وہ شئے جو مجھے سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے ( لائیڈ جونز) Llyod Jones. The Thing That Distresses Me the most


 

 وہ شئے جومجھے سب سے زیادہ  تکلیف پہنچاتی ہے

 

The Thing That Distresses Me The Most

By

Llyod Jones

Newzealand

مترجم:غلام محی الدین

قصہ بیان کرنے سے پہلے مجھے یہ بتاناہے کہ میرامیاں سٹوارٹ براآدمی نہیں۔میں اس کے دوستوں  کے بارے زیادہ نہیں جانتی۔اس نے ڈان سی ورڈ،فل سمرون اور جیمز مور کے ساتھ مل کرایک انجینرنگ کمپنی بنارکھی ہے۔ان کی ہرسال ایک میٹنگ ہوتی ہے۔ڈان آک لینڈ سے اور باقی دونوں جنوب سے آتے ہیں۔میٹنگ   کی میزبانی باری باری کی جاتی ہے۔امسال سٹوارٹ کے ٹورنٹو دفتر میں پروگرام طے تھا۔ وہ چاروں  انجینرنگ کےاپنےاپنےشعبوں میں ماہرتھےاگرچہ ان کی عمروں میں فرق تھالیکن سب تجارتی امور پر کمپنی  کی   مشکلات اور اس کی ترقی کےلئے سنجیدگی سےمنصوبہ بندی کرتے تھے۔

ان چاروں میں ڈان سب سے چھوٹاتھا ۔وہ ان میں سب سے کم عمرچنچل جوان تھااور آکلینڈ سے آیا تھا ۔ اسے سب  اسی نام سے پکارتے تھے۔جیمز کوِجم اورِفل کو'ماکا' کہہ کرپکاراجاتا تھا۔ سٹوارٹ ان سب میں بڑاتھا۔اس کی عمر اکیالیس برس تھی جبکہ باقی دونوں  چھتیس  سینتیس کے پیٹے میں تھے۔میں ان کے بارےمیں کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی۔ڈان سے میں ایک بارملی تھی جبکہ باقی دونوں سے ٹیلیفون پرایک دوبار بات ہوئی تھی۔

ہماری دوبیٹیاں ہیں ۔تیرہ سالہ بیلا اور گیارہ سالہ کلارا۔ہم  میاں بیوی  خوش خوش زندگی گزار رہے تھے۔

کرسمس  کچھ ہفتوں کی دوری پر تھا۔اس بارچونکہ اکٹھ سٹوارٹ کےدفتر میں ہورہاتھااس لئے ان کی خدمت گزاری  کاخیال رکھنابنتاتھا۔سکول سے واپسی پر میں اس کے دفتر سے ہوتی ہوئی گھر آئی۔  اس کے دفترکےاندرکھڑکی سے دیکھاجاسکتا تھا جو  سڑک پر کھلتی تھی۔میں نےدیکھاوہ چاروں  ایک میزپربیٹھے بڑی سنجیدگی سے کسی موضوع پر بحث کررہے تھے۔

میں نے دستک دی اوراندرداخل ہوگئی ۔ایساتاثر ابھراجیسے کوئی ٹولہ کسی واردات کی تیاری کررہاہو۔میں نے کھانےپینےکاسامان دیاتووہ مشکور نظرآئے۔مجھے بھی اچھا لگاکہ میں نے صحیح وقت پرسینڈوچ پہنچا دئیےتھے ۔ ڈان اٹھا مجھے گلےملااوررخسارپراحتراماً بوسہ لیا۔سٹوارٹ نے باقی دونوں کاتعارف کروایا۔ باہربچیاں کارمیں میراانتظارکررہی تھیں اسلئے میں فوراًلوٹ آئی۔

اس وقت سہ پہرکے پانچ بجے تھے۔اس کے دفتر سےباہرآکر خیال آیاکہ مہمانوں کے لئے رات کے کھانےکا بندوبست کرناہے۔ کیاانہیں گھرکاکھاناکھلاناہے یاہوٹل کا۔میں نے اس معاملے میں اپنے میاں سے پوچھناچاہا۔میں نےسڑک سے دیکھاتووہ چاروں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ان کے ہاتھوں میں بیئرتھی۔وہ کسی بات پرہنس رہے تھے۔سٹوارٹ نے اپنے منہ پرہاتھ رکھاتھااور ہنسی دبانے کی کوشش کررہاتھا۔ڈان  قہقہہ لگاتے ہوئے پیچھے جھکاتھا۔اس کا منہ پوراکھلاتھا۔میں نے مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھااورسوچاکہ سٹوارٹ اپناپروگرام فون کرکے یا ٹیکسٹ کرکےبتادے گااور چلی آئی۔

بیلااورکلاراکارمیں بیٹھی  سکول کےڈرامے کی مشق کررہی تھیں۔گرمیوں میں انہوں نے دھوپ کافی سینک لی تھی اور ان کی جلدگندمی ہوگئی تھی۔گھرآکرمیں نےانہیں نہانے کوبولا اور انہیں وہ کریم دی جوان کی نانی  جسم کے ان حصوں پرملاکرتی تھی جودھوپ کی شعاؤں سےجل جاتےتھے۔میں ان کے کھانے کے لئے میٹھاتیارکرنے لگی۔بیلانے ضد کی کہ اس نے پیزاکھاناہے۔میں نے اپنےمن میں سوچاکہ کچھ انتظارکرلوں شائد سٹوارٹ کوئی ہدائت دے تومہمانوں اوربچوں کے لئے اکٹھاہی کھانالےلوں۔یہ بھی ممکن تھاکہ مہمانوں کےساتھ ہمیں بھی  سپرمارکیٹ جاکران کےساتھ شرکت کرنا پڑے ۔اس لئے میں رک گئی۔بچیوں کادھیان بٹانے کے لئے انہیں ٹی  وی لگادیا۔اس دوران میں نے ڈنرکاپروگرام پوچھنے کےلئے اسے فون کرنا چاہاتوسوچاکہ اگروہ کسی اہم مسئلے پرگفتگو کررہےہوں توان کے کام میں مداخلت  ہوگی ۔اسلئے ارادہ ملتوی کردیا۔پھر میں نےاسے ٹیکسٹ کرنے کے موبائیل اٹھایا تودیکھاکہ میز پر کچھ دستاویزات کے ساتھ اس کافون بھی پڑاتھا۔

سات بجےتک جب کوئی پیغام نہ آیاتومیں پیزالانے نکل پڑی جواسی مال میں تھا۔بچیاں میرے ساتھ گھریلو کپڑوں میں تھیں۔پیزا کی دکان میں چھ سات لوگ موجود تھے۔آرڈر دینے کے بعد میں نے سوچا کہ سٹوارٹ  کےدفتر جواسی عمارت میں تھاہوآئیں۔وہاں گئیں توتالہ لگاتھا۔ ایس۔رچرڈز انجنیئراینڈ کوانٹیٹی سرویئرْ  نام کی کاروبار کی تختی منہ چڑارہی تھی۔بچیوں نےپوچھاکہ اباکے دفترکیوں آئیں تومیں  نےکہاکہ ایسےہی۔

میراذاتی خیال تھاکہ کام ختم ہونے کے بعدوہ پینےپلانےچلےگئے ہوں گے اور سٹوارٹ  انہیں فارغ کرکےجلد ہی  گھر آجائے گا۔گھرآکرمیں نےپیزامیزپررکھدیا۔بچیاں اس پرٹوٹ پڑیں۔میں نےفون اٹھایاتوبیلانے منہ میں بڑاسا

ٹکڑاڈالتے ہوئےمجھےگھوراتومیں نےکریڈل پر واپس رکھ دیا۔ ایک گلاس میں شراب ڈال کرپینے لگی۔ میراذہن سٹوارٹ پر ہی ٹکاہواتھا۔

ہفتہ کی شب تھی۔پروگرام کے مطابق ٹی وی پرفلم دیکھناشروع کردی جب دس بجےتومیں نےانہیں زبردستی سلادیاکیونکہ اس سے زیادہ دیر سے جاگنے کی اجازت نہیں تھی۔پروگرام کاپتہ  نہ ہونے اور سٹوارٹ اور اس کے مہمانوں  کے بارے اطلاع نہ ہونے سےفکرمند ہونے لگی۔شائد وہ کسی اہم معاملے میں مصروف ہوں اس لئےچپ رہی۔ان کی طرف سےکوئی اطلاع نہ آئی۔ اورہفتہ بھر کی لانڈری پڑی تھی۔سوچا کہ رات کو ہی کپڑے دھوکراپناکام ختم کرلوں۔

ہماراگھر مضافات میں  تھا۔شہری  ہنگاموں کا شور مدھم ہوکر ہم تک پہنچتارہتاتھا۔ مطلع ابرآلود تھا۔شہر ایک  بیمارشخص کی طرح زرد زرد تھا۔پولیس کے ہارن کی آواز آئی جوہم سے دوگلیاں دور تھی اور تیزی سے ہماری طرف آ رہی تھی۔ایک  لڑکا زورزورسےچیخ رہاتھاجوماحول کو چیرتی جارہی تھی۔مجھے تشویش ہوئی لیکن پولیس کی گاڑی ہمارے پاس آنے سے پہلے ہی مڑگئی ۔

دھلائی کےکپڑے مشین میں ڈال کرمیں نے موٹر چلادی۔کچھ دیر وہاں کھڑی رہی۔میرے ہاتھوںمیں اس وقت سٹوارٹ کی کچھ میلی قمیضیں تھیں لیکن میں نے گھر سے باہر ہونے والے شور پر دھیان دے رکھاتھااور ہرشئے کی سن گن لےرہی تھی۔سٹوارٹ  نے ابھی تک کوئی اطلاع نہ دی تھی اس لئے مجھے اس کی فکرہونے لگی تھی۔میں نے سوچاکہ اس کےآنے کاآدھی رات تک انتظار کرلیتی ہوں۔سوئی چیونٹی کی رفتار سے حرکت کررہی تھی۔رات کے بار ہ بجے تک نہ خود  آیااور نہ ہی  کوئی پیغام بھیجاتو میرادل انجانے خوف سے گھبرانے لگااوراس اضطراب میں پولیس کوفون کردیا۔دوسری طرف  ایک خاتون افسر تھی ۔اسے بتایاکہ میراخاوند ابھی تک گھرنہیں آیااور پوچھاکہ میراخاوند اس  وقت کہاں ہے میں نہیں جانتی ۔اس نے پوچھا کب سے گم ہواہے ۔

 میں نےاسے چندگھنٹے پہلے اس کے تجارتی شراکت داروں کےساتھ اس کے دفتر میں دیکھاتھا۔

کیا اس وقت اسے ان سے کوئی خطرہ تھااس نے پوچھا۔

میں نے کہا۔ نہیں۔وہ سب بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔

دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔پھر اس نے کہاکہ وہ گم نہیں ہوا۔ بات توسچ تھی کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ابھی تک گھر نہیں پہنچاتھا۔انتظار کرو۔میں نے اس سے معافی مانگی اور فون رکھ دیا۔

اب سوائے سونےکےاورچارہ نہیں تھا۔میں نے ایک کتاب پکڑی اور سواایک بجے تک پڑھتی رہی۔پھر مجھے نیند آگئی اور پھر کچھ دیربعدہڑبڑاکراٹھ بیٹھی۔ناگوار خیالات باربار آرہے تھے۔دعائیں مانگ رہی تھی کہ محفوظ ہو۔ایک انجانی تشویش ہونے لگی تھی۔

میں اٹھی ۔اس وقت صبح کے سات بجے تھے۔ فون کے پاس گئی ۔خیال تھاکہ اس نے دیر کی وجہ بتادی ہوگی اور کب آئے گاکی اطلاع کردی ہوگی لیکن اس پرکوئی پیغام نہیں آیاتھا۔ایک بار پھرسوچاکہ پولیس کوفون کروں لیکن دوبارہ خیال آیاکہ کیاکہوں گی۔اس لئے الجھن کاشکارہوگئی۔میں نےسرجھٹکااوربرے خیالات کوذہن سے نکال کرسوگئی ۔جاگی تو سیڑھیوں میں سورج اپنی بہاردکھارہاتھا۔میں نےسوچاشائد وہ اس دوران گیسٹ روم میں سوگیاہو۔ میری نیند میں خلل نہ ڈالناچاہتاہولیکن سٹوارٹ اس وقت تک بھی نہیں آیاتھا۔میں ٹی وی دیکھنے لگ گئی ۔

اب دن کے گیارہ بج چکے تھے۔مجھےاس کی سبز وین ہمارے ڈرائیووےپرآتی دکھائی دی۔میں لاؤنج کی کھڑکی سےاسےدیکھ رہی تھی۔دن کی تیزروشنی میں وہ پیلاپڑاہواتھا۔میں نے اسے گاڑی سے اترکر پورچ سے اندر آتے دیکھا۔وہ ڈگمگاتے قدموں سے اندر آرہاتھا۔اس نے دھوپ کاچشمہ لگارکھاتھا۔میں ہال میں آگئی۔دروازے میں چابی لگنے کی آوازسنی ۔دروازہ مجھے خود ہی کھول دیناچاہئے تھامگر پتہ نہیں میں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔وہ جھولتے ہوئے اندرداخل ہوا۔ وہ نشے میں دھت تھا۔اس کی قمیض پھٹی ہوئی تھی۔ اس   کی ایک گال کھرچی ہوئی تھی اور خون جماہواتھا۔

میں بیمارہوں۔سٹوارٹ نے کہا۔

ایک لمحہ میں نےیہ سوچاکہ وہ بہانے بازی کررہاہےلیکن میں چپ رہی مگر جب اس نے اپناسر دیوارپرمارناشروع کیااورایک ہاتھ پیٹ پررکھ کرملنےلگاتومیں نے یقین کرلیاکہ وہ واقعی بیمار ہے۔

میں نےاستفہامیہ انداز میں کہاکہ آج اتوارہےاور تم گیارہ بجےآئے ہوتواس نےاپناایک ہاتھ اوپرکیااورمجھےبولنے سےمنع کردیا۔

مجھے افسوس ہے۔۔۔مجھے واقعی افسوس ہے۔ رات مجھ پرگراں گزری ہے۔

رات بھر گھر سے غائب رہنے کی کیامنطق پیش کی ہے۔وہ اپنی غیر حاضری اور  خراب حالت کاذمہ دار رات کوقراردےرہاتھا۔یعنی اگروہ رات بھرگھرنہیں آیاتواس کے نزدیک قصوروار رات تھی جوایک بیل کی مانندتھی جواس سےلڑی تھی اوراسےبغیرکسی مقابلےکےچاروں شانےچت کردیاتھا۔صبح اس کی آنکھی اور فوراًگھرچلاآیا۔۔۔اس کی بات کامطلب تویہی نکلتاتھا۔

میں اس کی منطق پرچپ رہی اور میں حیران بھی تھی کہ میں نےاس وقت خودپرکیسے ضبط پایا۔میں نے اس کی بات نظراندازکرتے ہوئےپوچھا۔کافی بنادوں۔

نہیں۔نہیں۔خدارانہیں۔اس نےکیچڑبھرابازولہرایا۔

میں نے اسےغسل کرنے کاکہا۔اس کی مخدوش حالت کی بناپراسے نہانے کے لئے تیارکیا۔وہ غسل خانے کے ٹب میں ایک مردہ شخص کی طرح لیٹا رہا۔میں نے کپڑاگیلاکرکےاس کے زخم کوپونچھااورجمےہوئے خون کو رگڑکرصاف کیا۔قرائن یہ بتارہے تھے کہ اس کی لڑائی ہوئی تھی ۔دھینگا مشتی کے دوران  اس کے چہرے پرکوئی تیزدھار آلہ لگاتھاجس نے اس کی گال چیر دی تھی۔میں  دیکھ کراور سوچ کرپریشان ہوگئی ۔ اس جیسا سنجیدہ ، مہذب اور مدبر کسی سے جاہلوں کی طرح بھڑے گا،سوچ سے باہر تھا۔یہ بات مضحکہ خیزاورناقابل یقین لگتی تھی۔اگر یہ سچ تھاکہ واقعتاًجھگڑاکیاتھاتوبات دورتک جاتی تھی۔میرے خواب وخیال میں بھی نہیں آیاتھاکہ میراخاوند بازاری گھٹیالوگوں سے زورآزمائی کرے گااور چوٹیں کھاکرآئے گا۔اپنی سوچیں خود تک محدود رکھتے ہوئے اس کوفرسٹ ایڈ دی۔  دوگولیاں ڈسپرین  دیں۔واقعے کی تفصیل جاننے کے لئے انتظار کیالیکن وہ ایک لفظ بھی آگے نہ بولا۔

میں سامنےوالے کمرے میں گئی۔ٹی وی بند کیا۔بچیوں کوکھیلنےکےلئےبھیج دیا۔سارے پردے چڑھا دئیے ۔وہ نہانے چلاگیا۔تھوڑی دیربعدوہ کمرپرتولیہ باندھ کرباہرآیا۔میں اس کےگال پر کشیدہ کاری غور سے دیکھ رہی تھی۔وہ جھینپ گیااورکہاایساکچھ نہیں ہواجوتم سوچ رہی ہو۔اس نے صرف یہ کہا۔ میں نے محسوس کیاکہ اسے آرام کی سخت ضرورت تھی۔

 اس نے کہاکہ اسے نیند آئی ہے اوراٹھنے کے بعد اس حادثے  کی تفصیل بیان کرے گا۔میں چپ رہی ۔اس کی خراب حالت  کے پیش نظر تفصیل  نہ پوچھی اورکہااپنی نیند پوری کرلے۔

بیلاکی کسی کلاس فیلو کی برتھ ڈے تھی۔میں اسے وہاں لےگئی۔رستے میں  برتھ ڈے بچی کے لئے تحفے کے لئے ایک کتاب خریدی۔کلاراکواپنی بہن کے گھر اتارا اور واپس آگئی۔

گھر آئی تو سٹوارٹ اٹھ چکاتھا۔وہ باورچی خانے میں کیتلی میں پانی ابلنے کاانتظارکررہاتھا۔میں اس کےپاس گئی تواس نے میری طرف نظراٹھاکربھی نہ دیکھا۔ میں نے کرسی کھینچی اوربیٹھ گئی۔سٹوارٹ نے از خود بولناشروع کیا۔

کاروبار طے شدہ منصوبے سے زیادہ ترقی کررہاتھا۔ ہم سب خوش تھے۔سوچاکہ کامیابی میں پاٹی کاحق تو بنتاہے۔ہمارے گروہ کے سب سے کم عمر انجینئر ڈان  نے اصرار کیاکہ کسی بار جایاجائے۔ وہ ہماری ٹیم کا لیڈر بن گیا۔ہم سب اس کے ساتھ ہولئے۔اس کے مشوروں پرعمل کرنے لگے۔واقعات کاسلسلہ چل پڑا۔ایک کے بعددوسرےمےخانے جاتے رہے۔

ان چکروں میںرات کے گیارہ بجے بج چکے تھے۔مجھےخیال آیاکہ  ان کے ساتھی انجینئرتواس رات اپنے اپنے ٹھکانوں پر نہیں جارہے تو وہ رات کہاں گزاریں گے۔اس پر میں انہیں ایک ہوٹل لے گیاجہاں  انہوں نے کمرے بک کرائے۔ اپنا سامان وہاں چھوڑااور  مستی کے لئے دوبارہ نکل پڑے۔ اس بار ان کی منزل نائٹ کلب تھی۔میں ان کے ساتھ وہاں نہیں جانا چاہتا تھالیکن وہ مجھے وہاں زبردستی لے گئے۔ وہ ٹورنٹو کی بہترین سٹرپ کلب گئے۔وہاں  دنیاکی بہترین  ناچنے والیاں اپنے فن کاکھل کرمظاہرہ کررہی تھیں ۔ساتھی انجینئر نشے میں دھت پیگ پرپیگ چڑھارہے تھے اوران پر نوٹوں کی برسات کررہے تھے ۔ انہوں نے دویا زیادہ کے ساتھ لیپ ڈانس کئے اورپھر انہیں لےکربالائی کمروں میں عیاشی کے لئے چلے گئے۔ میں اس معاملے سے دوردوررہا۔میں ان سے جان چھڑاکر کلب سے باہرآیاتوکلب کے باہر بہت رش تھا۔ایک لمبی قطار تھی جو اندر جانے کے لئے قطار بناکرکھڑی تھی۔کیونکہ آدھی رات کے بعد سب سے حسین سٹرپ ڈانسر آنے والی تھی۔میں نے اس خیال کورد کیا۔میں اس گندگی میں نہیں پڑناچاہتاتھا۔اس کاشودیکھے بغیر اپنی منزل پرنکل پڑا ۔چونکہ میں بدمست تھا۔میرے حواس کام نہیں کررہے تھے اس لئے میں  ہوٹل کانام اور رستہ بھول گیا اور پیدل چلتارہا۔

وہ جو قصہ بیان کررہاتھامیں اسے حرف بہ حرف سچ سمجھ رہی تھی کیونکہ یہاں ایسی باتیں عام تھیں۔اس لئے حیرانی والی بات نہ تھی۔اس نے ان ڈانسر وں کے نام بھی لئےاوراس کے دوستوں  نے ان پرکتنی دولت لٹائی بھی بتائی اور یہ بھی کہاکہ اس میں وہ شامل نہیں تھالیکن  مجھے اس سے دلچسپی نہ تھی۔

توپھرکیاتم نے پوری رات نائٹ کلب میں گزاری۔ میں نے پوچھا۔

نہیں۔انہوں نے گزاری لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔وہ ڈانسرز کو لے کرعیاشی کے لئے بالاخانے چلے گئےتھے۔چونکہ مجھے ان کی بات پسند نہ آئی اس لئے  وہاں سے نکل آیا تھااور ہوٹل  کارخ کرلیاتھا۔

جب تم کلب سے نکلےتو کیا وقت تھا۔ میں نے پوچھا۔

اندازہ نہیں کیونکہ میں ہوش و حواس میں نہیں تھا۔میں کار وہیں چھوڑآیاکیونکہ اس حالت میں چلانہیں سکتاتھا۔میں اس ہوٹل میں جاناچاہتاتھاجہاں  رات کے لئے کمرہ بک کرایاتھا۔میں اس ہوٹل کانام اور کمرہ نمبر بھول گیاتھا۔اگرچہ دیرتوہوگئی تھی لیکن  کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔

میں چلتارہا۔مجھے پتہ نہیں تھاکہ میں کہاں جارہاتھا۔میں نائٹ کلب کا شورشرابہ بہت پیچھے چھوڑ آیاتھا۔واٹر فرنٹ پہنچ گیا۔اس کے پاس ٹورنٹو کی مشہور ترین قومی عمارات ہیں۔ میںْ ٹی پاپا  ؎ْکی عمارت کے پاس پہنچا جہاں  کثیر قسم کی سرگرمیاں ہوتی ہیں ،بند تھا اور آگے بڑھتاچلاگیا۔واک فیلڈ سے ہوتے ہوئے نیشنل میوزیم تک پہنچ گیا۔میں چلتے چلتے اب تھک چکاتھا۔تم جانتی ہو کہ اس کے بالکل ساتھ پٹ سن کی جھاڑیاں تھیں۔میں رینگتے ہوئے ان میں گھس گیااور رات وہیں گزاری۔میری قمیض پھٹ گئی  اورچہرے پر خراشیں ان جھاڑیوں کے کانٹوں کی وجہ سے آئی  ہیں۔

صبح  کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ میں  پٹ سن کی جھاڑیوں میں تھااور میری  حالت بہت بری تھی۔مجھے اپنے ساتھیوں کاخیال آیاجواس وقت حالت غیر میں تھے ۔میں خاردار جھاڑیوں سے نکلا اورگھرچلاآیا ۔تم یاگلی کے لوگ اس واقعےکوجو بھی نام دیناچاہیں یاجوبھی کہناچاہیں  دے لیں۔حقیقت یہی ہے۔میں نے ایک ایک لفظ بیان کردیاہے۔

میں نے اس کاقصہ سن کر اس پرمکمل یقین کرلیااور اس وقت اسے پرکھنے کومن  نہ مانا۔

  سٹوارٹ  نےجوکہانی بیان کی  تفصیل میں جایاجائےتوبہت سے خوفناک پہلوسامنے آتے ہیں جوایک  ہنستے بستے خاندان کی زندگی کوبربادکردیتے ہیں۔

 اگرکسی کی خانگی زندگی  اور ان کے بچوں پرکتنے مہلک اثرات   مرتب ہوسکتے ہیں کوپیش نظر نہ  بھی رکھا جائے اور  سرسری  جائزہ  لیاجائے توبھی  اس کی کہانی صحیح ثابت نہیں ہوتی۔اس میں کئی خلاہیں۔حقائق اس کے برعکس ہیں جو اس  بیان کومن گھڑت ثابت کرتے ہیں۔جیسے  گھر فون کرکے صورت حال سے آگاہ نہ کرنا،نائٹ کلب  میں ڈانسروں کو گود میں بٹھاکر لیپ ڈانس اور عیاشیاں کرنا، ہوٹل کانام اورکمرہ نمبر بھول جانااور سب سے بڑھ کر پٹ سن کی جھاڑیوں میں رینگ کر گزرنا اور رات  وہیں گزارنا۔یہ اس شخص نے بیان کی جواعلیٰ تعلیم یافتہ اور سماجی طورپراہم مقام رکھتاتھا۔میں نے اس کی تفصیل پر اعتراض نہ کیااور  تفتیش کرنے کی ٹھانی۔میں نے اس پراعتماد کرکے اسے جیون ساتھی چناتھا۔مجھے اس سے پیارتھا۔ ہماری ازدواجی زندگی بہت اچھی جارہی تھی ۔اس پر شک کرنے کودل نہیں مان رہاتھا۔

اتوارکی رات میں نے اس کی ایک قمیض  استری کی اور اسے میز پر رکھ دیاکیونکہ سوموار کو اس کی ایک مؤکل کے ساتھ میٹنگ تھی۔میں نے اسے اس کے دفتر اتاراکیونکہ اس کی کار بقول اس کےمطابق نائٹ کلب میں رہ گئی تھی۔

دسمبر کے مہینے میں ہمارے سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اتفاق سے اس روز میری بچیوں  کے کئی پروگرام تھے۔  کلارا   نے سکول کی طرف سےسینئر اراکین کے ساتھ ایک گھنٹہ باتیں کرنا تھیں۔اس کے بعد 'ٹی پاپا'جاناتھا ۔ سماجی کام کرنا تھا۔ بیلا کی کلاس نے نیشنل میوزیم دیکھناتھا۔ وہ اس کے اندرگئیں اور عجائب گھر کے مختلف حصوں میں بکھر گئیں۔

یہ مقامات وہ تھے جو مجھے سٹوارٹ نے بتائے تھے۔اس نے گزشتہ شب وہیں گزاری تھی۔اپنی بیٹی کونیشنل میوزیم اتاراتوبےساختہ میں نے نیشنل میوزیم کے باہرکاجائزہ لیا۔مجھے پٹ سن کی خاردار جھاڑیاں نظر آئیں  جہاں  اس نے رات گزاری تھی ۔ان جھاڑیوں کا محل وقوع، زمینی حقائق  اورحالت اس کی کہانی کے برعکس نظر آرہے تھے۔اس کا  واقعہ ایک قصہ پارینہ کی طرح لگ رہاتھااور میں یہاں یہ سمجھتی ہوں کہ اس کے بیان سے کہانی کی سچائی  ختم ہوگئی تھی۔تاہم میں نے اس قصے کودرگزرکردیا۔ زندگی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیاکیونکہ سب لوگوں کی یہی رائے تھی ۔

ہوایوں کہ  جب میں نے اپنی بیٹی کو عجائب گھر اتارا اور وہاں  رکی تو میری نگاہیں لاشعوری طورپر اس کی اطراف کاجائزہ لینا شروع  کردیا۔حقائق  کی جانکاری لینے کےلئے ذہن پر بوجھ پڑا۔ چہرے پر پریشانی کے آثار پیداہوگئے۔

بچے میوزیم میں اودھم مچارہے تھے۔میں نے میوزیم کے باہر ایک ملازمہ دیکھی جوآدھی ننگی ٹانگوں سے فرش پربیٹھ کر سگریٹ پیتے ہوئے معمے حل کررہی تھی۔ اس نے مجھ پر کوئی توجہ نہ دی۔ میں نے اس سے پوچھاکہ اس کی ڈیوٹی کب سے کب تک ہوتی ہے تو اس نے کہاکہ صبح آٹھ بجےسے شام پانچ بجے تک۔

کیا تم نے پٹ سن کی جھاڑیوں سے کسی ادھیڑ عمر  کو  دس اور گیارہ کے دوران پٹ سن کی جھاڑیوں سے کسی کو باہر نکلتے دیکھا ہے ؟

 کیاکسی کو اپنی جان پیاری نہیں جو ان میں گھسے اس نے طنزیہ کہا۔ یہ جھاڑیاں  دلدل اور حشرات الارض سے بھری پڑی ہیں ۔خودکشی کرنی ہے کسی نے۔

میں نے دیکھاکہ جھاڑیاں  کانٹے دار تھیں۔ زمین دلدل زدہ تھی۔ زہریلے کیڑے جابجارینگ رہے تھے۔میں احتیاط سے اندر گھس کر یہ دیکھنے لگی کہ وہاں کوئی جگہ ایسی تھی کہ جہاں سویاجاسکتاہو یاسویاگیاہو۔

تمام جگہ کچرے اور شیشے  اور پلاسٹک کے ٹوٹے ٹکڑوں سے بھری پڑی تھی۔میری بیٹی کی سہیلی کی والدہ جو اپنی بیٹی کے ساتھ آئی تھی  مجھے جھاڑیوں کے پاس دیکھ کرچیخی ۔باہر آؤ۔ کیامرنے کاارادہ ہے۔وہ مجھے وہاں دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی۔

میں نے کہاکہ میں  کچھ چیز تلاش کررہی ہوں۔اس نے یہ سن کر زوردار قہقہہ لگایالی



کن میں نے اس کی آوازپر توجہ نہ دی اور سٹوارٹ کی پھٹی ہوئی قمیض کا ٹکڑا جھاڑیوں میں تلاش کرنے لگی۔دعاکرنے لگی۔کاش وہ مل جائے!

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog