقتور عہدہ بھی حاصل کر لیتا۔ پروگرام کے مطابق  اس کی سیا سی مہم میں اس کی ویگنیں صبح ہی پہیچ گئی تھیں اور سامعین کی تعداد میں اضافے کے لئے  بھاڑے کے مزدور ٹرکوں میں بھر بھر کر لائے گئے تھے تاکہ نفسیاتی  اثر ڈالا جا سکے کہ وہ عوام الناس میں کس قدر مقبول تھا۔ رات کو              سرکاری معاون انتظامی اور حفاظتی        جیپوں  نے ذمہ داریاں سنبھال لینا تھیں جو اپنے ساتھ قرمزی مشروب بھی لائے تھے۔
کو لمبیا کے اس صحرائی  گاؤں میں جھلسا دینے والے جھکڑ چلتے رہتے تھے۔ سینیٹر سانچز  ہجوم میں گھرا ہوا تھا۔ وہ ا                س وقت  صحرا کی لو  سے بچا ہوا تھا کیونکہ وہ ائر کنڈیشنڈ کار میں مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لوگوں کے پرتپاک استقبال نعروں کا  جواب دینے کے لئے باہر نکلا  تو  ہوا کا تھپیڑا آیا اور اس کی ریشمی قمیص آگ کا شعلہ بن گئی۔ وہ پسینے میں شرابور ہوگیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ  صابن کی جھاگ میں ڈوبا ہوا تھا۔  اس وجہ سے  وہ اپنی عمر سے زیادہ         لگ رہا تھا۔ اس کی حقیقی عمر 42 سال تھی۔  وہ کمزور   اور بوڑھا لگ رہا تھا۔  وہ  عوام پر اپنی قابلیت کا مزید رعب ڈالنے کے لئے لاطینی زبان  بھی سیکھ رہا تھا۔     اس نے ایک جرمن حسینہ سے شادی کی تھی اور اس سے پانچ  بچے تھے اور سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ اس دورے سے تین مہینے پہلے تک وہ خود بھی اپنی نجی اور ازدواجی زندگی سے بالکل مطمئن تھا لیکن  جب اسے   ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اگلی کرسمس  نہیں دیکھ پائے گا اور اس سے پہلے مر جائے گا تو اس پر نہ چاہتے ہوئے  موت کی دہشت طاری رہتی۔

 پروگرام کے مطابق               دوپہر کی  ریلی کے اختتام پر اس نے ایک گھنٹہ آرام کرنا تھا۔ اس نے اس پھول کو  جو اس نے پہنا ہوا تھا،        سوکھنے سے بچانے کے لئے  پانی کے برتن  میں رکھ دیا۔  یہ وقت اس نے خلوت میں گزارنا تھا۔ اس مقصد کے لئے ایک خصوصی کمرہ تیار کیا گیا تھا۔ وہ نقاہت سے بچنے کے لئے ہلکی پھلکی مشروبات اور دلیہ وغیرہ لیتا رہا تھا۔ وہ          گوشت اور چاول وغیرہ نہیں لے رہا تھا کہ اس سے اس کا پیٹ  بوجھل ہو جاتا اور  اسے نیند آنے لگتی۔ اس سے اس کو الرجی ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ وہ   اپنا درد دور کرنے کے لئے نسخے کے مطابق ادویات بھی لے رہا تھا ۔وہ   سہ پہر سستانے کے لئے   ایک  جگہ رک گیا۔ وہ جھولے میں بیٹھ گیا۔   پیڈسٹل   پنکھا فل سپیڈ سے چل رہا تھا۔  لو سے بچنے کےلئے اس نے اپنی قمیص اتار دی اور پندرہ منٹ تک اس کے سامنے لیٹ گیا۔ اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بار بار اپنی موت کا خیال ستا رہا تھا۔ اس   سے چھٹکارے کے لئے اس نے با ر بار سر کو  جھٹکا دیا۔ اس راز سے صرف ڈاکٹر اور وہ ہی واقف تھے کہ موت اس کے سر پر ہے۔اس نے نہ کسی کو بتایا تھا اور نہ بتانا چاہتا تھا۔ اس اذیت کو اس نے از خود ہی جھیلنے کا فیصلہ کیا۔ روزمرہ معمولات      باقاعدگی سے ادا کرتا رہا۔  وہ یہ اس لئے نہیں کر رہا تھا کہ وہ بہادر تھا بلکہ وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے ایسا کر رہا تھا۔

آرام کے بعد وہ دوبارہ عوام میں آگیا۔ اس وقت اس نے لینن کی پتلون           اور پھولدا قمیص  پہنی ہوئی تھی۔  گولی کھانے سے سر درد تو دور ہو گیا تھا لیکن  موت کا خوف اس کی روح میں گونج رہا تھا۔ وہ  اس سے چھٹکارے کے لئے عوام میں گھل مل گیا۔ عوام اپنے قائد کو دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لئے پر جوش تھے اور ایک دوسرے کو دھکا دے کر اس سے ہاتھ ملا کر خود کو خوش قسمت ترین انسان سمجھ رہے  تھے۔   اس کے بعد وہ سٹیج پر چڑھ گیا ۔ ٹرکوں پر بھاڑے کے مزدور شور زدہ  گرمی کی لو برداشت کرنے کے عادی تھے۔ جلسے میں شامل افراد نعرے لگانے لگے۔ اس نے ہاتھ لہرا لہرا کر ان کو خاموش کروایا۔ سٹیج کا رخ سمندر کی طرف تھا جس کاپانی گرم تھا۔   اس نے اپنی تقریر شروع کی۔ الفاظ اس کے منہ سے  تواتر سے نکلنا شروع ہو گئے۔ وہ ہزاروں بار سیاسی تقریر کر چکا تھا۔ اس نے  کیا کہنا ہےاسے پوری طرح یاد تھا۔ وہ لفاظی کا ماہر تھا۔ بڑے اعتماد سے سبز باغ دکھاتا تھا۔ وہ  بڑے وقار اور اعتماد سے  بول رہا تھا۔ اس کے موقف میں وعدے تھے،           مخالفین پر نکتہ چینی تھی۔  وہ جوش خطابت میں کہہ رہا تھا ۔                '                     ہم یہاں فطرت کو شکست دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ '               اس نے اپنی تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا جو  کہ اس کے راسخ عقیدے کے برعکس تھا۔وہ  عوام کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے حق میں نہیں تھا بلکہ انہیں محتاج بنا کر    ذرا      سی سہولت       دے کر  اپنی مذموم  غیر قانونی   دھندے     خفیہ طور پر  برقرار رکھنا چاہتا تھا۔  اس کے بعد اس نے کہا                                   ْ                    ہم اپنے ہی وطن میں لاوارث  ہو کر رہ گئے ہیں۔ سامراجی قوتوں نے ہمیں بھوکا پیاسا رکھ  چھوڑا ہے۔  جنگیں ہم پر مسلط کر دی گئی ہیں۔  اسلحہ  سازی ، ایٹم بم اور راکٹ سازی              نے ہمارے وطن کے   موسم اور آ ب و ہوا  کو نہائت    گرم  کر کے   ہمیں مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔یہ سب سامراجیوں کی سازش ہے ۔  ہم اپنے ہی ملک میں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تم میرا ساتھ دیتے رہو ۔  جلد ہی میں تمہیں تمام مصائب سے چھٹکارا دلاؤں گا۔ لوگ یہ بات سن کر اس کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے۔ کاغذی جہاز بنا کر اڑانے لگے۔ آتش بازی کرنے لگے اور راکٹ چھوڑنے لگے۔ ان میں کئی کاغذی جہاز اور راکٹ  تو سٹیج پر آ کر گر رہے تھے۔  ٹرکوں سے  کٹے ہوئے  لدی پھدی شاخوں والے درخت نکالے گئے اور شوریدہ زمیں میں گا ڑ      دئے گئے۔          اس کے ساتھ  کارڈ بورڈ                            اور لکڑیوں سے بنے گھروں   کے ماڈلوں کو  چھکڑوں  پر رکھ دیا گیا          اور جلو س کے ساتھ         لے جایا جانے لگا۔ وہ ما ڈل سالہا سال سے جلسے جلوسوں میں استعمال ہو رہے تھے۔  اب   ان کی  اصلی حالت خراب  بگڑنے لگی تھی۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے نوٹس بورڈ تھے جس پر اس نے اپنا منشور اور کارکردگی بیان کی ہوئی تھی۔ ۔ ۔۔ '                   ہم ہر جگہ درخت لگا کر  گرمی کا مقابلہ کریں گے۔ہر ایک کو سر چھپانے کی جگہ دیں گے۔  ' ایسا ڈرامہ وہ چوتھی بار  ہر چار سال بعد انتخاب کے دنوں کیا  کرتا تھا۔  عوام ان وعدوں سے نہال ہو رہے تھے۔ سینیٹر نے اپنی تقریر آگے بڑھاتے ہوئے ان سے وعدہ کیا کہ خشک سالی دور کرنے کے مصنوعی آلات استعمال کرکے بارش کروائے گا۔  بنجر زمینوں            کو زرخیز بنوائے گا۔ڈیری فارموں کا جال بچھائے گا۔ یہ اس کے منشور  کی اولین ترجیحات میں تھا ۔اشتہارات، اس کے کارہائے نمایاں کی فہرست  اور منصوبؤں کی نمائش کی گئی تھی۔

وہ پچھلے بارہ سالوں میں عوام الناس میں ایسےحربوں سے جیت رہا تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا  کہ اس نے          اپنے        ایک بڑے سپورٹر                                                     '                         نیلسن   فرینہ                           ' کو اپنے جلوس میں نہیں دیکھا۔  وہ  با اثر شخص تھا لیکن   جرائم پیشہ تھا۔ اسلحے اور منشیات کے دھندے میں ملوث تھا۔  وہ جعلی شہریت بھی چاہتا تھا اور اس سے ہر ناجائز کام میںاس کی  مدد کا خواستگار تھا۔   نیلسن       اگرچہ اس کے پاس  جلسے میں نہیں آیا تھا لیکن اسکے جلسے جلوس کو  سامنے والے سمندر  میں جھولے پر بیٹھ کر دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی نوجوان بیٹی  بھی تھی ۔ بیوی  بیٹی کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئی تھی جسے ولندیزی       قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔  نیلسن نے دوسری شادی نہ کی۔ اس کی بیٹی   بہت خوبصورت تھی۔   رنگ روپ  جسم، قد کاٹھ ماں پر گیا تھا اور وہ صحیح طور پر فخر کرتا تھا کہ اس نے دنیا کی حسین ترین لڑکی کی پرورش کی تھی۔

نیلسن  فرینہ نے سینیٹر سانچز کی پہلی سیاسی میں بھرپور حصہ لیاا تھا اور سانچز         سے مطالبہ کیا تھا کہ  اسکے خلاف  مقدمات کی کاروائی سے استثنیٰ دلویا جائے لیکن اس نے  سفارتی انداز میں ایساگول مول جواب دیا تھاجس کا جواب نہ تو منفی  میں تھا اور نہ ہی          ہاں میں۔ٹال مٹول کی تھی۔  اس کے بعد اس نے چپ سادھ لی تھی اور مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئےاپنے منصوبے کے مطابق         آج ا دن وہ  موزوں ترین  سمجھتا تھا۔ وہ خود کو جھلسانے کے لئے باہر نہ آیا۔  سینیٹر کی تقریر ختم ہوئی اور جلسہ اختتام پذیر ہوا  اور لوگوں کی تالیوں کی گونج کم ہوئی تو وہ جھولے سے اترا اور جہاز کے جنگلے پر آ کر کھڑا ہوگیا   جہاں سے سانچز اسے صاف دیکھ سکتا تھا۔

روائت تھی کہ سینیٹر ریلی کی صورت میں  شکایات سننے کے لئے  گلی محلوں میں جایا کرتا تھا اور مسئلے کی نوعیت کے مطابق فوری احکامات جاری    کیا  کرتا تھا۔ ریلیوں میں  موسیقی، ترانے  اور آتش بازی باقاعدہ  ہوتی رہتی تھی۔ وہ ان کے مسائل  غور سے اور بڑی ہمدردی سے سنتا اور اس کے پاس کوئی  گیدڑ سنگھی تھی کہ وہ  حقیقی  یا  بہت کم مدد کرکے سائلین  کی تشفی کر دیتا تھا۔ایک گلی میں وہ بینڈ باجے کے ساتھ داخل ہواتو ایک مکان کی چھت پر ایک خاتون ہاتھ ہلا ہلا کر اونچی آواز میں کچھ بول رہی تھی۔ موسیقی کے شور میں اس کی آواز دب گئی تھی۔  سینیٹر نے دیکھا تو شور بند کروا کے اس کی فریاد سنی۔

سینیٹر۔ میرا کوئی بڑا مطالبہ نہیں  ۔ مجھے پانی لانے جانے کا بڑا مسئلہ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ پانی ڈھونے کے لئے ایک گدھا چاہیئے تاکہ میں پاس والے گاؤں سے پانی لا سکوں۔میرے چھ بچے ہیں اس کے لئے پانی کے مٹکے بھر لانا مشکل ہے۔خاتون نے کہا۔سینیٹر نے اس خاتون اکے چھ نحیف  دبلے پتلے بچوں کو دیکھا اور پوچھا،

تمہارا خاوند کدھر ہے؟

وہ دال روٹی کمانے کے لئے  عروبہ   شہرچلا گیا تھا۔ اسے  کام تو نہیں ملا لیکن ایک عورت ہاتھ لگ  گئی    جس کے دانتوں پر ہیرے جوہرات  جڑے تھے اور اس کے ساتھ  مقیم ہو گیا ہے۔ اس نے مذاقاً کہا۔ اس کی بات سن کر مجمع نے زور دار قہقہہ لگایا۔

ٹھیک ہے۔ تمہیں گدھا مل جائے گا۔ سینیٹر نے کہا۔ اس خاتون کو اس کے معاونین نے گدھا مہیا کر دیا۔ اور اپنے ساتھ نوٹس بورڈ پر اس کار ہائے  نمایاں کو جلی حروف میں لکھ دیا  کہ سینیٹر سانچز نے ایک خاندان کی حاجت روائی کی اور ایک ضرورت مند کو گدھا مہیا کیا۔اسی طرح گلیوں میں چلتے پھرتے لوگوں کو چھوٹے  موٹے تحائف  دئے۔ اس نے ایسے مریض کو جسے چارپائی پر ڈال کر وہاں لایا گیا تھا    دوائی بھی لے کر دی اور اسے اپنی کارگزاری میں ظاہر کردیا۔  اس کے دورے کے آخری نکڑ پر جنگلےکے پاس اس کی نظر نیلسن           فرینہ                              ُ                پڑی جواسے دیکھ رہا تھا۔ وہ غمزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ سینیٹر نے  اس کا  سرسری  انداز      میں حال احوال پوچھا۔

ہیلو                !                         نیلسن کیسے ہو۔ 

ٹھیک ہوں۔ نیلسن نے مرجھائی آواز میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی اور افسردگی تھی۔ اس کی بیٹی نے جب اپنے باپ کو کسی سے باتیں کرتے سنا تو وہ کمرے سے باہر آ کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اس نے ایک  ایسا سستا سا لباس پہنا ہوا تھا جو ریڈ انڈین پہنتے ہیں۔ اس  نے اپنے سر پر بو  ٹائی لگائی ہوئی تھی اوراپنے تمام چہرے پر دھوپ کت اثرسے بچنے والی کریم لگائی ہوئی تھی۔اس  لڑکی کو  دیکھتے ہی سینیٹر کو اس سے پہلی ہی نظر میں محبت ہو گئی۔  ایسی نوخیز حسینہ اس نے تمام عمر کبھی نہیں دیکھی تھی۔ موت کا خوف اس کے ذہن سے کافور ہو گیا۔ اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے برہ گئی۔  اے خدا              !                         تم نے کیا حور تخلیق کی ہے۔کاش وہ اسے مل جائے۔ اس  کے سینے سے ایک ہوک اٹھی۔

رات کو اس جگہ جہاں اس نے قیام کرنا تھا،          میں اپنی پارٹی کے اراکین کے ساتھ      عوام کے تاثرات  ، جلسے کےنتائج اور  جیتنے کی حکمت عملی  پر گفتگو کر رہا تھا۔جلسے کے بعد ایسی میٹگیں معمول کا حصہ تھیں۔  وہ انہیں پسند نہیں کرتا تھا لیکن  یہ لازماً کرنا پڑتی تھیَں ۔   نیلسن فارینہ نے اپنی بیٹی کو اس کے پاس بھیجا۔ وہ پہنچی تو سینیٹر کے محافظ دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔ انہوں نے اسے وہیں روک لیا اور بتایا کہ سینیٹر میٹنگ میں مصروف ہے۔ اس کمرے میں ائر کنڈیشنڈ نہیں تھا اور اس کی قمیص پسینے سے شرابور تھی۔ وہ پنکھے کے سامنے بیٹھا          میٹنگ  کے ساتھ ساتھ  اپنا پسینہ خشک کر رہا تھا۔ پنکھے کی ہو بھی آگ برسا رہی تھی۔

ہم یقیناً  ہوا ئی محل تعمیر نہیں کرتے۔خوابہائے            بیداری نہیں کرتے      اور نہ  ہی  ہوا میں تیر چلاتےہیں۔ ہم عملی لوگ ہیں۔کاغذی     شیروں کا شکار نہیں کرتے۔ خیالوں کی دنیا نہیں بساتے بلکہ حقیقت پسند ہیں۔ سینیٹر اپنے معتمدین کو کہہ رہا تھا۔ ہم  زندگی کو عملی طور پر دیکھتے ہیں۔بکریوں کی غلاظت، گائیوں کے گوبر   کو ٹھکانے لگانے اور ان سے فوائد حاصل  کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیوریج نظام نہ ہونے سے پیچش، ہیضہ  اور پیٹ کی بیماریوں  کو دیکھتے ہیں اور ان کا تدارک کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ پینے کا پانی میسر نہیں۔ ہمیں اندازہ ہے۔ ہمیں  سب معاملات ٹھیک کرنے چاہیئں لیکن ہماری مجبوریاں ہیں۔ ہمارے ہاتھ بندھے  ہیں۔ ہماری حدود ہیں۔ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نہ تم، نہ میں اور نہ ہی حکومت  ان مسائل کو سلجھا سکتی ہے۔ کیا ایسا نہیں؟

اس  بات پر سب خاموش رہے۔  وہ کچھ دیر خاموش رہا ۔ پاس پڑی ہوئی نوٹ بک میں سے ایک ورق پھاڑا۔ اس کی تتلی بنائی اور ہوا میں اڑا دی جو پورے کمرے میں گھوم کر نیم وا  دروازے سے لہراتی ہوئی باہر کی دیوار سے چیک گئی۔  سینیٹر  نے موت کا غم اپنے ذہن   سے اتارتے ہوئے اعتماد کے ساتھ باتیں کرتا  ہوا ا اور سب  کو اپنی طرف متوجہ کئے رکھا۔  اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا ۔ مجھے ان باتوں کو دہرانے کی قطعی ضرورت نہیں جو تم پہلے سے ہی جانتے ہو۔ میری سوچ اور تفکر تمہارے لئے بھی اتنا ہی اہم ہےجتنی میرے لئے ۔ٹھہرے ہوئے  پانی اور ریڈ انڈین کے پسینے سے اب میرا جی بھر گیا ہے جبکہ تم ان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو۔

نیلسن فرینہ کی بیٹی  کمرے کے باہر اونگھتے ہوئے محافظوں کے    ساتھ بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔ نے   کاغذ کی تتلی کو باہر آتے دیکھا ۔ تتلی دیوار سے ٹکرائی تو وہ سیدھی ہو کر دیوار سے جڑ گئی تھی۔ لڑکی اٹھی اور اپنے ناخنوں سے اس کاغذ کو دیوار سے اکھاڑنے کی کوشش کی تو کمرے کے اندر سے تالیوں کی آواز آئی۔  جس پر  محافظ کی اونگھ ٹوٹی ۔ اس نے  لڑکی کو دیکھا اورسوئی آواز میں  کہا کہ یہ کاغذ نہیں اترے گا کیونکہ وہ دیوار سے چپک گیا ہے۔ لڑکی یہ سن کر بیٹھ گئی۔

لوگ میٹنگ سے نکلے تو سینیٹر کے ہاتھ  دروازے کی چٹخنی پر تھے اور وہ ان کے آنے کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ اس  کی نظر لڑکی پر اس وقت تک نہ پڑی جب تک کہ سب لوگ چلے نہ گئے۔  اسے دیکھ کر بولا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو؟

بابا نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا۔

سینیٹر نے   محافظوں کو اور پھر کڑی نگاہوں سے لڑکی کوسر سے پاؤں گھورااور   اس کی خوبصورتی سے وہ مسحور ہو  گیا اور اپنی موت کاغم بھول کر اس کے حسن میں کھو گیا  لیکن اپنے جذبات کو چھپا  کر کہا اندر آ جاؤ۔وہ سوچ رہا تھا کہ نیلسن نے اس بچی کو میرے پاس کسی لئے بھیجا۔

وہ اندر گئی تو دیکھا کہ پنکھے کی تیز ہوا میں          ہزاروں کرنسی نوٹ  تتلی کی طرح  تمام کمرے میں اڑ رہے تھے۔

دیکھ لو کہ کرنسی نوٹوں جیسی گندی اور بے وقعت شئے تتلیوں کی طرح بھی اڑ سکتی ہے۔  بیٹھ جاؤ تو وہ ایک سٹول پر بیٹھ گئی۔ اس نے اس کا جائزہ لیا تو وہ غنچہ  تھی۔ اس کا جسم نرم و نازک    تھا اور پھولوں کی طرح مہک رہا تھا۔ اس کے بال ریشمی تھے اور ایسے تھے جیسے  کہ گھوڑی کی گردن کے بال  ہوا میں لہرا رہے ہوتے ہیں یا تتلیاں ایک پھول سے مستی میں اڑتے ہوئے جاتی ہیں تو ان کے پر اوپر نیچے ہو رہے ہوتے ہیں۔ لڑکی کی بڑی آنکھیں  کسی شئے کو دیکھ رہی تھین۔ سینیٹر نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا تو گلاس میں پڑے ہوئےاس خصوصی  پھول پر تھیں۔ اس نے وہ وہاں سے نکالا اور لڑکی کو پیش کر دیا۔

میں نے ان پھولوں کے بارے میں اپنے   '                  راؤہچا سکول                '                         میں پڑھا تھا۔

سینیٹر چارپائی پر بیٹھ گیا اور پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے۔

لارا فرینہ۔ لڑکی نے جواب دیا۔  سینیٹر پھولوں کی اقسام کے بارت میں باتیں کرتا ہوا اپنی قمیص کے بٹن کھولنے لگا۔اس نے اپنے دل پر  سوئیوں سے ایک  گودنے کا نشان (ٹیٹو)  کھدوایا ہوا تھا۔ اس نے پسینے سے بھیگی ہوئی قمیص زمین پر پھینک دی اور اسے کہا کہ اس کے جوتے اتارنے میں مدد دے۔

لارا فرش پر چارپائی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی اور اس کے تسمے کھولنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیسے کھولے کیونکہ اس نے مردوں کے لمبے تسمے کبھی نہیں کھولے تھے۔ یہ دیکھ کر سینیٹر بولا ۔ تم ابھی بچی ہو ۔ تم یہ سب نہیں کر سکو گی۔ تم سے نہیں ہوگا۔

میں  اب بچی نہیں      رہی۔ کیا تمہیں یقین نہیں آ رہا۔ میں بھر پور جوان ہوں۔ میں ایک ماہ بعد اپریل میں 19 سال کی ہو جاؤں گی۔ یہ سن کر سینیٹر نے غور سے اس کے جسم کا جائزہ لیا۔ اس میں دلچسپی مزید بڑھ گئی۔

سینیٹر ہنستے ہوئے بولا ۔اس طرح         تو  ہم دونوں کا برج حمل (ایریز)    ایک ہی ہے۔ کس دن پیدا ہوئی تھی؟

گیارہ کو۔ لارا بولی۔

یہ تنہائی کی علامت ہے۔ ایسے         لوگ خود کو تنہا  سمجھتے ہیں  سینیٹر نے کہا۔ لارا  نے اس کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔

سینیٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ  کیسے آگے بڑھے۔ اس سے پہلے وہ کسی کو پہلی ہی نظر میں دل نہیں دے بیٹھا تھا۔ اب اس کی محبت اس کے بالکل قریب تھی اور میسر تھی۔ وہ اپنی عزت و وقار کو بھی نہیں کھونا چاہتا تھا اور  آگے بھی بڑھنا چاہتا تھا۔  وہ فرش پر بیٹھی بوٹوں کے  تسمے کھولنے میں الجھی ہوئی تھی تو سینیٹر نے اسے اپنی دونوں ٹانگوں میں بھینچ لیا۔  اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور چارپائی پر لٹا کر اسے کہا کہ مجھ سے کوئی بھی محبت نہیں کرتا۔ سینیٹر نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔وہ چپ رہی۔ وہ  اس سے کھیلنے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی سکرٹ کے نیچے کوئی آہنی شئے پہنی ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا تو آہنی انڈر وئر پہنا تھا جس پر تالہ لگا ہوا تھا۔لارا کا  دل خوف سے دھڑک رہا تھا۔  اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔سینیٹر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔اس نے روشنی بجھا دی۔لارا کو ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ اس نے خود کو قسمت کے حوالے کر دیا۔ سینیٹر اس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس سے بغل گیر ہو گیا۔

اس تالے کی چابی دو۔ سینیٹر نے کہا۔

وہ میرے باپ کے پاس ہے۔ لارا نے کہا۔ اس نے مجھے کہا ہے کہ تم اپنے سرکاری پیڈ پر اپنے کسی آدمی کے ہاتھ خط لکھ کر بھیجو  جس میں وعدہ کرو  کہ اس کے تمام بگڑے ہوئے کام سنوارو گے تو وہ یہ یقین دہانی لے کر چابی اس ہرکارے کے ہاتھوں بھیج دے گا۔  سینیٹر یہ سن کر حیران بھی ہوا اور شدید غصہ بھی آگیا۔             اس کا چہرہ اندھیرے میں تھا۔ اس نے اپنے منہ میں اسے ماں بہن کی گالیاں دیں۔ اس نے اپنے مکروہ دھندوں مکو جاری رکھنے کے لئے اپنی نوخیز لڑکی کی دلالی کی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کافی دیر تک سوچتا رہا۔    اپنا جسم ڈھیلا کر دیا۔ مراقبے میں چلا گیا۔        اس کو کوئی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی۔ اس نے کہا کہ نیلسن اور اس جیسے لوگوں کو نہیں چھوڑے گا۔ انہیں یا تو خود مار دے گا یا مروا دے گا۔اس کا دماغ کھول رہا تھا۔  اس نے ٹھنڈے ٹھنڈے سانس لئے  تو  سکون آیا۔ جب اس کی کپکپی ختم ہو ئی           تو بولا۔

لارا۔ایک بات بتاؤ۔ تم نے میرے بارے میں کیا سوچا ہے۔ تم کیا چاہتی ہو؟

کیا تم  اپنے بارے میں حقیقی    رائے جاننا چاہتے ہو؟ لا را نے پوچھا۔

ہاں ۔ میں تمہاری سچی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ سینیٹر نے کہا۔

تو۔۔۔تو  ۔۔۔ سب لوگوں کی متفقہ رائے ہے کہ تم اگرچہ تمام  صاحب اقدار لوگوں سے بد ترین ہو لیکن ان سب سے مختلف ہو۔ لارا نے جواب دیا۔ میں بھی ان سے مےفق ہوں۔

سینیٹر نے اس پر اپنٰی آنکھیں بند کر لیں             ۔ کافی دیر سوچتا رہا  جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس پر خفتہ آرزو غالب تھی۔   آنکھیں کھول کر بولا ۔ اپنے کتے کے بچے باپ سے بول دو کہ مجھے اس کی تمام شرائط منظور ہیں۔میں اس کے تمام معاملات سیدھے کر دوں گا۔

اگر تم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو میں    خوشی سے رضامند ہوں۔ خود جا کر اپنے باپ سے کنجی لے آؤں گی۔ لارا نے  کہا۔  

سینیٹر نے اسے جانے سے روک دیا ۔ یہیں رہو۔ کنجی کے بارے میں بھول جاؤ۔ میرے ساتھ سو جاؤ۔ جب تم تنہا ہوتے ہو تو تمہارے پاس کوئی نہ کوئی ساتھ ضرور ہونا چاہیئے۔ یہ سن کر لارا نے اپنا سر سینیٹر کے کندھے پر رکھ دیا اور اپنی نظریں پھول پر جما دیں۔  سینیٹر نے لارا کو کمر سے پکڑ لیا اور اس کی بغل میں سر چھپا لیا۔ اس پر موت کی دہشت ایک بار پھر طاری ہو گئی۔ وہ چھ ماہ گیارہ دن بعد مر جائے گا۔ وہ تمام عرصے  اپنا غم لارا کے ساتھ غلط کرے گا۔ سکینڈل، بدنامی جائے بھاڑ میں۔ وہ سکون سے مرنا چاہتا تھا۔

 

تبصرہ                                                                           :                      موت سےبالاتر دائمی ہوس

 

زندگی جمود کا نام  نہیں ۔ وقت اور حالات کے ساتھ اس کے رخ ببدلتے رہتے ہیں۔  خوبیاں، خامیاں، طاقت، کمزور لمحات ،الجھنوں، خوشی ، غم ، وقار ، ذلت   اور دیگر حالات میں رد اعمال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ احساسات و جذبات  اور دنیا کی ہر شئے تغیر پذیر ہے۔ بھوک کے بعد محبت اور جنس شدید ترین محرک ہے۔ چاہنا اور چاہا جانا    ہر ایک میں فطری طور پر موجود ہے۔          اس کی خاطر سولی پر بھی آنکھیں بند کر کے خوشی سے چڑھا جاتا ہے لیکن ان  سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے جو  ان سب کو مات دے دیتی ہے اسے موت کہتے ہیں۔ وہ مستقل عمل ہے۔ باقی اشیا وقت  اور عمر کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن موت  بر حق ہے۔ وہ دائمی ہے۔اس بات کو  کہ محبت اور موت کی نوعیت  اور ماہیت کتنی قسم کی ہوتی ہےجاننا کا ر آمد ہے۔جبرائیل گارشیا    ا              مارکیوز س افسانے میں اس کا اظہار کرتا ہے۔

اس میں انسان کی موت کے  مقابل بے وقعتی  بیان کی گئی ہے۔یہ کہانی  اس   نے 1970          میں لکھی ۔ اس میں یہ بیان کرتا ہے کہ سیا ست میں کتنی زیادہ بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقربا پروری  پائی  جاتی   ہے کے تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ایک سیاستدان  اپنی وقتی جنسی آسودگی کے لئے تمام منوال تیاگ دیتا ہے۔

سینیٹر ایک بدنام زمانہ بے ایمان سیاستدان ہے جو اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنے ذاتی مفاد کی سیاست کرتا ہے۔ اپنی   آنے والی موت کی گھڑی کو جو چند ماہ بعد سر پر ہے، کے اضطراب کو کم کرنے کے لئے     اپنی نام نہاد محبت  کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ کہانی اس موڑ پر ختم ہوتی ہے  کہ وہ اپنی محبت حاصل کئے بغیر مر جاتا ہے۔ سانچز کی لارا سے محبت ایک ہوس کے سوا  کچھ نہیں جس میں وہ اپنے خاندان  سے بے وفائی کا مرتکب ہو تا ہے۔   اپنی محبت حاصل کئے بغیر مر جاتا ہے جس میں طرفین  بد دیانتی  کا ارتکاب کرتے ہیں۔

یہ کہانی ایک سیاست دان کی حرص، ہوس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس میں اس کا لالچ بے ایمانی اور ڈھونگ کی علامت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کی مصنوعی لیاقت بھی ہے جس میں وہ ہر شئے کو بڑے منظم طریقے سے پورا کرتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اپنی موت  کو قبول کرتا ہے۔ اس کے فائدے کے لئے وہ اپنی محبت کو استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنی کمزور جسمانی حالت  اور ذہنی کمزوری کو خیا لاتی  تصورات  اور ہوائی قلعے تعمیر کر کے پورا کرتا ہے۔ وہ آخری وقت میں لارا کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی موت کم سے کم خوف پیدا کر دینے والی ہو اور باقی ماندہ زندگی خوشگوار انداز میں گزار سکے۔  بد قسمتی سے اس کی تدبیر کار گر ثابت نہیں ہوتی  اور  اور اسے مزید تنہا کر دیتی ہے۔

سانچر اس کہانی میں کہیں بھی ہیرو نہیں لگتا اور نہ ہی ہے۔اس کی حیثیت  وجود نہ ہونے جیسی ہے جو اپنی موت کا بہادری سے مقابلہ نہیں کرتا بلکہ    اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چھپتا ہے۔ وہ چیختا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کے آخری دن آ گئے ہیں۔ وہ بوریت محسوس کرتا ہے۔ تنہائی اسے  کاٹ کھاتی ہے۔ یہ  طاقت، دولت ، موت کا خوف،  حرص اور ہوس کی داستان ہے۔ لوگ  اس کی بدطینتی سے آگاہ ہیں لیکن   ذاتی مفاد کے لئے اورسانچز کے ڈر سے وہ  اس کے جلسے جلوسوں میں آتے ہیں۔ اپنی موت کے بحران میں  اس کی تنہائی، بوریت اور ذہنی اذیت دور کرنے کا حل لارا ہے ۔ وہ ان مشکل لمحات میں سانچز کے مطابق اسے آسودگی دے سکتی ہے۔

اس  کہانی                                Death Constant Beyond Love) )  کا تعلق جادوئی حقیقت پسندی کے ساتھ ہے۔ اس نے اس کے ذریعے امکانی موقف اپناپا اور اسے عملی بنایا۔ قاری سانچز اور لارا کے کردار کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ اسے وہ گاڑیوں ،           سٹرا بیری  پھل اور سوڈا  پیش کرتا ہے۔  ائر کنڈیشنڈ گاڑی  میں بیٹھنے کی بدولت  وہ زیادہ وقت صحرا کی لو سے بچ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر وہ   گاڑی سے باہر آتا   تو لو برداشت نہ کر پاتا اور گرمی سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس کا تحمل جو وہ گاڑی میں ظاہر کر رہا ہوتا ہے،ختم ہو جاتا ہے ۔تاہم اپنی کرشماتی شخصیت کی بدولت سانچز  وہ اپنی  اس گھبرائی ہوئی کیفیت کوکنٹرول کر لیتا ہے۔  وہ گرمی کی حدت میں اضافے کے لئے  ریشمی قمیص     اور ہلکے رنگ کے صابن کی جھاگ  کی علامات استعمال کرتا ہے۔

اس کے ادب میں سرمایہ داری نظام کے خلاف اور کمیونزم کے حق میں مواد پایا جاتا ہے۔  وہ اپنے افسانوں میں حقیقت پسندی  کو مقدم رکھتا ہے اور وہ لاطینی امریکہ  کی ثقافت کے مطابق ہوتے ہیں۔  اس نے یہ تمام اوصاف  ڈیتھ کانسٹنٹ بی یونڈ لوو  میں بیان کئے ہیں۔ 

فلسفی پال ریکوئر     کے  مطابق مارکسی  ادیب  کسی شئے کی تشریح کرتے وقت بد گمانیاںیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیان کے متن  کے اندر چھپاتے ہیں۔ وہ متن کو براہ راست  بیان نہیں کرتے  بلکہ پیغام چھپا ہوتا ہے جسے قاری کو اپنی عقل استعمال کر کے واضح کرتا ہے۔

اس افسانے میں اس کے تصور میں ایک خیالی گاؤں  (روزی ڈا ویرے) ہے جس کے  مکین  اس کے مزارعوں کی طرح ہیں جو ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔  اس کی       اور   باسیوں  کی معاشریات   مماثلت رکھتے ہیں۔ اقدار، روایات، عقائد یکساں ہیں۔ عوام اسے نجات دہندہ  سمجھتے ہیں۔ وہ ان کی مشکلات دور کرنے میں اپنے کردار کو اہم سمجھتا ہے۔ وہ اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ  ' ہم اپنے ملک میں لاوارث نہیں ، نہ ہی خدائی یتیم ہیں اور بھوک پیاس اور برے موسم  جھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ ہم اپنی ہی سرزمین پر جلاوطنی کی زندگی نہیں گزار سکتے۔' اس کی تقاریر اس شئے کو تقویت دیتی ہیں کہ اس نے ان کی دنیا مثالی بنانی ہے۔ ان کے معیار کو اعلیٰ بنانا ہے۔ وہ عوام کو سہانے خواب دکھاتا ہے اور جہاں ضرورت ہو مذہب کو بھی استعمال کرتا ہے۔

وہ انجیل مقدس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جہان سے اٹھا لئے گئے ہیں وہ واپس آئیں گے اور  دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ ان کی تقلید میں وہ عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ اس طرح سے وہ خود کو ان داتا کہتا ہے۔ جس طرح حضرت یسوع مسیح یروشلم کی گلیوں میں معجزے دکھاتے رہے سینیٹر نے بھی وہی  طریق اپنایا ہے اور گلی گلی کوچے کوچے جا کر دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔  اس کے سیاسی استحصال کے باوجود عوام اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مارکسسٹ  تصور کو حقیقت بنا دینے کے نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ عوامالناس کی آا ہی نہیں بندھاتا بلکہ دیہاتیوں کے ساتھ تعلقات میںنظریے کو حقیقت کا رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے اور لوگوں کو اہم شمار کرتا ہے جن میں خوبیاں ہیں اور ان کا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ وہ بذات خود بورژوائی طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے حقوق کا ہی دفاع کرتا ہے لیکن  بظاہر وہ غریب عوام کے ساتھ ہے۔ وہ ریاکار ہے۔ اسے امت کی کوئی پرواہ نہیں۔

تمام کہانی کا مقصد موت کی پائیدار حیثیت  اور حقیقی ہونے کے بارے میں بتانا ہے۔ یہ مستقل ہے اور ہر پر آنی ہے۔ باقی تمام اشیا اس کے سامنے ناپائیدار ہیں۔ اس کے باوجود وہ دنیاوی امور کو نبھا رہا ہے۔ موت اس کے روز مرہ کے معاملات تبدیل نہیں کر سکتے۔ الیکش کا جیتنا، لارا   سے محبت اور موت کا خوف سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بوریت  سے اس میں افسردگی طاری ہو جاتی ہے جو بڈات خود عارضی موت کی علامت ہے۔ وہ موت قبول کرتا ہے اور وقتی لذت کا سامان لارا میں ڈھونڈتا ہے۔ آخری حصے میں وہ اپنی ہوس کو موت پر ترجیح دیتا ہے۔  محبت اور موت موضوعات بنیادی تصورات ہیں جن کے مقابلے میں باقی تمام موضوعات   یعنی رشوت، بدعنوانی ، غربت اور سیاسی جوڑ توڑ  مدھم پڑ جاتے ہیں۔

نفسیاتی نقطہ نظر سے اس میں کئی ایسے موضوعات ہیں جو فرائیڈ کے  مدافعتی رد اعمال  (  Defense Mechanism                                                       (              کے تصورات کو تقویت دیتے ہیں۔  42 سالہ سانچز اپنی جرمن نژاد بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ خوشگوارزندگی گزار رہا ہے۔ وہ اپنی بد دیانتی کے باوجود اپنے حلقہ کے عوام کو مطمئن رکھے ہوئے ہے۔ اس کی زندگی اس وقت الٹ پلٹ ہو جاتی ہے جب اسے علم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی چھ ماہ گیارہ دن باقی رہ گئی ہے۔ اس سے اس کو دھچکا کگتا ہے۔ پہلے پہل اس حقیقت            سے انکار کرتا ہے ۔اپنے دکھ اور اذیت کم کرنے کے لئے شعوری طور پر اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔سر کو بار بار جھٹکا دے کرموت کے خوف کو  ذہن سے نکالتا ہے ۔ بار بار کی کاوشوں سے  موت کا خوف اس کے تحت اشعور میں چلا جاتا ہے۔کبھی کبھار موت کا خوف ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی بھول جاتا ہے۔مزید وقت گزرنے کے بعد وہ لاشعور میں چلا جا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات بلا واسطہ طور پر اس کی شخصیت میں ظاہر ہونا شروع ہو نے لگ جاتے ہیں ۔  وہ کسی سے اس کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے اسے شرمندگی کا احساس ہوتا ہے لیکن کسی نہ کسی طرح سے وہ اسے متاثر کرتا رہتا ہے۔ وہ حقائق کا اظہار کرتےوقت غربا   ، مساکین اور ضرورت مندوں کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ سب اس کے احساس محرومی جو کہ موت  کی شکل میں اس کے سامنے منڈلا رہا ہے ، کا غصہ دوسروں پر اتارتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کنجی کو رہنے دو۔ اس وقت تم میرے ساتھ سو جاؤ۔ جب تم اکیلے ہوتے ہو تو تنہائی سے بچنے کے لئے تمہارے ساتھ کسی کا ہونا اچھی بات ہے۔ اس کا یہ فقرہ اس کی مکزوری ظاہر کرتا ہے جواسے موت کے       خوف سے             جو اس کے لاشعور میں پایا جاتا ہے ،          ادا کرنا پڑتے ہیں۔  موت کی دہشت اسے اپنی سرکاری حیثیت  کم اہم لگنے لگتی ہے۔ اپنی عزت، وقار اور جاہ و حشمت کو داؤ پر لگا کر  ہوس میں لارا کی غیر قانونی اور منشیات         اور اسلحے کی سمگلنگ اور دیگر سنگین جرائم میں اس کی مدد دینے کی حامی بھر لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اندوہناک عواقب کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔

اس  افسانے کا  وہ حصہ اہم ہے جس میں لارا  اس کے دفتر میں داخل ہوتی ہے۔ اس وقت سینیٹر سانچزکے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آتی کہ اس لڑکی کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا جائے۔ وہ اسے نابالغ سمجھتا ہے  اس لئے نفسانی خواہشات  نہیں آتیں لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ بالغ ہے  تو وہ لارا کو اپنی ٹانگوں میں جکڑ کر  کمر سے پکڑ کر بستر پر لٹا دیتا ہے۔  لارا کے جسم پر ٹھنڈے پسینے آ رہے ہوتے ہیں۔ چھیڑ خوانی کے دوران اسے جب پتہ چلتا ہے کہ اس سے وہ اس کے باپ کے حفاظتی اقدام سے اس سے زنا نہیں کر سکتا تو اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔اس کی بے چینی، بے آرامی اس کا خوف ظاہر کرتی ہے۔ یہ حصہ اس کہانی کا عروج ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے یہ حصہ مارکسی نظام کے تحت بیان کیا ہے۔ یہاں اس میں ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔

مارکیوز  اکے افسانوں میں ایک          بات مشترک ہے      کہ  ایک   صورت حال میں  تشریح مختلف پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے۔ لارا کا اس کے آفس میں آنے ، بستر پر لٹانے کی تفصیل سینیٹر، لارا ۔ اس کے باپ نیلن فرینہ اور محافظوں کے لئے مختلف ہو گی۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں اس کی وضاحت کرے گا۔ سانچز کی ہوس، لارا کا کترانا، نیلسن کی  اپنے مقدمات ختم کروانا اور محافظ کا سینیٹر اور لارا کے بارے میں وضاحت اپنے اپنے کردار کے حوالے سے بیان کریں گے۔ ہر ایک کے اس صورت حال میں جذبات واحساست اور تشریح  مختلف ہو گی۔ اس کے افسانوں میں وہ کئی مقامات پر جو واقعہ پیش کرتا ہے وہ مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے اور ہر ایک اپنے انداز میں تشریح کرتا ہے۔ کہانی کا خاتمے کے وقت قاری کے ذہن میں کئی سوالات رہ جاتے ہیں، جسے قاری اپنی سوچ کے مطابق حل کرتا ہے۔ جیسے وہ اور لارا اکٹھے سو جاتے ہیں۔ وہ کنجی کا خیال ترک کر دیتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے، آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا کوئی سکینڈل بنتا ہے۔ اس کے بیوی بچوں اور عوام کا رد عمل کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ        کے بارے میں قاری از خود نتیجہ نکال لیتا ہے۔

 

 

Gabriel Garcia Marquiz ( Nobel Laureate 1982)

Columbia

1928-2014

 

 

حالات زندگی

 

گیبریل گارشیا مارکیوز  کولمبیا میں 1928  میں پیدا ہوا۔ اسے اس کے ننہال نے پالا۔  وہ   اپنی ادبی زندگی   کا سہرا  ان کے سر باندھتا ہے۔ اس  کی نانا  اور نانی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ نانی بچپن میں ایسی کہانیاں سنایا کرتی تھی جن میں  تخیلات پائے جاتے تھے ، وہ تفصیل میں نہیں جاتی تھی بلکہ اسے کہتی تھی کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق   اسے بیامن کرو اس لئے اس نے جو ادب تحریر کیا ہے اس کی تفصیل   کا بیان اپنے قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔  اس کا نانا  کولمبیا           کی جنگ آزادی میں  کرنل تھا۔  فوج نے اس کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا۔ وہ اسے اپنی جنگ کے قصے کہانیاں بیان کیا کرتا تھا جس نے اس کی سیاسی سوچ  اور نظریات قائم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ کمیونسٹ خیالات کا علمبردار تھا۔

گیبریل گارشیا ماکیوز کے واالد کا نام  گیبریل    ایلجی یو  گارشیا                                                     (Gabriel Elgio Garcia )اور والدہ کا نام لیوسا سیٹیاگا مارکیوز  Luisa Santiaga Marquez) )            تھا۔  وہ کولمبیا کے شہر آرا کاٹا کا (Aracataca) میں پیدا ہوا۔ اس نے ہائی سکول Barranquilla))   وہیں سے کیا

 یہ شہر سماجی سرگرمیوں کا مرکز    تھا۔ہر وقت تقریبات  ہوتی رہتی تھیں۔ 1947 میں اس نے     دارالخلافہ بگوٹا کی  نیشنل یونیورسٹی کولمبیا سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور  اس کے بعد وہ  بارینکیولا     واپس آگیا۔

اس کے افسانے 1948 میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔  اس نے 1957 میں Mercedes Barcha  سے شادی کی۔ وہ سیاحت کا شوقین تھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ وہ کمیونسٹ ممالک، فرانس، میکسیکو  رہا۔ فیڈرل کاسٹر و   نے انقلاب کی کامیابی کے بعد اسے کیوبا بلایا۔ وو اس کا گہرا دوست تھا۔  اس نے تصانیف کے ساتھ صحافت میں نام کمایا۔ اس کا لقب  Gabo /   Gabito تھا۔کولمبیا  جرائم پیشہ لوگوں کا ملک تھا۔ منشیات فروشی اور اسلحہ کی سمگلنگ عام تھی اور اب بھی ہے۔ اس نے بدنام زمانہ منشیات کے سمگلر                 (                 ُPablo Escobara)پر  آرٹیکل لکھے جو اس زمانے میں بے تاج بادشاہ تھا۔اس نے بہت سی فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور ڈرامے بھی لکھے ۔ اس کے اعلیٰ ادب پر اسے  نوبل انعام ( لٹریچر)    کا 1982 میں حقدار قرار دیا گیا

اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Leaf                     Storm  ( 1954)

No One Writes to the Colonel   ( 1962-66)

One Hundred Years of Solitude ( 1967)

Autumn of The Patriach  (1979-81)

Chronicles Of  A Death Foretold  (1982)

Collected Stories of Garcia Marquiz (1984)

یہ کہانی Collected Stories of Garcia Marquiz             سے لی گئی ہے۔                    ۔ اوہ 87 برس کی عمر میں 2014 میں فوت ہوا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ   نسیان کی بیماری میں مبتلا ہو گیا اور نمونیا  سے فوت ہوا۔


Popular posts from this blog