( Print..Mode # 1 ) The Death of Ivan Iylvitch By Leo Tolstoy (1829-1910) USSR......ایون ایلچ کی موت

 



                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                       

ا                        یو               ن                     ا                              یلچ                    کی موت 

The Death of Ivan Ilych

By

Leo Tolstoy (1829-1910)

USSR

 

اس نے جوں ہی اخبار کھولا تو پہلے پنے پر سیاہ حاشیئے میں جلی حروف میں ایک تعزیت نامہ چھپاتھا۔۔

'انتہائی دکھ کے ساتھ عوام الناس کو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ عزت مآب جناب ایون ایلچ گولووین بیماری سے لڑتے ہوئے 4 فروری 1882کو قضائے الٰہی سے اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ ان کی آخری رسومات بروز جمعہ سہ پہر جسٹس کالونی کے گرجا گھر میں ادا کی جائیں گی۔ ان کی عمر پینتالیس سال تھی۔انہوں نے اپنے پیچھے بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔

از طرف سوگواران'

خبر پڑھتے ہی جسٹس پیٹر ایوینو وچ کو صدمہ پہنچا۔وہ دونوں لنگوٹئے تھے۔ بچپن سے اکٹھے پلے بڑھے تھے۔ ایک ہی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پبلک سروس کمیشن کے ا علیٰ مقابلے کے امتحان میں افسران کی درجہ بندی میں دونوں دسویں نمبرکے عہدے کے لئے منتخب ہوئے تھے  ۔ ایون  ایلچ  نے اس میں پہلی پوزیشن  حاصل کی تھی۔ایسے کامیاب امیدوار عدالت عالیہ یا مرکزی محکمے میں فائز ہونے کے لئے منتخب ہوتے تھے۔

اپنی لیاقت اور ایمانداری کی  وجہ سے  ایون ایلیچ باقی تمام ساتھیوں سے بہت زیادہ ترقی کر گیا تھا۔ جسٹس  پیٹر کو علم تھا کہ ایون شدید بیمار تھا اور بیماری کی  بدولت        وہ  طویل رخصت پر تھا۔ وہ چند ہفتے پہلے اس کی مزاج پرسی کے لئے گیا تھا تو وہ کافی تکلیف میں تھا۔ اس کے بعد عدم مصروفیت  کی بدولت  وہ دوبارہ نہ جاسکا۔

پیٹر                   اس کی اختتامی رسومات میں شرکت کے لئے پہنچا تو گھر کے باہر ایک میت لے جانے والی گھوڑا گاڑی اور دو بگھیاں کھڑی تھیں۔وہ گھر میں داخل ہوا تو ہال میں تابوت پڑا تھا۔ تابوت سونے کی تاروں والے کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا اور پالش سے چمک رہاتھا۔بالائی منزل پر رہائشی کمرے تھے جن کی رسائی ہال سے ہوکرجاتی  تھی۔وہ سیڑھیوں سے اوپر جانے لگا تو اسے جسٹس شوارٹز اوپر سے نیچے آتے ہوئے ملا۔پیٹر اوپر چلا گیا جہاں  ایون ا  یلچ                کی میت کفن میں لیٹی پھولوں سے اٹی پڑی تھی۔اس کا منہ کفن سے باہر تھا۔ایک پادری فراک کی طرز کاکوٹ پہنے انجیل سے مقدس آیات کی تلاوت کر رہاتھا۔ نائب  خانسامہ     گیریسیم فرش پر ترکاؤ کر رہا تھا۔اس کی مہک کافور جیسی تھی۔ا                      یو               ن                     ا                              یلچ مرنے کے بعد بہت باوقار لگ رہا تھا۔ اس پربہت روپ چڑھا تھا۔ اس کی بیوہ '          پراسکووویا فیڈورونا گولووین ' غم سے نڈھال تھی۔رو رو کر اس کے آنسو سوکھ گئے تھے۔ پیٹر کو دیکھ کرایلیچ کے سب سے گہرے دوست کی حیثیت سے اسے اپنے کمرے میں لے گئی۔اس نے بتایا کہ ایون  نے یوں تو  بیماری کا تمام  وقت تکلیف میں گزارا لیکن آخری تین دن تو  بہت اذیت ناک کےتھے۔اس کے کراہنے کی آوازیں اس کے پھیپھڑوں سے نکلتی تھیں اور چار ُسوسنائی دیتی تھیں۔خاوند کی فوتگی کے بعد ان کے وسائل میں نمایاں کمی آنے والی تھی اس لئے وہ پنشن اور دیگر مراعات کے بارے میں فکر مند تھی۔ وہ اس بارے میں پیٹر سے رائے لینا چاہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وسائل اور سرکاری مراعات کیسے حاصل کی  جا سکتی ہیں۔ گفتگو کے دوران پیٹر کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس جامع معلومات تھیں۔ایلچ کی تجہیز و تسکین کے تمام انتظامات وہ خود کر رہی تھی اور چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھ رہی تھی۔

                      ایو               ن                     ا                              یلچکا باپ اعلیٰ سرکاری ا فسر تھا۔اس نے درجنوں سرکاری محکموں میں نوکری کی ہوئی تھی۔اس وقت وہ پیٹربرگ کی پریوی کونسل کا رُکن بھی تھا۔اس کی کافی واقفیت تھی۔ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایلیچ کا دوسرا نمبر تھا۔ بڑا بیٹا بھی اچھے سرکاری عہدے پر فائز تھا۔بیٹی بھی ایک اعلیٰ سرکاری افسر جس کا نام جیف تھا، سے بیاہی گئی تھی اور اپنے گھر خوشی خوشی رہ رہی تھی۔ صرف چھوٹا بھائی نکما  نکلاحالانکہ اسے بھی ان کے والد نے اپنے تمام بچوں کی طرح اچھی تعلیم و تربیت کی سہولیات مہیا کی تھیں لیکن وہ ان سے استفادہ حاصل نہ کر سکا۔ وہ نشئی اور جواری تھا۔اسے خاندان کا کوئی فرد بھی ملنا پسند نہیں کرتا تھا، یہاں تک کہ اس کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ محکمہ ریلوے میں متوسط درجے کی نوکری کر رہا تھا۔

ا                      یو               ن                     ا                              یلچبچپن سےہی  ذمہ دار اور سنجیدہ بچہ تھا۔وہ معتدل مزاج تھا۔نہ ہی بات بات پر بچھنے والا اور نہ ہی سرد مہر۔وہ فطین تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ  نظریات  اور مفروضوں  کا عملی استعمال کیا کرتا تھا۔ اس کاعلم اور فہم و فراست    بڑی واضح تھیں۔اس کے ساتھ اس کے چھوٹے بھائی نے بھی قانون کی تعلیم میں داخلہ لیا تھالیکن کئی کوششوں کے باوجود بھی وہ امتحان پاس نہ کر سکا جبکہ ایون نے اعلیٰ نمبروں سے امتحا ن پاس کرلیا۔ پھر مقابلے کے امتحان میں اول آیا اور دسویں سطح کی افسری سے ملازمت کا آغاز کیا۔نوکری میں شمولیت سے پہلے اس نے مشہور   ڈیزائن       دار اور  مہنگے ترین  اداروں  کے کپڑے اور ضروریات کی اشیاء خریدیں۔ میرٹ پر اس کی پہلی نوکری گورنر کے سیکرٹری کے طور پر لگی جو پہلی نوکری کے لحاظ سے بہت بڑاعہدہ تھا۔ اس کا کام صوبائی سیکرٹریوں، اعلیٰ حکام،جاگیر داروں، تاجروں، سیاسی عمائدین اور سا ئل کو گورنر سے ملاقات کروانا یا                      روکنا اور گورنر کےاحکامات کی پیروی کروانا ہوتا تھا۔ سائل اس کی خوشنودگی کے طلبگار ہوتے تھے۔تمام ملاقاتی انتظار گاہ میں اس کی راہ تک رہے ہوتے تھے۔ وہ گورنر کے پاس  سیدھا آتا جاتا اور اس کے ساتھ بیٹھ کے چائے پیا کرتا۔سائل اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے۔تمام تر اختیارات کے باوجود وہ انصاف پسند تھا۔ ہر کام میرٹ پر کرتا تھا اورسفارش پسند نہیں کرتا تھا۔اگر کام قانون کے مطابق ہوتا تو وہ روٹین میں کروا دیتا۔ جائز کام کے لئے بھرپور کوشش کرتا تھا کہ اس میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور کام غلط ہوتا تو اسے کبھی نہ ہونے دیتا۔اسکی قابلیت اور انصاف پسندی کو اقتدار کے ایوانوں میں سراہا جاتا تھا۔

اشرافیہ خاندانوں کی خواتین اس کے گرد منڈلاتی رہتی تھیں مگراسے کسی میں دلچسپی  پیدا نہیں ہوئی تھی۔اپنے عہدے کی مناسبت سے گورنر کے ساتھ محفلوں میں شرکت اس کے فرائض منصبی میں شا مل تھا۔ جس میں روایت کے مطابق  عوام  کی خوشنودی        کےلئے اسے ڈانس بھی کرنا پڑتاتھا۔ اچھے ڈانسرکے ساتھ وائلن بجانے میں بھی وہ ماہر تھا۔اعلیٰ عہدے، خوبصورتی، نفیس عادات اور نیک انسان کے گرد حسینائیں اس سے معاشقے  کے لئے مچلتی رہتی تھیں لیکن  تقریب میں ڈانس کرکے یا  گفتگو  کرکے بھول جاتا۔ وہ ایمانداری سے اپنے فرائض بطریق احسن نبھاتا رہا اور اعلی ٰ کار کردگی کی بنا پر اسےخصوصی(آؤٹ آف ٹرن)ترقیاں ملتی رہیں۔گورنر او ر اس کی بیوی اس سے بہت خوش تھے اور اسے اپنے خاندان کا ایک  فرد تصور کرتے تھے۔اس نے اپنی ساکھ اپنی  لیاقت، محنت اور ایمانداری سے بنائی تھی،وہ گورنر کے ساتھ پانچ سال منسلک رہا اور خوب نام کمایا۔ سرکاری امور میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں            ہمیشہ  وہ بے حد محتاط اور ذمہ دار رہا۔ اس دوران ایک لڑکی سے اسکی دوستی بھی ہوئی تھی لیکن وہ زیادہ گہری نہیں تھی۔ہو سکتا تھا کہ آگے جا کر اس سے شادی کر لیتا لیکن  1864میں مرکزی حکومت نے اپنے عدالتی نظام میں تبدیلی کی اور اسے اس زمانے کی ایک اہم پوزیشن پرترقی دے کر دوسرے صوبے میں تعینات کر دیاگیا۔

نئے نظام میں اسے مجسٹریٹ تعینات کیاگیا ۔ وہ یکدم تین درجے ترقی کر کے ساتویں درجے پر آ گیا تھاجبکہ اس کے ساتھی ابھی   نوویں  درجے پرتھے۔یہ عہدہ اس دور کی اہم تقرریوں میں شمار ہوتاتھا اور عدالت عالیہ کے جج کی طرف پہلا قدم خیال کیا جاتا تھا۔ سابقہ عہدہ بھی اہم تھا لیکن اس میں اس کا کام گورنر کے احکامات کولاگو کروانا تھا جبکہ یہاں اس کا اپنا حکم چلتا تھا۔ اس کے فیصلوں سے تقدیریں بنتی اور بگڑتی تھیں۔ یہاں وہ مکمل طور پر خود مختار تھا۔ جس کی چاہے ضمانت منظور یامسترد کرے، جس کو چاہے سزا دے یا                           بری کرے اور جسے چاہے گرفتار کروائے یا آزاد کر دے۔تمام تر اختیارات کے باوجود اس نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ ہر کام  قانون کے مطابق  سر انجام دیتاتھااوراپنے اختیارات کا کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ انکسار سے کام لیتا تھا۔وہ مغرور نہیں تھا۔ علاقے کی تمام انتظامیہ اس کے ماتحت تھی اور  وہ  انہیں حکم دیا کرتا تھا۔وہ اس پوزیشن پر بہت خوش اور مطمئن تھا۔ جائز کام کبھی نہیں روکتا تھا۔غیر قانونی کام نہ تو وہ خود کرتا تھا اور نہ کسی کو کرنے دیتا تھا۔وہ اپنے ماتحتوں سے اچھا سلوک کرتا تھا۔ ان سے عزت اور نرمی سے پیش آتا تھا۔سب لوگ اس سے خوش تھے۔وہ قانونی بوقلمیوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا اوراس کے فیصلے صائب ہوتے تھے۔چونکہ یہ نظام نیا نیا رائج ہوا تھا اس لئے اس میں کئی پیچیدگیاں تھیں جو ہر کسی کی  سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ کم و بیش تمام مجسٹریٹ اس نظام کوپوری طرح سمجھنے سے قاصر تھے اور انہیں قانون   لاگو کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھی ماسوائے ایون کے جو عدلیہ کے معاملات کو بخوبی چلا رہا تھا۔ اس کا حلقہ احباب وسیع ہوتا گیا اوراس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے اعتماد میں روز بروز مضبوطی آتی گئی۔اُس کا حلیہ بھی اب اشرافیہ والا تھا۔ فیشن ایبل داڑھی رکھ لی تھی۔ عادات و اطوار بھی ویسے تھے۔برج کھیلنے لگا تھا اوربہت اچھا کھلاڑی بن گیا تھا۔  جیت    ہمیشہ اس کی ہوتی تھی۔وہ شام کواپنے یا کسی دوست کے گھر یا کلب میں بڑی دل جمعی سے دل لگا کر کھیل کھیلتا اور مزہ کرتالیکن دفتری اوقات میں وہ صرف اپنی ڈیوٹی کو ٹھیک ٹھیک نبھاتاتھا۔ ڈیوٹی کے وقت صرف ڈیوٹی اور کھیل کے وقت صرف کھیل کے بارے میں ہی سوچتا تھا۔

وہ وہاں دو سال رہا۔اس عرصے میں اسے اسکی ہونے والی بیوی مل گئی جس کانام          'پراسکوویا فیڈوروفنا میخیل' تھا۔ کلب میں اسے وہ لڑکی بھا گئی تھی جہاں وہ نہا یت پرکشش،ہو شیار اور ذہین لڑکی شمار کی جاتی تھی۔ ایون اپنی شہرت، تعلقات، مزاج اور رتبے کی بدولت اعلیٰ سے اعلیٰ رشتہ حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے پراسکوویا سے،جو ایک نسبتاً ادنیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور اس سے شدید محبت میں گرفتارہو گئی تھی، کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے شادی کر لی۔اُس اقدام سے اسے ذہنی  سکون  نصیب ہوا۔ شادی کے بعد وہ دونوں خوش خوش رہنے لگے۔گھر کو جدید طرز سے سجایا گیا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ ڈیزائن دار لباس اور بہترین فرنیچر خریداگیا۔ انکی زندگی میں چین ہی چین اور سکھ ہی سکھ رہنے لگا۔ پراسکوویا ایون کو پیار سے 'جین 'پکارتی تھی۔حسن ِکارکردگی پر ایون کو فوری  مزید ترقی ملتی گئی۔ وہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں رہا اور حسب معمول انصاف اور دیانتداری کے ساتھ فرائض منصبی سر انجام دیتا رہا۔ عائلی زندگی کو سرکاری امور میں کبھی رکاوٹ نہ بننے دیا۔وقت آنکھ جھپکتے گزر گیااور اس کی بیوی امید سے ہو گئی۔

یہاں سے اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ بغیر ظاہری وجہ کے پراسکوویا کے مزاج میں تبدیلی واقع  ہونا شروع ہو گئی۔حمل کے پہلے مہینے سے ہی وہ مضمحل، افسردہ رہنے لگی اور ناگوار اور نا معلوم خدشات کی شکایات کرنے لگی۔اس کی ہمت بندھانے اور دلجوئی کے لئے ایون ڈیوٹی کے بعد کا سارا وقت اس کے ساتھ گزارنے لگا لیکن بجائے اسکے کہ پراسکوویا کا خوف دور ہوتا، اس کی  بدمزاجی میں  اضافہ ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ وہ ایون کے سرکاری فرائض میں مداخلت کرنے لگی۔ حسد کرنے،کیڑے نکالنے اور بات بات پر روک ٹوک کرنے لگی۔

پہلے پہل تو ایون اپنی بیوی کے تبدیل شدہ رویے کو حوصلے اور ذہن پر زور دئیے بغیر لیتا رہا لیکن جب پراسکوویا کے شکوک میں روز بروز اضافہ ہوتا گیاتو اس نے اسے نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔اسے یہ تو اندازہ تھا کہ زچگی میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی تھیں لیکن اس قدر سنگین ہو سکتی تھیں، علم نہ تھا۔تاہم اس نے اپنا سلوک معتدل رکھا۔خانگی امورپوری طرح نبھاتا رہا اور بیوی سے شفقت  و محبت  سے پیش آتا رہا۔ جبکہ وہ اس کی ہر بات کو منفی انداز میں لیتی رہی۔وہ کسی بات پر مطمئن نہ ہوتی اور پینترے بدل بدل کر وار کرتی۔ وہ اس کے اعتراضات غور سے سن کر صدقِ دل سے ازالہ کرنے کی کوشش کرتا۔ زیادہ سے زیادہ گھر پر وقت گزارا کرتا، اپنے دوستوں کی دعوتیں کرتا تاکہ اس کی بیوی دوستوں کی بیویوں کےساتھ اچھاوقت گزارسکے۔۔ ان کے ساتھ برج کھیلتا۔ سرکاری فائلیں گھر لا کر کام نپٹاتا اور مطالعہ کرتا رہتا تاکہ وہ اسکی موجودگی سے خود کو محفوظ سمجھے لیکن تمام تر  کوششیں بے کار رہیں ۔ا یک رات ایسا ہو ا کہ پراسکوویا بلاوجہ سخت طیش میں آگئی اوراسے بے نقط سنائیں۔وہ اپنے جنون میں آگے بڑھی اوراسکی محبت پرکھنے کے لئے ایک نا مکن معیار بنالیا۔ وہ اسے مطالبات کی ایک لمبی فہرست پیش کر دیتی او ر اصرار کرتی کہ اسے پورا کرے۔ جب تک وہ مکمل طور پر پورے نہ ہوتے، وہ اس کے سر پر سوار رہتی۔۔۔ پہلی بات ختم نہ ہوتی کہ فورا             ً ہی نئی فہرست پیش کر دی جاتی اور اس کی تکمیل کے لئے  پہلے سے زیادہ  سختی کی جاتی۔۔۔یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔اس نوعیت کے خانگی حالات میں بیٹی پیدا ہوئی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔اس کا نام' لیزا الینووچ گولوین' رکھا گیا۔وہ ایک خوبصورت گڑیا کی طرح تھی۔وہ اس کے ساتھ کھیلتا تو اسے سکون ملتا۔لیکن اس کی بیوی کی نفسیاتی حالت میں فرق نہ آیا۔ پھراس کے دو سال بعد بیٹا بھی ہو گیاجس کا نام   '          ولادمیر ایوانووچ گولوین               ' رکھا گیا۔ وہ بھی پیارا تھا۔دوسرے بچےنے بھی ایون ایلچ کو خوشی دی لیکن پراسکوویا کی تلخی کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی گئی۔ تمام تر اندرونی خلفشار کے باوجود اس نے اپنے سرکاری امور میں کبھی کوتاہی نہ برتی۔عوام الناس اور حکام ِبالا میں مقبول رہا۔

ایون الیچ کامیاب ترین شخص تھا۔ ہر لحاظ سے ایک بہترین افسر جو ہر کام وقت پر عین قانون کے تحت کرتا تھا۔قانونی معاملات میں یکتا تھا اوربال کی کھال اتارتا تھا۔اس لئے تین سال کے عرصے میں ہی اسے اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر کے عہدے پرفائز کر دیا گیا جو اتنا اونچا سرکاری درجہ تھا کہ اس کے تمام ہم جماعت لوگوں میں سے صرف اِکا دُکا ہی زیادہ سے زیادہ اُس سے دو نچلے درجوں تک ہی پہنچ پائے تھے۔ صرف پیٹر اس کے نزدیک ترین تھا جو اس سے صرف ایک درجہ پیچھے تھا۔ بطور مجسٹریٹ ایون کے اختیارات ایک علاقے تک ہی محدود ہوتے تھے جبکہ نئے عہدے میں پورے صوبے کے مقدمات اس کے پاس آتے تھے۔ اسکی مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ اس نے عدالتوں میں جس قابلیت سے سرکار کا دفاع کر کے مقدمات جیتے تھے کہ عوام الناس اور حکومت میں اس کی قانونی گرفت کی دھاک بیٹھ گئی۔

گھریلو معاملات اس کے بر عکس گھمبیرسےگھمبیر تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔پراسکوویا کی شکایات سے بچنے کا حل مجبوراً اُس نے یہ نکالا کہ سرکاری کاموں کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے لگا۔وہ شام تک اپنے چیمبر میں بیٹھ کر کام نپٹاتا رہتا۔گھر آتا تو دوستوں کوبلا کر برج کھیلتا یا مطالعہ کر نے لگتا۔مہمانوں کی موجودگی میں پراسکوویا کسی حد تک کنٹرول میں رہتی تھی۔وہ کوشش کرتا کہ ان کا کم سے کم سامنا ہو۔ ہر صورت میں اس نے حیلے بہانے سے جھگڑا تو کرنا ہی ہوتا تھا اس لئے اس کی بد مزاجی سے بچنے کیلئے وہ اس سے کترانے لگا۔

وہ سات سال تک اُس عہدے پر فائز رہا۔اس کے بعد اسے پبلک پراسیکیوٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔وہ پہلا شخص تھا جو صرف پندرہ سال کی سول سروس میں اس عہدے پرپہنچ سکاتھا۔اس کا تبادلہ ایک دوسرے صوبے میں کر دیا گیاتھا۔وہ شہر بہت مہنگا تھا جس سے اس کے اخراجات تنخواہ سے بڑھ گئے۔پراسکوویا اس تقرری سے       بالکل ناخوش تھی لیکن یہ عہدہ اِس لحاظ سے اہم تھا کہ اس کے بعد ایون کی تقرری بطور جج ہوجانی تھی۔اس لئے اس نے انکار نہ کیا اور پہلے کی طرح  دل لگا کر کام کرنا شروع کر دیا۔ اپنی سوجھ بوجھ اور مہارت کی بدولت وہ نئے  نظام کی کامیابی کا بھی اہم ترین ستون قرار دیا جانے لگا ۔

مزید    سات سال وہ اس عہدے پر رہا۔اس دوران اس کا ایک بیٹا اور ہوا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ پہلے دو بچے لیزا اورولادمیر ایوانووچ اب پڑھائی کرنے لگے تھے لیکن گھرکے ماحول میں رتی بھر بھی فرق نہ پڑا۔ پراسکوویا اس سے کبھی مطمئن نہ ہوسکی اور اس پر برستی ہی رہی اور وہ حیلے بہانوں سے ایون  اس سے اپنی بے عزتی کم سے کم سطح پر کروانے کے جتن کرتا رہتا۔ کلب، تاش، لائبریری، سٹڈی روم، اخبار نویسی اور دوست احباب کی دعوتوں میں  وقت       گزارتا  ۔۔مجموعی طور پر اس کی زندگی کا یہی ڈھب بن گیا تھا۔ لیزا                            پندرہ سال کی ہو گئی تھی۔ میا ں بیوی میں بچوں کی تعلیم پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ ماں بیٹی کو گھر پرنامور اساتذہ سے تعلیم دلوانا چاہتی تھی جبکہ وہ کسی اچھے نجی مدرسے سے اسے تعلیم دلوانے کے حق میں تھا۔ پراسکوویا نے اپنا فیصلہ منوا لیا اور اساتذہ گھرآکر پڑھانے لگے۔ اس کا بیٹا                  ولادمیر تیرہ سال کا ہوگیا تھا۔ دونوں بڑے ذہین اور سلجھے ہوئے بچے تھے اوراچھے  طالب علم  تھے۔ ولادمیر کی تعلیم کے معاملے میں بھی ان کے مابین تکرار ہوتی رہتی تھی۔ایون اسے وکیل بنانا چاہتا تھا لیکن پراسکوویا اسے وکیل کے علاوہ کچھ بھی بنانا چاہتی تھی۔ بیٹے کی تعلیم کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے میں ابھی دوسال تھے لیکن اس پر بحث جاری تھی۔اِن سات سالوں میں ایوان کے بہت سی جگہوں پر تبادلے ہوئے لیکن وہ بچوں کی تعلیم کی خاطر رکوا لیتا اور اگلی ترقی کا انتظار کرتا رہا۔ بالآخر اُسے جج کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔۔ جس کے سرکاری مراعات میں بھی خاطر خواہ افزودگی ہو گئی۔ اس نے ہمیشہ  کی  طرح انصاف، محنت اور دیانتداری کا ساتھ نہ چھوڑا اور روز بروز مقبول ہوتا چلا گیا۔امکان  غالب تھا کہ وہ کچھ عرصہ بعد چیف جسٹس بھی بن جائے گا۔وہ انسانیت کی تکریم کرتا تھا۔اس کا انصاف مشہور تھا۔

پھر معاشرے میں تبدیلی آئی۔۔ صدیوں کی کلیسا اور شہنشاہوں کی سرکاری جبریت کے خلاف عوام الناس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور وہ سڑکوں پر آنے لگے۔وہ ہڑتالوں اور ہنگاموں پر اتر آئے۔ ایون ایلچ نے قانون میں ہمدردانہ رویہ اور انسانیت کو مد نظر رکھ کر ہڑتالیوں کے حق میں نرم رویہ برتا جو حکمران ِبالا پر گراں گزرا۔اس کی مسلسل کامیابیوں پر رفقائے کار اور حاسد متحرک ہوگئے تھے اور وہ شہنشاہ کے کان بھرنے لگے۔ایک دفعہ کسی مقدمے کے قانونی نقطے پر اُس کا ایک نامور وکیل  جو شاہی دربارکے قریب تھا،کے ساتھ جھگڑا ہو گیاجس نے حکام بالا سے ایون  شکایت کر دی۔ ایون خود کو صحیح سمجھتا تھا اسلئے حکام سے بھی بحث کے دوران لڑپڑا۔اس واقعے کے بعد  اعلیٰ حکام  اس سے سرد مہری ظاہر کرنے لگے۔لیکن اپنی عدالتوں میں ایوان کا دبنگ انداز جاری رہا۔ اس کے باپ نے بھی اسے سمجھایا کہ حکام بالا سے نہ بگاڑے اورانکے نقطہ ء نظر سے مطابقت کر لے۔ایون نہ ماناتو اس نے بھی اس کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اُ س وقت اُس کی سالانہ تنخواہ پینتیس سو روبل  سالانہ تھی جو اس زمانے میں خوش نصیب ترین لو گوں کو ملتی تھی لیکن آمدن کے حساب سے اس کے اخراجات زیادہ تھے۔ جب تنخواہ اور مراعات کے لحاظ سے اس سے بہتر حکومتی اسامی پیدا ہوئی تو تجربے کے لحاظ سے وہ ترقی کے لئے موزوں تریں تھا لیکن اسے نظر انداز کر کے اس کے جونیئر کو ترقی دے دی گئی۔اُس نے احتجاج کیا جو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔اس کے بعد اوربھی کئی پوسٹیں نکلیں لیکن اسے مسلسل نظر انداز کیا جانے لگا۔

دوسری طرف اس کی بیوی کی  چخ چخ  بدستور جاری تھی۔ وہ مکمل لا پرواہ ہو چکی تھی اور اپنے وسائل میں نہیں رہتی تھی جس سے اس پر قرض چڑھتا گیا۔اوپر سے اس پر اپنے وسائل سے زیادہ اخراجات کرنے لگ گئی  تھی۔ اس پر الزام لگ گیاکہ ا س کے اخراجات  ا س کے وسائل سے زیادہ تھے جس سے اس پر شک کیاجانے لگا کہ اس نے کہیں ناجائز طریقے سے تو پیسہ کماناشروع نہیں کتدیا۔۔ اس پر انکوائری شروع ہو گئی۔اسے سزا کے طور پر اس عہدے سے ہٹا دیا گیا اور افسر بکار خاص بنا دیا گیا۔ جس پر ایون کوبہت غصہ بھی آیا اور ندامت بھی ہوئی۔خرچہ بچانے کے لئے وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنی بہن کے پاس چلا گیا۔وہاں کچھ دن رہے تو اس کے بہنوئی اور بہن کا رویہ بیگانہ سا ہونے لگا۔اس لئے وہ اپنی بیوی کی شدید مخالفت کے باوجود پیٹر برگ چلا آیاجہاں اس کا اشرافیہ اور ممتاز عہدیداران سے یارانہ تھا۔اس کا مقصد ایسی تقرری حاصل کرنا تھا جہاں اس کی تنخواہ پانچ ہزارروبل سالانہ ہو جائے اوررعائتیں اور سہولیات  الگ ہوں۔ وہ کسی بھی منسٹری میں جانے کے لئے تیار تھا لیکن ایسی مراعات  اور سہولیات چیف جسٹس جیسے عہدے دار کو ہی ملتی تھیں۔

حسن اتفاق سے شہنشاہ نے ایک اور تنظیمی تبدیلی کی اور اُسے اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس کی تما م شرائط مان لی گئیں۔ پانچ ہزار روبل تنخواہ کے ساتھ حکومت نے سابقہ عہدے سے ہٹانے پر اسے ساڑھے تین ہزار روبل بطور تلافی بھی دے دئے۔ ایک باوردی خانساماں، اس کا نائب، ایک باوردی دربان کے علاوہ مزید بہت سی مراعات پیش کی گئیں جو اس نے فوراً           بخوشی قبول کر لیں۔بیوی بچوں نے آنا چاہا تو اس نے انہیں روک دیا کیونکہ وہ کم سے کم خرچ میں اشرافیہ کی طرز پرمکان سجا کر انہیں حیران کرنا چاہتا تھا۔اس نے بڑی محنت سے معقول نرخوں پر نوادرات جمع کئے اورکم سے کم رقم لاگت سے گھر کوشاہانہ رنگ دے دیا۔ وہ اس سجاوٹ میں اتنا پر جوش تھا کہ نوکروں کی فوج ظفر موج ہوتے ہوئے بھی بذات خود عملی طور پر آرائش کر رہا تھا۔بچپن کی مہارت کام آرہی تھی۔خداکا کرنا ایسا ہوا کہ وہ گھر کا پردہ ٹھیک کرتے ہوئے سیڑھی کے سب سے اوپر والے زینے سے  اپنے سر کے بل گرگیا۔ کاریگر اور نوکرچاکر اسکی شدید چوٹ سے خوفزدہ ہو گئے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ گرنا اتنا خطرناک تھا کہ اس کی موت بھی ہو سکتی تھی۔لیکن وہ جوش و جذبے میں اس چوٹ کو کافی حد تک سہار گیا۔آرائش کے بارے میں وہ اپنے بیوی بچوں کومسلسل آگاہ کرتا رہتاتھا۔اسکی نئی نوکری کے بعد اس کی بہن اور بہنوئی کا اس کی بیوی اور بچوں سے رویہ اب خوشگوار ہو گیا تھا۔ٍ استقبالیہ، ہال، ڈرائنگ روم، بچوں کے مطالعہ کا کمرہ، اپنے مطالعہ کا کمرہ، لائبریری،ہر ایک کے الگ الگ سونے کے کمرے اور نوکروں کی رہائش گاہیں اعلیٰ معاشرت کا مقابلہ کرنے لگی تھیں۔ تزئین مکمل کرنے کے بعد اس نے بیوی بچوں کو بھی بلالیا۔ نئے گھرمیں اس نے اپنی بیوی اور بیٹی کے مشوروں  کو  پوری اہمیت  دی تھی۔ وہ گھر دیکھ کر ششدر رہ گئیں۔اس کی بیوی کا رویہ بالکل ایسا ہو گیا جیسے شادی کے پہلے سال میں تھا۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کا صبر رنگ لے آیا۔اپنے نئے عہدے پر مراعات کے ساتھ وہ دوبارہ مطمئن ہو گیاتھا۔

گھر کا ماحول خوشگوار ہو ا تو وہ تسلی سے اپنے محکمے کے سربراہ کی حیثیت سے تنظیم سازی میں لگ گیا۔ وہ صبح عدالت جا کر دوپہر کے کھانے پر گھر آنے لگا۔ کھانے کی میز پر ماحول بڑافرحت بخش ہوتا تھا۔ اسے زندگی کاایک بار پھر مزا آنے لگالیکن یہ سب   ریت کی دیوار ثابت ہوا۔دو مہینوں بعد چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی  اعتراضات اٹھنے لگے جیسے' ایک چمچ سیدھی اور دوسری الٹی کیوں پڑی ہے، دستر خوان پر سالن کا دھبہ کیوں پڑ گیا ہے،پانی زیادہ ٹھنڈا کیوں نہیں  ہے، کھانا گرم کیوں نہیں   ہے، نمک زیادہ یا کم یا کھانا بدذائقہ کیوں ہے، پردے کیوں ٹھیک سے نہیں ہٹائے گئے، دیوان کا سپرنگ کیوں ٹوٹ گیا؟ وغیرہ۔'

ایون  ایلچ وائلن اچھا بجاتا تھا۔ وہ کبھی  ترنگ  میں آکر اسے بجانے بیٹھتا تو بیوی منع کر دیتی۔ دوستوں کو کھانے پر بلاتا، برج کھیلتا، تھوڑی بہت سیاست پر بات کرتاتو وہ منہ بناتی۔ایک بار اس نے دوستوں کو بلایا تو اس کی بیوی نے            گھر میں کیک بنانے کا ارادہ ظاہر  کیا جبکہ ایون  نے وہ بات اپنے رتبے کے منافی سمجھی۔وہ اعلیٰ بیکری سے کیک منگوانا چاہتا تھا۔ ان دونوں کا مہمان آنے سے پہلے خوب جھگڑا ہوا مگر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

ایک دفعہ اعلیٰ خاندان کا مجسٹریٹ خوبصورت نوجوان اس کے گھر آیا۔اس کا نام فیڈر پیٹرشچف تھا۔ وہ اس کی بیٹی کا دوست تھا۔ان کے ساتھ اس کا نوجوان بیٹا دلادمیرایوانوو چ گولووین بھی تھا۔اس کے ذوق لباس او رسلجھی ہوئی گفتگو نے اسے متاًثر کیا۔اس کے بعد وہ اکثر ان کے گھر آنے جانے لگا۔

وقت بظاہر صحیح گزر رہا تھا لیکن گولووین خاندان میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ایون ایلچ کا مزاج روز روز کے جھگڑوں سے چڑچڑا رہنے لگا تھا۔اسے بے آرامی محسوس ہونے لگی۔ پھر کبھی کبھار ہول سے اٹھنے لگتے۔ منہ کا ذائقہ بھی خراب ہونے لگا۔ اس نے ان علامات کو نظرانداز کیا اور اپنے سرکاری فرائض کوبخوبی نبھانے پر توجہ رکھی۔اس نے اپنی ناساز طبیعت کا احساس کسی کو نہ ہونے دیا۔ اگر کبھی اشاروں کنایوں میں بیوی کو آگاہ کیا بھی تو اسکے جواب میں جلی کٹی سنیں۔آہستہ آہستہ میاں بیوی میں ناچاقی اور بڑھنے لگی۔ اب کی بار اس کی شروعات ایون ایلچ نے کی تھی۔ وہ جارح ہو تا جا رہا تھا۔پراسکوویا اب دفاعی وتیرہ اختیار کر تھی۔ جھگڑا چھوٹی موٹی باتوں سے شروع ہوتا اور بات بڑھ جاتی مثلاًپلیٹ صاف کیوں نہیں؟ ولادمیر نے بازو میز پر کیوں رکھے؟لیزا نے بالوں کی پونی کیوں بنائی؟ اس کی پسند کے مطابق بال کیوں نہیں بناتی؟ وغیرہ۔ ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار وہ پراسکوویا کو قرار دینے لگا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا تھا۔رفتہ رفتہ سب گھر والے اس کی بے جاتنقید کے عادی ہوگئے۔ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سےباہر نکال دیتے۔ ماں بچے،  باپ کو ظالم اور خود کو مظلوم سمجھنے لگا۔پراسکوویا خود ترسی کا شکار ہوگئی۔ وہ سمجھنے لگی کہ ایون سے شادی کر کے اس نے اپنے آپ سے زیادتی کر لی تھی۔اس کی زندگی ختم ہو گئی تھی۔اسے اپنے خاوند سے نفرت ہونے لگی اور خواہش کرنے لگی کہ کاش وہ مر جائے لیکن جب سوچتی کہ اس کے مرنے کے بعد آمدنی اور مراعات ختم ہو جائیں گی تو خیال بدل دیتی۔

خانگی تنازعات کے باوجود ا یون کی سرکاری کارکردگی میں رتی برابر اثر نہیں پڑا تھا۔وہ بڑے اعتمادسے اپنے عدالتی امور سر انجام دیتا رہا۔ منصفانہ انداز میں احکامات جاری کرتا رہا۔ایک بار اس نے بیوی کی بغیر غلطی خوب بے عزتی کی۔غصہ فرو ہوا تو اسے احساس ہوا کہ جھگڑا بے سبب تھا۔ اس نے بیوی سے زیادتی کر دی تھی تواس نے معافی مانگ لی اور کہا کہ طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس کی بیماری میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر سے رجوع کیااور باقاعدہ علاج شروع ہوگیا۔ دوائی کھانے کے بعد پہلے پہل تو تھوڑا بہت افاقہ ہوتا لیکن پھروہ بھی ہونا بند ہو گیا۔معالج بدلتے گئے، ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ تربیت یافتہ، یہاں تک کہ شاہی معالج بھی  آتے رہے۔کسی ایک کی تشخیص دوسرے سے نہ ملی۔ایک کا نسخہ دوسرے سے مختلف ہوتا۔ کوئی کہتا کہ اس کے گردوں کی چربی کم ہو گئی ہے، دوسرا کہتا کہ اس کی آنت میں غدود ہے، کوئی کہتا کہ اپینڈیکس ہے۔ کوئی کہتا کہ جو چوٹ اس کے سر میں آئی تھی وہ بگڑ گئی ہے۔ جتنے ڈاکٹر، اتنی ہی قسم کی  ادویات تھیں۔ تمام معالجین یہ دلاسہ دیتے تھے کہ اس کی بیماری قابل علاج ہے جبکہ حقیقت میں اس کامرض روز بروز بڑھتا گیا۔ درد جو پہلے خفیف ہوتا تھا، اس کی شدت میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ اگر وہ پہلے ہفتے میں ایک بارآزار ہوتا تو اب روز ہونے لگا تھا۔ پہلے زیادہ عرصہ آرام رہتا تھا،اب دردمسلسل رہنے لگا تھا۔وہ ہر ڈاکٹر سے کرید کرید کر اپنی بیماری کے بارے پوچھتا لیکن وہ اسے اتنا ہی بتاتے جتنا ضروری ہوتا۔ڈاکٹر اپنی عینکوں سے آنکھیں اوپر کرکے اس کی طرف ایسے مشتبہ انداز میں دیکھتے جیسے وہ عدالت میں ملزموں کو دیکھا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ حالت ایسی ہو گئی تھی کہ وہ عدالتی فرائض سر انجام دینے سے بھی قاصر ہو گیا۔وہ ڈاکٹروں کی گول مول باتوں کی اپنے انداز میں تشریح کرتا تو ایسا لگتا کہ اس کی بیماری سنگین ہے اور ناقابل علاج ہے۔ لیکن دوسرے لمحے لگتا کہ اسکی بیماری معمولی ہے۔ صرف درد کا مسئلہ ہے اوراگر وہ دور ہوگیا تو وہ بالکل تندرست ہو جائے گا۔مرض جو بھی تھا، تشخیص جو بھی تھی، دوا جو بھی کھاتا تھا، اس کے درد کا مداوا نہیں تھا۔درد کی شدت اتنی زیادہ ہوتی کہ اس کا دماغ ماؤف ہو جاتا تھا۔

ایک دن وہ  خصوصی معالج   سے  مل کر گھر لوٹا تو اس کی بیوی نے کمرے میں آکر ڈاکٹر سے ہونے والی گفتگو کے بارے پوچھا۔وہ درد سے تڑپ رہا تھا مگر اپنی تکلیف پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسے ڈاکٹر سے ہونے والی گفتگو بتا نے لگا کہ اس کی بیٹی نے خوبصورت  لباس پہنے ہاتھ میں بڑی ادا سے ہیٹ پکڑے اُس نوجوان فیڈر پیٹریشچف کے ساتھ داخل ہوئی۔ والدین کو باتیں کرتا دیکھ کر رک گئی اور ان کی باتیں سننے لگی۔ان کے پہناوے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کہیں جانے کے لئے تیار ہوئے تھے۔باتیں کرتے ہوئے پراسکوویا نے ایون کو بتایا کہ اگلے ہفتے مشہور و مقبول روسی اوپرا مغینہ میری برنٹاٹ شہر میں شو کرنے والی تھی۔ اسے سننے کے لئے جانا چاہئے۔ شاید اس سے اس کادل بہل جائے گا۔

ابھی اس نے اتنی بات کی ہی تھی کہ لیزا نے ماں سے اوپرا میں پہننے والی عینکوں کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں رکھی تھیں۔پراسکوویا نے جواب میں کہاکہ لیزا کو خود ہی معلوم ہونا چاہئے۔ماں بیٹی میں اس بات پر تکرارہونے لگی کہ وہ عینکیں کس کے پاس ہونی چاہئیں تھیں۔ اس بحث سے ماحول میں تھوڑا سا تناؤ پیدا ہو گیا۔بات ختم کرنے کے لئے فیڈرنے لیزا سے پوچھا کہ اسے مریم برنہارٹ کے کون سے گانے اچھے لگتے تھے۔ اس نے چند ایک کے نام لئے۔ لیزا کی پسند سے اختلاف کرتے ہوئے فیڈر نے دوسرے مقبول نمبر بتا دئیے۔ اس پر اُن دونوں میں بحث ہونے لگی۔ان کے شور سے ایون ایلچ نے ان کی طرف گھور کے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی تیکھی نگاہوں سے ان کو ہوش آیا اور موقع کی نزاکت دیکھ کر فوراً خاموش ہو گئے۔

چند گھنٹوں کی بات ہے۔بیماری کے ماحول سے چند گھنٹوں کے چھٹکارا ہی مل جائے گا اور ساتھ سیر بھی ہو جائے گی، پراسکوویا نے اپنی سابقہ بات کو بڑھاتے ہوئے کہا۔

'نہیں۔ میرا من نہیں کرتا۔ اگر جانا ہے تو تم چلی جاؤ،' ایون نے جواب دیا۔

'                    تمہارے بغیر جانا اچھا نہیں لگے گا۔؛

'کچھ نہیں ہوگا۔ چلی جاؤ۔' ایون نے بیزاری سے کہا۔

پراسکوویا در اصل یہی چاہتی تھی۔اس کا ایون کے پاس آنے کا مقصد ہی یہ تھا۔ ماں،بیٹی اور فیڈر اوپرا کے لئے باکس بک کرانے چلے گئے اور وہ اکیلا درد سے تڑپتا رہ گیا۔

ڈاکٹروں کی آرا اور ادویات کو باقاعدہ کھاتے کھاتے ا                      یو               ن                     ا                              یلچ خود بھی نیم حکیم بن گیا تھا۔ لیکن کوئی تدبیر اور دوائی اس کا درد ختم نہ کر پا رہی تھی۔ اب نہ صرف ٹیسیں ناقابل برداشت ہو جاتی تھیں بلکہ دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔وہ کبھی ایک طرف کروٹ لیتا اور کبھی دوسری طرف۔ افاقہ نہ ہو رہا تھا۔ایک دفعہ اتفاقاً اس کے پاؤں کسی اونچی پر چلے گئے تو اس کے درد میں کمی  محسوس ہوئی۔ آزمانے کے لئے اس نے کرسی کے با زو پر پاؤں رکھے تو آسودگی بر قرارا رہی۔ اس نے اب عادت بنا لی کہ اپنے پاؤں اونچی جگہ پر رکھے۔جیسے ہی وہ اپنے پاؤں بستر پر رکھتا تو تکلیف بڑھ جاتی۔

ایک دفعہ ایک خاتون نے اسے کسی ٹوٹکے کے بارے بتایاجس کے استعمال سے وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی تھی۔اس نے وہ دوائی بھی کھانا شروع کر دی۔ وہ ہر کسی کی بات سنتا اور خود سے اس پر عمل شروع کر دیتا۔فائدہ نہ ہونے پر انہیں کوستا۔ اس کاتمام لوگوں پر سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔درد ایک عذاب تھا جو کسی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔اسے اپنی بیوی اور بیٹی پر رنج ہوتا تھا کہ وہ اس کی بیماری کو ڈھکوسلا سمجھتی تھیں۔ وہ جھوٹ موٹ کی ہمدردی جتاتی تھیں لیکن اس نے ان سے اس بات کا کبھی گلہ نہ کیا۔اب درد انگیزی کے ساتھ اس کی ذائقہ اور لذت کی حس بھی ختم ہو گئی تھی۔

اس کی زندگی مزید درد آگین ہوتی گئی۔پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔شدید درد  شدید تر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا دورانیہ بھی بڑھنے لگا۔۔اس  کے  مرض میں اب نسیان بھی شامل ہو گیا۔وہ اپنی مرضی سے دوا  لاتا،اپنی نگرانی میں   رکھتا، رات کو دوا لیتا، اپنے تکیے کے نیچے رکھتا کہ صبح اٹھ کر کھائے گا لیکن صبح بھول جاتا۔ اگر اسے  باور کرایا جاتا کہ اس نے دوا لینی تھی تو وہ ناک  بھوں  چڑھالیتا۔ جب اسے باور کرایا جاتا کہ رات تک تو یہ دوا اسے مرغوب تھی تو وہ بھڑک اٹھتا۔پراسکوویا کو یقین تھا کہ اس کی بیماری خود ساختہ تھی اور دوسروں کی توجہ  حاصل کرنے  کے لئے ناٹک کرتا تھا۔ دنیا بھر کے بہترین معالج اس کا علاج کر رہے تھے۔وہ اپنی من مانی کرتا اور علاج  بیچ میں ہی چھوڑ دیتا۔ ایک دو دن کھا کے دوسری دوا شروع کر دیتا تھا۔وجہ کچھ بھی تھی لیکن یہ طے تھا کہ وہ کم و بیش ہر وقت شدید جسمانی اور ذہنی اذیت میں مبتلا رہتا تھا اوردرد سے بلبلاتا رہتا۔

اب عدالتوں میں بھی اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا تھا۔اسے لگتا کہ کہ اس کے رفقائے کار، وکلا اور سائل شکوک و شبہات سے اسے ایسے دیکھتے تھے جیسے اس کی کرسی خالی ہونے والی تھی۔وہ اس کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے۔وہ سمجھنے لگا کہ اس کی زندگی وبا آلود ہو گئی تھی اور وہ دوسرں کی زندگیوں کو بھی زہر آلود کر رہاتھا۔اس شعوری تفکر میں اس کی جسمانی تکلیف کے ساتھ ساتھ خوف اور دہشت  بھی شامل ہو جاتی تھی۔ وہ رات کو سونے کی کوشش کرتا تو فکر اور تکلیف سے سو نہ پاتا۔اذیت سے کروٹیں بدلتے بدلتے رات گزار دیتا اور صبح نہا دھو کر تیار ہو کر عدالت پہنچ جاتا۔وہاں وہ جسمانی تکلیف کے باوجود مقدمات سنتا، گواہان کے بیانات کی اعتباریت اور صحت بیان کا اندزہ لگاتا، وکلاء کی بحث سنتا، مبہم نقاط کی وضاحت طلب کرتا اور آئین و قانون کے مطابق فرمان جاری کرتا۔ گھر آکر پھر تنہائی کا شکار ہو جاتا تھا۔

مہینوں پر مہینے گزرتے گئے، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ایک بار وہ کچہری بھگتا کر آیا تو اس کا بہنوئی گھر پر موجود اپنا سامان کھول رہا تھا۔اس کی پشت اس کی طرف تھی۔ اس نے چاپوں کی آواز سنی تو اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر خوف کے سائے لہرا گئے۔ایسا لگتا تھا کہ اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ایون ایلچ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پھر اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا اور دیوار پر لٹکی ہوئی شادی کی تصویر کا جائزہ لیا تو خود بھی پریشان ہو گیا۔ اس تصویر کے مقابلے میں وہ زندہ لاش لگ رہا تھا۔وہ کپڑے بدل کر واپس آنے لگا تو بہنوئی کو کہتے ہوئے سنا:

'وہ چلتی پھرتی لاش ہے، اس کی آنکھوں میں جھانکو وہ بے نور ہیں۔اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟اس نے کون سا روگ پال لیا ہے ؟ اس کا کچھ کرو۔ کسی حاذق معالج سے اس کا علاج کرواؤ۔وہ جلد ہی رخصت ہو جائے گا۔'

یہ سنتے ہی اس کی رنگت کالی رات سے بھی سیاہ پڑگئی اور وہ پھر سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔اس کی تمام رات بے کلی میں گزری۔درد نے اسے سونے نہ دیا۔دور کہیں چنچل گانے کی آواز آرہی تھی۔اس نے خود کلامی میں کہا۔'لو دیکھو! ان کو مستی چڑھی ہوئی ہے۔ موت تو ان کو بھی آنی ہے۔میں مر جاؤں گا تو بھی وہ ایسے ہی کھیلتے کھلاتے رہیں گے۔رونقیں ایسے ہی رہیں گی۔وہ مر جائیں گے تو بھی ایسا ہی رہے گا۔۔یہ دنیاہے۔'

دن بھر عدالت میں اس کے گردے میں درد رہا۔ اس کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنا فرض نبھاتا رہا۔ اس کا درد ناقابلِ برداشت ہوا تو وہ نڈھال ہو کر اپنے چیمبر چلا گیا۔ وہاں بیٹھ کر انتظار کرتا رہا کہ تکلیف کم ہو تو گھر جائے۔ ڈاکٹر سے دوا لی اور وہ شام گئے گھر آیا تو ڈرائنگ روم میں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ اس نے دیکھا تو ان میں اس کی بیٹی کا مجسٹریٹ دوست بھی تھا۔اس نے ان سے ہیلو ہائے کی اور نڈھال ہو کربستر پر جا پڑا۔کچھ دیر بعد پراسکوویا اس کے پاس آئی اور اس کی طبیعت کا پوچھا۔ پھر بولی۔

' تم جانتے ہو کہ شہر میں  مشہور گلوکارہ آج  اپناشو پیش کرنے جارہی ہے۔میں  نے ایک باکس بک کرالیاہے ۔میرادل اوپرا جانے کو نہیں کر رہا۔ تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر جانے کو دل نہیں چاہ رہا لیکن لیزا او ر فیڈر پیٹروشچف کو اکیلے نہیں جانے دینا چاہتی۔ میں ان کے درمیان بیٹھوں گی۔ کیا مجھے ان کے درمیان نہیں بیٹھنا چاہئے؟ ''ایون خاموش رہا۔ وہ پھر بولی۔۔

'کیا ہم چلے جائیں ؟'

ایون نے نے ہاتھ کے اشارے سے کہا،  ' ہاں۔'

وہ سب ایون    کوتڑپتا چھوڑ کے چلے گئے اورآدھی رات کے بعد لوٹے۔ پراسکوویا دبے پاؤں اس کے کمرے میں آئی تو وہ اپنی ٹانگیں اونچی کر کے کرسی کے بازؤں پر رکھ کر کراہ رہا تھا۔اسے اندر آتے دیکھ کر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگاَ۔

معمول میں ایک باوردی دربان اسکی اور گھر کی صفائی کے لئے صبح صبح آیا کرتا تھا۔ وہ کموڈ اٹھا کر لے جاتا اور صاف کرکے دھو کر واپس رکھ دیتا اور اس کے جسم کو دھو دیتا تھا۔اس کے بعد وہ گھر کی صفائی اور دیگر کام کرتا تھا۔لیکن اس روز معاملہ مختلف تھا۔ دربان کو اس دن ایون نے چھٹی د ے رکھی تھی۔ صبح جب نائب باورچی گیر یسیم اپنی  وردی میں آ یا تواپنے مالک کو کموڈ پر بے بس بیٹھے دیکھا۔ اس کے چہرے پر کرب کے آثار تھے۔مالک نے مدد مانگی توا س نے بڑے پیار اور احتیاط سے اپنے آہنی بازوؤں سے اس کو بغیر دیکھے اٹھایا۔ اسے اچھی طرح صاف کر کے اس کا پاجامہ اونچا کیا اور اسے بستر پر لٹا دیا۔ پھر اس کی گندگی والا کموڈ اٹھایا اور دھونے کے لئے باہر لے جانے لگا۔ ایون نے اسے پیچھے سے پکارا۔ وہ گھبرا کر رک گیا اور سوچنے لگا کہ شاید اس سے کوئی خطا سر زد ہو گئی تھی۔

'مجھے افسوس ہے تمہیں یہ گندہ کام کرنا پڑا۔'

'جناب والا ایسی کوئی بات نہیں۔'

'اب تم کہاں جا رہے ہو؟'

'میں نے تمام گھریلو کام کرلئے ہیں اور اب کل کے لئے لکڑیاں کاٹنے کے لئے جا رہا ہوں۔'

'اچھا۔ کیا تم میری ٹانگوں    کو اونچا کر کے بیٹھ سکتے ہو؟'

'کیوں نہیں جناب!' اس نے بڑی احتیاط سے اس کی ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور کندھوں پر رکھ کر بیٹھ گیا۔ ایوان الیچ کو بڑا آرام محسوس ہوا ۔

'اور  لکڑیوں کا کیا ہو گا؟'

'                 فکر نہ کریں جناب۔ میں وہ بعد میں کر لوں گا'۔۔۔اس کی باتیں اور کام ایون کو اچھے لگے۔

وہ ایک کڑیل اور مضبوط جسم کا مالک تھا جو گاؤں سے نیا نیا آیا تھا۔اس کی مسیں ابھی پھوٹ رہی تھیں۔ گھر میں نائب خانساماں کے طور پر اسے ملازم رکھا گیا تھا۔۔ وہ نیک اور بہت رحم دل تھا۔ اسے شہر آنے سے پہلے گاؤں کے ایسے لوگوں نے، جو اونچی سوسائٹی میں ملازمت کر چکے تھے  ،سے،بڑے لوگوں کے رنگ ڈھنگ، سلیقہ، گفتگو کے انداز، پسند و ناپسند، عادات و اطوار، رہن سہن اور خوراک و طعام میں آداب وغیرہ کی اچھی طرح تربیت  لے کرشہر آیاتھا۔۔

اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ جب اسے زیادہ تکلیف ہوتی تو وہ گریسیم کو بلا لیتااور اپنی ٹانگیں ا س  کے کندھے پر رکھوا دیتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔ اسے اب اس سے باتیں کرنے والا شخص مل گیا تھا۔ جو اس کے دکھ سکھ میں ساتھی بن گیا تھا۔اسے آسودگی ملنے لگی تھی۔سب سے عمدہ بات یہ تھی کہ وہ سب کام اپنی مرضی اور محبت سے کرتا تھا۔

وہ اپنی بیوی بچوں، ڈاکٹروں اور دیگر احباب سے نالاں رہتا تھا۔ اس کے نزدیک وہ سب مکار تھے۔ دکھلاوا کرتے تھے۔ اس سے کسی کو محبت نہیں تھی۔ سب خانہ پری کرتے تھے۔وہ سب اس سے لاپرواہ ہو گئے تھے۔اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔صرف گریسیم ہی ایسا تھا جو اس کا پورا خیال رکھتا تھا۔وہ اس کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ کے ساری ساری رات بیٹھا رہتا۔ا                       یو               ن                     ا                              یلچ اسے کہتا بھی کہ جا کر سو جائے تو بھی نہ جاتا۔

'جناب۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں۔ میں بعد میں سو جاؤں گا۔ بیمار نہ ہوتے تو دوسری بات تھی لیکن اس وقت آپ کو اس چیز کی ضرورت ہے۔اگر میں تھوڑی سی تکلیف اٹھا رہا ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں'۔

وہ اپنے مالک کی تمام شکایات، درد اور دیگر تمام باتوں کو سچ مانتا تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ ایک دن سب نے مر جانا ہے۔ اگر وہ مرنے والے کے دردوں کا مداوا تھا تو خوشی کی بات تھی۔وہ چاہتا تھا کہ اس کاآخری وقت پر سکون ہو۔ وہ بغیر کسی دباؤ اور لالچ کے یہ مدد اپنی رضا سے  اس کی خدمت کر رہا تھا۔اس کے ذ ہن میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس پر کبھی کڑا وقت آئے تو شاید کوئی دوسرا اس کی مدد کو آ جائے۔

اس روزگریسیم رات بھر مالک کے پاؤں اپنے کندھے پر رکھنے کی ڈیوٹی سر انجام دے کر چلا گیا تھا۔ دوسرا ملازم  اپنی ڈیوٹی پر آ چکا تھا۔مشعلیں بجھا دی گئی تھیں۔پردے کھول دئیے گئے تھے اور وہ خاموشی سے صفائی کرنے لگ گیا تھا۔ وہ اشیاء کوقاعدے میں رکھنا چاہتا تھا۔ پھر اس نے صاحب کی صبح کے وقت کی چائے کے بارے میں دریافت کیا۔

'جناب والا۔کیا آپ چائے پینا پسند کریں گے؟'

'       نہیں۔'

'کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کو صوفے پر بٹھا دیا جائے؟'

'نہیں۔ مجھے تنہا چھوڑ دو۔'پھر ایون اایلچ نے ہاتھ اٹھا کر کسی شئے کی طرف اشارہ کیا۔

'جناب کیا چا ہئے؟'

ایوان نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ دربان نے گھڑی اٹھا کر اس پکڑا دی۔

'ساڑھے آٹھ بج گئے ہیں۔کیا سب لوگ جاگ گئے ہیں؟'

'نہیں جناب۔ صرف چھوٹے سرکار ولادمیر ہی جاگے تھے جو اب سکول جا چکے ہیں۔مادام پراسکوویا نے مجھے ہدایت کی تھی کہ آپ کہیں تو میں ان کو جگا دوں۔کیا میں انہیں جا کراٹھا دوں؟'

'نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں۔میرے ہاتھ منہ دھلا کر صاف کپڑے پہنا دو۔'

دربان نے آہستہ آہستہ کپڑے تبدیل کروائے تو وہ ایون             اپنا ڈھانچہ دیکھ کر لرز اٹھا۔اس کے بعد اس نے اس کے دانت صاف کروائے۔وقت، دنوں، مہینوں سے بے نیازاپنی رفتار سے گزررہا تھا۔اسے اس کا قطعاً احسا س نہ تھا کیونکہ اس کیلئے سب وقت ایک سے تھے۔ وہ تمام وقت دردوں سے تڑ پ رہا ہوتا تھا۔ اذیتیں سہہ سہہ کرسوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ وہ عالم برزخ میں تھا۔ نہ مر رہا تھا اور نہ ہی جی پا رہا تھا۔اسکی تکالیف میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔درد ایک لمحے کے لئے بھی کم نہیں ہوپاتا تھا۔ تاہم تھوڑا بہت زندگی کا احساس ابھی بھی پایا جاتا تھا۔ڈاکٹر بلاناغہ صبح اس کا معائنہ کرنے آتا تھا اور تسلی دے کر چلا جاتا تھا۔پراسکوویا اور ڈاکٹر ا س کی عادات کا تمسخر اڑاتے تھے۔

ڈاکٹر پر ڈاکٹر آتے گئے۔ بدل بدل کر ادویات دی جاتی رہیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔اسے اندر سے یقین تھا کہ وہ مر رہا تھا۔مزید زندہ نہیں رہ پائے گا لیکن شعوری طور پر اسے جھٹلا رہا تھا۔گو مگو کی کیفیت اس پر طا ری تھی۔ اسے مشہور فلسفی کیسیویٹڑکی ایک منطق یاد آئی جس میں اس نے کہا تھا کہ۔

قیس ایک آدمی ہے۔ آدمی فانی ہوتا ہے۔ اس لئے قیس بھی فانی ہے۔

اس طرح تو میں بھی آدمی ہوں اور مجھے بھی مرنا ہو گا لیکن میں عام آدمی تونہیں ہوں۔ میں سب سے نمایاں اور برتر ہوں۔اگرمیرے ساتھ بھی عام لوگوں  جیسا سلوک ہوا تو بہت تکلیف دہ بات ہو گی۔

اس طرح کے اوٹ پٹانگ خیالات آتے رہتے تھے۔حقیقت سے پہلو تہی کرتا رہتاتھا۔ایک احمقانہ سوچ ختم ہوتی تو دوسری آ موجود ہوتی۔علالت کی بنا پر اس نے لمبی چھٹی لے لی تھی۔صحت یاب ہو کر دوبارہ اپنی عدالت میں  لوگوں    کو دیکھنا چاہتا تھا جو اس کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ جن کی قسمتوں کا اس نے فیصلہ کرنا ہوتاتھا۔وہ ماضی کے تمام کام ایک بار پھر کرنا چاہتا تھا۔۔وہ مصمم ارادہ کرتا کہ معمول کے مطابق  اگر وہ پہلے اپنی مرضی کے مطابق سب کچھ کر سکتا تھا تو اب کیوں نہیں؟ وہ ہمت باندھتا لیکن لاغر پن اور دردوں کی وجہ سے کچھ نہ کر پاتا۔وہ اپنی بیماری پر دھیان نہیں دینا چاہتا تھا لیکن گردے یا آنتوں ہا بڑھے ہوئے غدود کی ٹیسیں اسے ہر کام سے باز رکھتی تھیں۔اس نے اپنی انتہائی قیمتی زندگی حقیر پردے کو سیدھا ٹانکنے میں برباد کر دی تھی، کے بارے سوچتا تو خود کو لعنت ملامت کرنے لگتا۔سوچ جو بھی تھی لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ درد،وہشت، اذیت، ڈر اور خوف اس کے دن رات کے ساتھی تھے۔اب تو حالت ایسی ہو گئی تھی کہ گریسیم کی رات بھر کی قربانی بھی اس کی مدد نہیں کرتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اب گریسیم اس کی خدمت سے اکتا گیا تھا۔ وہ اب بھی ساری رات اسی محبت اور خلوص سے اس کے پاؤں اپنے کندھے پر رکھ کر بیٹھا رہتا تھا لیکن اس کی اذیت کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی تھی۔ وہ اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔وہ رو رو کر نڈھا ل ہو گیا تو لیٹ گیا۔درد سے چھٹکارے کے لئے اس نے سونے والی دوا کھائی اور نیم بے ہوش ہو گیا۔

اس بات کو مزید دو ہفتے بیت گئے۔ اس دوران   فیڈر اپنے والدین کے ساتھ لیزا کا ہاتھ مانگنے کے لئے آگیا۔پراسکوویا نے اپنے میاں کو اس بارے بتایا۔ وہ بستر مرگ پر تھا۔اس کی حالت پہلے سے بھی بگڑی  ہوئی تھی۔وہ کراہ رہاتھا ، بات  سن کراس نے 'مجھے سہارا دو' کہا اور ڈگمگاتے قدموں سے ڈرائنگ روم گیا۔ اس نے سوچا کہ مرنے سے پہلے بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔انہوں نے          فیڈر  مجسٹریٹ کے ساتھ منگنی کے لئے ہاں کر دی۔اسے   اپنے سر سے بوجھ اترتے ہوئے محسوس ہوا۔وہ واپس اپنے کمرے میں آیا اور تکلیف سے نڈھال ہو کر گر پڑا۔اس کی بیوی نے اسے دوا کی یاد دہانی کروائی لیکن اس نے اس کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ مزید ایک لفظ بھی نہ بول پائی۔پراسکوویا کے ریشمی کپڑوں کی سرسراہٹ جب بھی سنتا تو وہ سمجھ جاتا کہ وہ اسکے زخموں پر نمک چھڑکنے آئی تھی۔وہ اسے سر سے پاؤں تک گھورتا۔ اس کے ڈیزائن والے ادارے کے  کپڑوں میں ، میک اپ بھرے چہرے،گھنے بالوں اور اس کی چمکتی آنکھوں کو غور سے دیکھتا تو اپنی تمام روح سے اسے نفرت کرنے لگتا۔ایک بار اس کی نزاعی حالت دیکھ کراس نے اسے تجویز دی:

'جین! میری جان جین ا                       یو               ن                     ا                              یلچ! میری خاطر ہی! اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ باقی سب لوگ بھی کرتے ہیں۔ گھر میں برکت کے لئے۔۔۔۔ کیا خیال ہے پادری کوبلالوں؟' بیوی نے پوچھا۔

ا                      یو               ن                     ا                              یلچنے اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔وہ سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ دنیا جس میں اس نے کسی وقت بھرپور زندگی گزاری تھی، سراسر دھوکہ تھی۔اس نے جب یہ سوچا تو اس کی تکلیف سوا ہو گئی۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔اس نے سر کی جنبش سے ہاں کہہ دیا۔

تھوڑی دیر بعد پادری آگیا او رمقدس انجیل کی آیات کی تلاوت کرنے لگا۔اس نے اس سے اپنی زندگی کے گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے اعتراف کروائے۔ دعا دی اور چلا گیا۔اسے اس وقت ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی کہ شایدمقدس کلام سے وہ بچ جائے گا۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔۔

'میں جینا چاہتا ہوں۔۔۔میں جینا چاہتا ہوں۔'

اس وقت پراسکوویا آگے بڑھی اور اسے کشفی کلام کی مبارک باد دی۔'                     سب کچھ خوش اسلوبی سے سر انجام دے دیا گیا تھا۔۔ وہ بولی۔۔

'تم پہلے سے بہتر محسوس کر رہے ہو ناں! فکر نہ کرو آگے تمہارے لئے آسانیا ں ہیں۔

اسکی بات سن کر اسے ایسا لگا کہ جیسے وہ اسے آخری سفر کا سندیسہ دے رہی ہو۔یہ بات سنتے ہی اس سے شدید نفرت پھر لوٹ آئی۔اب اسے پکا یقین ہو گیا کہ وہ بچ نہیں پائے گا۔اسے لگا کہ  آخری سفر آگیا ہے ۔وہ زندگی میں جو کرنا چاہتا تھا، نہ کر سکا۔اس نے پروسکوویا کی آنکھوں میں براہ راست دیکھا اور منہ پھیر کر چلایا۔۔

'چلی جاؤ۔'۔۔!ایون  نے چلا کرکہا اور وہ چلی گئی۔

اس کے آخری تین دنوں میں اس کے نزدیک وقت کا کوئی احساس نہ تھا۔ دن رات برابر تھے۔ وہ اندھے غار میں دھنستا جا رہا تھا جو آگے سے بند تھا۔ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔اسے کوئی نادیدہ قوت بند گلی میں دھکیل رہی تھی۔ وہ زور لگا کر اپنا سر باہر نکالنے کی کوشش کرتا تووہ قوت پھر اندر دھکیل دیتی تھی۔ وہ شدید مزاحمت کر کے سر باہر نکالتا تو پھر اسکا سر غار میں دھکیل دیا جاتا۔اس کے بعد اس کے گردو ں،پیٹ، سینے میں ایسی ٹیسیں اٹھیں کہ وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔ وہ پورے پھیپھڑ ے پھاڑ کے چیخنے لگا۔اس کے چیخنے کی دھاڑ کوسوں دورسنی جا سکتی تھی۔ جس وقت اس نے چلا کر اپنی بیوی سے’چلی جاؤ۔۔۔ یہاں سے چلی جاؤ‘ کہا تھا، اسے یقین کامل ہوگیا تھا کہ اس کی آخری گھڑی آن پہنچی تھی۔وہ زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔لیکن اس کے ذہن میں وہ سوال اب بھی تھے جن کا وہ جواب چاہتا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کیوں نہیں جی پایا؟ اس نے اپنی زندگی اس نہج پر نہیں گزاری جیسے اسے گزارنی چاہئے تھی۔اس نے گھر کو خود کیوں سجایا۔ ایسا نہ کیا ہو تا تو بات آج کے برعکس ہوتی۔ لوگوں نے اس سے غداری کیوں کی؟ وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا۔وہ درد میں ہی خود کلامی کر رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ ا اور متواترچومنے لگا۔اس نے اچٹتی نگاہ ادھرڈالی تو وہ ولادمیر تھا۔اس کا بیٹا! اسے اس پر پر پیار آیا۔ کسی نے اسے پوری قوت سے بند گلی میں پھر کھینچا۔وہ تکلیف برداشت نہ کر سکا۔

اوہ! اوہ! اوہ! وہ نرخرے سے مختلف لہجوں اور مختلف سروں سے آوازیں نکالتا رہا۔وہ شکاری کے زخموں سے چور ہرن والی چیخیں تھیں۔ اس کی چنگھاڑ میں دکھ اور روح تڑپا دینے والی بلبلاتی اذیت پنہاں تھی۔وہ اپنی چیخوں میں ’او ہ!‘ پر زور دے رہا تھا۔

اسے یاد آیا کہ وہ وقت اس کی آخری سانسوں سے تقریباً ً دو گھنٹے پہلے کا تھا۔ جب اس نے اپنے بیٹے کے لمس کو محسوس کیا تھا۔ اس کا بیٹا ولادمیراپنے کندھے پر سکول کے بیگ سمیت اس کے کمرے میں آیاتھا ۔ وہ اس وقت ان نادیدہ قوتوں سے پنجہ آزمائی کر رہا تھا۔ خود کو ان قوتوں سے چھڑانے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ ہوا میں لہرایاتھا تو ولادمیر کے سر پر لگاتھا۔ اس نے اسے تھام لیا اور بے تحاشا چومنے لگا۔اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی تھی۔اس پر پیار آگیا۔ اسی دوران اس نے پراسکوویا اور لیزا کو بھی وہاں پایا۔ان کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ایون کو اس وقت وہ بہت اچھی لگیں اور ان پر بھی اسے ترس آگیا۔اس نے اشا رے سے کہا۔ سب کچھ انجام کو پہنچا۔ وہ ان سب سے معافی مانگنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہ پایا۔اس وقت وہ افسوس کررہے تھے۔وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد ان کیلئے سب ٹھیک ہو جائے گا۔اس دوران اس نے محسوس کیا کہ قوتوں نے چاروں طرف سے اس پر حملہ کر دیا تھا۔ وہ غار کے اندر دھنستا چلا گیا۔۔۔ بالآخر اس کی تمام تکالیف اور درد ختم ہو گئے تھے۔۔۔۔ہر طرف آرام ہی آرام، سکون ہی سکون۔کہاں کا درد۔۔کہاں کی تکلیف!۔۔ اس نے نروان حاصل کر لیا تھا۔

جسٹس پیٹر کو پتہ تھا کہ آخری رسومات کیسے ادا کرنی ہیں۔ وہ تمام وقت اپنی دوستی کا مان رکھنے کے لئے میت کے ساتھ رہا۔رسومات کے اختتام پر گریسیم شرکا ء کو سموری کوٹ پہنا رہا تھا۔پیٹر کوکوٹ پہنانے لگا تو وہ بولا۔

           'میرے دوست گریسیم۔ یہ بہت اندوہناک واقعہ ہے۔'

خدا کی یہی مرضی تھی جناب۔سب نے ایک دن جانا ہے۔

اس نے جلدی سے پیٹر کے لئے  باہر جانے کا دروازہ کھولا۔ کوچوان کو بلایا اور بڑے احترام سے اسے بگھی میں سوارہونے میں مدد کی اور دوبارہ پورچ کی طرف چلا گیا۔غم میں شریک ہر سوگوار کو احترام سے رخصت کرنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔

جسٹس پیٹر گھر واپس گھر پہنچا اور خوشی سے بیوی کو گلے لگا لیا اور بولا۔۔

مبارک ہو! تمہارے بھائی کے راستے کا کانٹا نکل گیا ہے۔ ایک بھاری پتھر ہٹ گیا۔اب میں تمہارے تمام دکھ دور کر دوں گا۔ جہاں چاہو گی، جیسے چاہو گی 

تمہارے بھائی کی تقرری کر دوں گا۔ ایک بھاری پتھر ہٹ گیا ہے۔ میں ا                      یو               ن                  کی جگہ لے رہا ہوں۔۔۔۔۔

 


 

 

 

 

Life history

 

Anton Pavlovich  Chekov

 Winner of Pushkin Prize

 

حالاتِ زندگی

اینٹن چیخوف 1860 کو     روس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ' ٹیگ آنروگ'        میں پیداہوا۔وہ چھ بچوں میں تیسرے نمبرپرتھا۔ اس کے والد کانام پاول ییگورووچ  چیخوف' تھاجو   ایک غلام کابیٹاتھا جو گراسری سٹور چلاتاتھا۔وہ  سخت گیر باپ تھا۔ اس کی والدہ نزدیکی گاؤں سے تھی جس کاباپ سوداگر تھا۔اس کی والدہ ایک عمدہ  داستان گوتھی۔اس کا نانا روس بھر میں گھوم پھر کر  تجارت کرتاتھا۔اس کی والدہ بھی  اس کے ساتھ جگہ جگہ گھومتی رہتی تھی۔وہ بڑی فصاحت سے اپنے سفرنامے سنایا کرتی تھی۔چیخوف کا مانناتھا کہ ذہانت اس نے اپنے والد اور داستان گوئی  اپنی والدہ سے سیکھی ت۔

اینٹن نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں  کے یونانی سکول   سے حاصل کی۔وہ حمد سنانے والوں میں شامل تھااسلئے اس کی تعلیم کے تمام اخراجات کیتھولک  اٹھاتا تھا۔ جب وہ زرا براہواتو وہ اپنے مذہب کے خلاف ہوگیا جسے مسیحی انتطامیہ نے برامنایا،۔ وہاں وہ  جب پندرہ سال  کاتھا تو اس نے اپنی مسیحی حمدکی  گلوگاری بند کردی جس  سے اس کاوظیفہ ختم کرکے فیل کردیاگیا۔ اسی دوران اس کے والد نے  1876 میں ا' ٹیگ آنروگ'     میں نئے مکان کی تعمیر شروع کروادی۔  ایک تو اس  کے والدنے  مکان کو ضرورت سے زیادہ وسیع کرلیا اور دوسرا  یہ کہ  ٹھیکیدار نے اس سے بددیانتی  کی اور وہ دیوالیہ ہوگیا۔قرض خواہوں کے تقاضوں اور گرفتاری کے خوف سے اس نے  ' ٹیگ آنروگ'       چھوڑدیا اور پورے  خاندان کو لے کر  ماسکو منتقل ہوگیا۔وہاں وہ عسرت کی زندگی گزارنے لگے۔اینٹن     ' ٹیگ آنروگ'      میں ہی رہ گیا۔اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا۔وہ اپنا تعلیمی خرچہ   محنت  کشی   سے،ٹیوشن ،اخبارات میں  خاکہ کشی اور مضامین لکھ کراور چھوٹے موٹے کام کرکے کرنے لگا۔اگر کبھی اس کےپاس کوئی رقم بچ جاتی  تووہ وہ اپنے باپ کی مدد کےلئے ماسکوبھیج دیتا۔ان دنوں اس نے ڈان کویکزوٹ کے مصنف سوانتے،  ٹرگنیف، گونچاروف اور شوپنہار کامطالعہ کیا اورایک مزاحیہ ڈرامہ لکھا۔اس نے کئی محبتیں کیں جن میں ایک تو اس کےاستاد کی بیوی تھی۔1879 میں اس نے ہائی سکول مکمل کیا اور ماسکو چلاآیا۔ اس کاارادہ  ڈاکٹر بننے کاتھااور 1884 میں  اسے ڈاکٹر لائسنس مل گیا۔1884 اور1885 میں اسے ٹی بی ہوگئی۔اس دوران اس نے ہفتہ وار جرائد کےلئے لکھناشروع کیااور کافی پیسے کمانے لگا۔ایک امیرکبیرشخص الیکسی سووری نے اسے اپنے  اخبار میں تین گنازیادہ مشاہرے پر رکھ لیا۔

اس نے جاپان کے جاپان کےشمال کاسفر کیاجوروس کاایک دوردراز مقام   ' جزیرہ              ساکھالین '        اور جزیرہ ' کاٹٹورگ ا'   تھا۔ اس کامقصد وہاں کے باشنوں کی معاشی اور معاشرتی اور نفسیاتی  مشکلات   کی نوعیت معلوم کرناتھا۔۔ ان مقامات پر  سزایافتہ خاندان رہتے تھے۔یہاں وہ بہت بری زندگی گزاررہےتھے۔وہاں جبراً  عصمت دری کروائی جاتی تھی۔اسے معلوم ہواکہ ان کے مسائل بہت پیچیدہ تھے۔ اس نے انہیں بڑی خوبصورتی سے اپنے افسانوں میں بیان کیا۔ اس نے ان کی مشکلات  اور ان کے تدارک کےلئے حکومت کوتجاویز پیش کیں۔وہ انسان دوست تھااور ہرممکن کوشش کرتا کہ مریضوں کا مفت علاج کرے۔

اس کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔

Winter Sleep;Vanya on 42nd Street; Dark Eyes; ;Black  Sabbah; Summer Stoem; Champ libre …IMD 6; The Shooting Party; Sakhalin Island; The Story of a Nobody etc

ہیں۔وہ ٹالسٹائی کا زبردست مداح تھا۔جارج برنارڈ شا  کو پسند کرتا تھا۔ شہرہ آفاق ادیب ولادمیر  نیبوکوف اس کا ناقد تھا لیکن  وہ بھی اس  خصوصیت کا معترف تھا کہ اس کی کہانیوں کی تعریف کرے۔ آ لیڈی ود اے ڈاگ ' اس کا بہترین افسانہ شمار کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے پیچیدہ مسائل کا موضوع چنتاہے  جس میں کوئی شخص کسی دوسرے سے اہم ترین معاملات تسلسل میں لکھتاہے۔ The Seagull; Three Sisters

1904 میں وہ ٹی بی سے فوت ہوا۔

 

 


Popular posts from this blog