مادامِ امورِخانہ Ladies Of The House By Sandra Birdsell 1942-

 

مادامِ امورِخانہ

 

Ladies Of The House

By

Sandra Birdsell

1942-

پیشکش : غلام محی الدین

 

میرا خاندان بہت بڑا تھا۔میری ماں کو گنتی بھی یاد نہیں رہتی تھی کہ کس نے کھایا تھا اور کون رہ گیا تھا۔وہ ہر وقت اپنے بچوں  کی حاجات  پوری کرنے میں ہی مصروف رہتی تھی ۔اپنے سر سے بلا ٹالنے کے لئے  بچوں کےدو گروہ (الف اورب)بئادئیے گئے تھے ۔ بڑے بچوں کو' الف'  اورچھوٹے بچوں کو 'ب'گروہ   کانام دیا گیا اور قواعد طے کئے گئے تھےکہ کون کس گروپ میں شامل ہوگا اور آپسی معاملات وہ از خود کیسے سلجھائیں گے۔کسی گروہ میں شمولیت کے لئے ذاتی پسندیدیا ناپسند دخل نہیں تھا۔ اگربچہ بڑی عمرکاتھاتو'الف' اور چھوٹی عمرکاتو'ب'گروہ میں ہی کھیلے گا۔میں موٹے اوردبلے پتلے بچوں کوادھرادھرچھلانگیں مارتے،چیختے چلاتے دیکھاکرتی تھی۔ بالغ بچوں کے دونوں گروہوں کو اپنے پاس نہیں پھٹکتے نہیں دیتے تھے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کا خیال تھاوہ سر پرجڑھ کر ناچنے لگتے تھے۔

ایک بارمیں نے اپنی والدہ سےپوچھا تھا کہ اس نے اتنے بچے کیوں پیداکئے؟کیاوہ برتھ کنٹرول پریقین نہیں رکھتی تھی؟یہ بات سن کروہ غصے میں آگئی لیکن اس نے کنٹرول کرلیا۔ مجھے لگاکہ میں سمجھی کہ شائد میں نےصحیح اندازمیں سوال نہیں پوچھاتھا۔  والدہ  کچھ عرصہ خاموش رہی اور پھرکندھے جھٹک کر گویا ہوئی کہ 'کوئی تدبیرکارگرنہیں ہوئی؎۔ ماں کی چھاتیاں بہت بڑی اورلٹکی ہوئی تھیں۔مجھے وہ پسندنہیں تھیں۔ وہ ناشپاتیوںکی شکل کی تھیں۔ میں نے سوچا۔اگروہ دوسری خواتین کی طرح سلیقے سے   انہیں باندھ کررکھے توہوسکتاہے کہ رات کواکیلی نہ سوئے۔ماں نے اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کی تھی ۔ اگرگرمچھوں کے جبڑوں میں تمہاری گردن  پھنسی ہوئی ہو تو اس وقت یہ یادنہیں رہتاکہ پانی سے بھرے تالاب کو خالی کیسے کرناہے۔ڈھیرساری اولادکے کاموں میں وہ سرسے پاؤں تک دھنسی ہوئی تھی۔بچے بغیرنگہداشت خلا میں پل رہے تھے۔ ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ وہ غلاظت میں پرورش پارہے تھے۔ان کو نیکی بدی،اچھائی برائی،صحیح غلط بتانے والاکوئی نہیں تھا۔ میں نے اسے جب کہا کہ تم ہمیں  نظرانداز نہ کروتاکہ ہم خراب باتیں نہ سیکھیں تو اس نے حقارت سے میری طرف دیکھ کر منہ دوسری طرف کرلیا۔ اس لئے ہر بچہ اپنی من مانی کرسکتاتھا وراسے کوئی پوچھنے والانہیں تھا۔

گھر کے تہہ خانے میں اپنی دونوں بیٹیوں کے کپڑے  ، ننھے چھجے دار ہیٹ اورننھی جوتیاں  چھانٹتے وقت میں 'میکس' کا سوچ رہی تھی تو    اس کا فون آگیا۔  سب کچھ بھول بھلا کر میں اپنے خاوند ہیری کے ساتھ البرٹا میں خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی جس سے ہمارے دو بچے تھے ۔ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔جن کی عمر پانچ اور   چار سال تھی۔  چھوٹی بیٹی موٹی اور گنجی تھی۔ حلئے سے وہ لڑکا لگتی تھی۔ ہمارے پولش پڑوسی اسے بہت پیا کرتے تھے۔ اسے روک کر اس کی گال پر تھپکی دیتے  وقت  ' سانڈکی طرح مضبوط اور طاقتور۔ تم اپنے باپ کا نام روشن کرو گی ' کہتے تھے۔ بستروں کے نیچے سیبوں کے چھلکے، ادھ کھائی مچھلیاں اورسینڈ وچ نکال کر اپنے بوٹ کے تسمے باندھتے ہوئے مجھے 'مالوا'یاد آئی جو میرے شہرکی تھی ۔ وہ میکس کے والد جو 'بڑے میکس' کے نام سے مشہور تھا  کی گرل فرینڈ تھی۔ ان کے ساتھ گزارے گئے دن تواتر سے میرے  ذہن میں آنے لگے۔میکس، بڑا میکس، مالوا اور میں  سات سال قبل  ملتے جلتے رہتےتھے۔میکس اور اس کے باپ سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب  وہ مینی ٹوبا سے البرٹا آئے تھے۔  بڑے میکس نے گھر کی گھنٹی بجا کرپوچھا تھا کہ کیا 'خاتون خانہ گھر پر ہے' ۔ اس کے  گلے میں قالین اور پردوں کی دھلائی اور صفائی کرنے والی ٹیوب تھی۔  میری ماں میکا نے پوچھا کیا بات ہے تو اس نے کہا کہ مینی ٹوبا میں کام نہیں تھا تو وہ یہاں یہاں چلا آیا۔ اس نے اپنا کارڈ دیا جس پر میکس کلیننگ کمپنی لکھا تھا۔کلینگ کمپنی کے ساتھ مجھے مالوابھی یاد آگئی جواس دوران اکثر ملا کرتی تھی جس سے ملے ایک عرصہ بیت چکاتھا۔

  عجیب بات تھی کہ میں جب بھی کسی کے بارے میں سوچتی  تھی تو اسی وقت یا تو اس کا فون آجاتا یا رابطہ کر لیتا تھا ۔ کیا میں پیام بر تھی یا مجھے بشارت ہو جاتی تھی کے بارے میں بے خبر تھی۔یہ حقیقت تھی کہ سینکڑوں بار ایسا ہوا تھا کہ جس کے بارے میں سوچا تھا  اس نے اسی وقت ہی مجھ سے رابطہ کیا تھا۔  میکس کے فون کے ساتھ مالوا کا فون بھی آگیا تو میرے لئے یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔

وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔اس کی ہتھیلیاں  ہمیشہ پسینے سے بھری رہتی تھیں ۔  کبھی کبھی تو یہ اس کی کمر تک بھی پہنچ جاتا تھا۔   اس  کی          آستینوں میں عموماٹشو پیپر اٹکے رہتےتھے۔ اس کے چہرے کا میک اپ پسینے سے خراب ہو رہا ہوتاتھااور وہ اس سے پسینہ صاف کیاکرتی تھی ۔جب اس کا فون آیا تو میں دونوں  بچوں کو روکنے گئی تھی ۔  کہ وہ فریج سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں کیونکہ وہ ان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے  اور خراب بھی ہو سکتا ہے۔  وہ کھیلنے کے لئے صحن میں  چلی                              گئیں ۔ گرمیوں میں میرا ارادہ تھا کہ میں ایک ہفتے کے لئے ڈانس کے بغیر کسی فیس کے اسباق لوں۔ اس کے لئے میں کوئی سودا ڈھونڈرہی تھی۔

 میکس نے پوچھا کہ کیا  مادامامِ امورِ خانہ گھر پر ہے۔

 میں نے اس کی آواز پہنچان کر کہا۔ بہت اعلیٰ۔میں نے سات سال بعد اس کی آواز سنی تھی۔وینکوور سے آنے کے سات سال بعد میں نے یہ آواز سنی تھی۔

  میں  یاد ہوں ناں!        میکس نے پوچھا۔     بات لمبی ہونے والی تھی اس لئے        میںآلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گئی  اور اس سے باتیں کرنے لگی۔

میں بچوں کی آواز سن رہا ہوں۔ یہ کون ہیں ؟

میرے۔ میں نے جواب دیا۔

تمہارا ماننا تھا کہ عمر بھر شادی نہیں کرو گی۔ میکس نے کہا۔ اس بات پر حیرانی ہوئی۔

اس بات سے اس کا کیا مطلب تھا میں نے نہ پوچھا اور چپ رہی۔

میں تو یہ سمجھاتھاکہ تمہیں بچے پسند نہیں ۔ان سے نفرت کرتی ہو۔

میں اس کو ذہن نشین کرانا چاہ رہی تھی  کہ میں اب شادی شدہ ہوں۔ میری زندگی سے دور رہے۔  اس کی بجائے میرے منہ سے یہ نکلا کہ جب کوئی پندرہ سال کا ہوتا ہے تو اسے اونچ نیچ کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس وقت تو اتنی فہم نہیں ہوتی کہ بچوں کی اہمیت کا علم ہو۔اس عمر میں ان سےنفرت ہی  پائی جاتی ہے۔

مجھے  تونہیں۔ میکس نے کہا۔میں تو اپنے چھوٹے بھائی جس کا نام 'فزی'ہے، کا دیوانہ ہوں۔ تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہو۔  اس دوران میں نے تصور کر لیا کہ فون کے دوسری طرف  وہ کسی معمولی سے ہوٹل کی لابی میں آنکھیں بند  کئے کھڑا ہوگااور سوچ رہا ہوگا کہ میں ماں کے روپ میں کیسی لگتی ہوں گی۔ اس کی گندی بدبودار جرابیں اس کے چنٹے ہوئے بستر پر پڑی ہوں گی۔ اس کے ذہن میں یقیناً سات سال پہلے والی سینڈرا آرہی ہوگی۔پندرہ سالہ  نازک، پتلی کمر  اورقم قم  پیٹھ، باربی  گڑیا جس کے بازو  لچکدار  تھے اور ہلکے سے جھٹکے سے الگ ہو سکتے تھے ۔ ایک کلی تھی ۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ  اب وہ پھول بن چکی تھی۔تگڑی بھر پور جوان عورت تھی۔

میں اسے یہ تاثر دینا چاہ رہی تھی کہ میں خوشگوار زندگی بسر کر رہی ہوں۔نئی زندگی سے پوری طرح خوش ہوں،بالکل بچوں کی طرح جو جوان ہونے پر ہم عمر گروہ  سے گھل مل جاتے ہیں۔معاملات کو انہی کی طرح دیکھنے اور سمجھنے لگتے ہیں۔ پسند و نا پسند کا معیار ہمجولیوں کی طرح ہونے لگتا ہے ان کی اقدار یکساں ہو جاتی ہیں۔اگر کوئی ہم جولیوں کی اقدار کے   خلاف جاتا ہے  تو پورا گروہ  ان کا معاشرتی مقاطعہ کر دیتا ہے۔اب میں شادی شدہ تھی۔ میرے بھی بچے تھے ۔میں گھریلوخاتون کے دائرے میں شامل ہوگئی تھی۔ان کا معیار اپنا لیا تھا۔ مادام خانہ بن گئی تھی۔  خاوند کی ذمہ داری اور والدہ کا کردار خوش اسلوبی سے نبھانا شروع کردیاتھا۔ معاشرے کی طرف سے تفویض امور سرانجام دے رہی تھی۔

اس وقت میں اندر بیٹھ کر  بچو ں کی نگرانی کر رہی   ہوں  تاکہ وہ محفوظ ماحول میں کھیلیں۔ کوئی خطرناک عمل کریں  تو انہیں روکوں ۔  میرے سامنے والےپڑوسی  بوبی کا    کہنا ہے کہ بچوں کے ڈسپلن میں سختی برتنی چاہیئے۔  اگر اس کا کوئی بچہ غلط حرکت کرے گا  تو وہ اس کی  کی ہڈی پسلی ایک کردے گا ۔ ان کی گردن مروڑ دے گا۔  میں میکس سے یہ باتیں اسلئے کر رہی  تھی کہ اسے احساس دلاؤں کہ ازدواجی حیثیت بدلنے کے ساتھ سوچ اور کردار میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ سوچ بھی بدل جاتی ہے ۔ اب مجھے ایک ہی وقت میں بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں۔ بچوں کی صحت ، ر ویکسی نیشن، کھانے پینے، تحفظ،، اپنے مرد کاخیال ، گھر کی صفائی ستھرائی  اورمتفرقہ امور کا خیال وغیرہ رکھنا پڑتا ہے۔      اس وقت بھی  میں بیک وقت  فرش کی صفائی ، میکس سے باتیں اور بچوں کی نگرانی  کر رہی ہوں جو باہر بندروں کی طرح ایک درخت سے دوسرے درخت کی شاخیں پکڑ کر چڑھ رہے ہیں۔میرے کان ان آوازوں پر بھی ہیں  جو  چوٹ سے آئیں گی یا وہ کافی عرصہ خاموش رہیں تو  کسی خطرے کی  علامت ہوگی کیونکہ یہ سکوت اسوقت ہوتا  ہے جب وہ پڑوسیوں کو تنگ کرنے کا کوئی پروگرام بناتیں۔ اس وقت میں ان کے پاس جا کر  یا کمرے سے  دوسرے والدین کی طرح چیختی ۔ انہیں تنبیہ کرتی کہ ان کے ارد گرد لوگ آباد ہیں۔ ان کی حرکتوں سے وہ پریشان ہو جائیں گے۔  پڑوسی بوبی   کا ایسی صورت میں یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ پورے نرخرے سے چلاتا ہےجو بچوں کے شور سے دوگنی ہوتا ہے۔ وہ ان کا پیچھا جوتا اٹھا کر یا جھاڑو سے کرتا ہے۔ وہ بچے گھر سے بھاگ کر کوڑے کے پاس بیٹھ کر ایک دوسرے پر دانت پیس رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ڈبے اٹھا کر ایک دوسرے پر پھینک رہے ہوتے ہیں۔ اگر میں بوبی کو روکتی ہوں کہ ایسا نہ کرو بچے زخمی ہو جائیں گے تو وہ جواب دیتا ہے ہونے دو لیکن میرا پرورش کرنے کا طریقہ اس کے بر عکس ہے۔

میں   اپنے بچوں   کو اکثر  لائبریری لے جاتی ہوں۔ان  کے ساتھ پڑھتی ہوں۔ چیزوں کی وضاحت کرتی ہوں۔ ان کے ساتھ  سیر کو بھی جاتی ہوں۔ اگر وہ اپنے پاؤں کیچڑ، دلدل ، بارش میں کھڑے ہوئے پانی یا برف میں ڈالیں تو انہیں سختی سے روکتی ہوں۔ میں ان کی بڑی احتیاط سے  تربیت کر رہی ہوں۔ ان کو اچھا انسان بنانا چاہتی ہوں۔ اگر ان میں کوئی برا نکل آیا تو میں کیا کروں گی۔ میں نے ان کو کبھی نہیں مارا، نہ جھاڑو لے کر ان کے پیچھے بھاگی ہوں۔ لیکن اپنے خاوند لیری کے مطابق میں اچھی ماں نہیں ہوں کیونکہ میں  ساس کی طرح بچوں کے ساتھ سختی نہیں کرتی۔ ان کو جوتے نہیں لگاتی۔  اس نے بچوں کی تربیت  کے لئے بچوں پر سختی اور تشدد کا مشورہ دیا تھا۔ بچوں کے  کھلونے یا تحائف خریدنے ہوں تو  رنگوں  پر اعتراض کر تی ہے۔مجھے ڈراتی ہے کہ ان تمام باتوں سے میکس    کیا سوچے گا۔

میں نے شادی کیوں کی  یا بچے کیوں پیدا کئے   جیسے موضوعات تو اب میرے ذہن میں بھی کبھی نہیں آتے۔  پہلے حمل میں تمام وقت آرام کرتی ، سوتی اور سالمن مچھلی کھاتی رہی۔  جبکہ دوسرے بچے کی پیدائش میں  میں نے اس کا سر اپنی ٹانگوں میں محسوس کیا جو باہر نکلنے کے لئے زور لگا رہا تھا۔ میں نے اس کے خصیے دیکھے۔ایک بار غلطی سےہیری بیٹے کی پیدائش  کے بعد اس پر بیٹھ گیا تھا تو میری جان ہی نکل گئی۔پتہ نہیں بچے پر اتنا پیار کیسے امڈ پڑا تھا۔میرا خیال ہے کہ والدین بننے کے بعد ایسا جذبہ خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اس حادثے  کے بعد سے ہیری نے ذمہ داری دکھانا شروع کردی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میں حتی الوسع ماں کا رول بہترین  طریقے سے نبھا رہی ہوں لیکن  بطور بیوی کےکردار  سے غیر مطمئن ہوں۔ میں جذبات میں بے تکان بولتی چلی جا رہی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ میں اس کے ساتھ تزکیہ نفس کر رہی تھی۔اسے بولنے کا موقعہ ہی نہیں دے رہی تھی۔

یہ سب کب ہوا؟  سنتے سنتے تنگ آ کر وہ بول پڑا۔ اس کی آوازبوریت میں ڈوبی ہوئی تھی۔

یہ سب  ساڑھے چھ سال پہلے ہوا۔  مجھے  دو بچے اوپر نیچے ہوئے۔ لیری  چونکہ دن کو کام پر ہوتا ہےاس لئے اسے ان بوؤں کا اندازہ نہیں جو میں جھیلتی ہوں۔ پچھلی رات میں کھڑکی میں کھڑی لیری کے آنے کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک مجھے    پرانی باتیں یاد آنے لگیں۔  میکس اور اس کا باپ   جو کہ 'بڑے میکس' کے نام سے پکارا جاتا تھا ، وینکوور  جانے کے لئے اپنا سامان باندھ رہے تھے۔ اس شام میں بھی مالوا  کے گھر تھی۔اس نے اپنے بچپن کی البم دکھائی تھی۔ اس وقت وہ   دبلی پتلی ہوا کرتی تھی۔ اس نے سکول کی لڑکیوں  کی چیئر لیڈر والا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ وہ ہر تصویر پر کوئی قصہ بیان کررہی تھی۔ایک تصویر پر وہ کہہ رہی تھی کہ وہ میری زندگی کے بہترین سال تھے۔ یہاں اس تصویر میں ہم چند دوست رات  ساحل پر الاؤ کے گرد بیٹھے مختلف کھیلوں سےلطف اندوز ہو رہے تھے۔  کھیل بلا رکاوٹ   ساری رات جاری رہے۔ کیا

ا س وقت مچھر بھگاؤ کریمیں ہوا کرتی تھیں؟میں نے پوچھا۔ مالوا نے سنی اب سنی کر دی۔ایسا کر کےشائدوہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ اسے میری کوئی پرواہ نہیں۔وہ دوسروں کی بے عزتی کرکے خوشی محسوس کرتی تھی۔کچھ دیر بعد  اسے کچھ خیال آیا   اور کہا  ۔اگرکیمپ میں اس وقت مچھرہوتے تو مجھے یاد ہوتا۔ اگر وہ ہوتےتوہمیں ضرور کاٹتے۔ہم رات بھروہاں رہےاورکسی ایک نے بھی مچھر کے کاٹنے کی شکائت نہیں کی۔

یہ عجیب بات ہے۔میں نے کہا۔تم پرانی پرانی تصاویردکھارہی  ہوجو مخصوص مواقع پر لی گئی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی تقریب بھی تمہیں یادہے۔سب کےنام تک ازبر ہیں۔تاریخیں اوراوقات تک تمہاری انگلیوں پر ہیں۔تمہاری یا داشت بہت تیز ہے۔کیا یہ یاد نہیں  کہ مچھر تھے یا نہیں۔میں تواتنی بھلکڑہوں کہ مجھے تو مہینہ تک یادنہیں یا کل کہاں گئی تھی بھول گئی ہوں۔ میں  بھولی بسری باتیں فون پر کر رہی تھی۔

لیکن مجھے  سب کچھ یاد ہے میکس نے کہا۔ میرےحافظےمیں کوئی خرابی نہیں۔تم نے بہت کم وقت میں اپنا ذہن بدل لیا۔تم اس بات کو سمجھ سکتی ہو کہ میرابات کرنے کا کیامقصد ہے؟

نہیں۔مجھےیاد نہیں۔

یہ اس سےمتعلق ہےجب کسی نے کہاتھاکہ وہ عمرکنواری رہے گی۔

میں نے ایسا کہہ کرمیکس کو خودبھڑ کے چھتے  پر پتھر پھینک دیا تھا۔اسے موقع فراہم کر دیاتھاکہ وہ ماضی کے بارے میں بات کرے۔وہ مجھےیاد دلا رہاتھاجب ہم دونوں وینکوور میں نرم گرم نم آلودریت میں ڈوبے پڑے تھے۔ ہم گہرے نشے میں تھے۔   میں آنکھیں بندکئےہوئے لیٹی تھی۔مجھے ایسا لگا کہ میرے ننگے پیٹ پرمیکس انگلی سے سانپ کی تصویربنارہاتھااورپوچھ رہاتھاکہ کس  انگلی سے وہ تصویر بنارہاتھا۔پھر اچانک وہ میرے اوپر آگیا۔ایک چھوٹی سی بام مچھلی میری رانوں میں گھسنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کامیاب نہ ہوسکی اور وہ فوراًپانی میں چلی گئی۔ اس کی وجہ شائد یہ تھی کہ  ایک تو ہم نوبالغ تھے ،ہمیں کچھ پتہ نہ تھا اور دوسرا یہ کہ اس نے بہت چڑھائی ہوئی تھی۔ میں  افسرہ ہوگئی، ساحل اورجھیل میں پتھرپھینکناشروع کردیئے۔میکس نے افسوس ہے،افسوس ہے  اس وقت کہا جب میں اپنے کپڑے پہن رہی تھی۔اس کےبعدبچی ہوئی شراب جھیل میں پھینک دی۔یہ اچھا ہوا کہ تم ناکام ہوگئے۔ میں نے فیلہ کیا ہے کہ میں عمر بھر شادی نہیں کروں گی۔ مجھے بچے پسند نہیں۔

میں جانے لگی تومیکس نے کہا ٹھہرو۔میری ماں سے مل کر جاؤ۔ڈورس میری ماں کانام ہے۔ یہ تمام باتیں میرے ذہن میں گھوم گئیں۔

تم آج کل کہاں پائے جاتے ہو؟میں نے میکس سے پوچھا۔میرے ذہن میں آیا کہ  اگروہ نکڑوالے ٹیلیفون بوتھ پربھی تھا تو بھی  دن کے وقت اور محلے کے چہل پہل کی وجہ سے اس سےمحفوظ تھی۔ا    گروہ اس وقت یہ   کہتاکہ وہ مجھ سےملناچاہتاتھاتومیرےپاس معقول بہانہ تھاکہ میں اپنے بچوں کوچھوڑکرنہیں آسکتی۔اس کی آوازسے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ شائدکسی تنگ جگہ سے فون کررہاتھا۔ہوسکتاتھا کہ وہ کار،ٹرالے،پارک یابوتھ میں تھا۔

میں اس وقت تمہاری پڑوسن مالوا کے پاس ہوں۔ میکس نے  جواب دیا۔میں حیران ہوگئی کہ سات سال بعد وہ منی ٹوبا کیوں آیا تھا۔۔۔اس کامطلب یہ تھا کہ وہ دونوں میرے ہی بارے میں باتیں کر رہے تھے جو میرے ذہن میں بیک وقت دونوں کا خیال آیا تھا۔

مالوا کیسی لگ رہی ہے؟ میں نے میکس سے پوچھا۔یہ سوال کرکے میں خودکوگنہگارمحسوس کرنے لگی۔ مجھے لگاکہ میں نے کسی سے دھوکا کیا ہے۔

مکمل طورپرسرمئی۔اس نے کہا۔یایہ کہہ سکتی ہوکہ اس نے بال بلیچ کرنابندکردئیے ہیں۔میں نے اپنے اباسے وعدہ کیاتھاکہ میں ا س کے پاس رکوں گااوراسے  ہیلوکہوں گا۔ کیا یہ بات   احمقانہ نہیں کہ میں از خود اپنے باپ کی گرل فرینڈ کے پاس بڑے میکس کے کہنے پر آیا ہوں۔؟

بیٹے کواس کی سابقہ محبوبہ کے پاس بھیجناکیاپاگل پن نہیں تھا۔اس سے پو چھ لیا ۔کیاتمہارے والدین ابھی بھی اکٹھے ہیں؟

پہلے پہل تو ان کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے۔دراصل    بڑے میکس نے اسے چھوڑدیاتھالیکن بعد میں صلح ہوگئی ۔ میں اپنی ماں سے ریجینامیں ملااوراسے واپس وینکوور  لے آیا۔ تم یقین نہیں کروگی کہ اب وہ اس حدتک مانوس ہوگئے ہیں کہ وہ باقاعدگی  سے اکٹھے چرچ جاتے ہیں۔ بابانےشراب  ترک کردی ہے لیکن ماں اپنے غصے پر قابونہیں پاسکی۔اسی طرح غراتی اوردانت پیستی ہے۔ تمہارا کیا حال ہے۔کیاتم خوش ہو؟ میکس نے پوچھا۔وہ بڑی شائستگی سے گفتگوکررہاتھا۔

ٹھیک ہوں۔ بالکل ٹھیک ہوں۔ میں نے جواب دیا۔

تم جانتی  کہ اماں کو ابا کے مالوا کے ساتھ ناجائز تعلقات کا علم تھا بلکہ ہم دونوں نے مل کہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے یہ بات میری ماں تک پہنچائی تھی۔اس وقت  تو اس نے آئیں بائیں شائیں کی تھی لیکن  پچھلے موسم بہاروہ  اچانک     وینکوور آگیا۔ اماں اور میں کپڑے دھو رہے تھے۔ اماں وین کی سکرین کی مرمت کرتی رہتی تھی  جس پر میں صفائی کرنے کے لئے جایا کرتا تھا۔ جو بچے اکثر پھاڑ دیا کرتے تھے۔  اس کے اس طرح     آنے سے ہم حیران رہ گئے تھے۔بابا کو یہ احساس ہوگیاتھاکہ اماں کسی بھی عورت کوبرداشت نہیں کرے گی۔ اس لئےبابا نےرجوع کر لیا تھا۔ کچھ ہفتوں بعد ماں سے کہاکہ تم میری جان ہو۔میں تم  سے محبت  کرتاہوں۔ تمہاری مدد کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اس نے اس سے یہ بات کہی  جب وہ عقبی پورچ  میں ٹرک کا دروازہ کھول کر کھڑاتھا۔میں اب تمہارے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ میں میکس سے کہہ کر مالوا کے ہاں رکھوایا گیا اپنا سامن کسی روز میکس کے ذریعے منگوا لوں گا۔

میکس کےوالد کی قدوقامت ایک نارمل شخص جیسی تھی۔اسکا قد اپنے بیٹے سے چھوٹا اورجسم ایک ہی جتنا چوڑاتھا۔ وہ ربر کے گیند کی طرح نرم ونازک تھا۔اس کی آنکھیں چھوٹی اورچہرہ سرخ تھا۔ اس کی جسامت میں عظمت والی کوئی بات نہ تھی پھر بھی اسے 'بڑامیکس 'کیوں کہا جاتا تھا۔ میں اس کی وجہ اس کے بیٹےمیکس سے جاننا چاہتی تھی لیکن سوال نہ کر پائی۔

جانتاہوں۔ہاں جانتا ہوں۔ان سات سالوں میں میں تمہارے بارے سوچتارہاہوں۔میرا خیال تھا کہ شائد تم بھی میرے بارے  سوچتی رہی ہوگی۔میکس  لڑکھڑاتی آوازمیں کہہ رہاتھا۔

نہیں۔ بالکل نہیں۔اس  تمام عرصےمیں نے تمہارے بارے کبھی نہیں سوچا۔ اس وقت میرے پاؤں ٹھنڈے ہورہے ہیں۔میں نے کہا۔

مجھے خوشی ہےکہ تم نے مجھ پر وقت ضائع نہیں کیا۔۔اس  کے بعد وہ شوخی سے باتیں کرنے لگا۔تاہم تمہیں اب مجھے موقعہ دیناچاہیئے۔اب اس عرصے میں بہت تجربہ کار ہو گیاہوں۔میکس نے کہا۔

شکریہ۔لیکن میں ایسا نہیں کروں گی۔میں نے کہا اور قہقہہ لگایا۔ہم مزیدکچھ دیر باتیں کرتے رہے۔میں نے کہا کہ میں نے بچوں کے رونے کی آوازیںسنی ہیں اس لئے مجھے جانا ہوگا۔

میں نے فون بندکردیا۔میں  بچوں کے پاس گئی اور ان کے پلاسٹک کے           پھٹے ہوئےتالاب کی سلائی کرنے لگی۔اس کے بعدمیں نے فریزر سے چانپیں نکالیں اور انہیں ٹھنڈے پانی میں رکھ دیاتاکہ برف پگھل جائے۔ایک گھنٹہ بعد تک میں نے کھانا پکانا شروع کرناتھااس لئے گھر کے دوسرے کام کرنے لگی ۔ایک دفعہ مالوا نے کہاتھا کہ مادام خانہ   کو ذراسابھی وقت ملے توانہیں بیکارنہیں بیٹھناچاہیئے۔ کچھ نہ کچھ کرناچاہیئے۔میں اپنے اڑوس پڑوس میں دیکھتی ہوں تو  گھریلو  خواتین  بچوں پر  چلاتی ہیں اور میری طرح          کےدوسرےلوگ کھڑکیوں میں انہیں دیکھتی ہیں، پردوں کی جھالر کے پیچھے سائے، ہال کی روشنی میں سالیوٹ مارتی ہیں۔ ایک تختے پراپنی کہنیاں ٹکائے،تمام شہر میں، وینکور میں،ڈاکئے کودیکھتی ہیں تاکہ ہمیں اچھی اور بری خبریں مل سکیں اور دن اس طرح گزرے۔اپنے بچوں کا سکول سے واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ان کورات کا کھاناکھلاکران کو سلاتی ہیں۔اپنے خاوندوں کادیرسے آنے کادیرسے آنے کا انتظار کرتی ہیںتاکہ ان سے جھگڑاکرسکیں۔ہماری اذیتیں اور پھراکٹھے کمبل کے اندرگھس جاتی ہیں۔ایک دوسرے کے پاؤں ٹکراتے ہیں ۔ڈاکٹر اور بچوں کےبارے میں سرگوشی کرتی ہیں اور اگلے دن کا انتظار کرتی ہیں۔میں  مادام خانہ سے استثنیٰ  نہیں ہوں۔ تیز مہک والے روغن  کواوراس کواتارنے والی تیز بووالی رنگ کاٹ سے داغ صاف کرتی ہوں۔ میری اس مادام خانہ اپنی ماں 'میکا' کا بھی سوچتی ہوں تو  کثرت اولاد کے باعث سب سے زیادہ مصروف ریتی ہے۔میں چاہتی ہوں کہ اسے فون کروں لیکن اس سے کیا بات کروں ۔ہم تمام مادام خانہ ایک ہی سل میں پس رہی ہیں اور پستی رہیں گی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ہے  اور چلتا رہے گا۔ میں نے اپنا سر جھٹکا اورسوچا کہ جب بچے  کل سکول چلے جائیں گے تو میں اس وقت کیا کروں گی۔ مادام خانہ کو ہمیشہ اس قسم کی فکریں ہی لاحق ہوتی ہیں۔

اتنے میں مالوا کا فون آگیا۔ اس کے ساتھ میکس بھی موجود تھا۔میکس سےمیری  پہلی ملاقات سات سال قبل اس وقت ہوئی جب اس کا باپ جو کہ' بڑے میکس' کے نام سے پکارا جاتا تھا نےہمارے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجائی اورپوچھا

'کیامادام گھرپر ہے؟'

میری ماں(میکا) نے اپنے منہ پرہاتھ رکھاہواتھا۔ ان دنوںمیرے ایک بھائی پر بگل بجانے کی تربیت حاصل کرنےکی دھن سوارتھی اور وہ اس کی فیس کے لئے پیسے بچارہی تھی۔ وہ فخر سے کہتی تھی کہ وہ اپنے بیٹوں پرسرمایہ کاری کررہی تھی کیونکہ لڑکیوں نے تو بچے جننے پرلگ جانا ہوتا ہے۔اس کے دانت کیڑوں سے گل سڑ گئے تھے ۔وہ دانتوں کے درد سے رات بھر کراہتی رہتی تھی۔وہ کہیں آجانہیں سکتی تھی۔   اسلئے وہ انہیں نکلوانے پڑے۔اس کا منہ سوج گیا تھا۔وہ ہمیشہ اپناہاتھ اپنے منہ پررکھنے لگ گئی تھی تاکہ ندامت سے بچاجاسکے۔ پورے دانت نکلوا کر بتیسی لگوا دی گئی تھی ۔اوپر والے دانتوں کی بتیسی الگ اورنچلے دانتوں کی الگ تھی ۔ رات کو انہیں اتار کر  پانی  میں رکھتی تھی اور صبح لگا لیتی تھی۔شومئی قسمت اس کی اوپر والی بتیسی گر کر ٹوٹ گئی اور نئی بتیسی لگوانے کے لئے وہ پیسے جمع کر ہی تھی۔اس کے منہ کے نچلےجبڑے پر تو بتیسی تھی لیکن اوپر والا جبڑا خالی تھا جس سے اس حصے میں سوراخ ہو گیا تھا۔ اسے چھپانے کے لئے وہ اپنا ہاتھ منہ پر رکھا کرتی تھی۔۔منہ کاایک حصہ خالی تھا اور دوسرے حصے سے ایک گلابی رنگ نظرآتاتھا۔میراوالدبنگوکھیلنے کا شوقین تھا۔ ایک روز اس نےایک لوہے کابورڈ جیتا۔ایک ہفتہ پہلے  اس کی جیک پاٹ (لاٹری)میں ایک گھڑی نکلی تھی۔ان کوبیچ کراس نے ماں کے دانت ٹھیک کروانے تھے۔

میں ہی اس گھرکی مالکن  ہوں۔ماں نےمنہ پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔اتفاق سے میں اس وقت موجود تھی۔

مادام۔میں معافی چاہتا ہوں وہ جھجکتے ہوئے بولا۔ ۔۔تم معمر تو بالکل نہیں لگتی۔تم اور تمہاری بیٹی بہنیں لگتی ہو۔اس کی یہ خوشامدانہ گفتگوسن کر مجھے الجھن ہونے لگی۔ ماں نے اس کی بات پرقہقہہ لگایا۔منہ کاایک حصہ خالی ہونے کی وجہ سے اس میں آواز ایسے نکلی جیسے کہ کوئی کتیا بھونکی ہو۔ اور کہا  کہ وہ اس کی بات پر یقین نہیں کرتی کیونکہ وہ در حقیقت بوڑھی ہے۔

کیا میں تمہارا تھوڑا ساوقت لے سکتا ہوں؟اس نے جلدی سے کہا۔ یہ صوفہ کتنا گندہ ہے۔مٹیوں سے بھرا ہوا ہے۔ایک رومال ویکیوم کلینر کے منہ پررکھ کراسے صوفے پر چلادیااوراس میں مٹی کا ڈھیر جمع ہوگیا حالانکہ ماں نےکچھ دیر پہلے ہی اسےصاف کیا تھا۔

ماںشرمسارہوکربولی۔حیران ہوں کہ مٹی کیسے رہ گئی۔

یہ عام بات ہے مادام۔یہ اتناگندہ نہیں جتنامیں نے ساتھ والے گھروں میں دیکھا ہے۔مجھے کہنا چاہیئے کہ تمہاری پڑوسن ۔۔۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اور پلکیں اوپرچڑھالیں۔

اوہ!ماں نے کہا۔

تم یقین نہیں کروگی اس نے اپناکارڈدیتے ہوئے کہاجس پر لکھا تھا'میکس اینڈکمپنی' قالینوں،صوفوں کی صفائی ،ان پرکپڑاچڑھانے اور صوفہ سازی کی ماہر کمپنی'۔

اوہ۔میں نہیں جانتی۔اس نے صوفے پر مٹی کا ڈھیر دیکھتے ہوئے کہا۔میں صوفوں کو صابن اور گیلے کپڑے سے اچھی طرح صاف کرتی ہوں۔نجانے یہ مٹی کیسے رہ گئی۔

تم سچ بول رہی ہو۔ یقیناًایساہی کیاہوگا۔ایساکرنے سے مٹی مزید صوفے میں گھس جاتی ہے۔ ہمارے پاس خصوصی آلات ہیں جو اندر سے مٹی نچوڑلیتے ہیں۔بڑے میکس نے کہا۔

ماں کے چہرے پرندامت چھا گئی۔ہاتھوں سے اپنے کپڑے صاف کئےاور پیانو کی میزپربیٹھ گئی۔ ۔۔کتنا خرچہ آئے گا؟۔۔۔رہنے دو۔میرا خیال ہے مجھے کوئی پریشانی نہیں ۔میں خود ہی صاف کر لوں گی۔یہ صوفہ۔۔۔اس نے اتناہی کہاتھاکہ اس کیے نچلے جبڑے کی بتیسی   پھسل کر گر پڑی۔ بڑے میکس نے ویکیوم کلینر کو جوڑا، اس کی ٹیوب کو اپنے گلے  سے اتارااورمشین اٹھالی۔ وہ تھکا ہوالگ رہا تھا۔'کوئی بات نہیں۔اس نے کہا۔فلرنہ کرو۔کوئی مجبوری  نہیں'۔یہ کہہ کروہ باورچی خانے سے باہر نکلنے لگا۔ اس کاربکا(ہوز)اس کے پیچھے رگڑکھاتااچھلتااس کے پیچھےجھٹکے کھاکرکھسٹنے لگا۔ جب وہ پورچ کے پاس سے گزرکروین تک پہنچ کر رک گیا۔رومال اپنی گردن پر لپیٹ لیااور کہا کہ کیااسے ایک گلاس پانی مل سکتاہے۔کافی لمبا تھکادینے والادن تھا۔

ماں جلدی سے پانی لے آئی ۔ وہ ڈرائیو وے پرگیا اور سیٹی بجائی تو اس کا بیٹا میکس آگیا۔ اس کی پتلون اسکی ٹانگوں سے لمبی تھی۔اس کے جوتےاس کے پاؤں سے لمبے،سوتی کپڑے کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ آستینیں کھلی ہوئی تھیں۔ کالر کھڑے تھے۔اس کے لمبوترے چہرے پر بوریت طاری تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ رات بھر اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھااوراس کی نیندپوری نہیں ہوتی تھی۔اس کے ہونٹ موٹے تھےجسے لڑکیاں پسند کرتی تھیں ۔وہ نک چڑھالگتاتھا۔اس کے بال گھنگریالے مگر گندے تھے۔ اس کے چہرے پرتل تھا۔اس کی سرخی مائل بھوری مونچھیں تھیں جو اس کے چہرے پر جچ رہی تھیں۔بڑے میکس نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے اس کا مجھ سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ میرے دائیں بازوسے ملو۔یہ میرا بیٹامیکس ہے۔ وینکوور میں کام نہیں مل رہاتھا توسوچایہاں کوشش کرلیں۔یہاں بچوں کی مزدوری پر اعتراض نہیں کیا جاتا۔

یقیناً نہیں۔ ماں نے ہاں میں ہاں ملائی۔میں ان کا کام کرتی ہوں اس لئے انہیں بھی میری مدد کرنی چاہیئے۔

یہ لڑکا اپنی ماں  کا اکلوتا بیٹا ہے۔بڑے میکس نے افسردہ ہو کر  خالی گلاس واپس کرتے ہوئے کہا۔ میکس کی نظریں مجھ سے ملیں اور اس نے چھت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کی گال میں اس کی زبان ہلتے ہوئے دیکھی۔

ہم دونوں کوشش کر رہے تھے کہ کم از کم اتنی رقم کما لیں کہ اپنے بل چکا سکیں۔ تم جانتی ہو کہ کتناکٹھن وقت ہے۔میری بیوی بھی اب انتظار کرکرکے تھک چکی ہے۔

ہاں۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔میں یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں۔ماں نے میکس کی طرف دیکھا  اور اپنے ہونٹ چبانے لگی۔

میں اسی مزدوری میں ایک صوفے کے ساتھ ایک کرسی بھی صاف کر دوں گا۔یہ خصوصی پیشکش کر رہا ہوں۔ بڑے میکس نے کہا۔ یہ بات صرف تمہارے لئے ہے اسے کسی کو نہ بتانا۔

میکا اس  بات پر ہچکچائی۔وہ کرسی سے اٹھی۔الماری کھولی ۔پیٹھ ہماری طرف کر کے پرس میں پڑی رقم گنی۔پہلے اس نے وہ رقم پوری کی جس سے اس نے اپنے دانت ٹھیک کروانے تھے۔اس کے بعد باقی ماندہ پیسوں کو گنا اوربڑے میکس کو کہا کہ تمام کرسیاں بھی صاف کر دہ۔

یہ ہوئی ناں بات۔تم نے یہ فیصلہ کر کے بہت پیسے بچا لیئے۔ ۔ بڑے میکس نے   چابیاں کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے کہا۔ تم  پورے سہہ پہر فارغ ہو۔کوئی کام کرنا ہوتوکرلو۔

جب میکس اور بڑا میکس صفائی مکمل کر چکےتو۔بڑے میکس نے میکس کو وین کی چابی دی کہ وہ اسے ڈرائیو وے سے باہر نکالے۔مجھے کہا کہ کیا تم ہمارے ساتھ شامل ہونا پسند کروگی؟ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔اس نے اپنے بیٹے کو کہاکہ مجھے بھی بٹھا لے۔ موسم گرما لمباتھااوراس نے واپس سکول نہیں جاناتھا۔ میکس نے بتایا کہ بڑے میکس نے مجھے    کہاکہ اس کے ساتھ کام کرے۔کچھ نہ کچھ تو کرناتھاسوچاباپ کے ساتھ ہی مل جاؤں۔اس لئےمیں  نے ویکیوم کا  ربکا یعنی ہوز گلے میں ڈالا اوراس کا اپرنٹس بن گیا۔میں بھی اس ٹیم کاحصہ بن گئی اور منت ٹوبا میں ان کے ساتھ رہنے لگی۔

میکس میزپربیٹھاکتابیں دیکھ رہا تھااگرچہ ہم نے گرمیاں گھر کی کھڑکیاں کھول کرگزاری تھیں۔میرے نتھنوں میں میکس کے گندے موزوں اورسڑی ہوئی خوراک کی بو گھس جاتی تھی۔پیٹرونیج  ایوینیو پرٹریفک کان بہرہ کردیتی تھی۔ میکس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ وہ  سہہ پہر کو کیا کررہاہے؟

کیاتم پولیس مین ہو۔میں تمہیں اضافی رقم کمانے کا موقعہ دے رہاہوںاورتم الٹا سوال کر رہے ہو۔ کیا اس وقت تم فقرے ہو؟

میکس نے اپنی پنسل پرے پھینکی اور کہا کہ ہم دونوںہی فقرے ہیں۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ میرا خیال تھا کہ تم اس خاتون' مالوا'سے ملنےجارہے ہو۔

بڑے میکس نے اپنا گلا صاف کیا۔ اور میز کو اپنی نکوٹین بھری زنگ آلود انگلیوں سےبجانے لگا۔ تم اس گانے کے بارے میں کیا کہتی ہوجان من!اس نے مجھے آنکھ مارتے  اور کہنی سے ٹھوکر مارتے ہوئے کہا۔آؤ اس شخص کو مل کر تنگ کریں۔ اس نے اپنی ایک لٹ اپنے گنج پر ٹکا دی۔ اس نے گھڑی دیکھی،اٹھاپردے ایک طرف کئے اورگنگناناشروع کردیا۔۔۔وہ پہاڑوں پر آرہی ہے۔۔۔۔

سنجیدہ ہو جاؤابا۔ میکس نے کہا۔اماں ڈوریس نے کہا تھاکہ ہم اسے ہر ہفتہ سو ڈالر بھیجا کریں گے۔

اس بات پر بڑے میکس نے گنگنانا بند کر دیا۔   

جو پیسے ہم کماتے ہیں۔تم اپنا حصہ اڑا دیتے ہو۔ میں اپنےحصے کے علاوہ اور کچھ نہیں ڈالنے والا۔

بڑے میکس نے میکس کی گال پر چٹکی لی۔یا یسوع مسیح۔ جب سے ہم نے وینکوور چھوڑا ہےکوئی فلم نہیں دیکھی۔

جب مالوا نے دروازہ کھولاتو بڑے میکس نے خوشی سے نعرہ لگایا۔شیطان کو سوچا اور آ موجود ہوا۔ ۔۔تمہارے آنے سےچراغاں ہو گیا۔

اف خدایا!وہ میکس اور مجھے دیکھ کر افسردہ ہو گئی۔ وہ ایک دراز قد، گوری چٹی سیاہ بالوںوالی  فربہی کی طرف مائل خاتون تھی ۔اس نے پھولدارلباس زیب تن کیاہواتھا۔اس کے ہاتھ میں بیگ تھاجس پرمختلف رنگوں کی تتلیاں پھولوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔اس کی لمبی لمبی پلکیں تھیں۔کیو پڈکا شکارکرنے والے ابرو تھے۔ خوبصورت ہونٹ تھے اور گالیں لال رنگ سےسرخ کی ہوئی تھیں ۔اس کی ایک کلائی پر چمڑے کا چمونا   ( پٹہ )باندھا ہوا تھا۔  اس کی جرابوں میں ایک سوراخ تھا۔

تم نے میری زندگی بچا لی ۔بڑ  ےمیکس نے کہا۔

ہارڈوئر میں مزدوری سے اتنا نہیں ملتاکہ ڈھنگ کا لباس بھی خریداجا سکے۔مالوانے ذرااونچی آوازمیں کہا۔ بیٹھتے ہوئے اس نے  اپنی موٹی ٹانگیں ایک دوسرے پر رکھ دیں اور شوخی سے کہنیوں کواپنی سمت موڑا۔

مالواکی اداسےبڑا میکس  فریفتہ ہو گیا۔ جلدی سے فریج سے دو بیئر کی بوتلیں نکال لایا۔  میں نے مالوا کو کہا تھا کہ ڈیوٹی کے بعد یہاں آجائےاور یوجھ ہلکا کرکے اپنے گھرجائے۔بڑےمیکس نے شرارتی لہجے میں  ہمیں مخاطب ہو کرکہا۔

بوجھ؟ اوہ !صحیح کہا۔میکس اپنے باپ کی بات سمجھ گیا۔

بڑے میکس نےمیکس کی بات پر توجہ نہ دی۔ بیئر گلاسوں میں ڈال کر میز پر رکھ دی۔

تم دونوں باہر کیوں نہیں جاتے۔جاؤ اور کچھ مصروفیت ڈھونڈو۔بڑے میکس نے ہمیں کہا۔

 میں جانتی ہوں کہ تم بھی اگرمیری والی پوزیشن میں ہوتے تو یہی کرتے۔ مالوا نے بڑے میکس کی تائید کی۔

وہ کچھ زیادہ خرابی نہیں کریں گے۔ اس وقت وہ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ میز کے  نیچےاپنی کچھ نسوں کو ہاتھوں سے مسلیں گے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں کریں گے۔فکرمندہونے کی ضرورت نہیں۔میں نے میکس نے کہا۔

ہم نے   وین لی اورکام کی تلاش میں   ادھر ادھر گھومتے رہے تاکہ کوئی مناسب گھرمل جائےجہاں ہمیں  مزدوری مل جائے۔۔ہم  ایک   ایسا گھر تلاش کررہے تھے جو بظاہر خراب حالت میں ہو۔ ہم نے ایک ایسا گھرتلاش کرلیاجس  کی  کھڑکیوں پر گھنے درخت کی شاخیں تھیں جوروشنی کوروک رہی تھیں۔ان کے دالان میں گھاس پھوس  بڑھاہواتھا۔ہم نے گھنٹی بجائی۔مجھے ایسا لگا کہ کوئی ہمیں غورسے دیکھ رہاتھا۔تھوڑی دیربعد ہمیں چاپ سنائی دی۔دروازہ کھلا اور ہمارے سامنے ایک خاتون تھی جو گرجاگھر کے منتظم کی بیوی لگتی تھی۔ اس نے نیلے رنگ کا لباس پہناہواتھا۔اس کا چہرہ بیضوی تھا۔اس  کےچہرے  کی نسبت سےموزوں لگ رہاتھا۔ وہ ہال کے اندرکھڑی تھی۔اس کاچہرہ پرسکون تھا۔اس نے ہماری  گھنٹی  بجانے کو برانہیں منایاتھالیکن یہ ہوسکتاتھاوہ ہمارے جانے کے بعد شائدناگوارمحسوس ہو۔

ہم نے اسے بتایاکہ ہم کالج جانے کاارادہ رکھتے ہیں۔

ہاں۔ہاں۔اس نے سرہلایا۔میراخیال ہے کہ یہ عمدہ فیصلہ ہے۔ اس نے  ہماری بات مکمل نہ ہونے دی۔ میں بھی یونیورسٹی گئی تھی۔اخراجات برداشت کرنا مشکل تھا۔ میں تمام ترکوششوں کے باوجود بمشکل  پانچ میں تین سکور تھا یعنی ساٹھ فیصد نمبر ہی حاصل کر پائی جبکہ دوسروں نے چار سے اوپر نمبر لئے تھے۔۔ بہت خوب۔تم اس طرح کام کرکے تعلیم کے لئے کچھ پیسےجمع کرناچاہتے ہو۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔میں تمہارے جذبے کو سراہتی ہوں۔  میکس نے آہستہ سے مجھے کہا صفائی کا سامان لے آؤ۔خاتون گھر کے مختلف حصوں میں لےگئی           جو اخروٹ سے بنے ہوئے تھےاور فرنیچر دکھانے لگی جن کی سروس کرناتھی۔وہ  یہ کہتے ہوئے کہ چیزیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں  میں اس پر معذرت کرتی ہوں، کہتے ہوئے انہیں ہٹانے میں بھی مدد دینے لگی حالانکہ فرنیچر سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے چلتی ہوئی ایک کرسی کے پاس جھک گئی اور کہا کہ اس کی صفائی کی ضرورت ہے۔ وہ رائل نیوی رنگ کا دو سیٹوں کی کرسی تھی۔ میکس نے مزدوری  بتائی  تو اس نے کہاکہ معقول اجرت مانگی گئی ہے۔میں  نے دیکھاکہ وہ اسے ٹھوکرماررہاتھا۔ گرمی بہت ہے۔اس سے پہلے تم صفائی شروع کرومیں تمہارے لئے مشروب لاتی ہوں۔کیا تم لوگ برفیلی چائے پیناپسندکروگے۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

بہترین۔میں نے یہ مشروب پہلے کبھی نہیں پیا۔اس نے خاتون کے جانے کے بعد کہا۔ یقیناًیہ عمدہ ہوگا۔

خاتون تین گلاسوں میں مشروب ٹرے میں رکھ کرلے آئی۔میکس اسے آتا دیکھ کر خاموش ہوگیا۔ایک گھنٹے بعد اس نے پھر ہماری مشروب اور انجیروں سے تواضع کی۔ میکس نے ایک اور کپ لانے کی درخواست کی۔خاتون باتونی لگ رہی تھی اور باتیں کئے جارہی تھی۔گفتگو کرتے وقت اس کی گالوں میں گڑھےپڑتے تھےموہ میکس کو آتش دان کے پاس لے گئی اور اسے دیواروں پر فریموں میں جڑی تصاویردکھانے لگی اور ان کے بارے میں معلومات دینے لگی۔ میں ویکیوم کرنے لگی۔وہ  شور سے بچنے کے لئےڈائننگ روم چلے گئے۔میکس نے اپنے پرس سے اپنی ماں ڈوریس اور باپ بڑے میکس کی تصاویر نکالیں اور اسے دکھائیں۔میں نے مشین میں کیمیکل ڈالااورصفائی کرنے لگی۔میں نے اس دو سیٹوں والے صوفے پرجھاگ بنائی اور اس پر مشین پھیرنے لگی۔میرے ہاتھ  نیوی نیلے رنگ  سے چمک رہے تھے۔

اوہ! یا خدا۔یہ دیکھ کر میکس میرے پاس آیا ۔کیا تم نے اس سے پہلے کبھی صفائی نہیں کی؟میں نے کندھے جھٹکائے۔یہ ہمیشہ بڑے میکس کی ڈیوٹی ہواکرتی تھی کہ معلوم کرے کہ  صاف کرنے والے کپڑے کا رنگ پکاہے اور کیمیکل سے نہیں اترے گا۔

وہ غرایا۔ جھاگ فوراً صاف کرو۔ میں خاتون کو باتوں میں مصروف رکھوں گا ۔جب میں صفائی کر کے ہٹی تواس نے کہا کہ کپڑے کا رنگ تو ایک جیسا نہیں لگ رہا۔اس پرتو دھبے پڑ گئے ہیں۔

میکس نے اپنے باپ کا بہانہ اپنایا جووہ ایسی بے قاعدگی پر کیا کرتا تھاکہ  رنگوں میں یکسوئی نہ ہونے کی وجہ مخمل کا گیلا ہوناہے جو اس صوفے پر چڑھا ہوا ہے۔جب یہ خشک ہو جائے گا تو دھبے مٹ جائیں گے۔ یہ سن کر خاتون مطمئن ہو گئی۔  وہ جب ہمیں گھر سے باہر رخصت کرنے کے لئے آئی تو وہ آنکھیں جھپکا رہی تھی۔

تم بہت خوش قسمت ہوجو یونیورسٹی جا رہے ہو۔میکس نے اپنے کندھے اچکے اور ہنسا جب وہ اس کے پیچھے سیڑھیوں میں  آئی  اور کہا میں یقیناًایساکروں گامادام۔ میں اپنی عزت افزائی پر مشکور ہوں۔اس نے مجھے چپکے سے کہا جلدی کرو۔۔۔وہ بوڑھی مادام۔۔۔اسے قریب آتے دیکھ کر مجھ سے الگ ہوگیا۔

کئی گھنٹوں بعد ہم  اپنی رہائش گاہ جگہ پر واپس آگئے۔ سب کچھ تتربترتھا۔کمبل مڑے ہوئے تھے۔بیئر کی بوتلیں بکھری پڑی تھیں۔ پیزاکا خالی ڈبہ پڑا تھا۔بہت سےلیسدار خشک  ٹشو پیپر   بکھرے پڑے تھے۔پسینوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ا

میرا خیال ہے کہ انہوں نے شریانوں کو صرف مسلا ہی نہیں ہوگا بلکہ بہت کچھ کیا ہوگا۔میں نے کہا۔

چپ رہو۔ میکس نے کہا۔اس کی آنکھوں میں اداسی نظر آرہی تھی۔ اس نے دروازوں کو ٹھوکریں مرنا شروع کر دیں۔ اپنے والد کی نشانیوں کو مٹانے لگا۔گندے ٹشو پیپروں، خالی بیئر کی بوتلوں، پھینکی ہوئی خوراک بیڈروم سے باہر پھینکنے لگا۔ اندرونی حلیہ درست کرنے لگا۔ پھر وہ کونے والے ٹیلیفون بوٹھ پر گیا اور اپنی ماں کو وینکوور میں فون کیا۔اسے بتایا کہ مالوا ایک سورنی ہے۔اس نے اپنے کارڈپر تھپڑ مارتے ہوئے میرے سامنے پھینکا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتاہےمیری ماں کے ساتھ۔اس نے کئی اور کارڈ بھی ہاتھ مار کر پھینک دیئے۔ اس کی بات سن کر ڈوریس کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ اس نے درخواست کی کہ ہم اس کی مدد کریں مالوا  اور بڑے میکس کا تعلق ختم کروائیں۔میں نے اپنے ہاتھ سیدھے کئے۔میرے حساب سے بالغوں میں اس قسم کے مسائل آتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی افسردگی کی بات نہ تھی۔بالغ لوگوں کواپنی زندگیوں   لڑکھڑا نادلچسپ لگتاتھا۔یہ اس طرح کاتھاکہ ایک زخمی سونڈی کو ایک چھڑی سے گھسیٹا جائے اوراس کےپیچ و خم دیکھ کرمحظوظ ہوا جائے۔

تم خود اس بارے میں کیوں کچھ نہیں کرتےمیکس؟میں نے پوچھا۔بڑے میکس نے اڑان بھرلی ہے اورواپس آنے والا نہیں۔میں نے کہا۔

کس نے؟ میکس نے پوچھا۔

تمہارے ابا'بڑے میکس' نے۔میں نے جواب دیا۔

مالواڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد روز آنے لگ گئی۔ میکس اس بات پر بڑا پریشان ہو تاتھا۔جب بھی آتی میرے ساتھ اپنے پانچ بچوں کے بارے میں باتیں کرتی رہتی تھی۔اس کے ایک بیٹے کا نام 'کیول'تھا۔وہ کہا کرتی کہ اسے سمجھ  نہیں آتی کہ اس کا کیا کرے۔تم میرے گھر آکراسے سمجھا نہیں سکتی۔ اس کی بیٹی' می لی'  آفت کی پرکالہ ہے۔اس پیاری بچی کےبارے میںکوئی نہ  کوئی ناگوار بات کہہ دیتی۔دوسروں کی غیبت کرناس کی فطرت میں تھا۔اس کی باتیں سن کر میکس کڑھتا رہتا جبکہ اس کا باپ بڑامیکس مالواکی طرفداری کرتا۔مالواجب بھی آتی وہ بیئر کے منہ کھول دیتا۔مالوا اس وقت تک   پیتی رہتی اور بھونڈے مذاق کرتی رہتی  جب تک مدہوش ہوکر میز پر گر نہ جاتی۔اس کا  گاؤن اس کے ماتھے پرپڑارہتاجس پر کالی ڈوری لگی ہوئی تھی۔

ایک بار جب بڑا میکس واش روم گیا تھاتو میں نے مالواسے پوچھا کہ تم ڈیوٹی کے بعدسیدھاگھرکیوں نہیں جاتی جہاں تمہارے بچےتمہاری توجہ کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ سن کر اس نے تیوڑی چڑھائی۔منہ بسور کر رونے لگی۔آنسو اپنی ہتھیلی کی پشت سے صاف کئے۔ رونے سے اس کا میک اپ خراب ہو گیا تھااور اس کی گالوں پر  جودنیا کا نقشہ بن گیا تھا، صاف کرنے لگی۔

تم۔۔۔اس نے آنکھیں صاف کرتے اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئےسوجی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر کہا۔ تم میری پوزیشن بالکل نہیں سمجھ سکتی۔ مجھ پر کیا بیتی ہے تم کیا جانو؟

مالوا کے موزے میں سوراخ کی طرح اس کے دماغ میں بھی سوراخ تھا۔ اس کی عادات دیکھ کرمجھے محسوس ہوتا تھا کہ اپنے بچوں سے ناروا سلوک میں وہ کسی روز ضرور جیل یاترا کرے گی۔میں نے اسے کہا کہ اگروہ ماچس جلاکرکھیلے گی توجل جائے گی۔ اس نے چھت سے چھلانگ لگائی تو کشش ثقل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جومعاشرتی روایات سے انحراف کر ےاور قانون شکنی کر ے  اس  پر قانون حرکت میں آئے گا۔سوچو۔

تم نہیں جانتیں کہ طلاق کے بعد طلاق یافتہ خاتون کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔مالوا نے کہا۔

اگر تم گرمی برداشت نہیں کر سکتیں تو باورچی خانے نہ جاؤ۔ایسے کام نہ کرو جس کے عواقب خراب ہوں ۔ میں نے  اسے اپنی ماں کے دلائل دئیے۔ ہزاروں اختلافات کے باوجود میں اپنی ماں سے محبت کرتی تھی۔ مجھے اس بات پر فخر تھا کہ میری والدہ میکا نے کبھی اپنے بچوں کو ذاتی لذت کے لئے اپنی اولاد کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔ وہ ہم سے بھاگی نہیں تھی۔ہماری خوراک کاخیال رکھتی تھی،کپڑے دھوتی تھی۔  علاج کرواتی تھی۔ اس نے کوئی عاشق نہیں پالاتھا۔اس نے صاف ستھری زندگی گزاری تھی۔ یہ اور بات ہے کہ دیگر لازمی خانگی امور پر  توجہ کی بدولت  وہ ہم سے ہمیشہ لاپراہ رہی۔

ایک دفعہ ہم گھرمیں بیٹھے تھے۔مالوا اور بڑے میکس نے اپنے اپنے  بالائی ہونٹوں سے بیئر کی جھاگ زبان پھیر کر چاٹی۔ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا بڑے میکس نے مالوا سے کہا۔

او۔کے۔ مالوا نے کہا ۔ہمارے پاس کافی وقت ہے۔میں سوچ رہی تھی کہ ہم واپسی پرٹیکسی لے لیں گے اوراس پرانہیں چھوڑیں گے۔

ٹیکسی کے لئےرقم چاہیئے۔ میکس نے کہا۔ہم نے بڑے میکس کو مالوا کے گھرپر اتارا۔صحن کے ہرکونے میں بچےبھاگتے نظر آئے۔مالوا کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکے اوراس کا لباس   پکڑنے لگے۔

میرے نزدیک  بڑے میکس کی  یہ حرکت قطعاً بیوقوفی تھی۔یہ لمحاتی حرکات تھیں۔ جی بھر گیاتو لوٹ آئے گا۔اس نے اور کہاں جانا ہے؟میکس نے اپنی ماں سے  کہا۔

کہاں جانا ہے؟۔۔۔ جگہیں؟ڈوریس نےٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کہا۔ اس کے پاس جانے کے بے شمار ٹھکانے ہیں۔ وہ ہر روز کہیں نہ کہیں جاتا ہو گا۔ وہ  کھڑکی میں پردوں کے پیچھے مین سڑک  دیکھتے ہوئے رو رہی تھی۔

 میں میکس کے پاس کھڑی ماں بیٹے کی گفتگو سن کر پریشان ہو رہی تھی اوروہاں سے بھاگناچاہتی تھی۔ وہ ہفتہ کی رات تھی۔میں نے میکس کو کہا کہ حیرانی کی کوئی بات نہیں۔اپنی ماں سے کہو کہ خود کو سنبھالے۔حوصلہ کرے۔ان مشکلات کاحل سوچے۔ اپنا حلیہ درست رکھا کرے ۔بال سنوارا کرے۔اچھے کپڑے پہنا کرے۔تھوڑا بہت میک اپ کیا کرے۔ امیدافزاباتیں کیاکرے۔مایوسی اور ناامیدی مسائل حل کرنے کی بجائے مشکلات میں اضافہ کرے گی۔ اگر خود کو کمتر سمجھے گی تو وہ  اس کی طرف کبھی راغب نہیں ہو گا۔بددلی اس کی طرف اسے نہیں لائے گی۔ اگر بنا سنوار کے خوبصورت بنائےگی تووہ کچے دھاگے کی طرح  اس کےپاس واپس گھر آنے لگے گا  اوروہ پھر سے مادام بن جائے گی ۔میں نے کہا۔اپنی ماں کو کہو کہ وہ ایسا کرے۔

سوچو۔قیافہ لگاؤ۔ اگلے روز میں نے یہ فقرے میکس کی زبان سے سنے جووہاپنی ماں سے فون پر کہہ رہاتھا۔

ایک دفعہ بڑا میکس اورمالوا ہمیں بچوں کی دیکھ بھال کے لئے شراب لینے کے لئے گئے تھے۔پارکنگ میں کھڑی گاڑوں پر اشتہارات لگے تھے۔ میکس نے اپنی ماں کو فون کرنا تھا۔اس نے مجھے کہا کہ بچوں کا خیال رکھوں۔وہاں بچے کھیل رہے تھے۔ان کی بد احتیاطی سے لگتا تھا کہ ان میں سے کوئی ضرور بیمار پڑ جائے گا یا کسی حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ جب  بچے بات نہیں مان رہے تھے تو میں نے اسے کہا کہ انہیں مے خانے فون کرکے فوری واپس بلالے۔

اس طرح سے موسم گرمامیں بڑے میکس اور مالوا کی تخریب کاریاں اور معاشقہ چلتا رہا۔وینکوور میں میکس ہرخبر اپنی ماں تک پہنچاتارہا۔ٹیلیفون بوتھ ہمارے لئے کانفرنس روم بن چکاتھاجہاںہم بڑے میکس کی چالوں کا جواب سوچتے اور اس کے خلاف چالیں بناتے۔میں نے مالوا کو روز بروز سمارٹ ہوتے دیکھا۔اس کا پیٹ بتدریج کم ہورہاتھا۔بڑا میکس جب بھی مالوا کے ساتھ ہوتا وہ ہمیشہ شوخا ہو جاتاتھا۔وہ یک جان دوقالب بنے ہوئے تھے۔اس دوران میکس نے ڈوریس کو کہا کہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے اور سر گرم ہو کر گتھی سلجھائے۔۔  وہ براہ راست فون کرے ڈوریس نے جب فون کیا ۔ اس کاوالدبڑا میکس  اور مالوا اس وقت نشے میں دھت تھے اور بات کرنے کے قابل نہ تھے۔میکس نے اپنے باپ سے اظہار ہمدردی کی اور بری حالت پرشدید رنج و غم کااظہار کیا۔ بڑا میکس اس کی باتیں سن کر رونے لگاا۔ ماں نے اسے کہا کہ لوٹ آئے۔مالوا بھی سسکیاں لینے لگی۔وہ بھی اپنے بچوں کے جذبات مزید مجروح نہیں کرنا چاہتی تھی۔میکس نے فیصلہ کرلیا کہ اسی رات  منی ٹوبہ چھوڑ دے گا۔وہ اس رات اپنا ذاتی سامان مالوا کے گھر چھوڑ دیا۔اس کے بعد وہ دونوں منی ٹوبا  چھوڑ گئے اور میں بھی ان کے ساتھ کچھ عرصہ رہی۔ دل نہ لگا تو واپس آگئی۔

تم یقین نہیں کروگی کہ میرے والدین کے ساتھ کیا ہوا۔میکس نے کہا۔اب وہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔

بہت خوب!مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ میں نے کہا۔مجھے ایسے فیصلے اچھے لگتے ہیں جہاں انجام خوشگوارہو۔

نہ صرف وہ ۔۔۔میکس نے کہا۔۔۔جب ہم واپس وینکوور پہنچے تو فوراًیہ تجارت شروع کر دی جس نے اتنی ترقی کی کہ آج ہماری پانچ فرینچائز ہیں۔ایک فریچائز ہم وینی پیگ میں  بھی کھولنے جا رہے ہیں۔

اپنی سامنے والی کھڑکی سے میں نے شہر میں دھواں اٹھتے دیکھاجو مےخانے فیکٹری کی چمنی سے آ رہا تھا۔شادی کے بعد ہم اس جگہ منتقل ہوگئے  جہاں لیری ملازمت کرتا تھا۔ وہ  گاڑیوں کی باڈی بنانے کی ورکشاپ  میں کام کرتا تھاجوگھرسے چند بلاک کے فاصلے پرتھا۔وہ تگڑا اور مضبوط شخص تھا۔مجھےوہاں کی فضا میں ملی جلی ناگوار بوئیں آرہی تھیں جو مے خانے اور کوڑا کرکٹ،آلوکے چپس کی فیکٹری کی تھیں۔فیکڑیوں کے سائرن کی ہلکی نوحہ کرتی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو میرے اعصاب کو شل کر رہی تھیں۔اوپر سے مجھے اپنے بچوںپر توجہ دینا تھی۔

ہاں۔اچھا۔میں نےتجارت میں اپنی کامیانی کی شیخی بگھارنے کے لئے فون نہیں کیا تھا۔میں نے خود سے عہد کیاتھاکہ کبھی منی ٹوبا آیاتوتمہیں ضرورفون کروں گا۔ تم نے میرے خطوط کاجواب تک نہیں دیا۔میرا مقصدتمہاری خیر پرسی تھی۔میں تمام عرصے یہ سوچتارہاکہ تم اتنی سردمہرکیوں کرہوگئیں؟ اس دوران میں فون پر مالا کے رونے کی آواز سنی۔مالوا نے جب رونابندکیاتواس نے کہاکہ کام ختم نہ کرلیں۔

سات سال پہلے جب میکس اسے چھوڑ کر جا رہا تھا  تو اس وقت میکس اور میں مالوا کے پاس تھیں۔ امالوا ان کے جانے سے بہت غمزدہ تھی۔ اس کا رونا بند نہیں ہو رہا تھا۔ جب رو رو کر چپ ہو گئی تو  اس نےمنہ ہاتھ دھویااپنی سوجی ہوئی آنکھوں کو تھپکی دی۔ میک اپ میں اپنے ابروؤں پرعشق کے یونانی دیوتا کیوپڈکی تصویربنائی ہوئی تھی۔وہ ایک صندوق اٹھاکرلائی۔اس نے اس کی مٹی صاف کی اور اس میں سے چیزیں چھانٹنے لگی۔تم وینکوور میں کیاکروگے۔اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

شائد نوکری کر لوں۔ میں جو بھی مناسب ہوگاکرلوں گا۔یہ تمہارا درد سر نہیں۔میرے پاس اس وقت بہت کچھ ہے۔نوکری کی آمدن سے بہت زیادہ۔میکس نے کہا۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تم امید سے ہو۔

دوبارہ اندازہ لگاؤ۔میرا خیال ہے کہ یہ تمہاری خواہش ہے یاتم ایساچاہتے ہو۔کیاواقعی تم ایسا چاہتے  ہو؟ ہم سب پاگل ہیں۔تم جانتے ہو۔مالوا نے تصاویر میز پر بکھیر دیں۔۔۔تم خود کو دوسروں سے بہترکس طرح سمجھتے ہو؟

ہو۔ہو۔ہو۔مالورانے کہا۔جب اس نے قہقہے لگانےبند کئے تواس نے اپنی آنکھوں کے کونے اپنے بلاؤزکے کونے سےصاف کئے تواس کے لئے تم 'راہبہ 'بن سکتی تھی کیونکہ میں،بطورایک ہستی کے،اپنی  سانس ایک لمحے کے لئے بھی نہیں روک سکتی ۔

اس وقت بڑامیکس آگیااوربرآمدے میں آکرکھڑاہوگیا۔اسکی گردن میں صفائی والی  ٹیوب لٹکی ہوئی تھی۔تم آپس میں کیا باتیں کر رہی ہو۔اس نے پوچھا۔

تم میرے ساتھ بچگانہ سلوک نہ کرو۔مالوا نے کہا۔مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ بڑے میکس۔

تم کو اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیئے کہ میکس اپنے باپ( بڑے میکس) اور ماں ڈوریس کا ملاپ کرانا چاہتا ہے    جو مناسب بات ہے۔ میں نے مالواکہا

بیوقوف درمیان میں ٹپک پڑیں گے۔مالوا نے کہا۔

وہ اس لئے مداخلت کرتے ہیں کہ تم اپنے دائرہ میں نہیں رہتی۔میں نے کہا۔

اس بات پر  وہ اچھل پڑی۔کرسی کے پیچھے مکے مارنے شروع کر دئیے۔ تم واہیات باتیں کر رہی ہو۔مالوا نے کہا۔اس کی آواز بہت زیادہ سگریٹ نوشی سے بھاری ہو گئی تھی۔تم ایک احمق ہو۔اگر تم میری جگہ ہوتیں تو تم مجھےتھپڑ ماردیتی احمق۔

کوشش کر کے دیکھ لو۔میں نے کھڑی ہوکر اپنی آستینیں چڑھا لیں۔

اس نے اپنی انگلی میری چھاتی پر رکھ دی اورکہا'بیٹھ جاؤْ۔وہ صندوق کو ٹٹولنے لگی۔اس نے اپنے ہاتھ میں ایک بڑا فوٹوپکڑااورکہاکہ اسے دیکھو۔یہ میراسابقہ عاشق ہےجس کے ساتھ میں وقت نہیں گزارسکی۔

میں اس تصویرکودیکھ کرحیران رہ گئی۔وہ آدمی بہت خوبصورت تھا۔

بتاؤکہ میں اس کے ساتھ کیوںنہ چل سکی۔

میں نے کندھے جھٹکے۔

مالوانے ایک اورسگریٹ سلگایااورمیزپربیٹھ گئی،سادہ سی وجہ ہے۔میں نے اس کویہ بتادیاتھاکہ میں حاملہ ہوں اور اس نے مجھ سے پوچھاکہ یہ کیونکرہوا؟میں نے کہا۔مجھے افسوس ہے۔ہوسکتاہے کہ میرے  اندر کوئی ایسی شئے چلی گئی ہواورمیری ڈایافرام کھسک  گئی ہو۔ میں اس پر مر مٹی تھی۔ میں منتشر ہوں  وہ بات  بات پر بچوں کو مارتاتھا۔قصہ مختصرتم دیکھ رہی ہوکہ اس نے کیا کیا۔مالوانے کہا۔

کیا کیا؟میں نے پوچھا۔

اس نے کسی ایسے شخص کوڈحونڈااورحمل گرادیا۔مالوا نے کہا۔

مجھے اس بات پرافسوس ہواکہ میں نے خواہ مخواہ ایسی بات چھیڑدی۔

مالوانے اپناسگریٹ ایشٹرے میں بجھایااوراپنادھواںمیرے منہ پر پھینکااورمیں نے کہاایسانہ کروپیاری۔مجھے افسوس ہے لیکن تم نے مجھے کوئی اورموقعہ نہیں دیا۔اس نے مبارزت کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ گیا۔

بڑا میکس آہستہ کمرے میں داخل ہوااوراسکی کے پیچھے آکرکھڑاہوگیا۔اس کی گردن میں اپنی باہیں حائل کر دیں اور اس کی کرسی کو ہلاتے ہوئے باتیں کرنے لگا۔اس نے مالوا نے ماتھے کے اوپر بوسہ دیا۔کیا وہ کوئی شئے نہیں ہے؟میری مالوا۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے مالوا جیسی خاتون نصیب ہوئی۔کیا وہ شاندار نہیں ہے۔اس نے اس کا چہرہ اس کے سر لگا لیا۔اوہ پیاری،مجھے افسوس ہے کہ مجھے جانا ہوگا۔اس کے لئے مجھے بہت افسوس ہے۔

مالوا رونے لگی۔چلے جاؤ۔اس نے مجھے کہا۔ابھی فوراًچلی جاؤ۔مجھے اکیلاچھوڑدو۔

کارتیارہے۔میکس نے  دروازے پر کھڑے ہوکرکہا۔ میں اسے بازوسے پکڑکرکارکے پاس لے گئی۔اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ چبائے۔بڑے میکس نے مجھے کہا  کہ ہمارے ساتھ چلو۔ میں ان کے ساتھ چل پڑی۔مالوا نے کہا کہ میکس بالکل اپنے باپ پر ہے۔وہ ہمیشہ رستے کا بندوبست بھی رکھتا ہے۔

ایک گھنٹہ بعد ہم ہائی وے پر تھے۔پہلے بڑے میکس نے کار چلائی اور چھوٹا میکس پچھلی سیٹ پرسوگیا۔بڑامیکس گاڑی چلاتے ہوئے جھوم جھوم کرگانے لگا۔میں نے کھمبوں پر جگ مگ کرتے کھمبے دیکھے۔تاریں ہواکے زور سے اونچی نیچی ہورہی تھیں جبکہ قمقمے اصل سے جڑے ہوئے تھے۔گاڑی کی اگلی سکرین پرکیڑے مکوڑےٹکرا کر ڈھیر ہو رہے تھے۔ میں نے چاہا کہ گزرے وقت  اورفاصلےکے بارے نہ سوچوں۔ مینی ٹوبہ اور اپنے خاندان سے فاصلہ بتدریج بڑھ رہاتھا۔مجھے کچھ اندازہ نہیں تھاکہ جب میں وینکوورپہنچوں گی تو میں وہاں کیا کروں گی۔ اتنے میں ایک موٹا کیڑا سکرین سے ٹکرایااور میں سوچوں سے باہر آگئی۔

میں دیر سے خاموش بیٹھی تھی۔ سکوت توڑنے کے لئے میں نے بات شروع کی۔  لوگ تمہیں بڑا میکس کیوں کہتے ہیں۔گفتگو کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بوریت  سے وہ سو نہ جائے۔

کیوں۔کیا؟اس نے پوچھااورہنس دیا۔یہ ذاتی معاملہ ہے اورمذاق کے طور پر کہا جاتا ہے۔ بڑے میکس نے کہا۔اس نے میرے گھٹنے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔اپناسر سیٹ پرٹکالیا۔۔۔ مجھے تمہارے اور اس کے بارے میں بتایا گیا  تھا کہ ۔۔۔تمہیں بتانے کے لئے اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کی وجہ سے بڑا میکس کہلاتا ہوں۔اس نے اپنی نظریںاپنی رانوں کے درمیانی حصے اپنے ہاتھوں سے مسلتے ہوئے کہا۔اگر بچوں کو اس راز کا پتہ چل جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔تم سمجھ رہی ہو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔

جب پہلا گیس سٹیشن آیا تو ہم رک گئے۔گیس ڈلوائی۔ تازہ ہوئے، کچھ کھایا پیا اورآگے بڑھ گئے۔ سات سال پہلے کی باتیں میرے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔

میکس مجھے ہر قسم کی ترغیب دے رہا تھا لیکن میں  مادام بن کر سوچ رہی تھی جن کا دھیان اپنے گھر اور بچوں پر ہوتا ہے۔ویسے بھی پندرہ سالہ لڑکی میں اتنی پختگی نہیں ہوتی کہ مادام خانہ کی طرح سوچ سکے۔میں نے میکس کی تمام ترغیبات اور پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور عہد کیا کہڈوریس اور میکا کی طرح  نہ صرف  گر ہستن بنوںگی بلکہ  اولاد کی تربیت میں جو کوتاہیاں ان سے  رہ گئی تھیں    دور کرکے حقیقی مادامِ امورخانہ ہی بنوں گی۔



Life history

Sandra Birdsell

- 1942

Canada

 

حالات زندگی

 سینڈرا برڈسیل  کینیڈا کے صوبہ  مینی ٹوبا  کے شہر  ' ہیمی اوٹا'  میں 1942 کو پیدا ہوئی۔ اس کا والد کینیڈا میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کی نسبت   نیدر لینڈ سے تھی  اور ولندیزی زبان ( میٹیس کری)  کو زندہ رکھا ہوا تھا جبکہ فرانسیسی اور انگریزی اس کی  کینیڈین زبانیں تھیں۔ اس کی والدہ جرمن نژاد تھی جو روس میں پیدا ہوئی تھی ۔1943 میں اس کے والد نے فوج  میں نوکری کر لی تو اس کا خاندان ایک جگہ مستقل طور پر کسی ایک جگہ رہائش نہ رکھ سکا۔ وہ اپنے گیارہ بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھی۔اس نے ابتدائی تعلیم  موریس سے حاصل کی۔اس نے 15 سال کی عمر میں اپنا گھر  چھوڑ دیا۔ وہ یونیوسٹی آف  وینی پیگ اور یونیورسٹی آف مینی ٹوبا میں پڑھی۔ اس  کا گائیڈ  رابرٹ کروشن تھا۔1966 میں  وہ  سیسلیچوان  صوبے کے دارالخلافہ  ریجائنا منتقل ہو گئی۔ جب وہ 35 سال کی تھی تو اس نے یونیورسٹی آف وینی پیگ مین انگریزی  تخلیقی ادب میں داخلہ لے لیا۔ پانچ سال کے بعد تھرسٹون پبلشر نے اس کا سب سے پہلا ناول (نائٹ ٹریلولز) چھاپا۔ آج کل وہ اونٹوریو صوبہ اور کینیڈا کے دارالحکومت  اٹاوا میں مقیم ہے ۔

 دو  واقعات نے اس کی سوچ کا رخ بدل دیا۔  پہلا  واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ساڑھے چھ سال کی تھی۔ اس وقت اس سے بڑی بہن کینسر سے فوت ہو گئی۔اب اس کا وقفہ اپنی  دوسری بڑی بہن سے چار سال کا ہوگیا۔بڑے خاندان کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ دوسرا واقعہ 1950 میں پیش آیا جب اس کے شہر موریس میں سیلاب آیا ۔ اس نے اوپر نیچے تین کہانیاں سیلاب کی تباہ کاریوں پر لکھیں جو اس کی تصنیف  آسیز سٹوریز میں شامل کی گئیں۔  2007  میں چار سال تک یونیورسٹی آف وینی پیگ میں پیشہ ور مصنفہ کے طورخدمات سر انجام دیں۔ 2010 میں وہ آرڈر آف کینیڈا اور 2012 میں سیسکیچوان کے آرڈر آف کینیڈا  کی رکن منتخب ہوئی۔

'  برائڈ ڈول  ' اس کے مجموعے  '  اگیسیز سٹوریز ؛ سے لی گئی ہے۔اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

 

Novels

The Missing Child (1989),The  Chrome Suite (1992),The Town That Floated Away (1997) ,The Russland (Katya 2001),Children of The Day (2005),Waiting for Joe (2010)

 

Short Stories

Night Traveler’s (1982),Ladies Of The House (1984) ,Assassiz Stories (1987),The Two Headed Calf (1997), Awards ,The Missing Child  (First Novel Award 1987),The Two Headed Calf (1997 Saskatchewan Book

Awards

,The Town That Floated Away (1997 Saskachewan Book Award)

The Russlander (1997 Saskachewan Book  


Popular posts from this blog