وہ صبح کبھی تو آئے گی (Some Monday for Sure) (1923 - 2014) Nadine Gordimer South Africa - (Nobel Laureate 1991)

 



وہ صبح کبھی تو آئے گی

(Some Monday for Sure)

 (1923 - 2014) Nadine Gordimer 

South Africa - (Nobel Laureate 1991)


پیشکار ؛ غلام محی الدین

 

یہ افسانہ ایک ایسے کنبے سے متعلق ہے جو کہ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا شکار تھا۔ ملکی قوانین اپنے شہریوں سے امتیازی سلوک روا رکھتے تھے۔۔ وہاں قانونی طور پر سیاہ فام اپنے خاندان اور فرقے سے باہرشادی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ صرف ایسے علاقوں میں ہی رہائش پذیر ہو سکتے تھے  جو سفید فام نسل پرست حکومت نے ان کے لئے مخصوص کر رکھے ہوتے تھے۔ جبکہ دیگر اقلیتوں کو جو کل آبادی کا ستاسی فیصد تھے زرعی زمین کا صرف سترہ فیصد الاٹ کیا گیا تھا۔ اس طرح ایک خاندان کے حصے چند کنالیں زرعی زمین آتی تھی۔ سخت محنت کوشی کے بعد بھی اتنی پیداوار نہیں ہوتی تھی کہ اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پال سکیں۔اس لئے انہیں گوروں کی وسیع و عریض زمینوں پر قلیل ترین اجرت پر کام کرنا پڑتاتھا جس سے وہ بمشکل دو وقت کی روٹی کھا سکتے تھے۔ اقلیتی اقوام کو ہنر مند پیشے سیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کے لئے سکول،بسیں، پارک، سینما گھر، تعلیمی ادارے، کھانے پینے کی دکانیں، گوشت کی دکانیں جن میں کم درجے کی اشیا ء وضروریات پائی جاتی تھیں کے مقامات ان کے لئے مخصوص تھے۔ انہیں صرف سیاہ فام لوگوں کے لئے مقرر کردہ مقامات ہی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ اگر کوئی غلطی سے بھی سفید فام علاقے میں چلا جاتا تو اس کو قید خانے ڈال دیا جاتا تھا۔جہاں تک رہوڈیشیا کے دور حکومت میں ان کی اجرت کا سوال ہے  ان کا تناسب ایک اور اسی کا تھا۔ مثلا اگرسیاہ فام کو ایک کام کا ایک موزمبیکلمیٹل (ایک روپیہ) ملتا تھا تو اسی کام کے سفید فام کو اسی  موزمبیکل میٹل(اسی روپے)ملتے تھے۔  وہ سیاہ فام جو سفید فام کے کھیتوں میں کام کرتے تھے انہیں پٹ سن کی بوریاں پہننے کے لئے دی جاتی تھیں  یا وہ کوڑا کرکٹ سے لباس اٹھا کر پہنتے تھے۔ کھانے کے برتن بھی ٹین کے ڈبے ہوتے تھے۔سفید فارم، سیاہ فارم، جنوبی ایشیائی اور دیگر اقوام۔ سفید فام باشندوں کے سوا دیگر باشندے زبوں حال تھے۔

 

 سفید فارم لوگوں کو جو کل آبادی کا صرف تیرہ فیصد تھے، کو تمام آبادی پر فضیلت حاصل تھی۔ملکی قوانین کے تحت سفید فام لوگوں کو ملک کی زرعی زمین کا ستر فیصد الاٹ کر دیا گیا تھااور ان کے رقبے سینکڑوں ایکڑوں پر محیط ہوتے تھے۔ سفید فام لوگوں کے گھر بڑے بڑے محلات کی مانند تھے۔ گاڑیاں، اصطبل اور جدید ترین زرعی آلات تھے جبکہ اقلیتی اقوام سب کام ہاتھ سے کرتی تھیں اورکچے گھروں یا جھگیوں میں رہتے تھے۔ ملکی آبادی چار گروہوں میں تقسیم کی گئی تھی۔

 

 اس ملک کی تباہی کی ذمہ دار حکومت برطانیہ تھی جس میں ایک تاجر سیسل رہوڈز  ( Cecil Rhodes ) کان کنی اور تجارت کے لئے اٹھارویں صدی میں یہاں آیا تھا۔ اس نے وہاں (موزمبیق میں) ہیروں،سونے اور کوئلے کی کانیں کھودی تھیں جس کی وجہ سے اس کے پاس بے تحاشا دولت آگئی تھی۔ دولت کے نشے میں سیسل رھوڈز سلطنت برطانیہ کا منحرف ہو گیا۔ اُس نے1980 میں  برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا اور ملک کا مالک بن بیٹھا اور ملک کانام  رہوڈیشیا  (Rhodesia ) جنوبی افریقہ رکھ دیا۔ اُس سے پہلے وہ موزمبیق کہلاتا تھا۔

 

یہ کہانی جوہانس برگ کے نواحی علاقے کے چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے ایک ایسے خاندان کی ہے جن میں تین لوگ رہتے تھے جو

  ُ جوسیاسسس  ُ (میرا بہنوئی)،  ُ ایما  ُ (میری بہن)اور  ُ ویلی  ُ َ (میں) تھے۔ بہنوئی پہلے ریلوے میں نوکری کرتا تھا۔ وہاں اس کی اجرت بہت کم تھی۔اسے ایک اور نوکری کی پیشکش ہوئی جو بہت خطرناک تھی لیکن اس میں اجرت کچھ زیادہ تھی۔ ایما نرس تھی اور۔ ہم ایک ایسی جھگی میں رہتے تھے جس کی ٹین کی چھت تھی۔ ایک کمرہ بیڈ روم کے طور میاں بیوی استعمال کرتے تھے اور ایک چھوٹا سا کچن تھا۔ ایک غسل خانہ تھا۔ بجلی نہیں تھی۔ مٹی کے تیل کے چولہے پر کھانا پکایا جاتا تھا۔ اس محلے میں ہمارے قبیلے کے اور لوگوں کی قریب قریب جھونپڑیاں تھیں لیکنان کے لئے کھلے صحن میں پانی کاایک ہی نل تھا۔ بچوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی جو ہر وقت شور کرتے رہتے تھے یا ان کی جھونپڑیوں میں ریڈیو وغیرہ چلتے رہتے تھے یا پھر بیماری اور وسائل محدود  ہونے کی وجہ سے لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔

 

 جوسیاسسس اورایما دونوں جوان تھے۔ اُن کی شادی کو چھ سال ہو چکے تھے لیکن ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی۔  جوسیاسسس بہت موٹا تھا۔ صبح ساڑھے چار بجے اٹھتا،چائے بناتا، ناشتہ کرتا اور کھانا ساتھ لے جاتا جو اس کی بیوی  ایما  رات کو ہی بنا دیتی تھی۔ اُس کی نوکری کی جگہ اس کے گھر سے ساٹھ کلو میٹر تھی اس لئے وقت پر پہنچنے کے لئے اسے علی الصبح ہی اٹھنا پڑتا تھا۔ ایما سورج نکلنے کے بعد گھر سے نکلتی تھی۔ اُس کا ہسپتال جوہانس برگ میں تھااور اسے آنے جانے میں دو دو گھنٹے لگتے تھے۔ میری بہن ایمامجھ سے بڑی تھی۔ ایما کی شادی سے پہلے ہم ماں باپ کے ساتھ رہتے تھے۔باپ کے مرنے کے بعد ہم دادی کے ہاں منتقل ہو گئے۔ والدہ مزدوری کی تلاش میں کسی دوسرے شہر چلی گئی۔ ماں کبھی کبھی ہمیں ملنے آجایا کرتی تھی۔ حکومت نے دادی کو جوہانس برگ کی کچی آبادی میں ایک جھگی الاٹ کر دی جس میں ہم سب  رہ رہے تھے۔

 

ہم نے شدید غربت میں زندگی گزاری۔ایما بہن نے کئی بار مجھے باتوں باتوں میں یہ بتایا تھا کہ شاید ہمارے باپ مختلف تھے کیوں کہ جب میں پیدا ہوا تو میرے باپ کی شکل اس سے مختلف تھی جس سے وہ پیدا ہوئی تھی۔ ہم بہن بھائی کھانے پینے کی چیزیں یا توکوڑے سے اٹھا کر یا پھر چرا کر کھاتے تھے یا پھر بھوکے رہتے تھے۔ ایک دفعہ تو ہم چوری کرتے ہوئے تقریباً پکڑے ہی گئے تھے۔ہم وہیں پلے بڑھے۔ دادی جب فوت ہوئی تو ایماجوان ہو چکی تھی۔ ایما نے اپنے ہی جیسے نادار شخص ج جوسیاسسس سے شادی کرلی۔ میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ خوش قسمتی سے مجھے ایک پیٹرول پمپ پر معمولی اجرت پرمزدوری ملی ہوئی تھی۔ میری ڈیوٹی رات سے صبح چھ بجے تک تھی جو میرے گھر سے کافی فاصلے پر تھی اور میں سائیکل پر آتا جاتا تھا۔

 

ہم تینوں کو ہر ہفتے ایک چھٹی کی ہوتی تھی جوکبھی ہفتہ کبھی اتوار کو ہوتی تھی۔ میرا بہنوئی ایما کے کام پر جانے سے پہلے پہلے گھر پہنچ جاتا تھا۔  اُن کا کہیں آنا جانا نہیں تھا۔ کبھی کبھار جواسیسس کے دو دوست اس کے پاس گپ شپ کرنے آیا کرتے تھے۔ایما بھی کبھی کبھار اپنے محلے کی ایک دوست سے ملنے جاتی تھی۔ ہم تینوں کی مزدوریوں کے باوجود بمشکل گزارا ہو رہا تھا۔ میں کچن میں سوتا تھا۔ بہن نے اپنے میاں کے لئے کھانا تیار کر دیا ہوتا تھا وہ کھا کر سو جاتا تھا۔ حکومت نے ان کو کتے سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ تمام آبادی ناکوں ناک تنگ تھی لیکن لاٹھی ڈنڈے کی سرکار کے سامنے بے بس تھی۔

 

 میرا  بہنوئی  جوسیاسسس ایک کوئلے کی کان میں کام کرتا تھا۔ وہ کانوں کے ان ڈرائیور وں میں سے ایک تھا جو صبح ڈانامائیٹ فیکٹری سے بم اٹھاتا اور ایک ساتھی کے ہمراہ مقررہ مقامات پر پھینک کر پہاڑوں یا کوئلے کی تہوں کو اڑانا ہوتا تھا۔یہ بہت خطرناک کام تھا۔ اس کے ٹرک کی سیٹ پر اس کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تھا تاکہ بم پھینکتے وقت وہ اپنی سیٹ سے گر نہ جائے اور بم کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ میرا بہنوئی جواسیسس اکیلا نہیں تھا جو ڈائنامیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کو آج تک یہ فکر نہیں ہوئی تھی کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ وہ اکیلا ہی ایسا ٹرک نہیں چلاتا تھا بلکہ اس کمپنی کے سینکڑوں ٹرک ڈرائیور تھے جو یہی کام کرتے تھے۔ وہ جب ڈائنا مائیٹ لاد کر پھینکنے جا رہا ہوتا تھا تو اپنے ایک ہاتھ میں سرخ رنگ کاجھنڈا ایسے لہرا رہا ہوتا تھا جیسے بچے غباروں کو ہوا بھر کر دھاگے سے باندھ کر ہاتھ اونچا کرکے اڑاتے تھے۔  لال جھنڈے کا لہرانا خطرناک ہونے کی علامت تھی تاکہ لوگ محتاط ہو جائیں اور کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا۔حیرانی کی بات یہ تھی کہ اتنی خطرناک نوکری کے بھیانک عواقب کی نہ تو میاں کی پرواہ تھی ار نہ ہی بیوی کو۔ ان کو یہ بھی نہیں علم تھا کہ وہ بستر پر بیماری کی حالت میں بوڑھے ہو کر مریں گے یا آتے جاتے سنسناتی ہوئی گولی اُنہیں ہلاک کر دے گی یا بم چیتھڑے اُڑا دے گا۔غیر یقینی صورت حال تھی۔

 

میرا بہنوئی جواسیسس اکیلا نہیں تھا جو ڈائنامیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کو آج تک یہ فکر نہیں ہوئی تھی کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ وہ اکیلا ہی ایسا ٹرک نہیں چلاتا تھا بلکہ اس کمپنی کے سینکڑوں ٹرک ڈرائیور تھے جو یہی کام کرتے تھے۔ وہ جب ڈائنا مائیٹ لاد کر پھینکنے جا رہا ہوتا تھا تو اپنے ایک ہاتھ میں سرخ رنگ کاجھنڈا ایسے لہرا رہا ہوتا تھا جیسے بچے غباروں کو ہوا بھر کر دھاگے سے باندھ کر ہاتھ اونچا کرکے اڑاتے تھے۔ل جھنڈے کا لہرانا خطرناک ہونے کی علامت تھی تاکہ لوگ محتاط ہو جائیں اور کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔

 

وہ جب رات کو تھکاماندا گھر آتا تو بغیر بولے کھانا کھانا شروع کر دیتا، پائپ نکالتا،اُس میں تمباکو ٹھونستا اور آگ دکھا کر سُوٹے لیتا اور پھر بغیر بولے چپ چاپ سو جاتا۔ ویسے بھی وہ کم گو تھا۔ ہاں، نہ میں جواب دیتا  یا کم سے کم باتیں کرتا جیسے استاد سکول میں بچوں سے مختصر سا سوال کرتے ہیں جس کا جواب تفصیل میں دینا ہوتا ہے۔یہاں اس کا جواب استاد والا ہواکرتاتھا۔ بہنوئی، بہن اور مجھے کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ ہماری ا صلی تاریخ پیدا ئش کیا تھی؟ ایک یہ کہتاتھا کہ اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ ایسے موسم میں جب چارپائی کمرے سے آدھی باہر اور آدھی اندر رکھ کر سویا جاتا تھا وہ پیدا ہوا تھا۔ میری بہن کہتی تھی کہ اسے بتایا گیا تھا کہ وہ ہلکی ہلکی سردی میں پیدا ہوئی تھی جبکہ میں گرمیوں میں پیدا ہوا تھا۔

 

ایما اپنے میاں سے بے حد محبت کرتی تھی۔ اسے اس کی صحت کی بڑی فکر رہتی تھی۔ اس کو اس کی خطرناک نوکری سے مرنے کی بجائے اس کے بیمار ہونے کی زیادہ تشویش ہوتی تھی۔ جب سردی ہوتی تو اسے سردی سے بچانے کی بھرپور احتیاط کرتی تاکہ اسے کھانسی، زکام یا بخار نہ ہو جائے۔ بارش کے موسم سے اسے بھیگنے سے بچاتی کیونکہ اس کے گھٹنوں میں ریح کا درد ہو جاتا تھا اور اس کا پاؤں اٹھانا مشکل ہو جاتا تھا۔ گرمی سے بچاتی کہ کہیں لو لگنے سے سٹروک نہ ہو جائے اور نوکری سے نکال نہ دیا جائے کیونکہ دوسری نوکری ملنا نا ممکنات میں  سے تھا اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بھوک سے مرنے کا خطرہ منڈ لاتا رہتا۔

 

تمام آبادی(ماسوائے سفید فام باشندوں کے) حکومتی پالیسیوں سے سخت نالاں تھی۔ لوگ ہر وقت پریشان رہتے اور کڑھتے رہتے تھے۔  سفید فاموں کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ جب بھی کسی موقع ملتا تو کسی نہ کسی آزادی کی تحریک سے منسلک ہو جاتا۔ایک دفعہ ایما جو اسوقت جوہانس برگ کے ایک ہسپتال میں نرس تھی، نوکری نبھا کر جب حسبِ معمول گھر کی جھاڑ پونچھ، کھانا وغیرہ پکا کر فارغ ہوئی تو برتن دھو کر میز پر سجا دیئے اور کھانا گرم کرنے کے لئے رکھ دیا۔ اتنے میں جوسیاسسس آگیا۔ ہاتھ دھو کر وہ میز پر آبیٹھا۔ کھانا کھانے لگا تو اس سے نگلا نہ گیا۔ ایما نے سوچا کہ کھانا شاید سوکھا ہے اس لئے نگلا نہیں جارہا۔ اس نے اسے پانی کا گلاس دیا۔ مشکل سے اس نے کھانا کھا لیاپھر جمائیوں پر جمائیاں لینے لگا۔ ایمانے کہا کہ سو جائے تو اس نے کہا کہ اس کا سونے کو جی نہیں چاہ رہا۔ وہ کچھ دیر بیٹھے گا۔ اپنے کمرے سے حسبِ معمول پائپ اٹھایا، تمباکو بھرااورسلگا کرپینے لگا۔ اس کے چہرے پر گہری سوچ تھی۔ اُس رات  جوسیاسسس میری طرف کچھ ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کہ کچھ کہنا چاہ رہا ہو لیکن اپنی بیوی کی موجودگی میں جھجک رہا ہو پھر اس سے رہا نہ گیا اور بولا کہ میری پارٹی نے کہا ہے کہ میں ان کی مدد کروں۔ کام یہ ہے کہ بارود سے بھرے ٹرک کو ایک ایسے مقام تک لے جاؤں جہاں ٹریفک بہت زیادہ ہواور وہاں اسے روک دوں۔ بارود بھرنے اور اسے ٹھکانے لگانے میں میرا مدد گار میرے ساتھ ہوگا اور یہ کام سوموار کو کرنا ہے۔

ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ وہ کبھی کبھی کسی سیاسی پارٹی میں شرکت کرتا تھا۔ اُس نے نینسن منڈیلا کی بہت سی تصاویر دیوار پر لٹکائی ہوئی تھیں جو نسل پرستی کے خلاف حکومتی رویے کے خلاف قید تھے۔ ایک دو دفعہ جواسیسس نے احتجاجی تحریکوں میں بھی حصہ لیا تھا لیکن صرف ایک معمولی کارکن کی حیثیت سے۔اُن دنوں حکومت کے خلاف ہڑتالوں اور احتجاجی تحریکوں کی وجہ سے سینکڑوں افراد مارے گئے جبکہ ہزاروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔

 

ہمیں اِس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جواسیسس کس پارٹی میں جاتا ہے۔ نمایاں مقبول سیاسی جماعتیں جن کی کمیونسٹ حکومتیں سرپرستی کر رہی تھیں   (African National Congress)  ANC ، Bol-Shevic Party of South Africa،   South African Communist Party، Chinese Communist Party (CCP)، Inkatha Freedom Party (IFP) ، Untited Front (UF) تھیں۔ اُن پر 1960 کے فسادات کے بعد پابندی لگا دی گئی تھی۔  اُن جماعتوں کی مدد روس، چین، کیوبا، صومالیہ، تنزانیااورالجیریا وغیرہ درپردہ کر رہے تھے جو انہیں گوریلا تربیت، اسلحہ اور رقم فراہم کرتے  تھے۔ ملک کوئی بھی تھا،  رہوڈز کی جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کسی کو قبول نہیں تھی اور یہاں کی تمام آبادی بھی ان ملکوں کی امداد کی محتاج تھی۔  جب جواسیسس نے اپنے پراجیکٹ کے بارے میں بتایا تو ہمیں اس کی جان کی فکر لاحق ہوگئی۔ایما نے زور دار طریقے سے اسے روکا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ ایماکے جذبات میں تلاطم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے میاں کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ بے نور تھیں۔ وہ ایسی بے حسی کا

مظاہرہ کر رہا تھا جیسے وہ پہلے ہی مر چکا تھا جِس پر اُس کے جذبات اور بے قابو ہوگئے، اس کے دل میں درد اٹھا اور وہ زور زور سے چیخنے لگی۔  وہ سوچ میں پڑ گئی کہ جواسیسس کو اِس کام سے کیسے روکا جائے۔ اگر وہ ٹرک لاد کر لے جایا کرتا ہے تو گورے بھی تو اس کی نگرانی کرتے ہوں گے اور کسی بھی مشکوک حرکت پر وہ اسے اڑا سکتے ہونگے اور اگر وہ  ان سے بچ بھی نکلے گا  تو ساری عمر جیل کی ہوا کھاتا رہے گا۔ 

؎کیا تم نے یہ منصوبہ کسی اور کو تو نہیں بتایا؟ ایمانے پوچھا۔ 

نہیں۔جواب آیا۔ 

؎ وہ تمہیں سخت ترین جیل (Pretoria) بھیج دیں گے اور وہاں تمہیں پھانسی دے دی جائے گی، ایما بولی۔ ویسے گوروں کے پاس اسلحہ بھی ہوتا ہوگا اورشاید جیل جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔وہ عین موقع پر ہی تم کو بھون ڈالیں، ایما نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔ 

اسلحہ میرے ساتھیوں کے پاس بھی تو ہوگا! وہ فائرنگ کریں گے اور ان پر چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیں گے۔ یہ سب طے ہو چکا ہے،    جوسیاسسس نے جواباً بتایا۔

مجھے یقین ہے کہ وہ گورا جو تمہارے ٹرک کے ساتھ محافظ کے طور پر الگ گاڑی میں جاتا ہے، وہی تمہارا کام تمام کر دے گا۔ مجھے بہلانے کی کوشش نہ کرو۔ یہ بات کرکے وہ غصے سے اِدھر اُدھر پھرنے لگی۔  وہ غصے میں اتنی پاگل ہوگئی تھی کہ اس کا دیواروں سے ٹکریں مارنے کو دل چاہتا تھا۔ بہت دیر تک وہ ہذیان میں مبتلا رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ یا تو اس کو دل کا دورہ پڑ جائے گا یا بے ہوش ہو جائے گی یا پھر ذہنی مریض بن جائے گی۔

اپنی بیوی کی باتوں کا   جوسیاسسس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے کہ وہ عزم کر چکا تھا کہ وہ اِس منصوبے پر عمل کرے گا خواہ کچھ بھی نتیجہ نکلے۔

 جوسیاسسس نے کہا۔گھبراؤ نہیں مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھ پر گولی نہٰ چلے گیاور اگر مر کر بھی ان گوروں سے ہماری جان چھوٹ جاتی ہے تو یہ عظیم قربانی ہوگی۔ ویسے مجھے کوئی گولی نہیں مارے گا۔ کسی کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا کہ میں اس میں شامل ہوں۔ اگربہت ضروری ہوا تو کامریڈ بظاہر مجھے بھی نشانہ بنائیں گے جو مجھے یا تولگے گا نہیں یا معمولی طور پر زخمی ہو جاؤں گا۔

 

تمہاری جگہ یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ تم یہ کام نہیں کروگے۔ کیا تم نے میری بات سن لی ہے؟  تم گھر پر ہی رہو گے۔ میں ان کو کہہ دوں گی کہ تم بیمار ہو۔ تم مارے جاؤگے۔ تمہیں وہ مار دیں گے۔ میں تمہیں تنبیہ کر رہی ہوں۔ میں یہ سب نہیں چاہتی۔ایما نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

 

فکر مت کرو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور مجھ پر کوئی گولی نہیں چلائے گا۔ ویسے بھی میری نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی لمحے بھی میرے چیتھڑے اڑ سکتے ہیں۔ مجھ پر شک نہیں آئے گا۔۔۔اور اگر بدترین واقعہ بھی پیش آگیا تو میری جان کی قربانی سیاہ فام لوگوں اور دیگر نسلوں کے لئے اچھی ہوگی۔ وہ گوروں سے آزاد ہو جائیں گے اور عزت کی زندگی گزار سکیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے حکومت وفادار سمجھتی ہے۔ وہ دوسرے محب الوطن لوگوں کی طرح میرے ساتھ برتاؤ کرے گی اور میں بچ جاؤں گا،  جواسیسس نے جواب دیا۔

 

 میں ان کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ میں ان کی دو جذبیت کا تجزیہ کر رہا تھا۔ میں کوئی بات کہنا چاہ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ جواسیسس کو کو ئی خفیہ سگنل موصول ہوا ہے۔ وہ فوراً باہر نکل گیا۔ ایما  اس کے جانے کے بعد بھی بڑ بڑا رہی تھی کہ موقع پر اور بھی بہت سے لوگ ہوں گے اور گاڑیاں ہوں گی۔ یقینا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوگا۔

 

جواسیسس کچھ دیر بعد واپس آیا تو بتایا کہ یہ واقعہ کچھ اس طرح سے پیش آئے گا کہ سڑک کی روانی میں رکاوٹ ڈال دی جائے۔ اِس مصروف ترین سڑک پر ایک مخصوص مقام پر پی ڈبلیو ڈی کا ’رکو‘  کا نشان لگا دیا جائے گا اور تھوڑی دور ’آگے جانا منع ہے‘  کی تختی لگا دی جائے گی جو عام حالات میں ان مقامات پر لگائی جاتی ہے جہاں تعمیراتی کام ہو رہا ہو۔ سڑک کی ایک لین کھلی رہے گی جس سے ٹریفک کی رفتار بہت کم ہو جائے گی۔ رش بہت زیادہ ہو جائے گا۔ بمپر سے بمپر ٹکرائے گااور عین اسی لمحے میرے ساتھیوں کے بہت سے ٹرک آجائیں گے جو ایسے اداروں کے ہوں گے جو عوامی خدمت کے لئے ہوتے ہیں جیسے راستہ صاف کرنے والے محکموں میں پائے جاتے ہیں اس لئے ان کو ترجیحی بنیادوں پر رستہ دیا جائے گا۔ وہ مقررہ جگہ پر پہنچ کر ساری کاروائی کریں گے۔ ٹریفک یا تو بند کر دی جائے گی یا ان کا رخ دوسریطرف موڑ دیا جائے گا۔ یہ جگہ جہاں پر یہ کاروائی ہونی ہے، کا نام نک ہالٹ  (Nek Halt ) ہے اس سے کچھ دور فارم ہاؤس ہیں۔اس مشن کے لئے سوموار کو رونما ہو گا۔

اوہ خدایا! تمہیں کس گودام سے سامان اٹھانا ہوگا؟ ایمانے پوچھا۔

مجھے پکا پتہ نہیں کہ کس گودام سے سامان اٹھانا ہوگا۔ اس علاقے میں  ڈائنامائیٹ کے ایسے درجنوں گودام ہیں۔ مجھے اُن کا علم ہے۔ اُن میں سے ہی کوئی ایک ہوگا۔  جوسیاسسس نے کہا۔

جب اس موضوع پر بات ہو رہی تھی تو کچن میں ایک طرف میاں، دوسری طرف بیوی اور درمیان میں میں کھڑا تھا۔ یہ باتیں بہت حساس اور راز دارانہ تھیں۔ اگرچہ وہ اونچی آواز میں بات کر رہے تھے پھر بھی اِنہیں اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ کوئی انہیں سن لے گا کیونکہ ان کے دروازے بند تھے اور ارد گرد کی جھونپڑیوں میں بہت شور تھا۔

 وہ تم کو بھی ٹرک کی ڈرائیونگ سیٹ پر باندھ دیا کرتے ہیں۔ زنجیروں سے جکڑ دیتے ہیں تاکہ تم سیٹ سے گر نہ سکو؟  تم ہل نہ پاؤ گے اور تمہارے چیتھڑے اڑجائیں گے۔ ایمانے کہا۔

مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ تم خواہ مخواہ ڈر رہی ہو۔جواسیسس نے تسلی دی۔

 

ایما جھنجلا کر اٹھی۔ برتن سمیٹے اور دھونے شروع کر دیے۔ سوچتے سوچتے بولی کہ وہ بدھ کو کام سے چھٹی لے لے گی۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ کام فوری ہی ہو جائے گا۔اس نے اس کے ٹارگٹ دن پر توجہ نہ دی۔ایماکے بدلے ہوئے لہجے اور آگے کی سوچ سن کر سب حیران رہ گئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے خود کو کسی طرح اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ مشن کو تو روکا نہیں جا سکتا اس لئے اب وہ بھیانک نتائج سے بچنے کی ترکیب سوچ رہی تھی۔ اس نے اپنے میاں  جوسیاسسس کی ضد کے آگے ہار مان لی اور اس کی مدد کرنے کی ایسی ترکیب سوچنے لگی کہ اس کے خاندان پر آنچ نہ آئے۔

 جوسیاسسس نے پوچھا۔ تمہیں اُس دن گھر پر ہونا چاہیے، کی منطق کیا ہے؟

مجھے گھر پر ضرور ہونا چاہیے تاکہ پولیس پوچھ گچھ کے لئے آئے تو میرے پا س کوئی معقول جواب ہو۔ وہ جب مجھ سے واقعے اور تمہارے بارے میں پو  چھے تو میں انکی تسلی کرا سکوں۔ ایما نے جواب دیا۔

پولیس!  جواسیسس نے حیرانی سے کہا۔  اپنے سر کو اِدھر اُدھر منفی کے انداز میں جھٹکے دینے لگا۔  پولیس نہیں آئے گی۔ پولیس کیوں آئے گی؟  اور پھر قہقہہ لگا کر چپ ہو گیا۔

ایمانے کہا کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ جب پولیس گھر آئے تو اسے کیا کہنا ہے تاکہ وہ مطمئن ہو جائے اور ہم پر شک نہ کرے۔

پولیس ہمارے گھر کیوں آئے گی؟  وہ اسی مقام تک رہے گی۔ وہ میرا بیان حادثے کے مقام پر ہی لے لے گی۔ میں تو کرسی سے بندھا ہوا ہوں گا۔ میں پچھلے کئی سالوں سے یہی ڈیوٹی ادا کر رہا ہوں اور کسی شکائت کا موقع نہیں دیا۔ وہ مجھ پر اعتبار کر لیں گے اور میں رات کو خود بخود واپس گھر آجاؤں گا۔جواسیسس نے تفصیل بیان کی۔

تو تم واپس کس وقت آؤ گے؟ کیا تم ساری رات کرسی کے ساتھ ہی بندھے رہو گے؟  میرے خیال میں تو تم تو مر چکے ہوگے۔واپس کیسے آسکتے ہو؟ ایمانے پوچھا۔

 جوسیاسسس نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اپنے من میں سوچ لیا تھا کہ وہ مرا ہوا شخص ہے لیکن نجانے اسے یہ یقین کیوں تھا کہ اس واقعے میں وہ نہیں مرے گا اور بے قصور ثابت ہوگا تاہم اس نے اپنی بیوی کی بات سنی اور کوئی رد عمل پیش کئے بغیر باہر نکل گیا۔

 

میں ان کی گفتگو سن کرکسی اور زاویے سے اس مشن کی اہمیت محسوس کر رہا تھا۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔ منصوبے کی کامیابی کے لئے واقعے سے پہلے اور بعد کی صورت حال ذہن میں رکھ کر مناسب اقدامات کرنے کے بارے سوچنے لگا۔  جوسیاسسس نے بتایا تھاکہ واقعہ سوموار کو ہوگا۔  میری بہن نے ’دن‘ کو اہمیت نہیں دی تھی۔ مجھے اسکی اس اطلاع پر یقین تھاکہ واقعہ سوموار کے روز ہی ہو گا۔ وہ سوموار اگلا دن بھی ہو سکتا تھا، اس سے اگلے والا  اور اس سے اگلے والاسومواربھی۔ یعنی واقعہ سوموار کو ہی رونما ہونا تھا۔ سوموار کا دن میرے لئے اہم بن گیاکیونکہ یہ واقعہ اُس روز ہی پیش آنا تھا۔اس کے علاوہ مجھے اندازہ تھا کی اگلے دن والا سوموار نہیں ہو گا کیونکہ مشن کو بڑی احتیاط سے آگے بڑھانا تھا۔

 

جواسیسس نے یہ بات ہفتے کی رات کو بتائی تھی اور اتوار کو میری چھٹی تھی۔ یہ اتوار میرے لئے اہم تھی۔ میں نے سوچا کہ مشن کے مجوزہ  وقوعہ کی تفصیل معلوم کر کے اس کے بعد کی صورت حال کے تدارک اہم معاملات ہیں۔ جواسیسس نے نیٹ ہالٹ ( Net Halt)  مقام بتایا تھا جو ہمارے گھر سے تقریباًاسی کلو میٹر تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اتوار کو ہر صورت اس جگہ کی ریکی کرنی چاہئے تاکہ اصل حالات سے باخبر ہو سکوں۔ میں منصوبہ بندی کرکے سوگیا۔

 

 اتوار کو علی الصبح سائیکل اٹھائی اور مقررہ جگہ پر جانے کے لئے شہر کی طرف چل پڑا۔ ٹرین پر سفر کیا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اتوار کو ٹرین بند ہوتی تھی لیکن بسوں کی سروس بر قرار تھی۔ میں نے سائیکل بس میں ڈالی اور مطلوبہ مقام سے تیس کلو میٹر آگے جا کر اترا۔ اس جگہ جہاں میں اترا، کا نام  ُ کالمنز ڈرف  ُ ( Kalmansdrif)  تھا۔ یہ وقوعہ سے قریب ترین بس سٹاپ تھا۔  وہاں لوگوں سے میں نے نیٹ ہالٹ  (Net Halt )  کے بارے میں پوچھا کہ سائیکل سے وہاں تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ بجری کی بنی ہوئی سڑک وہاں تک جاتی تھی۔  لوگوں نے میری اس جگہ موجودگی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔سائیکل پر وہ سفر کافی دور تھا۔ میں پیڈل مارتے مارتے تھک کر چور ہو گیا اور پسینے میں شرابور ہوگیا۔ جوں جوں مقررہ جگہ قریب آتی گئی،میں چوکنا ہو کر میدانوں، بلڈنگوں، غلے کے گوداموں، جھونپڑیوں، گھاس پھوس، جھاڑیوں اور مقامی آبادی وغیرہ کا بغور جائزہ لینے لگا تاکہ پوری کی پوری تفصیل اپنے ذہن میں رکھ لوں۔ میں نے ایک ہموار جگہ پر  بڑھی ہوئی سوکھی گھاس پھوس دیکھی۔ اس سے کچھ فاصلے پرپہاڑی سلسلہ تھا۔ اُن کے درمیان کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جسے چھپنے کے لئے استعمال کیاجاسکتا ہو۔ 

 

میں سائیکل چلاتا رہا، چلاتا رہا۔۔۔پہاڑی سلسلہ نزدیک آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا حالانکہ دیکھنے میں بہت قریب لگتاتھا۔ وہ سڑک سنسان تھی۔ آسمان زیادہ کشادہ اور بہت بڑا دکھائی دیتا تھا۔ مزید آگے گیا تو مجھے دو بوڑھے آدمی اور تھوڑی دور آگے تین چار کچے گھر اور جھگیاں نظر آئیں۔ ایک گھوڑا بھی نظر آیا۔ارد گرد ایسی تاریں لگی ہوئی تھیں جہاں کھیتی باڑی ہوتی ہے تومجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہ کسان اور وہیں کہیں کام کرتے ہوں گے۔ آس پاس غلے کا گودام نہیں تھااِس لئے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس پار دُور کہیں گوروں کے کھیت ہیں  اور یہ لوگ وہاں مزدوری کرتے ہیں۔

 

 حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی نے بھی مجھے دیکھ کر کوئی توجہ نہ دی۔یہ جگہ شارع عام نہیں تھی۔ گوروں کی آبادی کہیں گھنے درختوں میں چھپی ہوئی تھی۔ زمین پر لوگوں اور بکریوں کے پاؤں کے نشانات تھے۔ زمین پر دراڑیں پڑی ہوئی تھیں جو بچوں کے کھیلنے کی جگہ کے لئے تھیں۔  ساتھ ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس میں کچھ خواتین کپڑے دھو رہی تھیں۔ سڑک پر اکا  دکا کاریں گزرتیں تو بچے ان کے پیچھے بھاگتے تھے۔  میں بھی ایسا ہی کیا کرتا تھا۔ خواتین اپنی لگن میں اس وقت اپنے کام میں مصروف تھیں۔ مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ میں نے بھی ایسی ہی زندگی گزار ی تھی۔ کچے مکانوں اور جھگیوں کو دیکھ کر سوچا کہ جب کسی سوموار کو یہاں دھماکے ہوں گے تو یہ کیا سوچیں گے؟ کیا کریں گے؟  ان کے لئے تو نئی بات نہیں تھی۔ اس شہر میں تو احتجاج اورگوریلا جنگیں عام تھیں۔ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا رہتا تھا۔ مجھے ان پر ترس آیا۔ کیا وہ اس واقعے کے بعد اس کی اطلاع بھاگ کر گوروں کو دیں گے یا پولیس اسٹیشن جائیں گے؟ تاہم میں اگلے موڑ تک سائیکل چلاتا رہا اور بالآخر اس جگہ پہنچ گیا جہاں سڑک بند کر دی جانی تھی۔ یہ نیٹ ہالٹ  (Net Halt) تھی۔

 

میں اب تھک چکا تھا تو وہاں بیٹھ کر سستانے لگا۔ مسلسل سائیکل چلانے سے میرا حلق خشک ہو گیا تھا۔ سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے پانی اس وقت پیا تھا جب میں بس سٹیشن پر پہنچا تھا۔ پانی کی تلاش سے پہلے مجھے ایسی جگہ تلاش کرنا تھی جہاں میں اپنی سائیکل چھپا سکوں اور پھر وہاں سے آبادی کے کچے گھروں تک جاؤں۔ میں نے ایک ایسی جگہ دیکھی جو سکاؤٹنگ کے کیمپ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ وہ جگہ خالی تھی۔ آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ کھر، لوگ یا پہاڑ وغیرہ نہ تھے  زمین ہموار تھی جہاں ادھر ادھر گھاس اگی ہوئی تھی جہاں چرواہے جانوروں کو چراتے ہوں گے۔ وہاں دو گھوڑے بھی بندھے تھے۔ یہ جگہ سڑک سے کافی زیادہ ہٹ کر تھی۔ اسی جگہ ایک ڈھلوان بھی تھی جسے پار کریں تو ایک گڑھا آتا تھا، اس میں درختوں کے ٹوٹے ہوئے تنے، گوبر اور کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ یہ جگہ اتنی گہری تھی کہ اس میں کوئی چھپ جائے تو باہر سے نظر نہیں آتا تھا۔ یہ جگہ کیمو فلاج کے لئے بہترین تھی اور حادثے کے بعد اسے کامیابی سے استعمال کیا جا سکتاتھا۔ میں نے سائیکل وہاں چھپائی اور آبادی کی طرف جو سڑک کے پار تھیں، کی اور ہو لیا۔ میں نے اس جگہ کا نقشہ اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیا۔میں نے سڑک پار کی اور آبادی کی طرف بڑھنے لگا۔ جھگیاں اور چکنی مٹی سے لیپے ہوئے گھر تھے۔ سیاہ فام ایسے ہی گھروں میں رہتے تھے لیکن ا ن گھروں میں خصوصیت یہ تھی کہ ان کی کچی دیواروں پر خوبصورت نقش ونگار بنے ہوئے تھے۔  اِن نقوش سے ان کے اہل خانہ  کے عمدہ ذوق کا پتہ چلتا تھا۔ ایسے نقوش میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان گھروں میں گائے کا گوبرکافی مقدار میں پڑاتھا۔ تازہ گوبر دیواروں کی لیپ میں اور سوکھے گوبر جلانے کے کام آتے تھے۔ وہاں ایک گودام کوڑے کرکٹ کے لئے بھی بنا ہو ا تھاجہاں لوہے کی پتریاں، ٹین کے ڈبے، پھٹے پرانے کپڑے اورگھر کا خراب سامان وغیرہ رکھا جاتا تھا۔ سیاہ فام ایسی جگہوں سے اپنے برتن اور لباس وغیرہ اٹھاتے تھے۔ 

 

میں نے دو بوڑھے سیاہ فارم بوجھل قدموں سے آتے ہوئے دیکھا جو  میری طرف توجہ دیئے بغیر گزرنے لگے تو میں نے انہیں  ُہیلو  ُ کہاتو پہلے تو انہوں نے میری طرف حیرانی سے دیکھا  اور پھر خوش ہوئے کہ کوئی تو انہیں عزت سے بلانے والا ہے۔  ایک بوڑھے نے پھٹا پرانا دھاری دار پاجامہ پہن رکھا تھا جسے اس نے رسی سے باندھا ہوا تھا جبکہ دوسرے نے کوئی سوٹ نما چیز زیب تن کی ہوئی تھی۔ پینٹ کافی کھلی تھی، تسموں والے بوٹ،میلی قمیض جس کا رنگ صدیوں پہلے سفید رہا ہو گا، پرانی کالی ٹائی  پہنی ہوئی تھی اور سر پر پھٹا پراناکالا ہیٹ پہناتھا۔ اس کے خصوصی  بہترین لباس سے لگتا تھا کہ وہ مقامی نہیں تھا۔کسی اور گاؤں سے آیا تھا۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئے۔ مجھے دیکھا لیکن کوئی سوال نہ کیا۔صرف گھورتے رہے۔ اچانک ایک بچہ سامنے والے کچے گھر سے نکلا جس کا دروازہ سیاہ رنگ کا تھا کہ اتنے میں اندر سے آواز آئی۔ بچے نے توجہ نہ دی۔پھر ایک اوراونچی آواز آئی۔بچے نے پھر بھی کوئی دھیان نہ دیا تو ایک خاتون نے دروازے میں آکر اسے  پھر بلایا اور پھر وہ وہاں کھڑی ہوگئی۔

 

 مجھے سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے اس عورت سے بہانہ بنایا کہ میری سائیکل پنکچر ہو گیا ہے اور بہت پیاسا ہوں۔   ُکیا مجھے پانی مل سکے گا؟ اُس نے کسی کو پکارا تو ایک نو خیز لڑکی گندے لباس میں ملبوس باہر آئی۔ اُس خاتون نے اس کو پانی لانے کا کہا۔ وہ اندر گئی اور ٹین کا ایک بڑا خالی ڈبہ لے کر گھر سے باہر چل دی۔ بچہ چیختے چلاتے اس کے پیچھے دوڑ پڑا اور جب اس کے پاس پہنچا تو لڑکی نے اس کا بازو پکڑ لیا،  اس پر مجھے اپنی بہن  ایما  یاد آگئی وہ بھی میرے ساتھایسابرتاؤ کیا کرتی تھی۔

الجھے ہوئے بالوں والا  ایک شخص گھر سے نمودار ہوا اور دروازے کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ رات پی کر سو گیا تھا اور اس کی آنکھیں ابھی تک خمار آلود تھیں۔

 تم جوہا نس برگ سے آئے ہو؟ اس نے سوال کیا۔

میں نے پہلے ہی سے ایسے جواب سوچ رکھے تھے جو میرے بہنوئی جواسیسس کے لئے حادثے کے بعد نقصان دہ نہ بن سکیں۔ 

گاؤں ویری ننگ  ( Vereening )  سے آیا ہوں َ۔ میں نے جواب دیا۔

تم نے لباس تو جوہا نسبرگ والا پہنا ہوا ہے۔ ایسے شہری دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔

  مجھے ایسے لباس پہننے کا شوق ہے۔ میں نے جواب دیا۔

اس نے گفتگو کا سلسلہ یہاں پر ختم نہیں کیا بلکہ اس نے بات آگے بڑھائی اور اپنی چپکی ہوئی آنکھوں کو انگلیوں سے کھول کر کہا۔جہاں کہیں بھی تم رہ رہے ہو کیا  مجھے کوئی کام دلا سکتے ہو؟

کس قسم کا کام؟

کیا تمہارے پاس کوئی کام ہے؟  جس قسم کا بھی کام ہوگا چلے گا۔اس نے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔

تم اس وقت کہاں کام کر رہے ہو؟میں نے پوچھا۔

مالی کا کام کر رہا ہوں۔ تمہارے حلیے سے ایسا لگتا ہے کہ تم شہر میں کام کرتے ہو۔ اس نے کہا۔

مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اس کی عورت ایک ٹین کے ڈبے میں میرے لئے بیر لے کر آگئی۔ میں نے زمین پر چوکڑی ماری اور اسے غٹا غٹ پی گیا۔

 یہ نقش و نگار کس نے بنائے ہیں؟  میں نے مرد سے پوچھا۔

میری بیوی نے!  اس نے جواب دیا۔  اتنے میں وہ لڑکی بھی پانی کا بڑا ڈبہ بھر کر لے آئی۔ میں نے جی بھر کر پانی پیا اور اٹھ کر واپسی کا رخ کیا تو وہ بوڑھے بھی میرے ساتھ چلنے لگے لیکن چند  قدم چلنے کے بعد تھک کر بیٹھ گئے۔

 

 

ایک بولا یہ بہت زیادتی ہے کہ ہر روز صبح پانچ بجے اٹھنا، شام تک کام کرنا اور مزدوری نی ہونے کے برابر۔۔ مجھے ان پر بہت ترس آیا اور سفید فام لوگوں سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سوچا کہ ان کو بم پھٹنے کے منصوبے کی خوشخبری دے دوں لیکن پھر چپ ہوگیا۔اس کے بعد میں نے گڑھے سے سائیکل اٹھائی، کچھ دیر سستایا، واپس چل پڑا اور رات گئے گھر پہنچا۔

 

میاں بیوی اپنے کمرے میں سو چکے تھے۔ بہن ایما نے سوچا ہوگا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے چلا گیا ہو ں گا اس لئے وہ میرے بارے میں بے فکر ہو کر سو گئی تھی۔ جس انداز سے وہ بے خبر سو رہے تھے، ایسا لگتا تھا کہ یقینا یہ وہ کل والا سوموار نہیں ہے جس میں منصوبے پر عمل کرنا ہے۔

 

 جوسیاسسس جب صبح چار بجے اٹھا تو میں بستر پر چوکنا ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔  وہ باورچی خانے میں آیا اور ناشتہ کرنے لگا تو میں نے فوراً اسے اپنی کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ دی کہ میں نے ہر وہ مقام اچھی طرح حفظ کر لیا ہے جہاں یہ واقعہ رونما ہونا ہے۔ یہ جگہ گڑھے کے قریب ہے جس میں کوڑا کرکٹ بھرا ہے اور اس میں آسانی سے چھپا جا سکتاہے۔

 

 جوسیاسسس نے میری طرف دیکھ کر سر ہلا یا اور کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ تم نے معاملے کی اہمیت سمجھ لی ہے۔

 

 یہ جان لینا بہت ضروری تھا کہ حادثے کے بعد ایسی جگہ چھپا جا سکے جہاں کوئی فوری طور پر ڈھونڈ نہ پائے۔ میں نے ارد گرد گھروں کا بھی بھرپور جائزہ لیا ہے کہ آبادی کیسی ہے؟ وہ لوگ بھی ہماری طرح سیسل رہودز کے استحصال کا شکا ر ہیں۔چھٹی کی وجہ سے وہ صرف ہفتہ یا  اتوار کو تو وہ گھر پر ہوتے ہوں گے اورباقی دنوں میں وہاں کوئی بھی نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ سب اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہوں گے۔  گوروں کے گھر چونکہ کافی فاصلے پر ہیں اس لئے سب شام کو ہی واپس آتے ہوں گے۔جواسیسس نے باتیں سننے کے بعداتنا ہی کہا کہ اس نے یہ پروگرام مجھے بتا کر غلطی کی ہے اور چلا گیا۔ 

 

ہماری بات چیت کی بھنک اس نے اپنی بیوی کو بھی نہ پڑنے دی۔  شام کو واپس آیا تو اس نے بتایا کہ میری فراہم کردہ معلومات بالکل صحیح تھیں۔ اصل مشن تین سوموار بعد کا تھا۔ تیسرا سوموار آیا تو وہ لمحات یاد گار تھے۔ ہم سب کاڈر دور ہو چکا تھا۔ جہاد کا جذبہ طاری تھا۔ جوش تھا خوشی چھائی ہوئی تھی۔ آج میرا بہنوئی جواسیسس ایک نیک مشن پر جا رہا تھا۔ اس کے ٹرک میں پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے جاری کردہ  ’رکو  (Stop)  اور سڑک بند کرنے کے بورڈ  ’آگے جانا منع ہے‘  موجود تھا۔ اُس کے علاوہ آگ جلانے کا سامان، لال جھنڈا اور بارودبھی لدا ہوا تھا۔  مجھے یقین تھا کہ سب کچھ منصوبے کے مطابق ہو پا ئے گا۔

 

میں اپنے پروگرام کے مطابق اگلے دن امکانی وقوعہ پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حالات بدلے ہوئے تھے۔۔جواسیسس کے ٹرک کے ارد گرد موبائل پولیس تھی جو اس کی حفاظت کر رہی تھی۔ اس کیاس کمپنی کے ساتھ پانچ سالہ نوکری میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ہر ہفتے بارود بھر کر جاتا تھا لیکن ایسا پہلی بار ہو رہا تھا۔ موبائل پولیس نے اسے بتایا کہ وہاں سڑک بند ہے کا بورڈ لگا تھااور آگے کوئی تعمیر نہیں ہو رہی تھی۔ سڑک بھی صاف تھی اس لئے انہیں کسی خطرے کا شبہ ہوا تو حتیاطاً وہ آگئے تھے۔ وہ ۔جواسیسس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔تاہم منصوبے کے مطابق مقررہ جگہ پر میرے بہنوئی جواسیسس نے ٹرک روک دیا اور بارود اتار دیا۔ اتنے میں پاس سے کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں جواسیسس کو وہیں چھوڑ کر بھاگ اٹھا۔ پولیس کو میرے بھاگنے کی خبر نہ ہوئی۔ اس دن شہر کے اور بھی کئی مقامات پربم دھماکے ہوئے۔

 

میں اپنی سائیکل کو اُس گڑھے سے نکال کر دوسرے خفیہ مقام تک پہنچا  جہاں  واردات کے بعد جانے کے لئے میں نے معلوم کیا تھا۔۔  جوزف بھی پولیس والوں کو اپنی گواہی دے کر بچ نکلا تھا اور اس مقرر کردہ جگہ پر آپہنچا۔ ابلاغ عامہ پر زور انداز میں چلایا۔ ٹی وی، اخبارات میں پولیس، انتظامیہ اور وزیر کی پریس کانفرنسیں ہوئیں جس میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے دو لوگ موقعے پر ہی پکڑ لئے گئے تھے اور ان کی مدد سے مزید تین لوگ بھی پکڑلئے گئے۔  اس راکٹ کواب ختم کیا جا چکا ہے۔ جواسیسس  معمولی طور پر زخمی ہوا  اور نوکری چھوڑ دی۔ا س پر کوئی حرف نہ آیا۔

 

  ہائی کمانڈ کی طرف سے حکم ہواکہ میں اور دوسرے مجاہد(جنہیں حکومت دہشت گرد کہتی تھی) وہاں سے نواحی گاؤں چلے جائیں۔ہم  لوگ ایک ہفتہ تک چھپے رہے۔ بعد میں ہمیں ایک اور جگہ ( Bechuana land )  پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ ہمیں اطلاع دی گئی کہ وہاں پہنچنے پر ہمیں ضروریاتِ زندگی کی اشیاء اور کچھ پیسے بھجوا دئے جائیں گے۔ اس جگہ پر فارم ہاؤس بہت زیادہ تھے جہاں ہر قسم کی سبزیاں اور پھلوں کے درخت تھے۔ وہاں ہمیں کوئی رقم تو نہ ملی، بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر درختوں سے پھل چرا چرا کر کھاتے رہے۔ اس وقت ہمیں ایسا نہیں لگتا تھا کہ ہم کبھی اپنے گھر واپس جا پائیں گے۔ وہاں ہمیں ایک اور حکم ملا کہ ہم ایک مخصوص جگہ پر منتقل ہو جائیں۔ کئی روز کی پیدل مسافت کے بعد ہم نئی جگہ پر پہنچے۔ یہاں حالات پہلی والی جگہ سے بھی برے تھے۔  یہاں فارم ہاؤس نہیں تھے اور کوئی رقم بھی نہ بھیجی گئی تھی۔ 

 

ایما جواسیسس اور اس کے ساتھی ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ ہماری پارٹی کے لوگ کسی نہ کسی طرح ہمیں چھپاتے رہے اور خوراک مہیا کرتے رہے۔ وہاں ہوائی جہاز آتے اور پیسے والوں کو بھر بھر کے لے جاتے۔ ہمیں تانگا نیکا لے جایا جانا تھا جو ایک ہمسایہ ملک تھا۔ اس میں بھی سیاہ فام لوگوں کی اکثریت تھی لیکن وہاں کی حکومت نے انہیں سہولیات دی ہوئی تھیں اور ان میں سے کئی لوگ حکومت میں اونچے عہدوں پر بھی فائز تھے۔ اچھے علاقوں میں رہتے، آرام و عیش اور گاڑیاں ان کے پاس تھیں۔ میں اورمیرے ساتھی وہاں اِس لئے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ ہمارے پاس نہ تو کاغذات تھے اور نہ ہی ٹکٹوں کے لئے پیسے اس لئے گروہی شکل میں ہم سرحد کی طرف پیدل چل پڑے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں سے انتظامیہ بھی کوئی سوال جواب نہیں کرتی۔ نہ کوئی کاغذات دیکھتا ہے اور نہ کوئی اور کاروائی کرتا ہے۔ ہمیں تانگا نیکا بارڈر پیدل پہنچنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ ہم بے یار و مددگار تھے۔ جب ہم سرحد پر پہنچے تو ہمیں سر حد پار کروا کر مہاجروں کی بستی میں آباد کر دیا گیا اور فی کس روزانہ ایک شلنگ یا دو شلنگ خرچہ پانی دیا جانے لگا۔ جس سے گزارہ نہیں ہو سکتا تھا اور اگر  ہم میں سے کسی کو نوکری مل جاتی تو یہ خرچہ بند کر دیا جاتا تھا۔

 

مہاجروں کی یہ بستی شہر سے کوسوں دور غریب علاقے میں تھی۔ کئی ہفتوں بعدوہاں سے بھی ہمیں کسی اور دور دراز گاؤں منتقل کر دیا گیا جہاں ہمیں ایک کمرے میں رکھا گیا۔ اس علاقے سے کچھ میل دور امیروں کا علاقہ تھا جس میں زیادہ تر گورے اور کچھ سیاہ فام رہتے تھے جو خوشحال تھے۔ غریب علاقے جہاں ہم رہ رہے تھے، میں لوگوں کے اپنے پاس کچھ کھانے پینے کو نہیں تھا تو وہ دوسروں کو کیا دیتے؟  میری خوش قسمتی کہ مجھے معمولی تنخواہ پر کلرک کی نوکری مل گئی جس سے میں بمشکل گزارہ کر نے لگا۔ اس جگہ سے میری پارٹی گوریلا تربیت کے لئے    کارکنوں کو دوسرے کمیونسٹ ممالک بھیجتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد پارٹی نے جواسیسس کو بھی وہاں بھیج دیا۔  مجھے اس کو  دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ اب ہم دو ہو گئے تھے۔ امید کر رہے تھے کہ ایما بھی آملے گی۔

 

رہوڈیشا  (موزنبیق)کے حالات دن بدن دگرگوں ہو رہے تھے اور تانگا نیکا میں مہاجرین جوق در جوق آرہے تھے۔ بیماریاں عام تھیں اس لئے وہاں نرسوں اور ڈاکٹروں کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔ میری بہن ایما چونکہ نرس تھی اور تجربہ بھی رکھتی تھی، کو چن لیا گیا اور سرکاری حیثیت سے تانگا نیکا بھیج دیا گیا۔ ان تمام نرسوں کی تصاویر جب اخبار میں چھپیں تو میں اسے اپنے پاس لے آیا۔لیکن ستم یہ ہوا کہ  جوسیاسسس کو   ایما کے آنے سے پہلے ہی صومالیہ میں گوریلا تربیت کے لئے بھیج دیا گیا۔  ہماری رہائش کے پاس ساحل تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پر ہر کوئی مفت نہا سکتا تھا اور مرضی کے مطابق پانی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ جب ایما  پہلے دن آئی تو اسے ساحل اچھا لگا۔  واپسی پراس کی آمد کی خوشی میں ہم دونوں نے ایک ہوٹل سے مشروب کی ایک ایک بوتل پی۔ ہم اپنی زندگی میں پہلی بار ہوٹل گئے تھے اور ایک ایک  بوتل پی تھی۔

 

شروع شروع میں ایما  بازار جانا بہت پسند کرتی تھی کیونکہ وہاں سے اشیا ء سستی مل جاتی تھیں۔ زندہ پرندے بھی مل جاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے ٹماٹر جو وہ یہاں اگاتے تھے ا سے مرغوب تھے۔مقامی لوگ اونچی اونچی آواز میں جاہلانہ باتیں کرتے۔ آپس میں لڑائیاں کرتے رہتے۔ ان کی باتیں اگرچہ زبان کی عدم واقفیت کی وجہ سے سمجھ نہیں آتی تھیں لیکن وہ انہیں برا نہیں سمجھتی تھی۔ لوگ رات کا کھانا کھاتے ہی گلیوں میں نکل پڑتے تھے۔ بوڑھے بھکاری اور بے روز گار بند دکانوں کے تھڑوں پر پھٹے پرانے کمبل اوڑھے سو رہے ہو تے۔ بڑیتوندوں والے ہندوستانی جو صدیوں سے یہاں آباد تھے متمول زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ سفید سوٹ زیب تن کئے  ا پنی بیویوں کے ساتھ جنہوں نے رنگ برنگی ساڑھیاں پہنی ہوتیں ہوٹلوں میں مزے کرتے نظر آتے۔ جوان لڑکے اور لڑکیاں بانہوں میں باہیں ڈال مستیاں کرتے۔ کچھ ساحل سے جہازوں اور سمندر کی لہروں کا نظارہ کرتے۔ لوگ آگے پیچھے گزرتے رہتے۔ لوگ ساحل پر سیر کرتے۔ اس ساحل پر عمارتیں اس وقت سے موجود تھیں اور بحری جہاز اس زمانے سے آتے جاتے تھے  جب لندن ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ مناظر دلکش ہوتے تھے۔ جہازوں کی روشنیاں سمندر پر بکھرتیں تو قوس و قزح کے رنگ بکھر جاتے اور کھجور کے درختوں کے سائے گھنی تاریکی ہونے کے باوجود دور تک نظر آتے۔ وہاں سمندر کے پانی کی مخصوص بساند آتی رہتی رہتی تھی۔ ہوا مرطوب رہتی۔ بساند رات اور صبح تین بجے  زیادہ ہوتی تھی۔ وہ میرے ساتھ خوشی خوشی جاتی تھی۔

 

پار ٹی کی قیادت نے ہمیں کسی ملک گوریلا تربیت کے لئے بھیجنا تھا لیکن مجاہدوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ میرا نام ہی نہیں آرہا تھا۔ ایما کے آنے کے بعد میں ہی وہیں تھا۔ ہماری آمدنی اتنی ہوگئی تھی کہ ہم  دو کمروں کے فلیٹ میں رہ سکتے تھے۔ میری بہن نے ایک کمرہ دو نرسوں کو کرایہ پر دے دیا جس سے اقتصادی مسئلہ حل ہو گیا۔وہ کب تک ساتھ تھیں، اندازہ نہیں تھا۔وہ اپارٹمنٹ جس میں ہم اس وقت رہ رہے تھے۔، بہت عمدہ تھا۔ اس کا ایک صاف ستھرا غسل خانہ تھا اور ان میں  چھ خوبصورت کرسیاں اور میزتھا  جو ایما کو بہت پسند تھا۔اس نے انہیں اپنے پاس رکھا اور اس کا کرایہ بھی ادا کر رہے تھے۔ جب بھی وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوتی تو ان کو دیکھ کر خوش ہو تی تھی۔ یہ سلسلہ اس طرح چل رہا تھا۔

 

وہ اپنے وطن کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ جب کوئی وہاں سے آتا تو اس سے مل کر گھنٹوں باتیں کرتی۔اس کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تھی۔ ہم سیر و تفریح کرتے ہوئے یاد رفتہ کو آواز دیتے۔ بچپن اور اپنے گھر سے جڑی یادوں کو دہراتے۔ ایک دوسرے کو چھیڑتے۔ میں کہا کرتا تھا کہ میں بالکل بھی پریشان نہیں ہوتا  تھا بلکہ یہ تم وہ ہی ہوتی تھی جو بھیگی بلی بن جاتی تھی اور بھاگ جایا کرتی تھی۔ دکانوں سے چرا کر جب ہم شام کو پھل اور مٹھائیاں ہم کھا رہے ہوتے تو ان واقعات کو دہراتے کہ ہم پکڑے جانے سے کیسے بچا کرتے تھے۔ یہ بری بات ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کہ دونوں کس طرح جوہنس برگ جایا کرتے تھے جب میری ہفتے کی چھٹی ہوتی تھی۔ جب تم بارہ سال کے تھے تو تمہیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ تم مجھے گھو دو گے۔ میں اس کو باتیں کہنے دیتا۔ یہاں تک کہ اگلے دن تک اس کی شکایات ختم ہو جاتیں۔

 

 ہمیں وہاں رہتے ہوئے تین سال ہو گئے تھے۔ پارٹی قیادت مجھے کسی وقت بھی تربیت کے لئے بھیج سکتی تھی۔ایما اب اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھی۔ اب اسے ساحل پر سیرکرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا دل اچاٹ ہو گیا تھا۔پہلے وہ مارکیٹ بڑے شوق سے خریداری کے لئے جاکر اپنی پسند کی اشیاء خرید تی تھی لیکن اب وہ دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔ ہم میں سے کچھ کو ایتھوپیا اورکچھ کو الجیریا بھیج دیا گیا تھا جوباقاعدہ تربیت حاصل کر کے آئے تھے۔ وہ جب واپس آئے تو انہیں مختلف محاذوں پر بھیج دیا گیا تھا۔ میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔جسم اور روح کا رشتہ نبھانے کے لئے ہر کام کر رہا تھا۔ اس دوران میں میں کام پر جاتا اور شام کو مختلف مقامات پر سیر کرتا اور اگر میرے پاس کچھ پیسے ہوتے تو بارمیں جاکر بیرپی لیتا  اپارٹمنٹ میں دونرسیں رہ رہی تھیں، وہ دوسرے کمرے کا کرایہ ادا کرتی تھیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کب تک وہاں رہیں گی۔

 

 اب ایما کی کم و بیش اکثر یہ خواہش ہوتی تھی کہ اس کی چھٹی کے وقت میں اسے اس کے ہسپتال سے لے لیا کروں۔ ہم پیدل واپس آنے لگے۔ اس کی چھٹی کے وقت ہسپتال کی راہداری پر ہوتا  تووہ کھڑکی کے باہر نظریں جمائے ایسے دیکھ رہی ہوتی جیسے کہ میں اسے لینے کے لئے نہیں آؤں گا اور جوسیاسسس کی طرح میں بھی اسے چھوڑکرچلا جاؤں گا۔ مجھے اس کی نگاہوں سے ایسے ایسا لگتا تھا  جیسے وہ مجھ پر شک کرتی تھی۔ جب مجھے دیکھتی تو مسکرا دیتی لیکن جب میں ہم دونوں ہسپتال سے ہر دس گز کے فاصلے پر آتے تو ایما کانپنا شروع کر دیتی اور اپنا سر ادھر ادھر جھٹکتی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جھڑنے لگتی۔ اس دوران وہ یہ کہتی رہتی۔یہ سب ایک شخص کی قوت سے باہرہے۔ کوئی بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کو یہاں کے ہسپتال اپنے ملک کے ہسپتالوں سے کمتر لگتے تھے۔ یہاں کی نرسیں کم تربیت یا فتہ تھیں۔ علاوہ ازیں یہاں کی زبان بھی مختلف تھی اور ایما نے اسے سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ یہاں وہ پورے وارڈ کی انچارج تھی۔ اور اس بات پر کڑھتی رہتی تھی کہ وہ نااہل تھیں ۔ مریضوں کی حالت پہلے سے بھی خراب کر دیتی تھیں۔ وہ ان پر بھروسہ نہیں کر سکتی تھیں۔ مجھے ہر روز  درجنوں بار اس طرح کہتی جیسے کہ وہ مجھے یہ بات پہلی بار کر رہی ہو۔ بہت سے مقامی باشندے ہمارا وہاں رہنا بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ تم جانتے ہو کہ ایسا کیوں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بہت زیادہ بے روزگاری تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ان کے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے لیکن میں ایسی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔اگلے کسی بھی دن وہاں  سے بھیج دیا جاؤں گا۔ اس وقت تک تو مجھے زندہ رہنے کے لئے کام

اب وہ بجھی بجھی رہنے لگی تھی۔گھر آتی تو وہی کرسیاں اور میز اسے برے لگتے۔ اپنے وطن سے اسے کوئی ملنے آتا تو وہ گم سم بیٹھی رہتی۔اس کی باتوں پر توجہ نہ دیتی۔یہ بڑبڑاتی رہتی کہ کوئی کہاں تک برداشت کر سکتا ہے۔ اس کے چہرے پر کرب کے نشانات ہوتے۔ وہ ہمیشہ یہ گلا کرتی تھی کہ تانگا نیکا صحیح اور صاف ستھری جگہ نہیں ہے اور نہ کی جا سکتی ہے۔ ہمارے وطن والی جھگی میں پانی کا ایک نل تھا وہ بھی مشترکہ صحن میں۔ اس تنگی کے باوجود اس نے وہاں کبھی بھی شکائت نہیں کی تھی۔ اب وہ ایک منٹ بعدبے چین ہو کر  اٹھتی اور کہتی کہ یہ کیسی جگہ ہے کہ کوئی باہر کھلی ہوا میں جا کرسانس بھی نہیں لے سکتا جبکہ اپنی جھگی میں کتنی بھی حبس اور تپش ہو تی اس نے وہاں کبھی بھی شکائت نہیں کی تھی۔ وہ ایک منٹ کے بعد پھر اٹھتی اور دہراتی کہ تم اسے اس بات کا کبھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر کھلی ہوا میں جا کر سانس لے۔ میں بازار سودا سلف لینے چلا جاتا۔ اس نے بازار جانا بند کر دیا۔ وہ ہمیشہ یہ بات دہراتی رہتی کہ کہ وہ اب برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ ہ وہاں اب نہیں جانا چاہتی۔ وہ سو نہیں سکتی تھی۔آدھی رات کے وقت اب وہ مجھے جگا دیتی۔ پچھلی رات تاریکی میں میرے ساتھ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔مجھے اسوقت سمندر کے پانی کی بساند آرہی تھی۔ رات کے وقت بھی گرمی اتنی ہی گرمی تھی جتنی دوپہر کو تھی۔ سمندر کے پانی کی بساند نتھنوں میں گھس رہی تھی۔

 میں برا محسوس کر رہی ہوں۔  ایما نے کہا۔

 تمہارے لئے چائے بنا کر لاتا ہوں۔ میں نے پیشکش کی۔

 اگر دیکھا جائے تو چائے ہمیں اس حالت میں کیا فائدہ دے سکتی ہے۔ میرے ساتھ ضرور کوئی معاملہ ہے۔ مجھے ضرور کوئی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ مجھے ڈاکٹر کو ضرور دکھانا چاہئیے۔ایما نے جواباًکہا۔

کیا تمہیں پھر سے درد محسوس ہورہا ہے یا اور کیا مسئلہ ہے۔ بتاؤ۔ میں نے ایما سے پوچھا۔ اگر تم واپس جاؤ گی تویہ بات کتنی تکلیف دہ ہے کہ اس کے پاس کوئی نہیں ہوں گے۔ وہ اکیلی رہے گی کیونکہ جوسیاسسس اور میں ایک طویل عرصے تک نہیں آسکیں گے۔

 

جھگیوں میں رہنے والے پڑوسی اور اس کے ساتھی۔۔۔ تو سب وہی ہوں گے۔ جب میں اندھیرے میں ستاروں کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے لیکن میں اس بات سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی کہ تم مجھے جلد ہی چھوڑ کر تربیت کے لئے چلے جاؤ گے۔ میں کیا کروں گی۔ میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ میرے لئے اب برداشت کرنا ناممکن ہے۔ مجھے اپنے لوگوں میں اپنے وطن  واپس جانا ہو گا۔ جب شام کوٹھنڈ ہو جاتی تو میں سیر کے لئے نکل جاتا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیوں تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کیوں تھا لیکن کھانا کھاتے ہی میری شدید خواہش ہوتی کہ میں گھر سے باہر گلیوں میں نکل پڑوں تا کہ اپنا کھانا جلدی سے جلدی ہضم کر سکوں اس کو خبر ہونے سے پہلے۔ میں باہر نکلنے کو بیتاب رہتا تھا اور خود کو عجیب و غریب محسوس کرتا تھا۔ خود کو بے بس اور بے چین ہو کر گھر سے نکل پڑتا۔ بعض اوقات میں رات کا کھانا بھی گول کر جاتا۔میں سیر کرتا رہا چلتا رہا۔۔۔ دکانوں، ہوٹلوں، بلند و بالا عمارتوں ِ عظیم الشان جرمن کلیسا، کیچڑسے بھری گلیوں جو گھروں کے درمیان تھیں سے ہوتے ہوئے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا۔ دیگر راہگیروں  کے ساتھ آواہ گردی کرتا رہتا۔ بند کباڑوں کی جھریوں سے بجلی کی روشنی چھن کر آتی رہتی۔ لوگ سو رہے ہوتے۔

 

  ایک رات وہ کہنے لگی کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔میں نے کہا کہ میں  اس کے لئے چائے بنا کر لاتا ہوں تو اُس نے کہا کہ چائے سے اس کی طبیعت اور بگڑ جائے گی۔ ایما نئے ملک کی زبان سے ناآشنا تھی۔ رات کو اسے دیر تک نیند نہیں آتی تھی۔ اس کی حالت روز بروز بگڑنے لگی۔  اپنے دیس سے کوئی شخص آتا تو میں اسے اپنے گھر لے آتا اور وہاں کی باتیں کرکے اپنی اور بہن کی یادیں تازہ کرتا۔ پہلے پہل توایما ایسے لوگوں سے مل کر خوش ہوتی تھی پھر اب اس نے ان سب کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہروقت ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی ور بولتی  ’ناقابل برداشت، ناقابلِ برداشت‘۔  ہر وقت کہتی رہتی  ’اس کا کوئی نہیں۔ اس کا کوئی نہیں۔ اس لئے ایک دن وہ بولی کہ وہ واپس اپنے دیس جانا چاہتی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جب واپس جائے گی تو ایک بدلی ہوئی شخصیت ہوگی۔یہاں کے تجربات نے اس کے دکھوں میں اضافہ یہ کیا تھا۔ ایک رات ایمانے کہا کہ بھائی تم بھی بھی مجھ سے دور ہو جاؤ گے۔ تمہاری تربیت کی باری بھی آنے والی ہے۔ وہ واپس جا نا چاہتی تھی۔ پتہ نہیں میں اور اس کا خاوند کبھی واپس اپنے ملک میں جا پائیں گے یا نہیں۔ میں اسے ہر طرح سے اسے باز رکھ رہا تھا اور کافی حد تک کامیاب بھی تھا۔

 

وہ بار بار اپنا سر ادھر ادھر ہلا رہی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اب وہ رو دے گی۔ وہ کہتی کہ اس جگہ اس کا اپنا کوئی نہیں ہے۔ میں بستر سے اٹھا اور  کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا جیسے کہ میں نیند کی حالت میں ہوں اور ہر روز۔۔۔ ہر روز میں جاگ نہیں سکتا تھا اور اس مصیبت سے باہر آسکتا۔ میں ہمیشہ یہ بہتر دیکھتا۔  یہ سچ ہے کہ ایما کے لئے یہ حالات بہت مشکل تھے۔ میں کسی سے بھی پوچھ سکتا۔ کیا یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میراخیال ہے  میں ہر کسی سے بات کر سکتا ہوں جس سے میں چاہوں کیونکہ میں نے وہاں کی زبان سمجھ رہی تھی۔ اس نے کچھ نہیں سیکھا تھا کہ جاتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔

 

اس کی باتیں سن سن کر میں پریشان ہو جاتا تھا۔ میں اپنا غم دور کرنے کے لئے شام کو بھیگے بھیگے موسم میں مارکیٹ چلا جاتا، گلیوں میں گھومتا پھرتا، ساحل پر میلوں دور چلتا رہتا۔ سمندر کی بھینی بھینی خوشبواورجہازوں کی جگ  مگ کرتی روشنیاں مجھے سکون بخشتی تھیں۔ ساحل پر  موٹے موٹے  ہندوستانی جو وہاں صدیوں سے آباد تھے اور خوشحال تھے، اپنی موٹی توندوں کے ساتھ سفید سوٹ میں ملبوس اپنی فیملی کے ساتھ کھا پی رہے ہوتے، چنچل لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر رومانس کرتے خراماں خراماں چلتے دکھائی دیتے۔ درخت قطار اندر قطار، اونچے لمبے کھجوروں کے پیڑ ڈھلے سائے میں دور سے کافی اندھیرا پھیلنے تک دکھائی دیتے اور روح گرماتے تھے۔ ریت اور چکنی مٹی پر ننگے پاؤں چلنے سے راحت ملتی تھی۔ چھوٹے موٹے چمکتے ستاروں کی روشنی مسحور کن لگتی تھی۔

 

جب کوئی شخص اس سے ملنے کے لئے آتا۔ کوئی بھی جو کہ عموماً اس کے گاؤں سے ہوتا یا شائد میں کسی رہوڈیشیا والے باشندے کو جو کہ میرے ساتھ کام کیا کرتا تھا، کو لاتا تو وہ بیٹھ جاتی۔ وہ خاموشی رہتی۔ وہ اس کی کچھ نہ سنتی وہ جو کچھ بھی کہتا اس پر دھیان نہ دیتی بلکہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی   ُ بہت ناگوار۔۔۔ بہت بھاری۔۔۔ہاں۔ ایک تن تنہا خاتون کے لئے جس کا کوئی دوست نہیں، کوئی بھی نہیں ایک اکیلی عورت۔ میں تمہیں بتا نہیں سکتی۔ ایک اکیلی عورت۔۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتی۔

 

جوسیاسسس اور ہزاروں مجاہد مختلف محاذوں پر رہوڈیشیا کی حکومت کی رٹ چیلنج کررہے ہیں۔ایما زخمیوں اور بیماروں کی شفا یابی کا نیک کام کر رہی ہے۔ میں تربیت کے لئے جارہا ہوں۔ نیلسن منڈیلا قوم کو ظلم و استبدال سے بچانے کے کال کی کوٹھڑی میں قید کاٹ رہاہے۔یہ اندھیرا کب تک رہے گا۔ اندھیرے کو بھاگنا ہو گا۔گھنگور گھٹا سیاہی کوچھٹنا ہو گا۔آزادی ہمارا مقدر ہے۔ صبح کو آنا ہے۔ وہ صبح ضرور آئے گی۔ ہم نہ بھی ہوئے کوئی ہم سا ہوگا۔  صبح ضرور آئے گی۔ 

 

 

 (1923 - 2014) Nadine Gordimer

Nobel Laureate (Literature)

(South Africa)

 

ندین گورڈیمر ( Nadine Gordimer )  1923کو جنوبی افریقہ کے شہر سپرنگز  (Springs)  میں پیدا ہوئی۔ اس کا والد  ( Latvia) اور والدہ انگلستان کی تھی جو ہجرت کرکے جنوبی افریقہ آباد ہوگئے تھے۔ اس نے نو سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور پندرہسالکی عمر میں اس کا پہلا ناول چھپا۔ اس کی مقبولیت اس وقت شروع ہوئی جب اس کا ناول The Conservationist 1948 میں چھپا۔ وہ نسل پرستی کے سخت خلاف تھی۔ اس نے اس موضوع پر کئی کتب لکھیں۔ ان میں سے زیادہ تر ناول جو اس نے جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کی آزادی پر لکھے تھے، حکومت نے ضبط کر لئے۔  1948 کے بعد اس نے جوہا نس برگ میں سکونت اختیار کر لی۔        

اس نے ناول، مختصر کہانیاں اور مضامین لکھے ہیں۔ 1970 کے بعد تو اس نے مسلسل سفید فارم اقلیت کی نسل پرستی کے خلاف لکھا۔   1990کے بعد جو اس نے کتب لکھیں ان کے پس منظر خارجی استحصال پر پابندیوں سے متعلق تھیں۔ بالغ النظرمیں اس کی کم و بیش تمام تصانیف میں جنوبی افریقہ کی تاریخی نمو بیان کی گئی ہے۔  اسے   1991میں نوبل انعام (ادب) سے نوازا گیا۔  اس کی اہم مختصر کہانیوں، ناول اور مضامین درج ذیل ہیں۔

٭    

Le Conservateur (1974)          ٭ Burgers Daughter (1979)

 

٭     My Son's Story (1990)                            ٭     The Pick up (2002)

٭     July's People (1981)                                ٭     A sport of Nature (1987)

٭     No Time Like the Present (2012)                   ٭A world of strangers (1958No Time Like the Present (2012)                 ٭A world of strangers (1958)

        وہ  2014  میں فوت ہوئی  اور جوہا نسبرگ میں دفن ہے۔  اس کی یہ کہانی    ’وہ صبح کبھی تو آئے گی   ( Some Monday for Sure )  بڑی مشہور  ہے۔ یہ کتاب اس دور میں لکھی گئی جب نیلسن منڈیلا نسل پرستی کے خلاف قید و بند کی صعوبتیں بر داشت کر رہا تھا۔

 

 

 

 

 

 

Popular posts from this blog