رات کے راہی ( دوسری قسط )Night Travellers ( 2nd Episode) ....Sandra Birdsell 1942-


  برفبا د     (  دوسری  قسط )

 2nd Episode  ( Tempest )       

Isak Dinnesen 

Denmark

مترجم : غلام محی ا لدین 

   آسمانی آفات  کی بدولت  ڈرامہ ' طوفان  برفباد '      ۔       ملتوی کردیاگیا تھا'جوچم ہوزوینکل' کےوسیع و عریض محل  کانام  سکوئر ہاؤس تھا۔اس کے دروازے جہاز کو تباہی سے بچانے والی ہیروئن'  ایملیْ کے لئے واکردئیے گئے۔ اپنی جان پر کھیل کر اس کےبیش قیمتی بحری جہاز اور انسانی جانیں بچانے کا جہازکےمالک کوپورااحساس تھا۔اہل خانہ کی نظریں جب بھی ایملی پر پڑتیں توان کے چہرے  کھل اٹھتے۔ان کے چہرے پر خوشی کی لہر پھیل جاتی اورشکرانے اور ممنونیت کے تاثرات ظاہرہو جاتے۔وہ محل ایملی کے لئےیقینی طور پر ایک مستقل رہائش گاہ بن گیاتھا۔ایسے عظیم الشان گھر میں رہنا تو کجا اس نے ایسے گھر کودیکھابھی نہیں کیا تھا۔کرسٹل کے فانوس ،سونے اور چاندی کے برتن،زری لیس کے بنے ہوئے بھاری پردے ،،بستر پر ہی سینڈوچ،اور خوشبودار کافی اور عطر دار صابن سے اس کی خدمت کی جاتی۔سب  عنایات کے باوجود ایملی اب بھی بہت شرمیلی اور کم گو رہی۔۔ہرممکن کوشش کی جاتی کہ کھل جائےلیکن وہ سمٹی سمٹی سی  رہتی تھی۔سوال وجواب سے گھبراتی تھی لیکن وہ جب بھی کسی کاسامناکرتی یا چلتی تووہ چہرے پر مسکراہٹ لاکربات کرتی تھی۔مکین اس سے جس طرح مربیانہ ،دلدادانہ رویہ دکھاتے   اور اس کےحسن کی تعریف کرتے  تو وہ زندگی میں پہلی باریہ سوچنے پرمجبور ہوئی کہ وہ کوئی اپسراتھی ۔ جب وہ اس گھر میں آئی تھی تو اس کارنگ پیلا تھا ۔اس کاپورا جسم برف اور سمندکے نمکین پانی سے لتھڑاہواتھا۔اپنےہمراہی               فرڈیننڈملاح کی میلی کچیلی ڈھیلی ڈھالی وردی  میں ملبوس لباس میں لڑکا لگ رہی تھی۔محل  میں چند روز قیام سے اس نے اپنے عمدہ لباس اور صاف ستھرے جسم کے ساتھ قد آدم آئینے میں دیکھا تو اسے یقین نہ آیا کہ ہمیشہ ڈھیلے ڈھالے سادہ  لباس پہننےوالی  معمولی شکل و صورت والی ایملی تھی۔اس کے حسن میں روزبروز اضافہ ہورہاتھا۔اب اسے دیکھ کر گھر کاہرفرد خوش ہوتاتھا۔اس لئے ایملی گھروالوں کی پسندیدگی اورمسلسل حوصلہ آزمائی سے  ان جیسا رہن سہن اختیار کرناسیکھ لیا۔وہ  بوڑھے جہازران               مسٹر      جوچم ہوزوینکل کی صحبت کو پسند کرتی تھی ۔اسے زندگی بھر اپنے باپ کی کمی رہی تھی۔اتنے عرصے بعد باپ کا نعم البدل   مل گیاتھا ۔ وہ بھی اسے اپنی مرحومہ بہن اور بیٹی سمجھتا اورپیارکرتاتھا۔ اس کی بیوی  ایک وضع دار خاتون تھی جو سیاہ لباس پہننا پسند کرتی تھی اور ایملی کے خیال میں  اسکی شکل' ملکہ  تھورا'سے ملتی تھی۔محل کا دوسرا مرد ان کا نوجوان بیٹا 'ارڈنٹ 'تھا جسے ایملی دنیا کا حسین ترین شخص سمجھتی تھی۔

مسٹر اور مسز جوچم ہوزوینکل دونوں ہی خداترس تھے۔ان کا گھر شہر کا مہنگا ترین گھر تھا۔وہ مخیر تھے۔نادار اور مساکین کو دل کھول کرا مدادکیا کرتے تھے۔ان کی شادی نوجوانی ہی میں ہوگئی تھی اور پرمسرت زندگی گزاررہے تھےلیکن لاولد تھے۔وہ روزانہ صبح شام اپنے ذاتی عبادت خانے میں کرتے اور اولاد نرینہ کے لئے دعائیں مانگا کرتےتھے۔شادی کے اٹھارہ سال بعد ان کی دعا قبول ہوئی اور ارڈنٹ پیدا ہوا۔اردنٹ بچپن ہی سے رحمدل تھااور ہر ایک سے انکساری سے پیش آتاتھا۔لوگ اسے پسند کرتے تھے۔اس کے آنے پرلوگ اس کی تعظیم کے لئے خاموش ہو جاتے تھے۔وہ ذہین ، معاملہ فہم  اور تیزفہم تھا۔جوں جوں وہ بڑاہوتاگیاوہ زیادہ ر نیک  ،معقول اور منصف  مزاج ہوتاگیا۔اسے جہازرانی  کے صنعتی امور میں ماہر گرداناجاتاتھا۔اس نے اس شعبے میں  یمسٹرڈیم کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی  سے خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔جب وہ عملی طورپر  تجارت میں آیا تو اپنی ایمانداری، مہارت اور حسن سلوک سے سب  کا اعتماد حاصل کر لیاجس سے اس نے کاروبار کو بہت تیزی سے آگے بڑھایا۔وہ فنون لطیفہ کابھی دلدادہ تھا۔اسے موسیقی سے محبت تھی۔وہ ایک اچھا گلوکار تھا اور کئی آلات موسیقی بجانے  میں مہارت رکھتا تھا۔

ارڈنٹ  کے والدین اس سے اس بات  پر نالاں تھے کہ وہ شادی کے لئے رضامند نہیں ہورہاتھا۔  اس کی عمر اب ستائیس سال ہوچکی تھی۔ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ  شادی کے بغیر مرگئے تھے۔انہیں خدشہ تھاکہ کہیں ارڈنٹ بھی ان کی تقلید کرکے عمربھرکنوارانہ  رہ جائے۔ اس کے والدین بےوجہ فکرمند نہیں ہورہے تھے کیونکہ اس کےبعد ان کی نسلوں کی بے پناہ دولت کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہتا۔ارڈنٹ نہ صرف کرسچین سینڈجزیرے کی کنواریوں کا منظور نظر تھابلکہ دنیابھر کی اشرافیہ کی اس پر نظر تھی ۔وہ جس پر بھی ہاتھ رکھتاوہ اس  سے شادی کرسکتاتھا۔

جب ارڈنٹ کی عمر پندرہ سال تھی تو ایک ملاح کی بیٹی جس کانام 'گورو' تھا کو اس کا والد  ' آبائی گاؤں'سے لے آیا ۔گورو اس سے ایک سال بڑی تھی۔جوانی کا شعلہ بھڑکا اورر وہ ایک دوسرے  سے پیار کے بندھن میں بندھ  گئے۔وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی اس کا جسم بھرا بھرا تھا۔ ان کے  جذبات شدید ہوتے گئے۔وہ مکمل رازداری سے پیار کرتے رہے۔ان کے عشق کا دورانیہ چھ ہفتے رہا اوراس دوران  گورو  امید سے ہوگئی اور اسکے والدین کو علم ہوگیا۔ارڈنٹ کاوہ پہلاپہلاپیارتھی۔وہ گورو کو ٹوٹ کر چاہتا تھا۔ ارڈنٹ کے والدین نے گورو کے والدین کو بلوا کر   واپس آبائی گاؤں بھجوا دیا لیکن اس  نے واپس جانے کی بجائے سمندر میں کود کرخودکشی کر لی۔اس کا یہ پہلااور آخری  افیئر تھا۔اس  واقعے کو بارہ سال  بیت چکے تھے۔اس کا دل بجھ چکاتھااوراس نے اس دوران اپنے رویے سے ثابت کردیا تھا کہ  پیار  کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کو لڑکیوں سے نفرت سی ہو گئی تھی۔معزز اور امیرترین خاندانوں کی حسین ترین لڑکیاں  اسے اپنی طرف راغب کرنے  میں ناکام ہو گئیں۔ا س کے کئی ممالک میں دوست تھے اور اسے کئی ایسی خوبصورت لڑکیاں بھی ملی تھیں جو اتنی ہی محبت کرنے والی ملاح کی بیٹی گورو کی طرح جان قربان کرنے والی تھیں پراس نے کسی پر توجہ نہیں دی ۔

حکومتی  نمائندے کی سربراہی میں   ایوان بالا کے اراکین   کرسچینز سینڈ  کے محل میں جوچم ہوزوینکل کے پاس آئے اورایملی کوتمغہ دینے کااعلان کیااوردرخواست کی کہ اایملی کی خدمات کے صلے میں  اس کے اعزاز میں     ناچ گانےکی محفل سجائی جائے جسے جہازران نے بخوشی قبول کرلیا۔جب وفد آیااوروہ ان سے ملی توو ہ سادہ ترین لباس میں تھی لیکن کسی نے بھی اس کے ایسے لباس  پر ناک نہ چڑھایاحالانکہ اشرافیہ ہمیشہ ایسی باتوں کو اہم گردانتے تھے۔رکھ رکھاؤاور موقع محل کے مطاق قیمتی لباس زیب تن کرتے تھے۔ تقریبات کےلباس توایک طرف ایملی کے پاس ڈانس کامخصوص لباس بھی نہ تھا۔ اسے نہ تو ڈانس آتاتھااورنہ ہی کبھی کیاتھا۔  مادام خانہ'فُرو' نے اپنے درزی کوبلایا اور ایملی  کے لئے ناچ والا لباس سینے کوکہا۔دعوت میں ایملی کاقیمتی خوبصورت لباس  دیکھ کر مہمان حیران رہ گئے  اور اس کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔اس قسم کے عمدہ رویہ سے تو اسکادماغ خراب ہوکرمغرورہوجاناچاہیئے تھالیکن ایسا نہ ہوا اور وہ عمومی رویہ دکھارہی تھی۔وہ ناچ پارٹی پر چلی تو گئی لیکن اسے ناچنا نہیں آتا تھااور تماشائی کی حیثیت سے پاٹی سے محظوظ ہونے لگی۔مہمانوں میں سے ایک خاتون  نے اس سے التجا کی کہچونکہ پاٹی اس کے اعزاز میں ہے اور اسے ناچنانہیں آتا اس لئے اور کچھ نہ کرے ،گانا ہی سنادے۔وہ مان گئی اورلہک لہک کرایک گیت گانے لگی۔

ان پہلی ریتوں پرآؤ۔۔۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالو۔۔۔ہمارے پاس تمہارے لئے  محبت اور گرم جوشی ہے۔۔۔طوفانی لہروں میں سکون  ہے۔۔۔اپنے پاؤں کو اِدھراُدھر مہم جوئی کی طرزپر ہلاتے رہو۔۔۔اے میٹھی اور پیاری روحو،بوجھ اٹھاؤ۔۔۔اس کے گانے کے ساتھ ڈانس شروع ہوگیااور ایملی اس جگمگاتے ہال کے درمیان کھڑی ہوگئی اور ناچنے والوں کے ترتیب وار قدم اور ان کی پھیریاں  دیکھتی رہی جو اس کی مدھردھن پرناچ  رہی تھیں۔

فرڈیننڈ کو بھی اس دعوت میں مدعو کیا گیا تھااوروہ وہ خوشی اور شوق سے اسے ملنا چاہ رہی تھی کیونکہ وہ دونوں اب تک طوفان بادوباراں کے بعد سے اب  تک  نہیں ملے تھے۔لیکن وہ شریک نہ ہوا۔گانے کے دوران ایملی نے اپنی نگاہیں ارنڈٹ پر ڈالیں جو اس وقت تاجروں سے محو گفتگو تھا۔جب اس نے یملی کے گانے کی آواز سنی تو وہ اس کاگیت  سننے میں محو ہوگیا اور وہ بھی ناچنے لگا۔وہ ایملی کے بارے میں تمام وقت سوچتا رہا حالانکہ رنگ برنگی تتلیاں  اس کا طواف کررہی تھیں۔جب وہ واپس گھر آئی تورات بھر سونہ سکی۔موم بتی کے سامنےاپنے گاؤن میں بیٹھی رہی۔دوسری طرف ارنڈٹ بھی سو نہ پایااور لمبی سیر کے لئے گھر سے باہ چلاگیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہواتھاکہ وہ رات کے وقت بندرگاہ یا گوداموں کی طرف  گیاہو۔

ایملی اپنے ڈرامے  برفباد کے پروڈیوسر  اور اپنے استاد   ولدمیر ہیئر سووورینس سے ملناچاہ رہی تھی جو اس وقت بیمارتھا۔  ارنڈ ٹ اسے لے کر اس  ہوٹل چلاگیاجہاں وہ مقیم تھا۔ اس کی بیمارپرسی کرناچاہ رہی تھی۔ استاد کی بھی خواہش تھی کہ وہ ایملی کی بہادری پر اسے مبارکباد بھی دے جو اس  کی کمپنی کا حصہ تھی۔جب وہ وہاں پہنچے تو اس وقت  وہ کرسی پر بیٹھا تھا۔بیماری نے اسے گونگا اور بہرہ کردیاتھالیکن وہ ہوش و حواس میں تھا ۔  ان کی یہ میٹنگ  ایک گنگ ڈرامے کی طرح تھی۔ ایملی اسے اپنے استاد کی حیثیت  سے احترام کرتی تھی۔وہ ایملی کودیکھ کر خوش ہوا۔اس کی جوانی اور حسن کو دیکھ کر حیران بھی ہوا کیونکہ وہ اس کے سامنے سادہ اور کھلے کپڑوں میں آیا کرتی تھی اور اس میں تو وہ لڑکا ہی لگتی تھی۔اس نے ارنڈٹ  کو دیکھا تو خواہش کی کہ کاش وہ ایملی کا محبوب بن جائے۔ایملی اس وقت یہ نہیں جانتی تھی کہ چند دنوں میں ایملی کی ظاہری جسامت  میں اتنی زیادہ تبدیلی کیسے آگئی۔اس کی چھاتیاں اتنی بڑی اور موٹی کیسی ہوگئیں ،حیران ہوگیا۔جب ارنڈٹ اور ایملی سووورنس سے   مل کرواپس آنے لگے تو اس نے ایملی کا ہاتھ دباتے ہوئے سرگوشی کہ برفباد ڈرامہ ہیروءئن ایرییل  کی کمی کو بری طرح محسوس کرے گا۔ سووورنس تنہا رہ گیا۔وہ اس ملاقات پر کئی روز تک کھویارہا۔تاہم وہ ایملی کے بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوا۔

جیسے ہی سووورنس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو وہ جوچم ہوزوینکل  کے گھر گیا۔اس دوران اس نے ایملی کے لئے ہلکے ارغوانی رنگ کے دستانے خریدے جو اس کے پرانے سادہ لباس سےمطابقت رکھتے تھے۔وہ گھر میں داخل ہواتو وہ ہرلمحےاحتراماً جھکتاتھااور کمرے کی ہرشئے کی تعریف کرتاتھا۔اگر وہ کسی شئے کونظراندازکردیتاتوبعد میں کوئی وجہ تلاش کرتا کہ اس کی کیوں تعریف نہ کی۔وہ ڈرائنگ روم میں بٹھادیاگیا۔اس کی مسٹر اینڈ مسز جوچم ہوزوینکل اور ایملی سے ملاقات ہوئی۔جب کسی وجہ سے ایملی اور وہ  اکیلے رہ گئے  تو اس نے ایملی کوکہا۔میری بچی۔تم بہت خوش قسمت اور مقبول ہو۔اس پر جب ایملی نے اس کو غور سے دیکھا تو اس نے اپنی نظریں پھیرلیں۔اپنے کوٹ سے رومال نکالااور اپنا ماتھا خشک کیاا۔جب  وہ اپنی خاطر تواضع کے بعد جانے لگا تو ایملی  دروازے پراحتام سے کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی اور وہ فخریہ  گھر سے رخصت ہوگیا۔

طوفان بادوباراں کے بعد وہ جوچم ہوزوینکل کے خاندان اور لوگوں کی پر زور فرمائش پر  سکوائر ہاؤس میں  مستقل طور پر رہنے لگی تھی۔یہ ایک قصبہ تھا۔ایسی کمیونٹی  جو چھوٹی ہو وہاں تقریبات کم  اور افواہیں زیادہ جنم لیتی ہیں۔اس دوران  اس بات نے زور پکڑا کہ ایملی کو منگنی کرلینی چاہیئے۔اس مطالبے کو غیرشادی شدہ نوجوان  شدت سے پیش کررہے تھے۔ہرایک کی خواہش تھی کہ اسکے ساتھ اسکی منگنی ہوجائے۔ارنڈٹ بھی اس قصبے میں مقبول تھا۔معززین کے مطابق ایملی سے منگنی کے لئے وہ موزوں ترین تھا۔ویسے بھی ایک ہی گھر میں رہتے رہتے  ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔ایملی کے دل میں اس سے پہلےایسے لطیف جذبات پہلے کبھی نہیں ابھرے تھے۔اسی طرح  نوکرانی گورو کے واقعے کے بعد جو بارہ سال پہلے اس کی اوائل بلوغت میں پیش آیاتھا کے بعد پہلی بار اس کا دل بھی  محبت بھرےجذبات سے دھڑکنے لگا تھا۔آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔لوگ بھی شدت سے  چاہ رہے تھے کہ سینڈریلا اور شہزادے کا قصہ دہرایا جائے۔کسی کے دل میں اس کے لئے کوئی کینہ،کپٹ یا حسد نہیں پایا جاتا تھا۔کمیونٹی کی یہ رائے اعلیٰ ایوانوں تک بھی جا پہنچی۔مینشن     میں رہتے رہتے اسکی عادات بھی بدل گئی تھیں۔اس نے نئے طور طریقے اپنالئے تھے۔۔وہ جس انداز سے کلام کرتی، لباس پہنتی ۔ چلتی اور گفتگوکرتی وہ باوقار تھے۔اب اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کسی پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی.چونکہ اس ہیروئن نے سمندر اور اس میں  ہم آہنگی کولازم و ملزوم    کردیاتھااور اس کا والد الیگزینڈر راس ایک معتبراورعزت دارآدمی تھاجو بحری  سفر   پر بطور کپتان روانہ ہواتھا اور انہیں بے یارومددگار چھوڑگیاتھا۔وہ خود ثابت قدم اور شیردل تھی جس کا ثبوت اس نے برفباد  میں دے دیاتھا۔

میمزیل راس (ایملی)کے نزدیک اس نے عظیم  الشان مقصد کی تکمیل کر لی تھی۔اسے محسوس ہواکہ اسے پرندوں کےپردے دیئے  گئے تھے۔وہ عاجزانہ طور پرپل بڑھ رہی تھی اور اس بات میں معجزانہ طورپرکامیاب ہوئی تھی اور بھی بلندمقام پرجس کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا تھا،حاصل کرلیاتھا۔وہ ایک درخشندہ مقام پر پہنچ چکی تھی لیکن وہ اس مقام سے کہیں بھی،کسی وقت بھی گرسکتی  تھی ۔اب وہ  اس کی بیوی بننے جارہی تھی۔وہ ان تمام اشیا کوجووہاں تھیں  پر قادرہونے جارہی تھی جس میں وہ خودبھی شامل تھا۔وہ کانپتے ہوئے جولیٹ  کا کردارادا کرنے جا رہی  تھی۔وہ آرینڈل  خاندان کی خادمہ تھی جو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ کسی کے انعام کے طورپرآئی تھی۔ارنڈٹ کی خوشی کی نوعیت مختلف قسم کی تھی۔کسی سے محبت نہ کرنے کے وعدے جو بہت پہلے کئے گئے تھے،دوبارہ پیدا ہوگئےتھے۔ایملی نے  ان کےایک جہاز کو غرق ہونے سے بچایاتھاوہ اسے کسی حالت میں  بھی اسے افسردہ نہیں دیکھناچاہتاتھا۔وہ اس کی قسمت سنوارناچاہتاتھااس نے اسکا ماتھاچومااور اس کے بعدوہ اسے اپنے والدین کے گھرلایاتھا۔  ایک دن ایملی کی آنکھوں میں اس کے لئے پیار کی جھلک  دیکھی اور اس کے بعد اس کی طرف مائل ہوگیا۔اسے عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی لیکن ایملی  نے اس میں جان ڈال دی تھی اور رومان بھرے جذبات جگادیئے تھے۔شام  ہونے سے پہلے اس کے ذہن میں اس کی پہلی محبوبہ گورو  کی تصویربھی اس کی آنکھوں میں آئی۔اس کے بارے میں اس نے سالوں پہلے سوچنا چھوڑدیادیاجاتاتھا۔اسے یادآیاکہ وہ دونوں دوست تھے اور بڑی ہنسی خوشی رہ رہے تھے، جو اپنی خواہش میں بہت  رومان پروراورجذباتی تھی۔موسم بہار کی راتوں میں تووہ بہت  مستی میں آجاتی تھی اور آج کی رات ویسی ہی ایک رات تھی۔اگر وہ آج ہوتی تو اس کی جوانی اس سے سنبھالی نہ جاتی۔اسے پتہ تھا کہ ایسی ہی ایک رات کو سمندر نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔اس نے محبت،قوت ،معانی اور فراموشی کے تمام خواص  وہاں سے حاصل کرلئے تھے۔

بارہ سال خزاں  کی زندگی گزارنےکے بعد ایملی اس کی زندگی میں بہار لائی تھی۔ ارنڈٹ نے ایملی کو شادی کو باقاعدہ درخواست کردی تھی جو اس نے بخوشی قبول کر لی کیونکہ وہ بھی اس سے محبت کرتی تھی۔چند دنوں بعدوہ دونوں ایک صوفےپر بیٹھے تھےکہ ایملی نے خمارآلود لہجے میں اس سے پوچھا کہ کیاوہ اس شادی سے خوش ہے و اس نے مثبت میں جواب دیالیکن ارنڈٹ  کی چھٹی حس نے محسوس کیا  کہ ایملی خوش نہیں  تھی  تو  ایملی نے کہا کہ وہ خوش ہے۔

ارنڈٹ کو ناروے کے چوتھے بڑے شہر جانا تھا جہاں اس کا ایک بحری جہاز جو دیوالیہ ہوگیاتھاکا معاملہ طے کرنا تھا۔ایملی نے اسے نہ روکا کیونکہ وہ بھی کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی اور جب سے طوفان کاسانحہ ہواتھا ۔ فرڈنینڈ کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔وہ اس سے ملنا چاہتی تھی۔ ارڈنٹ تجارتی سفر پر جانے لگاتھاتووہ اس کوالوداع کرنے کے لئےسیڑھیوں پر کھڑی ہوگئی۔اس نے اس وقت مشرقی انڈین شال پہنی ہوئی تھی جو اس کی ماں نے دی تھی۔اس نے اس کی دوپہیوں والی بگھی روانہ ہوتے دیکھی ۔اس کے ذہن میں ایک انجانا خوف پیدا ہوا کہ شائد وہ واپس نہ آئے  لیکن اس نے صدق دل سے دعا کی کہ خدااسے ہر بلا سے محفوظ رکھے'

ارڈنٹ کے جانے کے اگلے روز دوخواتین  مادام  فرہ سے ملنے سکوائر ہاؤس آئیں،وہ کافی پی رہی تھیں۔ایملی چھجے دار ہیٹ اور خوبصورت لباس پہنے وہاں آئی۔اس کا چہرہ تمتما رہاتھا۔اس کا رخ سکوائر ہاؤس سے باہر جانے کاتھا۔اس کی ساسُُ فرو 'نے پوچھا 'بیٹی تم کہاں جارہی ہو؟'

'میں فرڈیننڈ سے ملنے جارہی ہوں'۔ایملی نے کہا

فرو اپنی جگہ سے اٹھی اور ایملی کا ہاتھ پکڑکربولی'پیاری بچی۔تم اسے نہیں مل سکتی

کیوں؟ایملی نے حیرانی سے پوچھا۔

کیونکہ کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔فرو نے جواب دیا۔

'فرڈیننڈ' ! یملی ہذیانی انداز میں چیخی۔

ہاں۔بیچارہ۔ہمارااچھا فرڈیننڈ  ۔۔۔ہمارا ا پیارا فرڈننیڈ۔

خدا کی یہی مرضی تھی ۔فرو نے افسردہ ہو کر کہا۔وہ آج فوت ہوگیاہے۔

فرڈیننڈ  ۔ایملی نے دکھ بھرے لہجے میں کہااوررونے لگی۔

وہ خواتین  فرڈیننؑڈ کی رحلت کی تفصیل بیان کرنے لگیں۔

اس برفباد رات  جب وہ  ایملی کے احکامات کی تعمیل میں جہاز کے بھاپ کے انجنوں  کی نگہداشت اور عرشے پر موجود خوفزدہ مسافروں کی ایملی کے ساتھ مل کو مناسب اقدامات کر رہا تھاتو کہیں سے دھات کا بڑا سا ٹکڑا اس پر آگرا جس نے اسےاندرونی طور پر گہری چوٹ لگائی تھی۔وہ بظاہر ٹھیک تھا لیکن دراصل اندرونی زخم گہرا تھا جو اس کی موت کا باعث بنا۔اور اس کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔ ہم اس کی موت کی اطلاع دینے  کے لئے وہ یہاں آئی تھیں۔وہ طوفان بالآخر ایک بہادر کی جان لے اڑا۔

افسوس صد افسوس!وہ بدبخت طوفان! ایملی نے اونچی آواز میں کہا۔تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ طوفان بادوباراں سےہی وہ فوت ہوا؟اس نے کہا۔

 مجھےحقیقت جاننے کے اس کے گھر جانا پڑے گا۔ہوسکتا ہے کہ تمہاری  اطلاع غلط ہو۔اس کی وجہ کچھ اور ہو۔ایملی نے کہا۔

بدقسمتی سے اس خبر میں کوئی غلطی نہیں۔وہ بیچار   ہ                 اس بدبخت طوفان  کی بھینٹ چڑھا ہے۔اس کا خاندان  نہائت غریب ہے۔اب اس کی بوڑھی ماں کاگزارا کیسے ہوگا۔میمزل راس (ایملی )۔حیف!اس کے خاندان کی زندگی بہت کٹھن ہو جائے گی۔بھوک سے مرجائیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں۔ایک خاتون نے کہا۔

ایملی سوچ میں پڑگئی۔ہاں!  یقیناً ایسا ہی ہو جائے گا۔۔۔وہ میرے ساتھ تمام وقت میرے ساتھ عرشے پر کھڑارہا۔تم جانتی ہو:ہم دونوں تمام رات اکٹھے ہی کھڑے رہے۔صبح کے وقت ،ملاح کے کیبن میں اس نے میرے برف اور سمندر اور طوفانی بارش سے بھیگے  کپڑے دیکھ کر اپنے خشک کپڑے دیئے  کہ میں بیمار نہ پڑجاؤں اور کہا کہ  میں انہیں پہن لوں۔تم سب نے یہ دیکھاتھا۔اپنا چہرہ خواتین کی طرف کرتے ہوئے کہا ۔ وہ میرے ساتھ ہی میری کشتی کے ساتھ آیاتھا۔۔۔نہیں! وہ نہیں مرا! اس کے بعد وہ خاموش ہوگئی۔۔۔مجھے اسے دیکھنے کے لئے ایک بار جانا چاہیئے۔وہ چیخی۔اے خدا! مجھے پہلے اس کے پاس جانا چاہیئے تھا۔

خواتین اس کی ہذیانی کیفیت سے خوفزدہ ہوگئیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ ایملی کو کیسے سنبھالیں۔

ایملی  فرڈیننڈ کے گھراس وقت پہنچی جب اس کی نعش کفن میں لپیٹی جارہی تھی۔اس کی والدہ،چھوٹے بھائی ، بہنیں اور چند رشتہ دار اس کی مددکررہے تھے۔وہ سب سیاہ لباس میں ملبوس نیم تاریک ماحول میں   موجودتھے۔انہوں نے ایملی کے لئے رستہ بنایا۔مرحوم کی ماں نے اسےہیلوکہا۔اس کا ہاتھ پکڑااورسرہانے کےپاس لے گئی تاکہ وہ فرڈیننڈکاآخری دیدار کرلے۔

ایملی کی فرڈیننڈجانے کی خبرپورے شہر میں آناًفاناًپھیل گئی۔وہ   پتھر بنی کھڑی تھی۔فرڈننیڈ کے چہرے پرسکون اور پر نور تھا۔ایسے لگ رہاتھا کہ وہ میٹھی نیندسورہاہو۔اس پر غم اور صدمے  کی کیفیت   دوبارہطاری ہوگئی۔وہ اس کے سرہانے کھڑی تھی۔اس نے پہلے کبھی نعش نہیں دیکھی تھی اورنہ ہی اس نے فرڈیننڈکواتنا خاموش دیکھاتھا۔جب وہ ہاں پہنچی تھی تو  فرڈیننڈ کے عزیز واقارب واپس جانے کے لئے تیارتھے۔ایملی نےآبدیدہ آنکھوں سے سب سے باری باری ہاتھ ملائے۔فرڈیننڈ کی ماں  مہمانوں کو الوداع کرنے کے لئے اپنی جھونپڑی سے باہر چلی گئی۔

وہ کفن کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔۔فرڈیننڈ!اس نے آہستہ سے کہا۔۔۔'فرڈیننڈ۔۔۔پیارے فرڈیننڈ!' جب اس نے جواب نہ دیاتو اس نے اپنابازوآگے کیااور اس کا چہرہ چھولیا۔ اس کی انگلیوں کے مس سے موت کی ٹھنڈی لہراس کے جسم میں دوڑگئی ۔ اس نے  دل کی گہرائیوں   سے دکھ محسوس کیا۔اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیالیکن تھوڑی دیربعدپھر اپناہاتھ اسکی گال پررکھ دیااور اوپرہی رہنے دیایہاں تک کہ وہ بھی سرد ہو گیا۔اس نے اس کی گالوں  پر ہلکے سے تھپتھپانا شروع کردیا۔اس نے اس کی گالوںکی ہڈیوں اور حلقہ چشم کواپنی انگلی کی پوریوں سے محسوس کیا ۔  وہ خود کومردہ سمجھنے لگی۔اس نے ایسا محسوس کیاکہ وہ اس کا سگابھائی تھا۔

سوگواروں کوالوداع کرکےفرڈیننڈ کی والدہ واپس آئی  تو ایملی  بدستور فرڈیننڈ کےسرہانے کھڑی تھی ۔اس نے اسے کرسی پربٹھادیااور مرحوم  فرڈیننڈکے بارے بتانے لگی کہ اسکا بیٹااس کے لئے ہمیشہ ہی کتناتابعدار تھا۔اس کی مختصرزندگی پر گفتگوکرنے لگی۔اس کی خوبیاں  اور بچپن کے قصے سنانے لگی۔اس وقت ماں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔جب اس نے  یہ کہاکہ  وہ اپنی پوری اجرت اس کے ہاتھ میں لاکررکھ دیتاتھاتووہ زور سے چلاناشروع ہوگئی۔پھراپنی دکھ بھری اور آنے والی  تکلیف یاد کرکے ٹھنڈی آہ بھری۔فرڈیننڈ۔اس نے دکھ اورتکلیف سے کہا۔اس کی روح یہ دیکھ کربہت غمزدہ ہوگی۔ 

ایملی نے اس کی باتیں بھاری دل سےسنیں ۔ اسے ان کی غربت کا احساس ہوا اسکا منہ ہتھیلی کوآگیا۔ اب خاندان کو روٹی کے لالے پڑنےوالے تھے۔اس نے  تنگ کمرے کو دیکھاجو ایملی  کے گھرسے ملتاجلتاتھا اورجہاں اس کی پرورش ہوئی تھی۔اسے ظالم دنیا کابراسلوک یاد آگیا۔اس کا سرچکرانے لگااوردل ڈوبنے لگااور وہ تمام اشیا جو اس کے سامنے تھیں دھندلا گئیں۔فرڈیننڈ کی ماں نے اس کی بگڑتی حالت دیکھی لیکن خاموش بیٹھی رہی اور پھر اس نے موضوع تبدیل کردیا۔وہ فرڈینڈ اور اسکی محبوبہ کے بارے میں گفتگو کرنے لگی۔وہ اپنے بیٹے  سے اس طوفانی رات کی پوری تفصیل کئی بار سن چکی تھی اور ایملی کے وہ تمام اقدامات جواس نے عرشے  سے بحری جہاز کوتباہی ،عملے اور مسافروں کی جانیں بچانےکےلئے اٹھائے تھےبیان کئے  تھے۔بیماری میں اپنے سرہانے پر رکھے کرسچینزسینڈجزیرے کا اس روز کااخبار مزے سے پڑھ پڑھ کرسناتاتھا۔اس کا ایک ایک لفظ اسے یادہوگیاتھا۔یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ پھیل گئی جب وہ اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئےوہ بے تکان بولتی رہی توایملی ٹھنڈی آہیں بھرتی رہی۔

جب ایملی کرسی سے اٹھی تو وہ  ایک لاش لگ رہی تھی۔اس نے سادہ بنچ اور کھڑکی میں پڑے گلدان اور بوڑھی خاتون  کے پھٹے ہوئے  میلے کچیلے کپڑے دیکھے۔اس کے بعد اس نے اپناچہرہ کفن کی طرف کیا۔اب وہ اس کے نزدیک  نہ گئی۔ایک لمحے کے لئے ایسے لگاجیسے وہ چیخناچاہ رہی ہو۔اس کی ماں سے ہاتھ ملایا اور واپس اپنے گھر آگئی۔اس نے اپنی ساس فُرو کو ڈھونڈااورکہا'فرڈیننڈ جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے۔اس کا خاندان اتنا غریب ہے کہ معلوم نہیں کہ اب اس کی روٹی روزی کاکیاہوگا۔' وہ یہ سن کر افسردہ ہوگئی

     پیاری ایملی۔ہم فرڈیننڈ کے ایثار کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔امیر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ وسائل وہاں خرچ کئے جائیں جہاں اس کی ضرورت ہو۔فکر نہ کرو انہیں کسی قسم کی مالی مشکلات نہیں ہوں گی۔

اگلے روز صبح جب ایملی اپنے کمرے سے نیچے آئی تو اسکی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ اہل خانہ اس کی یہ حالت دیکھ پر پریشان ہوگئے۔وہ پہلے والی ایملی نہیں لگ رہی تھی۔اس کے اعضا میں جان ہی نہیں تھی۔اس کی یہ حالت ویسی تھی جب وہ طوفان کو شکست دینے کے بعدبری حالت میں لائی گئی تھی۔اب وہ اسی طرح گونگی بن گئی تھی جیسے ووورینس سے ملنے وہ اور اردنٹ   ہوٹل میں اس کی تیمارداری کے لئے گئے تھے۔وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔فُرو نے فوراًڈاکٹر کو بلوا ناچاہاتوایملی نے منع کردیا۔تمام گھر پر خاموشی چھائی  تھی۔ایملی تمام دن افسردہ  ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرتی رہی۔اگر ارڈنٹ گھر پر ہوتا تو وہ اس کو سنبھال لیتا لیکن وہ تو کاروباری مصروفیات میں دوسرےشہرگیاہواتھا۔ایملی اپنے میاں کے آنے کاانتظار کر رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کرے۔

چند دن بعد ارڈنٹ اپنی والدہ کے قریب تھا۔ایملی اس کو بہت پیاری تھی۔وہ ا اسے اورپورے خاندان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ سمجھتاتھا۔اس نے اس کی دلجوئی کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن ایملی کی طبیعت نہ سنبھلی۔اس کے چہرے پر موت کے سائے نظر آرہے تھے۔اس کی زندگی نے اچانک رخ پلٹا تھا۔غربت سے انتہائی امارت کی زندگی گزار نے لگی تھی کہ فرڈیننڈ کی موت نے اس کی زندگی میں بھونچال پیدا کردیا۔وہ گھرتک محدود ہو گئی ۔تمام تقریبات سے کنارہ کشی کر لی۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ کسی کو بھی نظر نہ آئے۔فُرو اس بات سے بے خبر تھی جوایملی کوکون سا غم کھائے جارہاتھا۔اسے اس کے دکھ دردکی گہرائی کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا۔اس نے اپنے جذبات کو اس حد تک کنٹرول کرلیاتھا   کہ اب وہ گھریلو معاملات اوراپنے خاوند ارڈنٹ کانام خاموشی سے سن لیتی تھی اور وہ  اس کے دل کوچھولیتاتھا۔

یک دفعہ فُروکویہ  خدشہ لگاکہ  ایملی کہیں  ذہنی مریضہ تو نہیں  ہوگئی یا اس پر آسیب کا سایہ تو نہیں ہوگیا یا  طوفانی رات اس نے  فرڈیننڈ سے کوئی وعدے وعید تو نہیں کرلئے تھے  اوراحساس گناہ یا جرم کی وجہ سےخود کوملامت کررہی ہویا یہ سوچ رہی ہو کہ مردہ قبر سے باہر آکر اس سے حساب لے گالیکن سوائے  خاموشی کےکچھ نہ کیا۔ڈاکٹر نے اس کی وجہ شدید ذہنی صدمہ قراردیا۔اس سے ایملی کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی نہ گئی تو اس نے  خیال کیا کہ ہوسکتا ہے کہ فرڈیننڈ کی موت سے اس  سے ملتا جلتا ماضی میں کوئی واقعہ ہواہو۔اس لئے فرو نے اس کے بچپن  سے متعلق   اور دلدمیر ہیئر سووورنس  کے بارے میں کرید کرید کر باتیں پوچھیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات!اس نے لاگ لپٹی رکھے بغیر سب باتوں کے نارمل انداز میں جوابات دیئے۔ اس نے روحانی عاملوں کی مدد بھی حاصل کی لیکن اس سے بھی اسے افاقہ نہ ہوا۔اس کے تمام طریقوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ماضی میں  بےراہروی اور غیر اخلاقی   واقعات  وابستہ نہیں تھے۔وہ نیک،سادہ لوح اور پاکدامن لڑکی تھی اور اسکی پہلی اورآخری محبت اس کا بیٹا ارڈنٹ ہی تھا۔اب اس کو ایملی پر غصہ آنے لگا تھا کہ وہ  ذہنی اذیت برداشت کررہی تھی ۔اس پر اعتبار نہیں کررہی تھی اور اپنے غم میں کسی کو بھی کھل کر نہیں بتا رہی تھی۔

فُرو کی شادی کو چالیس سال بیت چکے تھے۔انہوں نے اپنے گھر میں عبادت خانہ بنایاہواتھاجہاںمیاں بیوی شام  کووہاں عبادت کیا کرتے تھے۔اس سانحے کے بعد اب ُفرونے ہراتوار کرجاگھر جاناشروع کردیاتھااور یہ دعا مانگی کہ ایملی کے اصل مسئلے کو صاف اور واضح کردے۔جب وہ وہاں سے واپس آئی تو اسے امید تھی  کہ خدا اس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔وہ ایملی کی اس بات پر مشکور تھی کہ اس نے  لوگوں کی جانیں اور بحری جہاز بچالیاتھا۔وہ کلیسا میں صدقے کے طورپر خیرات دینا ا اورعمدہ کڑھائی والالینن کا غلاف چڑھانا چاہتی تھیں۔اس نے یہ جان لیا تھاکہ ایملی کی والدہ نے اسے کڑھائی سکھا دی تھی اور وہ خوشی سے یہ کام کرتی تھی اسلئے اس نے یہ کام ایملی کے ذمے لگا دیااتاکہ وہ مصروف ہو  جائے وروہ بغیر کسی حیل وحجت یہ کام کرنے لگی۔ایک شام ساس اور بہو ڈرائنگ روم میں لینن پھیلائے کڑھائی کر رہی تھیں کہ فرو  کا میاں    آگیا۔پچھلے چند سالوں سےاسے اپنی کوہتاہیاں ،گناہ اور زیادتیاں یاد آنے لگی تھیں۔اس کے ذہن پر ضمیر کا بوجھ بڑھتا جا رہاتھا۔اس پر احساس گناہ شدت سے پیدا ہونا شروع ہوگیاتھا۔اسے اپنے بڑھاپے کا احساس ہونے لگ گیا تھا۔اس کے آباؤاجداد کی عمریں لمبی تھیں۔انہوں نے نام کمایاتھا۔وہ  دیندار لوگ تھے۔وہ ہر کام ضوابط کے تحت کرتے تھے اسلئے ان کا بڑھاپا بھی خؤبصورت گزرا تھا۔ جوچم ہوزوینکل  وسوسوں  میں گھرا رہتا تھا تو اس نے یہ تصور کرلیا کہ اس کا بڑھاپااس کی نانی پر گیا تھا۔اس کی یادداشت بھی خراب ہو رہی تھی۔جسمانی اعضا بھی کمزور ہو گئےتھے۔اب وہ ماضی اورحال میں تمیز نہیں کرسکتاتھا۔اب اسے تجارتی معاملات کی بجائے بچپن کے کھیل اور مذاق  لگتے تھے۔

ایملی گھر میں آئی تھی۔ایک نوجوان خوبصورت لڑکی جو دنیا کی حریص نہیں تھی۔اس کی کوئی خواہشات یا مطالبات نہیں تھے۔وہ جس حال میں بھی رہتی مطمئن رہتی تھی۔

ایملی اب بیمار پڑگئی تھی ۔دسروں کے ساتھ نہیں بیٹھتی تھی۔نرسری کے گیت اور بچپن کی یادیں اسے اچھالگنے لگ گئی تھیں۔اس کا ضعیف سسر اس کا بڑا خیال رکھتا تھا۔وہ شام  کو اپنے مرحوم دادا کی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کراسے الف لیلوی کہانیاں سناتا۔جہازرانوں کے واقعات اور ان سے متعلق قصے کہانیاں سناتا جواسے اچھی لگتیں۔وہگاہے بگاہے اس کے لئے تحائف لاتا رہتا۔ایک بار و ہایک پرندہ اس کے لایاتووہ بہت خوش ہوئی اور اس بپرندے کوباربارچوما۔آج وہ  ایملی کو اہم تازہ کہانی سنانا چاہتاتھا۔وہ ڈرائنگ روم میں آیا ۔اپنی بیوی اور ایملی کو ساتھ بٹھایا اور کہانی شروع کی۔

ایک رات اسی گھر میں جس میں تم اب بیٹھی ہومجھے ایک خطرناک صورت حال کاسامناکرناپڑا جوچم ہوزوینکل نے ایملی سے کہا۔یہ کہانی میرے داداسے متعلق ہے ۔میرے دادا کانام 'جینز  گوٹورمس آئیل' تھا۔جس کرسی پر میں اب بیٹھا ہوں یہ اسی کی کرسی ہے۔شام کا وقت تھا۔مشعل کی روشنی اسکے جھریوں والے ہاتھ پر پڑرہی تھی۔چہرہ تاریکی میں تھا۔وہ تجارت کے سلسلے میں ایک ایسے مقام سے لوٹاتھاجس کی زیادہ تر آبادی مذہبی تھی۔میرا دادا بھی مسیحی مذہب  کانہ صرف ماننے والاتھابلکہ ہرکام میں مذہبی رہنمائی حاصل کرتا تھا۔اس نے بتایا کہ آج وہ ایک راز اس مقدس کتاب  کے بارے میں بیان کرنے جارہاہوں جو میرےدفترکے ایک میز پر رکی ہے۔ جب  بھی اور جہاں بھی دادا کوالجھنیں پیش آتیں تو وہ ا اس سےہنمائی حاصل کیا کرتا تھا۔ وہ میری رہبر ہے۔۔ میں  گمبھیر صورت حال میں اس کی مدد حاصل کرتا ہوں۔بات میرے دادا مرحوم کی ہو رہی تھی۔وہ کھاتاپیتاآدمی تھا۔وہ سخی دل تھا اور تمام شہراس کی عزت کرتاتھا۔یہ فروری1717کی بات ہے کہ ہمارے کرسچینز سینڈ  قصبے میں کسی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی جو لمحہ بہ لمحہ تیز ہوکر سب کچھ جلاکر خاکستر کررہی تھی۔بڑی تباہی مچی۔چھ گھنٹوں میں تیس گھر جل کرراکھ کا ڈھیربن گئے۔آگ کے بلندوبالاشعلے میلوں دورکے ساحلوں  سے دیکھے جاسکتے تھے۔اس وقت شمال مغرب سے ہوااٹھی جوآندھی کی شکل  اختیار کرگئی  جس سے آگ پھیلتے پھیلتے اس گھر تک پہنچبنے لگی۔بزرگ لوگ یہ بیان کرتے تھے کہ شدید ترین سردمیوں میں  میں اس علاقے میں  اتنی زیادہ گرمی تھی کہ جلتی ہوئی بھٹی لگ رہی تھی۔دادا کی ساری   جمع پونجی   خاک ہونے جارہی تھی۔اس دوران گھبراہٹ سے اس کے ملازمین دستاویزات   اور اس کی دولت بچانے میں مصروف ہو گئے۔ کرنسی محفوظ  کرنے میں لگ گئے۔ لوگ اس نیک آدمی کی جان ومال کی حفاظت  پرفکرمندتھے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Popular posts from this blog