مور کا ناچ (The Time of The Peacock) Mena Abdullah (1930 --) (Australia)

 




مور کا ناچ

(The Time of The Peacock)

Mena Abdullah

(1930 --) (Australia)

 


 مترجم  ؛ غلام  محی  الدین


جب میں بچی تھی تو تمام دنیا میرے لئے جنت سے کم نہ تھی۔  فارم ہاؤس کی دنیا میرے لئے شاندار تھی۔  ہم ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔  اماں، ابا، بڑی بہن رشیدہ، میں (نمی) اور چھوٹا بھائی لعل۔  زندگی نہایت خوشگوارتھی۔  ابا جب پندرہ سال کے تھے تو اپنے گہرے دوست انکل سعید کے ساتھ قسمت آزمائی کے لئے پنجاب انڈیا سے آسٹریلیا چلے آئے تھے۔  ابّا کا خاندان پشتی کا شت کار تھا۔  آسٹریلیا میں اس پیشہ کی بڑی قدر تھی۔  دور دراز دیہی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمین بے آباد پڑی تھی۔  اُس نے سخت محنت سے اپنا مقام بنایا اور بڑے رقبے پر کاشتکاری کی۔  بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے پالے۔   ایک فارم ہاؤس بنا لیاجو ہمارا مسکن تھا۔  اُس میں ایک باغ بھی تھا جس میں پھلوں کے درخت، پھول اور پرندے پالے تھے۔  میری ماں کا آبائی وطن بھی انڈیا تھا۔  اُس کے والدین پانڈیچری سے ہجرت کرکے آسٹریلیا کے شہری علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔  ابا سے اس کی شادی ہوئی تو وہ اس کے ساتھ گاؤں چلی آئی۔  اسے گاؤں کی زندگی کا اگرچہ کوئی تجربہ نہیں تھا پھر بھی وہ ابا کے ساتھ گاؤں میں پر مسرت زندگی گزار رہی تھی۔ ابا کی تعلیم واجبی تھی اس لئے وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لئے دارالخلافہ سڈنی منتقل ہوگئے لیکن اس نے فارم ہاؤس اور گاؤں کی زمین فروخت نہ کی۔

 

ہمارا فارم ہاؤس کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔  چھٹیاں اور تہوار ہم ہمیشہ گاؤں میں ہی منایا کرتے تھے۔  ہمارے والدین کے عزیز و اقارب، دوست احباب بھی اس دوران جمع ہو جاتے اور پرانی یادوں کو دہرایا کرتے تھے۔ 


مجھے یاد ہے کہ جب ہم گاؤں آتے تو ابا اور اس کے دوست انکل سعید صبح صبح گھڑ سواری پر نکل جایا کرتے تھے اور سورج نکلنے پر واپس آیا کرتے تھے۔  رشیدہ کو گاؤں کی کہانیاں یاد تھیں۔  وہ اماں سے کرید کرید کر قصے کہانیاں سنا کرتی تھی۔  ہم تینوں بہن بھائی فارم ہاؤس میں خوب دھما چوکڑی مچایا کرتے تھے  اور اگر وہاں کوئی مہمان یا ملاقاتی ہوتے تو ان کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی کیا کرتے تھے۔  مجھے یہ بھی یاد ہے جب ایک کالے رنگ کے شخص لاسکر نے میری ماں کو مور دیا تھا جسے اس نے باغ میں باڑ لگا کر مرغ کے قریب رکھ دیا تھا۔  یہ مور انڈیا سے لایا گیا تھا۔

 

مجھے اُس دور کی خزاں کی شامیں بھی یاد ہیں جب ہم دریا کے کنارے خشک پتوں کو جلا کر ان کے بلند شعلوں کا عکس دریا میں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔  اماں اگرچہ مسلمان ہوگئی تھی لیکن وہ پیدائشی طور پر ہندو تھی اور ہمیں ہندو مذہبی تہواروں اور اہم واقعات کے بارے میں آگاہ کرتی رہتی تھی۔  اُن میں قابلِ ذکر رام لیلےٰ، رام شیام وغیرہ کے قصے کہانیاں ہوتی تھیں۔  میں اس بات سے بہت متاثر تھی کہ رام کی بنسری کی لے اتنی مسحور کن اور طاقتور تھی کہ وہ ایک پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔  جب آگ کے شعلے کم ہو جاتی تو ہم اماں سے ایسی کہانیاں سنتے سنتے آگ پر مکئی کے سٹے ڈال دیتے  اور پھر جب وہ بھُن جاتے تو ہم انہیں کھا  لیتے۔

 

سردیوں کا موسم بڑا شدید ہوتا تھا۔  بہت زیادہ برفباری ہوتی تھی۔  درجہ حرارت نقطہ انجماد سے درجنوں درجے نیچے چلا جاتا تھا۔  تندو تیز سرد ہوائیں ہمارے بالوں کو اڑایا کرتی تھیں۔  جب ہم آتش داں کے قریب بیٹھ کر آگ تاپ رہے ہوتے اور گھر کے باہر سردی میں کتے بھونک رہے ہوتے تو کتنا اچھا لگتا تھا۔


موسم بہار میں ہر طرف ہریالی اور پھول ہی پھول کھلے ہوتے تھے۔  اس موسم کے پہلے دن میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ’راز‘ کا لفظ سنا، وہ بھی ابا سے۔  مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب میں بڑی ہوگئی تھی اگرچہ اس وقت میری طبعی عمر صرف چار سال تھی لیکن ابا نے مجھ پر اعتماد کرکے ذمہ دار بنا دیا تھا۔  اس دوران میں نے ابھیگنتی سیکھنا شروع کی تھی۔  میرا خیال تھا کہ میں ہر شئے کو گن سکتی تھی۔  میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں گن سکتی ھی۔قدم، کھڑکیاں یہاں تک کہ ان پہاڑیوں کو بھی گن سکتی تھی جو ہمارے گھر کی کھڑکی سے نظر آ تی تھیں۔ ان پہاڑیوں کو گنتے وقت کئی بار مجھے محسوس ہوتا کہ  کچھ گڑ بڑ ضرور ہوجاتی تھی۔ میرے حساب کے مطابق وہ پانچ ہونی چاہئیں تھیں۔  پہلے وہ پانچ ہی گنی جاتی تھیں لیکن اب گننے کے بعد ایک بچ جاتی تھی، شاید یہ رام کی بنسی کا کمال تھا جو اس نے ایک اور پہاڑی کو ہلا کر یہاں منتقل کر دیا تھا۔  ایک دو تین پانچ ……ایک بچ گئی۔  بار بار گننے پر بھی ایک بچ جایا کرتی تھی۔  مجھے یہ بات بے حد پریشان کرتی تھی۔  کرشنا رام نے گائے بھینسوں، ریوڑوں یا بھولے بھٹکے مسافروں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے شاید ایسا کیا ہو گا۔  بات جو کچھ بھی تھی، پہاڑی کی اس حرکت نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔  اس لئے میں بھاگی بھاگی اماں کے پاس یہ پوچھنے گئی کہ میں کس طرح کرشنا بھگوان کو خوش کر کے پہاڑی کو اس کے اصلی مقام تک لا سکتی تھی لیکن جب میں وہاں پہنچی تو اماں کا بڑا پیٹ دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔  مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر نیا بے بی آنے والا تھا۔  میں جوش میں آکر بستر پر جمپ لگانے لگی۔

 

میں نے دیکھاکہ اماں باغ میں پھولوں کے قریب نظریں جھکائے کھڑی تھی۔  اس کی آنکھیں بند تھیں اور کچھاشلوک پڑھ رہی تھی۔  اس کے دونوں ہاتھ اس کے چہرے کے سامنے جڑے ہوئے تھے۔  پھولوں کے گر د انار، آلو بخارا اور دیگر پھلوں کے درخت تھے۔  اس وقت وہ انار کے درخت کے نیچے دودھ سے بھرا ہوا کٹورا رکھ رہی تھی۔ دیگر درختوں میں بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔  میں نے چیخ کر ماں سے پوچھا کہ بے بی کب آئے گا؟  اب تو واقعی بہار کا موسم آگیا ہے، تم نے کہا تھا کہ موسم بہار میں آئے گا۔بے بی جلد ہی آجائے گا ناں؟

ہاں، ماں بولی۔۔ جلد ہی۔

 

میں نے یہ سن کرخوشی سے  قہقہہ لگایا اور اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر اپنا سر تھپتھپانے لگی۔  میں نے کہا کہ میں اب بڑی ہوگئی ہوں،میں ایک ٹانگ پر اچھل سکتی ہوں۔

  ابا نے مجھے راز بتانے کا کہا ہے اورمیں پانچ تک گنتی گن سکتی ہوں۔  میں بھاگتے ہوئے اپنے مور کی طرف چلی گئی۔  شاہجہان دیکھو!  موسم بہار آگیا ہے اور گھر میں نیا بے بی آنے والا ہے، میں نے جوش میں کہا لیکن مجھے ایسا لگاکہ اسے اس خبر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔  بے وقوف کہیں کا!   تمہیں تو ارد گرد کا کچھ بھی علم نہیں اور مجھے لگا کہ اب میں دس تک بھی گن سکتی ہوں لیکن شاہجہان کو اس خبر پر بھی کوئی اثر نہ ہوا  اور  وہ اپنی بے وقوف سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتا ہی رہا۔  مجھے یہ حیرانی تھی کہ وہ ساتھ والے پنجرے میں مرغ کے ساتھ کیوں رابطہ نہیں رکھتا؟  میری طرح اچھل کود اور بھاگ دوڑ کیوں نہیں کرتا؟۔۔ ۔ اور کچھ نہ سہی وہ اپنی دم کے پر تو پھیلا سکتا تھا۔  چلو اگر وہ اس قابل بھی نہیں تھا کہ دم پھیلائے تو کم از کم وہ اس کی کوشش تو کر سکتا تھا ۔لیکن وہ میری طرف ہونقوں کی طرح دیکھتا رہا۔  ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے۔  میں بولتی رہی کہ وہ پر پھیلائے لیکن سب بے سود۔  اس پر میں بے حد افسردہ ہوگئی۔

 

رشیدہ صحیح کہتی ہے کہ شاہجہاں اُس مور کی طرح، جس کی تصویر پر پھیلائے ہوئے کشمیری پنکھے پر لگی ہے، کیطرح پر کبھی نہیں پھیلائے گا۔  میں نے اسے کہا کہ زیادہ سے زیادہ شاہجہان تم ناکام ہو جاؤ گے، کم از کم تمہیں کوشش تو کرنی چاہئے۔  اُس کو اماں کے پاس لانے والا شخص لاسکر (Lascar)تھا۔  اس وقت مور کا رنگ سفید تھا۔  رشیدہ نے اسے دیکھ کر سوال اٹھایا تھا کہ مور کے پر تو نیلے، سبز اور سنہرے ہوتے ہیں۔  یہ مور کیسے ہو 

گیا  ؟

 

اماں نے کہا کہ یہ بچہ ہے ابھی یہ پر نہیں پھیلا سکے گا،   ابّا نے کہا کہ یہ آسٹریلیا میں کبھی بھی پر نہیں پھیلا سکے گا جبکہ انکل سعید کا ماننا تھا کہ یہ اس وقت تک پر نہیں پھیلائے گا جب تک کہ اس کی مادہ اس کے سامنے نہیںہوگی۔

 

نرس اماں کی تیمار داری کے لئے گھر میں رہ رہی تھی۔  اماں کا برا حال تھا۔  اس وقت اس کا چہرہ سیب کی طرح گول اور گلابی ہوگیا تھا۔  رشیدہ کھڑکی میں ایک کتاب لئے بیٹھی تھی اور ایسا تاثر دے رہی تھی جیسے کہ وہ اسے پڑھ رہی ہو۔  یہ کتاب بے بی کی پرورش کے بارے میں تھی۔  اس نے کہا کہ میں یہ کتاب اس لئے پڑھ رہی ہوں تاکہ بے بی کی دیکھ بھال عمدہ طریقے سے کی جائے۔  مجھے اس کی بات پر اس لئے یقین نہیں تھا کیونکہ وہ ابھی کچھ بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔  میں نے کہا،   تم تو پڑھ نہیں سکتی تو اس نے جواب دیا کہ وہ کتاب پڑھ نہیں رہی بلکہ تصویریں دیکھ کر اندازہ لگا رہی تھی کہ بے بی کی دیکھ بھال کیسے کی جائے۔  میں باہر باغ میں چلی گئی جہاں میرا چھوٹا بھائی لعل زمین کو کرنڈی سے کھود رہا تھا۔  اس نے کہا کہ وہ آنے والے بے بی کے لئے کیاری بنا رہا تھا۔  میں بھی اس کے ساتھ زمین کھودنے لگی تو اس نےمنع کر دیا اور کہا کہ یہ کام عورتوں

 کا نہیں بلکہ مردوں کاہے تو مجھے وہاں سے جانا پڑا۔

 

ابّا آلو بخارے کی پتلی شاخوں سے ایک ٹوکری بنا رہے تھے۔  شاخیں زمین پر رکھی تھیں اوراس کے چاروں طرف ٹوکری بن چکی تھی جو اس کے کاندھوں تک آگئی تھی۔  وہ درمیان میں اکڑوں بیٹھا تھا۔  میں نے اسے ڈرانے کے لئے چپکے سے بنی ہوئی ٹوکری پھلانگ کر اندرچھلانگ لگائی اور ’ٹھاہ‘ کہا تاکہ وہ ڈر جائے لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پہلے کی طرح اپنا کام کرتا رہا۔  اس نے کہا کہ اسے پتہ تھا کہ یہ میں ہی ہوں۔  میں اس پر غرائی اور منہ بنایا تو وہ حسب معمول ہنس دیا۔


میں نے پوچھا،   ابا۔۔ ۔موروں کی دمیں اتنی خوبصورت کیوں ہوتی ہیں؟

کیونکہ ان کے پاؤں بھدے ہوتے ہیں اور دم انہیں چھپا لیتی ہے،  ابا نے جواب دیا۔

لیکن شاہجہان کے پاؤں تو ہر وقت ہر کسی کو نظر آتے ہیں وہ تو کبھی بھی دم کے پر نہیں پھیلاتا؟

 

ہاں۔ ابا نے ایسے کہا جیسے کہ اس نے میرے سوال کا جواب دے دیا ہے۔  دن بھر میرے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا رہا۔  کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی صدمہ اور آج موسم بہار کا پہلا دن تھا۔  شاہجہان نے اپنے پر نہیں پھیلائے، رشیدہ ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے اسے پڑھنا آتا تھا۔  لعل نے مجھے کیاری نہیں کھودنے دیاور اماں سانپوں کے لئے دودھ رکھ رہی تھی۔  مجھے اپنی ایسی زندگی پر بے حد افسوس ہونے لگا میری بھی کیا زندگی ہے۔  دکھ ہی دکھ۔  غم دور کرنے کے لئے میں نے گنتی شروع کر دی۔  ایک دو تین پانچ، یک دم ابا بولے،  سنو!  تم اب بڑی ہوگئی ہو اس لئے تمہیں مناسب وقت پر ایک راز بتاؤں گا۔

 وہ راز کیا ہے؟  میں نے پوچھا۔

اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا کہ یہ بات ہم دونوں میں ہی رہنی چاہیے۔

یہ راز کہیں نہیں جائے گا۔ یہ راز راز ہی رہے گا،   میں نے یقین دلایا۔

 

ہم مسلمان ہیں لیکن تمہاری ماں کے ماتھے پر بندی کے نشان سے ظاہر ہے کہ وہ پہلے مسلمان نہیں تھی۔  وہ برہمن تھی اور اُن تمام رسموں پر یقین رکھتی تھی جو اس وقت اس کے ہندو  مت میں پائی جاتی تھیں۔  اب بھی وہ ان روائتوںپر یقین رکھتی ہے۔

یہ میں جانتی ہوں اور وہ پہاڑ۔۔۔۔۔۔۔میں بولنے لگی تو ابا نے چپ کرا دیا۔

 

بندریا!  چپ ہو جاؤلیکن اب تیری ماں مسلمان ہو چکی ہے۔  اسے وہ پرانی باتیںپوری طرح  یاد ہیں اور وہ موسم بہار میں سانپوں کو دودھ پلاتی ہے تاکہ وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا سکیں۔ میں اپنی طرف سے مکمل کوششکر رہا ہوں کہ وہ مسلمان طرزِ حیات اپنائے۔  مجھے امید ہے کہ میں اس میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔ انشاء اللہ۔  آہستہ آہستہ وہ سب اسے دل سے اپنالے گی، ویسے ہمارے باغ میں کوئی سانپ نہیں ہے۔


اماں بتاتی ہے کہ وہ ہر روز دودھ پی لیتے ہیں اگر سانپ نہ ہوتے تو دودھ ویسے کا ویسا ہی رہتا،   میں نے کہا۔

 

اگر دودھ کو برتنوں میں رہنے دیا جائے تو سانپ ضرور ہمارے باغ میں آ جاتے اور یہ بدبخت کسی کا لحاظ نہیں کرتے ،جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ ضرور ڈس لیتے ہیں اور وہ راز ہے جو میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں،   وہ میرے اور تمہارے درمیان رہنا چاہیے۔  میں ہر روز رات کو باغ میں جاتا اور دودھ کو ضائع کر دیتا ہوں۔ اس طرح مجھے ڈر نہیں رہتا کہ کوئی سانپ تمہیں، رشیدہ، لعل، تمہاری اماں، مجھے یا کسی اور کو ڈس لے گا۔  دوسرا فائدہ یہ کہ تمہاری ماں کی تسلی رہتی ہے کہ اس نے ہم تمام لوگوں کو نقصان سے بچا لیا ہے۔  یہ راز کسی کو بھینہیں بتانا ہوگا،   ابا نے کہا۔

 

نہیں، کبھی نہیں۔ یہ بات میں اپنے تک ہی محدود رکھوں گی۔ ابا کی اس بات نے  مجھ میں اعتماد پیدا کردیا تھا کہ اب میں بڑی ہوگئی ہوں۔  میں فخر یہ انداز سے دن بھر گھومتی رہی۔  رشیدہ اور لعل سے مہربانی سے پیش آئی۔


  میں اس بات پر اترا رہی تھی کہ میں ہی ایسی لڑکی ہوں جسے اس راز کا پتہ ہے۔  میں نے خود کو اماں سے بھی زیادہ معتبر پایا کیونکہ اس راز کا تو اسے بھی پتہ نہیں تھا۔  میں نے اماں سے پوچھا۔ بے بی کب آئے گا۔ جلد۔ 

کتنی جلد؟

رات کو یا کل صبح تک یا اس سے اگلے دن۔  ماں بولی

کیا تمام بے بی رات کو ہی آتے ہیں؟  میں نے پوچھا۔

میرے تمام بے بی رات کو ہی آئے ہیں۔   ماں نے جواب دیا۔

لیکن……؟ میں بولنے لگی۔

بس اب اور کچھ نہیں۔ بھاگ جاؤ۔۔ میرا سر چکرا رہا ہے،   ماں نے کہا۔

 

اس رات مجھے درد ناک عجیب سی آوازیں سنائی دیں جبکہ سب لوگ گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔  میں نے سوچا کہ یہ مور کی ہی ہو سکتی ہے۔  میں اسے دیکھنے کے لئے فوراً کھڑکی کی طرف بھاگی۔  کھڑکی میں سے باغ میں جھانکا۔  چودھویں کا چاند تھا۔  ہر سو روپہلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔  چاند سوا نیزے پر تھا۔ میں اگر اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کرتی تو میرا خیال ہے کہ وہ پکڑا جا سکتا تھا۔  وہ بہت بڑا تھا۔  شاہجہاں ایک کونے میں 

گم سم افسردہ براق کی طرح سفید چاند کی روشنی میں چمک رہا تھا۔  اسے دیکھ کر میرے دل میں ہمدردی بھرآئی۔

 

میرے منہ سے فوراً نکلا،   شاہجہاں!  میرے بھائی۔ تمہیں اپنے بدصورت پاؤں کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔  تمہیں اپنی خوبصورت دم کی طرف توجہ دینی چاہیے جو بے حد نرم، ملائم اور خوبصورت ہے۔  اِدھر میں یہ بات کہہ رہی تھی تو اُدھر شاہجہان نے دھیرے دھیرے اپنی دم پھیلانا شروع کر دی اور وہ پنکھے پرمور کی تصویر کی طرح سفید جھالر کی شکل اختیار کر گئی جو رو پہلی روشنی میں بے حد چمک رہی تھی اور اُس نے ناچنا 

شروع کر دیا۔  میرے منہ سے بے اختیار نکلا،  میرے شاہجہان!  ایسا لگتا ہے جیسے تم آسماں سے اترے ہو۔  اُس کی خوبصورتی کا یہ نظارہ صرف میری قسمت میں ہی تھا۔  میں نے اس نظارے کو قید کرنے کے لئے آنکھیں بندکر لیں، جب ایک پل کے بعد آنکھیں کھولیں تو وہ نظارہ ختم ہو چکا تھا۔  اس کی دم کے پر نیچے ہوگئے تھے اور وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔

 

صبح کے وقت نرس نے ہمیں جگایا۔  کہا اندازہ لگاؤ رات کون سا بے بی آیا تھا؟  تم لوگوں کی ایک بے حد پیاری اور خوبصورت بہن پیدا ہوئی ہے۔

 

بھائی نہیں؟   لعل نے پوچھا،  کیا وہ بے بی بھائی نہیں ہے؟  ہم نے اس کی بات پر قہقہہ لگایا۔  رشیدہ اور میں اماں کے کمرے کی طرف بھاگے تاکہ نئے بے بی کو دیکھ سکیں۔  اماں بالکل چپ چاپ بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔

  اُس کا موٹا پیٹ غائب ہو چکا تھا۔  اس کے سر کے بال تکئے پر بکھرے پڑے تھے اور بے بی گرل پرانے پنگھوڑے میں مٹھیاں بند کئے ہوا میں لہرا رہی تھی۔  ہم پنگھوڑے کی پٹیوں کے درمیان سوراخ سے اُس کو دیکھ رہی تھیں جبکہ لعل نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اماں کے پاس جا کر لیٹ گیا اور افسردگی سے بڑ بڑایا۔۔ لڑکا نہیں ہوا۔۔ میرے س ساتھ کھیلنے کے لئے لڑکا نہیں آیا۔


میرے پیارے۔  میرے ننھے منھے بیٹے مجھے افسوس ہے کہ تمہارے ساتھ کھیلنے کے لئے لڑکا نہ لا سکی،   ماں نے کہا۔یہ خدا کی طرف سے تحفہ ہے ۔

کیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

یہ خدائی تحفہ ہے اور تحفے تبدیل نہیں کئے جاتے۔


ابا ڈیری فارم سے لوٹے تو وہ سنجیدہ تھے۔  انہوں نے بے بی کو پچکارا اور بستر پر بیٹھ گئے۔  اچھے بچو تمہارے لئے ایک چھوٹی بچی آگئی ہے،   انہوں نے کہا۔

چھوٹی نہیں۔۔ ۔ بڑی ہے۔۔۔یہ پیدا ہوتے وقت نوپاؤنڈ کی تھی،   نرس فخر سے بولی۔

ارے لعل بیٹے،  تم نے اپنا منہ کیوں سُجا رکھا ہے؟  اچھے بچے تمہارا کیا مسئلہ ہے؟  ابا نے اسے اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا۔

لڑکا نہیں۔  میرے ساتھ کھیلنے اور باتیں کرنے کے لئے کوئی لڑکا نہیں پیدا ہوا،   لعل بولا۔


اوہ!  تو یہ بات ہے۔  یہاں اس گھر میں لڑکیاں زیادہ ہوگئی ہیں یوں کرتے ہیں کہ ایک لڑکی کو ڈبو دیتے ہیں۔  لعل بتاؤ ان میں سے ہم کس کو ڈبوئیں؟

یہ بات سنتے ہی رشیدہ اور میں اچھلیں اور ابا کو پکڑ لیا اور دونوں نے یک زبان ہو کر کہا۔  ’میں نہیں‘ ’میں نہیں‘۔  پلیز، پلیز میں نہیں۔  نرس نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر اس نے ابا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔


 تم تو بچیوں سے بھی بد تر ہو۔  اُس کے بعد وہ ہنسی اور اسکے ساتھ ہم بھی ہنس دیئے۔  عین اسی وقت بے بی کے رونے کی آواز آئی۔

اب اس کے نام کا مسئلہ ہے۔  اِس بے بی کو کیا نام دیاجائے؟  ٍہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی اور اسی لمحے انکل سعید نے دروازے سے اندر جھانکا۔  ابا نے بے بی کو اٹھایا اور اس کی گہری موٹی موٹی کالی آنکھوں کو دیکھنے لگا۔ اس کیآنکھیں اسے انکل سعید کی چھوٹی بہن کی طرح کی لگیں۔  


ابا نے انکل سعید سے پوچھا کہ تمہاری سب سے چھوٹی بہن جس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں جو انڈیا میں ہے، کا کیا نام ہے؟  

اُس کا نام جمیلہ ہے،   انکل نے جواب دیا۔ 

آج سے اس کا پہلا نام ’جمیلہ‘ ہوگیا،   ابا نے کہا جبکہ اس کا دوسرا نام شہناز ہوگا جس کا مطلب دل و جان سے پیاری۔

 

مجھے شاہجہان یاد آگیا اور ان سب کو بتایا کہ رات میں نے اسے پر پھیلاتے اور ناچتے ہوئے دیکھا تھا۔  کسی کو میری بات پر اعتبار نہ آیا۔  رشیدہ نے کہا کہ تم نے خواب دیکھا ہوگا۔  میں بولی کہ یہ خواب نہیں تھا۔  میں نے حقیقت میں اسے ایسا کرتے دیکھا ہے۔ 

 

یقینا تم نے خواب دیکھا ہوگا،  ابا بولے اور چونکہ ابا نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی تھی اس لئے میرا یقین متزلزل ہونے لگا اور میں نے بات ٹال دی پھر میں بے بی کی انگلیاں گننے لگی۔ ایک دو تین پانچ۔۔

تم نے درمیان میں چار نہیں کہا،   ابا بولے۔

 

اوہ!  میں چار کہنا بھول گئی تھی۔  ایک دو تین چار پانچ۔  جب ابا لعل اور رشیدہ کو گنتی سکھا رہے تھے، میں ہولے سے وہاں سے کھسکی اور کھڑکی ے باہر کی پہاڑیاں گننے لگی۔  ایک دو تین چار پانچ۔  ارے!  اِن پہاڑیوں کی تعداد تو پانچ ہی تھی۔  میں نے انہیں بار بار گنا تو وہ پانچ ہی نکلیں۔  مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں پانچ تک صحیح گن لیتی تھی۔  میں نے لعل، رشیدہ  اور بے بی کی انگلیاں گنیں،سب کی پانچ پانچ تھیں۔  مجھے پانچ کی گنتی 

پوری طرح آگئی تھی۔  میں نے مور کو بھی پر پھیلاتے دیکھا تھا اوریقینا دیکھا تھا۔ یہ میرے پاس دوسرا راز آگیا تھا۔  ایک دو تین چار پانچ تک گنتی اچھی طرح گن لیتی تھی۔  یہ میری یہ گنتی پکی ہوگئی تھی،  پھر میں بڑی ہوتی گئی اور گنتی کبھی بھی نہ بھولی۔  میرے راز ابھی تک میرے پاس رہے۔  میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا کہ ابا رات کو کٹوروں سے دودھ غائب کر دیتے تھے اور یہ کہ میں نے مور کو ناچتے دیکھا تھا۔

 

 


Mena Abdullah

(1930 -) Australia


مینا عبداللہ ( Mena Abdullah )  آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کے ایک چھوٹے سے گاؤں  بندارے میں 1930میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین تارکین وطن تھے۔  اس کا والد عبداللہ اور گہرا دوست سعید پندرہ سال کی عمر میں ہی قسمت آزمائی کے لئے انڈیا سے آسٹریلیا آگئے تھے۔  اس کے خاندان کا آبائی پیشہ زراعت تھا اس لئے اس نے زراعت کو اپنا پیشہ اپنایا جہاں کاشتکاروں کے لئے وسیع مواقع تھے۔  جلد ہی اس نے گاؤں میں وسیع زمین حاصل کرلی اور ان پر نہ صرف مختلف فصلیں اگانے لگا بلکہ اس نے پھلوں کے باغ، بھیڑوں اور گھوڑوں کا فارم ہاؤس بنا لیا۔  وہ متمول لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔  اس نے اڑتالیس سال کی عمر میں ایک ہندو خاتون کو مسلمان بنا کر شادی رچالیجس کا خاندان بھی پانڈیچری سے ہجرت کرکے آسٹریلیا آباد ہواتھا۔  ان میںتین بچے رشیدہ (چھ سال)، نمی (چار سال)، لعل (اڑھائی سال) کے تھے اور ایک بے بی پیدا ہونے والا تھا۔ اس کا والد چونکہ بہت کم پڑھا لکھا تھا اس کی تمام عمر آسٹریلیا کے دور ددراز گاؤں میں گزری تھی اس لئے اس نے اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر وہ نیو ساؤتھ ویلزکے دارالخلافہ سڈنی منتقل ہوگیا لیکن اس نے اپنی زمین اور فارم ہاؤس نہ بیچا۔  وہ تمام تہوار فارم ہاؤس میں ہی آکر منایا کرتے تھے۔

 

مینا عبداللہ نے ہائی سکول سڈنی سے کیا۔  اس کے بعد اس نے اعلیٰ تعلیم اکاؤنٹس میں حاصل کی اور دولت مشترکہ میں افسر بن گئی۔  اسے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا جو مختلف مقبول جریدوں میں چھپا کرتی تھیں۔  اس کی پہلی نظم  Red Koran (1954)  میں چھپی۔  اس کی مختصر کہانیوں کی کتاب The Time of Peacock (1965)  میں چھپی اس زمانے میں گورے اقلیتوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے خواہ وہ صدیوں سے ہی وہاں آباد ہوں،   اُن کو غیر ملکی ہی تصور کیا جاتا تھاجبکہ اس وقت بھی یہ خود کو ان سے برابر سمجھتی تھی کیونکہ وہ آسٹریلیا میں ہی پیدا ہوئی تھی۔  اُس کی تمام اقدار، تعلیمات، فیشن اور اندازِ گفتگو آسٹریلوی ہی تھا اس لئے وہ بجا طور پر یہ مطالبہ کرتی تھی کہ اس کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔  اِسی لئے اس نے امتیازی سلوک کے خلاف تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا بالآخر حکومت کو ان کے حق میں قانون سازی کرنا پڑی۔

 

وہ آسٹریلین تھی۔  اس کا ہندوستان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اپنے والدین کی وجہ سے اس کے تمام امور میں دلچسپی لیتی تھی۔  وہ صرف ایک ہی بار انڈیا گئی لیکن اس کی بڑی بہن کو وہاں جانے کا بڑا شوق تھاجو کثرت سے بطور سیاح انڈیا جایا کرتی تھی۔  مینا نے انڈین آسٹریلین پر بے شمار کہانیاں لکھیں۔  ان کی زندگی آسٹریلیا میں کیسے گزر رہی تھی اور  ان کا طرزِ حیات عام آسٹریلوی باشندوں سے کس طرح مختلف تھا۔  ہمیشہ آسٹریلیا میں رہنے کے باوجود وہ اپنی اقدار کو نہیں بھولے تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح اپنی جڑوں سے منسلک رہنا چاہتے تھے۔

 

اس کی ماں نے اگرچہ اسلام قبول کر لیا تھالیکن اس کے ماتھے پر لگی بندی جو ہندو مذہب کی علامت تھی، موجود تھی نیز اس کے سابقہ مذہب کی جو ریت روایات تھیں وہ اپنے طور ادا کرتی رہتی تھی۔  مینا نے بھی ہندومت کا مذہب اختیار کر لیا۔  یہ کہانی اس کی کتاب  The Time of Peacock  سے لی گئی ہے۔

Popular posts from this blog