آرتھر شوپنہار: ایک عظیم فلسفی ( پہلی قسط ) (Arthur Schopenhauer ( 1st Episode) (1788 - 1860 Germany








آرتھر شوپنہار: ایک عظیم فلسفی  (پہلی قسط  )
   ( 1st Episode)                                                                                            Arthur Schopenhauer 

(1788 - 1860
 Germany
 تحقیق و تجزیہ:  غلام محی الدین 

خلاصہ


" آرتھرشوپنہار" پہلا یورپی فلسفی ہے جس نے اپنے فلسفے میں پورب اور پچھم کے فلسفوں کا امتزاج کیا ہے۔ اس کے فلسفے کی بنیاد قنوطیت پر رکھی گئی ہے۔ اپنے نظریے کو تقویت دینے کیلئے اس نے مشرقی علوم  شامل کئے۔ نظریے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ معصوم نہیں ہوتا بلکہ پچھلے جنم کے گناہوں کا بوجھ ساتھ لاتا ہے۔ اسے اس جنم میں ایک تو سابقہ غلطیوں اور جرائم کی تلافی کرنا ہوتی ہے اور  ساتھ ساتھ اپنے جسم و جان کوساتھ رکھنے کیلئے اور سماجی، اخلاقی، روحانی ضروریا ت پورا کرنے کے لئے مسلسل محنت کرنا پڑتی ہے جو آسان کام نہیں۔ضروریات خواہشات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پرروٹی، کپڑا، مکان،جنس،لالچ، حسد، کینہ، کپٹ، روحانیت وغیرہ کے احساسات مسلسل پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی تسکین کے لئے ہر پل، ہر گھڑی اس کا استحصال ہوتارہتاہے۔ اس کے نزدیک انسان ایک ایسا جانور ہے جس میں طبعی ماورائی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جس  میں فطری طور پر جسمانی  وصائف کا علم تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ایسے معاملات جو احاطہءشعور سے باہر ہوتے ہیں،  کا اندازہ لگانے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔علم، تجربے اور ذاتی بصیرت سے ان میں اضافہ ہوتارہتا ہےجو وہ  چھٹی حس، بصیرت اور الہام وغیرہ سے حاصل کرتا ہے۔ انسان زندگی بھر اپنے وجودکی حیثیت قائم رکھنے کی تگ و دو کرتا رہتاہے۔ ہر ایک میں یہ فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ لازوال بنے۔ انسان ایک ایساجانور ہے جو روح پر یقین رکھتا ہے اورپراسرار امور کا سراغ لگانے میں دلچسپی لیتاہے۔اور ایسے عقائد جو حقائق اور اسکی  عقل و دانش سے باہر ہوں، انہیں رد کرتا ہے۔ انسان کے تمام معاملات کی تہہ میں خواہش (وِل) کا مکمل عمل دخل ہے۔ خواہش زیست (Will-To-Live) ایک ا یسی ناقابل مزاحمت اندھی قوت ہے جو اس میں ہر دم خواہشات پیدا کرکے اذیت میں مبتلا کرتی رہتی ہے۔کم و بیش اکثر خواہشات نا آسودہ رہتی ہیں۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتاہے کہ مکمل راحت نصیب ہو۔ایسا ہو بھی جائے تو تمام چیلنج  ختم ہوجاتے ہیں۔ زندگی کی چاشنی  جاتی رہتی ہے اور جامد ہو جاتی ہے۔  سکوت طاری ہو جاتا ہے۔  ہرسُو بوریت چھا جاتی ہے  اور مقصد حیات کا تصور مٹ جاتا ہے۔ اس سے افسردگی (ڈپریشن) پیدا ہو جاتی  ہے۔ اس احساس  کو نفسیاتی زبان میں "عارضی موت"  یا "ٹمپریری ڈیتھ" کہا جاتا ہے۔ اگر کسی وقت اسے ذہنی آسودگی حاصل  ہوتی بھی ہے تو یہ محض "لمحاتی"  ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد کوئی اور تمنا پیدا ہو جاتی ہے جو مشکلات کے پہیے کو پھرسے گھما دیتی ہے۔ شوپنہار کے نزدیک زندگی ایک اندوہ ناک سفر ہے۔ خود کشی اس کا حل نہیں۔ دنیاوی تکالیف سے چھٹکارا صرف اس وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اگر خواہشات کو پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ آرزوئیں نہیں ہوں گی تو  نہ کوئی غم، نہ جستجو، نہ کوفت اور نہ ہی مصیبت ہو گی اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا۔ اس کے نزدیک خواہشات کا خاتمہ دو صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک تو علوم و فنون کے فروغ سے، جن میں جمالیات، مصوری، موسیقی،محبت، شاعری، ادب، مجسمہ سازی، باغبانی وغیرہ ہے اوردوسری صورت "مراقبہ" یا "میڈیٹیشن" ہے جس میں روحانی تسکین  کے لئے دنیا تیاگ دی جاتی ہے۔ اُس سے نہ صرف ذہنی آسودگی ملتی ہے بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود بھی  کی جا سکتی ہے۔ شوپنہار نے یہ تصور مشرقی فلسفے سے لیا۔ اس نے بھارت ، چین، تبت اور دیگر مشرقی ممالک کا سفر کر کے یہ خیال حاصل کیا۔بھکشو، بھگت،سادھو، راہب، جوگی، درویش، صوفی وغیرہ اسکی مثالیں ہیں۔ یہ بات ناممکن ہے کہ خواہشات کو بالکل ختم کر دیا جائے لیکن یہ ممکن ہے کہ اپنی خواہشات کو اتنی کم سطح پر رکھا جائے کہ تن و من کا رشتہ قائم رہے۔

 شوپنہا ر کے فلسفے کا مطالعہ ہم تین  حصوں میں بیان کرتے ہیں۔
 
حصہ اول - حالات زندگی
 حصہ دوم - فلسفے کی ان شاخوں کا مختصر بیان جن کی اس نے اصطلاحیں استعمال کی ہیں
 حصہ سوم - شوپنہار کا فلسفہ

 حصہ اول

 حالات زندگی


آرتھر شوپنہار جرمنی کے شہر  "ڈینزگ" میں  22  فروری 788  عیسوی کو پیدا ہوا جوآج کل پولینڈ میں شامل ہے اور اب "ڈینکس"کے نام سے جانا جاتا ہے۔  اس کے والد کا نام "ہینرک فلو رس  شوپنہار" تھاجو ایک سوداگر تھا۔  وہ ایک شپنگ کمپنی کا مالک تھا۔  اسکے علاوہ  وہ ایک بنکربھی تھا۔ وہ اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔  اسکاخاندان ولندیزی تھا جو ہا لینڈ سے ہجرت کر کے جرمنی چلا آیاتھا۔ اس کے رشتہ دار بڑے بڑے سیاست دان، جاگیر دار اور نامور تاجر تھے۔اس کی والدہ "جوئینا شوپنہار" اسکے باپ سے بیس برس چھوٹی تھی۔  وہ ایک سینیٹر کی بیٹی تھی اور ایک ادیبہ تھی۔  اس کی ماں نے ملا جلا کر چھبیس کتب تحریر کی تھیں جن میں ناول، سفر نامے، سوانعمریاں اور مختلف موضوعات پر مضامین شامل تھے۔   وہ اعلی  سوسائٹی کی جان تھی۔ اسکے حلقہ ارباب ذوق میں نامور فلسفی بھی شامل تھے جن میں عظیم نام جے۔ڈبلیو گوئٹے، کرسٹوف مارٹن ویڈنڈ جسے اسکی لیاقت کی بنا پر جرمن والٹئیربھی کہا جاتا تھا، تھے۔آرتھر کی بچپن سے ہی ایسے علماء نے رہنمائی کی۔  جوئینا بہت فضول خرچ تھی، کھلی عادات کی مالک تھی جسے آرتھر سخت نا پسند کرتا تھا۔  غلط حرکات سے نہ رکنے پر اس نے بالآخرگھر چھوڑ دیا اور اپنی عمر کے آخری ستائیس سالوں میں وہ اپنی والدہ سے ملا تک بھی نہیں۔  اس کی ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام "ایڈیل شوپنہار"تھا۔ جب و ہ پا نچ سا ل کا تھا تو  نپولین  بوناپارٹ نے  ڈینزگ شہر پر قبضہ کر کے اسے پرشیا میں ضم کر دیا۔ اس کے والدین وہاں سے ہیمبرگ منتقل ہو گئے۔ اس کے والدین سیر و تفریح کے دلدادہ تھے۔  ہر سال مہینوں گھومتے پھرتے رہتے۔  وہ اپنے بحری جہاز پر دنیا بھر کا عموماً اور یورپ کا خصوصاً سفر کرتے۔ جہاں بھی جاتے،وہاں کی تجارتی،  ادبی،  ثقافتی اور علمی محافل میں بھر پور شرکت کرتے تھے۔  شوپنہار اور اس کی چھوٹی بہن بھی زیادہ تر ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس کے والد کی ذاتی لائبریری تھی۔ وہ اس بات کا دلدادہ تھا کہ اسکے بچوں کو بہترین تعلیم ملے۔ جب وہ نوسال کا تھا تو اس کے والد نے اسے فرانس کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا تاکہ وہ فرانسیسی سیکھے۔ وہ وہاں دو سال رہا اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کر لیا۔ جب وہ  پندرہ سال کا تھا تو اسکے والد نے اسے  1803 میں ومبلڈن  یو۔کے میں ایک بورڈنگ ہاؤس میں اسلئے داخل کروایا تا کہ اسے انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو۔ ایک سال وہ وہاں رہا۔ اسکے بعداپنے والدین کے پاس ہیمبرگ آگیا۔ اسکے باپ کی تجارت میں کافی بصیرت تھی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والا دور کارپوریٹ تجارت کا تھا اورمستقبل میں کاروبار علاقائی سے بین الا قوامی شکل اختیار کرنے جا رہاتھا تو اس نے آرتھر کو پیش بینی کے طور پر جدیدتجارتی تقاضوں سے ہمکنار کرانے کے لئے کارپوریٹ دنیا میں اپرنٹس شپ دلوا دی۔ کام سیکھنے کے بعدوہ سٹاک مارکیٹ میں کلرک بن گیا اور کارپوریٹ اداروں کی پیچیدگیوں او ر ان اداروں کی اندرونی چالوں کا بھیدی بن گیا۔ وہ دن میں تھوڑا سا وقت خرچ کرتا اورسٹا ک مارکیٹ سے گھر بیٹھے پیسہ بناتا رہا۔ وہ اس وقت بھی وہ پیسہ بنا رہا تھا جن تمام دنیا کساد بازاری کا شکارتھی۔ اس نے اپنے والدکی طرف سے ملنے والی جائیداد میں بے پناہ اضافہ کیا جبکہ اسکی والدہ او بہن نے غلط انویسٹمنٹ سے بہت نقصان اٹھایا۔

 وہ باقاعدہ سکول نہیں جاتا تھا بلکہ اسکی تعلیم کا انتظام اسکے والدنے گھر پر ہی کر رکھا تھا۔اسکی کوئی سوسائٹی نہیں تھی۔اسے اپنا زیادہ تر وقت اکیلے گزارنا پڑتا تھا۔وہ اپنا زیادہ وقت تعلیم میں اور لکھنے میں گزارتا تھا۔ اسکے والدنے اسکی بہترین تعلیم کے لئے اعلی ترین اساتذہ گھرپر رکھے ہوئے تھے۔ مسلسل سفر اور گھر میں ہی تعلیم کے انتظام کی وجہ سے  اسے پائیدار تعلقات  قائم کرنے میں زندگی بھرناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے بچپن سے روزنامچہ باقاعدگی سے لکھنے کا شوق تھاجس سے اسکی سوا نعمری لکھنے میں مدد ملی۔

جب وہ انیس سال کا تھا تو اس کے والد نے خود کشی کر لی۔ وہ اپنے والد کے بے حد قریب تھا۔اسکی  رحلت کے بعد اس کی زندگی میں خلا پیدا ہو گیا اور اس نے کارپوریٹ دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔ اور اپنی ماں کے ساتھ وائمر چلاآیا۔ غیر رسمی تعلیم تو وہ حاصل کر رہا تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب رسمی تعلیم حاصل کرے گا۔ اس مقصد کے لئے اس نے باقاعدہ سرٹیفیکیشن کے لئے  ایک نجی   یونیورسٹی میں داخلہ لیا جو کامرس تعلیمات کے لئے مستند شمار کی جاتی تھی۔ وہاں اس نے امتیازی نمبروں سے ہائی سکول کیا اور یونیورسٹی تعلیم کے لئے اہل ہو گیا۔ اس نے 1809 میں یونیورسٹی آف گوٹنجن میں میڈیکل میں داخلہ لیا۔  پہلے سال اس نے فزکس، جیالوجی، تاریخ اور باٹنی کے مضامین۔ دوسرے سال اس نے ایسٹرونومی، اتھنالوجی، فزیالوجیاور فلسفے کے مضامین منتخب کئے۔ اسکی دلچسپی فلسفے میں روز بروز بڑھنے لگی۔  وہ بہت ہی سنجیدہ طالب علم تھا اور ہر لیکچر کے باقاعدہ نوٹس لیا کرتا تھا جن معلومات کا اسے بہت فائدہ ہوا جو بعد میں اس نے اپنے فلسفے میں استعمال کیں۔  اس نے تمام نامور فیلسوف کا مطالعہ کیا۔  اس کی دلچسپی ما بعد از طبیعیات (میٹا فزکس) سے ہوئی اور متعلقہ علوم میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس نے اپنے فلسفے کی تشکیل میں تمام سائنسی علوم کے ساتھ فلسفے کی مختلف شاخوں کا گہرا مطالعہ کیا جن کا تعارف اگلے صفحات میں مختصراً کروایا جائے گا تاکہ  قار ی شوپنہار کے نظریے کو صحیح  طور پر سمجھ پائیں۔  

طبیعیاتی اور فلسفے کا عمیق مطالعہ اس کے شہرہ آ فاق نظریہ قائم کرنے کی بنیاد بنے۔ اس نے 1818 میں برلن یونیورسٹی سے پی۔ ایچ ڈی کی جس کا عنوان "معقول دلائل کے چار  بنیادی  عناصر" یا (آن دی فور فولڈ رُوٹ آف دی پرنسپل آف سفیشنٹ ریزننگ) تھا۔  وہ برلن یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے نکال دیا گیا جس کا ذکراسکے نظریے میں کیا گیا ہے۔

شوپنہار ایک چھوٹے قد کا شخص تھا۔ اسے شور سے سخت نفرت تھی۔ وہ  اپنے اپارٹمنٹ اکیلا رہ کر  پڑھائی لکھائی میں مگن رہتا تھا۔ وہ اپنے ٹھکانے بدلتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ فرینکفرٹ میں رہ رہا تھا جہاں اسکے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک سینتا لیس سالہ خاتون "کیرولین لویس مارگویٹ" رہتی تھی۔ وہ خاتون اپنے کمرے میں اونچی اونچی آواز میں بحث و مباحثہ کیا کرتی رہتی تھی۔ شوپنہار نے اسے کئی بار روکا مگر وہ باز نہ آئی۔ ایک دن جب وہ خاتون سیڑھیوں میں کسی دوست کے ساتھ حسب معمول اونچی اونچی آواز میں بحث کر رہی تھی تو شوپنہارنے اسے دھکا دے دیا جس سے وہ معذور ہو گئی۔  اس نے اس پر مقدمہ کر دیااور شوپنہار 1821میں وہ  مقدمہ ہار گیا اور زندگی بھر اسے جرمانے کے طور پر عدالت کے حکم سے مقرر کردہ رقم ادا کرنا پڑی۔ 

وہ اپنے فلسفے کے بنیادی نکتے" تارک الدنیا:  لوگوں کی خواہشات" کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا تو ایک قلمی ساتھی نے اسے مشرقی  علوم کا گہری نظر سے پڑھنےاور مشاہدے کا مشورہ دیا۔ اس مقصد کے لئے وہ  ہندوستان، تبت، نیپال، چین اور کئی دیگر مشرقی ممالک گیا اور بکھشوؤں، سادھوؤں، جوگیوں، سنتوں کی طرز حیات کا مشاہدہ کیا۔  ویدانیت اور اپنشد کا مطالعہ کیاتو اسکا  اپنے اس نظریے پر یقین پختہ ہو گیا کہ انسان بغیر خواہشات کے نہ صرف رہ سکتا ہے بلکہ وہ زندگی بہترین ہوتی ہے۔ اسلئے واپسی پر اس نے مزید جوش سے اس موضوع پر کتب لکھیں۔ 

شوپنہار کا اکلوتا ساتھی ایک کتا تھاجس کا نام اس نے "آتمن" رکھا ہوا تھاجوہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ صبح سات آٹھ بجے سو کر اٹھا کرتا تھا۔ کافی بنا کر پیتا، آدھ گھنٹہ  اپنشد پڑھتا، پھر بانسری بجاتا اور باقی وقت  تخلیقی کام کرتا تھا۔ اس کے نزدیک روزانہ چار گھنٹے تخلیقی کام کیلئے کافی ہوتے تھے۔ اس کو عمدہ کھانوں کاشوق تھا۔ وہ  نہتو فضول خرچ تھا اور نہ ہی کنجو س۔ سہ پہر کو  وہ ہر صورت جوگنگ کیا کرتا تھا اور آتمن اس کے ساتھ ہوتا تھا۔سیر سے آکر وہ فرانسیسی اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ شام کو وہ تھیٹر یا اوپرا چلا جاتا اور پھر سوجایا کرتا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ ہر رو ز نو گھنٹے ضرور سونا چائیے اور وہ ہمیشہ نو گھنٹے کی نیند لیتا تھا۔ ایک دفعہ وہ سیر سے  واپس آیا تو بیمار پڑ گیا اور فوت ہو گیا۔ فرینکفرٹ میں دفن ہوا۔ زندگی کے آ خری چند سالوں میں اس کے نظریات کو پذیرائی ملنا شروع ہو گئی تھی۔ مشہور لوگوں کی طرح اس کی خدمات کے نتیجے میں اسکا ایک مجسمہ اور پورٹریٹ اسکی زندگی میں ہی بنا  دئے گئے تھے۔اسکی اصل شہرت اسکی موت کے بعد ملنا شروع ہوئی  اور  اب تک اس میں کمی نہیں آئی۔ اس نے اپنے نظریا  ت میں  زیادہ ترمندرجہ ذیل اہم علوم شامل کئے۔ 

(Topics)
Metaphysics, Aesthetics, Psychology, Morality, Ethics, Phenomenology.

(Writings)
The World As Will And  Representation
On The Basis Of Morality
The Art Of Being Right Volume I
Parerega And Parlipomenia
Essays  Of  Schopenhauer
The Wisdom Of Life 
The World As Will And  Idea Volume I
The Wisdom  Of  Life
On The Fourfold  Root Of The Principle  Of  Sufficient Reasoning
The Art Of Literature
Studies In The Pessimism
The Art Of Being Right Volume II
The Freedom Of The Will
The World As Will And  Volume II
Religion: A  Dialogue  And  Other Essays
The Art Of Controversy And Other Posthumous Papers
Counsels  & Maxims
On Visions And Colors
The Wisdom  Of  Life  And  Counsel And  Maxims
Wisdom Of  life: Being The First Part Of  Arthur Schopenhauer 's Aphorismen  Zur Lebensweisheit
On The Suffering  Of The World
On Human Nature
Essays And Aphorism
The Essays  Of Schopenhauer On  Pessimism
The Two Fundamental  Problems  Of  Ethics
The Wisdom  Of Life And Other Essays
The Essential: Key  Selection
Schopenhauer :  A Guide for The Perplexed 

 حصہ دوم 

یہ حصہ ان معزز قائرین کے لئے ہے جو فلسفے کی وضاحت میں جانا چاہتے ہیں۔ ورنہ حالاتِ زندگی کے بعد سیدھا شوپنہار کے فلسفے پر جایا جا سکتا ہے۔

فلسفے کی وہ اہم  شاخیں جن کی شوپنہار نے اصطلاحات استعمال کیں درج ذیل ہیں:
اس نے اپنے فلسفے کی بنیا د قدیم یونانی اور یورپی فلسفوں پر رکھی جن کے موضوعا ت کافی تکنیکی تھے۔ اس نے  فلسفے کی ان شاخوں کی اصطلاحات اپنے فلسفے میں استعمال کیں جن کو جانے بغیر اسکے فلسفے کو سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ اسلئے ان کا مختصر طور پر جائزہ لیتے ہیں۔
 

 ٭)  ما بعد از طبیعیات   (Metaphysics) :  

علم کی وہ شاخ جو انسان اپنے علم، عقل، تجربے اور بصیرت کی بنا پر مسائل کو سلجھانے کے لئے استعمال کرتا ہے "مابعدازطیعیات" کہلاتی ہے۔ ہر وہ شئے جو ظاہری آنکھ،حواس خمسہ، ذہن، روح  اور دیگر خواص کو بروئے کار لا کر حقائق کا مطالعہ کرکے اس کی وضاحت کرے فلسفے کی ما بعد از طبیعیات  کے دائرے میں آتی ہے۔  

یونانی فلسفی "تھامس  ایقوینوس"  کے زمانے ساتویں قبل از مسیح سے اسکے ذریعے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بنیا دی طور پر یہ وجودیت کی حیثیت پر بحث کرتی ہے۔ شئے کے ہونے یا نہ ہونے کا مطالعہ کرتی ہے۔ مختلف واقعات میں اسباب معلوم کرتی ہے۔ ان اشیاء کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو تبدیل ہونے والی نہ ہوں اس کے مطالعے میں متنوع  مسائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے جیسے حتمی حقیقت کیا ہے؟ کون سی شئے وجود رکھتی ہے؟سچائی کیا ہے؟ کیا خدا کا وجود ہے؟  اگر ہے تو ثابت کیا جائے۔  برائی اور نیکی کے معیا رکیا ہیں ؟ برائی کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا جسم اور روح موجود ہیں؟ وقت کیا ہے؟ مقام کی کیا اہمیت ہے؟ زندگی کیا ہے؟ کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ ہمارا وجود کیا ہے؟  اس دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟ دنیا کےعمومی خدوخال کیا ہیں؟ دنیا کا وجود ہی کیوں ہے؟  انسان اس دنیا میں کیسے اور کہاں سے آیا؟ دنیا مختلف خد و خال کے ساتھ موجود ہی کیوں ہے؟  کیا اعداد قسمت پر اثر انداز ہوتے ہیں، کالا علم ،ٹونا ٹوٹکا وغیرہ جیسے سوالات کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔

بنیادی طور پران سوالا ت کا حل دو بڑے موضوعات اور عنوانات  کے تحت کیا جاتا تھا۔ پہلا موضوع "کائنات کے وجود" یا "کاسمولوجی" کی حقیقت معلوم کرناتھا۔ وہ شئے جو تبدیل نہیں ہوتی، مستقل ہے، اس کی کیا  ہیئت ہے۔  دنیا کی تاریخ میں پہلی شئے جسکا مطالعہ شروع کیا گیا وہ کائنات  کا وجود تھا جس کے مطالعے میں دلچسپی آج بھی اسی شدت سے موجود ہے۔ قدیم دور میں خدا کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں اور دیو مالا ئی کہانیوں کے روپ میں پیش کی گئیں۔

دوسرا بڑا موضوع جس کا ما بعد از طبیعیات نے مطالعہ کیا وہ "وجود کا مطالعہ" یا  " دی سٹڈی آف بی اینگ" تھا۔  ارسطو نے وجودیت کی بنیادی اقسام کا خاکہ تیار کیا۔  اس نے اس فلسقے کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔  

(1)  "عمومی ما بعد از طبیعیات" یا "جنرل میٹا فزکس"  ۔  اس کو علم وجودیات بھی کہا جاتا ہے۔  
(2) "خصوصی ما بعد از طبیعیات" یا "سپیشل میٹا فزکس"۔ اس کو علم تکوینیات بھی کہا جاتا ہے۔  

 
 علم وجودیات  کے ذریعے حقیقت دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

(1.1) "حقیقت بینی" یا "رئیلزم" کا طریقہ:

 جب وجود کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو محقق کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اسکا حل حقائق پر مبنی ہو گا ۔ مطالعےکے دوران اسباب کا پتہ چلایا جا سکے گا۔ جب وجوہ معلوم ہو جائیں گی  تو انہیں ہی سچ کہا جائے گا۔اور  اسکے تحت کسی بھی صورت حال میں صرف ایک ہی سچ پایا جاتا ہے۔ اسکی بھی دو ذیلی صورتیں ہیں۔۔۔

 (1.1.1) ناقدانہ حقیقت بینی  یا "کرٹکل رئیلزم"
(1.1.2) معروضی حقیقت بینی یا  "آبجیکٹوو رئیلزم"
 

                
ناقدانہ حقیقت بینی کو "افلاطونی حقیقت بینی" یا "پلیٹونک رئیلزم" بھی کہتے ہیں۔ اس طریقے  کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کسی مظہر کا مطالعہ منطقی سطح پر کر کے کسی  نتیجے پر پہنچا جائے۔ دلائل سے مسئلے کا صحیح حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ درست ہے تو کسی بھی پہلو سے اس کا جائزہ لیا جائے  تو نتیجہ یکساں ہی نکلتا ہے۔حقیقت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

معروضی حقیقت بینی میں کسی مسئلے کو سلجھانے میں عوامل کا  اس انداز  سے جائزہ لیاجاتا ہے کہ جس کی ظاہری طور پر تصدیق کی جا سکے اور ایسی سچائی کو تعمیمی یا "جنرلایئزڈ"  شکل دی جا سکتی ہے۔ سچائی ہمیشہ ایک ہی ہوتی ہے۔ اس نظریے کی رو سے ہرمقام، ماحول اور وقت میں کسی مسئلے کا نتیجہ یکساں ہوتا ہے۔
               

(1.2)  نسبتیت یا  علا قا ئیت یا اضافیت یا " ریلیٹوازم" کا طریقہ:

حقائق تک رسائی کا یہ طریقہ حقیقت بینی  کے بر عکس ہے۔ اس میں  ایک مسئلے کا حل کئی طرح سے نکل سکتا ہے اور سب  حل صحیح ہوتے ہیں۔ کسی صورت حال میں بیک وقت کئی حقائق پائے جاتے ہیں۔ ان سب کا  جائزہ لے کر مختلف حل ڈھونڈے جاتے ہیں۔۔ دوسرا  یہ کہ سیاق و سباق کو مد نظر رکھ کر سچائی معلوم کی جاتی ہے۔ تیسرا ان معاملات کے بارے میں  جو کہ بظاہر نظرنہیں آتے لیکن موجود ہوتی ہیں معلوم کی جاتی ہیں۔ چوتھا یہ کہ نتائج مشابہہ حالات میں  لاگو کرتے ہیں۔ اس طرح  سچ کی تلاش میں معاملات کے ہر پہلو کا گہری نظروں سے مشاہدہ کیا جاتا ہے، سیاق و سباق  کے تحت دیکھ کر حتمی نتیجے تک پہنچا جاتا ہے ۔   ما بعد از طبیعیات کے علوم میں جن موضوعات پر تحقیقات کی جاتی ہیں وہ  درج ذیل ہیں:
نہج، صورت ،جہت،وقت،مقام کی نوعیت،اسباب و علل،کائنات،آفاقی اوردیگروصائف ،  آزاد خواہش اور مصمم ارادہ، وجودیت  بمقابلہ مثالیت اور معدیت بمقابلہ مثالیت وغیرہ ہیں۔

وہ موضوعات جن کا مطالعہ ما بعد از طبیعیات کے احاطے سے باہر ہے وہ درج ذیل ہیں:
 اخلاقیات،  اعتقادات،کسی وقوعے کا جواز کہ کسی شخص کے وجود سے کیا مراد ہے؟آزاد اور خود مختار خواہش کے مسائل وغیرہ ہیں۔ 

٭) نظریہ علمیات یا (Epistemology) :

کسی عقیدے یا رائے میں معلومات کی اقسام کا مطالعہ کر کے اس میں معقولیت تلاش کرنے کے علم کا نام نظریہ علمیات ہے۔ یہ استدلال اور معقولیت کی بنا پرجواز معلوم کرتا ہے کہ وہ بھروسہ صحیح ہے یا نہیں۔ اس میں چار اقسام کے مطالعات کئے جاتے ہیں۔

a) معلومات کی اقسام کا اس انداز میں فلسفیانہ تجزیہ کیا جاتا  ہے  کہ سچائی اور حقیقت کیا ہے؟
 
b) ایسے موضوعات کا فلسفیانہ جائزہ لیا جاتا ہے جن میں ا بہام پایا جائے تاکہ ان میں شکوک و شبہات کو دور کیا جا سکے۔

c) علوم کی وسعت، دائرہ کار اور ذرائع کی تلاش کی جاتی ہے جو ان عقائداورنظریات کو صحیح ثابت کر سکیں

d)    ایسےنظریے یا رائے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کسوٹی بنائی جاتی ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟  

اس طرح علمیات کے ذریعے ہمیں سچائی کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔  علم کیسے حاصل کرتے ہیں؟ نئی چیزیں کیسے دریافت کی جاتی ہیں؟ کس قسم کی سچائی پائی جاتی ہے؟ کس قسم کے روابط پائے جاتے ہیں؟ یہ تحقیق معروضی طریقے سے کی جاتی ہے۔سچائی معلوم کر کے پیمائش کی جاتی ہے تا کہ خارجی سطح پر بھی دیکھی جا سکے۔ زیادہ سچ اور مقداری سچائیاں پائی جاتی ہیں۔ سچائی ایک مثبت علامت ہے جسکا تعلق حساب دانی سے ہے۔ 

علم وجودیات"اونٹالوجی" اور علم  علمیا ت "اپسٹمالوجی" مل کر کام کرتے ہیں۔  یہ سب حقائق معلوم کرنے کیلئے وجوہات تلاش کرتے ہیں۔  اس کے علاوہ  معروضی  طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔  ان سب  علوم میں مطالعہ میں سب سے پہلے روز مرہ زندگی میں معمولات ادا کرتے وقت کوئی رکاوٹ آتی ہے جس سے مسئلہ پیدا ہوتاہے جسے جاننے کی اور پاٹنے کی کوشش شروع ہوتی ہے۔ رکاوٹ کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے۔ علم، تجربات اور بصیرت سے خیالات  ابھرتے ہیں۔ محنت شاقہ کر کے مطلوبہ اعداد و شمار اکٹھے کئے جاتے ہیں یا پھر کسی موقعے پر بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ ٹیم ورک کے ذریعے اسکی صداقت کی تصدیق کی جاتی ہے اور پھر صحیح نتائج کو لاگو کیا جاتا ہے۔

علم وجودیات اور علم علمیاتکے عقائد اگر باہمی طور پر مل جائیں تو  فلسفےمیں علم  کی اس شاخ کو مظہریاتی علم یا "فنومنیولوجیکل" کہتے ہیں۔ 

٭) طریقیات یا اصولیات یا  (Methodology) :


علم اصولیات کے  شعبے میں کسی مظہر میں اشیا ء کو منظم طریقے سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ فلسفیانہ انداز میں مواد کس طرح سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس میں انٹرویو،  خارجی مشاہدہ، سروے اور دستاویزات کے ذریعے معتبر صحت مند مواد  کے ذریعے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی غیر متوقع چیز ہمارے سامنے آ ہے تو اس کو ہم تکنیکی زبان میں مسئلہ یا "پرابلم" کہتے ہیں اور درج ذیل مراحل میں وہ قانون کی شکل اختیار کرتا ہے۔ 

مسئلہ(پرابلم) کے بعد مفروضہ یعنی فرضی حل (ہائیپاتھسز) قائم کیا جاتا ہے۔ اس  کے بعدتعمیم (جنرلایئزیشن) ہوتی ہے جو اس فرضی حل کو تمام آبادی پر لاگو کرتی ہے۔ اگر یہ حل بار بار صحیح ثابت ہو تو پھر وہ نظریہ (تھیوری) بن  جاتا ہے جوصحیح بھی ثابت ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اگر  وہ  مختلف مقامات اور اوقات میں ہمیشہ یکساں نتائج پیش کرے تو وہ قانون (لاء) بن جاتا ہے۔

 روز مرہ زندگی میں جب کوئی  ایسی الجھن ہمارے سامنے آئےاور اس کے لئے پہلے سے کوئی حل موجود نہ ہو تو ہم سچائی تک پہنچنے کے لئے   مزید تحقیقات کرتے ہیں تا کہ  اصل تک پہنچ سکیں۔ اس علم کوحقیقت بینی وجودیات کاعلم "ریلیٹوسٹ اونٹالوجی" کہتے ہیں۔ یہ باطنی اور خارجی، احساساتی اور اعداد و شمار صورتوں میں معلوم کیا جاتا ہے اسلئے مطالعہ کی غرض سے اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  

a) علم مظہر یاتی اصولیا ت یا "فینومنولوجیکل میتھڈولوجی" -- محقق  انٹرویو، سروے یا سیاق و سباق جس کے تحت واقعات ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں کا تجزیہ کر کے معتبر نتائج حاصل کرتا ہے۔  اس میں سیاق و سباق سے مراد وہ تمام معلومات لی جاتی ہیں جو کیفیتی (کوالیٹیٹو) ہوں جن کی بنیاد ذاتی علم، تجربہ،بصیرت، جذبات و احساسات ہوتے ہیں،پرتحقیقات کی جاتی ہیں۔اس میں استقرائی طریقہ یا "اِنڈکٹوو ریزننگ" استعمال کیا جاتا ہے۔ محقق کے پاس پہلے سےنظریات موجود ہوتے ہیں۔ فلسفی  اپنے مطالعہ میں زیریں سے بالائی  سطح  کا طریقہ یا "باٹم ٹُو ٹاپ" کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ فلسفی اس وقت اندھے کنویں میں ہوتا ہے، کم سے کم معلومات سے اپنے مطالعے کا آغاز کرتا ہے۔ اس کے سامنے کھلا میدان ہوتا ہے۔ تمام متعلقہ عصری معاملات حاصل کر کے اپنی تحقیق شروع کرتا ہے، ان سب کی صحت یا جوازِ مواد (ویلیڈٹی) اور اعتباریت (رلائبلٹی) کا جائزہ لیتا ہے اور آہستہ آہستہ سادہ سے مشکل کی طرف جاتا ہے۔ اس قسم کے تجزیے میں فلسفی کے پاس لامحدو د وقت ہوتا ہے، غیر ترتیب وار مواد بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بڑی گہرائی میں انٹرویو، سروے اور ہر قسم کے مشاہدات کرتا ہے۔ وہ اپنے علم، تجربے اور بصیرت  کی بنا پر جواس کے پاس ہوتا ہے، وہ پرانے مواد میں ڈال کر اس میں ترمیم و اضافہ یا رد  کر سکتا ہے۔ اگر اس کے پاس  وجوہ ہوں تو اپنی قیاس آرائی کر کے اپنا مفروضہ بنا کر اس پر مزید تحقیق کر سکتا ہے۔  اگر اسکے قائم کردہ اندازے صحیح ثابت ہوں تو وہ انہیں عمومی سطح پر لاگو کرکے تعمیم (جنرلائزیشن) کر سکتا ہے اور اگر وہ  اس سطح پر بھی ثابت ہو جائیں تو پھر وہ نظریہ (تھیوری) قائم کر لیتاہے۔

b)کمیتی مظہریاتی  یا استخراجی طریقہ یا "کوان ٹیٹیٹو انیلیسز"-- اس میں حقائق کی تائید و تردید اعداد و شمار کے تحت کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ استقرائی طریقے کے بر عکس ہے۔ اس میں فلسفی تحقیقات کا آغاز با لا ئی سطح سے زیریں سطح  یا "ٹاپ ٹُو باٹم" کی طرف کرتا ہے۔نظریہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اعداد و شمار اور اصول و ضوابط پہلے سے طے ہوتے ہیں۔ نظریے سے متعلق مخصوص مواد موجود ہوتا ہے۔ فلسفی خصوصی مواد کے تجزیے سے اپنی تحقیقات کا آ غاز کرتا ہے۔ مواد کم ہوتا ہے۔اس کے پاس اس نظریے کو صحیح یا غلط پرکھنے کے لئے کم وقت ہوتا ہے۔

ا ب ہم شوپنہار کے فلسفے کی جانب آتے ہیں۔

حصہ سوم
شوپنہار کا فلسفہ
 

شوپنہارجس کے نام کا مخفف شوپ  (Schop (ہے، روحانیت کا علمبردار تھا۔ اس کی سوچ دقیانوسی تھی۔   اس نے کبھی نہ ختم ہونے والے جسمانی، ذہنی، اخلاقی، سماجی تفاوت کو تسلیم کیا۔ یہ انسان کو خواہشات کے ذریعے  میں جکڑے رکھتے تھے۔  فرد کے  آلام اس کے نزدیک صرف ’روحانیت‘  سے ہی کم ہو سکتے تھے۔  اس کا ایمان تھا کہ خواہشات ذہنی بالیدگی پیدا کرتی ہیں اور یہ سلسلہ مستقل ہوتا ہے۔  اگر ان پر ضبط پا لیا جائے تو وہ بہت حد تک ختم  کی جا سکتی ہیں۔ اس کے لئے اُس نے جو طریقہ اپنایا، وہ وجدان  تھا۔  اب ہم شوپنہار کے فلسفے کے کلیدی نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔  ان میں اہم درج ذیل ہیں۔  سب سے پہلے اسکی ماہیئت کو دیکھتے ہیں۔

 

فلسفے کی ما ہیت (Nature Of Philosophy)

 

شوپنہار نے اپنے فلسفے میں جس چیز پر زور دیا وہ گناہوں اور مظالم سے چھٹکارے کی خواہش اور ان وجوہات کو تلاش کرکے مسائل سمجھنا اور حل کرنا تھا۔ اس کے لئے اس نے دو بنیادی اصول بیان کئے۔ جن میں۔۔۔

 

1)   خواہش بطور دنیاوی نمائندگی  یا   

Will  Representation - WWR The World As 

 

2 )  اصول معقول وجوہات  یا 

The  Principle  Of  Sufficient  Reasoning    

 

شوپنہار  کے فلسفے کی بنیاد انسانی المیہ پر ہے۔  اس کے نظریے کے مطابق انسانی زندگی کا آغازہی دردناک ہے۔  وہ روتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔  پیدائش کے وقت گناہوں کا طوق اس کے گلے میں پڑا ہوتا ہے۔   مادر شکم کے آرام دہ ماحول کی راحت ختم ہو جاتی ہے۔  تمام زندگی اسے سماج میں گزارنا ہوتی ہے۔   دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔  کبھی نہ ختم ہونے والی  صعوبتیں  اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔  اسے دنیا میں سانس اور روح کا تعلق قائم رکھنے کے لئے  اپنی خواہشات کو محسوس کرنا،  اس کی صحیح شناخت کرکے اسے نمائندہ حیثیت  دینا   اور  دنیا کے سامنے دلائل سے ایسے پیش کرنا کہ وہ اسے حقیقی سمجھیں تاکہ وہ سلجھائی جا سکیں، ایک اہم مسئلہ ہے۔   یہ ایک کٹھن عمل ہوتا ہے  جس کے لئے اسے مرحلہ وار اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔    

 

شوپنہار نے کہا کہ ہر شخص  ڈبلیو-ڈبلیو-آر کا عمل اصول معقول دلائل (پرنسپل آف  سفیشنٹ ریزننگ)  کے ذریعے کرتا ہے۔ اس اصول کو  بیان کرنے سے پہلے  ڈبلیو-ڈبلیو-آر کو جاننا ضروری ہے جس میں اس نے سب سے پہلے خواہش کے نقطے کو بیان کیا۔ 

 

1.1)   خواہش  - (Will)

1.2)   دنیا بطور  نمائندگی - ( World As Representative Of Will )         

 

1.1)  خواہش    (Will)

جسم میں شئے کی کمی یا زیادہ ہونے کا  ایسا عمل جو فرد میں بے چینی کا باعث بنے    ُ خواہش ٗ کہلاتا ہے۔  یہ احساس  اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ کیفیت ختم یا قابل برداشت نہ ہو جائے ۔  جان و تن کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان چاہئے۔   بھوک، پیاس، نیند،تھکان،درجہ حرارت کی باقاعدگی، درد  سے چھٹکارا،بول و براز  کا اخراج،  جنس،ما  دری  پدری شفقت،  رشتوں کے باہمی  تعلقات، جان و مال کی حفاظت وغیرہ    درکار ہوتے ہیں۔  ان میں کمی کی صورت میں اسے دور کرنا اور معمول سے زیادہ ہو جائے تو اسے نارمل کرنے کی خواہش  ایک فطری عمل ہے۔

 

بات جسمانی خواہشات تک محدود نہیں رہتی۔  عضویاتی  اور عضلاتی نظام  جو غیرارادی اور ارادی طور پر نارمل افعال سر انجام دیتے رہتے ہیں، متوازن رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔   گلے، پھیپھڑے، دل، جگر، معدے، آنتوں، جنسی عضویا ت،  حواس خمسہ،   غدودوں کا نظام،اخراجی غدود(ایکسکریٹری  یا ایگزو کرائن سسٹم)، دروں افرازی غدودوں کا نظام (انڈو کرائن گلینڈ سسٹم)  وغیرہ  کے اعمال معمول کے مطابق  انجام دئیے جاتے ہیں۔  کسی نظام کا  معمولی سے معمولی حصہ بھی بگڑ جائے تو خلل  دور کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ 

 

 ارسطور انسان کو سماجی حیوان کہتا ہے۔  دنیا میں آتے ہی وہ دوسروں کا  محتاج ہو جاتا ہے۔  آنکھ کھولتا ہے تو اپنے گرد ونواح میں ماں باپ اور عزیزو اقارب  دیکھتا ہے۔   انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اسے معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو لامحالہ انہی سے رسمی اور غیر رسمی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائیوں کو موجود پاتا ہے۔ انہی کے ساتھ  معاشرت کرتا ہے۔   اپنی ضروریات کی کمی بیشی کا اظہار رو کر یا   جسمانی تاثرات سے کرتا ہے۔   وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو  دوسروں سے تعلقات کی اہمیت کا علم ہوتا جاتا ہے۔  خود کو قابل قبول بنانے کے لئے وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسروں کو پسند ہوں یا   جزا وسزا کے ذریعے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔  ہر انسان اپنی خواہشات کے تابع ہے۔ہر شخص منفرد ہے۔ انفر ادی  اور گروہی سطح پر ان سے نباہ کے لئے معاشرتی مطابقت کی خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے۔  فرد کی دوسرے فرد سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔  دوستانہ، معاندانہ نیم گرم جوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔   باہمی تعلقات اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرکے حل ڈھونڈنے،  رویے، تعصبات، فیشن، کلچر، ثقافت، قائدانہ صلاحیتوں کا حصول، پراپیگنڈہ،ذرائع ابلاغ و غیرہ کے  تحت مقاصد پیدا ہونا  اور ان سے مطابقت  کے لئے موزوں اقدامات کئے جاتے ہیں۔

 

ہر بنی نوع انسان پیدائش سے ہی بہت سے اداروں کا رکن  بن جاتاہے۔  خواہشات کا علم، بیان اور تکمیل  وہ انہی اداروں سے سیکھتا ہے۔  ارثی اور سماجی  اداروں کی رکنیت کے مطابق اسے  اپنی خواہشات کو ڈھالنا پڑتا ہے ۔  ہر شخص کو  پوری زندگی سماج سے تال میل رکھنا پڑتاہے اس لئے اسے معاشرت (سوشلائیزیشن)  کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے  جس میں اسکے  والدین،  گھریلو ماحول،  پرورش اور تربیت کے طریقے،  رشتے دار،  ہمجولی،  سکول،  کھیل کے میدان،  ہمسائے،   مذہبی اور قانونی ادارہ جات  وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔  علاوہ ازیں  اسے ان  اداروں کے تحت اپنے گروہ کے ساتھ ،  اپنے گروہ  کے دوسرے گروہ  یا گروہوں کے ساتھ تعلقات بھی سیکھنا پڑتے ہیں۔  اگر وہ اپنے  دوستوں،  ہم جولیوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، سماجی، رفاہی اداروں کی اطاعت گزاری نہ کرے تو  ان گروہوں میں اس کی قدر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔   بعض حالات میں تو اس کا حقہ پانی بھی بند کر دیا جاتا ہے۔   ہر ایک کی جبلت میں شامل ہے کہ اس کو عزت ملے۔ اس کی اہمیت کم ہو جائے تو خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔    اسی طرح لوک ریت یا فوک لور(عوامی رواج جو مخصوص علاقے کے رہن سہن سے متعلق ہوتے ہیں) سیکھے جاتے ہیں  جس سے ان میں نظم و نسق،  شادی، غمی کی رسومات،  معر وف آداب یا موریز (رسوم و رواج کی وہ قسم جو کسی خاص سماجی گروہ کے لے لازمی ہوتے ہیں)  ،  موت پر سنجیدگی، مسجد کا احترام، چھوٹے  بڑے سے سلوک، گندگی سے نجات  وغیرہ  کے اسلوب پیدا ہوتے ہیں۔  معاشرے کے یہ  غیر تحریری  معیارہیں۔ انہیں نبھانا  اخلاقی فریضہ  شمار کیا جاتا ہے۔  انہیں نہ  اپنایا جائے تو  حزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔


طبو یا معاشرتی بندھن بھی انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرہ  انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتااور ایسا کام کرنے سے روکتا ہے۔رسوم و رواج یا ریچوئل۔ وہ سماجی معیار جن کو پورا کرنا معاشرے کے لئے پسندیدہ ہو،مخصوص مواقع پر مخصوص ادراک گروہی معیار، عمری معیار، معاشرتی بندھن، طبو  وغیرہ ایسی  خواہشات ہیں جنہیں ہر شخص کو پورا کرنا پڑتا ہے۔

 

طاقت کا حصول ایک جبلی خواہش ہے۔  اس کی تسکین فرد کو راحت بخشتی ہے۔ طاقت دوسروں کو رام کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کا حصول جسمانی قوت، ذہنی اعمال کے ذریعے تخلیق، دولت کے انبار جمع کرنے، اعلیٰ تعلیم کے حصول، سیاست میں حصہ لے کر  عوامی  فلاح و بہبود،  حکومت یا اپوزیشن میں رہ کر حکومتی پالیسیوں پر تنقید، نوکر شاہی ،  بادشاہت وغیرہ سبھی اہمیت جتانے  والی خوا اہشات ہیں۔   بعض صورتوں میں تو وہ اتنی شدید ہوجاتی ہیں کہ قتل وغارت بھی کی جاتی ہے۔  اس کے حصول میں باپ بیٹے کو،  بیٹا باپ، ماں، بھائی اور عزیزو اقارب کو مروا دیتا ہے۔  ہر شخص کی ایک قیمت ہے۔ کوئی مذہب، کوئی دولت، کوئی شرافت، کوئی حسن، کوئی عہدے، کوئی اس بات پر کہ ایک شخص کس حد تک کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے، کے تحت کیا جاتا ہے۔سماجی قبولیت، محبت اور وابستگی (لو، بیلونگنگ نیس)، تحصیل،خود مختاری،شعوری بیداری،    وغیرہ خواہشات پیدا کرتی ہیں۔

 

ہر ایک ارادے کے تحت فرد اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ اخلاقی اور مذہبی توقعات پورا کرنا بھی مقصد ہے۔ہر ایک شخص کا  وقوف، احساس  اور تائثرات  نفسیاتی  خواہشات ہیں۔ جسمانی،اقتصادی،سماجی،  قانونی، مذہبی،نفسیاتی  یا  روحانی  نوعیت کا مقصد بی پایا جا سکتا  ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں جو ایک مسلسل عمل ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ ضرورت، احتیاج، مقصد، محرک ، دلچسپی،توجہ وغیرہ  کی متبادل اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔

 

مندرجہ بالا عمومی بحث سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ خواہش، آرزو، تمنا، تصور، طلب، مطالبہ، مقصد، محرک وغیرہ  مترادف ہیں۔ ایک ہی سکے  کے مختلف رُخ ہیں۔  کوئی ذی روح خواہشات سے مبرا نہیں۔ زندگی کے ہر لمحے یہ خواہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات یہ حقیقی ہو تی ہیں اور بعض اوقات تخیلاتی۔  ہر شخص آخری سانس تک ان سے عہدہ پیرا رہتا ہے۔ شوپنہارنے اپنے فلسفے میں اس کی بنیادی اہمیت اجاگر کی۔

  

شوپنہار کے نزدیک خواہش  کی اصطلاح کو خیال (idea)،  بذاتِ خودآرزو ( Itself۔In۔l(Wil  کے طور پر بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔   اس نے اپنے فلسفے کا آغاز اس نکتے پر کیا کہ کائنات بے جان اور جاندار اشیا پر مشتمل ہے۔  کچھ اشیا ء دیکھی جا سکتی ہیں اور کچھ نظروں سے اوجھل ہیں۔  کچھ مادی ہیں اور کچھ غیر مادی۔  انسان بھی اس میں شامل ہے جس کا  وجود  زمین پر ہے اور اس کا درجہ باقی مخلوق سے ممتازاس لئے ہے کہ اس میں قوت  گفتار اوربصیرت جملہ اشیا ء سے زیادہ  پائی جاتی ہے۔   اس سے وہ محل وقوع میں پائی جانے والی اشیاء اور صورت حال کو سمجھ سکتا ہے۔  ہر شخص میں یہ خصوصیت  پائی جاتی ہے کہ جس سے وہ اپنے جسم میں شے کی کمی، زیادتی،توازن  و غیرہ کا احساس  کر سکتا ہے۔   داخلی کیفیات اور خارجی حالات سے  آگہی  حاصل ہو جاتی ہے اور  ان معاملات کو سمجھنے کی کسی حد تک قدرت  حاصل ہوتی ہے  جو چھٹی حس کے دائرے میں آتی ہے۔ یہ تمام اشیاء شخص کی دنیا بناتے ہیں۔  

 

 شوپنہار نے  کہا کہ  ُ خواہش اور جسمٗ   (The Body & Will )  میں  باہمی تعلق پایا جاتا ہے۔  اس کے نزدیک خواہشات  اور مادی جسم لازم و ملزوم ہیں۔ جسم ہو تو تن اور من کو یکجا رکھنے کے لئے احساسات کا پیدا ہونا لازم ہے جن سے  خواہشات جنم لیتی ہیں۔  جب تک  خواہش  کا احساس پیدا نہ ہو جائے، اس  سے پہلے جسم کی حیثیت صرف جاننے والے شخص سے زیادہ نہیں ہوتی  جسے شوپنہار نے  ُ بلا جسم کے وجود ٗ  کا نام دیا۔   خواہشات بے چینی اور بےآرامی کی کیفیات پیدا کرتی ہیں جس کے لئے اسے  مناسب الفاظ  کے ذریعے لوگوں کے سامنے رکھنا پڑتا ہے۔  خواہش کو  ایک شخص کے طور پر ایسے  پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ  وہ اس کے جسم کا مکمل حصہ ہو۔  اس طرح  اسکی یہ حالت دنیا میں بطور نمائندگی سامنے آتی ہے اور ادراک کے آغاز کا باعث بنتی ہے۔   


 ہر شخص اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے  دیگر اشیا ء کی موجودگی میں جو جتن کرتا ہے، ان طور طریقوں اور اقدامات  سے باخبر ہوتا ہے۔   دیگر تما م  لوگوں کی طر ح  اس کا وجود بھی اس میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔   ادراک کے دوران حالات میں جو جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں یا جو جو چیزیں موجودہوں یا اس پر واقع ہو رہی ہوں یاکردار ادا کر رہی ہوں،دوسروں کی طرح وہ خود بھی اسکا مشاہدہ کرتا ہے ۔  ان تمام چیزوں کو براہ راست محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس وقت اسے  دوسرے کیا سوچ رہے ہیں؟  کیوں کر رہے ہیں؟ کا علم نہیں ہوتاکیونکہ انکا تعلق اسکے جسم سے نہیں  بلکہ دوسروں کی اپنی اپنی ہستی سے ہوتا ہے۔    


خواہش میں نیت بھی پائی جاتی ہے۔  نیت اور عمل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ شخص نیت کے مطابق کام کر رہا ہو۔  نیت کچھ اور ہو اورکردار کچھ اور، عین ممکن ہے۔  جسم کی حرکات و سکنات کا وہ جس طرح اظہارکرتا ہے، براہ راست سمجھی جا سکتی ہیں۔

 

 شوپنہار  کے نزدیک  خواہش (Will) انسان خود کو سمجھنے کا اہم ذریعہ ہے۔  اسکی مدد سے وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے مظاہر کی تفہیم کر سکتا ہے۔ اس کی عکاسی کر سکتا ہے۔ اس مظہر کے بارے میں صحیح بتاسکتا ہے کہ اس عمل کی حیثیت کیا ہے اور اسکے اپنے اندر بطور ایک انسان کے کون سا ایسا میکانزم کام کر رہا ہے جو اس کو حرکات و سکنات، جوابات، سوالات کرنے اورانہیں سمجھ کر  ان  کو  کس انداز میں پورا کر رہا ہے ۔   جسم دو طریقوں سے کسی بھی مظہر کو  سمجھ کر  موزوں رویہ اپناتا ہے جو۔۔۔  

1.1.1)  دوسرے اشخاص کی طرح وہ بھی ایک وجود  اورہستی ہے  اور اپنی ذات کی نمائندگی کر رہا ہے۔

1.1.2)   وہ فوراً اپنے مقابل کو براہ راست  دیکھ سکتا ہے ا ور  اگر چاہے تو نظرانداز بھی کر سکتا ہے۔   یہ اسکی انتخابی سرگرمی ہے جس میں وہ اپنی پسند اور ناپسندکا خیال کرتا ہے اور  اس خواہش کے تحت  وہ پروگرام بناتا اور  رد عمل  پیش کرتا ہے۔

 

شوپنہار کے نزدیک خواہش اور سوچ، فکر، استدلال ایک چیز نہیں۔  ان میں رابطہ اسباب  اور علل (کاز  اینڈ   ا  یفیکٹ)  کے  ذریعے ہی  ممکن ہے۔   اور  یہ  ہمیشہ الگ الگ افعال تصور کئے جاتے ہیں جبکہ اصل  میں ان کی حیثیت الگ  الگ بھی ہے  اور ان میں ملاپ بھی  پایا جاتا ہے۔  ایسا دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھار  بظاہران کے مابین اسباب و علل کا تعلق نہیں پایا جاتا لیکن اصل میں وہ دونوں ایک ہی  شئے کے دو پہلو  ہوتے ہیں۔ خواہش اسکی احتیاجات کا تعین کرتی ہے۔ وہ  اس کے وجود کو احساس دلاتی ہے کہ  اس کا اصلی  مقصد کیا ہے اور اسکی محنتوں کا رخ کدھر ہونا چاہئے۔  کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا دارومدار خواہش کی  شدت  اور سنگینی پر ہوتا ہے۔  ہر وجود  کے نزدیک  یہ کیفیت  ایک اضافی  اصطلاح ہے۔  ہر  ایک کی  بر داشت  یا اسے حاصل کرنے کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔  جو کام بھی اسکے نزدیک اہم ہوگا،وہ اسے حاصل کرنے یا تکمیل کی کوشش کرے گا  اسلئے خواہش اور سوچ علمی مطالعے کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہیں لیکن عملی طور پر ایک سکے کے دو رخ ہیں  اور باہمی ربط کی  عکاسی کرتے ہیں۔  جب ہم کوئی خواہش کرتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں تو ہم اپنی دانشمندی کے تحت جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، ان میں ارتباط پایا جاتا ہے  مثلاً سال نو میں جب کوئی عہد کرتے ہیں کہ  ہم نے کوئی  کام کرنا ہے تو وہ عہد خواہش ہوتی ہے جس پر قائم رہا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اسطرح سے خواہش اور ردعمل دو مختلف  اشیاء بھی ہو سکتی ہیں اور مربوط بھی۔  اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ ہر شخص اپنی تمام خواہشات یا ایک خواہش سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے اور  اس کی حقیقت سے  واقف ہوتاہے۔  

 

شوپنہار کہتا ہے کہ دنیا محبت کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ شیطانوں کے لئے ہے جو دوسروں کو اذیت میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔  ا گر کوئی شخص کو دنیا  پسند ہے تو اسکی حالت ایک جاہل، ان پڑھ، کی طرح ہو گی جو سونے چاندی کو بہت قیمتی سمجھتا ہے۔   ایسی  خواہش سے اس کے وجود میں ابہام پیدا ہو جاتے ہیں جو اس میں نہ صرف دکھ پیدا کرتے ہیں بلکہ ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی کرتے رہتے ہیں۔   ہرشخص میں دنیا کا شعوری احاطہ محدود ہوتا ہے۔  وہ دنیا کو اس حد تک ہی جان سکتا ہے جتنی اورجیسے وہ اسکے سامنے آتی ہے۔   بہت معمولی حصہ ہی آشکار ہوتا ہے اور باقی ساری دنیا اسکے لئے پراسراررہتی ہے اور وہ انکے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ 

            

 شوپنہار کہتا ہے کہ ہم تکلیف دہ زندگی گزار کر مر جاتے ہیں کیونکہ ہم اسی کے مستحق ہیں۔ہم اس دنیا میں آئے ہیں،ہمارا ایک وجود ہے۔  اس وجود کی وجہ سے ہم گنہگار اورمجرم ہیں اسلئے سزا پانا بر حق ہے۔  انسان کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ اس دنیا میں ہی نہ آتا۔   زندگی ایک پریشان کن اور رکاوٹیں ڈالنے والا وجود ہے۔   علاوہ ازیں شوپنہار  دنیا کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر صحیح اندازہ لگاتا ہے کہ اشرافیہ نے عوام کو اپنےظا لمانہ نظام میں جکڑ رکھا ہے۔  کمزوروں کا  ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔  انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔  ایک سمت تو پسے ہوئے مظلو م لوگ ہیں اور دوسری سمت ظالم اور شیطان لوگ اور وہ لڑتا لڑتا آخری سانس لے لیتا ہے۔ 

 

 کئی یورپی فیلسوف نے جن میں ارسطو ،  افلاطو ن  اور  ہوبز    وغیرہ ہیں، نے اپنے نظریات میں اس نکتے کو چھوا ہے لیکن مکمل تصور  اور وضاحت شوپنہار نے پیش کی۔ وہ ایسا فلسفی ہے جسکے نظریات کو آئن سٹائن، ڈاروِن، فرائیڈ، کارل یونگ   اور دیگر دانشوروں نے اپنے نظریات میں استعمال کیا۔  ا س نے اپنے  فلسفے میں لاطینی،  یونانی، رومی، عیسائیت (جدید عہد نامہ)،  بدھ مت  اور ہندو مت کو شامل کیا۔ اس نے  تھامس ہابز کی طرح  انسان کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا۔


شوپنہار کے نزدیک عیسائیت میں انسان کا تصور ایک گنہگار کا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کو قابل نفرت اور گناہ کا نتیجہ شمار کیا جاتا ہے۔اس کوپیدائش سے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر مشکلات کی توقع کر رہا ہوتا ہے۔اسلئے وہ حیران نہیں ہوتا کیونکہ اسکے لئے یہ نارمل ہے اور یہ اسکو اسکی غلطیوں کی سزا مل رہی ہوتی ہے۔( P  II..303)۔  یہ خاکہ ہمیں اس بات پر یقین کرنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان میں کم و بیش ہر شخص کی برباد شدہ،گھناؤنی اور تباہ کن فطرت کو اخلاقی اور عقلی طور پرقبول کر لیں۔   اس کافلسفہ قنوطیت  پر مبنی ہے اس لئے اسے قنوطی فلسفی( Pessimist Philosopher) کہاجاتا ہے۔ شوپنہار نے  ہیگل کے نظریہ ثنویت  (Hagel's  Idealism) کو چیلنج کیا۔  وہ اپنے دور کا پہلا یورپی فلسفی ہے جس کے پورے فلسفے کی بنیاد دقیانوسی طرز حیات پر  ہے۔

 

خواہش بطوراشیاء کے وجود (Will As The Being Of Things)  کے موضوع  پر بھی شوپنہار نے  سیر حاصل بحث کی ہے۔  شوپنہار  اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ خواہشات  دلائل  کے ذریعے قائم کی جاتی ہیں۔  وجود معلومات حاصل کرتا ہے، انہیں علم و دانش کی کسوٹی پر پرکھتا ہے،تفکر کرکے اونچ نیچ دیکھتا ہے، معلومات اور  احساسات میں  تعلق معلوم کرکے  خواہش قائم کرتا ہے۔اس کے نزدیک  یہ منطق  باطل ہے کیونکہ  خواہشات استدلال کی بدولت پیدا  نہیں ہوتیں۔   اگر معلومات  کی بنا پر  وہ قائم کی جائیں تو اسطرح  خوا ہش ایک  محدود منظر  پیش کرے گی  جو صرف دلائل  اور منطق کے تحت  ہی پیدا ہو گی اور  خواہش کی اپنی اہمیت نہیں ہو گی۔ عقل و د انش جو کہے،  وہی شخص کی خواہش  بن جائے گی۔  خواہش کو اس طرح بیان کرنا اسکی وسعت  اور اہمیت کم کر دیتا ہے۔ وہ کہتا  ہے کہ ہر شخص  اپنی ضروریات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ خواہش اسکے شعور میں پائی جاتی ہے۔اسطرح سے خواہش    ُبذاتِ خودشئے کے اندر ٗ  ( وِد ان اٹ سیلف)  کی شکل بن جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خواہش کا اظہار شئے کے اندر ہو جاتا ہے جو نمائندگی کا احساس پیدا کرنے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس طرح سے یہ معلومات سے بدرجہا  برتر ہے کیونکہ معلومات کا کام ان خواہشات کی تکمیل کرنا رہ جاتا ہے۔ خواہش جو مقصد بناتی ہے، علم منصوبہ سازی کر کے اسکی تسکین  کرنے  کے طریقے  تجویز کرتا ہے۔   اس طرح خواہش  کا علم پایا جاتا ہے    اور  اس کے بعد اس کی تکمیل کے لئے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لئے  خواہش بنیاد ہے، پہلے پیدا ہوتی ہے جبکہ اس کو مٹانے کے لئے طریقے معلوم کئے جاتے ہیں۔ خواہش کے بیان میں بذات خود شئے  ایک تجریدی تصور نہیں ہے بلکہ یہ شخص کی ضروریات ہوتی ہیں جو  بقا کے لئے لازمی عنصر شمار کی جاتی ہیں۔ یہ زندگی بھر کم، درمیانی یا شدید  نوعیت میں ہر وقت  موجود  رہتی ہیں اور  شعوری سطح پر ہر کسی میں ہر وقت پائی جاتی ہیں۔ اس عمل میں جو  نمایاں ترین شئے  سامنے آئے گی ، اسے   ُ خواہشٗ    کہا جائے گا۔    اسکے نزدیک  خواہش بذاتِ خود اندرونی کیفیت کا نام ہے جس میں تمام اشیاء  اس  مظہر کا حصہ ہوتی ہیں۔

 

مخصوص نباتات و حیوانات کے لئے تو  خواہشات عضویاتی تسکین حاصل کرنے تک ہی محدود  رہتی ہیں لیکن اشرف ا  لمخلو قات میں ان کی نوعیت سوچ اور افکار کی وجہ سے عضویاتی  کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بھی ہو جاتی ہے۔  شوپنہار کے مطابق خواہشات  (Will) اپنے مقاصد کا تعین کر کے مضبوط ارادے کے ساتھ محنت کرتی ہیں تاکہ ان کی تسکین  ہو سکے۔   یہ اور بات ہے کہ کبھی بھی  اور کوئی خواہش مستقل طور  پر مطمئن نہیں  کی جا سکتی۔  مسلسل کوششیں کبھی بھی حتمی اطمینان حاصل نہیں کر سکتیں۔ (  W-I   3

 

شوپنہار نے خواہشات  کی  تفصیلات بیان کرنے کے بعد  اپنا شہرہ آفاق نظریہ پیش کیا کہ کوئی شخص ان کو کس طرح سے   دنیا  کے سامنے   نمائندہ بناتا ہے  جو درج ذیل ہے۔

 


1.2)   د نیا بطور نمائندگی          (World As Representative Of Will)  

شوپنہارکے فلسفے  میں مرکزی حیثیت   ْخواہش کے دنیاوی اظہارٗ کی ہے جس  کی تشریح   اس نے  اپنی کتب   ُڈبلیو۔ڈبلیو-آر والیم  اولٗ  اور  ُ ڈبلیو۔ ڈبلیو۔آر  والیم  دوم  ٗ       اور    ُ ضمیمہ و متروکاتٗ ( Parerega  &  Paralipomena)  میں کیں۔ 


شوپنہار   کے نزدیک نمائندگیRepresentation)  ) سے مراد ہر وہ  شئے ہے جو شخص کے شعوری احاطے میں آ کر اپنی  موجودگی ظاہر کرے    اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو عضویاتی، عضلاتی اور حواس خمسہ  کے ذریعے ادراک میں آ کر  محسوس کی جا تی ہیں۔

 

نما ئندگیوں کی اور بھی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ افلاطونی مثالیت (Platonic  Idealism) جن کی نوعیت سراسر ذاتی ہوتی ہے۔ کسی بھی شخص کے حقیقی احساسات، تخیلات اور جذبات کا صحیح علم تو اس کو ہی ہوتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہو۔ اس کی اصلی حالت کا  ا اندازہ خارجی طور پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لئے اس نے مشاہدہ  باطن کو اہمیت  دی۔ شوپنہار  نے نمائندگی کے لئے  جمالیاتی حس  کو بہت اہم قرار  دیا۔  جان لاک اور اس کے پیروکاروں نے افلاطون کے بر عکس حقیقی اشیاء کو نمائندگی کے لئے اہم قرار دیا۔  ان کے نزدیک  تخیلاتی اشیاء  بذاتِ خود اشیاء کے درجےمیں نہیں آتیں کیونکہ ان کا حقیقی وجود نہیں ہوتا اور صرف ذہنی طور پر اپنی موجودگی ظاہر کرتی ہیں۔ شوپنہار ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بذات خود شئے کی نمائندگی کے لئے اصلی شئے کی موجودگی لازم نہیں۔ وہ اس سے آگے کا سوچتا ہے۔ اسکے نزدیک ہماری زندگی اور بذات خود شئے میں اسباب و علل والا لازمی تعلق قائم نہیں پایا جاتا بلکہ وہاں اشیاء کثرت میں موجود ہوتی ہیں جن کی ہر شخص سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ ایک میز کی جسامت کا  ہر ایک کو اندازہ ہے اسلئے اسکی نمائندگی کے لئے اسکی عدم موجودگی میں بھی صحیح ا ندازہ لگا کر اسکی نمائندگی کی جا سکتی ہے اور وہ بذات خود  شئے  (Thing-In-Itself) بن جاتی ہے۔ 

  

شوپنہار نے  1819میں ْدنیا بطورخواہش اورثنویتٗ (The World As Will & Idea) لکھی جس کا موضوع اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس نظریے کی تشریح کے لئے ایک سلسلے میں چار کتب لکھی گئیں  جن کا نام تھیوری آف نالج، فلاسفی آف نیچر، استھیٹکس اور ایتھکس ہیں۔ پہلی کتاب میں اس نےامینول  کانٹ کے اس  نظریے کی تائید کی کہ دنیا میرے وجود کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کی تشریح ذہانت، مقام، وقت اور اسباب و علل کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے۔ ان کو  اپنے سامنے رکھ کر اشیاء کا باہمی تعلق معلوم کیا جا سکتا ہے۔  پہلی اور تیسری کتاب میں خیالی اور ذاتی  خواہش جبکہ دوسری اور چوتھی کتاب میں اس نے اسے نمائندگی اور دنیا کے معنوں میں لیا۔  اس کے فلسفے میں یہ اہم  ترین اصطلاح ہے۔  اس کے نزدیک خواہش ایک حقیقت ہے۔ اس میں اتنی زیادہ  توانائی اور طاقت پائی جاتی ہے کہ اس شخص کی تمام معلومات اور استدلال اس خواہش کی تکمیل کے لئے کام کرتی ہیں۔ ا سکی  بدولت التباس یعنی غلط ادراک  پیدا ہوتا ہے جس سے مصائب شروع ہوتے ہیں  اور خواہش ان تکالیف کو دور کرنے کے لئے تگ و دو کرتی رہتی   ہے۔ 

 

شوپنہار کہتا ہے دنیا میری نمائندہ ہے۔  دنیا مادی اور غیر مادی اشیا ء سے مل کر بنائی گئی ہے۔  اس میں جاندار اور بے جان دونوں اشیاء شامل ہیں لیکن  خواہشات  کا صحیح   اظہارصرف بنی نوع انسان  ہی کر  سکتا ہے۔  یہ ضرورت  جب لوگوں کے سامنے پیش کی  جائیں تو وہ  خواہش کی  دنیا  میں نمائندگی  کہلاتی ہے۔    ہر شخص کے ذاتی افکار، ضروریا ت، خواہشات خارجی دنیاکا ا ظہار کیا جاتا ہے اور  ردعمل دیکھا جاتا ہے۔  اشیاء ہمیشہ ذہن کے تابع ہوتی ہیں۔ ذہن کے تحت ہی خواہش پیدا ہوتی ہے۔  اس کے نزدیک دنیا میں اشیاء کی نمائندگی دو طرح سے کی جاتی ہے۔

 

پہلی  صورت یہ ہے کہ وہ   اشیاء  مادی ہوتی ہیں اور   جسمانی  شکل و صورت میں پیش کی جا رہی ہوتی ہیں۔   چونکہ  وہ واضح  ہوتی ہیں اور دیکھا جا سکتاہے اسلئے  ہر شخص  اپنی خواہشات کا جائزہ  لے سکتا ہے  اور اس کی اس کے نزدیک اہمیت کے مطابق اپنی مرضی سے اپنی تبدیلی  لا سکتا ہے۔  اس میں  اسے عقل، ذہانت، وقت، جگہ، وجوہات کو مد نظر  رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔  جو من میں آتا ہے، کیا جا سکتا ہے۔  ایسا کرتے وقت وہ  اپنی مرضی کے مطابق خواہشات کی اہمیت متعین کر سکتا ہے۔ وہ  صعودی ترتیب سے حقائق ترتیب دے سکتا ہے جس میں وہ پہلے نچلی سطح، پھر اس سے زیادہ اہم اور آخر میں سب سے اہم خواہش کی  تکمیل کر سکتا  ہے اور نزولی بھی،  جس میں  خواہشات کی ترتیب  اس کے  بر عکس ہوتی ہے اور شدید خواہش سے کم ترین خواہش کی طرف آیا جاتا ہے۔ 

 

 دوسری صورت میں خواہشات کی حیثیت نجی اور   ذاتی ہوتی ہے۔  وہ  مادی شکل میں ظاہر نہیں ہوتیں۔   دوسروں  کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔  صرف وہی اسے محسوس کر سکتا ہے جن  پر  وہ  وارد  ہوئی ہوں۔   ان کی نوعیت مبہم ہوتی ہے  اس لئے  ہر شخص صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا  ہے اور موڈ کے مطابق  کسی احساس کو اصل ضرورت سے شدید سمجھ سکتا ہے اور ا ندھی خواہشات اور آرزوؤں  کو  بھی اپنا سکتا ہے۔   اگر تنقیدی طور پر جائزہ لیا جائے تو دنیا کے سامنے خواہشات کی نمائندگی  کی حیثیت باطنی ہوتی ہے، اس لئے ان کو باطنی  نمائندگیاں  (Subjective Representations) بھی کہا جاتا ہے۔ جو  یہ  بیان کرتی ہیں کہ سوچ میں آنے والی  اشیاء  اور خواہش ہم آہنگ ہیں۔  جس فردکی سوچ ہے اسے شخص(Subject)  اور جو چیزمحسوس کی جا رہی ہے وہ  شئے (Object) کہلاتی ہے۔ نمائندگی یا خواہش کے لئے دونوں باتوں کا ہونا لازم ہے یعنی شئے اور شخص۔ اگر ان دونوں میں ایک عنصر بھی  غائب ہے تو وہ نمائندگی نہیں کہلائے گی۔

 

 کسی شخص کی آزاد و خود مختار دنیا کے پیچھے کیا چل رہا ہوتا ہے اور وہ   ُ بذات خود۔ایک۔ شئےٗ  Thing-In-Itself کیسے بن جاتی ہے؟  ِ ابھی تک ایک راز ہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ نمائندگیاں چونکہ  ذ ہن کی پیداوار ہوتی ہیں اسلئے وہ ذ ہنی اعمال وقوف (Cognition) پیدا کرتی ہیں۔  کسی شئے کی جانکاری کے لئے  اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اس کے  شیریں، ترش، تلخ تاثرات  (Affection) کی نوعیت جانی جاتی ہے ۔  کمی  یا زیادتی  کی نوعیت کے مطابق  اسے حل کرنے کی طلب (Conation) پیدا ہو جاتی ہے۔  اس طرح سے خواہشات  کی نمائندگی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔  دوسرے لفظوں میں  ذہنی صلاحیتیں (Mental Faculties)  تخیلات( Imagery) کی مدد سے نتیجہ اخذ  کیا جاتا ہے  اور فرد  اپنے احساسات  کی نمائندگی  کا اظہار  خواہش  پیش کر کے کرتا ہے۔

 

 خواہشات  پہلے غیر نامیاتی  پھر وہ  نامیاتی  ہو کر جانوروں سے ہوتی ہوئی  حتمی شکل اختیار کر کے طلب کی شکل  اختیار کر لیتی ہیں اور محرک پیدا  کرکے  اسے حاصل کرنے کی  جدوجہد میں لگ جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک  آتی رہتی ہیں۔   پورے عمل میں  رسہ کشی چلتی رہتی ہے۔  یہ سلسلہ آخری سانس تک  رہتا ہے۔    خواہشات کی نمائندگی کی یہ دونوں  صورتیں اس کی کتب میں خواہش کو مثبت انداز میں پیش کرتی ہیں۔


شوپنہار کہتا ہے کہ کائنات  میں پائے جانے والے مادہ کا عمل ان اشیاء پر ہوتا ہے جو فرد کے سامنے ہوتی ہیں اس لئے وہ  فوری  ادراک کا  باعث بنتی ہیں۔  مادہ کے مطالعہ سے اسباب و علل میں تعلق قائم کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں جب کوئی شخص کسی مظہر کا ادراک کرتا ہے تو اس وقت وجدان اور حواس کی حیثیت ُ ضمنی پیداور  ٗ (By Product) کی نہیں ہوتی۔ اس وقت و ہ شخص کی عقل و دانش کا حصہ ہوتے ہیں۔   ادراک  کے عمل میں اہم شمار کئے جاتے ہیں۔ وقت اور مقام میں بھی ان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اگر مادہ نہ موجود ہو تو بھی شخص کے ادراک میں وقت اور مقام میں وجدان کو نمائندگی مل سکتی ہے۔ جبکہ مادہ کو اس طرح کی نمائندگی نہیں حاصل ہوپاتی (  R I -  9 F)۔  شوپنہار نے  نمائندگی کے  موضوع     ُ. ہماری خواہشات کی دنیاوی نمائندگی  ُکا  ذکر دوسری کتاب میں کیا ہے۔


ہماری خواہشات کی دنیاوی نمائندگی    (The World As Will Representation)   کے موضوع پر شوپنہار کہتا ہے کہ کوئی ذی روح سدا بہار خوشی حاصل نہیں کر سکتی۔  آرام و سکون عارضی اور لمحاتی ہوتا ہے،  نئی شکل میں خواہش (Will) ظاہر ہوتی ہے اور بے سکونی کا عالم شروع ہو جاتا ہے۔  اس نے مصیت و آلام کے متعلق جو فلسفہ بیان کیا وہ اس کی کتاب ْخواہش زیست کی نمائندگی حصہ دوئمٗ  ( WWR II) میں موجود ہے۔

                       

 شوپنہار حقیقت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ وہ چیز جو پیما ئش کی جا سکتی ہو، طبعی وجود رکھتی ہو اور التباس نہ  پایا جائے، کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ حقیقت ہے جبکہ اس کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ وہ مقداری ہو۔   وہ اس بات کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتا تھا کہ حقیقی دنیا کی اصلیت کیا ہے؟ حقیقی نمائندگی ا صطلاح استعمال کرنے کے بارے میں اس کے نزدیک دو اشیاء اہم ہیں۔


1.2.1 یہ کہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ وہ ایک مثالیت پسند شخص (Subjective Idealist)نہیں ہے اور یہ شئے اس کی ذہنی اختراع ہے۔کسی شئے کے بارے میں جس کا تجربہ حاصل ہو، اورسیدھے سادے طریقے سے نہ تو ہم  غور و فکر کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی شئے ہوتی ہے جس کا تجربہ کر سکیں ماسوائے ان نقوش کے جو ذہن پر مشروط انداز میں نقش ہوتے ہیں۔ اس طریقے سے کسی شئے کی نمائندگی کا عمل ممکن ہو تا ہے۔ اس وضاحت کو اگرچہ اس نقطہ نظر کے مخالف حقیقت پسند فیلسوف نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن وہ اس بات پہ متفق نہیں کہ اشیاء کے ادراک میں یہ کیسے لازم و ملزوم ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ جو بیان کیا جا سکتا ہے وہ باطنی کیفیات کی خود مختاری کی صحت معلوم نہیں کر سکتا۔ 

 

1.2.2 اس نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ ہماری باطنی کیفیات  غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ خارجی  اشیاء کی نوعیت حسی ادراک سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس بات  کا قوی امکان ہے کہ التباس پیدا   ہوجائے یعنی حواس میں ان کی نوعیت خارجی ماحول میں موجود اشیاء سے مختلف ہو اور وہ ایک  دوسرے سے بیر نہ کھاتی ہوں۔   اس صورت میں واقعات کی تشریح پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں او ر نمائندگی  میں غلط فہمیاں جنم لیتی  ہیں۔  علاوہ ازیں ہر شخص اپنی عقل، علم  اور تجر بات کی بنا پر ایسی اشیاء جو  اس وقت  خارجی ماحول  میں نہ ہوں  وہ اپنے تئیں سمجھ لے کہ چونکہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، اس لئے اب بھی ویسا ہی ہو گا، کی بنا پر قبل از وقت قیاس آرائی کر لیتا ہے اور ایسے مفروضے جو اصل واقعے سے پہلے کر دئے گئے ہوں، معتبر نہیں  رہتے۔   اگر بعد میں توقعات کے عین مطابق نہیں ہوتے یا اس کے برعکس ہوتے ہیں تو نمائندگی باطل ثابت  ہوتی  ہے۔  اس نے اس بات کو تصدیق نہیں کی کہ ہماری باطنی کیفیات  غلط بھی ہو سکتی ہیں۔

  

کسی بھی تجربے میں مقام،  وقت اور اسباب لازمی عوامل ہیں جو تجربہ حاصل کرنے میں اہم ہیں۔ کسی ایک کی عدم موجودگی سے وہ نامکمل رہتا ہے۔ اگر اس میں کوئی عنصر صوابدیدی طور پرشامل کر لیا جائے تو وہ نمائندگی غیر معتبر ہو جائے گی کیونکہ اس صورت میں مقداری اور باطنی کیفیات، تجریدی ادر حقیقی تعلق قائم کرنے میں ناکام رہتی ہیں کیونکہ ان میں  سچ کے ساتھ جھوٹ بھی شامل ہو جاتا  ہے۔


شوپنہار کہتا ہے کہ دنیا میری نمائندہ ہے کیونکہ وہ دنیا جس  میں ہم رہتے ہیں اس میں وقت اور مقام  کے  درمیان ربط پایا جاتا ہے اور اس کا تعلق  اس شخص کے ذہن  اور اشیاء  کے مابین  لزوم کی وجہ سے ہوتا ہے۔  ان جذبات و خواہشات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے جس طرح ہمارا ذہن بیان کرتا ہے۔ یہ ْمثالیتٗ کی کیفیت ہوتی ہے۔

 

وہ اشیاء جو کہ دنیا میں نمائندگی کرتی ہیں، باہمی تعلق کی وجہ سے   معرضِ وجود میں آتی  ہیں۔ ہم کسی ایسی صورت حال  یا دنیا کو  جو معروضی ہو اور ہم نے اسے نہ جانا  نہ  دیکھا ہو، کے بارے میں  اگر ایسا کوئی تخیل پیدا کر لیں    کہ ہماری  سوچ صحیح ہے لیکن  اگر وہ غلط ثابت ہو جائے تو ہماری سوچ کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔  یہاں یہ صرف ذہن کا ایک عمل ہو گا جو کہ معروضی کوشش ہے ۔ اسلئے یہ بات کہی جا سکتی ہے  کہ جس دنیا کو ہم اپنے ذہن سے خارج کرنا چاہتے تھے،کے تمام مظاہر اور حقیقی دنیا  کا ادراک صرف ہمارے دماغ کی صورت حال کی وجہ سے تھا۔  اس لئے  یہ مفروضہ کہ دنیا ہر ایک کے ذہن اور دماغ کے ساتھ منسلک نہیں بلکہ ہر ایک  کیلئے ایک نئی  اور الگ دنیا ہے  جس میں اس کے الگ دماغ اورسوچ  وجود کے لئے ضروری ہیں تاکہ وہ اشیاء کے بارے میں واقفیت اور معلومات آزادانہ طور پر حاصل کر سکے۔

 

مقام اور وقت کو بھی اسباب و علل (Cause & Effect) کے تحت تعلق ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر وہ خود مختار طریقے سے موجود ہوں تو اسباب اور علل میں تعلق پیدا نہیں ہو سکتا۔ وجود کا تعلق ظاہر سے ہے۔ عمومی  طور پر شخص کے وجود سے ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ کوئی شئے موجود ہے جبکہ وہ حقیقی طور پر موجود نہ ہو تو شوپنہار کے نزدیک اسکا کوئی وجود نہیں۔  نمائندگی کی نوعیت معلوم کرنے کے لئے ہمیں دنیا کو باہر سے ہی دیکھنا  ہو گا۔   ہم فردکے اندرونی حالات میں نہیں جا  سکتے  اور نہ ہی معلوم کر سکتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اس لئے وہ مشاہدہ باطن کی حیثیت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔

 

شوپنہار کہتا ہے کہ کوئی ذی روح سدا بہار خوشی حاصل نہیں کر سکتا۔ آرام و سکون عارضی  ور لمحاتی  ہوتا ہے۔ نئی شکل میں خواہش (Will) ظاہر ہوتی ہے اور بے سکونی کا عالم شروع ہو جاتا ہے۔ اس نے مصیت و آلام کے متعلق جو فلسفہ بیان کیا  وہ اس کی کتاب خواہش زیست کی نمائندگی  والیم دوئم  ( WWR II) میں موجود ہے۔  سب تکبر عارضی ا ور بیکار ہے۔  قوموں کی طرح انسانوں کی زندگی بھی مسلسل جدو جہد کا نام ہے۔ روح اور جسم کا تعلق قائم رکھنے کے لئے ہر پل اذیتیں سہنا پڑتی  ہیں۔   قدم قدم پر تصادم، کشمکش اور تذبذب پائے جاتے  ہیں ( P II -  292)۔   

 

شوپنہار کے نزدیک ہر کس و عام در ماندہ درگاہ ہے۔ ہر ایک مصیبتوں کا کھلاڑی ہے۔ ہر شخص میں انا بھی پائی جاتی ہے جس کی سطحات مختلف ہوتی ہیں۔ کسی میں زیادہ تو کسی میں کم۔ ہر شخص اپنے ڈھنگ سے تمام مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ کم انا والی خواہش ابتدائی ضروریات  کی تسکین تک محدود رہتی ہے   جبکہ جس شخص کی انا کی سطح بہت زیادہ ہو تو اس میں  طاقت کے حصول کا  وصف زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ اعلیٰ معیار کی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے اس لئے اس کے مقاصد بھی دنیاوی لحاظ سے اعلی اور ارفع ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ اپنا مقصد حاصل کر لے تو وہ دنیاوی معیار کے مطابق کامیاب قرار پاتا ہے۔  بہتر منصوبہ بندی، ذرائع،  وسائل، مواقع ، قسمت  اور محنت  سے دنیاوی مقام بناتا ہے۔  یہ تمام اعمال ایسی خواہشِ زیست Will- To-  Live  کے تحت حاصل کئے جاتے ہیں جہاں اسکا تفاخر، انا اور تکبر (Vanity)  معاونت کرتا  ہے۔ 

 

 سقراط کہتا ہے کہ  زندگی ایک  الگ شے ہے اور  اس کی خواہشات الگ  اوراپنے علم، عقل اور تجربات کی بنا  پر انہیں حاصل کرنا دوسری شے ہے۔   اس  کے لئے زندگی اہم ہے، اس کا  وجود ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ مند ر  جہ بالا دلائل ناقص ہیں اور بناوٹی ہیں جو مطالعہ کی حد تک تو درست ہو سکتے ہیں لیکن ان کا عملی زندگی میں اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ تمام منصوبہ بندیاں، نصب ا لعین خواہشات کے تحت ہوتے ہیں اور خواہشات کو رد کرنا ہی فخر اور انبساط پیدا کرتا ہے۔ تمام دنیاوی خواہشات بے مقصد، خالی  اور بیکار ہیں۔ زندگی کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنا فلسفے کی روح کے منافی ہے۔ زندگی کا روشن پہلو اسلئے نہیں ہے کیونکہ   بظاہر کا میاب ترین زندگی بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا بلکہ زیادہ مبتلا رہتی ہے۔   اس کے مسائل کی نوعیت اور شدت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔  سکون سراسر محدود مدت کے لئے ہوتا ہے اور پھر سے نئی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور پھر کو ہلو کا بیل بننا پڑتا  ہے۔

 

شوپنہار نے خواہش اور جسم،  خواہش بطور اشیاء کا وجود کو  بھی تفصیلاً بیان کیا ہے۔ تجربات کے ساتھ بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو خواہش کو بناتی، بگاڑ تی اور تبدیل کرتی رہتی ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں علم، عقل اور تجربات سے خواہش جنم لیتی ہے۔  حقیقت کا احساس ٹکڑوں کی صورت میں آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے۔ خواہش کا اظہار فوری طور پر کیا جاتا ہے لیکن اس کو اپنے علم، عقل، تجربات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ خواہشات کی صورت قطعی طور پر نجی ہوتی ہے لیکن ہر شخص ان کو اس وقت دوسروں کے سامنے اس وقت بیان کرتا ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے۔ کس وقت کون سی رائے دینی ہے، کس وقت رائے لینی ہے، شخص  خود طے کرتا ہے۔  وجود  اظہارِ رائے کے لئے ضروری ہے۔

 

شوپنہار کے نمائندگی کے علم اور جسمانی معلومات کے بارے میں  ہیڈیگر نے کہا کہ  وجود  خواہش کی تشکیل میں محرکات اور خارجی عوامل کی مدد حاصل کرتا ہے۔ یہ وجودیت کے نظریے کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ ہمارا جسم دو طرح  سے معلومات حاصل کرتا ہے۔  

 

1.2.2.1) محرکات کی وجہ سے جواعمال سر انجام دئے جاتے ہیں  

1.2.2.2) خارجی عوامل کی وجہ سے جو مشکلات اور تکالیف سامنے آتی ہیں، کا علم فراہم کرتا ہے۔ظاہری طور پر جو معاملات سامنے آتے  ہیں۔نیت، اعمال اور جسمانی تکالیف یا دوسری اشیاء کے بارے میں جو معلومات وہ حاصل کرتا ہے وہ اسکے مشاہدہ باطن سے حاصل  ہوتی ہیں۔


دنیا کی تمام اشیاء کو اگر نمائندگان کے طور پر لیا جائے یا ان کا تصور ذہنی صورت یا انہیں شئے کے وجود میں استعما ل کیا جائے تو ان سب باتوں کے لئے ضروری ہے کہ کیا ہمیں انکے بارے میں واضح  شعور ہے؟ شعورچونکہ ر اپنے تک ہی محدودہوتا ہے لیکن اسکے ساتھ دوسرے عوامل کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کی جاگتی ہے جو اپنی اپنی نمائندگیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں،اپنے وجود کی اہمیت بیان کر رہے ہوتے ہیں۔  ہر شخص صرف ایک کی تعداد ظاہر کرتا ہے۔ ہر دوسری اشیاء کے بارے میں جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسکی نمائندگی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ شخص کو اپنی نمائندگی کا ہی پتہ ہوتا ہے،دوسروں کا نہیں۔  اسلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی معلوم کئے جائیں کیونکہ وجود کی حیثیت ا ور اسے حاصل کرنے کیلئے  پوری طرح سرگرم  رہنا پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر فلسفے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے ( W-I  -  104

 

شوپنہار کے مطابق تمام مصائب کی جڑیں ان تمام خواہشات سے متعلق ہیں جو انسان کے اندر اور خارجی ماحول میں پائی جانے والی صورت حال کی  بدولت پیدا ہوتی ہیں جو اس میں  اضطراری کیفیات طاری کردیتی   ہیں۔ بسا اوقات اس کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آتا ہے جو  ایسے آگ برساتے سورج کی  مانند ہوتا ہے جس کے نیچے کالے گھنگھور باد ل مسلسل حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ چند لمحوں  کے جب وہ سورج  کے درمیان آ جاتے ہیں تو ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔۔۔۔  اور پھر وہی  جھلسا دینے والی آگ۔ 

 

شوپنہار کہتا ہے کہ انسانی وجود کا پایا جاناایک غلطی ہے۔ عام مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ انسان بنیادی ضروریات کا غلام ہے۔ اس کے لئے یہ بات اسکی زندگی کیلئے لا زمی کر دی گئی ہے کہ وہ ہر  وقت اپنی خواہشات کی تکمیل میں بھاگتا رہے۔  مضطرب رہے۔ کیونکہ اگر اس کی خواہشات خود بخود پوری ہوتی رہیں گی تو اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہو گا۔  وہ زندگی کیسے گزارے گا؟ اگر ایسا ہو بھی جائے تو یہ ایک مثالی دنیا ( Utopia) ہو گی جس میں ہر شخص کی تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں اور کوئی کسک، کوئی طلب نہ ہو گی۔ ایسی زیست کا کیا  فائدہ ؟ (PII 293(

 

وجود (Being) کی اصطلاح تجریدی انداز میں استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد کسی ذات کے اندر کی کوئی خواہش ہے ( Being in whose being) ہے۔ ہیڈیگر کے نزدیک وجود سے مراد میری ہستی ہے۔ یہ میری ملکیت ہے جو  اس بات کاتعین کرتی ہے کہ حقیقت اور معیار کیاہے جس  کے تحت میں اپنی ذاتی شناخت یا بالادستی  قائم کرسکوں جبکہ شو پنہار کے نزدیک وجود ایک خود مختار حیثیت رکھتا ہے۔  یہ کسی نئی صورت حال کی وجہ سے پیدا  ا نہیں ہوتا اور یہ اپنی ذات کے اندر پیدا ہو کر  فوری  طور پرذاتی شعور میں آ جاتا ہے  ( W.1   - 112)۔ جب ہم خواہش کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ایک ایسی چیز لی جاتی ہے کہ ہمارے اندر جو چیز  ہماری ذات میں موجود ہے، وہ نمایاں اور وافر انداز میں پائی جاتی ہے

 

شوپنہار بدھ مت کے اس قول کو سراہتا ہے کہ زندگی نہ ہوتی  تو کتنا اچھا ہوتا۔   زندگی ہمارے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھتی ہے۔ اندھی خواہشات کی غلامی  اسے ہمیشہ بے بس کئے رکھتی ہے اور اس  سے چھٹکارا حاصل کرنا   دل گردے کا کام ہے جن کا مقابلہ صوفی،سنت، بھکشو،سادھو اور فنکار ہی کر سکتے ہیں۔     

 

شوپنہار کہتا ہے کہ انسان خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے۔ وہ اپنے لئے برا آدمی اور شیطان ہے۔ اگر اس کا بس چلے تو وہ ہر اک کو صفحہ ہستی سے مٹا  دے۔ اس نے طاقتور لوگوں اور شہنشاہوں کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے لاکھوں بے گناہوں کو جنگوں میں یا  ا پنی حکومت بچانے کے لئے قتل کروایا۔ ہٹلر نے کہا تھا کہ اذیتیں برداشت کرنا تمہارا مقدر ہے۔ اس  کے علاوہ  ا س  نے حبشی غلاموں، بچوں کے بیگار کیمپ  وغیرہ کی بھی مثالیں دیں جو انائیت کا شکار ہوئے ( W.II   578 )۔  .  

 

شوپنہار اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آخر میں اچھائی برائی پر غالب آ جاتی ہے۔ وہ اسے بیکار بحث سمجھتا ہے کیونکہ بدی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مسئلہ گمبھیر ہے۔ برائی کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا  اور  نہ  ہی اچھائی کر  کے اس کے متوازن کیا جا سکتا ہے۔ بدی  ہمیشہ نیکی پر بھاری  پڑتی ہے۔ برائی کا وجود مفکرین کو سوچنے پر اکساتا ہے کہ اس کا حل نکالا جائے۔ کسی بھی فلسفی نے شر پھیلانے کو نہیں سراہا بلکہ تدارک کا سوچا  ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ  یہ کہتا ہے کہ بدی کو دیکھ کر ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ اداس ہونا چاہئے۔  

 


خواہش اور دنیا کی نمائندگی اس وقت تک بے اثر رہتی ہے جب تک کہ ان کو معقول انداز میں  پیش نہ  کیا جائے ۔   اس کے لئے دلائل کے ذریعے ثابے کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کو اس نے  جو طریقہ استعمال کیا اسے   ُ  اصول  معقول وجوہات   ُ  (پرنسپل آف سفیشنٹ ریز ننگ) کہتے ہیں۔شوپنہار کہتا ہے کہ ہر شخص اپنے انداز میں ہی تجربات حاصل کرتا ہے اور وہ نتائج کی روشنی میں تلازم پیدا کر لیتا ہے۔ وہ باطنی طور پر عام فہمی سے معلوم کر لیتاہے کہ کسی شئے کو کہیں سے بھی دیکھیں اور ہمیشہ ایک جیسا نتیجہ ظاہر ہو تو وہ پہلے ہی صحیح قیاس آرائی کر کے  اصل کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ عام فہمی کا تعلق عقل و استدلال سے ہے۔ جو ایک غیر شعوری عمل ہے۔ جس میں اشیاء ذہن میں اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ ان کے مابین اس طرح کے روابط پیدا ہو جاتے ہیں جو  اگر.......تو ؛ اگر یہ ہوا  تو........یہ پیش ہو گا ۔والے بن جاتے  ہیں۔ 

کسی بھی تجربے میں مقام،  وقت اور اسباب لازمی عوامل ہیں جو تجربہ حاصل کرنے میں اہم ہیں۔ کسی ایک کی عدم موجودگی سے وہ نامکمل رہتا ہے۔ اگر اس میں کوئی عنصر صوابدیدی طور پرشامل کر لیا جائے تو وہ نمائندگی غیر معتبر ہو جائے گی کیونکہ اس صورت میں مقداری اور باطنی کیفیات ، تجریدی ادر حقیقی تعلق قائم نہیں کیا جا سکتا۔ سچ اور جھوٹ شامل ہو جاتا  ہے۔


                شوپنہار نے اپنے فلسفے اس طرح اصول معقول وجوہات  (Principle Of Sufficient  Reason)  پیش کیا جو درج ذیل  ہے۔
                اصول معقول وجوہات ( rinciple Of Sufficient  Reason P):  ذہن میں نمائندگیاں، مقام، وقت اور اسباب کی مختلف صورتوں کی تشریط سے تشکیل پاتی ہیں۔وہ ایسی اشیاء ہوتی ہیں جس میں انفرادی سوچ کے تحت اپنی مرضی سے شئے کا ادراک کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام عوامل کو مد نظر رکھا جاتا ہے جو معقول وجوہات کی بنا  پر آپس میں تعلق قائم کرتے ہیں۔ اس طرح سے اشیاء میں جو رشتہ  بنتا ہے اس اصول کو معقول وجوہات کی بنا  پر تعلق کہتے  ہیں۔ اس اصول کے تحت کوئی شئے کبھی بلا وجہ نہیں ہوتی۔ یہ اصول ایسا ہے کہ تمام اسے قبول کرتے ہیں اور ہر ایک کی توجہ اپنی طرف کھینچ  لیتا ہے۔ 
                کائنات ایک قابل فہم جگہ ہے اس میں جو بھی کوئی چیز موجود ہے دو حقیقی ہے اور جو حقیقی ہے وہ دلائل کی بنیاد پر ثابت کی جا سکتی ہے۔ یہ نظریہ شوپنہار سے سو سال پہلے کے ایک فلسفی لیبنز ibniz1646--1716) L) نے پیش کیا۔ اسنے اپنے نظریے نظام توحید  یا ننطریہ واحدیت) (Monadology  میں یہ نکتہ  پیش کیا کہ یہاں کچھ بھی سچ نہیں ہے جو حقائق پر مبنی نہ ہو۔ دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ: 
                الف) کائنات کیوں ایک ہی وقت تشکیل پائی کی کوہی دلیل نہیں۔
                ب) تمام کائنات میں کسی وقت، کسی بھی جگہ دو افراد ہو بہو ایک ہی شکل و صورت، قد کاٹھ، عادات و سکنات ایک جیسے ہوں، نا ممکن ہے کیونکہ اس کی عقلی سطح پر توجیہ نہیں پیش کی جا سکتی۔
                ج) کائنات ایک وقت اور ایک مقام پر تشکیل نہیں دی گئی۔ اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے کیونکہ وقت میں تمام مقامات خصوصیات کے لحاظ سے ایک جیسے ہی ہیں، کی کوئی معقول دلیل نہیں۔        
                د)  اصول معقول دلائل کے تحت اس اصول کو لا محدود طور پر ہر جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اور ہر ایک سوال کا مخصوص جواب ہے۔ کون سی شئے وہاں ہے اور کیوں موجود ہے کا مطالعہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس بات کا کہ وہ وہاں کیوں نہیں ہے؟  شوپنہار نے اس اصول کو بین  الاقوامی  طور پر استعمال کیا۔ بنیادی طور پر اس نے کانٹ کے اس تصور کو کہ انسانی معقولیت میں یہ قوت نہیں کہ وہ ماورائی سوالات  یعنی ما بعد الطبیعیا ت کے سوالات کے جوابات دینے میں ناکام ہے کیونکہ ہمارے پاس محدود علم ہے اور ہمارے حواس ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ 
اصل معقول  وجوہات  کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے کسی مخصوص شئے کے بارے میں سوچنا ہو گا جس کی وضاحت کی ضرورت ہو۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ چونکہ ہماراعلم محدود ہے اسلئے تمام مظاہر کو دیکھ نہیں پاتا لیکن چھٹی حس، وجدان  یا الہام کے ذریعے انکی عدم موجودگی کے بضیر بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔شوپنہار نے نظریہ علمیات ( Epistemology)استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ فرض کر لینا چاہئے کہ ماحول یا دنیا میں ایک شخص ( Subject) ہوتا ہے جو کسی شئے  (Object) کی وضاحت کرتا ہے۔ اس نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اصول معقول وجوہات کے چار بنیادی عناصر ( Fourfold Root Of Principles Of sufficient Reason i.e, FRPSR  (۔ ( FR Section 16 کو سمجھنے اور عوامل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کیلئے ضروری ہے بلکہ شرط ہے کہ پہلے سے فرض کر لیا جائے کہ وہاں شخص بھی ہو گا اور شئے کی معقول وجوہات معلوم کی جائیں گی۔
                شوپنہارنے معقول وجوہات  کے نقاط قدیم مغربی فیلسوف سے لئے جن میں اہم   اناکسی میندر(Anaximander  610  B.,C)، پیرامینڈٰس   (485 B,'C Paramenides) ، ا رشمیدس  C) ۔Archemedes 287 B)ور  لیبنز( Gottfried  Wilhelm  Leibniz  1646)  ہیں۔                             
                i  )اناکسی میندر(naximander  610  B.,C) پہلا  یونانی فلسفی تھا مثالی نمونہ ( Ideal Model) کا تصور پیش کیا۔ اس نے کہا کائنات کی تشکیل میں آہن سے ملتی جلتی دھات  سے بنا مادہ   Apeism)) استعمال کیا گیا ہے۔ جو لاتعداد مقدار میں وافر مقدار میں ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ جس کو  بنیاد بنا کر افلاطون علم کائنات (Cosmology) کا  نظریہ پیش کیا جس کے تحت  وہ مادہ جس سے جنت اور کائنات تشکیل پائی ہے اور یہ کہ دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں، وہ بلا وجہ نہیں ہوتے۔ انکسی میندر پہلا فلسفی تھا جس نے دنیا کا نقشہ بنایا۔
                ii)امائینو پیرامینڈیس  (485 B,'C Paramenides) ننے حقیقت کا مونائی نظریہ   Reality)  (Monism View Of پیش کیا۔ اس نے کہا کہ کائنات  مادے سے  ایک وحدت  میں پروئی گئی ہے۔ اسے کسی نے تخلیق نہیں کیا  اور نہ ہی کسی  کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی اسے تباہ و برباد انہیں کرتا بلکہ کائنات میں کچھ ایسے عوامل پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر کچھ چیزیں واقع ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہو سکتیں۔ اسے نہ تبدیل وجود کا فلسفی (Philosopher Of Changeless Being) ہلایا جاتا ہے۔ 
                (iii ا رشمیدس   (  (Archemedes 287 B.نے بھی مسائل کو حل کرنے کرنے کے لئے مقداری انداز میں بیان کیا۔ وہ ایک سائنسدان تھا جو اس بات میں دلچسپی رکھتا تھا کہ سمندر میں ایسی چیز بنائے جو پانی میں تیر سکے۔  وہ  بڑے بڑے جہاز بناتا تھا اس نے ایک نظریہ پیش کیا جس کا نام پانی  پر بوجھ کے ساتھ تیرنا یعنی طبعی قانون القلا  یا اچھال Buoyance)  Of Physical  ؒLaw) کہا۔          
                 لیبنز( Gottfried  Wilhelm  Leibniz164  ایک ریاضی دان، منطقی اور انقلابی فلسفی تھا جس نے قانون تسلسل، کیلکولیٹر ایجاد کیا۔ چونکہ فلسفے میں ہر مسئلے کو سلجھانے کیلئے وجوہات  کو تلاش کیا جاتا ہے اور اسکے  بعد ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے اسلئے اسباب، منطق، حسابی انداز اور اخلاقیات کے ذریعے انکو کو طرح پیش کیا جائے کہ صحیح  نمائندگی ہو سکے۔ یہ بات طے کرتے وقت دو باتوں کا خیال ضروری ہے۔
                پہلا یہ کہ ایسی  دلیل کی حیثیت ثانوی ہے۔ کیونکہ میں ہمارے ذہنی اعمال میں وجدانی وصائف کی وجہ سے آمد ہوتی ہے جو اس حالت کی تشریح اس انداز میں کرتی ہے کہ وہ غیر انعکاس ہو جاتی ہے جس سے ایک دلیل کو سبب سے ملا کر مبہم نہ کیا جائے۔  
                دوسرا کئی اشیاء  ایسی  ہوتی  ہیں جن پر دلائل لاگو نہیں کئے جا  سکتے، سچائی جاننے کے لئے مشاہدہ باطن ضروری ہے۔ اس کے تحت ہی ہم حقائق تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان خیالات  اور تصورات کو مقداری طور پر پرکھا نہیں جا سکتا۔ شوپنہار انہیں مکارانہ اور چالاکانہ چال کہتا  ہے۔
                ہم کسی ایسے اصول پرکیسے انحصار کر سکتے ہیں جو کہ بنیاد کو موزوں طریقے سے بیان کرتا ہے۔ اسکے لئے  ہر چیز اور کسی بھی کام کے لئے خصوصیت کی تفصیل بیان کرتاہے۔ اگرچہ کسی اصول کی  بنیادی لازمی سوال کی جڑیں افلاطون، اور ارسطو کے دور سے پائی جاتی ہیں اور مغربی فیلسوف نے بھی کی۔ آٹھویں صدی میں اس پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ لیبنیز( Leibniz) نے اسے اصول اول  (First Principle) کا نام دیا۔ شوپنہار کے شاگرد ہیڈیگر  (Heidegger) نے انیسویں صدی میں اسے استدلال کا نچوڑ (Essence Of  Reasons) کہا او  شوپنہار نے اس کو واضح کرتے ہوئے اسے نمائندگی کے نظریے کو سمجھنے کے لئے انتہائی فیصلہ کن قرار دیا۔ یہی  وجہ تھی کہ اس نے اپنے پی۔ ایچ ڈی کا مقالہ اصول معقولات کے چار بنیادی عناصر کا نظریہ (The Fourfold Roots  Of The Principle Of Sufficient Reasons i,e   FRPSR)   پر لکھا۔ جو اسکے اہم نظریے اصول معقول وجوہات (R WW)کی اشاعت سے پانچ سال پہلے 1813  چھپا تھا۔ اسکے (WWR)   معقولیت کا دارومدار اس نے چار بنیادی عناصر والے نظریہ (FRPSR ٖ) کے تحت بیان کیا۔ شوپنہار کہتا ہے کہ کوئی شئے حادثاتی طور پر واقع نہیں ہوتی۔ہر واقعہ کے پیچھے کوئی وجہ ہو تی ہے، کائنات کے وجود میں بھی اشیا ء کے مابین تعلق پایا جاتا ہے۔
                ارسطو کی منطق قبول کرتے ہوئے اشیاء کے مابین روابط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چار بنیادی عناصر جو آزاد و خود مختار ہیں، کے تحت کی جا سکتی ہے۔ جو درج ذیل ہیں،
                  (i  مادی اشیاء  میں اسباب و علل                   (In Material Things  (Causality                   
                (ii   تجریدی  اشیاء  میں   منطق              ( In  Abstract Things    Logical Form) 
                (iii     حساب دانی اور ہندسی تعلق                 ( Mathematical  & Geometrical Form
                 (iv     نفسیاتی، تحریکی  اوراخلاقیات          (Form  Psychological, Motivational & Moral )
                 شوپنہار نے  اسکو مزید واضح دوسرے ایڈیشن میں 1847 میں کیا۔ اصول معقول وجوہات  میں شوپنہار نے علم حاصل کرنے کے کئی ذرائع بیان  کئے۔ وہ کہتا ہے کہ سابقہ معلومات خواہ  وہ ماضی  کے ڈاتی تجربات سے یا آباؤ اجداد کے علم  و عقل اور تجربات کو  نئی نسل میں رجحانات اور میلانا ت کی شکل میں منتقل ہوں، کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو بے معنی نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی  اس مظہر میں اسباب و علل کا نیٹ ورک پایا جاتا ہے۔ ہر ایک  شئے کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسر ے سے منسلک ہے۔ تا ہم ان کا ہونا  یا نہ ہونا اگرچہ چاروں عناصر میں اسباب و علل سے صرف ایک عنصر ہے، باقی تینوں عناصر منطق  (Logic)، حساب دا نی (Mathematics)اور اخلاقی  Moral))ا س میں اگرچہ شامل نہیں۔ اسکے باوجود اسباب  و علل (ity  (Causalعقل قائم کر دیتی ہیں۔ اس نکتے پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ دلیل منطق اور سبب میں تفریق نہیں کر سکتی۔ ڈیکا رٹ ( Descartes) کے نظریے میں بھی یہی ابہام ہے جواس نے علمیات کے نظریہ (Epistemology)کے تحت خدا کے وجود کو ثابت کرنے کیلئے معلوما ت اور اسباب اہم قرار دیتا ہے ( FRPSR - 6-13)۔
            (i       ما د ی اشیا ء میں اسباب و علل (:(Causalityشوپنہار کہتا ہے کہ اسباب  و علل (Causality) کسی شخص کے تجربات اور شئے کے مابین کسی  و اسطے کے پائے جانے سے ہے۔ مادی اشیاء میں تعلق  اگر۔۔تب  کے اصول کے تحت کیا جاتا ہے، ان کے مابین تعلق کی بدولت نمائندگی کی خیثیت کا تعین طے پاتا ہے۔ شئے (Object) اور شخص ( Subject) کے مابین وقت ( Time) اور مقام ( Space) کی نسبت معلوم کی جاتی ہے ان دونوں سے تعلق اسلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کسی عمل میں نہ صرمستقل حیثیت رکھتے ہیں بلکہ تواتر میں پائے جاتے ہیں اور ادراک حاصل کرنے میں لازم شمار کئے جاتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی عنصر (وقت  یا  مقام) غیر حاضر ہو تو دلیل قائم نہیں کی جا سکتی۔ جب کوئی شخص کسی شئے کو جانچنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ وقت اور مقام کی بدولت واضح ہوتی ہیں۔ اگر جگہ نہ ہو تی تو اس شئے کا وجود ہی نہ ہوتا۔ آگے کون سی چیزہے اور بعد میں کیا۔ اور اگر وقت نہ ہوتا تو یہ پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ پہلے کہا رونما ہوا اور بعد میں کیا۔ جبکہ حساب وقت اور مقام کی پیمائش کے لئے ضروری ہے۔ وقت اور اطراف کی  بدولت واضح  مواد اور اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اگر ان میں تلازم پایا جائے تو معاملات مظہر میں مہیج  اور رد عمل میں اصول معقول اسباب لازم و ملزوم کا تعین ہو جاتا ہے۔       منطق (Logic) :تجریدی معاملات میں ربط منطق کی رو سے معلوم کیا جاتا ہے۔ دنیاوی خواہش کی نمائندگی (- WWR ion  (The World Of Will Representمیں شوپنہار انسان کو اشرف  ا لمخلوقات اس لئے کہتا ہے کیو نکہ اس کے پاس منطقی  صلا حیت پائی جاتی ہے۔ وہ تجریدی اشیاء کا  صحیح اندازہ لگانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انسانوں میں منطق کی صورت ان کے محرکات کی  وجہ  سے بدلتی  رہتی ہے۔ ان کے دلائل اپنی خواہشات  کے تحت  مختلف اوقات میں مختلف ہو سکتے ہیں۔  مادی  اور تجریدی ،  واحد یا گروہی ہوں، کی خواہشات کی تسکین کیلئے حالات کی نسبت سے جو اسے  معقول لگتا ہے،  وہ اختیار کرتا ہے۔ اس صورت میں دنیاوی خواہش کی نمائندگی یعنی ڈبلیو۔  ڈ بلیو۔ آر۔(WWR)کی منطقی صورت ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ جسے وہ چیزوں کے سیکھنے کا ادراک  یا علم کی بنیاد قرار دیتا ہے۔  ( FRPSR-  1240)  ۔
                کسی فیصلے پر پہنچنے کیلئے وہ اس بات کا جائزہ لیتا ہے کی کہ جو  وہ فیصلہ کرنے جا رہا ہے کہ  الف) اس میں کوئی  وزن ہے۔ وہ حقائق پر مبنی ہے۔ اسکا ادراک مکمل ہے۔ وہ اس کو صحیح طور  پر سمجھ رہا  ہے۔  ب) وہ امکانی تجربات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو
                (iiiحساب دانی  اور ہندسی تعلق ((Mathematical Form:۔ اسکی قابل تصدیق ہو۔شخص کے دعوے کی نہ تو تصدیق کرتی ہو اور نہ ہی جھٹلاتی ہو۔ ج)  ایک یا دو ایسے معاملات پر لاگو ہو جو متضاد ہوں۔ د)  سچائی کے فیصلے کاتعلق کا حوالے سے باہر کا ہو۔ (FRPSR - 128)
                صورت حال  میں تعلق معلوم کرنے کے لئے اعداد و شمار۔ ہندسوں اور اشکال بھی استعمال کی جاتی ہی۔اس عمل میں شئے ،  وقت  اور مقام  تینوں شامل  ہو کر کوئی  فیصلہ کرتے ہیں کہ صورت حال کیسی ہے۔ ان کے مادی  اوصاف کی  بدولت  پر کسی بھی مظہر کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ مادہ  ایک شئے بن جاتی ہے اور جب کوئی شخص ان کو دیکھتا ہے تو نہ صرف اس کے  لئے بلکہ دیگر  اشخاص کیلئے بھی  اس مقام اور اس وقت پر مشاہدہ یکساں ہوتا ہے۔اور ہر کوئی ائک جیسے نتیجے پر ہی پہنچتا ہے۔وقت کے اندر ہر لمحہ ایک ترتیب سے رونما ہوتا ہیاور ہر بار ایک ہی ترتیب سے رونما  ہوتا ہے۔ ایک بات دوسری کا حوالہ بن جاتی ہے۔ لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہر شخص میں الہام اور وجدانی کیفییت بھی پائی جاتی ہیں،کسی میں زیادہ کسی میں کم۔  وجدان خصوصی احساسات ہوتے ہیں جنکو دلائل اور  استدلال کے ذریعے نہ تو صحیح  ثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی غلط۔ ایسے معاملات میں اصول معقول وجوہات یعنی  پرنسپل آف سفیشنٹ ریزن استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ حسابی انداز میں خارجی طور پر  تصدیق نہیں کی جا سکتی اگر وہ اسکے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ یہ کیفیات مقداری کسوٹی پر پورا نہیں اترتیں اسلئے شئے اور شخص کی دو طرفی تقسیم بنیادی  سچ ہے 
           (iv اخلاقیات (Morality  Form):شوپنہار کے نزدیک  کسی شئے میں چوتھا عنصر نفسیاتی، تحریکی اور اخلا قیات کی بنا پر بھی تعلق معلوم کیا جاتا ہے۔ نیت، ارادہ، خواہشات اور تحریک کیسے پیدا ہوتی ہیں بھی تعلق بیان کرنے میں اہم ہیں۔ جو اپنے مظہر میں ہمدردی، رحمدل اور شفقت بھی شامل کرتی ہے۔یہ واحد شئے کے طور پر پائی  جاتی ہے جو کسی شخص کی مرضی کی شکل میں پائی جاتی  ہیاور یسکی تمام سرگرمیوں میں پائی جاتی ہے۔ ہر شخص اپنی مرضی  کا تعین خود کرتا ہے۔لیکن اسے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کے بات کون سے ذرائع ہیں اور کون سے نہیں۔ وہ ان اشیاء اوہ معلومات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ وہ اس میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی۔مابعداز  طبیعیات جن کی حیثیت ماورائی ہوتی ہے اور طبعی اشیا ء  کے مابین تعلقات میں اخلاقی اقدار بھی اہم ہوتی ہیں۔ وہ ماضی کے فلسفیوں پر جو کسی عمل کی بنیاد عقل و دانش اور اسباب کو قرار دیتے  ہیں اور اخلاقیات کو اس عمل کے دائرے سے باہرکرتے ہیں سے مناوظرہ کرتا ہے۔ وہ اس بات کو زور دے کر بیان کرتا ہے کہاخلاقیات ظاہری اور باطنی طور کسی عمل میں شامل ہوتی ہیں۔ جذبات، جوش، جنون اورخواہشات، ارادوں اور امنگوں کے مابین ربط پایا جاتا ہے۔ وہ ہم آہنگ ہو کر ہمدردانہ اور مشفقانہ ا ندااز میں کردار سازی کرتی ہیں۔ اس نے  کانٹ کے  ماورائی مثالیت کے نظرے کے ساتھ مشرقی اقدار کو بھی  شامل کیا۔
                قصہ مختصراس نے اصول معقول وجوہات کے ذریعے شوپنہار نے مادی، تجریدی، حسابی اور تحریکاتی صورت حال میں روابط بیان کئے۔جس قسم کا مسئلہ ہو گا، اسی پہلو سے اسکی تشریح کی جائے گی۔ مادی میں خارجی، تجریدی میں باطنی، وقت، مقام اور جگہ میں حسابی اور ہندسی اور نیت۔ محرکات اور خواہشات کی تشریح  اخلاقی اور نفسیاتی سطح  پر کی جاتی ہے۔
                یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ یہ چاروں عناصر آزاد و خود مختار ہیں۔ متوازی میں اپنے اپنے انداز میں اپنے موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ایک  دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں رتے۔جس نوعیت کا مسئلہ ہو گا، متعلقہ عنصر ہی اس کو سمجھنے کے لئے کوشش کرے گا۔تجریدی معاملات کو سلجھانے کے لئے منطقی طریقہ ہی استعمال کیا جائے گا، اسے  اگر۔۔۔تب، یا حسابی یاخلاقی سطح پر حل نہیں کیا جا تا۔ علی!  ہ!ذالقیاس۔ اس نے اس سے اس بات کی نشاندہی کی کہ علمیات کا علم  (Epistemology)اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صورت حال میں تعلق کیلئے شخص اورشئے میں امتیاز کی جائے اورعاملات  اور مظہر یا صورت حال کی وضاحت کے لئے متعلقہ عناصر کے دلائل ہی استعمال کئے جائیں۔
                شوپنہار لا دین تھا،نے کہا کہ کائنات  اور خدا  کے وجود کا مطالعہ علم کائنات یعنی علم تکونیات (Cosmology)  اور علم وجودیات  (Ontology)کے ذریعے کرنا چاہئیے جو اس مسئلے کو اپنے اپنے انداز میں سلجھاتے ہیں۔ فشٹی، شیلنگ، ہیگل (te  Hagel, Schelling &  Fich)نے خدا اور کائنات کی تشکیل کیلئے علم وجودیات کی غلط انداز میں تشریح کی۔            
                انناس، بادل، دھماکے اور بھاپ جیسے امور کسی انسانی مظاہر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ہم ان کا ادراک مقداری انداز میں کر سکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ذہنی اعمال معقول دلائل اور تفہیم سے ہر قسم کے  تعقلات قائم کرکے نمائندگیاں بنا سکتے ہیں۔ شوپنہار کہتا ہے کہ دلائل تجریدی مظاہر میں نمائندگیاں بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں جو دیگر حیوانات میں مفقود ہے۔ ان کا بنیادی متن، اصلی متن کی وضا حت ہوتی  ہے۔  علاوہ  ازیں ان اشیاء کی عقلی تشریحات کی مناسبت جیسے کار خریدی جائے یا گھر کو رنگ و روغن کوایا جائے پر کتنا خرچہ آئے گا،کا صحیح تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس قسم کی نمائندگی حقائق کے قریب تر ہو تی  ہے۔ 
                نما ئندگیوں کی اور بھی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے کہ افلاطونی مثالیت (Platonic  Idealism) جن کی نوعیت سراسر ذاتی ہوتی ہے۔ کسی بھی شخص کے حقیقی احساسات، تخیلات اور جذبات کا صحیح علم تو اس کو ہی ہوتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہو۔ اس کی اصلی حالت  ا اندازہ خارجی طور پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لئے اس نے مشاہدہ  باطن کو اہمیت  دی۔ شوپنہار  نے جمالیاتی حس میں ایسی نمائندگی کو بہت اہم قرار دیا۔
                جان لاک ((John Kocاور اس کے ماننے والوں نے نمائندگی کے لئے جن اشیاء کا ذکر کیا ہے وہ حقیقی اشیاء ہوتی ہیں اور وہ بذات خود۔ اشیا۔کے درجے میں hing-In-Itself)  T) کے درجے میں نہیں آتیں کیونکہ ان کا حقیقی وجود نہیں ہوتا اور صرف ذہنی طور پر ان کی موجودگی ظاہر کی جاتی ہے۔ شوپنہار ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بذات خود شئے کی نمائندگی کے لئے اصلی شئے کی موجودگی لازم نہیں۔ وہ اس سے آگے کا سوچتا ہے۔ اسکے نزدیک ہماری زندگی اور بذات خود شئے میں اسباب و علل والا لازمی تعلق قائم نہیں پایا جاتا بلکہ وہاں اشیاء کثرت میں موجود ہوتی ہیں جن کی ہر شخص سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ ایک میز کی جسامت کا  ہر ایک کو اندازہ ہے اسلئے اسکی نمائندگی کے لئے اسکی عدم موجودگی میں بھی صحیح ا ندازہ لگا کر اسکی نمائندگی کی جا سکتی ہے اور وہ بذات خود  شئے  (Thing-In-Itself) بن جاتی ہے۔       
                 شوپنہار کے فلسفے کی بنیاد ہی انسانی زیست کے رونے دھونے، رنج و غم، مصیبتوں اور کراہتی زندگیوں پر ہے۔ ہر موڑ پر قدم قدم پر ان کی مشکلات ، مشکلات کیوں پیدا ہوتی ہیں، انسانوں کے دل و دماغ اور کردار پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں کا ذکر ملتا ہے۔ ا سکا اجرا کیونکر ہوتا ہے، شعوری ، لاشعوری ، عضویاتی ، معاشرتی اور نفسیاتی تبدیلیاں کس طرح ان میں خواہشات  ( Will) کی تشکیل کرتی ہیں،    اس نے متعدد بار بیان کیا  ہے۔ انسانوں کی بے شمار خواہشات اور ان کو حاصل کرنے کی کوششیں کیں اور ان کے درمیان  حائل رکاوٹوں کو اس نے  نشاندہی کی ہے جسے اس خواہش زیست   (Will- To. Live) ) کے عنوان کے تحت  بیان کیا گیاہے۔
                 اس نے اپنے فلسفے میں ثابت کیا کہ بنی  نوع انسان  پیدا ہوتے ہی دکھوں کا شکار   sufferings))ہو جاتا ہے اور زندگی بھر تکالیف سے نپٹنے کے لئے مقدور بھر جستجو  رتا رہتا ہے۔ بنیادی طور پر  ہر ذی روح کی حیا تیاتی  (بھوک، پیاس، سردی، گرمی وغیرہ) ، نفسیاتی (محبت،  چاہت، نفرت وغیرہ) اور معاشرتی مسائل (دوستیاں، دشمنیاں، خود نمائی  وغیرہ) جیسی احتیاجات وغیرہ پائی جاتی ہیں جن کا اظہار خواہشات(Will)کے ذریعے کیا جاتاہے۔
                یہ خواہشات چونکہ زندگی کی ابتدا (محد) سے شروع ہوتی ہیں اور موت (لحد) پر ختم ہوتی ہیں۔ خواہشات کا لامتناہی سلسلہ سانس کے ساتھ جڑا ہوا ہوتاہے۔ شوپنہار نے انہیں خواہشات زیست  (  Will- To-Live)کا نام دیا۔ زندگی کی بقا کے لئے ان کی تسکین اہم قرار د یا۔تھامس ہابز (Thomas Hobbes (اپنے فلسفے میں انسان کو خود غرض، لالچی اور ظالم کہا۔ اس نے انسان کا تاریک پہلو نمایاں کیا۔ اس نے انسانوں کے درمیان روابط کی نوعیت بیان کرتے ہوئے بیان کیا کہ جیسے ایک بھیڑئیے کی دوسرے بھیڑئیے سے ((Wolf-To-Wolf۔ اس لئے وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے حکومت سے رجوع کرتا ہے جو حقوق و فرائض کا تعین کر کے پولیس کے ذمے لگاتا ہے کہ وہ ان کی خد مت اور حفاظت کرے (To  Serve  &  Protect) ۔
                 امینؤیئل کانٹ (Emanuel  Kant )نے بنی نوع انسان کے وجود کا جواز پیش کیا۔ ہم آخر کیوں زندہ رہتے ہیں؟ بچپن کا معصوم خوشیوں بھرا دور بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کبھی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں جھیلنے کے لئے بچ جاتا ہے جسے اس نے زیست (Life) کہا۔ شوپنہارآلام  ( Sufferings) دکھ، درد، اذیت اور سختیوں کے بارے میں آگاہ کیا کہ یہ اس وقت سے ہی شروع ہو جاتی ہیں جب پیدائش پر نومولود کی آنول (Placenta) ا س کی ماں کے پیٹ سے کاٹ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ کا ئنات کا باقاعدہ حصہ بن جاتا ہے۔ اس سے پہلے اس کی تمام تر ضروریات  ماں کے پیٹ میں از خود پوری ہوتی رہتی ہیں۔ اسے فوری احساس ہو جاتا ہے کہ اس کی جنت اجڑ چکی ہے۔ اس کے کھابے ختم ہو گئے ہیں۔ ہر اس نعمت سے محروم کر دیا گیا ہے جو بغیر مانگے بلا قیمت مل جاتی تھی۔ پیدائش پر بچہ مکمل طور پر بے بس ہوتا ہے۔ کفیل اس کے ارد گرد پائے جانے والے بالغ ہوتے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے ان سے اپنے تاثرات اور دیگر طریقوں سے اپنی خواہشات کا اظہار کر کے حاصل کرے۔ وہ ان کے مکمل کے رحم و کرم پر ہے۔ جب تک تو بچے کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں سب صحیح رہتا ہے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس کی ضروریات پوری کرنا ناممکن ہو جیسے ضد، چیخنا چلانا،  غصے کے دورے پڑنا  وغیرہ  اس وقت انہیں برداشت کرنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، خواہشات کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی جاتی ہے۔سکول میں میں اساتذہ اور والدین مکارانہ طریقے سے  اسکے  اندر عملی اور سماجی زندگی میں مطابقت کے لئے ہنر سکھاتے ہیں۔ انہیں سمجھاتے ہو کہ اگر تم یہ سیکھ لو گے تو کامیاب زندگی گزارو گے۔ عملی زندگی میں جب  وہ معاشرے میں جاتا ہے تو جب اس کے سامنے شکل و صورت،  رنگ روپ،  مذہب،  ملک، نسل، سماجی حیثیت، تعلیم اور ہنر وغیرہ کے معاملات سامنے آتے ہیں۔ اس میں شخص کی اپنی مرضی سے انتخاب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور وہ رائی کا دانہ بن کر رہ جاتا ہے۔  لاکن (Lacan) اس عمل کو  مثالی انا کہتا ہے   ( Ideal Ego)کہتا ہے۔ اس عمل کو  شوپنہار کہتا ہے کہ ہر دور میں مذاہب کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ رسوم و رواج،  لوک کہانیاں، لوک گیت، دیو مالائی قصے، عقائد، ریت روایات، طبو  وغیرہ ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں اور پائے جاتے رہیں گے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ آرام کی حالت میں ہوتا ہے۔ وہ اس ماحول سے باہر نکلنا نہیں چاہتا کیونکہ شوپنہار کے مطابق اس کے دوبارہ جنم تناسخ ارواح (Theory Of Transmigression)) لینے کی بدولت جو میلانات  اس کے ذہن میں ودیعت کر دئیے گئے ہوتے ہیں، کی روشنی میں اسے علم ہو جاتا ہے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔ وہ اپنی خواہشات جو کہ مسلسل  اور مستقل  طور پر پیدا  ہہونی   ہوتی ہیں،  و ہ مخصوص وقت ( Time)اور موزوں مقام پر (Space) پر پورا کر نا ہوتا ہے  اور وہ اس پابندی سے بچنا چاہتا ہے لیکن فطری طور پر اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اسے دنیا میں دھکیل دیا جانا ہو تا ہے اس لئے اسے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اس کے آباؤ اجداد نے بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کیا تھا اور وہ وصائف بھی چونکہ اس کی نسل میں منتقل ہو چکے ہیں اسلئے وہ ان سے مدد حاصل کر سکتا ہے۔ اس سے  اس میں نسلی بقا کا  تصور پیدا ہوتا ہے۔  ایسے تصور کو اس نے مثالی انا (Ideal  Ego)کا نام دیا۔ اس کے اس تعقل کو بعد میں کارل یونگ(Carl Jung)نے اپنے نظریے تحلیلی نفسیات  (Analytical  Psychology) میں تمثال (Archetype) کی توضیح میں استعمال کیا۔
                شوپنہار نے کہا کہ مذہب ہر دور میں بنی نوع  انسان کے طرز حیات پر محیط رہا ہے۔ اگرچہ ہر شخص کا یہ ذاتی عقیدہ  ہوتا ہے لیکن بالواسطہ یا  بلا واسطہ ہر ایک پر کسی نہ کسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔   وہ اس بات کو رد کرتا ہے کہ حکومت پولیس کے ذریعے حفاظت کرتی ہے۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتا ہے کہ ہر ذی روح دوسری ذی  روح کے لئے قبر کھودتی (being  Every living being  is grave of other living) ہے۔ ریاست کے قوانین کا اگر جائزہ لیا  جائے تو دکھائی پڑتا ہے کہ وہ  انسانوں میں خوشیاں نہیں بانٹتے.........در  اصل میں ایک شخص کے حقوق دوسرے کے حقوق سب کرتے ہیں۔ کوئی شخص جتنی بھی نیک نیتی سے اپنے حقوق حاصل کرے وہ تفریق کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مذہب، فرقہ بندی، نسل،  جغرا فیائی حالات، اقتصادی  رتبہ اور نجی خواہشات  دوسروں  کے حقوق  پر دخل انداز ہوتی  ہیں۔       
                شوپنہار نے انسانی تکالیف کا تعلق  ذاتی  تفاخر، تکبر اور غرور (Vanity) سے جوڑا۔ اس نے سقراط  ( Socrates) کے اس نکتے کو سراہا جس میں اس نے کہا تھا کہ انسان کا وجود اور زندہ  رہنا ہی کافی نہیں بلکہ اہم شئے یہ ہے وہ کس شان سے زندہ رہتا ہے۔ اگر وہ عمدہ طریقے سے رہے تو ہی اسکا رہنا قابل قدر شمار کیا جاتاہے۔
                فخر، غرور اور تکبر  (Vanity)  احساس برتری  پیدا کرتی ہے جو در حقیقت فرد میں مزید خواہشات پیدا کرتی ہیں اور اپنا مقام برقرار رکھنے کے لئے مزید تناؤ پیدا کر دیتی ہیں۔ اس لئے  احساس برتریانسانیت کا  مزید تاریک پہلو پیش کرتا ہے۔ شوپنہار اس موضوع میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بدھ مت میں اذیت اور تکالیف کا تصور اس کے عقیدے کی  بنیاد ہے۔  وہ  بیان کرتا کہ  ذاتی مشکلات کے پیش نظر بین ا لاقوامی سطح پر معاملات کا جائزہ لیا جائے تو چار سو ٹینشن ہی ٹینشن دکھائی پڑتی ہے۔ اقتدار، اقتصادی استحصال،  علاقائی غلبے کے لئے نفسیاتی اور جنگی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فریقین بلا امتیاز فاتح اور مفتوح  کے اپنے اپنے نہ ختم ہونے والے مسائل میں مبتلا ہو رہتے ہیں۔ ایسی ریشہ دوانیاں ازل سے ہیں ا ور ا بد تک رہیں گی۔ ا نسانیت دکھی تھی، دکھی ہے اور دکھی  رہے گی۔
خواہش  کو کس طرح  کم سے کم سطح پر رکھا جا سکتا ہے، پر اس تفصیلاً لکھا۔اس کو اس نے جمالیات اور فنون لطیفہ میں بیان کیا۔اس عنوان کے تحت اس نے فن تع
                جمالیات اور فنون لطیفہ (Aesthetics & Arts)
                شوپنہار نے جمالیات اور فنون لطیفہ کی اہمیت اجاگر کی ہے۔اسکے نزدیک یہ ایسا طریقہ ہے جس سے فنکار نہ صرف اپنے دکھوں، محرومیوں، ناکامیوں کا احساس کرتے ہوئے یہ خواہش کرتا ہے کہ کہ  ان کی شدت کو  تنقیہ نفس (Catharsis)کے ذریعے ذہنی تناؤ کم کر سکے۔ فنون لطیفہ کے ذریعے  اظہار کا یہ طریقہ معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی طور پر قابل قبول ہوتا ہے۔ عوام الناس اس فن میں  پیش کی گئی تا بلکہ اس سے وہ عوام الناس کی لطیف حس کی تسکین بھی کر سکتا ہے۔علاوہ ازیں یہ اسکے لئے عزت، شہرت اور دولت کا بھی باعث ہو سکتاہے اور ذہنی دباؤ  میں کمی کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ فنون لطیفہ  انسانی وجود کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ خارجی مشاہدات کے ذریعے غور و فکر کرکے اپنی دنیا کی پہنچان کرے۔
                فنون لطیفہ ایک لمحاتی تجربہ ہوتا ہے جس میں فنکار خواہش زیست کی چیرہ دستیوں  اور جا ئز و ناجائز مطالبات سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔اس طرح علوم و فنون انسان کے لئے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے عمل کے لئے تحریک پیدا کرتی ہے۔ اور زندہ رہنے کی خواہش کی رضاکارانہ طور پر نفی کرتی ہے جو کہ شوپنہار کے نزدیک ایک عظیم مقصد حیات ہے۔ فنکار اپنے تخیلات کو بروئے کار لا کر اپنی مشکلات کو اصل اور خالص شکل میں پیش کرتا ہے۔ خواہش زیست کو عارضی طور پر ترک کر دینے سے فنکار کو ان تکالیف پر سوچ بچار کا موقع ملتا ہے اور وہ ان کو انوکھے انداز میں ایسے پیش کرتا ہے کہ دوسروں کی فوری توجہ حاصل کر لیتا ہے۔وہ اسے سراہتے ہیں۔ اس تخلیق پر سر دھنتے ہیں۔ فنکار کا پیغام لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ اپنے  دکھوں کو ان فن پاروں میں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔اس طرح تخلیق اور فن میں ایک رومانوی تعلق پیدا کر لیتا ہے۔ ہر نئی سوچ کے ساتھ نئی تخلیق پیدا ہوتی ہے اور یہ صدقہ جاریہ  رہتی دنیا تک جاریرہتا ہے۔ شاعری، ادب، سائنسی تخلیق۔مجسمہ سازی، منظر کشی وغیرہ اسکی عام مثالیں ہیں۔
                شوپنہار کہتا ہے کہ جب بھی کسی شخص کے جسم میں کسی شئے کی کمی یا زیادتی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو اسکا ذہن خواہشات  پیدا کرتا ہے کہ اسکا ازالہ کیا جائے۔یہ خواہشات  اس میں فوری تخیلات نمودار کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ خواہشات  شئے۔ کے اندر۔  پیدا ہو کر مطالبات پیدا کرتے ہیں۔  اسطرح سے کانٹ اور شوپنہار کے خواہش اور بذات۔ خود۔ شئے ((Thing In Itself)  میں تعلق قائم کرتا ہے۔ اس بے آرامی کودور کرنے کے لئے تدابیر سوچنے لگتا ہے اور آمد کے ذریعے اسے اپنی تخلیقات میں پیش کردیتا ہے۔
                شوپنہار نے  جمالیات اورفنون لطیفہ میں مندرجہ ذیل اصناف کو شامل کیا  ہے
  فن تعمیرات،باغبانی، حسین منظر کی مصوری، جانوروں کی مصوری،تاریخی مصوری اور مجسمہ سازی۔ شعر وشاعری، موسیقی۔ محبت۔ ان تمام علوم و فنون میں تخیل بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔
                علوم و فنون میں تخیلات کا کردار:علم کی وہ قسم جو  وجود کو تمام معاملات  اور تنازعات سے آزاد کرتی ہے اور ہمیشہ سچ شمار کی جاتی ہے اس کے لئے شوپنہار نے تخیل (Idea) ا کی اصطلاح استعمال کی۔ تخیل غوروفکر  کے ذریعے جو تخلیق کرتا ہے اور اس عمل میں معقول وجوہات کے اصول استعمال نہیں ہوتے۔ اس وقت جو سوچیں ذہن میں آتی ہیں وہ خواہش کا بلا واسطہ اظہار کرتی ہیں، وہ اس وقت کے لئے مخصوص اشیاء کہلاتی ہیں۔جن میں بذات۔خود۔شئے۔والی معروضیت  پائی جاتی ہے۔ تفکر کے اس عمل یعنی تخیلا ت  Ideas))میں اس وقت مقام اور وقت میں معروضیت کی بنا پر موزوں اسباب و علل پایا جاتاہے۔ اصول معقول وجوہات کی بنا پر یہ طے ہے کہ علم ہمیشہ خواہش کے ماتحت رہتا ہے۔ شوپنہار نے تخیلات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عام لو گ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں جو معلومات کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں۔اگر ایسی معلومات یا فن جو  ان کیلئے اجنبی ہوں یا ان کی معلومات سے مطابقت نہ رکھتا ہو، کو قبول نہیں کرتے  جیسے کہ نئی تخلیقات، سائنس دان یا محقق مروجہ علوم سے ہٹ کر کوئی نئی معلومات پیش کرتے ہیں تو وہ سابقہ معلومات میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک جزو کے طور پر موجود ہوتی ہیں لیکن  ان میں اسباب و علل میں تعلق ثابت نہیں ہو پاتا اسلئے خواہش کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور اس دوران تخلیق کار جو کام بھی کرتا ہے، اس میں اصول معقول وجوہات کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران جو بھی فنکاری ہوتی ہے،وہ لا شعوری ہوتی ہیاور اس میں خواہش کا تعلق نہیں پایا جاتاا ور فن کا اظہار بلا خواہش کے ہوتا ہے۔شاعری، موسیقی، مصوری میں شعوری دلائل نہیں ہوتے اور خواہش معطل ہو چکی ہوتی ہے۔کیوں، کب اور کہاں  کے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔اور فنکار صرف کیا؟ پر ہی توجہ مرکوز کرتا ہے۔( WI    178)۔ دوسرے معنوں میں شخص مکمل طور پر اپنے کام میں کھو چکا ہوتا ہے۔ وہ مدرک   (Peceiver) اورتخلیق، مدرکہ  (Perceived) میں تفریق کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور مکمل دھیان ایک واحد عکس (تخلیق)کی طرف ہوتا ہے۔ اس دوران جو تخلیق  بنتی ہے وہ کوئی
                مخصوص تخیلات کو فنون میں بطور شئے استعمال کرنے کے متعلق لکھا کہ جب کوئی فنکار ان کو جب خواہشات کو ظاہرکرتا ہے تو وہ اصول معقول وجوہات کے تحت ہی پیغام رسانی کرتا ہے۔ کیونکہ اس طریقے سے پیغام بہتر طریقے سے وصول کرنے والے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ خصوصی اشیاء شاذونادر ہی تن تنہاظاہر ہوتی ہیں کم و بیش اکثر وہ مرکب ہوتی ہیں اور  ان میں ربط پایا جاتا ہے۔ فنکار  اپنی مشکلات کو اپنے تخیلات،تجربہ، علم، عقل، تجربے اور بصیرت کی بنا پر تمام صورت حال کو منفرد انداز میں پیش کرتا ہے جس سے نہ صرف وہ اپنے اضطراب کو دور کردیتا ہے اور دوسری طرف اس کو دیکھنے والے ا فراد اس نظارے یا شاعریامصوریامجسمے وغیرہ کو دیکھ کر اپنی مصیبتوں کی تصویر کشی براہ راست یا  بلا وا سطہ طور پراس فن پارے میں پاتی ہے تو اسے سراہتی ہے۔ انکے زخموں پر مرہم پاشی ہو جاتی ہے.اس سے فلاح عامہ ہوتی ہے۔ایسے خیالات کو افلاطونی تخیلات کہا جاتا ہے۔خواہش میں افلاطونی خیالات خود کو معروضی بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کا وجود فن پارے کی صورت میں ظاہرہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ خواہشات اور تخیلات کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔
                شوپنہار کے نزدیک دنیا دکھوں کا گڑھ ہے۔جس میں شخص خواہشات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور انکی تسکین کیلئے تمام عمر اذیتیں جھیلتا رہتا ہے۔زندگی کے اس دور میں چند لمحات ایسے بھی آتے ہیں جس میں وہ راحت اور آرام بھی محسوس کرتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ وہ دنیاوی تسکین پائیدار نہیں ہوتی اورکچھ عرصہ بعد کسی شکل میں پھر ظاہر ہو جاتی ہے لیکن  علوم و فنون  ایسا وسیع  شعبہ ہے جوسب پر حاوی ہے اور تمام مادی اشیاء کو نظر انداز کر دیتا ہے جو اسکی تکالیف اور لمحاتی لطف  کے دوران واقع ہوتی ہیں۔تفکر کے اس عمل میں فنکار کا تعلق مادی اشیاء سے ختم ہو چکا ہوتا ہے اور اسکا تخیل تمام اشیاء سے الگ تھلگ اپنی دھن میں مگن سب باتوں سے بے نیاز اپنے تخلیقی عمل میں مصروف رہتا ہے۔اس مرحلے میں  وہ تخیلات کے سحر میں میں مبتلا ہوتا ہے۔اسکی من مانیاں، اور خواہشات ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔وہ تمام اشیاء سے بیگانہ ہو کر وہ اپنی تخلیق پر سوچتا اور کام کرتا ہے۔کسی اور چیز کی سدھ بدھ نہیں پائی جاتی، دنیاوی معاملات سے بیگانہ ہو کر وہ فن پارے کی تخلیق کرتا ہے، دنیا داری  او ر دیگر ایجنڈے اس وقت تک معطل رہتے ہیں جب تک کہ اسکا تخلیقی مشن مکمل نہیں ہوتا۔
                شوپنہار اپنی اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ شاہکار کی تخلیق میں فطانت لازمی عنصر ہے لیکن صرف ذہانت ہی کافی نہیں بلکہ صنف میں مخصوص لیاقت کا پایا جانا بھی لازم ہے۔وہ اپنی قابلیت سے عام سی اشیاء میں بھی ندرت، انوکھا پن، پرانی اشیاء میں ترمیم و اضافہ اور نئی اختراع کر تاہے۔ایک فطین علم میں عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہ حال سے مستقبل کی طرف دیکھتا ہے۔وہ  صرف یہ سوچتا ہے کہ اسکی تخلیق کوکسی موضوع کے تحت لایا جا سکے۔ بالکل اس طرح جیسے کہ ایک عام انسان بیٹھنے کے لئے مناسب فرنیچر دیکھتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔اسکے علاو ہ  تخلیق کار کے نزدیک عام اشیاء کو عنوان کے تحت لانا ہی عام ادراک کا کام ہوتا ہے اور مکمل ہونے کے بعد اسکی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ہمیں تجریدی اور تعقلاتی معلومات زیادہ گہری،اور دل چھو لینے والی ہوتی ہیں۔وہ موجودی صورت حال سے آگے کی فطین کی ایجاد ماسوائے مکمل ترین معروضیت کے اور کچھ نہیں۔ فنکار ہمیشہ ادراک کرنے والی حالت میں رہتا ہے۔خود کو اپنی تخلیق میں پوری طرح گم کر دیتا ہے۔فطین کی تخلیق ماسوا ئے مکمل ترین معروضیت  کے سوا کچھ نہیں۔ (WI 185)۔ دوسرے الفاظ میں تخلیق کار اپنے پراجیکٹ میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ اسے ارد گرد کاہوش نہیں ہوتا۔ اپنے ذہن میں پیدا شد ہ تخیلات اور اس میں پائی جانے والی دلچسپی اور بصیرت میں سے ہی حاصل ہو پاتی ہے۔فطین کا مطالعہ شوپنہار  کے نزدیک بہت اہم تھاکیونکہ  اس نے اپنے مقالات میں اسکا ذکر کئی بار کیاہے، ایک جگہ پر تو فطین اور ذہنی مریض میں بھی تعلق قائم کرتا ہے۔
                شوپنہار کے نزدیک ایک فطین شخص وہ ہے جس میں اتنی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اشیاء کے مابین باہمی ربط جو ایک عام شخص قائم کرتا ہے، کو نظر انداز کرے۔ یہ اصول معقول وجوہات کے تحت ایسی چیز پر اسے توجہ مرکوز کرنا کہ تخلیق کی جا سکے۔ وہ حقیقی  باطنی ایک عام علم ہے۔کسی چیز پر اسلئے توجہ مرکوز کرنا کہ تخلیق کی جا سکے۔وہ حقیقی باطنی خیال کے تحت نئی چیز ایجاد کرتا ہے یا پہلے سے موجود اشیاء میں بہتری لاتا ہے۔ وہ ت مختلف  اشیاء کے درمیان تعلق تعلق قائم کر کے عصری تصورات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ اپنے خیالات  کے مابین تعلق قائم کر کے عصری تصورات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ اپنے خیالات  کے درمیان لزوم معلوم کرتا ہے۔اس میں یہ لیاقت  پائی جاتی ہے کہ اسکے باطنی خیالات کی پو ری نسل میں نمائندگی کیسے کرنی ہے۔ مثلاً وہ معلومات ذخیرہ کرنے کا خالص فردبن جاتا ہے اور وہ شخص بننا ترک کر دیتا ہے۔جو غورو فکر کے واسطے  سے فارغ ہو جاتا ہے جو کہ ایک حقیقی انسان میں میں موجود ہوتا ہے، ایک کمزور اور لاغر شکل میں جنکی اصلاح اور ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے، اسکو اس حد تک قابل کر دیا جاتا ہے کہ وہ بالکل صحیح خیال میں تبدیل ہو جائیں ا ور یہ عملی تخلیق کار کی ذہانت اور غور و فکر کی وجہ سے طے پاتا ہے۔اسکا مشاہدہ عام لوگوں کی نسبت انتہائی گہرا ہوتا ہے۔اسکی سوچ عمیق ہوتی ہے اور دوسروں کے سامنے اس انداز میں پیش کرتا  ہے کہ عام لوگ انہیں سمجھ سکیں۔   (WI  194)۔
                فنکار عام حالات کے کسی رخ کو ایسے انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے جس پر ناظرین نے ان پر پہلے توجہ نہیں دی ہوتی یا کم توجہ دی ہوتی ہے۔وہ  اپنے اچھوتے  افکار کو دیگراشیاء میں بھی منتقل رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  شوپنہار کہتا ہے کہ مصوری ایک ایسا فعل ہے جو بار بار دہرایا جا تا ہے۔وہ  مسائل کواپنی نظر سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسکی یہ صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے لیکن وہ اس تحفے کو تعلیم و تجربے سے نکھارتا ہے۔تاہم فطری صلاحیتوں کے باوجود تکنیکی معاملات میں حاصل کرنا بھی ضروری شمار کیا جاتا ہے۔(WI   195)
  شوپنہار  کے نزدیک   اذیت،، تکلیف اور آلات کی جڑیں طلب اور خواہشات میں ہوتی ہیں جو جبلی ہیں۔جمالیا تی حس اور فنون ان سے چھٹکارا دلاتی ہے۔فنکار جب کسی اپنی دنیاوی خواہشات کو کم سے کم کردیتی ہیں۔جس وقت فنکار  اپنی تخلیق میں موجود ہوتا ہے تو اس پر وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے۔اس الہامی حالت میں فنکار کی خواہشات اپنی کم ترین سطح پر پائی جاتی ہیں۔اسلئے اس مرحلے کو بے خواہش کی منزل (Will.lessness) بھی کہا جاتا ہے۔اس میں فنکار روحانی آسودگی محسوس کرتا ہے۔اس وقت وہ ہر قسم کی اذیتوں سے بے نیاز ہوتا ہے، دنیاوی  اشیاء سے نہ صرف ناطہ توڑ دیتا ہے بلکہ ان سے نفرت محسوس کرتا ہے۔  اس دوران اسکی تمام عقوبتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ لمحات اسکی زنگانی کا بہترین سرمایہ ہوتے ہیں۔وہ سماں اس میں طلسماتی لذت پیدا کرتا ہے۔ یہ دنیا  خارجی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔اس وقت اسے اپنی حیثیت بھول جاتی ہے۔وہ اس وقت معلومات کا ایک ذخیرہ ہوتے ہیں۔ذ اتی خواہشات کو رد کرکے وہ اپنی گہری سوچ کو تخلیق سے عام فہم بناتا ہے بصورت دیگر صرف فطین لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کر سکتے۔انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
                شوپنہار  کے نزدیک کا تجربہ ہمیں تمام خواہشات، مایوسیوں، محرومیوں، تلخ حقائق،وغیرہ سے روکتا ہے اور تخیلات اورتصورات کو مضبوطی سے تھامتا ہے۔ وہ خود بینی کرتا ہیاور یپنی لاشعور کی گہرائی سے حقائق نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
                شوپنہار کہتا ہے کہ ہر فن کی اپنی خصوصیت، اہمیت اور مقام ہے۔فن تعمیر، زرعی  مصوری، تاریخی مصوری، مجسمہ سازی، علامتی بیان بازی، شاعری، تمثیل  نگاریاور موسیقی وغیرہ اپنے اپنے مقام پر اہم ہیں۔شوپنہار کا نقطہ نظرصرف اس کے نظریے تک ہی محدود نہیں تھا  بلکہ وہ خود بھی ایک اعلی! مصور اور موسیقار تھا۔ وہ بانسری بہت اچھی بجاتا تھا۔اب ہم مختصراً  فنون کی مختلف اصناف بیان کرتے ہیں۔اس نے جمالیات پر کتب لکھیں۔ اس نے اسکی فن کے موضوع کے تحت  تخیلات کے لحاظ سے درجہ بندی کی۔ سب سے ادنی! سطح پر  اس نے ایسے تخیلات کو شمار کیا  وہ غیر نامیاتی مادے کے بارے میں تھا۔ اس سے اوپر  مادی، پھر نباتاتی، پھر حیوانات آتے ہیں۔اس کے بعد درجہ بندی میں جودرجہ آتا ہے، اس میں  ایسی اشیاء ہیں جو خواہشات رکھتی ہیں، آتی ہیں۔
                عمارت سازی( Architecture) :جمالیاتی فن میں شوپنہار کے نزدیک سب سے نچلی سطح پر آتی ہے۔اس میں ایک صورت تو مصنوعی ہے جس میں  ماہر تعمیرات کشش ثقل، زمینی ٹکراؤ، سختی،  سیال مادہ،روشنی،  موسم کی مناسبت، گرمی، سردی کی نوعیت، ڈھانچہ، مضبوطی، بارش، آندھی، طوفانوں، آسمانی بجلی سے بچاؤ,، کشش ثقل،فن مضبوطی اور خوبصورتی  وغیرہ دیکھ کر عمارت کو دلکش بناتے ہیں۔اس فن میں آرکیٹیکٹ مواد کو اپنی مرضی سے تبدیل کر کے کوئی نئی چیز بناتا ہے۔مادہ کی خصوصیات  دیکھ کر اسکو اپنی بصیرت، ہنر، علم اور تجربے کی بنا پر  انوکھے انداز میں تعمیر کرتا ہے۔ روشنی، خوبصرتی سے پتھروں، رنگوں کا انتخاب، سر سبز لان، آبشار وغیرہ   شامل ہیں۔ تاج محل آگرہ۔ شالامار باگ وغیرہ اسکی مثالیں ہیں۔ ایسے فن میں فنکار کی خواہش شامل ہوتی ہے اور بے خودی نہیں پائی جاتی۔یہ اس وقت فن کا درجہ حاصل کرتی ہیں جب وہ ظاہری طور پر دلچسپ  لگے۔ مادہ میں بذات خود تخیلات نہیں پائے جاتے لیکن  اصلی جمالیات عمارت سازی،باغبانی (Horticulture)، منظر کشی((Landscape،حیوانات کی نقش نگاری (Animal Paintings) اور مجسمہ سازی   (Sculpture) اصناف لطیفہ :  یہ فنون تخیل سازی ظاہر کرتی ہے۔ منظر کشی میں سبزہ، پھول، کیاریاں، پودے محل وقوع کے لحاظ سے لگائے جاتے ہیں  تاکہ پیش منظر دلکش لگے۔اسے موسموں کی مناسبت سے بنایا جاتا ہے۔ مجسمہ سازی میں بھی منظر کسی کی جاتی ہے اور حیوانات کی نقش نگاری کی جاتی ہے۔ایسے فن میں خواہش پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ منظر کو دلفریب بناکر، اس  میں کھو کر اپنی تکالیف کو کم کیا جاتا ہے۔پتھروں پر مصوری یا نقش نگاری ناظرین کے مود کا تعین کرتے ہیں۔ اگر نقش نگاری میں بپھرے ہوئے جانور ہوں تو تاثرات اور ہوں گے،اگر خوبصرت مناظر منقش ہوں گے تو اور۔
                تاریخی مصوری (Historical Paintings)  اور مجسمہ سازی (Sculpture) میں جمالیاتی حس اس سے اوپر آتی ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ فنکا ر کو  نسلوں کی ترویج و ترقی، ثقافت، معاشیات وغیرہ کی عکس بندی ضرور کرنی چاہیئے۔انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی فن میں شامل کیا جانا چاہئیے۔ ایک ہی نسل کا جانور اپنی انفرادیت بھی رکھتا ہے۔ہر ایک کی انفرادیت کو اجاگر کرنا ایک فن ہے۔ تواریخی  مصوری اور مجسمہ سازی  میں فنکار میں تخیلات کی پیچیدہ صورت حال کی نسبت سے، طیش، غصہ، خوشی، غم، دکھ، مایوسی، فخر، غرور، خوبصورتی، محبت، نفرت، خد وخال اور انفرادیت کا عکس دکھایا جاتا ہے، اشکال، تصویر کشی سے حالات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ پتھروں پر کندہ جملے،  اشکال اصلیت بیان کرتے ہیں۔شوپنہار کے مطابق تاریخی مصوری کو عروج اسوقت حاصل ہوا جب عیسائیت کی ابتدا  روح اور اخلاقی پہلو اجاگر کئے گئے۔انسانوں کو عقیدت اور روحانیت کے ساتھ پیش کیا گیا۔عموماً حضرت عیسیَُِٰٖ علیہ السلام کے ساتھ ا ن کی امت کا ایک گروہ ان کے ساتھ ہوتا تھا۔  تصاویر میں عموماً ایک ماں اور بچہ جسے فرشتوں نے اٹھایا ہوتا تھا اس دور کی عکاسی کرتی تھیں۔
                 موسیقی، شاعری، ادب، تمثیل، آپرا، تھیٹر، فلمیں:  یہ فنون اعلی! سطح  پرآتی ہیں جس میں کردار سازی اور روز مرہ زندگی کے حقائق سے آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ شاعری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچائے۔اسکی روحانیت  اسکے شعروں کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔اس صنف میں موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ہر سو کسی بھی عنوان پر اپنے جذبات کو معروضی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔مختصر ترین الفاظ میں معرفت کی باتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔اس کے ذریعے ، سوانعمریا ں، حمد، نعت، حمد، ا نسانی  اعمال، فطرت، افکار، جذبات، ترقی پسندی، رجائیت، قنوطیت، معاشی، سیاسی، معاشرتی، غم جاناں اور غم جاناں، رومانیت، انقلاب وغیرہ پر لکھے۔شاعری سچائی کے قریب سمجھی جاتی ہے۔یہ وقت کی قید سے آزاد ہے۔وہ انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کسی بھی دور، مقام، قوم،سلطنت،واقعا ت اور حالات پر لکھے۔شاعری کو پابند نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنے انداز میں اپنا مدعا  ضرور پیش کر دیتی ہے۔ تمثیل نگاری میں ٹریجڈی کو شاعری کی ایک اہم صنف قرار دیتا ہے۔مایوسیاں، درد جو ادا نہیں کیا جا سکتا، بربادی،، ظلمت کی فتح،  قابل نفرت حالات، ظلم و ستم  پایا جانا۔ ایک معصوم اسکا سراسر شکار ہوتا ہے۔اس وقت حقیقی دنیا کی اصلیت کا پتا چلتا ہیکہ دنیا کا روپ کتنا گھناؤنا ہے۔ایسے ڈرامے میں خواہش کی مخا لفت مکمل طور پر ظاہر ہو جاتی ہے اور اس میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔(WI  253).۔ ٹریجڈی خواہش کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔بعض میں تو خواہش کی نفی بھی دکھائی جاتی ہے۔ترک دنیا کر لی جاتی ہے۔، دنیا تیاگ دی جاتی ہے۔
                شوپنہار نے موسیقی کو دیگر فنون سے مختلف قرار دیا کیونکہ یہ  ایک شخص کی باطنی دنیا کی نقلی حیثیت کے اظہار کا اچھوتا طریقہ ہے۔یہ کسی فنکار کی خواہش کی نقل ہوتی ہے۔ موسیقی تخیلات کی نقل نہیں۔تخیلات اصل ہوتے ہیں جو خواہش کو معروضی طور پر معقول انداز میں بیان کرتے ہیں اور علوم و فنون کی تمام اصناف میں پائے جاتے ہیں۔جبکہ موسیقی میں جمالیاتی حس کی ایک صنف ہے جو تخیلات کو  استعمال نہیں کرتی۔ موسیقی  میں انسان اپنی خواہش کی بنہ صرف  نقل کرتی ہے بلکہ اسے آگے منتقل کر دیتی ہے۔یہ عظیم فن ہے۔اسکا اثر لوگوں پر گہرا ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ۔ جذبات و احساسات  ان کومکمل طور پر سمجھ لیتے ہیں۔اسکے کلام، آواز اور آرکیسٹرا میں قوت  اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر سامع سن کر کہتا ہے کہ یہ اسکے جذبات کی عکاسی کر رہی ہے۔موسیقی ایک بین الا قوامی زبان ہے جسے ہر کوئی بلا رنگ و روپ، اور مذہب سمجھ لیتا ہے۔ ( WI  256)۔ جمالیاتی فنون کی جملہ اصناف میں موسیقی ہی ایسا فن ہے جس میں تخیلات نہیں پائے جاتے۔ یہ ایک عمدہ فن ہے اور ارفع شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی مخصوص شئے  کو فن کے طعر پر استعمال نہیں کیا جاتا۔یہ دنیاوی معاملات کو طریقے سے بیان کرتا ہے۔اسکا اثر لوگوں پر فوری ہوتا ہے اور شخص کی خواہش کی نقل اس میں شامل ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ موسیقی کا اثر انسانوں پر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جو طاقتور اور دلوں میں کھبنے والا ہوتاہے اور ہمہ گیر ہوتا ہے۔موسیقی انسان کے بہترین احساسات  پیش کرتی ہے  جس میں ساز وآواز کی ہم آہنگی عقلی، جذباتی اور روح کو بیک وقت متاثر کرتی ہے  (WI 260)۔ ش موسیقی میں خواہش کی کوششوں کو  مختلف صورتوں میں  پیش کرتی ہے۔خصوصی طور پر  مصائب، آلائشوں جو خواہش کی کبھی نہ ختم ہونے والی کوششوں کی وجہ سے  درمیانی عرصہ میں جو تھوڑے بہت راحت کے وقفے آتے ہیں اور تھوڑا  وقت گزرنے کے بعد مزید کوشش کرنا پڑتی ہے کہ سکون حاصل ہو جائے اور خواہش کم ہو جائے۔ موسیقی  میں کمپوزر  اپنی انفرادیت  پر قابو پا لیتا ہے ا ور بے ساختگی میں الہامی انداز میں دھن ترتیب دیتا ہے۔وہ اپنے باطن کا معروضی اظہار کرتا ہے۔ وہ اپنا غم، درد، خوف،دہشت،خوشی، رومان، امن،اور ذہنی سکون اس سے حاصل کرتا ہے۔
                شوپنہار نے محبت کے موضوع کو اپنے فلسفے کا حصہ بنایا اور اس پربحث کی۔
                شوپنہار کے محبت کے موضوع پر خیالات(Schopenhauer On Love):شوپنہار کے مطابق   ایک شخص کی دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے کو محبت کہتے ہیں۔انسانوں میں اس کی شدت اہم ترین خواہشات میں سے ایک ہے۔ اس کے مطابق خواہش زیست (Live۔ To۔Will)کے بعد محبت کی خواہش شدت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پرہے جس کی وجہ سے پریمی دنیا کی ہر قوت سے ٹکر لے لیتے ہیں۔  اس  نے کہا کہدنیامحبت کرنے والوں کے لئے نہیں بلکہ یہ شیطانوں کی دنیا ہے۔ پیار کرنے والوں کو قدم قدم پر سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔ یہ جذبہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہماں  باپ، بہن بھائی، رشتے دار، دوست احباب، سماج، قانون، عزت، شہرت، دولت قربان کر دئے جاتے ہیں۔اس جذبے کے تحت  خود کشی، لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل تک ہو جاتی ہیں، سلطنتیں اجڑ جاتی ہیں۔ نوجوانی میں اسکی حدت اور سنگینی اپنی انتہا پرہوتی ہے۔نوجوانوں کی سوچیں اسکے گرد ہی گھوم رہی ہوتی ہیں۔یہ اہم معاملات کو خطرناک حد تک نقصان پہنچاتی ہے۔ سنجیدہ معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔اسکی بدولت وفادار ساتھی بغاوت کر گزرتے ہیں۔ دھوکہ دہی، فوری حصول، جلد بازی بے وفائی کی جاتی ہیں۔صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔جاہ و جلال، شان و شوکت، عزت و ناموس،روپیہ پیسہ اور سکون تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ محبت میں اتنا  شوروغوغا، ہلچل، غصہ،مشقت، تکان کیوں پائی جاتی ہے؟ اسکی وجہ جیک (Jack)کی جل( Jill) کو حاصل کرنے کی خواہش ہے۔(WII 534)۔
                شوپنہار کہتا ہے کہ وہ محبت  کے جوش و جنون کی وضاحت کر سکتا ہے اور دو پریمیوں کے درمیان اتنا پاگل پن اور جذبات میں تلاطم کیوں پایا جاتا ہے۔ یہ شوروغوغا اور ہنگامہ، زور زبردستی کیوں ہے؟ محبت میں جو فیصلے کئے جاتے ہیں، وہ وقتی نہیں ہوتے۔ وہ نسل در نسل چلتے ہیں پریمیوں پر جب محبت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے تواس کا مقصد خواہش زیست ہوتا ہے۔محبت کے پیچھے جنسی محرک پایا جاتا ہے جو دراصل زندگی کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن یہ خوہش ایک مخصوص شخص کے لئے ہی پائی جاتی ہے۔ پریمی نسل کو دوام بخشنے کی خواہش رکھتے ہیں۔محبت مطابقت اور روگ پالنے کا نام نہیں بلکہ جذبے اور جنون کا نام ہے جو ان کی طبعی جسمانی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔یہ خواہش زیست ہے  اور اپنے پریمی سے ہی نئی نسل قائم کرنا چاہتی ہے۔اصناف میں پکا لگاؤ پایا جاتا ہے، آپس میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور اسکے ساتھ ہی اپنی جنسی خواہشات کی تسکین  چاہتا ہے۔ان کا ایک خوابیدہ  اور خفیہ مقصد نسلی بقا ہے۔
                شوپنہار نے محبت، شفقت،  یگانگت پسندیدگی اور تعریف اس وقت تک قائم نہیں ہوتی جب تک کہ آپس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح منسلک نہ ہوں۔ اگر رومانیت،  شفقت اور مہربانی  کے بغیر ملن ہوگا تو وہ تعلقات مفاہمتی کہلائے جائیں گے۔جبری روابط، قیمتی تحائف دے کر جنسی تعلقات قائم کئے جا سکتے ہیں اور نسلی بقا بھی کی جاسکتی ہے لیکن رومانیت نہیں۔
                شوپنہار سے پہلے یونانی فیلسوف نے محبت پر لب کشائی تو کی لیکن اسے سطحی طور پر بیان کیا۔ افلاطون، روسو، کانٹ اور سپینی نوزانے اس سلسلے میں مختصراًً بیان کیا۔ افلاطون نے جنسیت کو  امروہ پرستی کی رو سے بیان کیا کہ محبت انسانی فطرت میں داخل ہے۔محبت  و جنسی کشش سے بالاتر قرار دیا۔اس کے نزدیک یہ روحانی تعلق ہوتا ہے ا ور عملی لحاظ سے یہ تعلق مکمل طور پرغیر جنسی ہوتا ہے۔ جبکہ شوپنہار اسکے اس تصور سے انحراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ محبت میں شہوت اور جنس اہم ترین عنصر ہے۔ روسو نے محبت کو غلط اورغیر موزوں قرار دیا۔ کانٹ نے محبت کو خصوصی معلومات کے بغیراحساس قرار دیا۔ سپینوزا نے محبت کو معصومانہ فعل قرار دیا۔شوپنہار نے ان کے تمام د عووں کو غلط قرار دیا جبکہ اس کے نظریے  کے کی پیروی کرنے والوں میں سگمنڈ فرائیڈ اور شیکسپیئر  ان میں اہم تھے۔فرائیڈ نے اپنے نظریہ تحلیل نفسی میں شخصیت اور ذہنی بیماریوں کی بنیاد ہی جنس قرار دی۔ شہرہ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے بھی اسکے نظریے کی تائید کی اور اوڈیپس کمپلیکس کا تصور پیش کیا۔
                شوپنہار کہتا ہے کہ پریمیوں میں آپس میں اس قدر قربت اسلئے پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، عادات، مزاج کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے لئے موزوں ہیں اور جنسی شراکت دار ہیں۔یہ تمام چیزیں دوسرے رشتوں میں نہیں پائی جاتیں۔ تو قدرتی مناظر کی ہوتی ہے۔بسا اوقات زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے  وہ ایسا نظاہ پیش کرتا ہے جو دل کو لبھاتا ہے۔جیسے نیاگرا فال وغیرہ۔ شوپنہار کہتا ہے کہ محبت میں پریمی ایک دوسرے کی تعریف و ستائش کرتے ہیں۔ان میں  فطری طور پر ایک دوسرے پر حق جتانا،حق ملکیت اور حسد لازماً پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں اس رشتے کو پائیدار بنانے کے لئے جنس بھی اہم ترین عمل ہے جس کے بغیر نسلی تسلسل ناممکن ہے۔  وہ اسے ما بعد از طبیعیات کی رو سے بھی بیان کرتا ہے۔ لیکن جزویطور پر اسکی حیثیت طبعی ہے اور جزوی طور پر ماورائی۔ اسلئے اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ تا ہم  قد، عمر،صحت طبعی ساخت، کاٹھ، شکل و صورت، جسم پر متناسب گوشت، رنگ و روپ  ساتھی کے انتخاب میں اہم  شمار کی جاتی ہیں۔محبت کرنے والوں کی سچائی واضح طور پر منظم انداز میں سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ ان کے رومان میں روحانیت بھی پائی جاتی ہے۔ تقدس، وفاداری،بے لوث  چاہت،اور سماجی وحدت پائی جاتی ہے۔ محبت میں کوئی بات توقع  اور مزاج کے خلاف بھی ہو تو اسکو در گزر کردیا جاتا ہے۔یہ طوفانی دور جب گزر جاتا ہے توپھر اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ حقوق نسواں، حقوق وراثت۔ بین الذاتی تعلقات ، اعتماد، وفائی بے وفائی، بد کرداری وغیرہ کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جوڑا انتخاب میں اس بات کو اہم شمار کرتے ہیں کہ نئی نسل کیسی ہو گی۔اس کے مطابق خواتین ساتھی کے انتخاب میں ذہانت کو کم اہمیت دیتی ہیں اور اپنی حفاظت، جسامت اور جنسی قوت پر زیادہ زور دیتی ہیں۔ ہماری خواہش ہمیشہ اپنے لئے موزوں ساتھی تلاش کرتی ہے۔اگر جوڑے کے تعلقات خراب رہیں تو اولاد کی صحیح پرورش نہیں ہو پاتی۔محبت میں دیگر تمام خواہشات بھلا دی جاتی ہیں اور پریمی کے نزدیک محبت کی خواہش ہی باقی رہتی ہے۔
                شوپنہار محبت کو مذہبی عقائد کے نقطہ نظر سے بھی دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کے وسیع تناظر میں خواہش ہمیشہ اس کوشش ہیں ہوتی ہے کہ اپنا رومان ایسے شخص سے کرے جو اسکے مزاج  سے مطابقت رکھتا ہو اور افزائش نسل کیلئے موزوں ہو۔ا سنے بدھ مت اور ہندو مت کے تناسخ ارواح (Reincarnation)کے نظریے کے تحت اسکی وضاحت  کی۔ وہ کہتا ہے کہ مختلف اصناف میں محبت کے درمیان سلوک،  اور رویہ ا س چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ سابقہ دور کے تجربات کی روشنی میں ان  کے موجودہ  وجود میں مقام کی ابدیت اور وقت کی لامحدودیت کس حد تک پائی جاتی ہے، کیا اس باران کی محبت میں خواہش زیست برقرار رہ سکے گی؟  کیا وہ اس بار اپنی یہ خواہش حاصل کر پائیں گے؟ تمام خواہشیں سمت کر محبت  پانے کی خواہش تک محدود ہو جاتی ہیں،
                نطشے نے محبت کے اس عمل کو سایہ، تمثال یا  ہو بہو سابقہ  (Selfsame)  عمل کہا۔اس نے اس تصورکی وضاحت میں کہا کہ کوئی شخص محبت کی خواہش میں مرنے کے بعد دوبارہ دنیا میں واپس آ سکتا ہے۔ محبت میں انفرادیت نہیں رہتی۔ محبت میں جو لا محدود مسائل پیدا ہوتے ہیں،ہر دور میں محبوب سے فراق کا غم روحانی کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔جو یہاں اپنے مقصد کے حصول کا حتمی وسیلہ شمار کیا جاتا ہے۔ دکھ، درد،اور شدید اذیت محبوب کی انفرادیت بلکہ اسکی مرکزی انفرادیت پر حملہ کرتی ہے جسکا نام خواہش ہے۔اس مرحلے میں اسکی نسلی وجوہات کو جزوی  تشفی بخشتی ہے لیکن خواہش  تمام ذاتی محبت کی بنیاد ہے۔ تمام تر خواہش بقا حاصل کرنا ہو جاتا ہے۔ جب بھی کوئی شخص محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی غیر مخلوق کے زیر اثر ہے۔ اور اسکا حصول ہی اسکی زندگیمہے۔دراصل وہ افزائش نسل کی خواہش ہی ہوتی ہے۔
                رومان میں میں جوڑا ایک مزاحیہ اور عجیب و غریب کردار بنکر رہ جاتا ہے۔ اگر اس میں ٹریجڈی ہو جائے تو ایسا محسوس کیا جاتا ہے کہ وہ کسی سائے کے زیر اثر ہے۔  وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا، اپنی ڈات سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اسے ریموٹ سے کنٹرول کر رہا ہے۔ ایسی ہیجانی کیفیت میں وہ خودکشی بھی کر لیتا ہے۔ اس حالت میں وہ عقل و دانش کے بغیر کام کرتا ہے۔اس سائے کو شوپنہار نے نسلوں کی روح  (Spirit Of Species)کہا۔ایسے اوقات جس سے اب وہ گزر رہا ہوتا ہے کو اس نے نسلوں کی خواہش (Will Of Species) کا نام دیا۔بے بس ہو کر جب کوئی اور چارہ کار نہیں ہوتا توایسے کرب سے بچنے کے لئے وہ سراسر غیر موزوں ساتھی تلاش کر لیتا ہے جو اسکی صورت حال کو مزید تلخ کر دیتا ہے۔ ایسا جوڑا  شادی کے بعد کے نو سے بارہ مہینے  ظاہری سطح پر اچھی طرح رہتا ہے پھر اس میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے کیونکہ اس دوران بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس  کے بعد اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں  جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں اور شادی ناکام ہو جاتی ہے۔جبکہ حقیقی محبت حاصل کرنے کے بعد جذباتی
تعلق دیرپا ہوتا ہے۔کسی آرزو کے رہتا ہے اور انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔
                مندرجہ بالا علوم و فنون شوپنہار کے مطابق ایسے فنون ہیں جوذاتی خواہش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، مثبت تصور کئے جاتے ہیں اور انسانیت کی بہتری میں بھی معاون ہوتے ہیں لیکن ان سے انسانی خواہشات پر تھوڑا بہت ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔اب ہم شوپنہار کے اس نظریے پر آتے ہیں جس میں اس نے  انسان میں بغیر کسی خواہش کے زندگی گزارنے کا تصور پیش کیا۔ ایسی زندگی کو اس نے جینے کی معراج کہا۔ااس کے مطابق ایسا کردار اپنانے سے انسان نروان حاصل کر سکتا ہے۔جو نیچے بیان کیا گیا ہے۔
                 بلا خواہش زندگی کا حصول(Will-less Life): شوپنہار اگرچہ لادین تھا۔وہ سیکولزم پر یقین رکھتا تھا اور اپنے نظریات میں کسی مذہب کو شامل نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس نے کچھ مشرقی مذاہب کا مطالعہ کیا تو ان میں سے چند ایک میں اسے ایسے اہم عقائد ملے جس کے ذریعے خواہش کے بغیر زندگی گزاری جا سکتی تھی تو اپنے نظریے کی سچائی ثابت کرنے کے لئے جو وہ مشرق کے سفر سے پہلے بیان کر چکا تھا، کا گہرائی میں مطالعہ کیا اور ایسے ثبوت حاصل کئے جو اس کے نظریے کی تصدیق کرتے تھے۔ ان عقائد میں رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے اپنی خواہشات کی نفی کی جا سکتی تھی اور ان اقدام کو بڑی تحسین سے دیکھا جاتا تھا۔ اس نے انہیں اپنے نظریے میں شامل کرکے اپنے نظریے کو تقویت دی۔  اس کے پیش روپنی اپنی ثقافت اور عقیدے کے مطابق نظریات پیش کرتے تھے جو  علاقائی تھے اور محدودعلاقے تک ہی ان کا اثر تھا۔
                شوپنہار ہمیشہ سے ایسے شخاص سے متاثر تھا  جو اپنی مرضی سیبلا خواہش زندگی گزارتے  تھے۔ اپنے کردہ  اور ناکردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے اور انسانیت کی بہتری کے لئے دنیا تیاگ دیتے  تھے۔ وہ قریہ قریہ بھٹکتے، مارے مارے صحرا نوردی کرتے، جنگلوں کی خاک چھانتے،آرام و سکون کو خیر باد کہہ کر چلہ کشی کرتے تھے۔اس نے ایسے لوگوں کو اپنے نظریے میں اعلی! ترین مقام عطا کیا ہوا تھا۔اس نے اپنے نظریے میں عیسائی مذہب کے نئے عہد نامے، بدھ مت، ہندو مت، چینی،یونانی اور پورپی مذاہب کا مطالعہ کرکے ایسے واقعات شامل کئے  جو اس کے نظریے کی تائید کرتے تھے۔۔اس نے ذاتی طورمشرقی ممالک جا کر سنتوں، بھکشوؤں، بھگتوں، سادھوؤں، صوفیوں اور جوگیوں کے کڑے ریاض اور  شدیدمشقتوں کا مشاہد ہ کیا اور اپنے نظریے کو نکھارا۔ اگرچہ اس نے اپنے ابتدائی نظریے  دنیاوی وجود کی نمائندگی (WWR) میں  ان کی اہمیت بیان کر دی تھی لیکن اسکی مزید وضاحت میں اس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اسکا نظریہ  ویدانیت، اپنشد اور بدھ مت کے عقائد کے بغیر مستحکم نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ مختلف مذاہب کے نیکو کار اپنی رضا اور مرضی سے اپنا سکون اور آرام چھوڑ کر عسرت کی زندگی گزارتے تھے۔خالی بے رونق زندگی کو دنیاوی رنگینیوں پر ترجیح دیتے  اور روحانیت کی تلاش میں رہتے تھے۔انا کے بغیر ہوتے تھے، انفرادیت نام کیک کوئی شئے نہیں پائی جاتی تھی،اپنے وجود کا کوئی احساس نہ تھا۔ ہر وقت مرنے کے کئے تیار تھے۔لالچ،طمع، جنگ،حسد، کپٹ، کینہ،دنیاوی محبت اور نرگسیت سے پاک تھے۔ان کی زندگی اعلی! ترین تھی۔
                شوپنہار نے اپنے نظریے میں مشرقی علوم کو مغربی علوم میں شامل کیا اور بتایا کہ دیگر ثقافتوں کے علوم بھی انسانیت کی بہتری کرتے ہیں۔ اس نے دو طرفین کے اختلاط سے اپنا نظریہ بنایا جس نے بین ا لاقوامی فلسفہ کی بنیاد رکھی۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بدھ مت اور ہندو مت میں محبت بنیادی طور پر لافانی ہونے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ دنیوی تکالیف اور محبت میں جنونی کیفیت عمومی دنیا وی زندگی سے دلچسپی کم کر دیتی ہیں اور اپنی ذات کو محبوب کے وجود میں گم کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کی بھوک مٹ جاتی ہے اور دنیا کی قدرومنز لت کم ہوتی جاتی ہے۔
شوپنہار ایک قنوطی فلسفی تھا لیکن اسکے باوجود وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ عقل و استدلال اور بھرپورجذبے کی مدد سے ہر شخص اپنے مصائب کم کر سکتا ہے۔ اس نے اپنے مقالے  ضمیمہ اور متروکات (Prerega & Paralipomena)  میں بیان کی جس کی تفصیل نمائندگی بطور دنیا میں بیان کی جا چکی ہے۔
                شوپنہار  اپنے نظریے میں کسی بھی خواہش کو رد کرنے کو سراہتا  ہے۔پنے نظریے کی  تائید  وہ  ہندو مت، بدھ مت اور عیسائیت کے صحیفوں کا سہارا لیتا  ہے۔ وہ ہندومت میں ویدانیت اور اپنشد  سے بہت متاثر  ہے۔ویدانیت  ہندو مت کے قدیم ترین صحیفے ہیں جو قدیم سنسکرت میں پیش کئے گئے ہیں۔ اس میں مناجات،مذہبی اشلوک اور زندگی گزارنے کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔وید انیت کے عقائداور تعلیمات Vedanta)) پر آج بھی  بڑے احترام کے ساتھ مروج ہیں۔ انکی تعلیمات کی روشنی میں مخلوق کی رہنمائی کی جاتی ہے۔یہ قول سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کئے گئے ہیں۔  طیدانیت کے چار مجموعے ہیں۔ جو مناجات،  اور بھجن(Rig Veda)؛  قربانی کرتے وقت کی رسوم(Sama Veda)؛  مذہبی احترام اور عبادات کے طریقے (Yajur Veda). اوررسوم کی ادائیگی  پر اشلوک(Atharva Veda) ہیں۔ان کو اب تحریری شکل دے دی گئی ہے۔ان میں مذہبی فلسفہ، عقائد،دیومالائی قصے اور کہانیاں،مذہبی رسوم و رواج،۔اصول و ضوابط،،لوک ریت، روایات، رسوم و رواج،احکامات، اخلاقی اصول، قوانین، روحانی، الہامی اور عملی زندگی گزارنے کے خد و خال بیان کئے گئے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی علمائنے اجماع کے ذریعے اصلاح بھی کی ہے  اور یہ نسلوں سے جاری و ساری ہیں۔ شوپنہار بدھ مت اور ہندو مت سے بہت متاثر تھا۔مہاتما بدھ کے اس قول کو اس نے اپنے فلسفے میں شامل کیا جس میں اس نے  اپنے  پیروکاروں کو تنبیہ کی تھی کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔پیدائش دکھ ہے، بڑھاپا دکھ ہے،بیماری دکھ ہے، مرنا د،کھ،  پژمردگی  اور نا امیدی دکھ ہے۔ ناگوار حالات کا سامناکرنا دکھ ہے، اس چیز کو حاصل نہ کرپانا جس کی اسے خواہش ہو، دکھ ہے۔ شوپنہار نے انسانی فطرت کو اسی انداز میں بیان کیا۔اس نے انسانی زندگی کا تاریک رخ بیان کیا ہے جو انسانیت کا روئے زمین پر پیش کرنے کا قنوطی انداز ہے۔اسکی یہ بات سچ ہے کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔بڑھاپا،موت،استرداد،مایوسی  و  نامرادی۔خواہشات کی ناکامی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ تلخ حقائق ہر ذی روح کے ساتھ پیش آتے ہیں لیکن حقیقت میں زندگی کا ایک ایک لمحہ دکھوں کا گھر ہے، صحیح نہیں۔اس میں اور کچھ نہیں، دکھ ہی دکھ ہیں کے تصور میں ایسا ضرور ہے کہ حالات قابو میں نہ ہوں تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ شوپنہار اس پر یہ دلیل دیتا ہے کہ بعض اوقات ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ سکون میں ہے لیکن اسکی یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی۔لمحاتی ہوتی ہے۔کچھ دیر بعد جسمانی، معاشرتی، اخلاقی، معاشی، قانونی  وغیرہ ضروریات کی وجہ سے خواہشات دوبارہ سر اٹھاتی ہیں اور پھر دکھوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
                شوپنہار دکھوں کی وجوہات بیان کرتے وقت بدھ مت کی منطق استعمال کرتا ہے۔جس کی بنیاد روحانی ہے۔  بدھ مت کے نزدیک زندگی کی پہلی سچائی  دوکھا(Dukka)  ہے جس میں وہ دنیا کو دکھوں کا مسکن کہتاہے۔ زندگی کی دوسری حقیقت  سمدھیا(Samudaya) ہے  جس میں وہ یہ بیان کرتا ہے کہ تمام مصیبتوں کی جڑ خواہشات  اور لالچ ہیں۔ تیسری سچائی  نرودھا  یا نروان (Nirodha) ہے۔جس میں وہ مراقبے اور جسمانی مشقتوں کے ڈریعے دنیاوی خوہشات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے اور چوتھا سچ ماگا ( Magga) ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ تمام خواہشات ختم کر دینے سے مکتی حاصل ہو سکتی ہے۔  وہ اس عقیدے کو صحیح  مانتا ہے۔اس بنیاد پر اس نے یہ اخذ کیا کہ دنیا  دقیانوسی اور قنوطی ہے۔لیکن اگر ہم اس کی تفصیل میں جائیں  تو یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مصیبتوں کی وجہ کیا ہے اور ان کو دور کرنے کیلئے کون سے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔اس نے وہ  ان حالات کی تفصیل بیان کی ہیں جو دکھوں کا باعث بنتے ہیں۔انسان ان کو سلجھانے کیلئے موزوں اقدامات کر سکتا ہے۔اسلئے مہاتما بدھ  صرف کچھ واقعات کی بات کرتا ہے جس وجہ سے مصیبتیں طاری ہوتی ہیں اور شوپنہار کا انہیں پورے نظریے کی بنیاد بنا دینا جائز نہیں۔
                شو پنہار کہتا ہے کہ بدھ مت میں کہا گیا ہے کہ جب بچہ پیا ہوتا ہے تو وہ روتا ہے، چیختا چلاتا ہے جو اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ  بچہ اس دنیا میں آنا نہیں چاہتا تھا لیکن زبردستی بھیج دیا گیاہے۔ وہ بدھ مت کے تناسخ ارواح کے نظریے کو  تسلیم کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ پیدائش کے بعد اسکا وجود نئے جنم کی شکل اختیار کرکے اس دنیا میں آچکا ہے جو اپنے ساتھ پچھلے جنم کے گناہ بھی ساتھ لایا ہے اسلئے وہ قابل نفرت ہے۔پیدائش دکھ کا نام ہے وہ سمسارا  ہے، لالچ،حرص، ہوس، دییاوی خواہشات اسکا گھیراؤ کرتی رہتی ہیں۔ دنیا میں آنے کوبذات خود کسی جشن اور خوشی کا نام  نہیں دیا جا سکتاکیونکہ اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ سمسارا  یا دنیا  سے محبت آفاقی اور عالمگیراخلاقی آزادی، نیکو کاری،، سکون اور نجات سے بہتر ہے۔ اسلئے مہاتما بدھ کا  یہ کہنا کہ نئے جنم پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ اسکے ساتھ پچھلے جنم کے برے اعمال شامل ہوتے ہیں جنہیں نئے۔ اس وجہ سے  اس گناہوں کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے جو اذیتیوں کا باعث بنتی ہے۔ اسلئے دکھوں سے چھٹکارا ممکن نہیں۔وہ ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔اس وقت سمسارا  دنیا اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے اور وہ زندگی بھر مکتی حاصل کرنے کے لئے تڑپتا رہتا ہے۔بیماری کو ہم صحت نہیں کہہ سکتے اور پیدائش پر جشن منانے والی بات نہیں ہوتی کیونکہ اسکے بعد زندگی بھر چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آگے اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے، پتہ نہیں ہوتا اسلئے وہ خوف میں مبتلا رہتا ہے۔۔
                بدھ مت اور ہندومت میں شوپنہار نے مراقبے کے عمل کو سراہا اور اسے  بنیاد بنا کر کہا کہ یہ ایسا طریقہ ہے جس میں شخص اپنی تمام خواہشات کو اپنی مرضی سے منع کر سکتا ہے۔ انسان کے پاس اختیار ہے کہ وہ اگر چاہے تو وہ دنیا تیاگ کر اپنی خواہشات جو کی تمام برائی کا منبع ہیں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ایسے مراقبوں کے لئے شدید ریاض درکار ہوتا ہے۔بھکشو، سادھو، جوگی، درویش، سنت، صوفیا سخت تربیت کے بعد نروان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی تمام خواہشات مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوسکتیں کیونکہ زندہ رہنے کے لئے کچھ ضروریات لازم ہیں۔ اگر تمام خواہشات ختم ہو جائیں تو  اسکا مطلب موت ہے۔ اسلئے زندہ رہنے کیلئے خواہشات کو کم سے کم سطح پر رکھنا پڑتا ہے۔ ا نسان یہاں اپنا آپ چھوڑ دیتا ہے  اور تمام ارضی معاملات (Mundane) سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔اس سے وہ اذیتوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور انفرادی طور پر بلند ترین اخلاقی درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ اپنے حال میں مگن رہتا ہے (aScripture  (Maggجوایک نیک مقصد ہے۔
                وہ اپنے نظریے کو زیادہ  معتبر بنانے کے لئے خواہش زیست(Will-To-Live)کا تصور پیش کرتا ہے۔اس نے یہاں عدم وجود یا لا وجود ( Non Existence) کا ذکر کیا۔  اس کے نزدیک  عدم وجود کا حصول بڑا نیک مقصد ہے۔ اس کیے نزدیک انسان کی یہ خواہش کہ اسکا  وجود ہی باقی نہ رہے، ایک اعلی! مقصد ہے جو بدھ مت کی لا وجودیت کی سچائی کے اصول سے میل کھاتی ہے۔ یہاں پر وہ اس بات کی تنبیہ کرتا ہے کہ زہد،، پاکیزگی  کے حصول کی خاطر اگر جسمانی خواہشات کو یکسرختم کر دیا جائے  تو ایسی صورت میں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ زندگی ہر قسم کی خواہش کے بغیر ہو گئی ہے لیکن اس صورت میں وجود کا خاتمہ بھی ہو جائے گا، اسلئے کم سے کم اتنی خواہش ہونی چاہئے کہ جسم کی کم سے کم ضروریات کی تسکین ہو سکے۔ اگرچہ اس نے  یہاں بدھ مت کے دوسرے اصول کا سہارا لیا ہے لیکن وہ اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہاہے کہ اپنی مرضی سے وجود ختم کرنے یا اسے ادنیً! سطح پر رکھنے کے لئے کس قسم کی خواہش درکار ہوتی ہے۔وہ تارک الدنیا  نیک بندوں کی مثال کے ذریعے بتاتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور  پردنیوی آسائشوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔حقیقی طور پر جو وہ کرسکتے ہوں، نہ کریں اورغور و فکر کریں، عظیم ترین زندگی ہے۔
                انسانی فلاح و بہبود اور غور و فکر وہ آٹھ عناصر کی مدد سے حاصل کر سکتا ہے جو۔۔۔(الف) صحیح راہ پر چلنا ۔۔۔(ب)نیک ارادے اپنانا ۔۔۔(ج) صحیح اور مثبت گفتگو۔۔۔ (د )صحیح عمل کرنا۔ایک نیک شخص کی طرح  زندگی گزارنا۔۔)صحیح سمت میں کوشش کرنا۔۔) مثبت انداز میں سوچنا۔۔۔اور۔۔۔ط)معاملے پر نظر رکھنا اور ھرپور توجہ دیناہیں۔
                دکھ کو اس نے لغوی معنوں میں لیا ہے اور غیر مطمئن وجود کا  یا زندگی کی کسی مخصوص قسم اور صورت کا ذکرنہیں کیا۔ علاوہ ازیں اس نے یونانی دیو مالاؤں اور بدھ مت کے تناسخ ارواح کے نظریات کو اپنے نظریے میں اہمیت دی ہے۔ وہ پہلا فلسفی ہے جس نے پورپی اور مشرقی فلسفوں کا ملاپ کیا ہے۔اسکی زندگی کے آخری سالوں میں اس نے شہرت پانی شروع کی اور آج  کل یورپ میں وہ بہت مقبول ہے۔         

Popular posts from this blog