Purgatory Academy Award Winner short film 2022 by Anthony Dooley

 



عالمی ادب

 

عالم ِ برزخ

Purgatory

انتھنی   ُ ڈولی  ( عالمی انعام یا فتہ)

Anthony Doolety

 

مترجم و تجزیہ : غلام  محی الدین

 

 'مارننگ للیتھ!۔۔۔ مارننگ سست لڑکی ،

ہائے!

'ہائے! کیا تم نے ٹھیک سے نیند لی؟'للیتھ،ُ ام ! کیا تم رات  میٹھی نیند سوئی؟'

'مجھے ٹھیک سے یاد نہیںآدم۔'

' سونے کے بعد نہ تو تم  بڑبڑائی اور نہ ہی    کوئی آواز نہیں نکالی۔'

'کیاایسا ہے؟'

' تمہارے لئے چائے لایا ہوں ، پی لو۔ُام'

'شکریہ۔' للیتھ چائے پینے لگتی ہے۔آدم پسندیدگی  ظاہر کرنے کے لئےاس کے ماتھے پر بوسہ دیتا ہے۔  وہ چائے پی کرگہری سانس لیتی ہے ۔

'امید ہے تم آج بہتر محسوس کرو گی۔۔۔اوکے! تم اب اٹھ جاؤ۔میں تمہاری مدد کردیتا ہوں۔'وہ اسے گاؤن لاکر پہناتا ہے ۔

'شکریہ۔'

کمرے میں موسیقی  بج  رہی ہوتی ہے۔آدم پیار سےاپنی چاہت ظاہر کرنے کے لئے اسے کنپٹیوں کو چومتا ہے۔۔۔للیتھ انگڑائی  لے کر اٹھ  بیٹھتی ہے۔روز مرہ معمول کے مطابق کاؤنٹر پر رکھی ادویات لیتی ہے او ر  اپنی آنکھوں میں دوائی ڈالتی ہے۔  ہاتھ منہ دھوتی ہے تو اس کے چہرے پر چانٹوں کے نشان  ہوتے ہیں  جو آدم نے اسے رات مارے تھے۔ایسا ہونا کوئی نئی  بات نہیں تھی ۔اور خود کلام ہوتی ہے،'آدم نے کہا ہے ،آج کا دن میرے لئے اچھا ہوگا، شائد ایسا ہی ہو۔'وہ غسل خانے جاکر فطری ضرورت پوری کرتی ہے تو وہ شدید درد سے کراہ اٹھتی ہے۔ اس کے فضلاء میں میں  خون  شامل ہوتا ہے۔تکلیف  کی وجہ سے وہ  کافی دیر بیٹھ کر روتی رہتی ہے۔

آدم دفتر جانے کے لئے تیار ہوتا ہے تو  َ   باورچی خانے کے سنک میں اسے   گندے  برتنوں کا ڈھیر نظر آتاہے تووہ انہیں دھونے لگ جاتا ہے۔

'شکریہ ۔ رہنے دو ، میں صاف کر  دوں گی۔۔۔میری بیماری  میں ذرا بھر افاقہ نہیں ہوا،آج پھر میرے پیشاب میں خون آیا  ہے ۔۔۔ پتہ  نہیں کہ مجھے کیا ہوگیا ہے ۔کون سی بیماری لگ گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے ڈاکٹر کو دکھانا چاہیئے۔'

'ہم ایسا کرچکے ہیں۔'

'میں جانتی ہوں لیکن  اگر یہ  خون  کسی موذی  بیماری کی  وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔'

'ایسا نہیں ہے۔اگر تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ گی تو اس کا وقت ہی ضائع کرو گی، اور خود کو احمق ثابت کرو گی۔'

'لیکن آدم ، میں سمجھتی ہوں ۔۔۔بے بی!مجھے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔'

'ڈاکٹر کے پاس جانے کی قطعی ضرورت نہیں ۔انسان میں وقت مدافعت ہوتی ہے ، خود بخود ٹھیک

ہو جائے گی۔۔۔۔مجھے آج پھردفتر سے  دیر  ہو رہی ہے ۔۔۔اپنا  خیال رکھنا۔'میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ '

'میں بھی ۔'

ْڈلیوری بوائے نے آنا ہے ۔یاد رکھنا۔'

'او کے'۔

 دوپہر کودستک ہوتی ہے، وہ دروازہ کھولتی ہے۔

'ہائے! تم کیسی ہو؟ تمہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ مسٹر آدم نے خوراک کا آرڈر دیا تھا۔'

'او کے! شکریہ۔'وہ  ڈلیوری بوائے  سے پیکٹ لے  لیتی ہے ۔

'تمہارا ایڈریس ابھی بھی ہمارے ریستوران میں غلط  لکھا گیا ہے۔اسے درست کرا لو۔'

' معذرت! یہ میری غلطی ہے۔میں ٹھیک کرا دوں گی۔'خوراک کے تین پیکٹ دے کر ڈلیوری بوائے چلاجاتا ہے۔

فون بجتا ہے  جو اس کی ممی کا ہوتا ہے۔وہ اسے نہیں اٹھاتی اورخود کلامی کرتی ہے ۔' ممی!  میرا آج کادن اچھا نہیں جا رہا۔اس  سے  بات  کرکے   خواہ مخواہ پریشان کردوں گی ۔اس لئے وہ فون  نہیں اٹھاتی۔ وہ کھانے کے  پیکٹوں سے  اشیاء نکال کر میز پر رکھنا شروع کر دیتی ہے۔ اور روٹین کا کام کرنے لگ جاتی ہے ۔اس کے فون پر  پیغام  آتا ہے ۔

'ہائے1 اللیتھ۔تم کیسی ہو ؟امید ہے کہ تم ٹھیک ہوگی ۔  تم نے اپنی بیماری  کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔۔۔تمہیں  اطلاع دینا تھی  کہ تمہاری بہن اور میں ہفتے کے دن  لندن روانہ ہو رہی ہیں اور  کچھ عرصہ  وہاں رکیں گی۔۔۔تم سے  ملے   عرصہ ہو گیا ہے،اورتمہاری کمی محسوس  ہوتی ہے۔۔۔میں تمہاری انگلی میں شادی  کی انگوٹھی دیکھنا چاہوں گی! ٹھیک ہے ،!۔۔۔اپنی اوّلین  فرصت میں فون کرنا۔بائی ۔'

للیتھ فارغ  ہوکر سوچتی   ہے کہ    آدم کا موڈ حسب معمول    خراب تھا کیوں نہ اس کا موڈ خوشگوار بنانے کے ایسا لباس  زیب تن کیا جائے  جس سے وہ خوش ہوجائے  ،  ان دونوں کی بوریت دور ہوجائےگی  ۔ اپنے وارڈ روب جا کر اپنی ملبوسات   میں  پارٹی  لبا س پہن لیتی  ہے ۔آدم دفتر سے واپس آتا ہے تو وہ  ُ چھپ جاتی ہے اور ناز برداری کے انداز میں بولتی  ہے  ٹاڈا ! تمہارے لئے  میں نے  یہ لباس پہنا ہے۔۔۔میں نے تمہیں سرپرائز دینے کے لئے  یہ کیا ہے ،کیا تمہیں پسند آیا؟'

'کیوں؟اس لباس میں میرے پسند آنے کی  کیا بات ہے'۔

'کیا مطلب ٹاڈا؟'

'تم نے یہ  بیہودہ لباس  ڈلیوری  بوائے کے لئے پہنا تھا۔'اس نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔

'نہیں ، نہیں ۔۔۔او کے۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں کہ میں  یا وہ  ایک دوسرے میں دلچسپی لیں، ایسا تم نے کیسے سوچ لیا؟'

'کیا میں تمہارا کوٹ اتار دوں ٹاڈا ؟'

 'نہیں ، میں او  کے ہوں ۔'

'تمہارا دن  اچھا  رہا ٹاڈا؟'

'تم نے آج اپنے بال   بٹھا کر کیوں بنائے  ہیں  جبکہ تم جانتی ہو کہ  مجھے تمہارے  کھڑے  بال  پسندہیں۔ ایسا کیوں ؟ کیا ڈلیوری بوائے نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔'آدم نے کہا۔

'یوں ہی مجھے خیال آیا کہ  پارٹی  لباس کے ساتھ یہ سٹائل موزوں  رہے گا۔' للیتھ نے کہا۔

'تم نے پھر اپنی مرضی کی۔'یہ کہہ کروہ اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور دروازہ زور سے بند کردیتا ہے۔وہ  آدم کا رویہ دیکھ  کر افسردہ بیٹھ جاتی ہے،اور سوچتی ہے  کہ وہ کس مصیبت میں پڑ گئی ہے ،پھر سوچتی ہے کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔چھوٹے  موٹے اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ اتنے میں آدم سیڑھیوں سے  اترتے ہی اسے خوش دلی سے کہتا ہے  '

'بے بی! تم شاندار  لگ رہی ہو۔'

'اچھا؟'

وہ اس کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھانے لگتا ہے۔۔۔

' لیموں سے کھانے کا آغاز کرتا ہوں ' وہ نوالہ لیتا ہے ۔

'کیا  کھانا   ذائقہ دار ہے؟'

'او کے ہے۔ُام  ُام ۔'

'اوہ!  بتانا تھا ، والدہ نے  فون کیا تھا'

'واقعی !'

'اس نے فون کیوں کیا؟اس سے کیا بات ہوئی ، وہ کیا چاہتی ہے؟'

'نہیں۔ میری اس سے کوئی بات نہیں ہوئی ۔اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی ، اس  نے وائس مسیج کردیا ۔

'وہ ہفتے کو واپس آئے گی۔'

'اونہہ ، اونہہ ! تو ہماری  تمہاری ماں سے ملاقات ہفتے کو ہوگی ۔'آدم نے کہا۔

'نہیں ۔وہ یہاں نہیں آئے گی ۔۔۔کیا ہم ماحول بدلنے کے لئے  اس دن اسے اس کے گھر نہ چلے جائیں؟'

'کیوں؟۔۔۔اس نے  میری  منصوبہ بندی کو کبھی پسند نہیں کیا۔کیا اس نے کیا، بتاؤ؟ جب کبھی بھی اسے موقعہ ملتا ہے وہ   مجھ پر دھونس جماتی رہتی ہے کہ یہ کرو، یا وہ کرو!'

'نہیں ،  ٹاڈا ! ایسا نہیں ہے۔'

'واقعی ، تم ایسا سمجھتی ہو؟'

'ہا ں۔'

کیا تم بھول گئیں ،اس نے میرے بارے میں جو کہا تھا؟ وہ  زہریلی ہے ۔تم جانتی ہو کہ تم پہلے سے بہتر زندگی گزار رہی ہو۔۔۔تمہاری بہن کو بھی جلد ہی اس کی اصلیت معلوم ہو جائے گی۔۔۔ نمک دانی پکڑاؤ۔'

'                                ُام! میں اسے کہوں گی کہ وہ دن اور وقت بدل لے۔ کیا یہ مناسب نہیں رہے گا؟ یا۔۔۔'للیتھ نے کہا لیکن آدم شیشی سے نمک نکال کر چھڑکتا رہتا ہے۔

'یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔تم نہیں جانا چاہتے ،کوئی بات نہیں ۔ میں اس سے اکیلی مل  لوں گی۔کیا یہ صحیح نہیں رہے گا۔' آدم اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیتا اور   غصے سے  کھانا بند  کر دیتا ہے ۔

'  مانتی ہوں کہ  ممی  نے کرسمس پر تمہارے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن !'

۔۔۔'  ُ                                                ُام،ُ ام !  بری باتیں ! تمہارا یہ کہنا غلط بیانی ہے۔۔۔دیکھو ! اگر اسے ملنا چاہتی ہو تو یہ برا ہوگا ، تم  میں  کسی  بات پر جھگڑا ہو جائے گا۔تم اس پر پریشان ہو جاؤ گی  اور بعد میں تمہیں مجھے بھتنا پڑے گا۔۔۔اس لئے میں تمہیں اس سے ملنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔تم اسے نہ تو فون کرو گی اور نہ ہی جاؤ گی۔اس کا نمبر بلا ک کر دو۔'آدم طیش میں بولتا ہے۔

'میں ایسا نہیں کرسکتی ٹاڈا۔'

'میں نے کہا نہیں، تو نہیں !' آدم  چلّاتے ہوئے کہتا ہے ۔ماحول میں تناؤ پیداہو جاتا ہے ۔۔۔کچھ دیر بعد بولتا ہے :

'دیکھو ! زہریلی ، زہریلی ہے  وہ!  اس وقت  یہاں پر موجود نہیں لیکن پھر بھی میری بھوک مٹا دی۔ کھانا برباد کردیا !'

'میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو سیخ پا ہوگئے۔'

'تم پیار سے نہیں سمجھو گی ۔'وہ اسے تھپڑ رسید کرتا ہے ،اس کی گال پر چمانٹے کے نشان پڑ جاتے ہیں۔

للیتھ بے بسی سے چپ کرجاتی ہے۔'

'اب مزید کچھ نہ کہنا۔' آدم یہ بول کر کھانے کی میز سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔میز پر زور سے مکہ مارتا ہے اور  پلیٹیں پٹخ  دیتا ہے ۔کھانا میز پر  بکھر جاتا ہے۔۔۔'اس گندگی کو صاف کر دو!' یہ کہہ کو وہ چلاجاتا ہےاور دروازہ زور سے بند کردیتا ہے۔ للیتھ اس کا رویہ دیکھ کر رونے لگتی ہے اور ہچکیاں لیتی صفائی کرتی ہے اور اپنے کانوں کی بالیاں اتارنے لگتی ہے ، کہ آدم آجاتا ہے لیکن وہ بدستور ہچکیاں لیتی ، ناک چڑھاتی   صفائی میں مشغول رہتی ہے ۔آدم   ایک گلاس میں کچھ انڈیل کر اس میں کوئی پاؤڈر  مکس کرتا ہے اور للیتھ کو کہتا ہے ۔

' افسوس ہے ۔۔۔مجھے افسوس ہے ۔۔۔اب یہ رونا دھونا بند کرو اور نارمل ہو جاؤ۔۔۔میں تم سے محبت کرتا ہوں کہہ کر اسے گلے سے لگا لیتاہے۔

' میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں'۔وہ روتے ہو ئے کہتی ہے۔اس پر آدم اسے پچکارنے لگتا ہے۔'چھوڑو، چھوڑو ، نارا ضگی دور کرو۔۔۔اور یہ مشروب پیو ،موڈ ٹھیک ہو جائے گا'۔

'نہیں ،نہیں ۔۔۔اس سے طبیعت مزید بگڑ جائے گی' للیتھ کہتی ہے۔

' ضد چھوڑو،۔یہ تلچھٹ ہے، آؤ اور اسے پی لو۔'وہ اسے  گلاس پکڑاتے ہوئے کہتا ہے۔( یہ آدم کا روزمرہ کا معمول ہے۔)

'چیرز! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔'

'میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں' للیتھ روتے ہوئے کہتی ہے۔

'ٹھیک ہے ، پر  اسے تو پیو۔۔۔غصہ  تھوک دو ۔۔۔شاباش ۔ پیو۔تمہیں آج یہ  پینے کی اشد ضرورت  ہے ۔ کیا ایسا نہیں للیتھ   ؟'   

'یہ مجھے نیند دلانے میں مدد کرے گی۔'وہ ڈگمگاتی اپنی ادویات کے پاس جاتی ہے اور  رات کی ادویات ڈھونڈنے  لگتی ہے۔

'تم نے پہلے ہی  بہت زیادہ پی لی ہے، وہ تمہیں  سلا دیں گی لیکن یہ تم پر منحصر ہے کہ اپنی نیند کی گولیاں  بھی اس کے ساتھ  کھانا چاہو گی ی۔'آدم بولا۔ للیتھ دوائی کھا کر بستر پر دراز ہو جاتی ہے ،آدم اپنے کمپیوٹر پر کام کر تارہتا ہے۔وہ اسے گڈ نائٹ بول کر سو جاتا ہے ۔غمزدہ دھنیں چل رہی ہوتی ہیں۔وہ اپنی  ٹی شرٹ اتارتا ہے اور للیتھ کوپیار سے تھپکی دیتا رہتا ہے۔ صبح ہونے پر وہ جاگ کر پردے کھولتا ہے اور للیتھ کو کہتا ہے۔

'اٹھ جاؤ سست الوجود! اب جاگ جاؤ۔۔۔کیا تم رات کو گہری نیند سوئی تھیں؟'

' مجھے کچھ پتہ نہیں ۔'

'تم نے پوری رات کوئی آواز نہیں نکالی ۔۔۔چائے ، لو چائے   پکڑ لو۔'؎للیتھ چائے پینے لگتی ہے۔

'تم بہت پیاری ہو۔'

'مجھے سردی لگ رہی ہے۔'

'امید ہے تم آج کل سے بہتر محسوس کرو گی۔اٹھو، اب جلدی سے اٹھ جاؤ، میں تمہاری مدد کروں گا۔'موسیقی دھیرے سروں میں چل رہی ہوتی ہے۔وہ بادل نخواستہ اٹھتی ہے ۔آدم اسے  حسب معمول گاؤن پہنا تا ہے، بستر سیدھا کرتا ہے ۔وہ روزانہ کی طرح للیتھ اپنی آنکھوں میں آئی ڈراپس ڈالتی ہے، کاؤنٹر سے دوائی لیتی ہے اور غسل خانے چلی جاتی ہے۔لمبے لمبے سانس لیتی ہے،اور گہری سوچ میں ڈوب جاتی ہے ۔پھر اپنا گاؤن اتارتی ہے، ٹائلٹ پر بیٹھتی ہے ۔پیشاب کرتے وقت اسے شدید درد ہوتی ہے اور کراہتی ہے اور چپکے چپکے رونے لگتی ہے۔اسے  کوئی زخم ہے ۔ٹشوپیپر خون سے لتھڑا ہوتا ہے ، وہ تکلیف سے روتی ہے۔ لمبے لمبے سانس لیتی ہے۔حوصلہ کرکے اٹھتی ہے ،آئینے کے سامنے جا کر اپنی شکل دیکھتی ہےاوراسے آدم کیے معمول کا فقرہ  ذہن میں گونجتا ہے  'آج کا دن تیرے لئے بہتر ہوگا۔۔۔۔کیا میں تمام عمر اس  ترش و تلخ زندگی گزارتی رہوں گی؟'

 

تجزیہ

اینتھنی    ُڈولی   کا یہ افسانہ گیس لائٹنگ کی عمدہ   مثال ہے ۔ایسے واقعات روز مرہ زندگی میں عام ملتے ہیں ۔کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لیلیتھ کا ساتھی آدم  ہر صبح اسے  بڑے پیا ر اور محبت  سے  جگاتا ہے۔  اس  کے چہرے پرگزری شب کے تھپڑوں  کے نشان پائے جاتے ہیں ۔للیتھ  شدید بیمار ہے۔اس کے پیشاب میں خون  آتا ہے ۔ ظاہری طور پر آدم اس  سے محبت اور مدد کرتا ہے ، لیکن اکثر و بیشتر  نفسیاتی اور جسمانی طور پر   اس سے بدسلوکی کرتا رہتا ہےاور وہ اس کی محبت میں برداشت کرتی رہتی ہے ۔۔اسے اپنی ماں سے ملاقات کی حوصلہ شکنی کی  جاتی ہے، آدم اس کے علاج معالجہ  میں  کوتاہی برتتا ہے ۔اس پر طنز کرتا رہتا ہے ۔ وہ خاموشی سے برداشت کرتی رہتی ہے۔آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے  کہ آدم اس کا مسلسل استحصال کرتارہتا ہے۔اس پر جبر و ستم کررہا ہے،وہ کوئی ذاتی انتقام لے رہا  ہے۔ اس میں تنہائی ، خود مختاری  کا خاتمہ ، پیار کی آڑ میں زیادتی  پائی جاتی ہے۔

اس افسانے  عالم برزخ  ' ( پر گیٹری ) کا عنوان اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں   بیک وقت اذیت اور راحت کی کیفیات بیک وقت  پیش کی گئی ہیں ۔ للیتھ نہ تو مکمل طورپر آزاد ہے اور نہ قید۔ وہ عالم برزخ میں رہ رہی ہے۔ایک طرف تو آدم اس سے ہمدردانہ سلوک کرکے تھوڑی بہت  تسکین فراہم کرتا ہے اور دوسری طرف  اس پر ذہنی اور جسمانی تشدد کرتا ہے ۔وہ   تکلیف دہ حالت میں رہ رہی ہے۔وہ تعطل میں  زندگی گزار رہی ہے ۔آدم اور للیتھ کے تعلقات ظاہری طور پرنارمل اور محفوظ دکھائی دیتے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  اس کی بہت پرواہ کی جارہی ہے، جبکہ  در حقیقت وہ جذباتی اور جسمانی   مصیبت  میں مبتلا ہوتی ہے۔اس افسانے کا عنوان  للیتھ کی نفسیاتی اور جذباتی انجماد ظاہر کرتی ہیں۔اسے آخر میں  آہستہ آہستہ آدم  کے برے سلوک سے شدید نقصان پہنچتا ہے، جہاں وہ  ماحول سے چھٹکارے کا سوچتی ہے۔

اس کہانی میں اینتھنی                        ُڈولی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ بدسلوکی  بہت آہستہ آہستہ اور ہمدردانہ رویے سے بھی دی جا سکتی ہے۔نارمل رویہ اپنا کر پیار کی آڑمیں میٹھی چھری سے  بھی ذہنی اور جسمانی اذیت  پہنچائی  جا سکتی ہے۔ان کے بین الذاتی تعلقات  کی نوعیت پیش کرکےمظلوم کا خمار توڑا جاسکتا ہے اور اس پر کئے گئے استحصال کی تہیں ایک ایک کرکے اتاری جا سکتی ہیں۔

یہ افسانہ قاری کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس بات کی  شناخت کر ے  کہ  کوئی کس طر ح  شفیق بن کر  دوسرے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ظاہری عمل کی گہرائی میں دیکھے اور یہ کہ صرف دکھائی دینے والا ظلم ہی بدسلوکی کے ذمرے میں نہیں آتا بلکہ وہ پوشیدہ بھی ہوتا ہے۔اس استحصال کی وجہ سے مظلوم کی شخصیت پر جو برے اثرات پڑتے ہیں  وہ ناقابل تلافی ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مظلوم کی مدد گفتگو سے کی جا سکتی ہے۔

نفسیاتی  تناظر میں  اس  افسانے   میں بتایا گیا ہے کہ محبت اور اعتماد کی آڑ میں   بلاواسطہ طور  دھونس  جماکر اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جاتے ہیں۔اس میں آدم للیتھ کو  ظاہری طور پر اس کی شخصیت کو نکھارنے، اسے موقع محل کی مناسبت سے ڈھنگ کا لباس پہننے ، نفیس گفتگو کرنے کے اقدامات کرتا ہے جبکہ در حقیقت وہ اسے معاشرے سے الگ ، تنہا، اس کی ذات اور خود مختاری کو غیر متوازن کررہا ہوتا ہے۔پہلے پہلے تووہ خود کواس کا محافظ اور دیکھ بھال کرنے والا بن کر اس  کا بھروسہ حاصل کرتا ہے لیکن  اصل میں اسے اپنا محتاج بنا لیتا ہے۔للیتھ  جب اپنی بیماری کی شکائت کرتی ہے تو وہ اسے طریقے طریقے سے رد کردیتا ہے ،اس کے سماجی روابط محدود کر دیتا ہے('تم اپنی والدہ سے نہیں مل سکتی)، جسمانی سزا دیتا ہے ۔جہاں کہیں وہ جاتی ہے،اس  پر نظر رکھی جاتی ہے،اور اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔اس  طرح کا سلوک ظالمانہ درجے  میں  شمار کیا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اسے معاملات کی آگاہی دی جائے، اس کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے،اور اسے اپنی قدوقیمت کا احساس دلایا جائے جس میں مظلوم کے اندرونی جذبات و احساسات پر کنٹرول کیا جاتا ہے:اس میں اس کی ذا ت اور  خوبیوں پر شک پیدا کیا جاتا ہے،  ذہنی انتشار،شرم ، اور خوف ڈال دیا جاتا ہے۔

للیتھ کا اپنے ضمیر کے مطابق  بیان  'آج  کادن عمدہ ہے'۔۔۔اس کے لئے صدمہ بن جاتا ہے،جو اس کی نارمل  زندگی پر لانے میں مزید مشکلات پیدا کرتی ہیں۔اس کی زندگی کا معمول کے مطابق چکر جس میں دن کی نوعیت ( صبح کی روٹین ،دکھ بھال کرنے والے کی حرکیات، شام کی دھمکیاں یا مار پٹائی                            )    اجبار  کی علامت ہیں جو اسے مسلسل مجروح کرتی رہتی ہیں اور وہ چکر سے باہر نہیں نکل سکتی۔

یہ افسانہ اس بات کا شعور دیتا ہے کہ  گھریلو بدسلوکی  صرف یہ نہیں ہوتی کہ لازماً ظاہری جسمانی

تشدد ہوبلکہ کسی کے اعتماد اور بھروسے کو ٹھیس پہنچانا بھی ہے۔مظلوم  کو لوگوں سے الگ رکھنا اور آہستہ 

آہستہ اپنی ذات سے اعتماد اٹھانا بھی  اس میں شامل ہے ۔


پاکستان میں گھریلو بدسلوکی کے مسائل عام ہیں۔یہاں صنفی اختلاف یورپی ممالک کی نسبت زیادہ ہیں۔مردوں کو صنف نازک پر فوقیت حاصل ہے۔ان دیکھے ثقافتی اور خاندانی منوال ہیں۔اس افسانے میں لطیف پیرائے میں جو مشکلات للیتھ کو پیش آئی ہیں ،یہاں عام ہیں۔یہاں تو ایسے مظالم بھی کئے جاتے ہیں جو سب کو نظر آتے ہیں لیکن انہیں خاندان کا ذاتی معاملہ کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

خاندان سے الگ کرنے ، سماجی روابط کو روکنے یا کم کرنے، اور ذاتی خود مختاری محدود کرنے ،اس شئے سے پوری مماثلت رکھتی ہےجسے ثقافتی حوالے سے پرکھا جاتا ہے،جہاں خاندانی وقار، مردوں کا تسلط 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نوٹ

اوسطاً دو خواتین اپنے خاوند یا سابقہ آشنا سے قتل ہو جاتی ہیں۔' اس پر مٹی ڈالو  !'ہمیشہ  مسائل کا حل نہیں ہوتا۔'

'بدسلوکی برداشت کرنا ہر شخص کی اپنی  چوائس ہے۔'

'مظلوم پر الزام تراشی نہیں کی جاسکتی۔'

ْلاک ڈاؤن کے پہلے تین دنوں میں صرف  یو کے میں ، چودہ خواتین اور دو بچے قتل کئے گئے۔'

لاک ڈاؤن 2021 میں اٹھنے کے بعد ہم خانگی بدسلوکی کا شکار لوگوں  کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔'

'ہمیں اب اس کے خاتمے کے لئے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔'

'آج ہمیں بدسلوکی کے چکر کو ختم کرنا ہوگا اور مظلوموں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا '

'اس ظلم کو بند کرنا ہوگا۔

 

پاور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی