ہمزاد Like You By Peter James

 





ہمزاد

Like You

By

Peter James

مترجم : غلام محی الدین

جوبی  نے اسے فیس بک پرپسندکیا۔حسینہ  نےجواباًاسے بہت زیادہ پسندکیا۔جوبی  کے من میں لڈو پھوٹے۔

جوبی  کو   اس  حسینہ کی  شکل بہت    بھائی ۔وہ   اس کی  دلکش مسکراہٹ  پر مرمٹا۔اس کی باتیں  نرالی تھیں ۔ وہ عام لڑکیوں سے ہٹ کرتھی۔  

عادات جو اس نے فیس بک پربتائیں وہ نرالی تھیں۔( گفتگو کا آغاز تو فیس بک سے ہواتھا جو بعد میں ای۔میل اور وٹس اپ تک جا پہنچا)۔وہ  جی دارتھی ۔اسے لوگوں اور کمیونٹی  کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ اس کے  جوڑ کی تھی ۔اس کے لئےبالکل صحیح تھی،جوبی کے  خیال میں وہ دودہائیوں کےآخر ی سالوں میں تھی ۔یہ وہ عمرتھی جس میں لوگ پختہ اورسنجیدہ ہوجاتے ہیں ۔زمانے کی اونچ نیچ جان لیتے ہیں ۔وہ جان لیتے ہیں کہ وہ اصل میں کیاچاہتے ہیں۔اس خاتون کےلئے جوبی میں لطیف  جذبات  پیداہوگئےتھے ۔اس خاتون کی مسکراہٹ دوستانہ تھی جواس بات کی غمازی کرتی تھی کہ اس کےساتھ ملاقاتیں مزےکی رہیں گی ۔ وہ آزاد خیال تھی۔ وہ فٹ بال اور ہاکی کے میچ  دیکھنا  پسندکرتی تھی ۔اسے بھی  یہ کھیلیں    مرغوب تھیں ۔جذباتی ہم آہنگی اس کے  تعلقات میں مضبوطی   کاباعث بن  سکتی تھیں ۔اس کے بشرے سے لگ رہاتھا  کہ وہ رومان پرور بھی تھی ۔ ایک بات  جوجوبی کو اہم لگی ،وہ اس کی آنکھوں کےتاثرات تھےجن  میں ہلکی ہلکی تشنگی نظرآتی تھی جوشائداس بات   کوظاہرکرتی ہو جیسے اس کی مرادیں برنہ آئی ہوں۔اسے   اس کانام بھی اچھالگا۔

جوبی  اسے اپنی    دوست بناناچاہتاتھا۔اس کی  خواہش  لمحہ بہ لمحہ شدت اختیارکر رہی تھی۔اس کی فرمائش پر اس  حسینہ نے اپنی  صرف ایک تصویر ہی بھیجی تھی۔اسے اس کی  اکلوتی تصویر کمال   کی لگی۔اس  نے اسے  کہا کہ وہ ایک حیرت انگیزلڑکی ہے۔اسے  اس سے پہلی نظر میں ہی محبت 

ہوگئی ہے ۔اگر وہ  اس کی  محبت قبول کرلے تو  ان کی   جوڑی  یقیناًبہترین ثابت ہوگی۔ وہ ہی ایسی خاتون ہے  جس کی اسےتلاش  تھی  ۔وہ   اس سے کبھی مایوس نہیں ہوگی۔وہ  یقیناًپورے ہوش وحواس کے ساتھ اسے اپناسکتاتھا۔وہ چاہتاہے کہ اسے  اپنی مزید  تصاویر بھیجے ۔

اس کافوراً جواب آیا اور بتایاکہ اس کے پاس صرف ایک ہی تصویرتھی جواس نے بھیج دی تھی۔

جوبی  نے کہا کہ اس کی  بدقسمتی !۔۔۔اس نے اس کا مطلب یہ لیاکہ وہ  اپنی نجی معلومات دوسروں کو  دینے میں محتاط تھی۔ یہ تو بڑی اچھی بات تھی۔ جوبی نے سوچا۔

اس دوستی کی ابتدا فیس بک سے ہوئی۔جوبی وقت بسری کے لئے اپنی فیس بک پرتھاتوایک خاتون  کی تصویر اس پر آئی۔اس کانام  ٹریسا سانڈرز تھا۔اس  نے اسے دوستی کا پیغام بھیج دیا  اوراس ٹریساکےجواب کاانتظار کرنے لگا۔اس نے بیس منٹ تک اس کے جواب کاانتظارکیا۔ آدھی  رات گزر چکی تھی ،اس کاجواب نہ آیا۔ اگلی صبح اس کی کمپنی کی ایک بڑے اکاؤنٹ  سے ملاقات طے تھی  ۔اس  کی کمپنی  کو اس مؤکل نے نے اپنے ایک پراڈکٹ  جووٹامن  سے متعلق تھا کا تفصیلی تعارف پیش کرناتھا۔اس مؤکل کادعویٰ تھاکہ اس  کے وٹامن  کے استعمال سے  نہ صرف  توانائی  میں اضافہ ہوجاتاتھابلکہ اس سے اچھا کولیسٹرول بھی پیداہوتاتھا۔ وہ ملاقات بہت اہم تھی اور مزید انتظار اسے اگلے دن کے لئے سست بنادیتااور اکاؤنٹ ہاتھ سے جانے کاخطرہ تھا۔مؤکل نے انہیں  اپنے پراڈکٹ کے بارے بتاناتھااور اس کی کمپنی نے اپنی تکنیکی صلاحیتیں بتانی تھیں کہ وہ کس طرح ان کی پراڈکت کو عوام الناس میں  روشناس کرائے۔

اس لئے مزید تاخیرکئے وہ سوگیا۔چونکہ ان دنوں وہ بالکل اکیلا تھا۔ اس کی گرل فرینڈ اسے چھوڑکر چلی گئی تھی اس لئے تمام رات ٹریسااس کےاعصاب  پرچھائی رہی۔اس کی لمبی ریشمی زلفوں نے اسے مدہوش کئے رکھا۔اس کے گندمی چہرےپر بلوری آنکھیں مسکراتی ہوئی نظرآتی رہیں۔جوبی نےاس کادامن اپنے خواب  میں تھامے رکھا۔  اس کے چہرے اور لبوں کو بےصبری سے چوم رہاتھا  کہ  چونک کر بیدارہوگیا۔اس کے پورے جسم میں سرورچھایاہواتھا۔یقیناًیہ ایک خواب ہی تھالیکن وہ  کتنادلکش تھاجو اصل جیسالگ رہاتھا!اس میں عجیب وغریب ،پراسرار اورمکمل طورپر جادوئی  کیفیت          اوراپنائیت محسوس ہورہی تھی۔اس کےاحساسات اتنے بھڑک اٹھے  تھےکہ اسے  یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا  اس کی خوابگاہ میں اس وقت موجود تھی یانہیں بجلی کا سوئچ آن کرناپڑا۔۔۔وہی  ننگالکڑی کافرش جس کی رنگت سیاہی   سبزپانی جیسی تھی،پر دری بچھی تھی اور کھڑکیاں پردوں کے بغیر تھیں اور کمرے سے آدھے میل پردریا  تھااور اس کےپار پہاڑی  آبشار  دکھائی دےرہی تھی اور اس کے علاوہکوئی اور نفس نہیں تھا۔

بےآواز روشنی  میں  دریامیں پولیس  پولیس  موٹر کشتی  پرگشت کررہی تھی جس کاانجن  رات کی خاموشی میں شورکررہاتھا۔وہ  آہستہ سےاپنی خلوت گاہ سےنکل کر  اپنی لائبریری گیااور کمپیوٹرپربیٹھ گیا۔اس کی کھڑکی سے دریااور آبشار نظر آتی تھی اورتازہ ترین صورت حال جاننےکے لئے اپنی  فیس بک کھول لی۔اس پر ایک پیغام آیاہواتھا۔ جس میں بتایاگیا تھا کہ ٹریساسانڈرز نے اس کی  دوستی کاپیغام قبول کرلیاتھا ۔   

اس کے ساتھ اس نے ایک فقرہ لکھاتھا،'دوستی کی درخواست کرنےکاشکریہ۔ ٹریسا سانڈرز (' ٹی')

اس وقت صبح کے تین بج کربیس منٹ ہوئے تھے۔ ۔۔وہ  اس کا جواب فوری دیناچاہتاتھالیکن پھرارادہ ترک کردیاکیونکہ اس سے ٹریساپر برااثر پڑناتھا۔ اس کے سامنے بے صبری نہیں دکھاناچاہتاتھا۔اسے یہ احساس نہیں دلاناچاہتاتھا کہ وہ  اس کے لئے غیر موزوں تھا۔اس لئے یہ فیصلہ کہ اس سے تعلقات بڑھانے تھے ، کیسے بڑھانے تھے،پرسوچنے لگا اور سوگیا۔  سواچھ بجے  کے الارم پر اس کی  آنکھ کھلی۔ صبح کاذب کب کی جاچکی تھی اور چارسوروشنی کادوردورہ  تھا۔اپریل  کے  دن اسے سب سے اچھے لگتے تھے۔راتیں  سکڑنےلگی تھیں۔اس کی  چھٹی حس نے اشارہ کیاکہ شائد   اس بار وہ  ٹریساکی حقیقی  محبت میں گرفتار ہونے جارہاتھا اور وہ ٹریساکے ساتھ ملاقاتوں کودائمی بناناچاہتاتھاتاکہ وہ فرصت میں انہیں دیکھ کر  یا یاد کرکے لطف اندوز ہو سکے۔وہ اس نئی نئی دوستی پر بہت جذباتی ہوگیا اور اس نے روداد لکھنے کاسوچا اور اب تک  ہونے والی باتوں کو    ریکارڈ کرلیا۔

وہ اپنے سیاہ چوغے میں ٹی وی پربیٹھ گیااور صبح کی خبریں سننےلگا۔مائیکروویو میں  اس کمپنی کا دلیا جس کے ساتھ اس روز میٹنگ  تھی  گرم کرنے کے لئے رکھ دیا  تاکہ اس پراڈکٹ  کی خصوصیات جان سکے اور اسے اشتہارات  میں  اجاگرکرسکے۔ یہ اس کی کمپنی کاہونے والا نیا پراڈکٹ تھا۔ اس نے کھایا تو وہ بد ذائقہ تھا جو پگھلےہوئے پلاسٹر آف پیرس چاک  جیساتھا۔لیکن وہ  یہ بات   اشتہارات  میں نہیں کی جاسکتی تھی اور اس تاثر کو کم سے کم کرکے پیش کرناتھا۔ اس کی اشتہار بازی ایسی کرنا تھی کہ لوگوں نے اس کی بدذائقی کونظرانداز کرکے اس کی توانائی اور دیگر  چیزوں  کوبڑھاکر پیش کیاجائے ۔ اس نے سوچاکہ اس کی غذائیت  اور توانائی   کے وصائف اور اجزائے ترکیبی اجاگر کرنے ہوں گے  ۔ اس میں وہ اس بات پربھی زور دے  گاکہ اس سے بہتر خوراک بازار میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھی۔

جب دلیاپک گیاتواس نےاسے کھاناشروع کیا۔ سامنے ٹی وی پر فلسطینوں کی سیاسی خبریں دی جارہی تھیں۔وہ اسرئیلیوں کے خلاف نعرہ بازی کررہے تھے۔ان کےہاتھوں میں کتبے اٹھائے ہوئے تھے۔اس سےجوبی کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کاپورادھیان  ٹریسا سانڈرز پر تھا کہ اس کوجواب میں کیالکھے ۔۔۔کوئی ایسی بات لکھے  ۔جو اس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھے۔کسی کی نقل نہ ہوجسے پڑھ کر ٹریساکا دل موم ہو جائےاور یہ تاثر پیداہوجائے کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس  سے خط وکتابت جاری رکھی جاسکتی تھی۔  جہاں تک   جوبی کی مالی حالت کاتعلق تھا تو وہ مستحکم تھی اور پورے لندن میں  سب سے زیادہ تنخواہ لینےوالاکاپی رائیٹر تھا۔اس  نے فیصلہ کیاکہ وہ ٹریسا کو ایسی باتیں لکھے گا جسے پڑھ کروہ  اس کےحق میں فیصلہ دے گی۔

جوبی  اس وقت بتیس سال کاکنواراتھا۔اس  نے پیڈ اٹھایا۔اس کا حلیہ ،صحت اور بنک بیلنس  اچھاتھالیکن پچھلے آٹھ ماہ سے وہ   اپنےبسترپراکیلاہی سوتاتھا۔اس کوئی ہم نوا اور ساتھی نہیں تھی۔اس نےٹریسا کوایک پیغام بھیجاجس میں  اس نے صرف یہی لکھا۔'دوستی قبول کرنے کاشکریہ۔ جوبی (جے) اور پیغام بھیج دیا۔جانے سے پہلے اب تی کی ہونے والی بات چیت کاریکارڈ رکھ لیاتاکہ جب ٹریاسا سے دوستی گہری ہوجائے گی تووہ اس کے ساتھ پڑھ کر محظوظ ہواکریں گے۔

اس کے بعد وہ سوٹ پہن کردفتر چلاگیا۔ہر سرخ بتی اور فون پر' ٹی 'کے جواب کاانتظار کرتارہا۔بہت سے پیغامات اوپر نیچےآرہےتھے لیکن ان میں اس کاکوئی پیغام نہیں تھا۔۔۔کم آن۔۔۔وہ  خود کلامی کرکےاپنی بے چینی دورکرتارہا۔

 دفتر میں  مؤکل کےساتھ  میٹنگ شروع ہوئی ۔فریقین ساتھ ساتھ ایک شیشے کی  میز  پربیٹھ گئے۔جوبی 'بریسن کارنراولاف '  ایجنسی  کے لئے کام  ۔ کھانے پینے کا پورااہتمام کیاگیاتھا۔میز پر طرح طرح کے کھانےاور مشروب مغرب  رکھے گئے تھے۔مؤکل  کی طرف سے چاراعلیٰ سطح کے  نمائندے اور اس کی بریسن کارنر اولاف  کمپنی  کےتین  اعلیٰ  نمائندے شامل تھے۔وہ ایک بہت بڑا اکاؤنٹ تھا۔جن میں اس کا باس  'مارٹن ویلیس' بھی شامل تھا۔ ان سے مذاکرات میں جوبی کی کمپنی نےوہ تکنیکیں  ان کے سامنے رکھنا تھیں جو ان کے دلئے کی پراڈکٹ  کی عوامی مقبول بناسکے۔اس کے رفقائے کار مارٹن  اور  ٹینا نے نئے  پراڈکت کی کیسے پبلسٹی کرنی تھی،کے کچھ اشتہارات دکھائے۔اس کی رسالوں اور پرنٹ میڈیا میں کیسے مہم چلانی تھی تفصیلاً بیان کی۔سروے کرا کران کے حق میں کس طرح راہ ہموار کرنی تھی۔کیسے کال سنٹر کااستعمال کرناتھا وغیرہ وغیرہ  پیش کیں ۔کمپنی کے مالک مارٹن  نے پہلے بڑی سکرین پر مثالیں دیں،اس کےبعد ان  اقداما ت کا پورا پروگرام  بڑی سکرین پرپیش کیا۔اس نمونے میں یہ بھی پیش کیاکہ اسے  پرنٹ میڈیا پرکس انداز سے پیش کیاجائے گا۔کون سے دل چھونے والے فقرات لکھے جائیں گے ۔ کس کس خوبی پر زور دیاجائے گااور کس عمرکے لوگوں کےلئے بنایاجائے گا۔وغیرہ وغیرہ۔اس تمام بحث اور مہم جوئی میں جوبی کی شرکت نہ ہونےکےبرابر تھی کیونکہ اس کی سوچ  ٹریسا کے جواب  پر اٹکی تھی۔وہ اپنے آئی فون کوباربار دیکھ رہاتھا۔اسے اپنے میزکے نیچے سائلنس موڈ تجارتی میٹنگ میں اس کا کوئی دھیان نہ تھا۔وہ اپنے آئی فون کو میز کے نیچے   اپنے  ہاتھ میں پکڑکرمسلسل دیکھ رہاتھا۔

جوبی  کیاسوچ رہے ہو۔کن خیالوں میں  گم ہو؟مارٹن نے اس سے مخاطب ہوکرکہا۔

جوبی نے اپنانام سناتووہ تخیلات سے باہرنکل آیا اور چونکا۔اس نےدیکھاکہ میٹنگ میں موجود چودہ آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ان میں سےکئی توغضبناک   آنکھیں عینک کے گہرے شیشوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ یہ دیکھ کر جوبی  کا چہرہ  شرم سے گلنارہوگیا ۔وہ ہکلایا۔اور کہا کہ وہ پوری طرح متوجہ تھا۔اگرچہ حقیقت میں ،اسے کچھ اندازہ نہیں تھاکہ بات چیت  میں کون کون سے معاملات  حل ہوگئے تھے اور کون سے حل ہونے والے تھے اور میٹنگ کہاں تک پہنچی تھی ۔کس موضوع پراس وقت بات ہورہی تھی۔اس وقت میٹنگ میں موجود تمام اراکین کی  نظریں اس  پرجمی تھیں  اور اس کے جواب کاانتظار کررہی تھیں۔اس کاچہرہ ایسے جل اٹھاجیسے اس پرتیزاب انڈیل دیاگیا۔

کیاتم ہمارے ساتھ ہو۔مارٹن  ویلیس نےکہا۔

بالکل۔جوبی کے  پسینے چھوٹ  گئے۔

اب بحث تمہاری طرف  موڑی جاتی ہے۔تم اپنی  تجربانہ رائے دو۔ اس نے کہا۔

ہاں۔جو  فیصلہ  کیاگیاہے وہ یکدم صحیح ہے ۔ام،آہ، او۔کے۔جوبی  نےہڑبڑاکے کہا۔ایک خاتون جسکا نام وہ بھول گیاتھا، شائد ٹینا تھا،اس کی  فوری مدد کوآئی اورکہا کہ ہم اپنی اشتہار مہم میں  ٹویٹر کی افادیت پرگفتگوکررہےتھے۔

یقیناً۔اس نے اس روشنی میں جواس کے منہ پرپڑرہی تھی،کہالیکن  اس کے  ذہن میں فوری طور پر کچھ نہ آیا  ۔اس لئے جوبی نے اندھیرے میں تیرچلایا۔کہاکہ اس کا خیال ہےکہ ابلاغ عامہ کے لئے وہی طریقے اختیار کرنے چاہیئں   جومیکسی مس بریک  کمپنی   میں استعمال کئے گئے تھے۔اس بات پر زور دیاجائے کہ اس دلئے کے استعمال سے  اچانک بےپناہ توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔اور  مثبت  معلومات   فراہم کرنے میں ٹویٹرکا زیادہ سے زیادہ  استعمال کیا جائے۔ا س سے آگے وہ کیاکہے ،اس کی سمجھ میں نہ آیااور چپ ہوگیا۔اس کےجواب سے لوگوں کےچہرے بےسپاٹ رہے اور اسے  ناپسندیدگی سے گھورا کیونکہ اس سے اعلیٰ دلائل اور بڑی سکرین پر مظاہرہ پہلے ہی بہترین طریقے سے پیش کیا جا 

چکاتھا۔جوبی کو ان کے گھورنے سے شرمندگی ہوئی۔

ٹینا  اس کی مدد کوآئی اور کہا کہ آج کل دنیا کی تین چوتھائی آبادی  ذیابطیس  ،فشار خون اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہےجوپرہیزی خوراک کھاتی ہے۔ان کی صحت  بہتر بنانے کے لئے  انہیں اس دلئے کے استعمال کا مشورہ دیاجائے گا۔لوگ اسے اس  دلیل کو تسلیم کرکے دھڑادھڑ خریدیں گے۔لوگ اپنی صحت پر سمجھوتہ نہیں کرتے  ۔اگر اس کا ذائقہ خراب بھی ہواتو وہ اسے نظر انداز کردیں گے۔انہیں قائل کرلیاجائے توہم اپنی مرضی کےمقاصد ھاصل کرسکتے ہیں ۔یہ دلیا  صرف  برانڈ ہی نہیں  بلکہ صحت یابی کے لئے ضروری ہے۔ یہ پیغام جاندار ثابت ہوگا۔

اس کےبعد   جوبی  سےیہ غلطی ہوئی  کہ  اس نےاپنےہاتھ میزکےنیچے رکھے موبائل  سے الگ نہ کیا ۔اپنی بات ختم کی تواس کی نظر اپنے موبائل پر پڑگئی۔اس پرٹریسا کاپیغام آیاہواتھا اس میں لکھاتھا۔ ۔۔جوبی ۔تم سے مل کرخوشی ہوئی۔میں نےابھی تمہارے فوٹو دیکھے ہیں۔تم ایک اچھےشخص لگتے ہو۔اپنے بارے میں مزیدبتاؤ۔

میٹنگ کے بعد  کمپنی  کے مالک مارٹن ویلیس نے جوبی سے کہ اسے دفتر میں ملے۔مارٹن ویلیس  کی عمرچالیس سےاوپرتھی جس کے سلجھے ہوئے ادرک رنگ کے خشخشی بال تھےاور ایک روائتی تاجر کے  شاندار سوٹ میں ملبوس قیمتی قمیض پہنےتھا۔اس کالب و لہجہ یارک شائروالوں کی طرح کاسخت تھا۔

وول ویچ؟۔۔۔یہ ایک ناپسندیدگی کااظہارتھا۔

ہاں،وہ وول وچ؟کیاتم مؤکلوں کے حق میں تھے یا میری کمپنی کی  نمائندگی کررہے تھے۔کیاتم میرے خلاف تھے۔کیاتم نے ہماری  گفتگو سنی تھی ۔مجھے سوفیصد یقین ہے کہ تم   ہمارے ساتھ نہیں تھے۔

ایسی بات نہیں مسٹر ویلیس۔کیا میں نےتمہاراپوراساتھ نہیں دیا؟جوبی  نے کہا۔

تم آج کسی کےساتھ بھی نہیں تھے۔کیاتم  نے کوئی نشہ کیاتھا یا اس جیسی کوئی چیز کی تھی یا  ایسی شئے لی تھی جس سے تم اپنے آپے میں نہیں تھے۔یاتمہاری صحت خراب  تھی جوبی؟مارٹن نےکہا۔

نہیں۔ایساکچھ بھی نہیں۔ جوبی  نےکہا۔

تم کواس بات کااحساس ہوناچاہیئے تھاکہ تمہارے غیرذمہ دارانہ رویے  سے ہم کمپنی کاسب سےبڑا اکاؤنٹ کھودینےوالےتھے۔جب بھی تم سے جوسوال پوچھا،تم کسی اوردنیامیں کھوئے ہوئے تھے۔مارٹن بولا۔

مجھے افسوس ہے۔ اس نےکہا۔

مجےایسی چیزیں پسندنہیں۔بزنس میں افسوس نام کی کوئی شئے نہیں ہوتی۔مارٹن نےکہا۔آخری موقعہ دے رہاہوں۔

جوبی  سرزنش سن کر اپنے  گھرآیااوردن بھر کے واقعات بمعہ اپنی بے عزتی کے ڈائری پر نوٹ کیا ۔اس کے بعد  ٹریساکولکھا۔

ٹریسا۔تم سے مل کر مجھےبھی خوشی ہوئی!تمہاری میل  کی وجہ سے  باس نےمیری  سرزنش کی۔مالک  نے  تنبیہ کی!وہ یہ سمجھ رہاتھاکہ اہم ترین بزنس میٹنگ میں  اس سے بھی کوئی اہم چیزتھی جس میں میں کھویاہوا تھا۔اور میٹنگ میں عدم دلچسپی دکھارہاتھا۔اصل بات یہ تھی کہ میں   تمہارے جواب کاشدت سے انتظارکرہاتھا۔تم نے تفصیلات پہنچی ہیں ۔۔۔میرا نام جوبی ہے۔تم مجھے 'جے 'کہہ سکتی ہو۔ کنواراہوں۔ایک  ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتاہوں۔میں ویبنگ وہارف میں ٹاور بریج کےپاس رہتاہوں۔میں تم سے باقاعدہ ملناچاہتاہوں۔ ۔۔(جے)۔ پیغام چلاگیا۔

جوبی اس سے فارغ ہواتو ٹی۔وی پربیٹھ گیا۔اپنے لئے بڑاگلاس وودکامارٹینی کا بنایااور ایک  چسکی لی۔ٹی وی پرجوکچھ بھی لگاتھا،دیکھنے لگا اور پرواہ نہ کی کہ کون ساپروگرام چل رہاتھا۔ اس نے اس وقت تک کی خط و کتابت کے نوٹس ریکارڈ کرلئے تاکہ مستقبل میں اپنی یاد تازہ کرتارہے۔وہ  آج جی بھرکےپیناچاہتاتھااوراپنے باس  کی سرزنش  کوبھولناچاہتاتھا۔وہ اس  بزنس میٹنگ  کےمتعلق سوچ رہاتھاجو آج بورڈروم  میں ہوئی۔مارٹن نے اسے جو ڈانٹ پلائی تھی اس پر وہ حق بجانب تھاکیونکہ وہ   اس اہم ترین میٹنگ میں ذہنی طورپرموجود نہیں تھا۔اوہ خدا!ٹریسا سانڈرز اس کے  اعصاب پربری طرح سوار تھی حالانکہ وہ توابھی اس سے ملابھی نہیں تھا۔

ٹریسا کی طرف سے جواب موصول ہوچکاتھا۔اس نے لکھاتھا۔۔۔میں بھی  تم سے ملناچاہتی ہوں جوبی۔ (ٹی)

جوبی نے اس کاجواب فوری دیا۔۔۔تمہارے لئے کون ساوقت اوردن مناسب ہے؟

آج رات۔ٹریساکاجواب آیا۔

توادھر بھی آگ لگی تھی۔وہ بھی اس سے ملنے کی  اتنی ہی شائق تھی   جتناکہ وہ خود تھا،اسے  یہ جان کرخوشی ہوئی۔

کہاں ؟جوبی نے پوچھا۔

اس کے بعد کچھ  دیروقفہ رہا۔اور ٹریسا  کاپیغام آیا ۔

ساڑھے دس بجے،ہوم سٹیڈ پیتھ پر ۔اس کی لوکیشن 51564725'ں' 0 7 41 938 10 ڈگری ہے۔ (ٹی)

اس کی یہ عجلت دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لئے ڈرساگیا۔اپنے دانت پیسے۔ اس  نے وہ لوکیشن اپنے آئی فون پرسیٹ کی۔ وہ سنسان جگہ تھی ۔غالباً کوئی قبرستان تھا۔ اس نے سوچاکہ ٹریساایک چالاک لڑکی تھی ،نڈر تھی اورہرقسم کےحالات کاسامناکرنے کی سکت رکھتی تھی۔وہ اس کی مردانگی کاجائزہ لینا چاہتی تھی۔اسے چیلنج قبول تھے۔ یہ بات  ایک لحاظ سے خوش آئند تھی کہ اس  سے ملاقات کے بعد اس کی  انتظار کی گھڑیاں ختم ہوجانے والی تھیں اور دوسری طرف  کسی انجانی شئے کاخطرہ بھی تھا کیونکہ وہ جگہ جس پراس نے بلایاتھا وہ سنسان تھی۔

 ساڑھے دس بجے  وہاں ملوں گا۔ ۔۔(جے)۔

میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے ضرورملو۔۔۔(ٹی)۔

میراابھی یہی پروگرام ہے۔۔۔(جے)

وعدہ۔ ( ٹی)

جوبی نےدانت پیسے اور لکھا۔ وعدہ،۔پکا وعدہ ہے ( جے)

اس نے تازہ ترین حالات ریکارڈ کئے۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی شئے فوری ریکارڈ کر رہاتھاتاکہ کوئی بات  مس نہ ہوجائے۔آئی فون پر ایڈریس ڈالااوراس نے ڈائرکشن دیناشروع کردی۔اس وقت رات کےنوبجےتھےاوراس ایڈریس پرپہنچنےکےلئےایک گھنٹہ درکارتھا۔اس نے پنیرکاسینڈوچ بنایاجواسے  اس قابل بنالیتاکہ  اس وقت تک  پی ہوئی شراب کو جذب کرلےاور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  اجازت  کے پیمانےسے کم رہے۔اور اپنی منزل مقصود پرپہنچنے کی  تیاری  کرنےلگا۔ٹوتھ پیسٹ کی،پرفیوم چھڑکا، چمڑے کی جیکٹ پہنی اور چونکہ وہ جگہ سنسان تھی اس لئے ایک  چھوٹی سی ٹارچ بھی اپنی جیب میں رکھ لی۔لفٹ سے اپنے گیراج پہنچا اور گاڑی نکالی  تواس کا دل نہ جانے کیوں مضطرب  ہوگیا۔تاہم اس نے تازہ ترین صورت حال کمپیوٹر اور آئی فون دونوں پرریکارڈ کرلی

رات کےاس پہرلندن میں کم رش ہوتاتھا۔لیکن یہ شئے  باعث مسرت تھی کہ  اس نےوہاں  صحیح وقت پرپہنچ  جاناتھا۔ گاڑی میں سی۔ڈی چلادی اور 'جی۔پی۔ایس' چالوکردیا۔  اپنی منزل کی طرف تیزی سے  بغیر کسی رکاوٹ کےرواں دواں رہا ۔ وہ  خوش تھاکہ آج سے اس کی تشنگی دور ہوجانےوالی تھی۔۔ٹریساسانڈرز سے اس کی جلد ہی ملاقات ہونےوالی تھی۔وہ اتنے کم وقت میں اس کے خوابوں کی ملکہ بن جائے گی اس نے سوچابھی نہ تھا۔وہ سنسان راستوں کی وجہ سے   طےشدہ وقت سے بیس منٹ پہلے پہنچ گیا۔

کارپارک کی۔اس جگہ پرقبرستان تھاجوجنگل اور جھاڑیوں سے بھراتھا۔اندھیراچھایاہواتھا۔اس  نے اپنی جیب سے ٹارچ نکالی اور جھاڑیوں میں رستہ تلاش کرنےلگا۔وہاں  کوئی شخص نہ تھا۔الگ تھلگ مقام تھا۔ماحول ڈراؤناتھا ،اسے وہاں سے چلے جاناچاہیئے تھا لیکن   اس  نے سوچاکہ اگراس نے ایساکیاتووہ بزدل کہلائےگا۔اور وہ اس سے ناطہ توڑلے گی۔جب وہ ایک  لڑکی ہوکر اکیلی یہاں پرآسکتی تھی تووہ  توپھربھی مرد تھااور عشق کا متلاشی تھا۔ اس  نے ٹھنڈے سانس لئے اور مقناطیس کی سوئی  کی مدد سے  وہاں پہنچ گیا۔وہ ایک چھوٹا ساپارک تھاجہاں ایک بنچ پڑاتھا۔وہ اس پر بیٹھ گیا۔ 

اوہ ہاں! ٹریسا نے اچھی جگہ  منتخب کی ہے۔ اس  نے سوچا۔ وہ  اس  بنچ پر بیٹھ گیا۔اس کے من میں  لڈو  پھوٹ رہے تھے۔وہ ٹریسا  کاانتظار کرنے لگا۔کافی دیر بیت گئی۔ اس نے سوچا کہ اپنی اس  ملاقات کو دائمی بنانے کے لئے پورے واقعات  ریکارڈ کرلے تاکہ وہ ٹریسا کوبتائے کہ اس  سے ملنے کے لئے وہ کتنا بے چین تھا۔ وہاں کسی جگہ  آگ لگی ہوئی تھی اوردھواں پھیلا ہواتھا۔

اس لئے اس نےسگریٹ  کاپیک دوبارہ اپنی جیب میں ڈال لیااورکان لگاکر کوئی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔اس نےدورسے کسی کی آواز سنی۔آسکر۔آسکر۔آسکر۔یہاں۔لڑکے۔آسکر۔اس وقت قبرستان میں  اورکون آسکتاتھا،اس نے سوچا۔ 

ایک کتے کے بھونکنے کی آوازآئی ۔

آدمی نے کہا۔اچھا بچہ۔اچھابچہ۔

کتادوبارہ بھونکا۔

اس کےبعد خاموشی چھاگئی۔

اس نےانتظارکیا۔ہوا خشک تھی۔

جوبی انتظار کرتا رہا۔ہواخشک تھی۔سردی میں اضافہ ہورہاتھا۔تھوڑی دیربعداس نےاپنی گھڑی پروقت دیکھا۔دس منٹ اوپرہوگئےتھے۔پھر مزید پانچ منٹ گزرگئے۔اس   نے اپنے فون پر فیس بک  چیک  کی۔   پیغام بھیجا کہ وہ  پہنچ چکاتھا۔چند لمحوں بعد ٹریسا کاپیغام آیاکہ وہ بھی  یہیں کہیں تھی۔

جوبی نےادھرادھردیکھااور اس نے اپنی ٹارچ جلائی اور چاروں طرف اسے گھمایا۔ہرطرف تاریکی  کا راج تھا۔جوبی نے پھر پیغام بھیجا۔

میں تمہیں نہیں دیکھ سکتا۔کیامیں صحیح جگہ ہی پہنچاہوں جوتم نے بھیجی تھی۔

جگہ بھیجوجہاں تم اس وقت موجود ہو۔ٹارچ وہاں روشن کرو۔ اس نے ٹارچ جلائی۔جوبی  کواچانک  ٹھنڈی ہواکاجھونکامحسوس ہوالیکن جتنی تیزی سے آیاتھااتنی ہی اس تیزی  سے وہ  ختم ہوگیا۔

پھر اس نے محسوس کیاکہ اس کی پشت پرکوئی سخت شئے چبھ رہی تھی۔۔۔کچھ سخت اور ہموار  چیزجوبنچ کی دوسری اشیاسے مختلف تھی۔

جوبی  واپس مڑااور ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی،وہ ایک چھوٹی تانبے کی چیزتھی جوپیتل کی سجاوٹی   کشتی  جیسی تھی۔اس میں چھوٹے چھوٹے الفاظ کھدے ہوئے تھے۔ٹریسا سانڈرز کی یاد میں  1893-2011جو اس جھاڑیوں کے علاقے سے محبت کرتی تھی اور آسمانی  بجلی سے مرگئی ۔

یہ پڑھ کر جوبی خوفزدہ ہوگیا۔

ایک اور اور برفانی بھنور آیا۔اس کے بعد جوبی کو محسوس ہواکہ کسی نے اسے چھواہے اور کوئی شخص اس کےسر کےاوپرتھا۔اس نے اوپر دیکھاتواس کواس کوبےپناہ صدمہ ہواکیونکہ ایک سیاہ شکل آسمان سے بجلی کی تیزی سے اس پر گری اور وہ جھلس کر گر پڑا۔

بیچارہ ۔پولیس مین نےکہا۔

بہت جلدمرگیا۔وہ پولیس مین جوسب سے پہلےجائےوقوعہ پرپہنچا،نےکہا۔

فائربریگیڈ کوبلایاگیا تاکہ اسےفوری طورپرفوری طبی امداد دے کر ہسپتال لے جائے۔

  فائربریگیڈ کےافسران نے کچھ روشنی کی،اور ان میں سے تین بڑی تیزی سے آلات نکال رہے تھےاپنے جان بچانے والےسامان سے پیرا میڈک سٹاف  کواس کی نبض نہ ملی،اور  جوبی  کا سرپوری طرح جھلس چکاتھا،یہ ایساقتل تھا  جس  میں مجرم  نےاپنےجرم کاکوئی نشان نہ چھوڑاتھا۔

وہ شخص  جواپنے کتے کےساتھ نزدیک ہی تھا، نے یہ منظر اپنی آنکھوں سےدیکھا۔وہ اس واقعے کاچشم دید گواہ تھا۔وہ سکتے میں آکردیکھتارہا۔اس نےً چیختے ہوئے   ایمبولینس اور پولیس  کوفون کیاتھا۔پولیس  آئی  لیکن  بےبس تھی۔ارد گرد تلاشی پر انہیں  ایک شئے زمین  پرپڑی ملی۔وہ  جوبی کاآئی فون تھا۔

آئی فون اٹھانے کے بعد  اس نے اس کی سکرین دیکھی۔ایسالگتاتھاکہ وہ  وہاں کسی سے ملنے آیاتھا۔ایسالگتاتھاکہ وہ کسی معاشقے کی ملاقات تھی ۔ دس بج کرچالیس منٹ کا وقت تھا جب اس نے ٹریسا کو فیس بک پر اپنے آنے کی اطلاع  دی تھی جوآدھا گھنٹہ پہلے کاوقت تھا۔لیکن وہاں کسی خاتون کا نام ونشان تک نہ تھا۔

یہ اس کی رات نہیں تھی۔کیاایسا نہیں ؟پولیس افسر نےکہا۔

یاہوسکتاہےکہ اس خاتون نےاس سے اسے روپ بدل کرقتل کردیاہو  اورغائب ہوگئی ہو۔ سارجنٹ نےکہا۔

جرم کی تہہ تک  پہنچنے کے لئے کتے والے عینی شاہد کا بیان لیاگیا اور بعد میں فون کا فورینزک  کروایا گیا تو انہیں اس کی ریکارڈ نگ سے حقائق کاعلم ہوا۔ گواہ نے اسے ہمزاد کانام دیا۔

یہ سب کیاتھا،آج بھی اس پرسوچاجاتاہے تو عقل کام نہیں کرتی۔۔۔گمان ہے کہ ٹریسا نے آسمانی بجلی سے مرنے کا اس سے بدلہ لےلیاتھا کچھ لوگ اسے   ہمزاد  کی کارستانی قرار دیتے تھے۔ یہ سب کیاتھا،کیسے ہوا انجان ہی رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 


Popular posts from this blog