ابن سینا چوتھی قسط ( علت و معلول اور تکوینیات)

 

 




  ابن سینا چوتھی قسط                             (  علت ومعلول اور تکوینیات کا نظر یہ) 

 علت و معلول  اور تکوینیات کا نظریہ

Causality and Cosmology)

 

 

                                                                                                                                                                                                                                            ابن  سینا  ( بو علی سینا)

(Avicenna)

                          1037-980

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           Bokhara    

تحقیق :   غلام محی الدین

 

پچھلی قسط میں ہم اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ ابن سینا نے ملحدانہ تصورات کو اسلامی نقطہ میں ڈھالا۔ابن سینا نے کائنات کی تفسیر قرآنی تعلیمات سے کی۔انہوں نے کائنات کےتشکیل کے عمل کی تفہیم کے لئےوجود ( ایگزسٹنس) اور  روحانی شعور یا روحانی حصول ( ایسنس) کی اصطلاحات کی وضاحت کی۔

ایسی شئےجو ننگی آنکھ سے دیکھی جا سکے ، اس کا احاطہ کیا جا سکے وہ تکنیکی لحاظ سے وجود (ایگزسٹنس ) کہلاتی ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند،نباتات ، آسمان، سورج، چاند ستارے، حشرات الارض ،آسمان، ستارے, سیارے ، زمین اورفلکیات(سپر نووا )                 وغیرہ سب وجود ( ایگزسٹنس )کے دائرے میں آتی ہیں۔ یہ سب مادہ ہیں         اور فانی ہیں۔ ان کے فنا ہونے کی مدت ہر وجود کی خاصیت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ ان کا وجود چند لمحات سے اربوں کھربوں سال تک  موجود رہ سکتا ہے۔  عمر خواہ جتنی بھی ہو اس نے فنا ہو جانا ہے۔ یہ حادثاتی اور امکانی  دنیا ہے جس میں چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ پیدا ہوتی ہیں، نمو پاتی ہیں، تبدیل ہوتی ہیں ، ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔

دوسرا تصور روحانی شعور یا روحانی حصول (ایسینس )  کا دیا جسے انہوں نے کہا  کہ جس کے اندر کوئی شئے جنم لیتی ہے۔ اس کا تصور ذہن اور روح کے ساتھ ہے۔  یہ ایک سانچہ ہے جس میں مرئی اور غیر مرئی اشیا    کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ یہ ماڈل ہے۔ اس کے مطابق  نئی   معلومات حاصل ہوتی ہیں، سابقہ معلومات کی اصلاح کر کے نیا تصور      ابھرتا ہے یا پھر  اس سانچے میں موجود علم تو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ   لازوال اور ابدی حیثیت رکھتی ہیں۔  اگر  مادہ تباہ  ہو جائے تو بھی اس کی چھاپ موجود رہتی ہے۔یہ لافانی ہے۔ہمیشہ قائم            دائم رہتی ہے۔ممکن ہے دوبارہ اس میں کوئی اور شئے جنم لے۔ اس ماڈل میں ایک طرف تو صورت ہوتی ہے  اور دوسری طرف مادہ ہوتا  ہے۔جو اس کا حقیقی وجود   ہے ۔ یہ دونوں الگ الگ  حیثیت رکھتے ہیں۔   اس وقت تک  علیحدہ وجود برقرار  رہتا ہے  جب تک تیسرا عنصر     نہیں مل جاتا              اور اسے انہوں نے             خدا کی ذات کہا۔   اگر  اس مخلوط  شئے سے خدا کی ذات ہاتھ کھینچ لے تو وجود الگ ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور روح الگ ہو کر  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دائمی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ انہوں نے         وضع اسلوب           ( اونٹلوجیکل موڈیلٹی )     اور خاصے   (کیوڈیٹی             ) کے عمل کو ممکن        (پاسیبل )          ، ناممکن (             امپوسیبل )اورامکانی (کنٹنجنٹ)  کے ذریعے واضح کیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔

اس  کے بعد ابن سینا نےعلت و معلول ( مسبب الا سباب )   اور علم تکوینیات  کی  بحث  کے بعدحتمی نتیجہ   اخذ کیا۔

5( Causality and Cosmology 

  علت و معلول    (مسبب الاسباب ) اور علم        تکوینیات

          6) Conclusion  

 نتیجہ

 

  Causality and Cosmology(5 

علت و معلول اورعلم تکوینیات                                                                                              

      

 ابن سینا کے نزدیک کوئی بھی شئے بلاوجہ پیدا نہیں ہو سکتی۔اشیا کے ظہور ، وجود اور عدم ہونے کے پیچھے  کوئی نہ کوئی  علت یا سبب   ہوتا ہے۔  انہوں نے اس کی وضاحت ذیلی عنوانات سے کی۔

5.1)       Causal  Relationship         علت و معلول( اسباب و علل،              مسبب الا سباب کا تعلق)

5.2)          The Causal Chains      اسباب و علل کی لڑی

5,3)            Absolute Creativity  مطلق  تخلیق

5.4) Emanation Celestial Intelligence Soul and Bodies                                                                                               ظہور             : آفاقی ذہانت،ارواح اور اجسام

5.5)             Celestial Movement سماوی تحریک

اب ہم ان کا تفصیل سے ذکر کریں گے۔

  Causal  Relationship      5.1)

 مسبب اور تاثر(اسباب و علل یا علت و معلول)

 

اگر کسی عمل کے نتیجے میں کوئی رد عمل پیدا ہوتو ان میں تعلق پایا جاتا ہے۔ جیسے حلق خشک        ہو تو حلق خشک  ہو جاتا                ہے۔ اگر حلق تر کر لیا جائے       تو         امتناعیت کا احساس جاتا رہتا ہے۔پیاس اور  سیال مادہ میں تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ حلق کا خشک ہونا پیاس کی علامت ہےاور پانی سے حلق تر ہونا رد عمل ہے۔یہاں پیاس  فرد کو اس بات کی آگہی دیتی ہے کہ جسم میں پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے        اور خواہش پیدا کرتی ہے کہ یہ کمی پوری کی جائے۔ کمی  کا احساس ہونا سبب ہے ۔ ہر سبب کا رد عمل ہوتا ہے۔اس مثال میں رد عمل مشروب کا استعمال ہے۔  اگر بار بار سبب اور رد عمل میں ہمیشہ ایک ہی جیساجوابی فعل ہو تو وہ عمل میکانکی ہو جاتا ہے اوران کے مابین تعلق (دا کازل ریلیشن  شپ )اسباب کی زنجیر بن جاتی ہے۔ ابن سینا نےاس لڑی کوالٰہیات میں بیان  کیا ۔  ابن سینا نے الٰہیات اور  تکوینیات میں عمل اور رد عمل ( اسباب و علل یا علت و معلول) میں نسبت  بیان کی- کئی فلسفیوں کے نزدیک یقیناً یہ ایسا مظہر ہے جہاں سے اول اصول کا اطلاق کیا جا سکتاہے۔

    ابن سینا علت و معلول کو رسمی ، موئثر اور حتمی  عمل کا نام دیتے ہیں۔ سبب اور مسبب  کے تعلق کے بیان  میں اولین مطلق کی وضا حت کرنے  کی ضرورت ہوتی ہے۔  اسے نہ صرف یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ایک سبب کی ترتیب  میں            '            اصول  اول '     شامل ہوتا ہے  بلکہ  یہ بھی ثابت       کرنے کی ضرورت ہوتی ہے  کہ  یہ بار بار         اصول اول کے ذریعے ایک زنجیر کی  صورت میں رونما ہوتے ہیں ۔ اس کے اسباب کی  حیثیت ظاہر کرنے کے لئے بے شمار انداز میں رونما ہوتی ہے   یہ معلوم کرتی ہے کہ وہ  اس ربط کی مستحق  ہے یا نہیں    ۔ اگر  سبب اور مسبب میں تعلق ثابت ہو جاے تو مثال قائم  ہو جاتی ہے اور اسے عمومی ثبوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس سےابن سینا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سلسلے کی لامحدود کثرت جو کہ سبب کا سلسلہ قائم کرنے میں ناکافی اور غیر موزوں ہوتی ہےمیں دونوں ایک ایجنٹ کے طورپر لئے جاتے ہیں اور حتمی طور پر غور و فکر کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس دلیل میں کہ کسی شئے کے وجودمیں اس کا ڈھانچہ براہ راست پایا جاتا ہے اور زبانی لفظ بہ لفظ ہے، کی ایک عمومی بنیاد ہے۔ ارسطو نے اسباب کی لڑی کے تین عناصر بیان کئے۔

 (1 سبب یا مسبب کسی مظہر کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ ہے۔( العیلا)          

 ( 2 علل یا اثر رد عمل ہے جو سبب پیدا ہونے کے بعد دیا جاتا ہے۔(المعلول )  

 3) ثانوی (المتوسط) جو سبب او ر اثر میں رابطے کا کام کرے جو وجود کا باعث بنتا ہے۔ (انشا  ما للیا) 

یہ دلیل سادہ اور آسان ہے        :  کسی وجود کے اثر (جو کسی وجود کے بنانے بگاڑنےکی وجہ نہ ہو ) کی وضاحت نہیں کی جاسکتی جب کہ اولین سبب کی اہمیت کو تازہ کرتی ہے۔  یہ وہ سبب ہے جو کہ ایک ہی وقت میں علت و معلول پیدا کرتا ہے اسلئے وہ وسطانیہ کہلاتا ہے جو اپنی باری پر سبب کا باعث بنتا ہے، اسلئے  جتنےبھی ثانوی طریقے شامل ہوں، سلسلے کی     اگر  ہمیشہ مطلق اولین سبب میں تقلید کی جائے جو ہر ایک عنصر میں علت ہے اورہر کڑی میں پائی جاتی ہے تو اس مظہر کی تفہیم  مئوثر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔

کسی عنصر کی وضاحت کی جائے  تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کی خصوصیت جدا گانہ  ہے (حسسییا) ۔ ابن سینا   کہتے ہیں یہ ممکن ہے کہ ثانوی حد یا ثانوی میعاد (انٹرمیڈیٹ ٹرم) کو اپنی اپنی باری اضافہ  دے تو مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں۔  کسی سلسلے کے اندر،درحقیقت باری        کی پہلی شرط جو کہ ُ                مطلق وجہ ' والی اپنے آپ (خود) میں و  جود کی خصوصیت کی بدولت پائی جاتی ہے۔ یہ وجہ اس کے اپنے اندر نہیں پائی جاتی ۔تاہم متوسط عرصےمیں وسطی باری میں جو کہ کسی سلسلے کے اثر کا جزو ہوتی ہے اس تعلق کو دہرا بھی سکتی ہے تاکہ اس اثر میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے جو بے شمار نہ ہوں تو بھی کافی ہو ۔(اس کے اسباب کے مابین تعلقات کی دائمی موروثی جانشینی کی بدولت جس میں اثر جو کہ اس وقت سادگی سے پیدا ہوتا ہے۔ بالآخر اس کے خواص کی وجہ سے وہ کسی بھی شئے کا سبب نہیں بنتا)۔ اس طرح اپنے طور پراسباب کے سلسلے کی زنجیر  قائم ہو جاتی ہے اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں بنتی کہ کسی بھی سلسلے کا اپنا اپنا اول اصول ہے لیکن چونکہ ہر ایک سبب کا سلسلہ اور اس کے بعد ہر ایک تعلق حتمی طور پر اس اصول کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ بنیاد بھی ماورائی صورت اختیار کر کے، ہر علت و معلول والے سلسلے کا اولین مطلق سبب بیان کرتا ہے جس کی بدولت اس کا ہر ایک عنصر کوئی وجہ بنتا ہے۔ سبب کی زنجیر بغیر کسی انعام کا مفروضہ  ناقص  تصور ہے  (جو  صرف گفتگو کے ذریعے ہی  پایا جا سکتاہے) حقیقی اسباب کا سلسلہ علت ہمیشہ معلول کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے علت کی زنجیر کا ذکر کیا۔                                                                                                                            

 

5.2(                                       The Causal Chains  

علت کی زنجیریں                                                                                             

 ابن سینا کے دلائل کی کلید اسباب یا  علت  کی زنجیر ہے جس میں وہ اولین اصول کو کم از کم جزوی طور پر کائناتی نظام کی کڑی قرار دیتے ہیں۔ چند فلسفیوں کے نزدیک ما بعد از طبیعیات  میں یقیناً صرف یہی صحیح طریقہ ہے جس سے وجود کے اصول کامظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ ارسطو کے نزدیک کئی رسمی، مادی، موٗثراور حتمی اسباب اہم ہیں جو ان کے فلسفے کو صحیح ثابت کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں اولین اصول مطلق اصول کے وجود کو سچ ماننے کے لئے اسے یہ دیکھنا چاہئیے اس شئے کو صرف یہ ہر مسبب کی تنظیم و ترتیب کے لئے وہاں اصول اول ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسباب کی زنجیر لاتعداد ثابت ہونے کے لئے جس میں اسباب کے نمائندے، جس میں سے ہر ایک سلسلہ نکلتا ہے، اس کی ایک مثال ہے اور عمومی ثبوت کی بنا پرابن سینا یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ تمام سلسلوں کی کثیر اور مکمل ور لامحدوداسباب کی وجہ سے آتی ہے          :  اس لئے تمام سلسلے اصول اول کے حوالے سے  کئے جاتے ہیں جو کہ دونوں ہی نمائندہ ہوتے ہیں اور ایک حتمی اور مکمل وجہ نکلتی ہے۔

وجودمیں اسباب اس طرح سےپیش ہوتے ہیں کہ وہ ایک لڑی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسباب کے سلاسل عمومی شکل کے نمونے، اندرونی اور بیرونی اسباب اور ماورائی اصول (ٹراسنڈینٹ پرنسپل)  کے     تحت   جو فرد کے خیالات اور تصورات میں پائے جاتے ہیں، کو انہوں نے اپنی کتاب                               ُ اللشارات                                      ُ میں بیان کیا ۔ جس میں انہوں نے علم وجودیا ت کے اصول اول کی مبادیات بیان کی۔ کہا کہ اس کی ابتدا ایک عمومی فکر و تدبر سے ہوتی ہے۔ ایسی سوچ ہر وجود میں پائی جاتی ہے۔ ایسا وجود جس کا  وجود تو ہے لیکن ثابت نہیں کیا جا سکتا ،  کا مطالعہ کیا جاے تو ایسا غیر مرئی وجودروح میں پایا جاتا ہے جس میں تفرد( اکیلے پن) میں بغیر کسی شئے کے(ماسوائے) اپنے وجود کے تمام وجود ہمیشہ کسی شئے سے رابطے میں ضرورت مند رہتے ہیں۔ ان میں تمام اقسام کے وجود شامل ہیں۔ خواہ وہ اپنے اندر وجود رکھے اور معروضٰی نہ ہو یا ظاہری لازماً وجود رکھے یا  پھر عدم وجود ہو یا اپنے تئیں حقیقی یا سچا اور زندہ ہو لیکن اس کا وجود نہ ہو سب میں رابطے کی شرط پائی جاتی ہے۔جس سے مراد یہ ہے کہ جس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، ہمیشہ کسی شئے سے رابطے کے در میان ضرورت میں ہوتا ہے جس کی ایک شرط ہے جو اس کے ساتھ پائی جاتی ہے، دونوںجب وہ وجود کے طور پر تصور قائم ہوتا ہے اورغیر وجودعدم وجود کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح سے اسباب کی زنجیر بن جاتی ہے۔     

ابن سینا  نےکائنات کی تشریح کو قرآنی تعلیمات کے  تحت بیان کیا۔ انہوں نے دلائل سے خدا کی حقیقت ثابت کی۔ انہوں نے ابتدا ارسطو کے ملحدانہ فلسفے سے لی جو مادہ اور صورت کو دومختلف اشیا سمجھتا تھا جو باہمی طور پرکبھی بھی مل نہیں سکتیں۔دنیا اس کے اس تصور کو تسلیم کرتی تھی۔انہوں نے اس موضوع کو لیا۔  کسی شئے میں ایسی خصوصیت  جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

اس کی بدولت کسی شئے کی موجودگی کا مفروضہ ( پوزیٹ)جو کہ پہلے قائم کیا جاتاہے  اس کے لئے خارجی ہے۔ اگر' ممکن '  اپنی بجائے کسی دوسرے کے ساتھ تعلق ممکن کرتاہے تو اس وقت وہ بار بار دہرایا جاتا رہے گا اور ہر ایک یونٹ بذات خود اپنےتئیں ممکن ہو گا جو اس سلسلے کی لڑی میں ہوتا ہے اور مجموعہ (گملہ) وہ یونٹ جو کہ بناتا ہے ' بھی ' اپنے آپ میں ضروری ہوگا۔ایک مجموعہ کی تشکیل کے لئے مجموعے کے یونٹس کے ساتھ لازماً  پیش کرے اور اس لئے اس مجموعے میں بذات خود، کسی دوسری شئے سے  ماورائی ہو۔                           

 ابن سینا اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ' مطلق سبب ' جس سے تمام اشیاء بنی ہیں، سلسلے، اس کے یونٹ اور وہ تعلقات جو ان کو آپس میں مربوط کرکے ایک دوسرے کا بندھن بناتی ہیں۔ ہر شخص اس بات کا کسی شئے کے وجود کو فرض (پوزیٹ) کر لے گا۔۔۔ جو کسی طرح سے بھی اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ کچھ یونٹ میں اور کچھ میں نہیں لیکن یہ یقینامطلق وجہ نہیں کہلائے گی بلکہ یہ وہ وجہ ہوئی جو کسی طرح سےبھی۔۔ ۔ یہ انتہائی  ( طرف)بات ہے اس لئے نہ تو وہ ثانوی عنصرہے اور نہ ہی معلول ہے اس لئے ہر ایک سلسلے کو سبب کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے اندر نہ ہو بلکہ اس کا منبع خارجی ہو، ایک انتہا۔۔۔ جسےاصول                                ُ وجود کی ضرورت کا                                                               ُ ( نیسیسری ایگزسٹنس پرنسپل) کہتے ہیں۔ جو کہ سبب نہیں ہوتااسکے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسباب کی زنجیر کی بغیر کسی وجود کے جو کہ اس کا جزو ہ اس دلیل میں ایک عمومی مقام ہے (کسی شئے کے وجود کی حیثیت اس کے ڈھانچے میں پائی جاتی ہےاور زنجیر کی ساخت براہ راست گفتگو کے ذریعے تین عناصر کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کے اثرا ت یا کسی طرح کے سبب یعنی المعلول پیدا ہوتا ہےاور ُ ثانوی متوسط راستہ جو سب کے لئے ایک درمیانی ربط ہے،وجود میں وہ سبب بنا ہے جس میں سبب کا ان دونوں سے تعلق ہے۔ ( جس میں سبب پیدا ہوتاہے اور اس کی تشریح اصول اول کے بغیر نہیں کی جا سکتی             ،     ایک          ، سبب جو کہ علت و معلول  اپنی باری پر علت بن جاتی ہے۔اس لئے کچھ بھی ہو، خواہ شئےاپنی باری پر کتنی ہی متوسط کیوں نہ ہووہ ہمیشہ ایک علت یعنی سبب کا ذکر کریں گی  جو کہ اول سبب کے طور پرمطلق ہو۔ اس میں اسباب کے سلسلے میں ہر عنصرآپس میں جڑا ہوتا ہے۔ 

سلاسل کے یہ تینوں عناصر جن میں ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے، کی تعریف کرتے وقت ابن سینا  کہتے ہیں کہ ثانوی باری میں، مطلق سبب میں وہ  وجودکے ایک حصے کاوصف یا خواص ہے اور ایک سلسلہ کا دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔عمل میں، درحقیقت، اولین باری کثرت کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔ ایک حصے کا دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔یہ عمل دہرایا جاتا ہے اور اگر تعداد کثیر نہ بھی ہو تو مسبب کے تعلقات کی بنا پر ہمیشہ دائمی جانشینی یکے بعد دیگرے وہ اثر جو سادگی سے واقع ہوتا ہے ، بالآخر حتمی طور ہر اس میں وجود کے ایسے خواص پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ کسی شئے کا سبب بغیر کسی وجہ کے نہیں بنتے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسباب کے سلسلے کے نمونے جیسا کہ اس طرح سے، اور صرف یہ نہیں کیونکہ کسی بھی سلسلے کا اپنا ہی اول اصول ہوتا ہے جو سماوی اور آفاقی طور پرہر ایک سبب کے تعلق کی بنا پر جس میں ہر ایک عنصر اسباب کی زنجیر میں بغیر کسی صلہ کے مطلق سبب کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اگرُ  زبان کی بدولت           ' کسی مفروضے کے تحت اثرات کی وجہ سے یہ واقع ہوتا ہے تو اس وقت اپنے آپ میں محدود طور پر غیرمطابقت رکھتے ہیں.اس کے بعدابن سینا نے اپنے فلسفے کی           '     مطلق تخلیق           'کی حقیقت بیان کی۔

  Absolute Creativity 5.3) 

مطلق تخلیق  

                                 

ابن سینا کے نزدیک تخلیق کو عقلی سطح پر  سمجھنے کے لئے وجودیاتی انحراف ( اونٹلوجیکل ڈیوی ایشن) کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ انحراف وقت کی حدود و قیود سے باہر ہوتا ہے۔تخلیق میں تسلسل پایاجاتاہے اور ابدی  ہوتا ہے۔اسے وہ خدائی عمل کہتے ہیں۔ اس عمل کو  انوں نے اصطلاحی زبان میں  '    تخلیق مطلق  ' کہا۔ 

ابن سینا  کے مطابق تخلیق وجود کی صورت میں لائی گئی ہے۔ اسے فرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی  کیونکہ اس  کا وجود ہے۔  وہدنیا جو کہ عدم وجود سے پہلے  کی ہے، کے ( جس سے مراد یہ ہے کہ تخلیق  ضرورت کے مطابق وقت پر ہی کی گئی) لیکن تاہم بہر حال تخلیق اس بات کو خارج کرتی ہے کہ اسی طرح کے امکانات غیر موجودگی    (عدم) میں پیدا ہوں۔ مطلق دراصل وجود سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے ساتھ روح ( ذہن) کی صورت میں پہلے سے ہی موجود ہو تی ہے اورمادی جسم کے علاوہ پائی جاتی ہے اس لئے یہاں ہر شئے کی            کوئی وجہ ہوتی ہے۔ 

  ممکنات اور عدم وجود کی شناخت  مسائل کی صحیح          عکاسی کی بنیاد ہے۔ مشکل کہیں اور ہوتی ہے، کےعلاوہ                          ُآدم' کے بارے میں جس پر ابن سینا نے اپنا خیال بنایاکہ الٰہی بہاؤ  کا جو کہ خدا کی بروقت تخلیق کرنے سے مختلف ہے : اس کے لئے غیر وجود وہ ہےجو معلوم کرتا ہے کہ اپنے آپ میں ممکن کیا ہے اور مستحق کیا کرتا ہے۔ارسطو کے فلسفے پر دوبارہ غور کرتے ہوئے سابقہ (اینٹی ریو  ریٹی)اور کارندے کے تصورات پر تھے۔وہ تخلیق کو تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسےاسباب جو کہ اول اصول کی بدولت پیدا ہوتی ہیں ( غیر وجودی اسبا ب کے نتائج کے ساتھ) نہ کہ زمانی نہیں بلکہ اس کا تعلق لازماً مؤخر الذکر کے ساتھ ہے ( مارمورا   1984) 

ایک عدم وجود جو وقت عدم وجود سے پہلے ہوتا ہے اس بات سے انکار کر دیتا ہے کہ تخلیق مطلق کی وجہ سے ہوئی کیونکہ یہ مفروضہ بنا لیا جاتا ہے( پوزٹ) کہ تضاد کی وجہ وجود کا نہ ہونا ہے لیکن مطلق عدم اطمینان نہیں ہے۔ وہ اصول جس کے تحت ابن سینا وقت کو اول اصول کےعدم اطمینان کے عمل سے خارج کرتے ہیں وہ بالکل وہی ہے جو انہیں اس بات کی طرف لے جاتا ہے کہ سچائی اورحقیقی پن پیدا کرنے کے لئےہر قسم کی مصالحت کوخارج کیا جائےجو اشیاء کو وجود میں تبدیل کرتی ہیں۔ اصول اول کو لازماًچاہئیے کہ وہ عمل کرے جس میں کسی مصالحت کی ضرورت نہ پڑے۔ تخلیق وقت کے لحاظ سے قابل فہم عمل نہیں ہے کیونکہ خدائی تخلیق سے پہلے ہی وقت ختم ہو جاتا ہے جو دنیا اور اصول اول کے مابین ثانوی حیثیت ختم کر دے گا۔عدم اطمینان (عبدہ) اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ کوئی شئے جو وجود رکھتی ہے لیکن یہ وجود اس شئے سے الگ ہوتا ہے جو بغیر کسی مصالحت کے یا وقت کو بطور آلہ استعمال کرنے کے یا ثانوی  شئے (کے، جیسے کہ مادہ صرف اس )پر ہی انحصار کرتا ہے ۔ اس کے برعکس وقت کے وجود نہ ہونے سے پہلے وقت سے مصالحت   پائی جاتی ہے۔جوعدم اطمینان دور کرنے کا اعلیٰ طریقہ کار ہے (عبدہ) جس میں نسل ( تقویٰ) سے اور اس کے بعد شئے کو وجود میں لائے گا  (ا حدت)۔ 

اول سبب کا عمل ثنویت سے خارج کیا جانا چاہئیے۔   اصول اول  اور اس کے سبب میں  کوئی شئے  ،نہ کوئی مادہ، نہ اپنی مرضی اور نہ ہی وقت کا عمل دخل ہے  میں  جوڑا  نہیں جانا چاہئیے۔ ایک تخیل اور تمثال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اصول اول کا سبب اس سے مشابہہ ہو جیسے جب ہاتھ سے تالے کی کنجی گھمائی جاتی ہےتو کنجی اور ہاتھ علت و معلول بن جاتے ہیں۔ جو ترتیب میں ہوتے ہیں جس میں ایک اول ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آخر۔ اول پن ترجیح ہے جبکہ زمانی ( وقت ) لازم ہیں۔ 

اس سے ابن سینا اس نظریے پر پہنچتے ہیں کہ مطلق سبب جو کہ تمام اشیاء کا سبب           : سلاسل کے ان یو نٹس میں ان کے مابین تعلقات جو ان کو آپس میں مربوط اور یکجا کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو کسی شئے کے وجود کو فرض کرلینا چاہئیے اپنے سبب کے کچھ یونٹوں کے بارے میں (دوسروں کے لئے )  بظاہر  سبب موجود تو      محسوس ہوتاہے لیکن تکنیکی لحاظ   سے اسے سبب نہیں کہا جاسکتا۔ یہ رویہ انتہائی سطح کا شمار کیا جاتا  ہے اسلئےنہ تو  وہ    ثانوی عنصر اور نہ ہی معلول شمار ہوتا ہے۔ اس لئے ہر ایک سلسلے کی زنجیر کو ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ اس کے اندر نہ ہو۔ بالکل اس کے باہر ہو اور خارجی ہو                 :             ایک انتہا۔۔۔ ضروری وجود کا اصول  ( دا   نیسیسری  ایگزسٹنٹ پرنسپل)۔۔۔ جو کہ سبب نہیں بنتا۔ اس لئے وہ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سبب کے لئے سلسلہ قائم فراہم کرتا ہے  لیکن وہ خود اس میں  شامل نہیں ہوتا اوروجہ خارجی ہوتی ہے۔ یقیناًاس طرح وجود کا بہاؤ                                  ُ امتیازی           ( مبین)ہو جاتا ہے۔اس کے بعد ابن سینا نے ظہور، آفاقی ذہانت، ارواح اور اجسام کا موضوع لیا۔ 

 

5.4) Emanation Celestial Intelligence Soul and Bodies                       

                                                                                                                                                                                                                                                            آفاقی ذہانت               ، روحیں اور اجسام  

 

ابن سینا نے دنیا کی تخلیق کا تصور نو افلاطونی کے نظریہ ظہور ( ایمے نیشن) سے لیا جس کے لئے انہوں نے ' فیض' کی اصطلاح استعمال کی جسے  لاطینی زبان میں  فصوص ( موتی یا جواہر)  کہا جاتا ہے۔ یونانیوں نے اس کو ایک ایسا ذخیرہ آب  کہتے ہیں جس  سےجھرنا نکلتاہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جو کہ وقت کی حدود اور پابندیوں سے باہر ہو تا ہےاور مکمل طور پر خود کار انعکاس( آٹو  ریفلیکٹ  یو ) ہوتاہے اور جزو ترکیبی کے طور پر انعکاس کرتا ہے۔ اول اصول بذات خود ذہانت کے علاوہ شئے اور عقل کی بنیاد ہے۔ یہ ایک سوچنے والی شئے ہے جو اول اصول میں سے نکالی جاتی ہے۔ اس میں عقل یا ذہانت کا بھرپور استعمال بھی شامل ہوتا ہے ۔ اس میں اس کو اپنی ذات کاتصوربھی پیدا ہو جاتا ہےجس طرح روح اور وجود(اس لئے) امکانات اور ضرورت ) میں فرق معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔یہاں وہ ذہانت جوعقل کی وجہ سے (کا زڈ  انٹیلی جینس)پہلےبنی ہوتی ہے ، پہلے اصول کے بارے میں سوچتی ہے اور اس کی خود کارذہانت (آٹو  انٹیلی  جینس) کی طرف جاتی ہے جو ایک مہذب انعکاس ہوتا ہے۔ہاں پر تمام اشیاء کا آئینہ منعکس ہوتا ہے اسلئے اس آئینے میں عکس الٹا نظر آتا ہے جو کہ علم وجودیات کے اسباب ظاہر کرتا ہے  :  اس وقت ذہانت ایسے تمام وجود ات کا سوچتی ہے یا پھر ضرورت کے مطابق کسی کے حوالے دوسری اشیا  اور بعد ازاںاس بات کی شناخت کرتی ہے کہ اس کی امکانی بنیاد جس میں اس کی روح جہاں تک ممکن ہو اور اس کے عقل سے حقیقت پسند ی کرتی ہے۔ ہر قسم کی ذہانت سے اس بیان کا اثر درج ذیل طریقوں سے تین طرح کے اثرات لاتا ہے۔ 

1)  اس عمل سے جس میں پہلی وجہ سے بنی ہوئی ذہانت(کازڈ انٹیلی جینس)جب اصول اول کا سوچتی اور اس کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھتی ہے تو ایک نئی ذہانت وجود میں آتی ہےجس سے ایک ایسی سوچ پیدا ہوتی ہے جس میں وہ اپنے بارے میں سوچتا ہےاورکوئی مقصد بنا لیتا ہے۔اس طرح سے دو مکمل اشیاء ظاہر ہوتی ہیں( اپنے بارے میں سوچ اور مقصد)۔ 

2)  ایک روح جو  ابن سینا کے اظہار کے نظام اولین       کے اثرات آسمانی اشیاء سے ہم آہنگ کر تے ہیں اور اگر سختی سے کہا جائے تو وہ اپنےاول کے ساتھ جو کہ یا تو بنا ہوتا ہے یا پھر غیر تسلی بخش ہوا ہوتا ہے اور مطلق طور پر تخلیق کی ہوئی ہے(المبد الرواح) جس میں ذیل میں عام الفاظ میں تما م اثرات ہوتے ہیں اور اگر اس میں یہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ارضی ہیں۔ 

یہ نمونہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اسباب کے مختلف سلسلے کیسے بنتے ہیں جس طرح کہ نو افلاطونیت کی روائت میں ہے۔ ابن سینا نے افلاطون کی چار وجوہات کو باطنی اور خارجی میں بدل دیا کسی شئے سے متعلق جو کسی شئے کا سبب بنتی ہیں۔اس طرح سے اس نے ان کی ایک درجہ بندی کر دی ( علت ۔ ثانوی۔ کی وجہ سبب بنا) جس کی وجہ سے ثانوی اصطلاح آخری سبب سے اوپر ہو گئی لیکن مطلق وجہ سے نیچے رہی۔اس ارضی  دنیا میں ہے مثلاً صورت مادہ بننے کا ایک حصہ ہے اور یہ اس سے برتر ہے کیونکہ وہ علت و معلول میں ثانوی اور مصالحتی کردار کی وجہ سے جو کہ ذہانت کے لئے سب سے آخری وجہ ہوتی ہے۔ جس میں دونوں یعنی شکل و صورت اور مادہ ذہانت کا نتیجہ بنتے ہیں۔اس کےعلاوہ اسباب (علل)ثانوی شئےکے بغیر پیدا ہوتے ہیں اور حتمی طور پر مطلق وجود اختیار کر لیتے ہیں یا پھر غیر تسلی بخش اور غیر مادی ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے وجود کی روح اور ضرورت صرف علم وجودیات میں امکانات کی ترتیب ثانویت کی وجہ سے اس وقت اس طرح سے تعریف کی جاتی ہے۔ علم وجودیات کی ترتیب سے جو کہ ثانویت کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوئی۔ یہ سب مادی اشیاء ہوتی ہیں جو کہ مادہ اور شکل و صورت سے تشکیل پاتی ہیں۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انداز میں ذہانت ( العقل)سے کائنات کی تشریح کی جا سکتی ہے جو براہ راست ضرورت کے وجود کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔اول سوچ کی ذہانت کی وجہ                   : روح (النفس)اور ماورائی اجسام وجہ (الکرم اسماویہ) ہیں اور دونوں ہی کا معلول ارضی دنیا پر ہوتا ہے بالکل آفاقی ذہانت کی طرح جنہیں مذہبی اصطلاح میں ٖفرشتے کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے تعاقب میں ارضی دنیا میں سادہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آخر میں انہوں نے سماوی تحریک کا ذکر کیا۔

 

5.5) Celestial Movement                                               

سماوی تحریک                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           

 

 ابن سینا سماوی تحریک میں ارسطو اور الفارابی کےخیال اور ذہانت کے بارے میں فلسفے کے کچھ حصوں میں تبدیلی لا تے ہیں ۔دماغ کے دونوں نصف کرے دنیا کی ما بعد از طبیعیات میں تکوینیات (کوسماس) کے متعلق مواد کا ادراک کرکے وضاحت کرتے ہیں۔ اس لئے حرکت جو دائرے میں ہوتی ہے، کو ابن سینا نے فطرت کے طور پر براہ راست بیان کیا ہے۔ آسمانی مخلوق اپنے پیچھے ہمیشہ نشان چھوڑتی ہے جو اس لئے ہوتے ہیں کہ ایک بار وہاں قیام کے بعد دوبار فطری تحریک کی وجہ سےحاصل کئے  جائیں اور  اپنے فطری  مقامات پر آرام کریں۔۔۔لیکن اصول کے وسائل( جو  ذہنی اور روحانی دونوں ہیں) ان کروں کی حرکت محبت اور خواہش پیدا کرتی ہے جو ذہن اور روح کا عکس ہوتی اور اپنے اصول کے تحت ذہنوں اور روحوں دونوں میں مشترک ہے کہ اپنے اصول سے ملتا ہے۔ اس کے امتزاج ( تسبع) کو حقیقی بنا دیتا ہے ۔ اس اصول کو کہ آسمانی اجسام در حقائق بیان کرتے ہیں ِ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اپنے تمام امکانات کی حالت اپنی باری پر، صرف وہی قوت جو وہ رکھتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں آسمانی روحیں اجسام کو مسلسل حرکت دیتی رہتی ہیں جس پر وہ کسی نظام کے پابند ہیں اور اسے حقیقی بناتے ہیں َ۔ان میں ہمیشہ مشابہت پائی جاتی ہے۔اس خوبی کی بنا پرنمائندگی ایک نکتے پر مرتکز ہو جاتی ہے۔اس وقت اس میں کمالیت نہیں پائی جائے گی۔  مختصر طور پرایک طریقے سے جو کہ جزوی طور پر غیر عقلی ہیں      کو ختم کیا جائے ۔ ہر بار ہر ایک نقطہ پر روح  جو شئے منتخب کرتی ہے، کوایسے طریقےسے جو جزوی طور پر غیر عقلی  ہوتی ہیں ِ ، ختم کرتی ہے اور روح ہر بار ایک نقطے کا انتخاب کرتی ہے۔ 

کروں کی حرکات کی وضاحت اس طرح واضح کی جا سکتی ہے جو فطرت، روح اور ذہانت کا ملا پ کریں۔ یقیناً روح فطرت کی پیروی کرتی ہے، اس صورت میں کیونکہ وہ جسم، آسمانی حرکت کی قوت کی مخالفت نہیں کرتی اور انہیں فطری قرار دیتی ہےلیکن اس کے ساتھ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا لیکن اس کے ساتھ سوچ اور ارادے ( خواہشات) کی حیثیت سے بھی بیان کیا جائے گا۔ صرف عقلی، فکری خواہش جو کہ مخصوص سوچ بچاررکھتا ہے،واضح کر سکتا ہے آسمانی تحریک کو جس میں جسم ہمیشہ خاص طور پرمخصوص حالت میں واقع ہوتی ہے! روح  تصور میں پیدا کرتی ہے اس لئے وہ منتخب کر کے خواہش کرتی ہے کہ ایک تحریک پیدا ہو جس میں جسم ہمیشہ واقع ہو۔ایک خصوصی پہلے سے متعین کردہ  مقام اور پوزیشن میں:  روح کا تصور کرتی ہے اور اس طرح سے وہ منتخب کرتی ہے اور خواہش کرتی  ہے کسی سیاق و سباق کے تحت کہ ذہانت کی طرف مائل ہوتی ہے تو یہاں ذہانت کا مقصد اسے اپنا کر ان کے مساوی بنے۔ 

3) آفاقی جسم ذہانت کے تابع ہوتا ہے۔ واضح طور پر خدا کا عمل فوری طور پر سلسلہ قائم کرنے کی طرف چلا جاتا ہےاس وقت اس میں فوری طور پر سلا سل کی ضرورت محسوس ہوتی ہےجس میں ایک سبب  والا عنصر شامل ہوتا ہےاس مطلق منفرد اصول میں ثانویت اور مصالحت کی وجہ سے کثرت پیدا ہوتی ہے۔ وقت  کے ساتھ ساتھ خدائی سبب کی وجہ سے منقسم ہو جاتی ہے کہ براہ راست کسی شئے کی تخلیق کی گئی ہے ( جس کی تخلیق بہت ضروری تھی اور مصالحت کے بعد کون سی تخلیق پیدا کی گئی ہے۔اس تجلی اور ظاہری اصول کی وجہ سے ابن سینا اپنے خیال پر قائم رہنا ہے کہ مطلق وجود کا تصور پایا جاتا ہے جس سے وجود میں آنے کا اور بیک وقت اس کے ساتھ یہ بھی یہ تصور بھی برقرار رکھتا ہے کہ واضح امتیازیاقسام میں معلول جو کہ ثانوی(متائسف) ان سے جوکہ مصالحت کے بغیر واقع ہوئے ہوتے ہیں، کے ہم آہنگ ہوتا ہےجو ایسی شئے جو آخری سبب پیدا کرتی ہے(معلول) جو کہ ثانویت اورصرف ایک اثر (معلول) کی خوبیوں سے بنی ہے۔

ابن سینا کا اظہار کا نظام اولین اثرات، آسمانی اشیاء سے ہم آہنگ کر تے ہیں اور اگر سختی سے کہا جائے تو وہ اپنے اول کے ساتھ جو کہ یا تو بنا ہوتا ہے یا پھر غیر تسلی بخش ہوا ہوتا ہے اور مطلق طور پر تخلیق کی ہوئی ہے(المبدا الرواح) جس میں ذیل میں عام الفاظ میں تما م اثرات ہوتے ہیں اور اگر اس میں یہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ارضی ہیں۔ 

یہ نمونہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ اسباب کے مختلف سلسلے کیسے بنتے ہیں جس طرح کہ نو افلاطونیت کی روائت میں ہے۔ ابن سینا نے افلاطون کی چار وجوہات کو باطنی اور خارجی میں بدل دیا کسی شئے سے متعلق جو کسی شئے کا سبب بنتی ہیں۔اس طرح سے اس نے ان کی ایک درجہ بندی کردی(علت۔ ثانوی۔ کی وجہ سبب بنا) جس کی وجہ سے ثانوی اصطلاح آخری سبب سے اوپر ہو گئی لیکن مطلق وجہ سے نیچے رہی۔اس ارضی دنیا میں ہے مثلاً صورت مادہ بننے کا ایک حصہ ہے اور یہ اس سے برتر ہے  کیونکہ علت و معلول میں ثانوی اور مصالحتی کردار کی وجہ سے جو کہ ذہانت کے لئے سب سے آخری وجہ ہوتی ہے۔ جس میں دونوں یعنی شکل و صورت اور مادہ ذہانت کا نتیجہ بنتے ہیں۔ 

 اس کے علاوہ جو اثرات (علل)ثانوی شئےکے بغیر پیدا ہوتے ہیں اور حتمی طور پر مطلق وجود اختیار کر لیتے ہیں یا پھر غیر تسلی بخش اور غیر مادی ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنے وجود کی روح اور ضرورت صرف علم وجودیات میں امکانات کی ترتیب ثانویت کی وجہ سے اس وقت اس طرح سے تعریف کی جاتی ہے۔ علم وجودیات کی ترتیب سے جو کہ ثانویت کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوئی۔ یہ سب مادی اشیاء ہوتی ہیں جو کہ مادہ اور شکل و صورت سے تشکیل پاتی ہیں۔اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس انداز میں ذہانت ( العقل) کائنات کی تشریح کی جا سکتی ہے جو براہ راست ضرورت کے وجود کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وجود کے بارے میں اگر صحیح انداز میں بیان کیا جائے، ان میں سے یہ صرف اول اشیاء جو کہ آغاز کرتی ہے۔اول سوچ کی ذہانت کی وجہ : روح (النفس)اور ماورائی اجسام وجہ (الکرم اسماویہ) سے۔ دونوں ہی کا معلول ارضی دنیا پر ہوتا ہے اور۔۔۔بالکل آفاقی ذہانت کی طرح جنہیں مذہبی اصطلاح میں ٖفرشتے کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے تعاقب میں ارضی دنیا میں سادہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ تمام بحث کے بعد ابن سینا نے منرجہ ذیل نتیجہ اخذ کیا                                                                                    

Conclusion (6

نتیجہ   

 ابن سینا نے    اس کو ذیل کے عنوانات میں بیان کیا۔

6.1)  The  Ethical  Dimension.

 ا خلاقی  سمت

6.2 )The Sublunary World ،  Matter and Evil.

 ارضی  دنیا،  مادہ اور برائی

6..3)   Concluding   Remarks.   

        حرف آخر                                       

   تمام بحث سے جو نتائج اخذ کئے  ان میں انہوں نے اخلاقی سمت اور ارضی دنیا کے بارے میں نتائج اخذ کرنے کے بعد حرف آخر پر اپنے فلسفے کی بساط لپیٹی۔

 

6.1) The  Ethical  Dimension                      

اخلاقی سمت                           

 سوچ بچار میں خواص اور شئے کی لازماً موجودگی کا شعور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ خدائی فعل پرجو اشاراتی (کو نوٹ ) ہوتی ہیں پر انحصار کرے۔ابن سینا کے نزدیک یہ اخلاقی احساسات ہیں جو بہاؤ میں وجود کو اصول سے دور کر دیتے ہیں۔اصول روح نفس کی تخلیق کرتا ہے جسے خالص اور حقیقی خدا کہا جاتا ہے۔۔۔ دوسری قسم کی اصطلاح میں جن میں یہ فطری ضرورت استعمال کی گئی جو کہ ظاہری حالت میں واضح طور پر مخصوص تابانی، روشنائی کے خیال کے ساتھ مسترد کر دی گئی۔ اس و قت ایک ہی ضرب میں لازماً (ا  یٹمپورل) ایک ہی ضرب میں۔۔۔اس فارمولے کی رو سے اپنی عقل،سوچ بچار ،خواہش (ارادہ) اور محبت (عشق) کواستعمال کرتے ہوئے پہلا لازمی وجود دنیاکی              '   تخلیق                     ُ  کرناہے، خواہش ، ارادہ ، عزم ، سوجھ بوجھ ، محبت کرتا ہے۔ اس کی اپنی غور و فکراور نتائج جو کہ اس میں شام ہوتے ہیں۔۔۔ ارادہ اور محبت ۔۔۔ جسے ابن سینا نے               ' اصول کی خوبیوں میں اس بہاؤ کو واضح  کرتے وقت اخلاقی سمتوں کوبیان کرتے ہیں ۔ وہ بہاؤ اچھا ہےاور سخی َشامل کئے ہیں جو دنیا کو دیتا ہے ۔اسے حاصل کرنے دیتا ہے کہ اچھا کام کرے ، یقیناً اس وقت دنیا کی طرف وہ بہاؤ اچھا ہو گا کیونکہ یہ سخاوت ہی ہے جو اپنی ذات میں پائی جاتی ہے(جسے غیروجودی یا نجی محرومی کہا جاتا ہے)۔ وہ خدائی ارادے سے متعلق ہے ۔ یہ حادثاتی طور پر ارادے کی شکل    اختیار کرتا ہے مثلاً جیسا کہ حتیٰ کہ یہ اچھے امکانات کا لازمی نتیجہ ہے۔ ارادہ کو         '                   اصول  اول  ' کے تحت ہی متعلق بنا کر تعلق قائم کیا جاسکتا ہےجس میں منطقی امکانات:اصول ہمیشہ یہ ارادہ رکھتا ہے ۔ تب اس وقت میں وقفہ نہیں ہوتا ۔

 تاہم اس وقت اس کا ارادہ نہیں پایا جاتا کہ تخلیق کرے۔ زمانی سمت کا بنیادی طور پر مکمل استرداد جو خدائی رضا کی خواہش کا معتبر اور مستند تصور پیش کرتاہے ۔ حقیقی تعقل کی یہ بھی ایک شرط ہے۔ ایک خواہش جو وجودی اصول کے ساتھ بالکل اتفاقیہ طور پر مکمل طور پر مماثلت رکھتی ہے۔ اس کے باطنی اور اندرونی  حالات کے ساتھ۔یہ بہاؤ یقیناً وجود کے حصہ کا ابلاغ ہے جو اس بات کو واضح کرتاہے کہ ضرورت امکانی روحوں کا خدائی احکامات کے ساتھ اخلاقی لحاظ سے انحصار ہے۔ عین اسی وقت اچھے مطلق کی تعریف بطور ممکنات کی مکمل شناخت ایک بنیا د ہے جس کی بنا پر ابن سینا اصول اول کے اخلاقی پہلوؤں کو اہم قرار دیتے ہیں اور یہ مشکلات طے کرنے کے بعد حاصل ہوتاہے : یہ اس بات کو شامل کرتے ہیں کہ '                اصول اول '  کی تخلیق کی کیونکہ امکانات کی شناخت عمدہ ہو گی۔ اس کے بعد انہوں نے ارضی دینا، مادہ اور برائی  کے بارے میں ذکر کیا۔   

6.2 ) The Sublunary World World  Matter and Evil.                                            

                                               ارضی دنیا، مادہ اور برائی

 ابن سینا نے دلائل کے ذریعے  ثابت کیاکہ سب سے آخر والی ذہانت مزید ذہانت پیدا نہیں کر سکتی بلکہ وہ ارضی دنیا اور انسانوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ سب آخری ذہانت یقیناً  شکل وصورت (فارمز)  دنیا کے لئے ۔۔۔بغیر کسی تاثر کے جو کہ قرون وسطیٰ میں امام الغزالی کےبہت زیادہ حمائتی تھےاور طرف داری کر رہے تھے جو کہ تعظیم اور احترام سے جھکنے  والے ۔۔۔شکل و صورت والے تھے۔ لیکن ابن سینا کے نزدیک یہ اصطلاح ہر ایک ذہانت کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔۔۔سب سے آخر والی ذہانت یا ذہانت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی ذہانت کے بنیادی اصول (کم از کم سیاق و سباق سمجھنے میں ابن سینا نے مدد کی  اصطلاح استعمال کرنے میں مابعد از  طبیعیات کے اصول میں جو کہ ارسطو نے مادہ اور شکل وصورت کے کئے اپنے کام میں ممکنہ طور پر استعمال کئے ہیں۔وہ ڈھانچےکے مطالعہ میں ظاہری نمونوں  کے بارے میں خیالات پر قائم رہتا ہے جو دنیا کو صرف اس کے آغاز کے لحاظ سے بلکہ زندگی اور نسلوں کو فطری تبدیلی کو اس عمل کے ذریعے تصور کرتے ہیں جس سے مادہ کو صورت اور شکل کے اور شئے کو کامیابی سے وصول کرنے کے قابل بناتا ہےجس سے وہ شکل و صورت میں باقاعدہ طور پر سرگرم ہوکر ذہانت کے نمائندے کے ذریعے ابن سینا نے اس عمل میں کروں کا بھی عمل دخل          کا ذکر کیا۔ اس میں تال میل سے جو کہا ارضی عناصر مادہ کی وصولی اور وجوہات معلوم کرنے کے لئے کرتے ہیں آمادگی ظاہر تے ہیں۔قوت کے بارے میں حرکیاتی تخیل اور اس کے افعال کی تشریح کی گئی ہے جس سے طاقت کی اصطلاح اورتصور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ابن سینا اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اظہا، ر کی صورت میں استعداد، آمادگی خصوصی باقاعدہ تیاری صورت اورظہو ر کی نسبت سے مادہ کی قوت کا تعلق وقت کی وصولی کے ساتھ سے جو دنیا کی زمانی سمت میں و ہ در حقیقت ارضی دنیا کی زمانی سمت قت  کے تعین کے بارے میں  فیصلہ کرتا ہے۔  امکانات  کی ضرورت   معلوم کرتا ہے  جو سطح زمین  کی تہہ میں مادہ کی قوت پیدا  کرتا ہے  اور ثابت کرتا ہے کہ  ایک ایسی شئے جو تہہ میں نہیں پائی جاتی جب عدم وجود کی شکل میں  ظاہر ہوتی ہے۔  

6.3) Concluding   Remarks.                            

         حرف آخر

اسلام کےظہور (ایمے نیشن)کے تعقل کوجو ابن سینااس طرح واضح کرتے ہیں کہ خدائی دنیا کے تعقلات اور زیادہ عمومی طور پر موئثر اسباب پائے جاتے ہیں ۔ حرکت کا سبب (تحریک)اور اس کا اثر و رسوخ (تائثر) دونوں ہی اضافی طور پر اس میں شامل کئے گئے ہیں اورظہورہونے کے اسباب میں قاعدے قائم کئے جو کہ ان خیالات میں برقرار رکھے گئے ہیں جس کے بعدانہوں نے انعام(ڈونیشن) کی اصطلاح استعمال کی۔ان کے مابعد طبیعیات کے فلسفےکے ہر مضمون فزکس ، نفسیات ، عرفان(  گنازیالوجی) علمیات( اپسٹمالوجی)پیش گوئی (پروفیسی) اور یہاں تک کہ موادیا ت(ایس چیٹالوجی) میں بھی لاگو کرتے ہیں جس میں بہاؤ کی اشکال اور صورتیں ظاہر ہوتی ہیں۔اس کے نتیجے میں حتمی  توضیح و تشریح کرتے ہیں ما بعد از طبیعیات کے حصوں کے علاوہ نجات میں بھی استعمال کرتے ہیں۔تصریحات( ریمارکس)، سائنس، رہنمائی و مشاورت    تمام مل کر اپنی کتاب                       '                    الماہدہ  ولمعاد ' اور دیگر تحریروں میں جو کہ ما بعد از طبیعیات کے مطالعہ کے لئے ضروری ہیں۔

 

             

 

 

Popular posts from this blog