واپسی ( The Return ) Guy De Maupassant 1850 - 1893 (France)


 واپسی    

(  The  Return  )

Guy De Maupassant

1850 - 1893 (France)

مترجم :  غلام محی الدین

 

سرسبز و شاداب جنت نظیر چھوٹی سی وادی میں پرندے چہچہا رہے تھے۔ نزدیکی ساحل پر سمندر کی نرم گرم لہریں مسلسل اٹھکیلیاں کر رہی تھیں۔ ہوا بادلوں کو دھکیل رہی تھی۔ اس خوبصورت وادی کے شروع میں ایک بدصورت مٹی گارے سے بنی ہوئی کٹیاجس کی چھت گھاس پھونس سے بنی ہوئی تھی۔اس میں ایک خاندان عسرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس میں ایک خاتون جس کا نام لی مارٹن تھا، اپنے پانچ بچوں اور خاوند لیویسک کے ساتھ رہتی تھی۔  بیٹیاں چودہ اور تیرہ سال کی تھیں جبکہ تین بیٹوں کی عمریں بتدریج چار، تین اور ایک سال تھیں۔  اس کٹیا میں ایک چھوٹا سا صحن بھی تھا جس کا سائز رومال جتنا ہوگا۔ اس میں پیاز، بند گوبھی، دھنیا اور ٹماٹر اگائے ہوئے تھے جسے باڑ لگا کر سڑک سے الگ کر دیا گیا تھا۔  اسکا خاوند لیویسک  ایک ماہی گیر تھا،  وہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر گیا ہوا تھا۔ لی مارٹن ٹوٹے ہوئے جال کی مرمت کر رہی تھی۔  چودہ سالہ بچی ایک کرسی پر بیٹھ کر اپنی پھٹی ہوئی قمیض کی سلائی کر رہی تھی۔  دوسری بچی جو اس سے ایک سال چھوٹی تھی، وہ اپنے شیر خوار بھا ئی کو  دودھ پلا رہی تھی۔ دو لڑکے جو تین اور چار سال کے تھے، گھر کے باہر ایک دوسرے پر مٹی اچھال کر نہال ہو رہے تھے۔ کھڑکی میں ایک بلی بیٹھی تھی۔  دیوار کی نچلی سطح پر سفید رنگ کے پھول کھلے ہوئے تھے جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

اچانک وہ بچی جو قمیض سی رہی تھی، نے چونک کر  ’امی‘  کہا۔

کیا ہے؟ ماں نے پوچھا۔

وہ ایک بار پھر آٹپکا ہے،   لڑکی نے جواب دیا۔

ماں نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے ایک عجیب و غریب مخلوق نظر آئی۔

         

ایک مرد تھا جو بڑھی ہوئی داڑھی، پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس، سوکھے ہونٹوں اور پچکی ہوئی گالوں کے ساتھ ان کی کٹیا کے سامنے سڑک کے ایک کنارے پر صبح سے بیٹھا تھا۔ اس کی مشکوک حالت نے پورے گھر کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ شکل و صورت سے تو بھکاری لگتا تھا لیکن وہ خاموشی سے بیٹھا ان کی کٹیا کو تک رہا تھا اور منہ سے کچھ نہ بولتا تھا۔ لڑکی نے اسے اس وقت وہاں بیٹھا دیکھا تھا جب صبح وہ ساحل پر جا رہی تھی۔ اس وقت وہ ان کے دروازے کے عین سامنے والے گڑھے کے ساتھ والے درخت کے سائے میں بیٹھا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ جب واپس آئی توا بھی بھی وہ حسرت سے دروازے کو ہی دیکھ رہا تھا۔

         

صبح کے وقت وہ کئی گھنٹے درخت کے سائے میں بیٹھا رہا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ گھر والے اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں تو وہ اٹھا اور اپنے پاؤں گھسیٹتے ہوئے وہاں سے چل دیا اور کہیں غائب ہوگیا۔

         

اب پھر اس بچی نے بیمار اور خستہ حال شخص کو عین پرانی جگہ پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ اسی طرح ان کی کُٹیا کے دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔ اس کی یہ حرکت ان کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ بھکاری بھی نہیں تھا کیونکہ اس نے ان سے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ مانگی تھی، نہ ہی وہ کوئی چور یا ڈاکو لگتا تھا ورنہ وہ زبردستی گھر میں گھس آتا اور ڈراتا دھمکاتا۔  ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی جاسوس ہو جو کسی مشن پر ہو تاہم وہ جو کوئی بھی تھا، اس کی موجودگی پورے خاندان کے لیے تشویش کا باعث بن گئی تھی۔ تمام تر کوشش اور ہمت کے باوجود ماں اور اُن کے بچوں کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ ماں فطرتاً شرمیلی تھی اور دوسرا یہ کہ اس کے خاوند نے دیر رات کو واپس آنا تھا۔ اس کے میاں کا نام لیوسیک تھا۔ خاتون کو مارٹن لیوسیک یا لی مارٹن بولتے تھے۔ لیوسیک ہر سال ایک بار نیو فاؤنڈ لینڈوہیل مچھلیوں کے شکار کے لیے جاتا تھا اور کئی مہینوں کا راشن جمع کر لیتا تھا۔ اس سال ابھی وہ وہاں نہیں گیا تھا۔ اس عورت کی پہلی شادی کے دو سال بعد اسے ایک بیٹی ہوئی تھی اور کچھ عرصہ بعد وہ پھر امید سے ہوگئی تھی۔  اس کا پہلا میاں بحری جہاز پر ایک مہم پر گیا تھا کہ وہ غائب ہوگیا اور اس کی عدم موجودگی میں دوسری لڑکی پیدا ہوئی۔  اس گم شدہ جہاز اور اس پر سوار لوگوں میں سے کسی کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلا اور نہ کسی اور ذریعے سے ان کے بارے میں کوئی خبر ملی جس سے یہ اندازہ لگا لیا گیا کہ سب مرگئے ہیں اور  وہ اپنے خاوند کی واپسی کا دس سال تک انتظار کرتی رہی۔  اس دوران وہ اپنی دونوں بچیوں کو بڑی مشکل سے پالتی رہی۔  وہ بہت محنتی،خوبصورت، شریف اور جوان تھی اس لئے محلے داروں نے اسے کہا کہ وہ دوسری شادی کر لے۔ وہ ایک ماہی گیر رنڈوے سے جس کا ایک لڑکا تھا،سے بیاہ رچا لے۔ اس نے ان کی تجویز قبول کر لی اور چار سالوں میں اس کے دو بچے اور ہوگئے۔ اب دو لڑکیاں پہلے خاوند سے، ایک لڑکا دوسرے خاوند کا اس کی پہلی بیوی سے اور دو لڑکے ان دونوں سے تھے۔  وہ دونوں دن رات سخت محنت کرکے پیٹ پالتے۔ ان کی جھونپڑی میں گوشت نام کی چیز کبھی بھی نہ دیکھی گئی تھی۔ سردیوں میں ان کی مالی حالت اور بھی خراب ہو جاتی کیونکہ اس دوران سمندر کا وہ حصہ برف میں تبدیل ہو جاتا تھا اور وہ مچھلی کا شکار نہ کر سکتے تھے اس لئے دکانداروں کے قرض کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ جاتا تھا۔

اس لڑکی نے اس شخص کی طرف دیکھ کر کہا کہ جس انداز سے وہ ہمیں دیکھ رہا ہے،  ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہمیں جانتا ہے ہو سکتا ہے وہ نزدیک کے کسی گاؤں کا بھکاری ہو۔  ماں نے اس کی شکل و صورت دیکھ کر کہا کہ اسے یقین ہے کہ اس ہیئت کا کوئی بھکاری کسی نزدیکی علاقے میں نہیں رہتا۔

جب وہ شخص مسلسل ان کی طرف گھورتا رہا تو ماں کو بے حد ناگوار گزرا اور اسے غصہ آگیا۔  وہ اٹھی اور اپنے دروازے سے اسے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھا ہے اور ان سے کیا چاہتا ہے؟

اس نے کہا کہ میں گڑھے کے قریب سایہ دار درخت کے نیچے ایک کونے میں دبکا ہوا ہوں،  آرام کر رہا ہوں اور کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا۔ کیا میں ایسا نہیں کر رہا؟

تم میری کٹیا کے سامنے بیٹھ کر کیا کوئی جاسوسی کر رہے ہو؟ لی مارٹن نے پوچھا۔ میں نے کسی کو نہ تو نقصان پہنچایا ہے اور نہ ہی پہنچا نا چاہتا ہوں۔ کیا کسی ایک شخص کو سرکاری سڑک پر سستانے کی اجازت نہیں؟ کیا سرکاری سڑک پر بیٹھنا کوئی جرم ہے؟ اس نے جواب میں کہا۔

لی مارٹن کو اس کی بات کا کوئی جواب نہ سوجھا تو وہ واپس چلی گئی۔

         

سورج جوبن پر آیا تو وہ اُٹھ کر کہیں چلا گیا لیکن دوپہر ڈھلتے ہی اس نے دوبارہ مچان سنبھال لی۔ سورج ڈھلتے ڈھلتے ڈوب گیا تو وہ وہاں سے اُٹھ کر کہیں چلا گیا۔

         

رات گئے جب اس کا خاوند لیوسیک مچھلیوں کے شکار سے واپس آیا تو وہ بہت تھکا ہوا تھا۔  لی مارٹین نے اپنے خاوند کو مشکوک شخص کے بارے میں تفصیلاً بتایا تو اس نے اس کی شکایت پر دھیان نہ دھرا اور تھکاوٹ کے باعث فوری طور پر گہری نیند سو گیا لیکن لی مارٹن (Le-Martin)رات بھر نہ سو پائی۔ وہ اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ان آنکھوں سے اسے ڈر لگنے لگا، ایسا لگتا تھا کہ وہ اس کی آنکھوں میں کچھ تلاش کر رہا ہو۔

         

صبح ہوئی تو لیوسیک (Levesque) شدید آندھی کی بدولت سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لئے نہ جا سکا۔  وہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر جال کی مرمت میں اس کی مدد کرنے لگا۔

         

 نو بجے اس نے اپنی بڑی بیٹی کو سودا سلف لانے کے لئے بھیجا تو وہ بھاگتی بھاگتی واپس آئی اور بولی کہ وہ شخص پھر پہلے کی طرح دروازے کے سامنے درخت کے سایے میں براجمان ہے۔ ماں یہ سن کر تقریباً بے ہوش ہوگئی۔ چہرہ ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا۔ اس نے اپنے خاوند کو کہا کہ وہ باہر جائے اور اس شخص سے بات کرے۔ اس کی آنکھوں کا میرا ایکسرے لینا مجھے اچھا نہیں لگتا اور اسے کہے کہ ہمارے گھر کی جاسوسی چھوڑ دے۔  اس پر وہ اس شخص کی طرف چل پڑا۔  بیوی نے دیکھا کہ ان دونوں کے مابین کچھ گفتگو ہوئی ہے اور وہ دونوں اس کے گھر کی طرف آرہے تھے۔ گھر آکر اس کے خاوند نے کہا کہ اسے کھانا کھلاؤ۔  اس نے پچھلے دو دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا۔ بیوی نے اسے کھانا دیا تو وہ نظریں جھکا کر خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔ وہ اس بات سے اجتناب کر رہا تھا کہ دوسرے اسے کھانا کھاتے دیکھیں۔

         

وہ وہاں قریب کھڑی اسے بڑے غور سے دیکھتی رہی اور لی مارٹن کی دونوں بیٹیاں جس میں سے ایک نے بچہ اٹھایا ہوا تھا اور دوسری دروازے کی اوٹ میں تھی، عجیب و غریب نظروں سے اس کا نظارہ کرتی رہیں جبکہ دو چھوٹے بچے جو ایک دوسرے پر راکھ اُڑا رہے تھے بھی رک کر اس اجنبی کو کھاتے دیکھنے گے۔

لیوسیک نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس اجنبی شخص سے پوچھا تو تم بہت دور سے آئے ہو؟

میں ہزاروں میل دور سے آیا ہوں۔

پیدل۔۔ اسی حالت میں جس میں اب تم ہو؟

ہاں!  پیدل ہی۔۔ جب کسی کے پاس وسائل نہ ہوں تو اسے پیدل ہی چلنا پڑتا ہے،   اس نے جواب دیا۔

تو تم کہاں جانا چاہتے ہو؟

یہاں تک ہی پہنچنا چاہتا تھا۔

کیا یہاں کوئی تمہارا واقف ہے؟

میرا خیال ہے کہ ہاں۔

اس پر انہوں نے بات چیت بند کر دی۔ وہ اجنبی کھانا کھاتا رہا۔ ہر ایک نوالے کے ساتھ سیب کے جوس کا گھونٹ لیتا رہا۔ اس کے چہرے پرگہری جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھی، گالیں پچکی ہوئی تھیں اورجبڑے باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے اس کی زندگی بے حد بُری گزری ہو۔

لی مارٹن نے درشتگی سے پوچھا،   تمہارا نام کیا ہے؟

اس نے آنکھیں اُٹھائے بغیر کہا،   میرا نام مارٹن ہے۔

نام سن کر خاتون چونک گئی۔ اس نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور اس کے قریب آکر اسے بڑے غور سے دیکھنے لگی۔  وہ اس کے سامنے کھڑی ہو کر کانپنے لگی۔  اس کے بے جان ہاتھ اس کے جسم کے دونوں طرف ہوگئیاور اس کا منہ ایسے کھلا جیسے وہ چیخنے لگی ہو۔ بالآخر لی مارٹن (Le-Martin)سنبھلی اور اس سے پوچھا کہ کیا تم اسی جگہ کے رہنے والے ہو؟

ہاں!  میں اسی جگہ کا رہنے والا ہوں۔

جیسے ہی اس نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں تو اس کی اور لی مارٹن (Le-Martin)کی آنکھیں ایک دوسرے سے دوچار ہوئیں تو وہ دونوں ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے پھرلی مارٹن (Le-Martin)نے ہلکی لیکن کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

کیا تم میرے خاوند ہو؟

اس نے ہلکی لیکن صاف آواز میں کہا کہ ہاں میں تمہارا خاوند ہی ہوں۔ وہ ہلے بغیر کھانا کھاتا رہا۔

لی مارٹن بے حد حیران ہو کر لڑ کھڑاتی آواز میں بولی، تم مارٹن ہو؟

اس نے جواب دیا،   ہاں میں مارٹن ہی ہوں۔

دوسرے خاوند نے اس سے پوچھا،   تم دنیا کے کس کونے سے آئے ہو؟

افریقہ کے ساحلوں کے پاس ہمارا جہاز ڈوب گیا تھا۔  وہاں کے وحشی باشندوں نے ہمیں گرفتار کر لیا اور بارہ سال تک قید رکھا۔ ہم میں سے صرف تین بچے۔ واٹینل اور پیکارڈ اور میں۔ اب باقی دونوں بھی مر چکے ہیں۔ اس سفر کے دوران ایک انگریز سیاح وہاں سے اتفاقیہ گزر رہا تھا جس نے مجھے قریبی علاقہ سی۔ئ ایٹل مقام تک پہنچایا اور اب میں بالآخر یہاں آگیا ہوں۔        

لی مارٹن نے اپنا ایپرن منہ پر ڈالا اور زاروقطار رونے لگی۔

 اس کے دوسرے خاوند لیووسیک نے پریشانی سے کہا،  اب ہم کیا کریں؟ 

تو تم اس کے دوسرے خاوند ہو؟ مارٹن نے پوچھا۔

ہاں۔۔ لیوویسک نے جواب دیا۔  یہ دونوں تمہاری بیٹیاں ہیں۔

مارٹن نے ان کی طرف دیکھا لیکن اٹھا نہیں اور نہ ہی انہیں چوما۔ صرف اُن کو غور سے دیکھتا رہا اور کہا،  میرے خدا یہ کتنی بڑی ہوگئی ہیں۔

 

۔ لیوویسک نے استفہامیہ انداز میں کہا مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟ مارٹن بھی شش و پنج میں پڑ گیا پھر بولا۔ میں اس مسئلے کو تمہاری مرضی کے مطابق حل کروں گا۔ میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ کل پانچ بچے ہیں جس میں دو میرے اور تین تمہارے ہیں۔ ہم دونوں اپنے اپنے بچے لے لیں گے۔ رہا ان کی ماں کا وہ دونوں میں سے ایک کی ہے یا تو یہ تمہاری ہے یا میری۔ اس پر وہ جو بھی فیصلہ کرے گی، مجھے قبول ہے۔ اگر وہ تمہیں رکھنا چاہے تو تم لے لو۔  نہ رکھنا چاہے تو مجھے دے دو۔ جہاں تک اس کٹیا کا تعلق ہے یہ میری ہے کیونکہ میرا والد اسے میرے لیے چھوڑ گیا تھا۔ میں اس کٹیا میں پلا بڑھا ہوں،  اس کی رجسٹری میرے نام ہے۔ آپ وکیل اور میونسپل سے اس کو کنفرم کر سکتے ہیں۔

         

لی۔ مارٹن جو ان کی بیوی تھی،  ابھی بھی رو رہی تھی لیکن اب وہ رونا ہچکیوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ دونوں لڑکیاں اب مارٹن کے نزدیک آئیں اور اپنے والد کو غور سے دیکھنے لگیں۔

مارٹن نے کھانا ختم کیا اور کہا مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟

لیویسک کو اچانک ایک خیال آیا۔ اس نے کہا چلو ہم پادری کے پاس چلتے ہیں اور اس کا مشورہ لیتے ہیں۔

مارٹن اٹھا اور جوں ہی وہ اپنی بیوی کے پاس سے گزرا،  وہ دوڑ کر ہچکیاں لیتی ہوئی اس کی چھاتی سے لپٹ گئی۔

میرے میاں، میرے میاں، یہ تم ہو۔  میرے بے چارے مارٹن، یہ تم ہو اور اس کو زور سے بھینچ لیا۔ اسے اس کے ساتھ گزرے ہوئے ماضی کے لمحات یاد آنے لگے۔ وہ اس کی پہلی محبت تھی۔

مارٹن اس کے ردّ عمل سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے اپنی بیوی لی۔ مارٹن کی سفید ٹوپی کو چوما۔  اس کی دونوں بیٹیاں ان کے پاس آکر جذباتی نظارہ دیکھنے لگیں۔ ایک چھوٹا بچہ جو لیوویسک سے تھا جسے ایک لڑکی نے اُٹھایا ہوا تھا ڈر سے رونے لگا۔

ہمیں اس معاملے کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔

پہلا خاوند مارٹن جب لی۔مارٹن سے الگ ہونے لگا تو اس نے اپنی ان دونوں بچیوں سے جو کہ مارٹن سے تھیں، سے مخاطب ہو کر کہا، کیا تم اپنے باپ کو پیار نہیں کروگی؟

وہ دونوں بچیاں ماں کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گئیں۔ وہ پریشانی کے ساتھ ہلکے خوف سے آگے بڑھیں۔ مارٹن نے دونوں کی گالوں کو ایک ایک کرکے پیار سے چوما۔

اس کے بعد وہ دونوں مرد  اور  لی مارٹن کے دونوں خاوند یعنی مارٹن اور لیویسک باہر چلے گئے۔ ان کی منزل پادری کا دفتر تھی جس سے انہوں نے فیصلہ کروا نا تھا۔

 اپنے دونوں خاوندوں کے نام پر وہ لی۔مارٹن کہلاتی تھی۔  ُ  لی   ُسے مراد   ُ   لیووسیک  ُ اور   ُ  ما رٹن   ُ  سے مراد تھا۔

رستے میں ایک ریستوران آیا تو لیوویسک (دوسرے خاوند) نے مارٹن (پہلے خاوند) سے پوچھا،   کیا ہم کچھ پی نہ لیں؟

بہت نیک خیال ہے،  مارٹن بولا۔

وہ دونوں ریستوران میں داخل ہوگئے اور سٹولوں پر جا بیٹھے۔  اس وقت ریستوران خالی تھا۔ لیویسک اونچی آواز میں بولا کہ دو گلاس بہترین قسم کی کافی لے آؤ۔ مارٹن میری بیوی کا پہلا خاوند واپس آگیا ہے۔

  ویٹر دو گلاس کافی کے لے آیااور  اسے غور سے دیکھنے لگا۔

تو تم واپس آگئے ہو مارٹن،  ویٹر نے پوچھا۔

ہاں!  میں واپس آگیا ہوں،  مارٹن نے جواب دیا۔

 

 

Guy De Maupassant

(1850 - 1893) France

 

گائی ڈی موپساں فرانس کے شہر    ُ  نارمنڈی  ُ  میں 5 اگست،1850کو پیدا ہوا۔ وہ بے حد پیارا بچہ تھا۔ اس کی ابتدائی تعلیم ایک گرجا گھر میں ہوئی۔ بچپن سے ہی وہ بے حد عمدہ کہانیاں گھڑ کر سنایا کرتا تھا۔ 1861میں اس کے والدین میں طلاق ہوئی تو وہ والدہ کے پاس رہنے لگا۔ اس کی والدہ نے اس کی تربیت ادبی ماحول میں کی جس سے اس کی ادب میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اس کا شوق دیکھتے ہوئے اس کی والدہ نے اسے مشہور ادیب  ُ  فلاؤبرٹ   ُکا شاگرد بنا دیا۔ جس کا صلہ اسے بعد میں حاصل ہوا۔ اس نے بڑے ہو کر قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔  اس دوران فرانس اور جرمنی میں جنگ شروع ہوگئی۔ وہ بھی فوج میں شامل ہوگیا۔ ان تجربات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس نے درجنوں خوبصورت کہانیاں لکھیں۔  وہ شوپن ہار سے بھی بے حد متاثر تھا۔ جنگ کے خاتمے پر وہ پیرس آگیا۔ جہاں اس کے باپ نے حکومتی اداروں اور میں نوکری دلوائی۔ اس عرصہ میں  وہ دوبارہ فلاؤبرٹ سے ملا جس نے یہ ذمہ لیا کہ وہ اسے  ایک عمدہ ادیب بننے میں مدد کرے گا،  اس کی اصلاح کرے گا تاکہ وہ خود مختاری سے اعتماد کے ساتھ لکھ سکے۔

         

فلاؤبرٹ کی تربیت کے زیر اثر اس نے مختصر کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ اس نے اخبارات میں مضامین بھی لکھنے شروع کر دیئے۔ اس کی ایک مختصر کہانی (Boule De Suif 1880)میں شائع ہوئی۔ جس کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور آج بھی اس کی بہترین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی مختصر کہانیوں کی کتاب (La Maison Tallier)دو سالوں میں بارہ بار چھپی۔  (1880-1890)کے دوران اس نے چھ  ناول لکھے جو

٭      Une Vie    

٭      Bel-Ami    

٭      Mont-Oril 

٭      Pierre et Jean

٭      Fort Commelamart     

٭      Notre Coeur

ہیں۔ اس کی دیگر تصانیف

 

٭      The Private Affair                           ٭      Life Masculine Feminine    

٭      A Woman Without Love                         ٭      Angel and Sinner

٭      Diary of a Mad Man                       ٭      One Life             

٭      A Women without Love                          ٭      Stimulantia

 قابلِ ذکر ہیں۔ اس کی کتابوں پر فلمیں بھی بنیں۔

 

          وہ فلابرٹ (Flaubert)کی طرح بورژوا طبقے سے شدید نفرت کرتا تھا۔ ان کے مظالم اس نے اپنی کہانیوں میں بیان کئے ہیں۔  اس کی کہانیوں کا انجام ہمیشہ حیران کن ہوتا تھا۔  وہ شباب و شراب کا رسیا تھا۔ 43سال کی عمر میں

)اور  ذہنی  مرض کی وجہ سے 8جولائی1893کو فوت ہوگیا۔

The Return   ایک خوبصورت کہانی ہے جو اس کی مختصر کہانیوں کی کتاب سے لی گئی ہے۔

Popular posts from this blog