نمبر د س ( نمبر ٹیں ۔۔۔۔ایڈنا 'او 'بریئن ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ Number 10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Edna ‘O’Brien ۔۔






                                                                Number 10

By

Edna ‘O’Brien

UK

دس نمبرمینشن

مترجم: غلام محی الدین

رینےہرڈٹ  کی بیگم کے لئے تمام کام آسان ہوگئےتھے جب اس نے نیند میں چلناشروع کیا تھا۔اس کے لئے  یہ بات حیران کن بھی تھی اور نہیں بھی۔اسے یہ پہلی بار پتہ اس وقت چلاجب اس نے خواب میں ایسی بھیڑیں دیکھیں  جن کی شکل وصورت  اصل سے مختلف تھی۔جیتی جاگتی زندگی میں انہیں دیکھتی تو  وہ گدلی، غبار آلوداور جوؤں سے بھری ہوئی تھیں ۔ان کے چاروں طرف میمنے منڈلاتے  ہوئے تھنوں سے دودھ پیتےرہتے اور چہلیں کرتےرہتے جبکہ خواب میں وہ  براق کی  طرح صاف ستھری ہوتیں ۔پھراس نے ایسے واقعات  دیکھےجو حیران کن ہواکرتے تھے۔

اس کے خاوندرینے ہرڈٹ کی لندن  شہر میں ایک آرٹ گیلری تھی جہاں فن کے قدردانوں     کےلئےہر طرح کی تصاویر تھیں جو منفرد بھی تھیں خوبصورت  بھی لیکن  اسے  اپنے میاں کی اس تجارت میں دلچسپی      نہیں  پیداہوئی تھی ۔ خواب میں وہ جوتصاویر دیکھتی وہ اگرچہ عجیب وغریب   ہوتیں لیکن  اس کو روحانی تسکین دیتی تھیں  ۔ نازیبا شکل گھوڑے کے گردن کے بالوں  والے چوپائے        یا جھگڑالو خاتون  یااس طرح  کی دیگر نازیبا تصویر  ہوتی تھیں جن کے عنوانات دیکھ کر وہ  ان  کی تفہیم کرسکتی تھی جبکہ  اس کے خاوند کی آرٹ گیلری  کی آڑی ترچھی تصاویر جسے اس کا خاوند نادر فن پارے کہتاتھااور سٹوڈیو میں بھری پڑی تھیں ۔کووہ سمجھ نہیں سکتی تھی۔ تعجب تھاکہ  نوم خرامی اس کے لئے راحت کاسبب بنتی تھی۔یہ حیرت انگیزبات تھی کہ وہ نیندمیں چلتی  ،خواب دیکھتی اور بیدار زیادہ تر اپنے بسترپر ہوتی تھی۔خوش کن بات یہ تھی  کہ وہ اسے مستقبل  میں  آنے والے حالات   سے اشاروں کنائیوں سے آگاہ کرتے اور اسے عام مسائل سے چھٹکارادلاتے تھے۔ نیندکی حالت میں اسے کچھ بھی نہیں کرنا  پڑتاتھا۔ وہ منفعل رہ کرتماشادیکھتی رہتی تھی ۔ تمام اشیاخودبخود ظاہراور غائب ہوتی رہتیں ۔سب معاملات پہلے سے طے ہواکرتے تھے۔نوم خرامی(سلیپ واکنگ) میں اس کی سانسیں معمول کے مطابق مقررہ رفتار سے چلتی رہتی تھیں۔صبح جب وہ بیدار ہوتی تورینے اس کے دل میں  یہ کہہ کرپریشان کر دیتا کہ اس کاچہرہ کملایا ہوالگتاتھا۔وہ اس   کی رائے نظرانداز کردیتی کیونکہ یہ اس کامعمول کا فقرہ تھا۔ اس کے خاوند نے اپنی بیس سالہ عائلی زندگی میں  ایک بار بھی  نیندبھرنے کےبعد اسے تازہ دم نہیں کہاتھا۔

مسٹر رینے ہرڈٹ ایک کھاتا پیتا شخص تھا۔لندن شہر میں آرٹ گیلری اور گاؤں میں ایک کافی بڑا فارم ہاؤس تھا۔اس گھر کی ایک ہی روٹین رہی اور پوری زندگی ان پرعمل ہوتارہا۔

پورے ہفتے کے معمولات کچھ یوں تھے۔۔۔پہلے پانچ  دن رینے اپنی آرٹ گیلری جاتا اورتجارت کوپوراوقت دیتا۔ ہفتے کے آخری دودن اپنے دیہی فارم  اپنی بیگم کےساتھ جایاکرتا تھا جبکہ اس کی بیگم ہفتے کے پہلےپانچ دن گھرپررہتی اور نوکروں اور نوکرانی فاطمہ کی خاص کرنگرانی کرتی۔پہلے دودن سہ پہر کے دوبجے ذہنی طورپرپسماندہ بچوں  کے پاس جاکران کی دلجوئی اورر فلاح وبہبودکے پروگرام  کرتی  اور ان کو سہولیات  کا جائزہ لیتی اور خامیاں دورکرتی، دوسرے دودن اپنے گھر میں سبزیوں اور پھولوں کی کیاریوں کا جائزہ لے ان  میں  مزید بہتری لانے کی کوشش کرتی۔ایک دن وہ گھریلو سامان کی خریداری کرتی اور ہفتے کےآخری دودن میا ں کے ساتھ دیہی فارم گزارتی ۔

 فارم ہاؤس کےگھر کی انہوں نے دوبارہ سے آرائش کی تھی۔وہاں بھی اس کی نوم خرامی کی عادت برقرار رہتی ۔اس کا خاونداسے خواب میں اس  سے بستر سے غائب  پاتاتواس کاالارم بج جاتا اورکئی بارتواس نے چھپ کر پیچھابھی کیالیکن   وہ خود ہی واپس آکر لیٹ جاتی اور اپنے بسترپرہی بیدارہوتی۔مشکوک حرکت نہ پاکر فکرمندہوتاکہ کہیں وہ خود کو نقصان نہ پہنچالے۔مویشیوں کی حفاظت اور دوسروں  کی دخل اندازی سے بچنے کے لئےاس نے فارم ہاؤس کی چاردیواری کےلئے لوہے کی باڑ لگادی ہوئی تھی ۔

مئی کی ایک رات، وہ اپنے لندن کے گھر سے اپنے فارم ہاؤس آئی تو اسے ایک ناقابل یقین خواب آیاجس مین اس نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کھیتوں میں سیر کررہی تھی۔۔۔جو اس وقت یونیورسٹی کاطالب علم تھا۔ان  دونوں نے مہم جوئی کے لئے ذیلی باغ میں نئے پھول لگانے کا فیصلہ کیاحالانکہ انہوں نےاپنے فارم کی دیکھ بھال کے لئے مالی، کسان اور منیجر رکھاہواتھاجو گھر سے فاصلے پررہتے تھے۔ وہ  کیاریوں میں گوڈی کرنے لگے۔اپنے ننگے ہاتھوں سے زرخیز مٹی کھودنے لگےکیونکہ وہ بھربھری تھی اور آسانی سے گڑھا بنایاجاسکتاتھا۔وہ ایسے جوش و خروش سے زمین کھودکر مٹی نکال رہےتھے جیسےاس میں سوناچھپاہو۔تھوڑی کھدائی کے بعد ان کے ہاتھوں میں دھات کے کچھ ٹکڑے آئے۔ان کاجائزہ لیاتو وہ سوناتھاجوانہوں نے اپنے رومال میں باندھ لیا۔وہ اس وقت مزید خوش ہوئی جب وہاں اسے سونے کی ایک کنجی ملی۔وہ اسے روشنی میں لائی اور شوق سے دیکھنے لگی۔اس کے بیٹے نے اسے یہ  سب  دیکھا تواس نے قہقہہ لگایااور بچگانہ آواز   میں 'ماما' کہا۔

اب موسم خزاں آگیاتھا۔وہ معمول کے مطابق گھر کی سالانہ صفائی کرنے لگی۔پراناسامان نکال کرنیاسامان بھراجوبدلتے فیشن کے مطابق تھا۔پردے اور قالین دھلوائے ۔رینے  کی وارڈ روب  کوبھی ترتیب دیا ۔سویٹر،ٹی شرٹس،آستینوں کے بغیر ہلکے موسم کے سویٹر، آستیوں والے ہلکے سویٹر،اور مردانہ لباس میں استعمال ہونے والی اشیا ڈھنگ سے رکھیں ۔ جب وہ  رینے کے کپڑے سنبھال رہی تھی تو اس کی جیکٹ کی جیب سے ایک کنجی پھسل کر فرش پر گرگئی۔وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گئی کہ اس کی شکل ہوبہوویسی تھی جو اس کے ہاتھ خواب میں اپنے بیٹے کے ساتھ زمین کھودتے وقت  لگی تھی۔اسے دیکھ کروہ خوفزدہ ہوگئی۔اس نے ڈرتے ڈرتے چابی اٹھائی اور اپنے پاس رکھ لی۔اس نے تہیہ کیاکہ اسے کبھی خود سے جدانہیں کرے گی۔وہ اس بات پر حیران تھی کہ نوم خرامی میں اس نے جو دیکھی تھی وہی چابی حقیقت میں بھی اسے مل  گئی تھی۔یہ کیسا اتفاق تھااسے سمجھ نہ آئی۔

 رینے ہرڈٹ چڑچڑا اور موڈی تھا۔زیادہ تردیرسےگھرآتاتھا۔وہ دیری کی توجیہہ نہیں دیاکرتاتھالیکن وہ اس کےدیردے گھرپہنچنے کی وجہ جانتی تھی۔اسےعلم تھاکہ گھرآنے سےپہلے وہ کونےوالےمےخانےپرچندپیگ چڑھاتاتھا۔گھر آتے ہی مےخانے والی الماری کھول کرخود بھی پیتااور اسےبھی پلاتاتھا۔ایک بار جب وہ دھت گھر آیاتواس پرآتے ہی جنسی طورپرحملہ آورہوااور ڈرائنگ روم میں ہی لٹالیاحالانکہ نوکرانی فاطمہ کہیں آس پاس تھی۔

ایک باروہ خواب میں ایک عالیشان گھرگئی جسکے مین درواےپر سنہری جلی حرورف میں ْنمبر 10       ´لکھاتھا۔وہ کسی مسٹر میوزکاگھر تھا جو

ہمیشہ بند رہتاتھاجس کارنگ سفیداور سیاہ تھا ۔اس کے باہر کےٹب میں  اسےچھوٹا سا گھونسلا بنانظرآیا۔اس میں  خوبصورت  پھول       اگے تھے ۔وہ انہیں سونگھنے لگی تو پتوں میں چھپی چابی نظر آئی۔خواب میں ہی اس نے اسے اٹھالیا۔غور کیاتو وہ مین دروازے کی چابی تھی۔خواب میں ہی وہ مین دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔اندر لابی میں جووال پیپرلگاتھااتنادلکش تھا کہ اس کادل چاہا کہ وہ اپنے گھر میں بھی ایسا ہی لگالے۔وہ زرد سنہری رنگ کاتھاجس پرننھے منھے پھول تھے۔ وہ آگے گئی اور باورچی خانہ دیکھاجوصاف ستھرا  اور سونے چاندی کے برتنوں اور دیگر قیمتی اشیا سے مزین تھا۔ بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھتے وقت  جوجگہ رکنے کے لئے بنائی جاتی ہے (لینڈنگ)پرایک قیمتی سٹول رکھاگیاتھا۔دیوان خانے میں شاہی صوفے تھے ۔وہ مین بیڈ روم میں گئی  تواس کی عظمت  سے سکتے میں آگئی ۔

اس گھر کی ہر شئے نادر، انمول ااور من پسند تھی۔وہ ان سےاتنی متائثر ہوئی کہ چاہتی تھی کہ اس کے ہاں بھی یہ سب  موجود ہوں۔ خواب گاہ اتنی دلکش تھی کہ وہ بارباروہاں آناچاہتی تھی ۔ اس نے اپنے میاں سے  میوزمینشن میں پائے جانے والے سامان کی  تفصیل جو اس نے  خواب میں دیکھے تھے، بارک بینی سے  بیان کی اورخواہش کااظہار کیا کہ اپنےاس گھرمیں  ایساہی سامان چاہیئے۔ رینے ہرڈٹ  کوتو وہ 10 نمبرمینشن  عام سالگتاتھااوروہ اس سے بالکل متاثر نہیں تھا۔بیگم نے بتایاکہ بستر کافریم اعلیٰ دھات سے بنا تھاجس  کےاوپر چھوٹی چھوٹی لیس کا چھاتابنایاگیاتھا۔اس کے مقابل دیوار ایک کالی دھات کے آئینےسے بنی تھی جس کی ہیئت کچھ ایسی تھی کہ اس کے اندر ایسی تکنیک استعمال کی گئی تھی کہ اس میں ہلکے بلوری نیم تاریک سائے  اردگرد تیرتےنظرآتےتھے۔ لاؤنج میں مخمل کی ایک گھوڑاگاڑی رکھی گئی تھی جس کے پتے بہت چمکدار تھے،ساتھ ہی  ایک اونچافرشی لیمپ رکھا گیاتھا جس کالٹکنے والا حصہ جگمگارہاتھا۔اس حصے پر پتے بنے تھے جوچاندتاروں کےنور کاساماں پیداکررہے تھے ۔ان سے بھینی بھینی ہلکی روشنی آرہی تھی جورومانی تھی۔

خواب میں اسے محسوس ہواکہ وہ خواب گاہ  کےاندرگئی اور اس خوبصورت بسترکے کنارے پر بیٹھ گئی ۔ اسے کاغذ کواڑنے سے محفوظ کرنے والاوزن جسے ہلایاجاتاتواس کےاندر ہلکا سا برفانی طوفان پیدا ہوجاتاتھا ،پاس پڑا تھا۔اوردیگر بےمثال اشیا  جن میں  ایک ننھی بچی کی تصویر بھی تھی جس نے وہ لباس پہناتھاجواس نے عیسائیت  مذہب اختیار کرتے وقت پہناتھا۔اس کےعلاوہ موتیوں کی مالا اور ایک ٹرے بھی نظرآیاجس  میں دوجام  بھی تھے۔                                                     

اس نے سوچاکہ  وہ  اور اس کامیاں  پی کرمدہوش  ہوجائیں۔اس  نے سوچاکہ رینےانگلیوں سے تھپتھپائے گایا قلم کی نب ہلکےسے چبھوئے گا یا چٹکی کاٹےگایا فوارے کے لیور سے شرارت کرکے اس سے لپٹ کرطویل بوس وکنار کرے گااور پھر وہ اس سحر طاری کرنے والے بستر پر لوٹ پوٹ ہوجائیں گے۔

وہ وہاں بسترپربیٹھ گئی اور اس نےکسی شئےکونہ چھوا۔یہاں تک کہ ان دوقوس وقزح کےرنگوں کوبھی جوشیشےکےگلدان میں تھیں ۔سنہری کنجی اس کے ہاتھ میں تھی اور وہ یہ جانتی تھی کہ کسی وارڈروب کی تھی اوراسےپتہ تھاکہ  وہ اسی  وارڈروب  کی ہی  تھی جسے کھول دینےکی دیرہوگی کہ اسکےنائٹ سوٹ اور ڈانس والا لباس جس کابالائی حصہ نقرئی اوربلاآستین تھا اور اس کےنرم و نازک جوتے پڑےہوئےملیں گےلیکن اس نےوارڈروب نہ کھولی۔وہ چاہتی تھی کہ ایسی نشانی وہاں چھوڑجائےجوخفیہ ہوتاکہ وہ بعد میں کسی انہونی بات کورازمیں رکھ سکے۔خواب میں ہی اس کےبعدوہ اپنے گھر واپس آکر اپنی خوابگاہ میں آکربیٹھ گئی اوررینے ہرڈٹ کو

اس بات کی بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ وہ گھرسے نکلی تھی۔وہ جب بستر میں گھساکرتاتھاتواپنی بیگم کے پاؤں ٹھنڈے پاتاتھااوراس سےپوچھاکرتاکہ ایساکیوں ہوتاتھا۔وہ کہاں آوارہ گردی کرتی رہی تھی۔وہ کہتی کہ باہرصحن میں تھی یا پھرگھرکاکوئی کام کررہی تھی جسے اسے گھرسے باہرجاناپڑاتھا جس سے سردی میں اس کےپاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔اس نے کئی بارپیچھاکیاتھالیکن کوئی قابل اعتراض بات  نظرنہ آئی تھی۔اس خواب میں بھی ایساہی ہوا۔خاوند نے جب اس کےپاؤں ٹھنڈے محسوس کئے اوروجہ جانناچاہی تواس نے کہاکہ وہ چائے بنارہی تھی۔وہ آگے جھکی ،اپنے میاں کاپاجامہ کھولا اور رومانوی انداز میں  بھرپور محبت کی۔وہ جب صبح اٹھاتو معاملہ خواب کے برعکس تھاکیونکہ اسےایسالگاکہ اس کاخاوند اس سے اکھڑااکھڑاساتھا۔   

مسزرینے ہارڈٹ ہررات نمبر 10کی تختی جس کےکنارے سنہری اور پلیٹ پر سیاہ رنگ کے جلی حروف تھے اور  ایک  بطخ  

        ترچھے      انداز                      میں بیٹھی تھی ۔وہ ان کاسوچتی تو اس کادوران خون تیزہوجایاکرتاتھا۔وہ خواب گاہ میں لیٹ کر تصورات میں مست رہتی۔اور کافی دیرتک سانس روکے لیٹی رہتی۔ خواب میں اس کی خواہش ہوتی  کہ اس کامیاں اس کاپیچھاکرتاہواآکراسےپکڑلے اور وہ اسی بسترپرمستی کرکریں ۔

ایک ایسی ہی رات تھی۔وہ اپنی خواب گاہ میں لیٹی ہی تھی کہ رینے ہارڈٹ نشےمیں دھت آیا۔دروازہ بندکیا۔اپنا ڈریسنگ گاؤن اتارپھینکااور اس شدت سے اس پرجنسی حملہ کیا۔ اسے لگاکہ اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔اس نےجذبات جوش میں ایسے ایسے ڈائیلاگ کرائے جوایک نوعمر اپنی معشوقہ کویاعاشق اپنی محبوبہ کویاخاوندنوبیاہتابیوی سے کرتاہے۔ان دنوں وہ اپنے میاں کے رویہ سے نالاں تھی اور اس سے کھنچی کھنچی رہتی تھی اور ہر صورت اس سے ملنے سے اجتناب کرتی تھی لیکن اس رات  اس نے سب کچھ بھلاکر اس سے بھرپور ساتھ دیا۔اس کے اس رات کے پیار نے رینے کے لئےاس کادل موم کردیاتھا۔اس کے بعد جب بھی اس کی پتلون میں ابھارنظر آتاتھااس پر محبت کااثر چھاجاتا۔

ایک خواب اس کے موبائیل پر گھوڑوں کی تصاویر آئیں جس میں ایک گھوڑا آگے تھااورباقی اس کے پیچھے قطار میں آرہےتھے۔اس میدان میں ہجوم تھا ۔ میاں بیوی خواب میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔وہ اس تقریب  کے مہمان خصوصی تھے۔ انہیں بڑے عزت و احترام سےجام پیش کئے گئے۔وہ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے کر پینے لگےاور ان پرسرورطاری ہوگیا اور وہ سب کچھ بھلاکر سب کے سامنےایک دوسرے پرٹوٹ پڑے اور عشق کی تمام حدیں پار کرگئے لیکن جب اس کی آنکھ کھلی  تو اسے مایوسی ہوئی کہ وہ خواب تھااور وہ اپنے بستر پر ہی تھی۔اس کی پسلیوں میں درد نہیں تھا۔اس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو اس پر مستی  کے کہیں بھی کوئی نشانات نہ پائےگئے۔اس کے بال بھی الجھے ہوئے نہیں تھےاور نائٹ گاؤن کے بٹن گلے تک بند تھے۔اس کےپاس رینے ہرڈٹ سویاہواتھا۔اس نے آنکھیں کھولیں تو اس میں الجھن اور پریشانی نظرآئی۔وہ اٹھی اور لاؤنج میں چلی گئی اور خواب پر سوچنےلگی۔وہ حیران تھی کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہورہاتھا۔وہ سوچنے لگی کہ اسے ایسے واقعات کو جو اس کے ساتھ روزانہ کی بنیادپرخواب میں پیش آتے تھے کیا رینے کوبتانے چاہیئں یا ان پرخاموشی اختیارکرنی چاہیئے۔وہ فیصلہ نہ کرپائی۔

ایک دن وہ صبح اٹھی تواس کے من میں آیاکہ نمبر 10 جورات بھر اس کے خوابوں میں چھایا رہتاتھا،کی حقیقت  جانی جائے۔اس نے سنہری کنجی جو اسے اپنے خاوند کی جیکٹ سے گرنے پرملی تھی کواپنے گھر کے تمام کمروں میں لگاکر آزمایالیکن  وہ اس گھر کی نہیں تھی۔اس نے یہ عمل نوکرانی فاطمہ کے علم میں لائے بغیر کیں۔اس نے خواب میں یہ دیکھاکہ  نمبر10 کی ایک کنجی مالک نے مین گیٹ کے باہر کے گلدان میں بھی رکھی ہوئی تھی۔کنجی کی گتھی اس سے سلجھائی نہ جارہی تھی۔ پھر اس نے سوچاکہ ہوسکتاہے کہ وہ اس کی آرٹ گیلری کی ہو۔اسے موقعہ ملنے پر آزمانے کاسوچا۔

جمعہ کاروزتھا۔روٹین کے مطابق انہوں نے گاؤں اپنے فارم ہاؤس جانا تھالیکن اس کا من اس روز وہاں جانے کانہیں کررہاتھالیکن پروگرام کے مطابق وہاں جاناہی پڑناتھا۔ اس کی مرضی یا غیرمرضی کا سوال نہیں تھا۔ اس نے اس روز سوچاکہ اگراس نے جانا ہی تھاتووہ مہم جوئی کرےگی ۔اس نے سوچاکہ وہاں پہنچتے ہی  پہلاکام وہ یہ کرے گی کہ وہ پودوں کی دیکھ بھال کرے گی۔کیامالی ان کی نگہداشت صحیح طورپرکررہاتھا۔ان کی نمود ٹھیک تھی۔سبز گلاب کے پھولوں کودیکھےگی کہ کیاان پر سبزمکھیاں کتنی تعداد میں بیٹھتی تھیں ۔ میگنولیا کے پھولوں کاموسم ختم ہوچکاتھا ۔ان کے پودے  خشک ہوگئے تھے لیکن وہ پھربھی انہیں سونگھے گی کیونکہ ان سے اب بھی خوشبوآرہی ہوگی۔ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی کاسٹیئرنگ کھیتوں کی طرف موڑلے گی اور گائیوں کے گلے کی طرف جاکران کی صحت کاجائزہ لے گی کہ ان کادودھ اور گوشت وغیرہ کے معاملات کیسے جارہے تھے تھے اورانہیں مبارک دےگی کہ وہ کتنے خوش قسمت تھے کہ اتنے اعلیٰ ماحول میں پل رہےتھے۔

پروگرام کےمطابق جب وہ  گاؤں پہنچےتو مگنولیا کی فصل ختم ہوچکی تھی۔اس نےسوچاکہ وہ پھول اب جنت میں کھل رہے اوراپنی بہاردکھارہےہوں گے۔ایلم کےجنگلی درخت  جھلس گئےتھے۔رینے نےاسے کٹوانے کافیصلہ کیا کیونکہ اس سے کافی لکڑی اکٹھی ہوجاناتھی جسے  آتشدان  میں  استعمال کےبعدبھی کافی بچ جاناتھی جسےبیچ دیاجاناتھا۔انہوں نے اپناسامان رکھا ۔کمرے کےپردے ٹھیک کئے اور آتشدان جلادیا۔باورچی خانے کی ترتیب ابھی بھی ایسی تھی جیسے وہ پچھلے ہفتے چھوڑگئے تھےسوائے جنگلی گلاب کے  

پھولوں کےجوگملوں میں تھےاورسوکھ گئے تھے۔ جو جس کی ٹہنیاں نظرآرہی تھیں

انہوں نےخوراک کےبندڈبے کھولےجووہ اپنے ساتھ لائے تھےاورباقی فریج میں سنبھال دئیے۔بیگم آلواورگاجریں رات کے کھانےکےلئےچھیلنےلگی۔رینے نے اپنےفن پاروں  کولگانےکے لئےچار کیل ٹھونکے اور وہاں لٹکادیئے۔اس دوران وہ بیگم کی رائےلیتارہاتاکہ وہ صحیح ترتیب اور پوزیشن میں لگائی جائیں۔وہ چونکہ باورچی خانے میں مصروف تھی اس لئے  بےدھیانی میں اسے ہدایات دیتی رہی۔

اس  کےبٹوے میں  کنجی تھی۔ وہ باربارکھول کرچیک کرتی کہ آیاوہ  اب بھی موجود تھی۔اس کےبعدکچھ سوچ کر  شرم سےسرخ ہوجاتی ۔

صبح سحری کےوقت  وہ باہرگئی اورسیب کی سوکھی لکڑی لاکرجلائےتاکہ اس کی بھینی بھینی خوشبو سونگھ سکے۔ ایک پر  ندہ  چہکا    جس کی آواز سریلی کم اور چیخ زیادہ تھی۔وہ یہ نہ پہنچان پائی کہ وہ کون ساپرندہ تھا۔تاریکی  میں وہاں قریب ہی   مگنولیا کے خشک پودوں کاایک ڈھیرپڑاتھا۔اس پرشبنم برس رہی تھی اوروہ ایک لمحے کےلئےجھکی تاکہ گیلی گھاس ُچھولے۔اس نے چاہاکہ  کاش وہ اس اتوار اپنےگھرہوتی کیونکہ وہاںوقت تیزی سے گزر جاتا تھا ۔وہ اس بات پرپریشان رہنے لگی نمبر10بارباراس کے خواب میں کیوں آتاتھا۔اس کی حقیقت کیاتھی۔وہ کیوں اس کےاعصاب پرچھایاہواتھا؟وہ چاہتی تھی کہ جاگتے میں نمبر10 جائے۔کبھی کبھی اسے احساس گناہ بھی ہوتا۔وہ سمجھتی کہ اس بارے رینے ہارڈٹ کو نہ بتاکر اسےدھوکہ دیاتھا۔

جب وہ آتشدان کےپاس بیٹھے توانہوں مشروب پہنا۔ اس روز سٹاک مارکیٹ ڈاؤن  تھا ۔رینے ہارڈٹ اس وقت ہلکاساپریشان لگ رہاتھاجسے دیکھ کروہ بھی بےچین ہوگئی۔اسے تجارتی امورکےبارےمیں کوئی سدھ بدھ نہیں تھی۔وہ اپنے کام میں مگن رہنےکوترجیح دیتی رہی۔ان کالندن شہر کاگھربھی پیاراتھا۔اس میں شہری سہولیات فارم ہاؤس کے گھر سے زیادہ تھیں۔لندن رینے کوبہت پسند تھا ۔ اسے اپنے ملک سے محبت تھی لیکن سیاسی عدم استحقاق اور آپسی افراتفری سے وہ ناخوش تھاکیونکہ اس کے مطابق وہ ملک اب ایک   متعصب  سیاسی قیادت کی بدولت  کتوں کےحوالے کردیاگیاتھا۔اس کاحشربہت براہونےجارہاتھا۔جب  رینے نےلکڑی کاایک ٹکڑا جو انگیٹھی  سےباہرنکل رہا تھا دیکھاتواسں نے کہاکہ خدارااسےدھیان سے آگے کردے،کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔وہ فوراً ہی سیدھی ہوکربیٹھ گئی اورلکڑی کاٹکڑافوراً آتش دان  میں ڈالدیا کہ کہیں فضول باتوں پرخواہ مخواہ کی بےمقصد ،غیرمتوقع اور خوفناک قسم کے جھگڑے شروع  نہ ہوجائیں لیکن خوش قسمتی سے ان کے دھیان منتشرہوگئے۔

  رینے ہارڈٹ کی نظر اچانک ایک طرف گئی تواس کے چہرے پرناگواری اور خوف کے تاثرات ابھرے۔ بیگم نے بھی اس طرف دیکھا تواسے بھی وہ ماحول نظرآگیا۔فاصلےپر مویشیوں کاایک ریوڑتھاجو بپھراہوتھا۔وہ یہ دیکھ کرا چھل پڑی۔یہ دیکھ  کرفوراًاٹھااور بھاگ کرفارم منیجر کوڈائیل گھمایااسے دیہی زندگی کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔۔۔اوریقیناًاس کاتوبالکل بھی نہیں  تھاکہ ان کو کیسے قابو کیا جاسکتاتھا ۔منیجرکاگھرپاس ہی تھا۔اس نے فون نہ اٹھایا۔مالیوں اورکسانوں کے نمبر اس کےپاس نہیں تھے۔اس نے غصے اور بے بسی سے اپنے پاؤں زمین پرپٹخے۔اسےسمجھ نہ آیاکہ اس بحران کوکیسے سنبھالاجائے۔۔۔بیگم نے اپنے ہاتھ میں خشک پودوں سے ایک شاخ توڑکرچھڑی بنائی تاکہ مویشی جو پاس والے تالاب کی جانب بڑھ رہےتھےکووہاں چھلانگ لگانے سے  باز رکھاجاسکے۔گائیوں نے جب  اسے انہیں  اپنی طرف بڑھتے دیکھاتو وہ  اسےمشکوک نظروں سےدیکھنےلگیں۔ان  کےکان کھڑےہوگئے۔ بیگم   نے انہیں چھڑی کے اشارے سے واپس جانے کااشارہ کیاتو کئی گائیں بھاگ کھڑی ہوئیں۔ان میں سے چارتو باڑپھلانگ کر پھاٹک کی طرف بھاگنے لگیں ۔ایک گائےباڑکوٹھوکریں مارنے لگی ۔ان کےلئےبڑامسئلہ بن گیاکہ انہیں کیسے سنبھالاجائے۔رینے ہارڈٹ باربار منیجرکوفون گھماتارہالیکن اس نے فون نہ اٹھایا۔ وہ اپنی بیگم کےپاس آیااور بتایاکہ منیجر نہ جانے کہاں غائب ہوگیاتھا۔اس نے یہ اتنی اونچی آواز میں کہاکہ ایک گائے ڈر گئی ۔بھاگی تو لوہے کی باڑ میں اڑ کرگرکرزخمی ہوگئی اور باوجودکوشش اٹھ نہ پائی۔وہ  بری  طرح پھنس  گئی  تھی ۔جتنی    زیادہ      کوشش کرتی مزید زخمی ہوجاتی۔

             میاں بیوی نےسوچاکہ  کسی طرح  سےاسے بچایاجائے۔وہ اسکےپاس پہنچے ۔ان کا پروگرام یہ تھاکہ رینے گائےپکڑکر رکھے گا    اوردیکھے گا کہ وہ کس چیز نے اسے اسے اٹھنےسےروکاہواتھا اوراس کی  بیوی  رکاوٹ ہٹائے گی۔رینے بڑی احتیاط اور پچکارتے ہوئے گائے کے پاس گیا۔گائےسےدودھ کی خوشبوآرہی تھی۔وہ اس کی طرف رحم آلودنظروں سے دیکھ رہی تھی۔اس نے اس کی دم پکڑکراونچی کی تو دیکھاکہ اس کےایک حصے سے خون رس رہاتھا۔انہوں نے اس کےزخم کو صاف کیا۔ بیگم نے تاروں کوگائے کےجسم سےہٹادیا۔وہ آزادہوئی تووہ فوراًا ٹھی، چھلانگ لگائی اور باڑسے پھلانگ کر دریا کی طرف بھاگی تاکہ پانی پی سکے۔یہ دیکھ کروہ گائیں جورکی ہوئی تھیں اسے بھاگتادیکھ کراس کےپیچھے بھاگیں۔ایسالگ رہاتھاکہ فارم میں کوئی شورش برپاہوگئی تھی۔رینے ہارڈٹ تھی نےٹھنڈاسانس لیااور مایوسی سے ہاتھ ملے۔  غم خواری کےلئےمشروب کاسہارالیا۔بیگم اس کی مے خوری کی عادت سے نالاں اس نےرینے نے سے وعدہ لیاکہ وہ جلدہی شراب چھوڑدےگا۔اس افراتفری نے اس کی مایوسی دورکرنے کاطریقہ بیوی سےپیار کرنےکاسوچااورانہوں نے موج مستی کی۔اس سے ان کاموڈ بہترہوگیا۔

وہ اتوار کی رات  لندن واپس آگئے۔مسز رینے ہارڈٹ اس رات فار ہاؤس کےواقعےسے پل بھربھی سونہ پائی اس لئے  اس رات  خوابوں کاگزرنہ ہوسکا جس سےوہ بےچینی محسوس کررہی تھی۔اس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی توچہرہ مرجھایانظرآیا۔وہ بوڑھی لگ رہی تھی ۔

ناشتے کے بعد اس نےکنجی کامعمہ حل کرنے کاسوچااوروہ سنہری چھوٹی کنجی پکڑکررینے کودکھائی۔

یہ کیاہے؟اس نےاپنے میاں  نے پوچھا۔

میں کیسےجان سکتاہوں؟رینے نے کہا۔اس کےجواب پراسے غصہ آگیالیکن اس نے بات نہ بڑھائی ۔اب بیگم نے سوچاکہ  آگے کیا کیاجائے اور اس  مایوسی سے کیسے چھٹکارا حاصل کیاجائے   ۔اس  نےخودکلامی کرتے ہوئے کہاکہ وہ بوڑھی نہیں ہوناچاہتی یا کم از کم ایسی دکھنانہیں چاہتی تھی تھی۔   اس کا حل یہ سوچاکہ اپنی ہیئت  درست کی جائے ۔مناسب حلیےکے لئے تو  ہیئر ڈریسر اورمیک اپ آرٹسٹ  کی خدمات درکار تھیں۔اس نے مطلوبہ  اپائنٹمنٹ لی ۔ہیر ڈریسر نےجب اس کے بال تراش لئےاور میک اپ آرٹسٹ  نے جب اپناکمال دکھادیاتووہ اپنی بدلی ہوئی شکل دیکھ کر حیران رہ گئی۔وہ نوجوان اور حسینہ لگ رہی تھی۔اس پراسےخیال آیاکہ اس موقعے کافائدہ اٹھاناچاہیئے اور اپنے میاں سے اپنے حسن کاخراج  وصول کرناچاہیئے۔اس لئے وہ آرٹ گیلری گئی۔ اس نے سوچاکہ

  واپسی پروہ کوئی اچھاساسکارف خریدلےگی اور بالکل جوان لگنے لگے گی۔

جب وہ گیلری پہنچی تورینے ہارڈٹ گیلری میں موجودنہ تھا۔اس کانائب مسٹرہنز مشرق وسطیٰ کےایک عربی خریدار سے مصروف تھا۔اس نے فیصلہ کیاکہ وہاں بیٹھ کراس کاانتظارکرےگی ۔اس کی سیکرٹری چائےبنانے چلی  گئی۔وہ اپنے میاں کےڈیسک پرجا کر بیٹھ گئی۔میز پرایک ڈائری پڑی تھی۔وہ بیٹھے بیٹھے بور ہوگئی۔اس نے ڈائری اٹھائی اوراس کے ورق پلٹنے لگی۔اس نےپہلا ورق الٹایا تواس میں لکھاتھافلاں کے ساتھ لنچ،فلاں کےساتھ لنچ۔اپنی بیوی کے لئے شادی کی سالگرہ کے لئے تحفہ خریدنا ۔۔۔جواس نے خریداتھا۔وہ اس کے لئے ہیرےکی انگوٹھی لایا تھاجس میں قیمتی نگ جڑے تھے۔

تب اس نے وہ پتہ دیکھ لیاجہاں وہ خواب  میں جایاکرتی تھی نمب   ۔۔۔یہ ہندسہ اس کی آنکھوں کےسامنےناچنےلگا ۔ 0اس نے اگلا صفحہ پلٹاتو اسے پڑھ کر وہ سکتے میں آگئی۔۔۔یہ ہندسہ نمبر  10تھا۔وہ حیران ہوئی کہ یہ اس کی ڈائری میں کیسے آیا۔وہ  توایسے کسی مینشن کونہیں جانتاتھا۔یہ اس نے اسے بڑے اعتماداور وثوق سے بتایاتھا۔۔۔وہ ہندسے اس کےسامنے اچھلنے لگے۔اس نےچائے زہرمار کی ۔ایک خستہ بسکٹ جارحانہ انداز میں  ٹھونسااور ڈائری دوبارہ پڑھنے لگی۔بعینہ وہی پتہ باربار ڈائری میں آتاگیا۔ہرہفتے چاریاپانچ بار وہ وہاں جایاکرتاتھا۔یہ سلسلہ مستقل طورپرمدتوں سے چل رہاتھا۔اس کے ذہن پربم پھٹا۔وہ اٹھی۔عرب خریدار سےہاتھ ملایااورٹیکسی پکڑکر نمبر10چلی گئی۔یہ معمہ وہاں جاکرہی حل ہوناتھا۔ 

تھاکہ نمبر10 نمبر10میوز کےپاس اتری۔اسے گھر کےاندرکی ایک ایک شئےاسے خواب میں نظر آئی تھی اسلئے اسے پتہ  

کا حدود اربعہ کیاتھا۔اس کی چیزکہاں اور کیسی تھیں۔ خواب میں اس نے دیکھاتھا کہ اس گھرکےباہر پھولوں کےگملے میں مین گیٹ کی چابی رکھی تھی۔اس نےڈھونڈاتووہ اسے وہاں مل گئی۔وہ بےآوازقدموں سےباورچی خانے گئی کیونکہ وہ اس گھر کوکئی بار  خوابوں میں دیکھ چکی تھی۔اس لئے وہ اس کے چپے چپے سے واقف تھی ۔اس نے دیکھا توباورچی خانے میں انڈوں کے چھلکےپڑے تھے۔ کاؤنٹر پر ایک فرائی پین پڑاتھاجس میں  تلاہواتین انڈوں کاآملیٹ پڑاتھا اورپاس ہی بھورےانڈوں کےچھلکےپڑےتھے۔اس نے آملیٹ پر انگلی لگائی تو وہ گرم تھا۔اس کاکلیجہ منہ کوآگیا۔اس کادل اتنےزور  سےدھڑکاکہ سینے سے باہر آنےلگا۔ایسالگاکہ اسکے خون کےپیلٹ کم ہوگئے تھے۔اس نے دروازےکےہینڈل کوکھولااورپھروہ یکایک رک گئی اوربےحس وحرکت کھڑی رہ گئی اور معمے کےعواقب پرسوچنےلگی۔اس نے مداخلت نہ کرنے کا سوچا،بالکل بھی نہیں۔۔۔

تو۔۔۔مسٹر رینے ہارڈٹ وہاں دن کوتقریباًہرروزعیاشی کےلئےجاتاتھا۔وہ اسےدھوکادےرہاتھا۔ دن یاایک رات،اگروہ خوش قسمت ہوتے توان کی ملاقات ہوبھی سکتی تھی اور اپنے رازوں کاتبادلہ ایک دوسرے سےبھی کرسکتےتھے لیکن مسز رینے نے فیصلہ کرلیاتھاکہ اس وقت وہ ان کےرنگ میں بھنگ نہیں ڈالے گی اور ہرشئے برقرار رکھی جائے گی۔وہ سیڑھیوں  سےپنجوں کےبل

 اتری۔وہ اس پر مطمئن تھی کہ اس نے تیزی  نہیں دکھائی تھی۔اپنی آنکھوں سےسب دیکھا۔خوابوں نےاسےمتنبہ کیاتھامگر۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog