کیوباغات Kew Gardens By Virginia Woolf (1882-1941)

 








کیوباغات


Kew Gardens

By

Virginia Woolf (1882-1941)

UK

پیش کار:  غلام محی الدین (کینیڈا)

 

برطانیہ کے کیو باغات دنیا کی عظیم ترین پھلواریو ں میں سے ایک ہے  جو  دریائے تھیمز پر جنوبی مغربی لندن میں واقع ہیں۔  یونیسکو کا نباتات  اور پھپھوندری کی تحقیق (یونیسکو سائنٹیفک  انسٹیٹیوٹ فار پلانٹ اینڈ ریسرچ) کا مرکزی ادارہ ہے۔  اسے 1759میں  لارڈ کیپل آف ٹیوکیسبری  نے قائم کیا اور  اور مسز آگسٹا ڈواگر پرنسس آف ویلز  نے  اس کو وسعت دی۔  اسے کیو گارڈنز کا نام  1841میں دیا گیا اور  عالمی ورثے کا مرکز قرار دیا گیا۔ یہ میلوں میں پھیلا ہوا ہے۔  فن تعمیرات بے مثال ہے۔ مخصوص مقامات پر مختلف سہولیات  کے ذیلی ادارے بنائے گئے ہیں  اور منظم طریقے سے  انہیں چلایا جا رہا ہے۔ پگڈنڈیاں، کھمبے، درخت، روشنیاں، کیاریاں، نتظار گاہیں، ٹریک، موڑ، قطاریں،  سیدھی، ترچھی، متوازی  وغیرہ  سہولت کی مناسبت سے  سلیقے سے تعمیر کئے گئے ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک دیتے ہیں۔  عوام الناس  کے لئے کھلا ہے اور کبھی ختم نہ ہونے والی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی ہیں۔ یہاں آکر ایسا لگتا ہے جیسے جنت میں آگئے ہوں۔  رنگ برنگے پھول قطار اندر قطار کیاریوں میں سجے ہر موسم میں بہار کا سماں پیدا کرتے ہیں۔سبز مخملی گھاس کی دبیز تہیں، پارک، خوبصورتی سے خمدار پگڈنڈیاں،  کھجوروں اور دیودار کے مستی میں جھومتے درخت،  روشنیوں سے سجاوٹ،   سیاحوں اور دیگر شہریوں کی تفریح کے لئے ہو قسم کی سہولیات  میسر ہیں۔  لندن کا موسم محبوب کے موڈ کی طرح کا ہوتا ہے۔  پل پل بدلتا رہتا ہے۔  بادل، دھند، کہر، سموگ، بارش، برفباری،   حبس  اور سال میں کئی بار سورج کا بھی دیدار نصیب ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کے موسم میں پکنک کی اجازت ہے۔ برفباری، بارش، سردی گرمی سے بچنے  کے لئے شیلٹر ہیں۔ باربی کیو  اور   مائکرو ویو کی سہو لیات موجود ہیں۔   اعلیٰ  ریستوران ہیں۔  جو بہت مہنگے ہیں۔  نجی پارٹیوں کی اجازت ہے۔  وکٹوریہ گیٹ تک گاڑیاں تک جا سکتی ہیں۔  اس کے آگے رولر کوسٹر،  سکیٹ بورڈ، سائیکل، ٹرام   کا ٹریک ہے جس میں ٹرینیں پورے گلشن  کا چکر لگاتی رہتی ہیں  اورچالیس منٹ میں ایک راؤنڈ مکمل کر لیتی ہیں۔  رستے میں اترنے چڑھنے کی سہولت موجود ہے۔  سترہ سال سے کم عمر لوگوں کا داخلہ فری ہے۔  وکٹوریا گیٹ سے کیو گارڈن تک پندرہ منٹ میں پہنچا جا سکتا ہے۔   عرف عام میں    ُ سکیو لندن  ُ   کے نام سے پکارا جاتاہے۔   اس میں سارا سال دن رات  روشنیوں کی  بہار رہتی ہے جو اس طرح کی نہیں ہوتی جو  کرسمس کے دوران ہوتی ہے۔   زیادہ ترلوگ بھولی بسری یادیں  تازہ کرنے کے،  حسین لمحات گزارنے نئی یادیں قائم کرنے ، ورزش،  کھیل کود  اور محنت مزدوری کے لئے آتے ہیں۔ یہاں آکر وقت کا احساس  مٹ جاتا ہے۔ زندگی کا حظ اٹھایا جاتا  ہے۔   اپنی ذات کو لازوال سمجھا جاتا ہے۔  تازہ ہوا  اور سر سبز ماحول سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔  اپنی پریشانی کو   اس دریا کی  طرح تصور کیا جاتا ہے جو سدا بہار بہتا رہتا ہے۔  جس کی ایک لہر گزر جائے  تووہ پلٹ کر نہیں آتی،  اسی طرح حسین مناظر میں تناؤ کی کیفیت کم ہو جاتی ہے۔  علاوہ ازیں  انسان، چرند پرند  اور حشرات الارض  ایسامحسوس کرتے ہیں کہ دنیا کے چمن میں ان کی ہستی پائیدار ہے۔

  ورجینیا  ولف بھی اس سحر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے کیو باغات  کی سیر کے دوران لوگوں کے جذبات کا جائزہ لیا  اور شاعرانہ انداز میں  منظر کشی کی۔

 ؓبیضوی شکل کی پھولوں کی کیاریاں لاتعداد خوبصورت پھولوں سے لدی پھدی تھیں۔   ہر پودے کے  تنے  کے بالائی حصے پر

 نوکدار چھڑی سی باہر نکلی ہوئی تھی جو کہ سنہری رنگ کی مٹی سے اٹی ہوئی تھی اور شاخوں سے  جڑ ی ہوئی تھی۔   تنوں پر نازک

 نازک شاخیں پھوٹ رہی تھیں جن کی رنگ برنگی پنکھڑیاں  دل یا  زبان کی شکل کی تھیں جو تقریباً آدھی مڑی ہوئی تھیں۔  ان

 کے سرخ، نیلے، پیلے، سرمئی سیاہ رنگوں  کے کونے لہرا رہے تھے۔  ان  کے پتے بارش کے پانی سے گیلے تھے۔  بارش کے قطرے

 پڑتے اور گر جاتے۔  ان کا سرا حلق سے جڑا ہوا تھا۔  ان شاخوں پرپنکھڑیاں اتنی بھاری ضرور تھیں کہ اس وقت چلتی ہوا  انہیں 

حرکت دینے میں کامیاب ہو جاتی تواس وقت کیاریوں میں ارضی خوبصورتی  کے لئے لگائی گئی روشنیاں جو کہ زمین سے ایک

 انچ کے قریب اوپر تھیں،  زمین پر ہموار، سرمئی سیاہ رنگ کے سنگریزوں پریا اس گھونگھے میں موجود کیڑے جس کی دائرے کی

 شکل والی وریدوں  کا رنگ بھورا تھا ، پر پڑتی  تو اسکے برابر  والے  اس  پتے پر پڑتی  جس پر بارش کا ایک قطرہ جما ہوا تھا۔جو ایک پتے

 پر جما ہوا تھا ۔  ارضی سجاوٹ  کی  رنگ برنگی روشنیاں اس پر پڑتیں تو دل موہ لیتیں۔  تماشائی امید کر رہے تھے کہ وہ  دوسرے

 پتوں  پر پڑے پانی کی طرح گر جائے گا  لیکن ایسا نہ ہوا  اور وہ سرمئی رنگ کے پتے پر ٹکا رہا ۔

گھونگھے میں موجود کیڑا  اس سوکھے ہوئے پتے  کی سطح  پر پھول کے گودے والے حصے پر حرکت کرنے لگا  اور دل کی شکل والے پتوں  اور گیلی مٹی میں پائی جانے والی خالی جگہوں  پر بکھرے ہوئے پتوں میں

چھپ گیا اور نظر آنا بند ہو گیا۔  ہوا کا جھونکا آیا  تو  زمین پر گرے ہوئے  سرخ، نیلے، پیلے، بھورے، سرمئی، عنابی رنگ کے پتے اڑنے لگے  اور وہ کیڑا  آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگا۔   اس ننھی منی مخلوق جس کی لمبائی تقریباً ایک انچ تھی،  ایک دھبے کی طرح  دکھائی دے رہا تھا۔  اس کی رنگت میں بھورے رنگ کے ساتھ بہت سے رنگ ملے ہوئے تھے۔  سرمئی،  کالے، سنگریزہ   اور دیگر رنگوں کا اختلاط کچھ ایسا تھا کہ حقیقی رنگوں کی شناخت مشکل تھی۔  کیڑے کی جلد باہر سے چٹان کی طرح سخت،  پیچیدہ  بھول بھلیوں کی طرح مڑی ہوئی  اور حجم کی مناسبت سے وزنی تھی۔  ایک کیڑا   دوسری حشرات الارض کی طرح جو اس خطے میں موجود تھے،  کی طرح اس ماحول میں اپنی زندگی  گزار رہا تھا۔  خوراک کے حصول یا اپنے کسی  اور مقصد کے  لئے خول کے اندر سے زور لگا کر ادھر ادھر حرکت کر رہا تھا۔  وہ آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔  ایک لمحے کے لئے رکا،   پھر حرکت کرتے ہوئے  اپنے رنگوں کی بہار دکھاتے ہوئے وسیع و عریض سبزے پر دل کی شکلوں والے پتوں کے قریب چلا گیا۔  ہوا چلی تو اس کے بدن میں تھر تھراہٹ پیدا ہوئی  تو منظر واضح ہو گیا۔  سفید اور نیلی تتلیاں بے قاعدہ  انداز  میں اٹھکیلیاں کرتی ایک پھول سے دوسرے پھول پر جاکر بیٹھ رہی تھیں  اور ان کا رس چوس کر ادائیں  دکھا کر تماشائیوں کو لبھا رہی تھیں۔ 

 ایک کیاری کے پاس ایک جوڑا جا رہا تھا۔  میاں تقریباً چھ انچ آگے تھا جس کی وجہ شائد یہ تھی کہ وہ ماضی میں گم تھا۔  اس کی بیوی  بے دلی سے  اس کے پیچھے چل رہی تھی۔  ان کے دو بچے  بے فکری سے کھیلتے کودتے پیچھے آ رہے تھے۔   وہ کبھی کبھار اچٹتی نگاہ  ڈال کر یقین کر لیتی کہ بچے  ان سے زیادہ دور تو نہیں تھے۔ چلتے چلتے  میاں نے سکوت توڑا  اور گویا ہوا۔

 آج سے پندرہ سال  پہلے میں یہاں للی کے ساتھ آیا تھا۔   بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے  اس نے کہا کہ جھیل کے کنارے شائد ہم اس جگہ بیٹھے تھے۔  اسی  طرح کاموسم تھا۔   چلچلاتی دھوپ میں  موسم کی پرواہ کئے  بغیر لطف اندوز ہو رہے تھے۔   اس وقت  ایک موٹی سی کابلی مکھی بھنبھناتے ہوئے ادھر ادھر اڑ رہی تھی۔  وہ کہیں نہیں  بیٹھ رہی تھی۔   اس کے شور سے ہمیں کوئی غرض نہ تھی۔   اس روز  اگر  میری مراد بر آتی تو آج  یہاں تمہارے اور بچوں کے ساتھ گھوم   نہ  رہا ہوتا۔۔۔  وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آج ہم پورے موڈکے ساتھ موجود ہیں ِ، کل ہمارا نام ونشان بھی نہیں ہو گا اور دنیا اسی طرح  بلکہ اس سے بھی زیادہ  جوش سے  موجود ہوگی۔۔۔یکدم  اپنی بیوی سے مخاطب ہوا۔

کیا  اس نے کبھی اپنے ماضی کو یاد کیا؟  

 کیسا سوال ہے اور  یہ کیوں پوچھا  جا رہا  ہے ؟  بیوی کی سمجھ میں نہ آیا۔  ایسی ایمرجنسی کیا  پیش آگئی جو تم نے اس وقت یہ بات کی؟  ٰٓص

کیونکہ یہاں آکر  مجھے  ماضی کا ایک اہم واقعہ یاد آگیا تھا  اس لئے تمہیں حصہ دار بنانا چاہتا تھا۔

ایسا کیا واقعہ ہے، بتاؤ۔

 دراصل مجھے للی یاد آرہی تھی۔ یہ و ہ حسینہ تھی جس پر میں اس وقت ہزار جان سے فدا تھا۔  اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کیا

 تمہیں میرا اس کے بارے میں بات کرنا اچھا نہیں لگا؟  یہ وہ دلبربا حسینہ تھی  جس  کے ساتھ میں  زندگی کا ہر لمحہ گزارنا چاہتا  تھا۔ 

اگر سناؤں تو  تمہیں برا تو نہیں لگے گا؟

 برا کیوں لگے گا؟   جب  اس طرح کے رومانوی ماحول میں ہم محبت میں جکڑے لوگوں کو درختوں کے تنوں پر اپنا  نام کھرچتے،  منتوں کے دھاگے باندھتے ، سبزے پر راز ونیاز کرتے  دیکھتے ہیں تو اس وقت بیتی یادیں آنا  کوئی بڑی بات نہیں۔ کھل کے بتاؤ،  من  پر کیا بیت رہی ہے؟

 للی اور میں اسی جگہ پہ کہیں جھیل کے کنارے  انہی  دنوں تپتی دھوپ میں بیٹھے تھے۔  میں للی کے سینڈلوں  کے نقرئی بکسوئے کو

 جو اس کی ایڑی پر جچ رہے تھے،   دیکھنے میں محو تھا۔  گفتگو کے  دوران نظریں نیچے کئے اس کی سینڈل  کے چمکتے ہوئے  بکلس  کے

 اس حصے کوجہاں اس  نے  للی  کی  ایڑی کو جکڑلیا تھا،  گھور رہاتھا۔  میرا  مسئلہ بہت نازک اور جذباتی نوعیت کا تھا۔ مجھے اس کے

 چہرے پر دیکھنے کی جرات نہ ہو رہی تھی۔  اس کے پاؤں کی جنبش سے  پتہ چل رہا تھا کہ وہ کیا جواب دے گی۔   محبت،  تمنا 

اورخواہش اگر اس روز بار آور ہو جاتی تو آج  دو بچوں کے ساتھ ہم یہاں نہ ٹہل رہے ہوتے۔بات  خواہش سے آگے نہ بڑھ

 سکی۔  ہنیً!  تم بھی اپنے شباب کی کوئی کھٹی میٹھی بات سناؤ جسے ذہن میں آتے ہی دل مسوس کر  رہ جاتا ہو؟

 ہم چھ  البیلی دوشیزائیں جھیل کے کنارے اپنے اپنے کینوس سنبھالے فطرت کی عکاسی کر رہی تھیں۔   اپنے اپنے پراجیکٹ میں

 کھوئی ہوئی تھیں کہ اچانک میری گردن کے پیچھے ایک بوسے نے مجھے لرزا کے رکھ دیا۔  اس کے بعد میں اپنا کام نہ کر سکی اور

 تمام وقت باؤلی رہی۔  وہ  میرے لئے بہت قیمتی تھا۔  آج بھی اس بوسے کی چاشنی محسوس کرتی ہوں۔ یہ بوسہ  ماں کا تھا جس کی

 ناک پر مسہ تھا۔ جو اس دن مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔  اب وہ اس دنیا میں نہیں لیکن وہ کم و بیش ہمیشہ مجھے یاد آتی ہے۔۔  میری 

زندگی کے تمام بوسوں سے پیارا  ہے۔  اس کی مٹھاس آج بھی محسوس کرتی ہوں۔  بڑی مہارت اور چالاکی سے افیرز کو گول ک

ر گئی۔  اپنی ماں کو بیچ میں لا کے  بات ٹال گئی۔   پھر پیچھے مڑی اور دیکھا کہ کیا بچے ان کے پیچھے آرہے تھے۔  اس نے انہیں تیز چلنے

 کی ہدائت دی  اور اس قسم کی باتیں کرتے پھولوں کی کیاریوں  سے آگے چلے گئے اور درختوں کے جھنڈمیں غائب ہو گئے جہاں

 سورج کی روپہلی کرنیں پتوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں۔

 بیضوی کیاریوں میں وہ  کیڑا   اب اکھڑی ہوئی نرم مٹی کے ٹکڑوں پر بہادری سے اپنا بھاری بھرکم بوجھ گھسیٹتا ہوا چیونٹی کی رفتار

 سے آگے بڑھنے لگا۔  ایسا لگتا تھا کہ اس کے سامنے کوئی واضح مقصد تھا۔   وہ ایکلمحے کے رکا پھر نہ جانے اسے کیا ہوا کہ وہ مڑا اور

 تیزی سے واپس جانے لگا۔  وہ آگے جا کر رکا کیونکہ وہاں سوکھا پتہ مڑا ہوا تھا اس نے کمان کی  شکل بنائی ہوئی تھی۔ وہ  سوچ رہاتھا

 کہ اس پل صراط کوکیسے پار کرے۔  وہ جائزہ لے رہا تھا کہ اگروہ  محراب کے اوپر سے جاتا  تو کیا وہ  سوکھا پتہ  اس کا بھاری بوجھ

 برداشت کر پاتا۔  جب اسے محسوس ہوا کہ  اوپر سے اسے عبور کرنا  غیر محفوظ ہے تو اس نے سوکھے پتے کے نیچے سے بھربھری

 زمین سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔  وہ تیزی سے رینگتے ہوئے اگلی ٹہنی تک پہنچا تو اسے وہاں بھی قرار نہ آیا  اور مزید پیش قدمی

 شروع کر دی۔اس کا یہ سفر جاری رہا۔

اگلی کیاری میں ایک ضعیف شخص چھڑی کا سہارا لے کر ایک جوان کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے باتیں کر رہاتھا اور جوان نظریں زمین پر گاڑے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ جب وہ بات ختم کرتا تو جوان منہ اٹھا کر مختصر سی بات کرتا اور پھر نظریں جھکا لیتا۔ کبھی لب کھولتا اور کبھی بند کرتا۔   بزرگ کی چال بے ڈھنگی تھی۔   وہ اپنے ہاتھ کو جھٹکا دے کر اپنے سر کے پیچھے لے جاتا۔  اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے کوئی تھکا ماندہ شخص بیزار ہو۔  ایسا لگتا تھا کہ وہ بے تکی باتیں کر رہا تھا۔  اس کی آواز سنائی دی تو وہ دعویٰ کر رہا تھا کہ  وہ روحوں کو  بلانے کی قدرت رکھتا تھا۔  اس میں بیو اؤں کی ان کے مرحوم خاوندوں کی روحوں سے ملوانے کی شکتی تھی۔  وہ جنت دوزخ  جیسے موضوعات پر بحث کر رہا تھا اور روحیں بلانے کی ترکیب بتا رہا تھا۔  وہ کہہ رہا تھا کہ میرے پاس چھوٹا سا ربر ہے جو بجلی کی ننگی تار کو غیر موصل کرتاہے۔  اس کو میں اپنی ایجاد کردہ مشین منسلک کردیتا ہوں اسے مخصوص فریکؤینسی پر فکس کر دیتا ہوں۔  میری ہدائت کے مطابق مخصوص کلام سیاہ لبا س میں ملبوس میں پڑھتی ہے اور اسے بلاتی ہے تو روح فون کے ریسیور سے اس کے ساتھ باتیں کرنے لگتی ہے۔  وہ اپنی  ایجاد کا ذکر کر رہا تھا کہ اسے ایک درخت کے سائے تلے ایک خاتون نظر آئی جس نے سیاہ لباس پہناتھا لیکن سرسبز ماحول کی وجہ سے جامنی لگ رہا تھا۔  بزرگ نے اپنا ہیٹ اتار اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے تعظیم کی اور اس کی سمت  مڑنا چاہا  کیونکہ اس کے لباس کی مماثلت سے وہ اسے بیوہ سمجھ کر اسے اس کے مرحوم شوہر سے  ملوانا  چاہتا تھا تو جوان نے اس کی آستین پکڑی اور اسکی چھڑی کا رخ دوسری طرف کر دیا تا کہ اس کی توجہ اس خاتون سے ہٹ جائے۔ اس پر بزرگ سٹپٹایا۔ کچھ دیر  مذبذب کا شکا ر رہا پھر اپنا کان ایک طرف جھکایا  اور ایسا لگا کہ وہ کسی آواز کو سن رہا تھا۔  اس  نے اس وقت کسی خیالی ہستی کو کچھ کہا۔  اس نے ایسا ظاہر کیا کہ وہ کسی پرانے دوست سے ہم کلام تھا۔  اس نے اس سے باتیں شروع کیں جو یوروگووا  کے جنگلوں سے متعلق تھیں جہاں وہ  مدتوں  پہلے گیا تھا۔  گوریوں اور ربر کے درختوں کے مومی پتوں کو محسوس کر رہے تھے۔  وہ ساحل سمندر، بنت البحر اور جل پریوں کی جو سمندر میں ڈوب گئی تھیں،کے قصے دہرا  رہے تھے۔  جوان نے اسے ذرا سا ٹھوکا لگایا تو وہ  اپنی محویت سے باہرنکلا۔  

 ان سے  پیچھے کچھ فاصلے پر دو  بوڑھی خواتین جو ادنیٰ متوسط طبقے سے معلوم ہوتی تھیں، اس بزرگ کی باتوں کے دوران اسکے

 اشاروں کو  حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔  ان کاحافظہ بھی کمزورتھا جو الزائمر کی وجہ سے تھا  یا کسی پریشانی کی وجہ سے، علم نہ تھا۔  

انہوں نے اپنے آگے چلنے والے بوڑھے کو دیکھا  اور عجیب،  شرمیلی  اور سرگوشی میں کوڈ میں باتیں کرنے لگیں۔  نیل، برٹ،

 کریس، فل ، پا  وغیرہ ۔۔۔ وہ کہتا ہے، میں کہتی ہوں، وہ کہتی ہے،  میرا برٹ، ہنری بل، پردادا۔۔۔ بوڑھا آدمی،  چینی،  آٹا، 

دھوئیں  سے سکھائی گئی مچھلی۔۔۔وغیرہ جن کا کوئی سرپیر نہیں تھا، کر رہی تھیں۔   انہوں نے باغ میں لگے سٹینڈ پر جلتے قمقموں

 کی طرف دیکھا  اور اس کی روشنی کی تا ب نہ لاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرکے پھر کھول لیں اور سٹینڈ کو دیکھنے لگیں۔ پھر وہ

 رک گئیں اور بیضوی شکل کی پھول کی کیاریوں کی طرف  چلی گئیں۔

 ادھر کیڑا  اپنی منزل  پانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا۔  ذرا سا آگے ہوا تو چڑچڑکی آواز آئی۔  وہ  مزید آگے بڑھنے والا ہی تھا کہ

 اس نے  ایک جوڑے کے قدموں کی چاپ سنائی دی جو اس گھاس کی دبیز تہہ کی طرف آرہے تھے۔ وہ سمارٹ تھا۔ اس

 نے سوچا کہ ان کے پاؤں میں کہیں کچلا نہ جائے  اس لئے  وہ ایک طرف دبک گیا۔اس نے دیکھا کہ وہ ایک جوان لڑکا اور لڑکی

 تھی  جو بھرپور جوبن پر تھے۔ رنگ برنگے گلاب، مخملی گھاس، سلیقے سے کٹی ہوئی جھاڑیاں،  ربر کے پودے اور اٹھکیلیاں کرتی

 تتلیاں،  پھولوں پر اٹھتی بیٹھتی ایک سماں باندھ رہی تھیں اور وہ اس ماحول میں مست تھے۔

 شکر ہے آج جمعہ نہیں ہے۔اس دن تو یہاں آگ لگی ہوتی ہے،  لڑکے نے کہا۔

تم کیا کہنا چاہتے ہو؟

میرا مطلب ہے کہ شئے کی قیمتیں آسماں کو چھو رہی ہوتی ہیں۔  نہ تواشیاء کی کوالٹی عمدہ ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی سروس۔

   وہ دونوں پھولوں کی کیاریوں کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔  انہوں نے اپنے سروں میں چھاتے تانے ہوئے تھے۔  وہ دونوں

 کافی دیر چپ رہے۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے  لڑکے نے اپنا ہاتھ لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیا اویر اسے مخمور نگاہوں

 سے اسے دیکھنے لگا تولڑکی  شرم سے سرخ  ہو رہی تھی۔  نہ بولتے ہوئے بھی ان کے جسم ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھ رہے

 تھے۔ وہ دونوں ناتجربہ کار لگ رہے تھے۔  انہوں نے اپنے چھاتے کی نوک مخملی فرش پر رکھی تو وہ  دھنس گئی۔  اسی وقت کہر

 چھوٹی تو  ماحول اور رومانی ہو گیا۔ پاس کیفے میں ویٹریسیں اجلے اجلے  لباس پہنے پھدکتی پھر تی تھیں۔ وہ ایک نظر لڑکے کو اور

 دوسری لڑکی پر ڈال کر مسکراتی تھیں۔ جوان نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا  اور ریزگاری گنی کہ اس کے پاس اتنی رقم تھی کہ اپنی

 گرل فرینڈ کو چائے پلا سکے۔ یہ حقیقت تھی کہ اس نے چائے پلانی تھی اور اس کی پوری رقم ختم ہو جانی تھی۔ اس نے اس پر

 مزید نہ سوچا اور آخری پونجی داؤ پر لگا نے کا مصمم ارادہ کر لیا۔  ارد گرد جنگلی پھول بہار دکھا رہے تھے۔  وہ ٹہلتے ہوئے خراماں

 خراماں پگڈنڈی عبور کرتے ہوئے کیفے  کے لان کی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ انہوں نے دیکھا ایک کے بعد ایک جوڑا باغ میں داخل

 ہوتا جا رہا تھا۔   حبس اور گرمی نے براحال کر کھا تھا۔  اس وقت قرمزی رنگ کا خوبصورت پرندہ اڑتا ہوا آیا اور نزدیکی شاخ پر

 آبیٹھا۔  یہ چینی پگوڈا تھا۔ وہ اسے دیکھنے لگے۔  وہ بیٹھ گئے۔ ایک  کے بعد ایک جوڑا کسی ترتیب کے بغیر باغ میں آتا جا رہا تھا۔ 

دھند کی دبیز تہہ میں پھولوں کی کیاریوں سے گزرتے  تو کبھی کبھی دھند بھاپ کی شکل اختیار کرتی تواپنے ساتھ پھولوں کے

 رنگ  اور مہک بھی ساتھ شامل ہو جاتی جو ٖ فضا میں خوشبو بکھیرتی اڑ جاتی۔   ماحول ابرآلودتھا۔  سبزی مائل نیلگوں  کے رنگ  لمحے

 بھر کے لئے اس جگہ کو رنگوں  میں  تبدیل کرتیں پھر کوئی نشان چھوڑے ہوا میں تحلیل ہو جاتیں۔  حبس کے مارے سانس

 گھٹ رہا تھا۔  گرمی جسم کو چیرتی ہوئی نکل جاتی تھی۔  جس نے اعضاء کو مضمحل کر دیا تھا۔  حرکات میں کمی پیدا ہو گئی تھی۔

 اورایک سے دوسری حرکت میں طویل وقفے  آنے لگے تھے۔  سفید تتلیاں باغ میں اڑتی پھر تی ایسا تاثر دے رہی تھیں کہ جیسے 

وہاں برف باری ہو رہی ہو اور خوبصورت گالے فضا میں تیر رہے ہوں۔  ان میں سے کچھ لمبے لمبے پھولوں پر بیٹھتیں   اور رس

 چوس کر اڑجاتیں۔  ارد گرد خوبصورت درخت ایسا تاثر پیش کر رہے تھے کہ ہر طرف سبز چھتریاں کھڑی ہوں۔ کبھی کبھار

 دھند اور بادلوں میں سورج بھی جھلک دکھا جاتا تھا ۔ ہوائی جہاز ڈرون جب آسمان کو چیرتے ہوئے نکل جاتے تو  ایسی دہشت

 پیدا کر دیتے کہ روح تک کانپ جاتی تھی۔  ادھر افق پر زرد، سیاہ، عنابی، گلابی اور سفید رنگ جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔  زمین پر

 مخملی گھاس بچھی تھی۔آدمی، خواتین اور چاروں طرف دیکھے جا سکتے تھے۔  ٹوٹ ٹوٹ کر آتی ہوئی آوازیں سکوت توڑ رہی

 تھیں۔  بچوں کی آوازیں ان سے مختلف تھیں۔  ان میں تجسس اور تازگی تھی۔  بسیں اور باغ کی ٹرینیں  کے پہئے گھوم رہے تھے

 اور مسلسل جگہیں تبدیل کر رہی تھیں۔  افرادگندے سڑے اور استعمال شدہ ٹین کے ڈبے گلیوں میں پھینک  رہے تھے  اور

 صفائی والا عملہ انہیں ساتھ ساتھ صاف کر رہا تھا۔  کائنات کی ہر شئے اپنی اپنی موجودگی کا  احساس دلا رہی تھی۔ 

 زندگی رواں دواں تھی۔  ہر سو معمول کے مطابق کام ہو رہا تھا۔  ہر شخص اپنی دھن میں مگن تھا۔  خوشنما ماحول  دیکھ کر من خوش ہو رہا تھا۔ ہر طرف راوی چین لکھ رہا تھا۔  تمام دنیا میں سکون  ہی سکون ہو اور شانتی ہو جائے  اور تمام دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے تو کتنا اچھا ہو۔

 اس کیڑے کے اینٹینا کے نزدیک  تماشائیوں سے جومختصر ٹکڑوں میں، جو اس نت اپنے دوسرے افسانوں میں سے ایک غیر

 تحریری  بیان کی ہیں۔ ایک خاتون بیٹھتی ہے جو کہ اپنے ساتھی کو دیکھتی ہے جوکہ اس کے ساتھ باغ میں چلتی ہوئی ٹرین میں اس

 کے ساتھ سفر کر رہی ہے۔ یہ حقیقی زندگی کا جدید رخ ہے جس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اسکی بات سنی اور دوسروں کی بلند آواز یں

 اس آواز پر چھا جاتی ہیں، گفتگو،  ہمارا ایٹینا  کو استعمال کرتے ہوئے سابقہ تجزیہ میں اگر چہ کیو باغات پیش کرتا  ہیاور ناقدین اور

 قائین کے لئے چیلنج کا باعث بنتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وولف اشارے والی ہوتی ہے بلکہ خود خوالہ ہوتی ہے۔ ادھر ادھر چکر کھا تا

 ہے۔ ان آوازوں کو سنتی ہے جو اتفاقیہ اس ماحول میں آرہی ہوتی ہیں۔ شائد اس بات کا تعاقب  پیچھا کر رہی ہوتی ہے اور کسی

 مقرر کردہ حد پر آپہنچتی ہے۔

 ورجینیاوولف  نے   میں افسانوں کا مجموعہ (دا  ماسک آن دا  وال)  لکھا۔ یہ اس کتاب کی بہترین کہانی شمار کی جاتی ہے لیکن اس

 کہانی کا اصل مفہوم سمجھ سے بالا تر ہے۔ اور کوئی حتمی نتیجہ اخذنہیں کیا جا سکتا۔ خلاصہ اور اس کا تجزیہ اس کی علامتیت کو بیان

 کرتا ہے جو پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے۔

 

 

Popular posts from this blog