انہوں نے تومجھےکبھی بتایا ہی نہیں They Never Told Me By Austin Clarke


 

 

انہوں نے تومجھےکبھی بتایاہی نہیں(تصویرکادوسرارخ)

 

They Never  Told Me

By

Austin  Clarke

مترجم :  غلام محی الدین

میں بوڑھاہورہاہوں اورمجھے اس سےنفرت ہے۔میں نےان  سالوں  میں جوگناہ کئے  کی روروکے ملامت  کرتاہوں۔میرے سابقہ افعال میری گفتگوپراثرانداز ہوجاتے ہیں۔  سے سیڑھیاں  چڑھنےکی قوت  کم ہوگئی ہےاوراب چال میں لڑکھڑاہٹ  اور یادداشت نہ ہونے کے برابرہوگئی ہے۔ذہن پرزوردینےاورباربارکوششوں سے بھی میرےذہن میں موزوں الفاظ ڈھونڈنےمیں مشکل پیش آتی ہے۔برنوک زباں آتے آتے کافی وقت لگ جاتاہے۔مجھے اب تک کسی نےبھی  اس کی وجہ بیان نہیں کی۔میں اس سےبے خبرہوں کہ میری گفتار آہستہ  اورفقروں کی طوالت کم کیوں ہوگئی ہے،موزوں لفظ ڈھونڈنےمیں مشکل کیوں درپیش  آنےلگی     ہے اور حافظے میں اپنی سوچ  کےمطابق  زبانی اور تحریری  طورپر اداکرنے میں   دقت کیوں  پیداہونے لگی ہے۔میری  آنکھوں کےسامنے چہرے دھندلے نظر آتے ہیں۔،نام بھول جاتے ہیں اور ان کے چہروں پرمیری نظریں  جاتی رہتی ہیں مگر میں انہیں پہچان نہیں پاتا۔کبھی کبھار اس کےناموں  پر  ایسے روشنی پڑتی ہےجیسے بھرےہوئے سینماہال میں  اچانک فلیش  لائٹ جل گئی ہو۔میری ڈائری جس میں میں نےجونام لکھے ہوتے ہیں ،ان کی شناخت گڈمڈہوجاتی ہے۔

میں اب بزرگ ہوچکاہوں لیکن میں خودکویہ ظاہرنہیں ہونے دیتا۔میں اپنے بوڑھےپن کوچھپاتاہوں۔مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔میں  ضعیف نہیں ہوناچاہتا۔میں یہ بات پسندنہیں کرتاکہ کوئی  میری شناخت بوڑھے کےطورپرکرے۔میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتاکیونکہ ان پر نادار اوربےکسوں کی چھاپ لگ گئی ہے۔ان کے ساتھ بیٹھنےمیں مجھے سبکی محسوس ہوتی ہے۔میں احساس کمتری میں مبتلاہوجاتاہوں اور خود کوبیکارسمجھنے لگتاہوں۔ مجھے لگتاہے کہ خواتین اشاروں کنایوں میں میرامذاق اڑاتی ہیں۔اس وقت یہ شئے مزید مضحکہ خیزلگتی ہے جب بس میں کوئی  خاتون   مجھے معذور سمجھ کراپنی نشست پرمسکراتے ہوئے اٹھ کراپنی جگہ پیش کرتی ہے اور میں اس کی خالی کردہ سیٹ پر بیٹھ جاتاہوں۔میراغصہ اس وقت بڑھ جاتاہےجب  اس نشست سےمجھے لوگوں کے پسینے کی سڑاندآناشروع ہوجاتی ہے۔وہ خاتون جس نےمجھ پرترس کھاکر بٹھایامیرے ساتھ بس کاڈنڈا پکڑکر کھڑی ہوتی ہے۔مجھےاس کےگرمیوں کے مہین لباس سےاس کے زیرجامہ کی پتلی سی لکیرنظر آتی  ہے۔ میں  لوگوں کواپنی ضعیفی پرترس کھاتے ہوئے  بھری بس کےماحول  کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چیخنا چلانا چاہتا  ہوں ۔۔۔لیکن  اس بات کی  شرم اورحقیقت  کہ میں اتنا نحیف ونزار ہوگیا ہوں ، ایسا کرنے سےمنع کرتی ہے۔

اور جب میں گھر پہنچتاہوں اورنوجوان لڑکیوں کےپاس سےآکر دوگھنٹوں تک غسل خانے کے سفیدتام چینی سے بنےبیسن کےاوپرچھوٹے سےمستطیل آئینے میں اپنی شکل کاجائزہ لیتاہوں تووہ ہونق لگتی ہے۔ہمارے غسل خانےکو حال میں سفیدرنگ کیاگیاہےاوراس کے درو ودیوار لشکارے مارتےہیں لیکن وہ اس وقت صاف نہیں ہے۔بیسن اور فرش پر جگہ جگہ بھوری بوتلیں  ، شیشیاں اور گیلا کپڑاپڑاہواہے۔شیشیوں میں سردرد،کان کے درد ، وزن کم کرنے  ، کھانسی اورنزلہ زکام وغیرہ کی گولیاں پڑی  ہیں جوہرسائزاورمختلف رنگوں کی ہیں  لیکن میں نےانہیں چھواتک بھی نہیں ۔ اس کےعلاوہ ٹین کا کوکاکولا کاایک  خالی ڈبہ بھی  پڑاہے جسے کسی نے خالی کرکےوہاں پھینکاہے۔ادھر کیوی   پالش  کی خالی ڈبیہ  بھی  موجودہے۔میں اس کے ڈبے کے گولائی والے حصے پرلگائےگئے بٹن کوکھولتاہوں  تواس میں سیاہ پالش ہے۔اس ڈبی کے  باہرپانی سے مزاحمت،  چمکداراور چمڑے کی حفاظت ،قابل بھروسہ اور ڈیوک آف ایڈنبرا جہاں یہ پالش بنائی گئی ہے، پرنٹ کیاہواہے۔ڈبی پرکیوی پرندے کی تصویرہے۔جب میں ڈبیہ کھولنےوالےبٹن  کوموڑتاہوں توڈھکن کھل جاتاہےاور بوٹ پالش کی تیزبومیرے نتھنوں میں گھس جاتی ہے۔ نہ جانےکیوں اپنی ایک انگلیاں  پالش میں گھساکرسونگھتاہوں۔

میں ایک  سیاہ فام  قوم سے ہوں جن کاشوق ہے کہ وہ میک اپ سے خود کوگوراکرلیں۔جب  ہاتھ جس میں پالش کرنےوالاجوتاپکڑاہوتاہےپرکالک لگ جاتی ہےتو مجھےپریشانی ہوتی ہے کہ میں کیاکررہاہوں ۔اس وقت  نہ جانے کیوں خود کو مزید سیاہ فام  کرنے کی خواہش ابھرتی ہے۔اوردل کرتاہے کہ اپنے سفیدبالوں کوسیاہ کیوی پالش سے کالاکرلوں۔میں جوان دکھنے کے لئے اپنے چہرےپرکالی پالش   لگاکرآئینےمیں دیکھتاہوں تومیری ہنسی چھوٹ  جاتی ہےاوربےاختیاری میں  قہقہے لگانا شروع کردیتاہوں۔اس ہیئت سےمیں مسخرہ  لگنےلگتاہوں۔بے ساختہ یہ گاناگانے لگتا ہوں:

سوانی دریاکےکافی نیچے

دوربہت دور

میرادل وہاں پراٹکاہواہے

یہ وہ جگہ ہےجہاں میرے بوڑھے  والدین  رہتےہیں

لیکن   دل توآخر دل ہے۔اس کاکیاکیاجائے،گا گا کر روح رانجھاکرتارہتاہوں جب کہ اصل  میں  اس گانےکی جڑماررہا ہوتاہوں۔میری کمر تیرکمان بن  گئی ہےجوایک ہلکی دھن پر دھیرے دھیرےتھرک رہی ہے۔وہ گیت میرےاعصاب  پر کیوں سوارہے،نہیں جانتا۔میرے ہونٹ لمبےاورسیاہ   ہیں ۔میری آنکھیں  جھکی ہیں۔میرے ہاتھ کانپتے رہتے ہیں۔ میں ایک جوکرگلوکارلگتاہوں:

سوانی دریاکےکافی نیچے

دوربہت دور

میرادل وہاں پراٹکاہواہے

یہ وہ جگہ ہےجہاں میرےبوڑھے  والدین رہتےہیں

اور میراحلیہ ایک مسخرے  کی طرح بن گیاہے۔اپنے نئے سیاہ جسم  کوآہستہ آہستہ ہلاتاہوں اور ناچتاہوں۔اورکھلکھلاکرہنستاہوں ۔ میرے موتیوں جیسےسفید دانت چمکتےہیں،اور میری آنکھوں کےڈیلےاپنی پلکوں سے باہرنکلنے لگتےہیں ۔اس گانے کی دھن میری روح کوچھوتی ہے اور سنجیدگی  اورمستی میں جھومنےلگتاہوں ۔

میں اپنے گھرکی سینتالیس سیڑھیاں چڑھ کراپنے غسل خانےآکر دروازہ  بندکرلیتاہوں۔مجھےایسالگتاہےکہ میرادماغ اس وقت  کام کرنے سےقاصرہے۔میں یہ بالکل بھول جاتاہوں کہ میں اتنی سیڑھیاں چڑھ کر اوپرکیوں آیا ہوں ؟۔میں ہانپ رہاہوں ۔میراسانس برابرنہیں  ہے  اورمیں  ان سینتالیس سیڑھیوں پرچڑھتے اترتےہرقدم  اونچی آواز میں گنتا جاتا ہوں۔ایسالگتاہے کہ میرےلئےیہ شماراہم ہے کیونکہ مجھے انجانااندیشہ ہے کہ اگرمیں نے ایک سیڑھی کونہ گناتودھڑام سے  سیڑھیوں  سےنیچے گرجاؤں گااورمیری ہڈی پسلی ایک ہوجائے گی  یامیں لڑکھتاہواپہلی سیڑھی پرپیتل کے فریم  سے ٹکراجاؤں گا،میراسرپھٹ جائےگااورپھر سےسینتالیس سیڑھیاں دوبارہ   پاٹناپڑیں گی  اورغسل خانے جاکر سوچناپڑے گاکہ میں یہاں کیوں آیاکرتاہوں ۔۔۔اور اس کےبعدمجھےوہاں ٹشوپیپر کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ میں      اپنے ترشوائے ہوئےکالی پالش کی ڈبی سے رنگے  اپنے بالوں میں اپنا فشارخون ماپ سکوں اور    شیشےصاف  کرکے  اپنے بال   جو میں نے حال میں کٹواے ہیں کاجائزہ بھی لوں کیونکہ  ان کا معائنہ  ضرور ی ہے۔  

  بالوں کودیکھتاہوں جو رنگ کرنے کے باوجود بھی  زیادہ کالےنہیں ہوئے ہیں جتنی کہ میری خواہش تھی  تومیں انہیں   مکمل کالا کرنےکےلئےپالش کی پوری ڈبی سر پر  انڈیل دیتاہوں جو مغربی ٹورونٹو سےتقریباًسو کلومیٹر دورہملٹن  شہر میں تیارکی گئی ہے۔میں اپناسیاہ چہرہ دیکھ کرخوش ہوتا ہوں۔کیوی پالش  کی چمک کےنیچے،اس نقاب کےپیچھےجوکہ میرےچہرےپرسیاہ رنگ سے روغن کیاگیاہے، اس نئے روپ میں جوکالےبالوں کی وجہ سے جوانی کاتاثردینے لگاہے ،مجھ میں خواہش ابھرتی ہے کہ میں ،بس سٹاپ پر جاؤں  اورکسی جوان  لڑکی کی قربت حاصل کروں۔انتظارگاہ میں بیٹھی لڑکی (لڑکیوں )  کی پرفیوم کی شہوت انگیز خوشبوسے  تسکین حاصل کروں۔اور جب بس سٹاپ پررکے تو بس پرسوارہوتےوقت ان کے بازوچھوکرمزالوں  اور خود میں   لڑکی کاہم عمرہونے کا احساس پیداکروں  ،جس کی حدمجھ تک ہی رہےکسی اور کواس کا احساس نہ ہو۔اگراس کا نرم گرم بازواوراس کے سرخی مائل بالوں کی خوشبو کاایک جھونکاسیاہ بالوں سے ٹکرائے تومیرے جذبات پھر سے بھڑک اٹھیں گے۔جیسےایک دفعہ رومانی خواہش   جومیری عمرکے بڈھے   کاخواب ہی  ہوسکتاہے،عودکرآئے اور موسم بہار کےپہلے شگوفے کی طرح  کھڑی ہو جائے گی۔جس سے میں سکون  محسوس کروں  گا۔رومانی اظہار میں مجھ پر کوئی ترس کھائے گا۔

بس آتی ہے اور میں اس پرسوارہوکرروزڈیل کے سٹاپ پراترکر نزدیکی ایل۔سی۔بی۔او سٹورسے اپنی پسندیدہ پندرہ سال پرانی   رم خریدکرپھربس پر سوارہو جاتاہوں۔خراب سڑک  پربس چلتی ہےتومیں رم  کی چسکی بھرتاہوں لیکن سردی کی وجہ سےبوتل اپنی  جیکٹ  کےبغل میں دبائی ہوتی ہے۔کوئی مسافر اس پرتوجہ نہیں دیتااور نہ ہی کسی کواس کی پرواہ ہوتی ہے ۔میری طرف کوئی  دیکھتاتک نہیں۔چونکہ میں ایک سیاہ فام شخص ہوں اورنحیف و ندار بھی جس نے اپنےبالوں  پر کالی پالش لگائی ہوئی ہےاس لئےمجھے   مروجہ قانون کے مطابق  بس کی سب سے آخری سیٹ پربیٹھناپڑتاہے ۔اور اب بس واٹرفرنٹ کےشمال کی طرف مڑتی ہےاور شربن سے ہوتی ہوئی کوئین سٹریٹ  ایسٹ مڑجاتی ہےجوایک بدنام علاقہ ہےجہاں جرائم پیشہ افراد،نشہ کرنے والےافراد کی اکثریت پائی جاتی ہےاورمجھےوہاں کوئی بھی نہیں جانتا۔میں وہاں اترکر ان  جیساہی بنناچاہتاہوں۔میں وہاں اونچی یامدھم آوازمیں اپناپسندیدہ گاناگا سکتا ہوں:

سوانی دریاکےکافی نیچے

دوربہت دور

میرادل وہاں پراٹکاہواہے

یہ وہ جگہ ہےجہاں میرےبوڑھے  والدین رہتےہیں

مجھے یہ تسلیم کرناپڑتاہے ،جو  حیرانی  اور شرم   کی بات ہے کہ کسی  بس پرسوارہوتے وقت ، میراغسل خانے جانالازمی ہوتاہے۔میرےلئےلازم ہے کہ میں اپنامثانہ خالی کروں۔مجھے ہرصورت یہ کرناپڑتاہے ورنہ رستےمیں ہی  فضلاکےاخراج کا پوراامکان موجودہوتاہے۔ لوگ بیت الخلا میں  فضلہ کروانے میں مددکرتےہیں۔وہ ذہن جو اب مختلف  ذہنوں میں  ایک لباس کادوسرے لباس  سےاور فون کے مختلف نمبروں میں  تمیز کرنے کےقابل نہیں  رہاہے۔مجھ میں انحطاط روزبروز بڑھ رہاہے۔ میری معذوری روزبروزبڑھ رہی ہے،پلاسٹک کی بوتلوں کے ڈھکنوں کوکھولنےکی طاقت نہیں  ہے،فریج  سے برف سے جمی ہوئی خوراک  کھانے میں مشکل  آنا شروع ہوگئی ہے۔سینماگھرمیں ٹکٹ لینےکی قطارمیں مجھےترجیحی بنیاد پرٹکٹ لینےکی اجازت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مہربانیاں  جب  عمومی طورپرعوام اور نوجوان خواتین  (خصوصاً ) کرتی ہیں  تومیں اندر سےکھول جاتاہوں۔لیکن میری عمرکی خواتین کواگرایسی پیشکشیں جب بھی کی  جاتی ہیں تووہ مشکورہوتی ہیں ۔ساٹھ   کی دہائی میں،میں امریکہ کےبہت سے شہروں میں رہا:نیوہیون، ولیمزٹاؤن ،بوسٹن اورجنوب میں درہم ،نارتھ کیرولینا، بلمنگٹن، انڈیانا ، ٹیکسیس میں آسٹن۔میں سالہاسال    سے یہ امیدکرتاہوں کہ نسل پرستی ختم ہوجائے اور سب  کےساتھ مساوی سلوک کیاجائے۔میں ایک سیاہ فام خاتون کےساتھ جس کانام روزاپارکس ہے، سے متاثر ہوں جس نےسفیدفام کےلئے اپنی نشست نہیں چھوڑی تھی اوراپنی  جگہ پر ڈٹ کربیٹھی  رہی۔

 یہاں ٹورونٹو میں ایک بوڑھا  کالج کےفٹ بال پلیئر کی یونیفارم میں ٹرنٹی  کالج  کےقریب میرے پاس سے گزرتاہے ۔اسےدیکھ کرمجھے اپنی جوانی یادآجاتی ہے۔میں   کالج ٹیم  میں سنٹر فارورڈ کھیلا کرتا تھا۔یہ بات الگ ہے کہ میں نےکبھی کوئی گول نہیں کیاتھا اور مجھے میچ میں کئی بار گیند کے اندر آف سائڈ کردیا جاتاتھا۔ جب میچ ختم ہونے کی سیٹی بجتی   اور اگرہمیں فتح ملی ہوتی تو فرنٹ کیمپس کی گراؤنڈ میں  فرسٹ ائر کی خوبصورت لڑکیوں کوجو کھیل میں داددینے اورٹیم کاحوصلہ بڑھانے والی چئرلیڈر ہواکرتی تھیں ،کےساتھ ہم شامل ہوجاتےاور فتح کاجشن مناتے ہوئے ٹرنٹی کالج  پہنچاکرتے۔ اور ڈائننگ روم میں کھانےکی میزپرفتح  کےاحساس پر  فخرسے بیٹھتے۔یونیفارم میں ملبوس  اس معمر شخص کودیکھ کر مجھےاپنی جوانی کاواقعہ یادآیا۔ایک دفعہ  میں اپنےگھر  جانےلگاتورستہ بھٹک گیا۔میں دائیں کی بجائےبائیں مڑگیاتوینگ سٹریٹ پرپہنچ گیااور بلور/ینگ سٹریٹ کے کونے میں  سوجھاکہ یادرفتہ  کوآواز دوں ۔میں  نے اپنے کالج کےفٹ بال ٹیم کا یونیفارم  پہن لیااور انسٹھ سال بعد اس کارنرپرنومبر کی شام شدید سردی میں  بھی اسی طرح کھڑاہوگیاجیسے اس دورمیں ہوتاتھا۔

سال بھگتے گئے اور ٹرنٹی کالج کےبعداس وقت تک  جوبھی باربیڈوس میں تھا،یاد آگیا ۔وہ زمانہ میری جوانی کا تھا،میں بہت طاقتورہواکرتاتھااور  سو،دوسوبیس، چارسوچالیس اورآٹھ سواسی گز کی دوڑوں  میں ہمیشہ اول آیاکرتاتھا۔اس  کےعلاوہ لانگ جمپ  میں بھی پہلی  پوزیشن حاصل کیاکرتاتھا۔میں نے وکٹر لڈورم ۔چیمپین آف  سنٹرز جوآج کل بلورسٹریٹ  میں ہے اور کیوی  پالش کے مرکز کےسامنے ہے،کےشوروم  جس کی خصوصیت یہ ہے کہ کہ وہ آدمیوں  کے فیشن سٹور ہیری روزنز  سٹور کے سامنے ہے۔  میں اس وقت مجھے  ٹی۔ایس۔ایلیٹ جس کےنام پر وہ گلی ہے کا سوچنے لگتاہوں - یہ ایک فطری امرہے کیونکہ میری جوانی وہیں گزری ہے۔میں وہاں  طالب علم تھا۔ وہاں پر ایک پمفلٹ پرایک دروازے پر  پاجامےاور معمر افراد کے بارے  میں لکھاتھا۔

' میں بوڑھاہوگیاہوں ۔۔۔میں بزرگ ہوگیاہوں۔کیامیں اپنی پتلون  کوتہہ کرپاؤں  گا۔کیامیں  اپنےبالوں  کاپیچھے سےتیرنکال پاؤں گا۔کیامجھ میں اتنی ہمت پیداہوپائے گی کہ میں آڑوکھاسکوں؟'

اس صبح میں دوآڑوکھائےتھے۔ایک خاتون کےرسالےمیں میں نےپڑھاہےکہ آڑو عمر بڑھاتے ہیں ۔ آڑوتومجھے ویسے بھی پسندہیں۔ انہیں کھاتے ہوئے میں  گودےکےساتھ اس کےاندرکےبال بھی کھاتا یاچوستاہوں جس سے مجھے  بہت مزہ آتاہے۔جب میں سیاہ لیس  دارایک آڑوکھاتاہوں تومیری یہ توقع ہوتی ہے کہ اس پھل کی تاثیرسے میرا رویہ معقول ہوجائے گااور لوگوں کی رائے بھی میری صلاحیتوں کےبارے میں بدل جائے گی۔ مجھ سے مناسب سلوک روا رکھناشروع کردیاجائے گاخواہ اس میں دوستی کاعنصرنہ بھی شامل ہو۔لیکن یہ محض خیال خام ثابت ہوتے۔ مجھےاس وقت اپنے کالج کا وہ دوریاد آتاہے جب نسل پرستی اپنے عروج پرتھی۔ایک دن میں کسی جگہ سب سےاوپرکی سیڑھی پر مکمل خاموشی  میں کھڑا نوٹس پڑھنے میں مصروف تھاتو مجھے جوتوں  کے کھٹ کھٹ  کی آواز سنائی دی جس نے مجھے چونکادیا؛اس کےبعد بھاری قفل کھلنے کااحساس ہوا۔جہاں میں کھڑا تھااس کےسامنے والے دروازے پر تحریر تھاکہ 'یہاں رنگدارلوگوں کاداخلہ منع ہے'۔اسی جگہ دروازے پر کسی نے الٹے سیدھے انداز میں یہ بھی  لکھاگیاتھاکہ'اے یسوع مسیح اس گھرکو بچالے۔'

ایسی   ناامیدیوں کوجھیلتےہوئےایک زوردارجھٹکے نےجوناقابل برداشت تھا جس میں غصہ اورناامیدی شامل تھی ، مجھے اپنی کالی نسل کی وجہ سے بس کی پچھلی نشست پر پچاس سال تک  بیٹھناپڑا ،اب  میں سرکشی کرتے ہوئے اگلی نشستوں پربیٹھنے کوترجیح دینےلگاہوں ،میں محسوس کرتاہوں کہ میرا روحانی اورجسمانی انحطاط روزبروزبڑھ رہاہے۔میرے جیسے دیگرافراد میں بھی یہ تخریبی عمل  نظر آتاہے۔ان کی آنکھیں دھنسی ہوتی  ہیں ۔آنکھوں کے گردسیاہ ہالے پڑے ہوتے ہیں ۔ جنہیں وہ معدے کی خرابی گردانتےہیں لیکن بڑھتی ہوئی کمزوری،بذات  خود تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔میری ٹانگوں  میں شدید خارش کی وجہ سے کھرنڈ بن گئےہیں ، گوشت سوکھ کےہڈیاں باہرنکلی ہوئی  ہیں اور لٹکتاگوشت میرے سیاہ پاجامے میں کاغذ کی طرح پتلا بن کرکھلے اور ڈھیلے  ڈھالےتھیلے کی طرح  کابن گیاہے۔میراجسم سکڑگیاہے۔قوت ارادی نے  زندہ رکھاہواہے۔ خود کونحیف ہوتاہوادیکھتاہوں ۔میری طرح میری عمرکے لوگ ہر طرح کوشش کرتے ہیں کہ اپناسکارف اچھی طرح اپنےکانوں، گردن اور سینےپر لپیٹ کر موت کوجھٹلائیں ۔جب دوپہرکی روشنی آتی ہے،بھوری ،سرمئی،ارغوانی،سنہری نقطے ، کومے،جو اس ریشمی سکارف کےڈیزائن میں بنے ہوتےہیں شاندارلگتےہیں۔

جب میں سکول  اورکالج  میں تھاتومیرا پہناوا،فیشن اور رہن سہن بڑاشاہانہ ہواکرتاتھا۔  ہمیشہ بہترین لباس زیب تن کیاکرتاتھا۔اس دور میں سرمئی رنگ کا فیشن تھا۔اس رنگ کےکپڑے میرے پسندیدہ ترین ہوتےتھے۔چار خانوں کاڈیزان مجھے اچھالگتا تھا۔ سفید قمیض پہناکرتاتھا۔ہمیشہ استری شدہ کپڑےہی پہناکرتاتھا۔آستینوں  پرسنہری بٹن لگےہوتےاوراوپر سنگل بریسٹ والی   کالی جیکٹ   جسےاپنے جسم کے سائز کے مطابق  ایسے ڈیزائن میں سلوایا کرتاتھا جو اس دورکی اشرافیہ پہنتی تھی  اورہمارے دورمیں  سفید فاموں اور اشرافیہ میں بھی ایسےلوگ بہت کم ہواکرتے تھےجو اس طرح کا فیشن کرتے تھے۔اپنےلباس میں جوتبدیلیاں کی جاتیں وہ اس بات کی تشخیص کرتی تھیں کہ ایسےمعززین   کوان کی برتری کا احساس دلائیں۔میرے ذہن میں عہد ماضی کاسلسلہ قائم تھا۔۔۔تواس وقت  میرے بلیڈر پر یکدم زور پڑا،میں فطری حاجت روک نہ سکا اور میرا زیرجامہ گیلاہوگیا۔ کئی بارپیشاب روکنےمیں کامیاب بھی ہوجاتا ہوں   لیکن آج ایسانہ ہوا  ۔   میں اپنی ٹانگوں کوآپس میں زورسے جکڑ لیتا ہوں تاکہ میراپورابدن کھنچ جائے اورذہن   دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنےلگے  اور اس دباؤسے وقتی طورپرٹل 

 جائے۔بعض اوقات میں اس کیفیت  میں حروف تہجی پڑھناشروع کرتاہوں۔الف سےیے تک سیدھی اور الٹی گنتی گنتارہتاہوں اور فطری حاجت کوٹالتارہتاہوں لیکن ضعف اعصاب سےناکام ہوجاتاہوں ۔اس کے باوجود میں ہارنہیں مانتاجبکہ جوان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 

 میں خوب آرام کرتاہوں یا کسی مستقل ٹھکانے میں رہتاہوں۔اس سے مجھے سکون ملتاہے۔ میری توجہ برقراررکھنے کی صلاحیت کھو  گئی ہے اور ٹیکسی میں سفرکرتے وقت میری بیرونی دنیاپر سجے ہوئے اشتہارات پڑھنے میں مشکل آنے لگ گئی ہے۔اپنے گھر کے مین دروازے پرمیں نے نمبرجوخودلکھوایاتھاجس کا رنگ سبززمرد کاتھاتاکہ میں اس ڈرائیور کو جومجھے گھر سے لےجاتااورواپس لاتاتھا ،کوگھرڈھونڈنےمیں آسانی ہو۔اسے معلوم ہو کہ میں  گھرپرہی ہوں !میں اسے چلاکرکہتاہوں میں گھر پرہی اس کاانتظارکررہاہوں!'سبزرنگ کے گھرپر !اور پھر بھی جب ہم سفر کرتے ہیں ،اس دروازے سے گزرکر،ایک جگہ رک کر،پھرواپس آتے ہیں۔میرے لئے خوش  قسمتی کاباعث ہے کہ پوری گلی میں صرف ایک ہی گھرایساہےجس کےدروازے کا رنگ سبزہے۔میں نے یہ علامات ایک کاغذ پر مستقل طورپراپنے پاس رکھ رکھی تھیں۔یہ احتیاطیں مجھے اس لئے کرناپڑی تھیں کہ میں اپنے گھر کا پتہ بھول جایا کرتاتھا۔ڈرائیورنےمجھ سےپوچھاتھاکہ تم  جانتےہوکہ تم نےکہاں جاناہے؟

پچھلی دفعہ ڈرائیور،ایک لارڈ کی طرح سڑک کےکنارے کھڑاتھا۔جب میں نے اپنےخیالات کےمطابق دروازے سےباہرآکر اپنی منزل میں تبدیلی کی اور میراسوٹ کیس جو سیڑھیوں  کے اوپر،اوپر،اوپر،اوپر،اوپر،اوپر۔اوپر،اوپر،اوپر،اوپر،اوپر،اوپر۔۔۔اوراوپر یعنی تیرہ قدم اوپر(جوبدقسمتی والا عددتھا) فرسٹ فلور کی چھت پرقدموں کے ایک طرف  پڑاتھا، اٹھانے گیا۔ زینےکےقدم اونچےتھے۔میرےجسم میں دردیں ہونے لگی تھیں۔مجھ سے نیچے نہ اترا گیا  اورغسل خانے گھس گیا۔کیوی پالش  جومیں نےاپنے چہرےپرملی تھی دھونے کامن بنایا۔میں باتھ ٹب میں نہانے کےدوران ایک گھنٹے میں اس کالک کوصاف کرسکتاتھا۔نیم گرم پانی کی جھاگ   جسمانی درد وں کی  ٹکورکررہی تھی اور تمام جسم کے درد ختم ہوجانے والےتھے۔وہ دل جوزورزورسے دھڑک رہاتھا جوزینے کےدیگر چوچوبیس سیڑھیاں  چڑھنے سے ہواتھا، اب نارمل ہورہا تھا۔غسل کے بعدمیں ہال کے ایک کونےمیں چلاگیا جہاں میرابستر تھا تاکہ  میں سوجاؤں۔

میں  اپنی بستر والی جگہ پر پیٹ کے بل لیٹتاہوں ؛اوراپنی ٹانگ اٹھاتاہوں؛اوراورہرٹانگ پر تیس تک  گنتاہوں تاکہ ہلکی پھلکی  ورزش ہوجائے ۔اس کےبعدمیں پھونک ما رتاہوں اورمجھےیقین ہے کہ وہ میرےلئےبہترہے۔سکون فراہم کرتاہے-اور پھر میری ٹانگ بستر سےنیچے گرنے لگتی ہے،یہ یاددلانےلگتی ہےکہ ایک وقت ایسابھی تھاجب  میں بیک وقت چار مشکل اورتیزترین دوڑوں میں اول آیاکرتاتھا۔جہاں میرے موبائل پر تمام اہم نمبردرج تھے۔ مجھے پتہ تھا کہ ایمرجنسی میں کہاں فون کیا جائے-میری جیب میں جو تمام اہم لوگوں کے نمبر تھے، وہ یاردوست اب اس دنیامیں نہیں تھے۔

ٹام !اسے کیاہوا؟

وہ فوت ہوگیا۔

تم نے ڈک کوآخری بارکب دیکھا؟

وہ بھی دنیاچھوڑگیا۔ میں اپنی پیٹھ کوبوڑھاہوتے نہیں دیکھ سکتا۔

یہی زندگی ہے۔یہ وہ  زندگی ہےجسے چھوڑناہی ہوتاہے۔اس لئے وصیت چھوڑی جاتی ہے۔

اورکون گزرگیا؟اور کون اپنی ٹانگیں قبرمیں لٹکائے بیٹھاہے۔

میں ایک نمبرلگاتاہوں تووہ فائدہ مند نہ ہوتا۔

اگرچہ میری ہڈیاں نہ تو چٹختی ہیں اور نہ ہی چڑچڑکرتی ہیں، اس کےباوجود میں سمجھتاہوں کہ وقت بڑی تیزی سےگزر رہاہے،زینےکاہرقدم مجھے وقت کی یاددلارہاہے۔۔لیکن مجھے اپنازینہ پسندہے۔ یہ سیڑھیاں میری دنیاہے،میری جگہ ہے۔ایک بوڑھے آدمی کاملک ہے۔میں ان کی قدر کرتاہوں اور انہیں پسندکرتاہوں جو میرے بدن کو تندرست اورصحیح رکھے ہوئے ہیں ۔

لیکن میں اب بھی   یہاں موجودہوں،ابھی بھی میرافون بندنہیں ہوا۔وہ کام کررہا ہے ۔ میں اس پرلوگوں کوفون کرسکتااورانکی کال وصول کرسکتاہوں۔ اس کی خدمات ابھی بندنہیں ہوئیں،میں اس بات پرخوش ہوں حالانکہ میں اب دریاکےبہت نیچے ہوں ۔ اس کے آس پاس  دوردورتک بھی نہیں،جہاں کہیں میں بہت پہلےرہائش پذیرتھا۔اب میں موت  کےکنارے پرہوں اور پرانےخطوط ڈھونڈنےلگاہوں،پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں اور پرانی ڈائریاں حاصل کرنا چاہتاہوں  جن کی یادیں آج بھی مجھےتنگ کررہی ہیں تاکہ میں محسوس کرسکوں۔میں نے ان کےنام ترتیب وارحروف تہجی کی ترتیب سے لکھےہیں۔عورتوں اورمردوں کےنام جن کے ساتھ  میں نے بچپن گزارااور ان عورتوں اورمردوں کےنام جن کے ساتھ میں نے کھیل اور سماجی معاملات میں حصہ لیااورجوان ہوااوران عورتوں اورمردوں کےنام بھی جواس اجنبی ملک میں خاموش لوگوں کوجواپنی سامنےوالی کھڑکیاں نہیں کھولتےاورکہتےہیں ٌ ہمیں ڈسٹرب نہ کرو'۔وہ  میراپڑوسی 'مانینٌ تھا اوران کےبارے بھی میں نےجانناچاہاکہ  کون دنیاسے کب رخصت ہوا۔ ایش بدھ کوفوت ہوگئی۔میں ان کےنام ایک ایک کرکےترتیب واربولتا جاتا ہوں  ۔دریاکےنیچے،  ندی کےاوپرجہاں دوست  آیاکرتے تھے، کےماتھوں پرنشان لگائے جاتے تھے۔ ان  کےنام میرےذہن میں ترتیب وارخودبخود آتےگئے۔میں ان کےناموں پرکیوی پالش کواپنےانگوٹھےپرلگاکر کانٹے لگاتاہوں ۔گریس،سن،ہل،ڈالٹن گیولر، سپرنٹنڈنٹ بوائس،میوریل،جوڈی تھامس  ، ریلف ہنڈز۔مجھےوہ سب یادہیں جوآج میرےساتھ نہیں ۔ریلف ہنڈز آج  باربیڈوس کاسب سےبڑی دہشت کی علامت ہے،ڈی ہیرس،ایورٹن دویکس(اب وہ ایورٹن ویکس  تھا)،ریچی ہینز، سررچرڈ ہینز'،جیل شیپرڈ ،بروس لاپروئےجو ییل یونیورسٹی میں سابقہ ڈائرکٹرآف بلیک سٹڈیز تھا،ایڈورڈ کمببیچ، ایک بہترین آدھی میل کااتھلیٹ  میرےدورمیں سخت گرمیوں میں بھی  پورے صوبےمیں اول آیاکرتا تھا۔اورمیلکم ۔رائے جوکہ لائنوں پرآڑی ترچھی لائنیں  لگایاکرتاتھا،میک مرٹی(سپریم کورٹ             نارمن میلر، مارلی،جواپنی چھڑی  سے مجھے ڈرایاکرتاتھااورمجھےدھمکی دیاکرتاتھاکہ تم تمام اہم دوڑوں میں سبقت لےجاتے ہو اسلئے تمہیں نیست ونابودکردوں گا۔  تمام نقوش  میرے ذہن میں آتےگئے۔ فخر کےساتھ ان یادوں میں  ندامت بھی شامل تھی جونوجوانی کےساتھ دریا میں غرق   ہونے کوتیارتھی اور مجھے اپنی نشست کی پیشکش کررہی تھی ۔میری آوازوں میں بےآسرا معمر لوگوں کاگیت گونج رہاتھا کہ یہ وہ جگہ ہےجہاں بزرگ بستے ہیں ۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں جواپنے دور میں خوبصورت ہواکرتی تھیں۔یہ وہ پس منظر ہے جو میرے ذہن پرسوارتھا۔

 خام خیالی پرمبنی  پرا یسے شکوک  میری یادداشت میں خلل ڈال رہےہیں۔میری خواہش ہے کہ لوگ میرے بچاؤ  میں مددکریں۔ ذہن کے کسی گوشے میں ایک غلط فہمی اور شک کہ میں  بوڑھاشخص دکھائی نہیں دیتا  ۔عمدہ لباس میں ملبوس مغربی انڈین شخص  ہوں ۔میں   ڈھلا ہوا وہ شخص  ہوں جس کےبارے میں یہ کہاجاتاتھاکہ وہ اپنے دورمیں باربیڈوس میں  عزت و وقارکی علامت ہواکرتاتھا۔ لیکن یہاں ٹورونٹو میں  اب اس کی کوئی اہمیت نہ تھی۔وہ بے قدرہوگیاتھا۔اب اس کےچہرےپرکبھی مسکراہٹ نہیں آتی ، کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا۔دل میں مجھے گندی مخلوق کےلقب سے نوازاجانےلگاہےکیونکہ چلتےوقت میں ڈولتاہوں، لڑکھڑاتا  ہوں،مجھ پررعشہ طاری ہے۔ایک قدم چلتاہوں تودوسراقدم اٹھانےمیں دشواری ہوتی ہے، نقاہت طاری ہوجاتی ہےاورایک طرف پھسل جاتاہوں۔ جب میں لفٹ پرسوار ہوتاہوں یا جب میں اپنے گھومنےوالے دروازے سے گزرتاہوں تو میری چلنےکی رفتاراتنی آہستہ ہوتی ہے کہ میں گھومتےہوئے دروازے   سے  گزر نہیں پاتااور اس میں پھنس جاتاہوں  ۔ وہ شخص  جومیرے آگےجا رہا ہوتا ہے وہ بھی تکلیف میں آجاتاہےجو اسے اس  درماندہ درگاہ  شخص  نے پہنچائی ہے۔میں ورزش کرناچاہتاہوں ۔ جم جاتاہوں اور اکڑجاتاہوں اورایسالگتا ہے جیسےکہ میں مرگیاہوں۔۔۔ میں   گھومنے والے دروازے  کادوبارہ گھومنےکاانتظار کرتا ہوں تاکہ اس بار پھنسے بغیر داخل ہوسکوں یانکل سکوں حالانکہ یہ میری مرضی کے خلاف ہوتاہےلیکن مجھے ایساکرنا پڑتا ہےبعض اوقات تومیں دروازے کےتین چکروںکاانتظار کرتاہوں!جب میں شرم اور خود پرالزام تراشی سےبچنے کےلئے ساکت ہوجاتاہوں اور کہیں آناجاناہی ملتوی کردیتاہوں۔ 

   جب میں دورسے کسی کی فقرہ بازی سنتاہوں ،لہروں کی موج ،ساحل کےکنارے نمک کی بدبو،لہرکاواپس چلی جانااورمیری  سانسیں جب میرے ہونٹوں سےچھوکر سرگوشی کرتی ہیں توایسالگتاہےکہ وہ مجھ سے پیارکررہی ہیں ،اس میں کسی غیرمتوقع بوسےکی آگ شامل ہوتی ہے۔جو مجھےباورکراتاہےکہ میں ابھی زندہ ہوں اوریہ کہ  مجھےزندگی سےپیارہے۔ میں اس بات سےبےحس ہوں کہ میرے اردگرد کیاہورہاہے۔


کبھی کبھارمیرے دل میں یہ خیال بھی آتاہےکہ میری موت کیسی ہونی چاہیئے۔میں چاہتاہوں کہ نیند میں موت آئے تونعمت ہوگی کیونکہ اس حالت  میں  سست رفتاری سے   بغیرکسی تکلیف  کے روح سکون سے دنیا سے کوچ کرجاتی ہے۔میراخداجس نے میری جان  قبض کرنی ہے سے دعاکرتا ہوں کہ میری جان  آسانی سے نکلے۔اس دوران اس میں ایسالگتاہےکہ مجھے دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے،ایک بچے کی طرح کہ وہ تمام چیزیں جسے میں ہمیشہ نومبر میں بلورسٹریٹ پر ہفتے کو دوپہرکوتھکےماندے ذہن  سے یہ دیکھنے کی کوشش کیا کرتاتھاکہ کون  اس وقت  میرے راستے پر سیدھاچلتاہے اورکون ڈولتا ہوا یالڑکھڑاتاہوا۔ میں  کوئی  ایسا شخص منتخب کرتاہوں   جواس وقت   ہجوم میں  اپنی دولاٹھیوں سے اپنی چال کنٹرول کرکے چل رہاہوتاہےیا بطخ کی طرح بمشکل  چلتاہے۔اپنی چھڑیوں  کی مدد سے لڑکھڑا کر چلتا ہے۔  ایک چھڑی کوبائیں ہاتھ سے اس طرح  دیوانہ وار اٹھاتا ہے کہ دوسرے اس کی کاوشوں کوسراہیں اور اس پرترس کھائیں۔ایسے شخص  میں اس وقت تذبذب والی تسکین  ہوتی ہے۔ اس میں  اطمینان کی کیفیت پیداہوتی ہے۔ میں نام بھول جاتا ہوں۔انہیں  یاد کرنے میں دشواری ہوتی ہے ۔

ایک دن مجھے ایسے  دوست کاسامناکرناپڑتاہےجوجوانی میں میراساتھی ہواکرتا تھالیکن اس وقت بڑی مشکل سے چل رہاہے۔اسکےبائیں ہاتھ والی چھڑی  ہرباراگلاقدم بڑھانے پراٹھتی ہے۔میں نہیں جان پاتاکہ کیاوہ جوش وجذبہ کےتحت  ایسا کررہاہے یا چیلنج سمجھ کر۔ میں اسے پہچان جاتاہوں اور اس کا نام بھی یادآجاتاہے ۔اس کانام ڈیون پورٹ ہےجوٹرینی ڈیڈ سے آکر کینیڈا کے ونڈسر  شہرمیں آبادہوگیاتھا۔ڈیو!اوہ خدایا۔ 1955 میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں ہم اکٹھے پڑھتے تھے۔اس کےدائیں ہاتھ کی چھڑی  قدم کےساتھ اٹھتی ہے تو اس کے جوش میں اضافہ ہوجاتاہے۔میں اس وقت یہ ظاہرکرتاہوں  کہ میں نےاسے پہچانانہیں۔وہ  سدابہار گلوکارالجولسن کی نقل کیاکرتاتھا۔وہ میرے رستے میں آ کررک جاتاہے۔اس نے میرارستہ بلاک کردیاہے۔میں اس کےچہرےپرایک پرانےدوست کی خوشی  دیکھتا ہوں لیکن میں  رستے سے ہٹ جاتاہوں ۔میرادل اس وقت زورزورسےدھڑک رہاہوتا ہے۔جب اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اسے نہیں پہچانا تو  اس کامنہ کھلاکاکھلارہ جاتاہے۔میں اپنادایاں ہاتھ اٹھاتاہوں جس طرح جوانی میں  وہ مساوات کے حقوق  کے جلوسوں میں بینراٹھایاکرتاتھااور اس سے پوچھتا ہوں  کہ اس وقت ٹائم  کیا ہواہے؟ یہ سن کراس  کامنہ مزیدکھل جاتاہے۔

میں ایک ٹیکسی کواشارہ کرتاہوں ۔وہ رک  جاتی ہے۔ڈرائیورپوچھتاہے ۔بزرگ تم نےکہاں جاناہے؟اس کالب ولہجہ غیرملکیوں والاہے۔وہ  بھی ایک سیاہ فام تھاجویاتوصومالیہ سے آیاتھایانا ئیجیریا  یا نائیجر، یا زمبابوے یاکس اورافریقی ملک سے جہاں سفید فام آبادی انہیں غلام بناکررکھتی تھی  اورپھر امریکہ یاویسٹ انڈیزجاکربیچتے تھے۔

مجھے پھر خیال آیاکہ اس نے مجھے ضعیف آدمی کیوں کہا۔اس پر میں اس سے غصے کااظہارکیاکہ اس نے مجھے بدتمیزی سے کیوں بلایا۔جب میں اپنی زندگی کےآخری دن گن رہاہوں ۔مجھےان لڑکیوں اور خواتین پر بھی طیش آتاہے جومجھ پررحم کھاکربسوں اور سب وے میں اپنی نشست مجھے دےدیتی اور لمبی لمبی قطاروں میں لگنےسے بچالیتی ہیں ۔اس جیسے دوسرے ہجوم والے مقامات پراورایسے دوست جوکہ غیرمتوقع طورپر ملتے ہیں، جوفوری اپنے اپنے گوشت میں،جوانحطاط پذیرہوتاہےاپنی دوچھڑیوں کےساتھ جن کےسہارے وہ چل رہے ہوتے 

ہیں،مجھے یہ یاددلاتے ہیں کہ بالآخر  مرنا کتناناگزیرہوگیاہے ۔ میں قریب المرگ ہوں۔میں گنگناتاہوں۔

سوانی دریاکےکافی نیچے

دوربہت دور

میرادل وہاں پراٹکاہواہے

یہ وہ جگہ ہےجہاں میرےبوڑھے  والدین رہتےہیں

میں سوانی ہوں۔میں اس ڈرائیورکوکہتاہوں کہ مجھے سوانی لے چلے۔میں آخری سانس وہاں اپنےوالدین کے پاس لیناچاہتاہوں ۔اپنی ماں کی گودمیں  سررکھ کر سوناچاہتاہوں ۔کسی نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایاکہ دائمی سکون وہیں ملےگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Popular posts from this blog