دو منٹ - پیٹر جیمز دو منٹ Two Minutes By Peter James

 




دو منٹ

Two Minutes

By

Peter James

مترجم :غلام محی الدین

راڈ ویکسٹر جب  سات سال  کا تھاتو وہ 'برائٹن پیلس پائر'پر مٹرگشتی  کرناپسندکرتاتھا۔وہ سوراخوں سے پگڈنڈی پر بکھرے دھات کےٹکڑوں،اور سیاہی مائل سبزپانی جوپچاس فٹ نیچے بہہ رہاہوتا، کانظاہ کرتا۔اسے کھیل  تماشے پسندتھے۔اسے  اومانی شعبدہ باز کاایک خطرناک کرتب  سب سے زیادہ اچھالگتاتھا ۔اومانی ہرگھنٹے  جیکٹ  پہن کر ایک کنستر پٹرول سمندرمیں انڈیل کر ماچس کی تیلی سے آگ لگاکر    اپنے ہاتھ  اورپاؤں بندھواکر  بھڑکتے شعلوں میں سمندر میں غوطہ لگاتااور ایک منٹ بعدپانی پرابھرکراپناسرباہرنکالتاتھا۔حیرت کی بات یہ تھی  کہ اسے ذرہ برابر زک نہیں پہنچتی تھی ۔یہ دیکھ کرتماشائی تالیاں بجاتے تھے۔ویکسٹر کی خواہش تھی  کہ وہ بھی ایسے کرتب سیکھے۔جب کبھی اس موقع ملتاتووہ انہیں سیکھتابھی تھا۔اس کے نزدیک دنیاکی کوئی شئے پراسرارنہیں تھی۔ او مانی شعبدہ بازکےآگ میں کودنےاور بغیر کسی  زخم،چوٹ یانقصان کے سطح سمندر پرآنااس کےلئے حیران  کن فعل  تھا ۔یہ ایک خطرناک  عمل تھا۔ اس کی نقل کرتے ہوئے  اگر کوئی دوسرا   شخص ایسا کرنے کی جراؑت  کرتاتووہ  یقیناًحادثے کاشکار ہوجاتااور جل کربھسم ہوجاتا۔ جب اومانی   اپنا کرتب ختم کرتاتوہیٹ  زمین پرکھ دیتاتھا اور تماشائی  اپنی مرضی سےاس میں پیسے پھینک دیتے تھے۔ بیکسٹر  کاماننا تھا کہ اومانی پر کوئی آنچ نہ آنے کے پیچھے  کوئی راز تھااور وہ اسے سیکھنا چاہتاتھا۔راڈ ویکسٹر   یہ  شعبدہ سیکھنا تو چاہتاتھا لیکن   بدقسمتی سے وہ اس کے سیکھنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرسکا۔  

 مشین کا دروازہ کھل جاتا اور اس وقت تک کھیلاجاسکےاتھاجب تک رقم پوری نہ ہوجاتی۔ ہر مشین کانام مشین کےاندر لکھاہوتاتھا۔ ان دنوں نئی نئی مشینیں  آئی تھیں۔مزید وقت  حاصل کرنے کے لئے  اور رقم ڈالناپڑتی تھی۔بعض مشینوں میں جھری ہوتی تھی  برائٹن  پیلس پائر  پر طرح طرح کی دلچسپیاں تھیں۔ اس میں مشینیں تھیں  جن   پر مختلف کھیل کھیلے جاسکتے تھے لیکن اس  کے  جن میں  ڈالرڈال کر کھیلا جاتاتھا۔ ہر کھیل کی فیس مقرر تھی۔فیس اداکردی جاتی تو مشین  وہ  کھیل کا دروازہ  کھل جاتااور فیس ختم ہونے پر بند ہوجاتاتھا۔ کھیلوں کے دروازے ظاہر اورغائب ہوتےرہتےتھے،روشنیاں جھلملاتیں۔ ویکسٹر کے بچپن میں ایک  کھیل   بڑا مقبول    تھا۔ایک چڑیل  نے  ایک گڑیاکے گھر جیسے ننھے منھے  مکان میں رہ رہی تھی  لیکن اس نے وہ چھوٹاسا پیاراسا گھر  ایک ریل گاڑی   میں بنایاہواتھا۔ اس ریل گاڑی کاایک ٹریک تھا جو گول دائرے میں تھا۔اس کا گھر تو خوبصورت تھا لیکن  چڑیل کی شکل بھیانک تھی ۔ کھیل شروع ہوتاتو ریل گاڑی چل پڑتی اور  ٹریک پر چکر لگانا شروع کردیتی  اورہر چکر میں اس کی شکل بدل جاتی تھی  اور مزید ڈراؤنی ہوتی تھی وہ اپنا تماشہ چھ چکروں میں مکمل کرتی تھی۔اس کے ایک  دفعہ  کی ٹکٹ چھ سینٹ تھی۔چڑیل  ایسی ڈراؤنی  حرکات کرتی تھی کہ  تماشائیوں پر دہشت  طاری ہوجاتی تھی۔راڈ  ویکسٹر نے  جب اسےپہلی بارکھیلا  توروہ  بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا۔اس کےعلاوہ یہ  تماشہ بہت مہنگا بھی تھاجس  کاخرچہ  اس کے جیب خرچ  سے زیادہ تھا۔اس لئے وہ اس کی بجائے بہت کم فیسوں والے کھیل کھیلتاتھا۔کسی  جھری والی مشین پراگروہ چھ چکرلگاتاتواس کاخرچہ  بھوت گاڑی کےایک چکر کے برابر ہوتا۔اس لئے چڑیل کے تماشے کی بجائے   اس مشین  کےتماشے کووہ سب سے زیادہ پسند کرتاتھا اور اس پرسب سے زیادہ رقم خرچ کرتاتھا۔اور  اس  کی منشاہوتی تھی کہ ہرہفتےنئی  مشین  پر کھیلاجائے۔ اینٹوئینیٹ کی مشین والا کھیل بھی اسے پسند تھا۔اس مشین میں پیسے  ڈالتاتو کرتب شروع ہوجاتاتھا۔ اینٹیوئینٹ  میں ایک آلہ تھا ۔فیس ڈال کر اگر اس آلے کو دبایاجاتا توکھیل شروع ہوجاتا اور ہر کھلاڑی  اپنا معینہ  کردار ادا کرنے لگتا۔ آلے کوکنٹرول کرنے والے کاکام  بیرم دبا کر ان میں شامل تمام کھلاڑیوں کے سر کاٹنے ہوتے تھے۔۔چندلمحوں بعد  وہ ان میں سے ایک کردار کابیرم دبادیتاتواس کا بلیڈ نیچے پھسل جاتا ۔گردن کے قریب سر کاٹ کرعلیحدہ ہوجاتا اور اس  کاسر ٹوکری میں جاگرتااور روشنی گل ہوجاتی تھی۔ ویکسٹر اس کھیل    میں ہربار حیران و پریشان ہو جاتاتھا۔ وہ مشین کے اندر کرداروں کی کٹی ہوئی گردنیں ٹوکری میں دیکھتا تو اسے خوف ہوتا کہ آیا اس کی گردن   اس کے سر موجود تھی یانہیں ۔اگر ابھی تک تھی ، تواورکتنی دیرتک اس کے سر رہ سکتی تھی؟

 وہ چالیس برس کاہوا توسائنس  ترقی کرگئی تھی۔وہ کھیل جہاں مشین کی جھری میں سکے ڈال کرکھیلاجاتاتھا،اب تبدیل ہوگیاتھا۔وہ مشینیں  اب  متروک ہوکرماضی کاحصہ بن چکی تھیں اور عجائب گھر میں ایک محراب کے نیچےجہاں قدیم بندرگاہوں کےماڈل رکھے  تھے،کے پاس رکھ دی گئی تھیں۔اب نئی مشینیں اورنئے ٹوکن آگئے تھے جو پیسوں سے خریدےجاسکتے تھے۔پس ماندہ علاقوں میں عین ممکن تھا کہ  یہ اب بھی  کہیں کہیں پائی جاتی  ہوں۔وہ اپنے  بچوں کوپرانی  مشینوں کی طرف مائل نہ کرسکا۔اس کی جگہ  کمپیوٹر  کی  پی ایس سیریز آگئیں ۔اس میں  بچوں اور بڑوں کی دلچسپی بڑھنےلگی تھی۔

راڈ ویکسٹر   بیمہ ایجنٹ تھا اورکامیاب زندگی گزاررہاتھا،وہ خوشحال ہوگیاتھااور اب               اس کے پاس اتنے پیسے آگئے تھے کہ اپنا فطری تجسس کی تسکین کےلئے بآسانی رقم خرچ کرسکتاتھا۔ وہ  زندگی  اور ٹرانسپورٹ  کی بیمہ کمپنی سے منسلک تھا۔اس کا کام ایک اکاؤنٹنٹ کی طرح کاتھا۔ وہ  اس بات کا حساب رکھنا تھا کہ کتنوں نے بیمہ پالیسیاں  خریدی۔ کس نے ادائیگی وقت پر کی۔۔ شرح اموات  کیاتھی۔ اور  گاڑیوں میں حادثات کی شرح کیاتھی ور آمدنی اور بیمہ کی کتنی رقم اداکی گئی  وغیرہ  کا حساب رکھناتھا۔ اس کوتنخواہ کے علاوہ کمیشن بھی ملتاتھااور اپنے پیشے سے بہت خوش تھا۔  

اس کےکچھ دوست اسے بیوقوف  کہتے تھے کیونکہ وہ حقائق اور شماریات سے  پاگلانہ حدتک محبت کرتاتھا۔وہ اس کہاوت کی تردید کرتاتھاکہ کوئی ایساشخص جوبستر مرگ پرہو،مرنے سے پہلےکبھی یہ خوہش نہیں کرسکتاکہ وہ اپنے دفتر میں مزیداپنی زندگی گزارے یانوکری کرے۔وہ مےخانے ،سماجی تقریبات  اوربستر مرگ پر بڑے فخریہ انداز میں یہ کہتا تھا کہ وہ  زندگی کی آخری سانس تک   دفتر میں گزارے گا۔۔۔اور یہ سچ بھی تھا۔راڈ  ویکسٹرکواپنے کام سے محبت تھی اوروہ محنت سےکام کرتابھی تھا۔حقائق اور شماریات اس کی زندگی تھی۔یہ وہ  خوبیاں تھیں جس  پر اسےسراہاجاتاتھا اور اسے شاباش ملتی تھی۔وہ ہر شئے کاتجزیہ کرنےمیں دلچسپی رکھتاتھا کہ اور اس عنصر کے اجزائے ترکیبی گنا کرتاتھا۔اس نے لوگوں کو موت  اور کتنی  زیادہ رقم اداکی  ک،جیسےکہ سفر  خطرناک ترین قسم کاحادثہ، موت  کون سی  ہوتی ہے۔کسی خاص بیماری میں مرنے کاامکان کتنے فیصدتھااور جب تم پچاس سال کےہوجاؤگےتواندازاً تم مزید کتنے سال زندہ رہ لوگے۔ایسی  باتیں سن کر لوگ  اپنے کان بند کرلیتے تھے۔اس کی بیوی این غصے میں آجاتی تھی۔                                  اداکی ،بتاتااور   ایسی باتیں  چسکے لگاکرکرتاتھا۔ وہ ایسی معلومات فراہم کرتا  جوعام لوگوں کو معلوم نہ ہوتیں۔ لیکن وہ فضول شخص نہیں تھا کیونکہ  اس نے جوبھی  رائے ظاہرکی تھی اس پروہ صدق دل سے  دیتاتھا اوراس پر وہ یقین بھی                 رکھتاتھا اور اس کےساتھ اسےتسلی  دینے کےلئے دلیل  بھی دیتاکہ دنیاعارضی تھی۔اس کاکوئی اعتبارنہیں۔کوئی شخص زندہ نہیں بچے گا۔اس لئے بیمہ پالیسی خریدلےتاکہ ان کےلواحقین کابھلاہو۔

ایک دفعہ ایک ڈنرپارٹی  میں اس نے  مشین کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کردیئےاور کہاکہ وہ بچوں کےتخیلات میں اضافہ کرتی ہے۔ایک   محفل  میں نیوروسرجن تھا جس کا نام پیڈی  ماہوٹی ایک  دفعہ ایک ڈنر پارٹی  میں ایک  نئی ایجاد کی تعریفیں شروع کردیں جو بچوں کے تخیلات میں اضافہ کررہی تھیں۔اس  کا ایک دوست  اس کی اس رائے سے متفق نہیں تھا ۔اس نے کہا  کہ اس  نئے کھیل     کوئی  بچہ وہ کھیل گھیلتا تو  نوے سیکنڈ سے دو سیکنڈ تک وہ  تووہ ہوشیار اور چوکنارہتا  اس کے بعد اس پر شدید اضطراری کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور وہ شدید خوفزدہ ہوجاتاتھا۔ویکسٹر  کو محفلوں میں جانا پسند تھا ،وہ ہر پارٹی میں اپنے دوستوں سے کاروں کی پائیداری  اور مضبوطی کے بارے میں بتایا کرتا تھا کہ اس کے تجربے کے مطابق آڈی بہت عمدہ کارتھی اور  لوگوں کو وہی کار ہی خریدنی چاہیئے ۔وہ  حادثات کے تجزیے میں اعداد وشمار کے ذریعے بتایا  کرتا کہ سب سے کم حادثات آڈی کے ہوئے تھے اور اگر بھی تھے،اس کے مسافر بچ گئے تھےجبکہ اس کا دوست اس  کی بات سن کر اپنا تجربہ  بیان کرتے ہوئے کہا کہ  اس  کی بات صحیح نہیں تھی۔ وہ  تو اس کی باتوں میں آکر تباہ وبرباد ہوگیاتھا۔سامنے    بیٹھاتھا،نے معاملے میں اپناتجربہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ وہ اس  کھیل کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگیاتھا۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ  آڈی   میں   کھیل  دیکھتےایک قومی شاہراہ  پرجارہاتھا اور اس کے  آگے ایک ٹرالا تھا۔ اس  ایجاد کو جب اس نے دومنٹ تک سنا  توپہلےتو زیادہ  چوکناہوگیااور پھر خوفزدہ     ہوگیا۔آڈی  اس ٹرک کے عین پیچھے تھی۔وہ بوکھلاگیا، اوربڑاحادثہ پیش آگیا ۔وہ ٹرالے  کی  دم کےاندرچلی گئی۔اس میں  تمام سوار سوائے میرے اللدکوپیارے ہوگئے۔صرف دو منٹ  نئی ایجاد کااستعمال کتناخطرناک تھا۔

تم دومنٹوں میں  صرف چند اموات کی بات کررہے ہو؟ یہ تو کچھ بھی نہیں ۔ کیاتمہیں ہایٹم بم  کی ایجاد یاد نہیں ۔ جدید ایجادات کتنی مہلک ہیں تم سوچ بھی  نہیں سکتے۔ جو تباہی اس نے  ہیروشیما اور ناگاساکی میں چارمنٹوں میں  چار منٹوں میں مچائی  اس سے کئی گنا تباہی  آج وی صرف ایک منٹ میں مچاسکتے ہیں۔ ایک منٹ میں کروڑوں ہلاکتیں  اور سینکڑوں سال  معذور نسلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

محفل برخواست ہوئی  توویکسٹر ایک خاتون کے ساتھ اس کی چھوٹی  گاڑی میں جارہاتھا۔ ہیلو۔اس نے اس خااتون کوجو  نسان گاڑی چلارہی تھی۔ اس کی گاڑی کارنگ ارغوانی تھا۔کیاتم مجھے وقت بتاؤگےکہ کیابجاہے؟ ویکسٹر نے بوکناچاہالیکن آواز نہ نکلی۔وہ چیخی  ۔'میری گاڑی اس وقت اچھی نہیں چل رہی۔اس میں کوئی خرابی پیداہوگئی ہے ۔اس کےبعد اس نےقے کردی۔خوش قسمتی سے وہ اس پر نہیں گری لیکن اسےاس الٹی کی بوبہت زیادہ محسوس ہوئی۔اسے تکلیف بھی نہ ہوئی لیکن اسے ڈیزل  کی بوسے ابکائی آجایاکرتی تھی جواسے آج نہ آئی۔اس وقت اسےایک سائرن کی آواز سنائی دی۔

اچانک ہی اسے ایٹمی بم جواس کےبچپن میں چلایاگیاتھا،یاد آیا۔جس میں صرف چار منٹوں  کی وارننگ کے بعدایٹمی بم پھینک دئیےگئے تھے اور دومنٹوں میں لاکھوں معصوم لقمہ اجل ہو گئے تھے۔ایسی دھمکی عہدحاضرمیںاگرچہ   نہیں تھی  اور لوگوں کو پرانی  بات بھول گئی تھی لیکن  اگر آج   ایٹم  بم چلایاجائے تواس  کانقصان اس وقت سے سو گنازیادہ ہوگا۔

اسےایک اور ڈنرپارٹی میں جو چند دن پہلےہوئی تھی،میں  ایک سروے ہواتھا جس میں شرکاسے پوچھاگیاتھاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری چارمنٹوں میں کیاکریں گے؟توایک شریک جس کانام وہ بھول چکاتھا،نے تجویز دی کہ صرف ایک منٹ میں کہو، چارمنٹ میں  نہیں۔وہ بہت زیادہ وقت ہے۔تم اس وقت  ایک منٹ کہو۔تم حقیقی طورپر اپنے ذہن پر توجہ مرکوز رکھو ۔

۔ راڈ  ویکسٹر کےحساب سےوہ اس لحاظ سے خوش قسمت  تھاکہ اس کے پاس مزید ایک منٹ تھا۔میں یہاں اپنے مستقبل کو سیکنڈوں میں شمار کر سکتاتھا  اور مجھے اس بات  کی فکر نہیں کہ میری بیوی اور بچے کس  طرح سے اس کامقابلہ کریں گے۔میں صرف یہ جاننا چاہتاہوں کہ  دومنٹوں میں  کتنی تباہی ہوسکتی ہے اور اس وقت میں کتنے لوگوں کو بچایاجاسکتاہے

 

۔۔۔۔۔۔۔

 

Life history

Peter James

Uk

1948……….

پیٹر جیمز 22 اگست 1948 کو سسکس  شہر میں برائٹن  برطانیہ میں پیداہوا۔اس نے چارٹر ہاؤس  میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد راونس  بورن  میں فلم سکول میں گریجوایشن کی ۔اس کےوالد کانام  جیک  جیمز اور والدہ کانام کارنیلا کاٹز تھا۔ اس نے دوشادیاں کیں جارجیا             ویلکن   سے 19 سال شادی رہی،پھر اس نے 2015 میں  لارا جیمز سے شادی کی۔وہ 1970 میں شمالی امریکہ آیااور بہت عرصہ یہاں گزارا۔ امریکہ میں اس اپنی زندگی ہاؤس کلینر سے شروع کی۔پھر وہ گالف کاکھلاڑی بنا۔اس کے بعد  ادیب اور  پھر 'پولکا  ڈاٹ  ڈان ' ٹی وی پروگرام کرنے لگا۔اس کو گاڑیوں کا بہت شوق ہے۔اس کے پاس قیمتی اور ریسنگ کاریں ہیں۔اس نے جرمیات،مذہب، ماورائی مخلوق  پر 36 ناول لکھے۔اس  کی کہانیوں پر بہت سی فلمیں بنیں۔اس نے بہت سی فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔اس کی اہم تصانیف میں:

 Dead Simple( 201 Good Reads)’, Looking Good Dead, Not Dead Enough. Dead Man’s Footsteps, The Truth. Host, On Citadel Hill. The Secret of Cold Hill.Biggles. Dreamer etc.

Movies

Under Milkwood. Dead of Night. Children should Not Play with Dead things .Spanish Fly etc

Awards

W.H.Smith Award 2015, CWA Diamond Dagger Award (2016) and lot more Awards.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Popular posts from this blog