ٹورونٹو کی گلی Toronto Street Sandra Birdsell

ٹورونٹو کی  گلی

Toronto  Street

Sandra Birdsell

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     ۔۔۔1942        

انتخاب: غلام محی الدین 

  ماضی کے دریچے  میں جھانکتی ہوں تواس رات کے  مناظر مجھے یاد آنے لگتے ہیں۔  سہہ پہر   جب میں سیسکیچوان  سے ڈیڑھ دن کا بس سفر طے کر کے ٹورونٹو آئی تھی  تواس روز کے ناگوار واقعات  ذہن میں تازہ ہونے لگے۔ ٹورونٹو  کے ایک بدنام علاقے کی ایک خستہ حال کثیر منزلہ عمارت کی پانچویں منزل کے برآمدے میں تھکی ٹوٹی اپنا رخ سامنے والی سڑک پر منہ کر کےبیٹھی موجودہ صورت حال پر غور کررہی تھی۔ اس پرانی اور گندی  عمارت کے  تنگ  کمرے ساتھ ساتھ ایک ہی لائن میں  تھے۔میں نےنوٹ کیاکہ  میرےساتھ والے اپارٹمنٹ کی بالکونی میں ایک دھان پان ساچینی طالب علم کتاب پر نظریں گاڑے بڑے انہماک سے پڑھ رہا تھا۔وہ ایک گھنٹے سے بے حس وحرکت بیٹھا تھا۔روشنی میں اس کے پیلے کندھےنظر آرہے تھے۔ اس کے جسم  کی بہترین شئے اس کے بال تھے جو گھنے،ملائم اور چمکدار سیاہ  تھے۔ اس کے  ماتھے پر ایک پرندے کا نشان(ٹیٹو)کھودا گیا تھا۔سورج پانچویں  منزل سے تھکے ہونے کا تاثر دے رہا تھا جس کے ڈھلنے کاسایہ  لڑکےپر پڑنے لگا۔ اس تمام عرصے میں میں نے دیکھا کہ چینی لڑکے نے صرف ایک ہی بارحرکت کی تھی وہ بھی کرسی پر پہلو  بدلا تھا۔

سیسکیچوان سے ٹورونٹوعوامی بس کےڈیڑھ دن کےسفر میں سفر میں بجائے گئے  نغمات ابھی تک  میرےکانوں میں گونج رہے تھے۔مجھے یاد ہے کہ  بس میں سوار ہونے کے بعد ہی میں نے اپنی آنکھیں فوراً بند کر لی تھیں۔ ہائی وے کےترتیب وار لگے کھمبے ایک ہی قطار میں لگائے گئے قمقمےبہت سہانے لگ رہے تھے۔ باہر زوروں کی ہوا چل رہی تھی۔میرا ذہن خالی تھا۔گھنٹوں کی مسافت کے بعد بس رکتی چلتی رہی۔ذہن میں  اپنے  خاوند برائن کا خیال آ گیا ۔ سفر طویل  تھا اورمجھ میں سٹیمنا تھا کہ  گھنٹوںساکت بیٹھ کر سفرکی اذیت برداشت کرسکوں  اس لئے توقع تھی کہ مجھے بہت زیادہ تھکاوٹ نہ ہوگی۔ بیٹھے بیٹھے مجھے  اس اپارٹمنٹ کا خیال آیا جس میں  میں اس وقت موجود تھی۔ یہ سیلن زدہ،جہان بھر کی غلاظت سے بھرپورمین سڑک پر واقع تھی  ۔ دن رات شور اور  ٹریفک رہتی تھی۔ مجھے ٹورونٹو کے بارے میں قطعی واقفیت نہ تھی  ۔یہاں  مجھے فوری رہائش درکار تھی۔ہوٹلوں کا خرچہ میری برداشت سے باہر تھا ۔ فوری سستا ترین             ٹھکانہ درکار تھا اسلئےبس اڈے پر   ایک کارندے   کے جھانسے میں آ کر  بغیرسوچے سمجھے  اس کی پیشکش قبول کرلی۔وہاں آئی تو مجھے اس عمارت میں ہر طرح کی بوئیں  محسوس ہوئیں۔      کچھ دیر میں  رات ہونے والی تھی، کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا  اس لئے چاروناچار یہاں رکناپڑا۔ 

میں    ایک تو اپنے خاوند برائن کی بے مروتی  سے اکتاکراور دوسراظفر وسیلہ ظفر کے مصداق کینیڈاکے سب سے بڑے شہر ٹورونٹو میں  اپنابہترین ڈیزائنر لباس پہن کر آئی تھی۔مسافت نے لباس پر گرد اور شکنیں ڈال دی تھیں۔ بس سے اتری تو  سفر کی وجہ سے کپڑوں کی حالت بری تھی لیکن  عجیب بات یہ تھی کہ تمام تر قوت برداشت کے باوجودحالت  خراب ہوگئی تھی۔ کپڑوں کا ہوش نہ رہا تھا ۔ میرےانگ انگ میں تھکاوٹ بیٹھ گئی تھی اور طویل سفر کی بدولت خود کو بیمار محسوس کر رہی تھی۔ میں نے اپنا لباس ٹھیک کیا تو  نیلاسرمئی پولی ایسٹر سکرٹ جسے استری کرنے کی ضرورت نہ تھی اور میری آنکھوں کی رنگت سے  بیر کھاتاتھا،جھاڑاتو کرسی نے آواز پیدا کی۔میں نے اپنا  لمبامفلر گردن سے لپیٹ کر منہ پر کر لیا جو بل دینے کے بعد بھی پشت کے آخرتک  پہنچ گیاتھا ۔میرے کانوں میں  جوُ بندےتھے وہ بھی گرد آلود ہوگئے تھے۔ میں اپنا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی ۔ مجھے یہ شوق تھا کہ ہمیشہ پر کشش لگوں۔ سجنے دھجنے  پراٹھنے والے اخراجات  کی پرواہ نہیں کرتی تھی ۔کپڑے جھاڑنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ باندھ لئے اور کرسی پر بیٹھ گئی۔   میں اکیلی ہی ٹورونٹو آئی تھی ۔ نئی جگہ پر خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی ۔اس علاقے کی فضا میں مجھے ہمہ وقت باس آرہی تھی۔ اپنی  اپارٹمنٹ کے برآمدے تک پہنچنے کے لئے  مجھےتنگ  گلی سے گزرنا پڑتاتھا ۔راستے میں چند کھڑکیاں تھیں جن سے آتی ہوا نے بدبوکسی حد تک کم کر دی تھی ۔بوریت کم کرنے کے لئے میں کرسی  آگے پیچھے کرتی رہی اور ملحقہ بالکنی میں بیٹھے  چینی طالب علم کو دیکھتی رہی۔وہاں سے سمندر بھی نظرآتاتھا۔ میرا ارادہ تھا کہ رات تک اسی جگہ پر بیٹھی رہوں اورسمندراور کھلےآسمان کا نظارہ کرتی رہوں۔  طرح طرح کی بوؤں  میں امونیا گیس، گرد و غبا ر، پرانے اخبارات کےڈھیر وغیرہ  کی موجودگی سے  ایسا لگتا تھا کہ سابقہ کرائے دار نے برآمدہ استعمال  تک نہیں کیا تھا۔

  سیسکیچوان سے ٹورنٹو کے لئے سامان ایک ٹرکنگ کمپنی سے بک دیاگیاتھاجو ایک دن بعد پہنچنا تھا ۔ اپنے ساتھ صرف ایک بڑا بیگ لائی تھی جس میں روز مرہ استعمال کی تمام اشیا موجود تھیں۔ وہ میں نے کرسی کے ساتھ ہی رکھا تھا ۔ اسے زمین سے اٹھایا۔ اس میں پھلوں کے  ٹین میں بندمشروب ، منجمد سبزیوں  کی بوتلیں اور ابلے ہوئے انڈے، کپڑے وغیرہ ایک ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے مکھن والی ڈبل روٹی نکالی  جو  گھر سے ہی اپنے کچن سے چپکے سے بنا کر لائی تھی اس لئے نہیں کہ میں وہ جگہ چھوڑ رہی تھی  بلکہ برائن کے رویہ سے بددل ہوکر اوراس کےحادثے کی وجہ سے  ماحول کی تبدیلی کے لئےکررہی تھی۔برائن کومیرےٹورونٹو جانے  کا علم تھا  ۔وہ الوداع کہنے نہ آسکاکیونکہ اس روز حادثے کی وجہ سے ہسپتال داخل ہو نا پڑا تھا۔ ماحول افسردہ تھا۔انسانیت کی خاطر اور خاوند ہونے کے ناطےہمدردانہ اظہار کے لئے اس کے سامنے کھانا نہیں چاہتی تھی۔برائن مشینی آرے سے شہتیر چیرتے ہوئےشدیدزخمی ہو گیا تھا۔مجھے یہ اطلاع اس کے آجر نے دی تھی کہ برائن شدید زخمی ہوگیاتھااور اسے ہسپتال داخل کرادیاتھا اسلئے  میں سیدھی ہسپتال چلی  جاؤں۔ میں نے جلدی سےسینڈ وچ بنا کر کھا لیا کیونکہ برائن کی مخدوش حالت کی وجہ سے اس کے سامنے کھانامعیوب لگتاتھا۔

 میں ٹورونٹوآکربیٹھی آئی تو جوں جوں دن ڈھلتاجا رہا تھا میری اینٹوں والی عمارت  جونوٹرے ڈیم ایوینیو پر تھی  پر ٹریفک  بڑھ رہی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹورونٹو کی تمام ٹریفک کا رخ اس طرف ہو گیا تھا۔ درختوں کے بنےمحراب میں ہوا سے ہلکی سی گونج پیداہو رہی تھی جس کی مماثلت بہتے چشمے کی  تھی۔

  ٹورنٹو شہرکا تصورہمارے لئے بڑاخوشگوار تھا۔ 

ٹورونٹو         کے بارےمیں  نے پڑھ رکھا تھا کہ وہ کینیڈاکاسب سے بڑاشہر ہے۔وہاں ترقی کے بہت مواقع ہیں ۔وہ بہت خوبصورت ہے ۔ رنگ برنگے پھول، پیلے لیموں اور گلابی رنگ  سے سجی ہوئی عمارات ، عروس البلاد، کھڑکیوں پرخوشنما پردے ، بڑے بڑے گھر ، آسمان سے چھوتی ہوئی عمارات، بےشمار تاریخی عمارات ،دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے، بڑی بڑی صنعتیں ، بین الاقوامی تجارتی ادارے کے صدر مقامات ، تفریح گاہیں اور رنگین زندگی ہے۔ اگرچہ  یہ شہربہت مہنگاہے لیکن اسی حساب سے ترقی کے مواقع بھی تھے۔سی ۔این۔ٹاور، قرون وسطیٰ کی عظیم عمارت کا سا لوما، آرٹ گیلری، ٹورونٹو آئی لینڈز، ریپلے ایکویریئم،جو زیر آب طویل سرنگ ہے، قدیم صنعتی علاقہ ڈسٹلری ڈسٹرکٹ، میوزیم، ونڈرلینڈ،راجرز سنٹر،ٹورونٹو یونیورسٹی، ہاکی ہال آف فیم اوردرجنوں عظیم الشان باغات    وغیرہ تھے۔

خانگی ناچاقی کی وجہ سے میں اپنے گھرکاگھٹاگھٹا ماحول تبدیل کرنا چاہتی تھی ۔ٹورونٹو میں میں جس جگہ  بیٹھی تھی  دیکھ کر میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی تھی۔میں نے  یہاں ٹرک کا سفید روغن  کیا ہوا  سفیدٹائر دیکھا جس کے مرکز میں گھاس اگی ہوئی تھی۔ سڑک پر ننگ دھڑنگ بے لگام کالے حبشی بچےآلتی پالتی مارکر بیٹھے تھے۔سامنے والی گلی کی نکڑ پر بھیگے ڈایا پر،پھٹی ہوئی نیلی جین۔ ٹوٹے پھوٹے سٹرولر اور تباہ شدہ سائیکلیں بکھری پڑی تھیں۔ میرے تصور میں بھی کوئی ایسا اپارٹمنٹ نہیں تھاجس کی اتنی نیچی چھت ہو گی۔ اپارٹمنٹ جھونپڑی نما ہو گی۔ بابا آدم کے زمانے کا ہوگا، جھونپڑی نما  ہوگا۔علاقہ غلیظ لوگوں سے بھرا ہوگا۔کمرے اتنے تنگ ہوں گے  کہ ایک میٹریس  بیڈکے بعد بمشکل کھڑی ہونے کی جگہ ہو گی۔ ایک کمرے میں صوفہ اور ایک میں خالی میٹریس پڑا تھا۔اس میں کوئی پرائیویسی نہیں تھی۔دور سےبھی اندر کا نظارہ صاف کیا جا سکتا تھا۔ایک کھڑکی جو سمندر کی طرف تھی پر دو جھالر والی سفید چادریں لٹکا دی گئی تھیں۔ چھوٹا سا باورچی خانہ تھا ۔ اس میں پرانے زمانے کی شاہ بلوط کی ایک گول میز پڑی تھی اس کے ساتھ غسل خانہ تھا اور صدیوں سے اس کی صفائی نہیں ہوئی تھی۔ فرنیچر ٹھسا ہوا تھا۔ سڑک کے کنارے کوڑا کرکٹ سے بھرا بڑا کنستر پڑا تھا۔اسے بہر حال نئے ماحول سے مطابقت کرنا تھی ۔ سڑک  ٹو ٹی پھوٹی اور جگہ جگہ کریک تھے۔اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہ کیا میں اس علاقے میں رہنے کے لئے آئی تھی۔اتنے گندےعلاقے میں رہ سکتی تھی کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

برائن اور میں نے مل کر گھر مارگیج کیاتھا جس میں ہم نے دو اضافی کمرے  تعمیر کئےتھے  لیکن  لاشعوری  طور پرمیں چاہتی تھی کہ میرے بچے ہوں۔ اس لئےپیش بینی  کے طور پر مستقبل میں ہونے والےبچوں کے لئےرکھ چھوڑے تھے۔  میری بچپن سے خواہش تھی کہ میں اپناکاروبار کروں جو گھرلو سطح کا ہو اور اس پر میںCookies At The Doorان دنوں میں شوخ رنگ زیادہ پہنتی تھی۔مجھے خیال آیا کہ کیا ایسے ڈیزائن آج کے دور میں بھی میسر تھے۔آج کل میں نےاپنے بال ایک بار پھر  بڑھانے شروع کر دئیے تھےاور انہیں فطری لمبائی تک لانا چاہتی تھی۔میری  ہمیشہ سے یہ خواہش  رہی  کہ چاکلیٹ اور بسکٹ بنانے کی تجارت کرے گی اور'بسکٹ گھر کےدروازے پر ' کی پلیٹ لگاکر کاروبار کرے گی۔مجھےبچے بے حد پسند تھےلیکن  برائن نے اس بارے میں شادی سے پہلے کوئی رائے نہیں دی تھی۔

عمارت کے نیچے جھانکاتونکڑ پرسبزی کی  ایک دکان نظر آئی جس کی کھڑکیاں اورچھپر خطرناک حد تک جھکا ہوا تھاجوکسی قوت بھی گر سکتاتھا۔ایسالگتا تھا کہ میرے اپارٹمنٹ سےنزدیک ترین  دکان وہی تھی جہاں  سے ضروریات کی اشیا دستیاب تھیں۔دن میں ٹھیلے بھی موجودہوتے تھے۔خواتین اپنے عارض پر غازہ  تھوپ کر خوش اخلاقی ، سلیقہ شعاری سے جبکہ ضعیف خواتین  سڑیل صورت بنائے وزنی مفلر گردن پر سختی سے لپیٹے دوسروں سے نگاہ بچا کر  اپنے بیگ  کے اندر ہاتھ ڈال کرریزگاری گن کر خریداری کا بل ادا کر تی تھیں۔

میں انہی  سوچوں میں گم تھی کہ ٹرک کا بگل نما ہارن بجا جس نے مجھے چونکادیا۔  یہ ٹرک اس  دلال کاتھا جومجھے وہاں لایاتھا۔میری نظرسامنے پڑی تو  چینی طالب علم ابھی بھی مطالعہ میں مصروف تھا۔اب  ہوا تیز چلنا شروع ہو گئی تھی جو عمارات سے ہوتی ہوئی میرے برآمدے میں پہنچ گئی تھی۔وہ شخص و گھر کے باہر دروازے پرآکر کھڑاتھا اوراس سے پوچھ رہاتھاکہ کیاوہ اپارٹمنٹ کرائے پر لے گی یا نہیں۔ میرے پاس اس وقت کوئی ریفرنس نہیں تھااسلئے میں نے حامی بھر لی۔ گھر میں تاریکی چھا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ مالک مکان ایک معذور شخص تھا اورلگتا تھا کہ اسکی حرکات وسکنات وہیل چیر تک ہی محدود   تھیں۔ میری اس سے بات فون پر ہوئی ۔وہ ناک میں بول رہا تھا۔آواز سے  سینئر سٹیزن لگتا تھا۔اس نے پیشکش کی تھی کہ اگر میں گھر  کی صفائی خود کرلوں تو وہ پہلے مہینے کا کرایہ چھوڑ دے گا۔ اس  سے ملاقات تو نہ ہوسکی ۔کوڑاکرٹ اٹھونے کے بارے میں اس  نے وعدہ کیا کہ وہ کسی روز  کوڑا اٹھوا لے گا۔اس نے کہا۔

بچی !اس جگہ سے مانوس ہو جاؤ۔ اب   تمام انتظامات  تم کو مکمل طورپر خود ہی کرنا          ہوں گے۔مجھے زور کی کھانسی آئی اور درد سے کراہنے لگی۔مجھےایسی ورزشیں یاد تھیں جن سے درد کم ہوجاتا تھا۔ میں نے کئی بار اکیلے کھانا کھایا تھا۔ اکیلےبستر پرلیٹی تھی۔ اکیلے ہی خریداری کی تھی وغیرہ لیکن وہ عارضی تھے۔برائن نے ایک روز اپنے دوستوں کو کہا تھا کہ اگر اس کی بیوی نے کبھی سکول  پھر سے جانا چاہا تووہ مجھے نہیں روکے گا۔میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرناچاہتی تھی جس کے بہترین مواقع ٹورونٹو میں تھےاسلئے سیسکیچوان  چھوڑ چھاڑ کے میں یہاں آ گئی تھی۔ میں نے من بنالیاتھاکہ میں تنہا رہوں گی اورمردانہ وار مقابلہ کروں گی۔  

میرے بیٹھے ہونے کے دوران مجھے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں سے نکلتے ہوئےایک جوڑانظر آیا۔ نیم تاریکی میں ان کی جھلک نظر آ رہی تھی۔میں سیدھی  ہو کر بیٹھ گئی تا کہ انہیں صاف طور پر دیکھ سکوں۔ وہ سیڑھیوں پر آ کر بیٹھ گئے ۔ان کے ہاتھوں میں جام تھےجن میں برف کے ٹکڑے تھے ۔ انہوں نے اپنا گلاس ہلایا تو برف کے ٹکرانے کی آواز سنائی دی۔خاتون ناٹا تھی۔اس نے اپنا ہاتھ مرد کی طرف بڑھایااورسرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔فضا میں ان کے ہلکے ہلکے گونجنے لگے۔مجھے یاد آیا کہ وہ خاتون اسے رستے میں ملی تھی۔ اس نے کافی اونچی بیکنی  پہنی ہوئی تھی۔ اس وقت میری نظریں          اس سے دو چار ہوئی تھیں۔میں اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ روز مرہ خریداری کی نزدیک ترین دکان کو ن سی تھی؟لیکن پوچھ نہ پائی کیونکہ اس نے رستہ بدل لیا تھا۔عمارت کے نزدیک ہی ہرے بھرے درختوں نے سائبان بنایا ہوا تھا اور موسم کی تبدیلی سے پتوں کی رنگت تبدیل ہو رہی تھی۔ ہوا کے جھونکوں سے درخت ہل رہے تھے جس سے پتوں کے مختلف رنگوں کی تیرگی اچھی لگ رہی تھی۔ سامنے والی گلی میں اس وقت دو بچے ایک سرے               سے دوسرے سرے تک  آگے کی طرف جھکے ہوئے سائیکل چلا رہے تھے۔میں نے دیکھاکہ ایک  حضرت نے سگریٹ سلگایا۔جوڑابدستور بیٹھاہواتھا۔ان پر سایہ  گہرا ہوتا جارہا تھا جو جلد ہی تاریکی میں بدل جانےوالاتھا۔ جوڑےکے سائے آگے پڑ رہے تھے۔خاتون اور مرد پررومانیت طاری تھی ۔ان کی مستی دیکھ کر میرامن بھی للچانے لگا اور اپنی ٹانگوں میں اپنا ہاتھ ڈال دیا تا کہ مجھے کسی  حد تک تسکین مل سکے۔میں اس بات پات پر بھرپوریقین رکھتی تھی کہ عورت کو ہفتے میں دودفعہ جنسی ضرورت پوری کرنی چاہیئے۔اگروہ اس پر عمل کرےتو جوان رہتی  ہے۔ متحرک ہو کر زندگی کی رونق برقرار رکھتی ہے۔

میں  نے اپنے پاس پڑا بیگ اٹھایا ۔اوپر آسمان شفاف تھا ۔ سورج  نیند کی آغوش میں جا رہا تھا۔ چینی طالب علم نے انگڑائی لی۔مسلسل بیٹھے رہنے سے اسے تھکاوٹ  ہوگئی تھی اس لئے وہ  ہلکی پھلکی ورزش کرنے لگا۔ ناتواں بازو اوپر نیچے لاتا اور ہاتھ زمین تک لے جانے کی کوشش کرتا۔ یہ دیکھ کر یہ تو تشفی ہو گئی  کہ وہ زندہ تھا ورنہ جیسے وہ بے حس و حرکت بیٹھا تھا، اندیشہ تھا کہ جہان فانی سے کوچ کرچکا ہو گا۔اس کی عمارت کی کھڑکیوں سے روشنیاں جلنے لگی تھیں لیکن کئی ابھی بھی تاریک تھیں۔شائداس کے رہائشی ابھی تک  کام کاج سے واپس نہیں آئے تھے یا وہ گھر کرائے پر نہیں چڑھے تھے۔مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ اپارٹمنٹ کرائے پر لینے سے پہلے تحقیق کیوں نہ کی۔ فوراً حامی کیوں بھر لی۔اب اسے پتی چل رہاتھاکہ اسی کرائے پر بہتر آپشن بھی موجود تھے۔اس کی بڑی غلطی تھی۔ اچھے علاقے میں      اسی کرائے پر گھر لے سکتی تھی۔ پس ماندہ کالوں ، جرائم پیشہ  لوگوں کے علاقے میں گھر کیوں لے لیا۔ ٹیلیفون میں اس اپارٹمنٹ کے بارے میں اہم معلومات بیان کردی گئی تھیں اورکہا گیا تھا کہ پورے سال کے چیک لکھ کر دے دئیے جائیں۔ لیز ایک سال کے لئے تھی۔ اس کے بعد اس راضی نامے کوختم کرنے کے لئےتین مہینے کا نوٹس دینا تھاورنہ ایک مہینے کا کرایہ بطور جرمانہ ادا کرنا تھا۔ تاہم معاملات                 زبانی کلامی تھے ۔کوئی لکھت پڑھت نہیں ہوئی تھی۔شام وتے ہی آندھی آنے لگی اور کھڑکی کے ہینڈل کا چھلا کھنکنے لگا  اوربالکنی کا جنگلا بجنے لگا ۔ میں نے کرسی کا بازو زور سے پکڑااور غور کرنے لگی کہ اس کے بجنے سے سات سر کہاں کہاں سےپھوٹ رہے  تھے۔ چینی لڑکاشائد ایسی صورت حال کا عادی تھا ۔ وہ اپنی پڑھائی میں مگن رہا۔ ایک کتاب رکھ کر دوسری کتاب اٹھائی اور اس کے اوراق پلٹنے لگا۔اب پڑوسی جوڑا مستی میں ایک دوجے پر جھک کرسرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا۔ خاتون ہلکے ہلکے قہقہے لگا رہی تھی۔ انہوں نے گلاس آپس میں ٹکرائے تو برف کے ٹکڑے گلاسوں میں ٹکرائے ۔ میرا دل متلانے لگا ، خود کو زبردستی کرسی سے اٹھایا  اور اس کمرے میں آگئی جسے بیٹھک  کا نام دیا گیا تھا ۔ میں نے ہلکی سردی سے بچاؤ کے لئے گردن میں گلو بند لپیٹ لیا۔ اپارٹمنٹ میں کئی جگہوں سے بجلی کی ننگی تاریں لٹکی ہوئی تھیں اور انہیں  لکڑی  کےاوپر رکھ کرپرانے کپڑوں سے لپیٹ کر دروازوں کی چوکاٹھ پر کیل لگا کر با ندھ دیاگیا تھا تاکہ بجلی کا کرنٹ نہ لگے۔فرش پر مٹی سےوہیل چیئر کے نشانات نظر آئے۔میں  ان نشانات کا تعاقب کرتی گئی جو مجھے باورچی خانے لے گئے۔ اس کی کھڑکی کے پردے کے دو سوراخوں سے سٹریٹ لائٹ کی باریک سی لہر نظر آئی۔ وہ سوراخ آنکھ کی سطح پر تھا جواتنے بڑےتھےکہ ان میں سے باہر کامنظر صاف دیکھاجاسکتاتھا۔باہر ہڈیاں، گلا سڑا سالن، پیزا ،سینڈ وچ کے ٹکڑےاور دیگر خورد و نوش  کی چیزوں  پڑی تھیں جن کی بدبو دماغ پھاڑرہی تھی۔مجھےسڑک کے کنارے کوڑے کاپلاسٹک کا ڈرم جتناتھیلانظر آیا جسے کھول کر زمین پر ڈھیر لگا دیاگیا تھا اور دو بچے اس میں سے اپنے مطلب کی اشیا ڈھونڈ رہے تھے۔ کیا یہ وہی بچے تھے جوسہہ پہرکو گلی میں سائیکل چلا رہے تھے۔ پاس سے کارگزری اور ہارن بجایاتووہ بھاگ گئے۔ساتھ والے کسی اور اپرٹمنٹ سے بچہ رونے کی آواز آئی۔میں نے پردوں کی ڈوری کھینچی توپردوں میں ایسےسوراخ ہر کھڑکی میں نظر آئے۔ میں  یہ منظر برداشت نہ کر سکی ۔

بچے کے چلانے کی آوازایک بار پھر آئی۔مجھے ایسا لگا جیسے اس کے بعد بچے کو غسل خانے کے ٹب میں بٹھایالٹادیاگیاہو۔' اب یہ برداشت سے باہر ہے 'میں نے سوچالیکن بدقسمتی سے محدود وسائل کی وجہ سے میں اس  مکان کے کرائے کے فیصلے سے نہیں نکل سکتی تھی۔ میں بیڈ روم آئی۔ میرے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں دوسری عمارات کے اپارٹمنٹ کے سامنے تھیں۔ اس کی کھڑکیوں میں پردوں نام کی کوئی شئے نہ تھی۔سوچا کہ براؤن کو فون کر لوں اور اس سے محبت بھری باتیں کروں۔چینی لڑکااپنی ٹھوڈی پر ہاتھ رکھے ابھی بھی پڑھ رہا تھا۔پڑوسی جوڑا اندر جا چکا تھا۔ میں پرانے اخبارات کے ڈھیر کے پاس آئی ،  اخبارات اٹھائے اور ننگے میٹریس پر پھیلا دئیے۔اپنالباس اتارا تو انگلیاں خود بخودجسمانی تار چھیڑنے لگیں۔  دنیا  کا نقشہ اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگوں میں بنانے لگی۔ تناؤدور کرنے میں مدت لگی پھر اپنانائٹ گاؤن پہن لیاجومیرے گداز جسم پر جچ رہا تھا۔اس بیگ نےمجھےکبھی مایوس نہیں کیا تھا۔اس میں ہرقسم کی ضرورت کی چیزیں موجود ہوتی تھیں۔ میں سنگل میٹریس پر لیٹ گئی۔چڑمڑخبارات جن پرمیں لیٹی تھی اشتہا پیدا کر رہے تھے۔میںجب بھی برائن کے ساتھ میکسیکو یا ہوائی   سیرکے لئے جاتی تھی تو  ہمیشہ بہت سے انڈر وئر ، میک اپ اور گولیاں ضرور ساتھ رکھتی تھی کیونکہ ماہواری  کے گندے خون کی بدبو براؤن اور مجھے دونوں کو  بے چین کردیتی تھی۔  

  ایک بار پھراس اپارڑمنٹ سے بچے کے چلانے کی آواز آئی۔ اس کی چیخیں بڑھتی جا رہی تھیں جسے سن کر مجھ پر دہشت طاری ہونے لگی۔میں میٹریس کے کنارے پر بیٹھ گئی ۔سڑک کے کھمبے کی روشنی مجھ  پر پڑ رہی تھی۔ غیر متوقع صورت حال سےمیری چھاتیوں کے درمیان پسینہ آ رہا تھا۔ ابلے  ہوئےانڈوں کا ذائقہ  اپنے ہونٹوں پر محسوس ہوا اور گلے کے عقب میں ایک ہسٹریائی کیفیت طاری ہو گئی۔شائدمیں کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔ملحقہ دیوار سےاس خاتون اور مرد کی جذبات بھری آوازیں ابھر رہی تھیں۔برائن کے ساتھ ہوائی  کے بحری سفر میں ساتھ والے کیبنوں اور سمندر  میں اتاری گئی کشتیوں  میں ایسی آوازیں سنائی دیا کرتی تھیں۔ وہ ڈوبتی ابھرتی آوازیں تیرتی ہوئی کشتیوں کے شور میں دب جاتی تھیں۔ ملی جلی آوازوں نے میرےجسم میں سرد ہوا دوڑا دی تھی۔مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ میں اپنی آنکھوں پر ہاتھوں کا سایہ کر کے پانی کی لہروں کا نظارہ کر رہی تھی۔ برائن پاس  ہی لیٹا  تھا۔ اس نے بازوؤں کے جھروکے سے میری طرف دیکھا اور پوچھا کیا بات ہے۔ اتنے غور سے کیا دیکھ رہی ہو؟ پتہ نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈوب رہا ہو۔اس نے جواب دیتے ہوئے لائف گارڈزکے کیبن کی طرف دیکھا کہ شائد وہاں نقل و حمل سے کوئی اندازہ  لگائےلیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ لیکن  بچے  کے چلانے کی آواز  کا  ان آوازوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔بچہ بڑی اذیت میں لگ رہا تھا۔ یہ سن کرمیرا دل گھٹنے لگا ۔ چھاتی کی ہڈی درد کرنے لگ گئی ۔ کیا یہ سب دیکھنے کے لئے میں ٹورونٹو آئی تھی۔میٹریس کی نکڑ پر بیٹھے تمام خیال میرے ذہن میں آ رہے تھے۔من بہلانے کے لئےاب اسے پورا لباس پہن کر برائن کو فون کرنا چاہیئے پھر سوچااسے کیاکہے گی۔

مجھے ایک اورتفریحی سفریاد آیا۔ میں تنکوں کا بڑا سا ہیٹ پہن کر بیٹھی تھی۔براؤن ٹینس کھیل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر  طمانیت تھی۔  اپنے دوستوں کو جب اس نےمجھے اپنی محبوب بیوی متعارف کروایا تو اس کے چہرے پر خوشی اور فخر تھا۔ان کے دوستوں کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس کیا جیسےوہ براؤن کی قسمت پررشک کر رہے ہوں۔ اس وقت ساحل کی جھونپڑی کی کھڑکی سے دیکھا  تو  دھوپ میں بیٹھا رہنےسے اس کامربع شکل کا جسم گندمی   ہو گیا تھا۔ اس وقت جو بات  میرے ذہن میں گونجی  وہ یہ تھی کہ برائن بچوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا تھااور سختی سے کہا ہوا تھا کہ بچے نہیں ہوں گے۔ شادی سے پہلے اس نے کبھی یہ بات نہیں کی تھی اس ریا کاری پر اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے سفر کی کچھ یادیں ذہن میں آئیں۔  میں نے اس وقت   نائٹ سوٹ  پہناہواتھا۔ بچہ نہ ہونے  کی وجہ سےمیں چپ چپ اور افسردہ تھی۔سستی اور کاہلی طاری ہو رہی تھی۔احساسات بجھ گئے تھے۔میں نےاپنے چہرے کو نائٹ گاؤن سے صاف کیا اور سسکیاں لیتے ہوئے دوبارلیٹ گئی۔ماضی اور حال کی یادیں آگے پیچھے آ رہی تھیں ۔ مجھ سے بے رخی برتنے، مردوں میں زیادہ دلچسپی لینے اوربچہ نہ چاہنے کی وجہ سےشک ہونے لگا  تھا کہ وہ ہم جنس تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھی ۔ عمارت  کی میرے اپارٹمنٹ  سے ملحقہ کھڑکی پرچینی لڑکے کو اندھیرا ہونے کی وجہ سے دیکھ پا رہی تھی لیکن مجھےیقین تھا کہ وہ کھڑکی کے پاس ہی تھا۔

ٹریفک کے بے ہنگم شوراور دھمک سے برآمدے کا فرش اور چھت لرزرہی تھی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے جھنجھنا بج رہا ہو لیکن سب باتوں سے بے نیازمیرا خیال تھا کہ چینی پڑھ رہا ہوگا۔  میلے کچیلے بچے پھر دکھائی دئیےکیا وہ دوبارہ گندگی کے ڈھیر پر آرہے تھے تا کہ ان کےپھیلانے کی جو کسر رہ گئی تھی وہ  پوری کر دیں۔بس بہت ہو گیا۔میں جلدی سے اٹھی ،دوبارہ لباس زیب تن کیاسینڈل پہنی اور چل دی اس وقت ایسےمحسوس کیا کہ میرے گھٹنے کانپ رہے تھے۔ برآمدے کے دوسری طرف اندھیرا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف ہو کر وہ چینی لڑکا بیٹھا  اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھ رہا تھا۔خواہش ہوئی کہ اس سے کوئی بات کروں۔ اس لڑکے نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا  اور پھر لکھنے لگا۔  

اتنی محنت کیوں کر  رہے ہو میں نےسوال کیا۔

میں اپنا مستقبل روشن کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے جواب دیا اور پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔

اس گلی کے اڑوس پڑوس کیسے ہیں؟

 کام چور ہیں۔صحت مندہونے کے باوجودزیادہ تر لوگ سرکاری مراعات کا نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اپنے اور پالتو جانور پال کر مستحق لوگوں کی حق تلفی کر رہے ہیں۔سرکاری خیرات پر پل رہے ہیں۔بے غیرت ہیں  یاپھر اٹھائی گیرے اور منشیات فروش ہیں۔

آتے وقت نکڑ پر ایک دواخانہ نظر آیا  تھا۔ شائد وہ اب بھی کھلا ہو اور اس کے اندر گاہک بھی موجود ہوں میں نے سوچا۔وہ دکان کافی دور ایک تنگ اورسنسان گلی میں تھی۔ دن میں بھی اس جگہ بہت کم ٹریفک  ہوتی تھی۔میں غلط موڑ مڑ گئی  اور الٹی سمت چل  پڑی ۔ ایک عجیب سے گھر  جس  میں پیلی روشنی کھڑکیوں سے نظر آرہی تھی  تک پہنچی تو گھبرا کر سانس برابر کرنے کے لئے رکی۔مجھےشک ہوا کہ کوئی پیچھا کر رہا تھا اورمیں سوچاکہ پولیس

 کی مدد حاصل کرنے کے لئے 911 پر فون کرنا چاہیئے۔ایسا سوچ رہی تھی کہ اس عمارت کا میں گیٹ  کھلا۔ایک حبشی نکلا۔اس کے پیچھے اور لوگ بھی سیڑھیوں کی ریلنگ پکڑ کراتررہے تھے۔ انہیں دیکھ کر سہم گئی اوراندھیرے میں ایک طرف ساکن کھڑی رہی اس لئے اسے نظر نہ آ سکتی  تھی۔وہ چلتے ہوئے میرے پاس سے بغیر نوٹس لئےگزر گئے۔ان کے پیچھے ایک ضعیف عورت جوڑوں کے درد سے کراہتے ہوئے آہستہ آہستہ اتر رہی تھی۔ اس خاتون کے ہاتھ مڑے ہوئے تھے۔ اسکے چہرےکے تاثرات سےایسی اذیت نظر آ رہی تھی جیسے انگلیوں کو غصے میں مروڑنے سے ہوتی ہے۔ اس کے گھنے سفید ابرو تیکھی ناک کے نیچے  تک پھیلے ہوئے تھے۔ خاتون کی نظر اتفاقاً مجھ پر پڑ گئی ۔ اس نے سانپ کی پھنپھناتی ہوئی آواز میں پوچھاکہ تم یہاں کیوں آئی ہو۔ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو؟

 تمہارا اس بات سے کیا تعلق؟ اپنی راہ ناپو۔میں نے اسے جواب دیا۔

کالے کے پیچھے دیگر لوگ ڈگمگاتے ہوئے آرہےتھے۔  ان کے ہاتھوں میں دھات کے اوزار تھے۔کالے کے ہاتھوں میں چھوٹے  سے کفن میں لپٹا ہوا ایک بچہ تھا۔ میں یہ دیکھ کرلعزگئی اور بھاگ کر واپس چلی گئی۔  خوف سے رعشہ طاری ہو گیا۔ بھاگتے وقت میں  گلی کی دیوار سے گھسٹتی گئی جس سے بازو چھل گئے تھے۔ ان سے خون رسنےلگا اور جم کر ڈھیر بن گیا۔جوں جوں میں بھاگ رہی تھی  پھیپھڑےدہشت سےپھول رہے تھے۔میں تھک کر آہستہ ہو ئی ۔ ایسا لگاجیسے کہ میں سحر کے جال میں پھنس گئی تھی۔ اس مردہ  بچے کو دیکھ کر مجھے خیال آیاکہ مجھے بچہ نہیں ہو سکتا۔ میں ماں نہیں بن سکتی۔ بچے کی پیدائش سے متعلق کسی خوشی  کی تقریب منعقد نہیں کر سکتی۔ بچے کے نام ، سالگرہ نہیں مناسکتی۔اپنے بچے کے لئے تحفے تحائف حاصل نہیں  سکتی   ۔بچے  کی صحت کے لئے فکرمند نہیں ہو سکتی۔ اس کی بیماری  کا علاج نہیں کروا سکتی اور اس کا چھوٹا سا کفن نہیں اٹھا سکتی۔  یہ سوچتے ہوئے میں بے خودی میں آگے بڑھتی گئی اور اپنی عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ اپنے دروازے پر پہنچی تو  روشنی کی لکیر کندھوں سے ٹکرائی۔ یا خدایا!  ایک مکڑا، ایک جالا اور ایک ہاتھ نے مجھے پکڑ لیا۔دروازہ کھولا تو تمام کمرہ روشنی سے منور ہو گیا۔

چینی طالب علم نے اپنا سر اٹھایا۔ آنکھوں پر آئی ہوئی لٹ کو جھٹکا دے کر پیچھے کیا۔ اس کے ہڈیوں والے کندھوں سے اس نے کرسی کو پیچھے ہٹایا   ، اٹھایااور کھڑکی کے پاس آیا۔ا س کاہاتھ پکڑکر اپنے سینے سے لگانے لگی  تو  احساس ہوا کہ میں کیا بچگانہ حرکت کرنے جا رہی تھی۔ وہ لڑکا آگے جھکا  اور اندھیرےمیںمیری کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔  کمرے کی تیز روشنی نے اس کی آنکھوں کوچندھیا دیا۔ وہ لڑکااپنی جگہ پر ہی آگے جھکا اور پتھر کے تختے پر اپنی کہنیاں ٹکا دیں۔ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔میرا من ایک بار پھر مچلا کہ اسے گلے لگالوں  پھر خیال آیا کہ کیا میں  پاگل ہو گئی ہوں۔ وہ  میرے ٹائپ کا نہیں۔ جاؤ اور سو جاؤ۔ جب  لڑکے نے مجھے واپس کمرے میں جاتے  دیکھاتو وہ بھی وہاں سے ہٹ گیا ۔  کمرے کی روشنی گل کرنے کے باوجود نیند میری آنکھوں سے دور تھی۔ میرے منہ سے ٹھنڈی آہ نکلی ۔ یہ بیوقوفی تھی۔آدھی رات کو مے خوروں  کی یاوہ گوئیاں تنگ کرتی رہیں۔ تمام رات پولیس کی گاڑیاں مجرموں کے پیچھے بھاگتی رہیں۔کبھی کبھارگولیاں چلنے کی بھی آوازیں آتی رہیں۔

آج بھی اس گلی والی اپارٹمنٹ کی وہ رات  یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اگلے دن میرا سامان آگیا۔ میں نے وہ اپارٹمنٹ چھوڑ دی۔ ایک مناسب جگہ تلاش کی۔ ایک ریسٹوران میں ویٹریس بن گئی۔کھانا پکانے میں مہارت حاصل کی اور گھر پرڈھابا کھول لیا۔میں نے  اپنے ڈھابے پراپنی دیرینہ خواہش کے مطابق  ۔ Cookies At The Doorکی تجارت شروع کر دی جو بہت مقبول ہوا او ر چند سالوں بعد میں نےفرینچائز بنا لیں۔  مجھے یہاں آکر ہرطرح کی کامیابی ملی لیکن  یہاں گزاری گئی پہلی رات  جو گلی آج بھی ڈراؤنا خواب ہے

Popular posts from this blog