Transplant By Russell Banks.............. پیوند کاری

 




پیوندکاری

Transplant

By

Russell Banks

مترجم : غلام محی الدین

ہاررورڈ بلیوم  کی دیکھ بھال  کرنے والی نرس   کیٹی   وین    پرلےکراس کی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ہارورڈ بلیو م  کےدل کی   پیوندکاری ہوئی تھی  ۔وہ اپنی منزل کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہےتھے تو  اسے دور ایک پہاڑی پر بنی یادگار نظرآگئی  جہاں اس  نے پہنچناتھا۔ کیٹی  نے پیپل  کے درختوں کاجھنڈ دیکھاتو اس نے وین وہاں پارک کردی۔یادگار ایک فرلانگ کےلگ بھگ اونچی تھی۔اس   تک پہنچنے کے لئے  فٹ پاتھ  سےہوکرپسے ہوئے پتھروں اوربجری سے بنی پگڈنڈی استعمال کرناپڑنی  تھی۔یادگار گرینائٹ سے تعمیرکی گئی تھی ۔اس کامین دروازہ بڑا اونچااتھاجس کی اونچائی  اس کے سرسےبھی زیادہ تھی۔ کہاجاتاہےیہ عمارت  ناراگن سیٹ انڈیانا کے اس طبقے نے بنوائی تھی جس نےراسخ العقیدہ صوفیوں  کاقتل عام کیاتھا۔انہوں نے دیکھاکہ اس  عمارت کےمین دروازے پر ایک  دبلی پتلی لڑکی   کھڑی تھی جس نےجین اور تیز پیلا نائلین کالباس  پہنا تھااورسرپر ٹوپی لی ہوئی تھی۔بلیوم اس  لڑکی کی درخواست پر اس سے ملنے  آیاتھا۔ اس لڑکی کےنظر آنےکے بعد  کیٹی  نے اسے اشارہ کیاکہ وہ اتر جائے اور اس سے جاکرمل لےاور وہ اس وقت تک  اس کاوہیں انتظارکرے گی جب تک کہ  وہ اس سے مل کر  واپس نہیں  آجاتا۔

 یادگارکادرمیانی فاصلہ اتنازیادہ تونہیں تھالیکن وہ کافی اونچائی پرتھااور اس کے دل کی  تازہ پیوندکاری  سےاس کاپاٹنا                 تکلیف دہ تھا۔بلیوم  پہاڑی  پر چڑھنے سے ہچکچارہاتھا اورڈر رہاتھا کہ  کہیں  اس کی بیماری بڑھ نہ جائےاورٹانکے اکھڑ نہ جائیں ۔

کیٹی نےکہا اب تم اسےملے بغیرواپس نہیں جاسکتے۔وہ تمہاراانتظارکررہی ہے۔ہمت بڑھا ؤ اور پہاڑی پرچڑھو۔

کیاایسانہیں ہوسکتاکہ تم اوپرجاؤاوراسےلےکرمیرے پاس لےآؤ۔ہارورڈ بلیوم نےکہا۔

نہیں۔ تمہیں ہی جاناپڑے گا۔ملاقات تمہاری تجویز پرہی اس مقام پر طے کی گئی ہے۔یہ کام تم نےہی کرناہے۔یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔کیٹی نے کہا۔

نہیں۔تم جانتی ہوکہ  میں ایسانہیں چاہتاتھا۔یہ  سب ڈاکٹر ہوروٹنر کی کارستانی ہے۔اس نے ہی   پیغام دیاتھاکہ وہ مجھ سے ملناچاہتی ہے۔ہاردرڈنےکہا۔ بادل نخواستہ اس نےاپنی چھڑی پکڑی اوروین سےاحتیاط سےنیچےاترا۔ اس نے سوچا کہ سارامعاملہ ہی احمقانہ تھا۔

میں اس معاملے میں بیکارپڑگیاہوں ۔میرے اپنےاور بہت سارےکام ہیں۔ مجھے اس میں نہیں پڑناچاہیئے تھا۔ہارورڈ  نے خودکلامی کی۔اس کی خواہش تھی کہ اسے تنہاچھوڑدیاجائے۔اس خاتون کومیرےلئےمشکلات پیدا   نہیں کرنی چاہییں تھیں ۔وین سے اترنے کےبعدوہ چند سیکنڈوں  کےلئےمذبذب رہاپھراس نے اپنے کندھے جھٹکے اور آہستہ آہستہ پہاڑی  کارخ کیا ۔

اس نے یہ نہیں سوچاتھاکہ اس  کاوہ دن اتنامشکل ہوگا۔اب تک   کا دن اس کےلئےگناہ بے لذت رہا تھا۔

صبح دس بجےکے قریب کیٹی معمول کےمطابق  اس کےکمرےمیں   بغیردستک آئی تھی اور آتے ہی کمرے کےپردے کھول دئیے تھےتاکہ سورج کی روشنی اندرآئے۔اپنے بستر سے ہی ہارورڈ نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے  ڈھلوان میں سرسبز چراگاہ دیکھی اورپھراسے  دور کی پہاڑی  پرفوجی   چھاؤنی  اوراس کےپاس تنگ اورلمباجزیرہ نماعلاقہ دیکھاجس کےپاس  ایک سفید مینار تھاجسے لوگ یادگار کےنام سے پکارتے تھے۔ اس  کےنوآبادیاتی علاقے میں پانی  تھا جس کےاردگرد مانجھیوں  اور مچھلی کےشکاریوں کے گھراور گودیاں بنی ہوئی تھیں ۔ اس جگہ وہ  یاد گار تھی۔۔۔آج وہاں اس نے جاناتھا۔وہ وہاں جانانہیں چاہتاتھالیکن پروگرام  بن چکاتھااس لئے اس سے پیچھےنہیں ہٹاجاسکتاتھا۔

ہمیں    اپنے اعضائے رئیسہ کوصحت مندرکھنےکےلئےسیر کرنی چاہیئے۔ڈاکٹرنےسختی سے تمہیں ہدائت کی  ہے۔کیٹی نےاسے یاددلایا۔یہی سمجھ لوکہ تم روٹین  کی سیرپرآئے ہو۔کیٹی  نے ہاورڈ کی قمیض کی آستین اونچی کی اوراس کا بلڈ پریشر لینےلگی۔وہ تیزوطرارگلابی رنگ کی مربع شکل کی خاتون تھی جس کے سرمئی مائل بھورےلیکن  تنکوں جیسے سخت  اور ماہی منڈے کی طرح تراشے گئے تھےجواس پر مضحکہ خیزلگ رہےتھے۔

ہارورڈ ادھیڑعمر تھا۔پینتالیس  عبورکرچکاتھا۔ کیٹی ایک نرس تھی جواس کی دیکھ بھال پر مامور تھی۔ وہ اس سےچندسال چھوٹی تھی   ۔ابتدامیں  کیٹی  کی سختی  کی وجہ سے ان میں تھوڑی سی غلط فہمیاں پیداہوگئی تھیں لیکن اب  وہ  دوست بن گئےتھے ۔وہ کسرتی جسم کی مالک تھی۔ وہ پر کشش  تھی لیکن  شہوت زدہ  نہیں لگتی تھی ۔ وہ اس بات پرمطمئن  تھاکہ وہ بےحد ذمہ دار تھی ۔وہ اس   کےکام سے خوش تھا۔کیٹی اس پرکڑی نگاہ رکھتی اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اسے دوائیاں کھلاتی تھی۔وہ اس کے سخت پیشہ ورانہ رویے پر احتجاج  کیاکرتاتھا۔کیٹی اس کے ساتھ   اس طرح کاسلوک کرتی  جیسےکہ وہ کوئی بچہ تھا۔وہ اس  پرسختی کرتی تھی ۔وہ مکمل مزاحمت کیاکرتاتھا۔روزانہ کے آٹھ گلاس  پانی  پینا،گھرمیں بغیرچھڑی کےسیرکرنا، کڑوی دوائی کھانا،بدذائقہ کھاناکھانا وغیرہ اس کی مجبوری بن گئی تھی۔تھوڑابہت اصرار  اسےاب اچھالگنے لگ گیاتھا لیکن جس جارحانہ  اندازسےوہ اسکےساتھ سلوک  روا رکھتی  تھی وہ اس کے لئے اب بھی  ناقابل برداشت تھا۔اسے  فوجی چھاؤنی ، چھوٹی  بندرگاہ ، اس کے قریب   بنی یادگار اور قصبے کی سادگی بہت پسند تھی۔ وہ دل کامریض تھا اپنی سابقہ ساس کےگھررہ رہاتھااور اس

 کی  دیکھ بھال کے لئے  اس کی ڈاکٹرہورٹز نے اس کے پاس بھیجا تھا۔

          تمہیں ایک جگہ فون کرناہے ڈاکٹر ہوروٹز نے کہاہے۔کیٹی یہ بول کر  تھرمامیٹر کوجھٹکادیااور اس کی زبان کے نیچے رکھ دیا۔پھر اس نے فشارخون کی پیمائش  آلہ لگادیا۔

اسوقت میری کیفیت کیسی ہے۔ہارورڈ نےپوچھا۔

اوپر والا بلڈپریشر  130 اور، نیچےوالا78 ہے  جبکہ تمہاراٹمپریچر 7۔97 ہے۔یہ تقریباً نارمل ہیں 

تم  اب بھی سب کام کرسکتےہو۔تم اب اگر اس لڑکی سے ملناچاہوتوجاسکتے ہو۔

ڈاکٹر ہورٹز کہاں کی ہے۔کیاوہ یہودی ہے؟ ہارورڈ نے سوال کیا۔

ہوسکتاہے ڈاکٹر سکینڈے نیویا کی ہویا شائد یا  مشرقی یورپ کی  ہو۔عین ممکن ہے  کہ وہ یہودی ہو۔ فرض کیا کہ  اگر  وہ یہودی ہوتوکیاتم اس سے علاج نہیں کراؤگے؟کیٹی  نے کہا۔مسٹر ہارورڈ !پندرہ منٹ بعد ناشتہ کرناہےجوایک  سہ پہر کےکھانےکی طرح  کاہوگا۔یہ کہہ کروہ باورچی خانےکی طرف چلی گئی۔

ہارورڈبلیوم کو لگاکہ وہ اس وقت ہسپتال میں نہیں تھا۔ وہ کہاں تھااور کیوں تھا اوریہ بھول گیاتھا کہ وہاں کیسے پہنچاتھا۔۔۔یہ دردیں دورکرنے والی گولیاں نہیں تھیں۔ اس کے دل کی پیوند کاری  ہوئی تھی ۔وہ ان ادویات کو پانچ ہفتے ہی چھوڑچکا تھا اور بےہوش کرنےوالی ادویات کی باقیات کااثر  رہ گیاتھا۔ڈاکٹر کہتے تھےکہ جب کسی کو  بےہوشی کاٹیکہ لگاکرسرجری کی جاتی ہے تو دوبارہ  اصلی حالت آنے میں چارمہینے لگتے ہیں اور بیہوشی کی دوائی  کااثر ساڑھےآٹھ گھنٹے تک رہتاہے۔اس نے دوبارہ سے حساب  کیا:یہ مئی کامہینہ تھااور 6جنوری کو اس کےدل کی جراحی ہوئی تھی اور وہ اس کےاثرات سےآزادنہیں ہواتھا۔لیکن ستمبرکےبعد ان کی شدت  کم ہونے لگی تھی۔جس جگہ وہ اس وقت رہ رہاتھا،وہاں لمبےلمبے وسیع قطعات تھے۔اس کی یادداشت  آنکھ مچولی کھیل رہی تھی کبھی چلی جاتی اور اگلی پچھلی تمام باتیں بھول جاتیں،کبھی  واقعات جزوی طور پر یاد آجاتے اور کبھی  نارمل ہوجاتا ۔ ہرصبح جب وہ اٹھتاتواس کی کوشش  کےبعد کوئی بات بھول جاتی جواس نے کل کی تھی،انہیں یاد نہیں کرپاتاتھا۔ جب سے ہارورڈ  ہسپتال سےفارغ ہواتھاا س کے ساتھ یہی کچھ ہوریاتھا۔اس کےسیل فون کاکیا نمبرتھایااس اخبار کانام جسےوہ روزانہ پڑھتاتھا۔اس کےایک یادو گھنٹوں بعدوہ  یہ بات محسوس کرتاتھاکہ اس کےذہن سےمزیدکئی چیزیں نکل گئی تھیں۔وہ اپنی کارکےبارےمیں بھی بھول  جاتاتھاکہ وہ کس کمپنی کی تھی،اس کی پلیٹ نمبرکیاتھی،اس کا سوشل سیکورٹی نمبراورفریج کےاندر جو سبزیاں پڑی ہوتیں  کےنام تک بھول جاتاتھا۔ہسپتال سےفارغ ہونےکےبعدمارچ میں جب وہ اپنی ساس کے موسم سرما کے گھرمنتقل ہواتھا،وہ بھول چکاتھا،ہفتہ در ہفتہ ،مہینہ بہ مہینہ،اس عرصے میں اس کے ساتھ جوبیتا تھا اس کے ذہن کے کسی گوشے میں نہیں تھا۔یہ چیزاسے پریشان  کئےدے رہی تھی۔

جب ہارورڈ بلیوم کاھافظہ نارمل ہواتو اسے اس کی سابقہ بیوی  جینیس ،اس کی والدہ اورسرجن  کی گفتگو سے حقائق  معلوم ہوئے۔ وہ  لیڈی ڈاکٹر ہوروٹزر  کےزیرعلاج تھااور کیٹی اوہارا اس کی دیکھ بھال کےلئے ہمہ وقت  موجودرہتی تھی  جو ڈاکٹر کی ہدایات کے تحت اس کاخیال رکھتی تھی۔ ہارورڈ اپریشن کےبعد   ایک کاٹیج جوکوہاسٹ ہارپرپرتھی، بوسٹن کےساحل پر ایک سرمائی گھر میں دن گزار رہاتھا۔وہ اکیلےہی کیوں رہ رہاتھا۔اس کی تفصیل سادہ تھی۔ وہ اپنے نیویارک والےگھرجو'ٹرائے' میں تھا، واپس نہیں جاسکتاتھا کیونکہ اسکی بوسٹن میں   پیوندکاری  ہوئی تھی۔اسےبوسٹن یااس کے نزدیک ہی رہناتھا۔ڈاکٹر ہورووٹز اور اس کی سٹاف اس کی سرجری  کی مسلسل نگرانی کررہی تھیں۔کیٹی اس کا خون ٹیسٹ  روزانہ کرتی تھی اوراسے   بوسٹن کے ہسپتال   ہرہفتے لےجاتی اور ادویات کےاثرات اور  جراثیموں  وغیرہ کی رپورٹیں متعلقہ لوگوں تک پہنچاتی رہتی تھی۔ ہارورڈ کے پاس طبی امداد کی  بیمہ پالیسی تھی ۔اس کا پریمیم  اسکی تنخواہ سے کاٹاجاتا تھا۔

لیکن اس  کی پالیسی میں  جراحی   کے بعد رہائش  پراٹھنے والے اخراجات شامل نہیں تھےاوران دنوں بدقسمتی سے اس کاکوئی ذریعہ آمدن  بھی نہیں تھا۔وہ بیروزگارتھا۔وہ ایک اشاعتی ادارے میں ملازم تھا۔اس کاعلاقہ نارتھ ایسٹ  ریجن تھا۔پیوندکاری کی وجہ  سے وہ مزید ملازمت کےقابل نہیں رہاتھا۔اس پرکڑاوقت آگیاتھا۔خوش قسمتی  سے اس  کی سابقہ بیوی جینیس    کی والدہ نے اس پرترس کھاکراس پریہ مہربانی کردی تھی  کہ وہ اس کے بوسٹن کے قریبی ساحل والےسرمائی  گھر  میں علاج معالجہ کے عرصہ  کےدوران اس میں  رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ہارورڈ یہ سب جانتاتھالیکن اسے یہ بات یاد نہیں تھی کہ وہ کب اس گھرمیں منتقل ہواتھا،کس دن  اورکس طرح کیسے اس جگہ پہنچاتھا۔یہ الجھن  بڑی نہیں تھی ۔یہ  کوئی مسئلہ نہیں تھاکیونکہ وہ ڈاکٹر ہورووٹز کے دفتر سےیہ سب معلومات حاصل کرسکتاتھا۔وہ کسی  ایسے مخیر کا پچھلی ایک سال سے انتظار کررہاتھا جو اپنے دل کاعطیہ کرے اوروہ اسے پیوند کر دیاجائے۔اس سلسلے میں  اس نے اپنے  ڈاکٹرکوسینکڑوں فون کئے تھے۔ ڈاکٹر ہوروٹز سے براہ راست رابطےکے لئے اس نےایک طریقہ ڈھونڈ نکالاتھا۔دل کے عطیہ ملنے سے پہلے اس پر تشویش  طاری  تھی ۔وہ استقبالیہ کوفون کرکے کہاکرتاکہ  ڈاکٹر نے اسے کہاتھاکہ اسے فون کرے اور وہ ڈاکٹر کےدفتر  ملوادیتی تھی۔ ڈاکٹر  براہ راست تو نہ اٹھاتی  بلکہ اس کی اسسٹنٹ  یا کوئی نرس اس سے سرسری بات کرکے ڈاکٹر ہوروٹزر  سے ملوادیتی تووہ   ہیلو کہتی تو وہ کہتا:

ہارورڈبلیوم ؟

ہاں۔ تمہاری حالت پچھلےہفتے کیسی رہی؟

 میراخیال ہے کہ زیادہ تر ٹھیک ہی رہا۔کوئی خاص شکائت نہیں ہوئی لیکن لیبارٹری رپورٹیں اچھی نہیں آئیں۔مجھے افسوس ہے کہ تمہیں زحمت دی۔اس کاہردفعہ یہ سوال ہوتا کہ کیامیں  دل کےعطیےکے متعلق کوئی خبرہے؟

اس کاحسب معمول  یہ جواب ہوتا۔یہ ایک معمول کی  درخواست نہیں ہے۔انتظار کرو۔

بلکہ میرے لئے زندگی اور موت کامعاملہ ہے۔تم جانتی ہو ڈاکٹر ہوروٹزر  ؟

ہاں۔کچھ کچھ۔ اس دفعہ  اس نے کہاکہ  تمہارے لئے خوشخبری ہے۔ایک شخص نے عطیہ دان کیاہے۔اس کی بیوہ  نے درخواست  کی ہے کہ وہ اس مریض سے جسے اس کےمرحوم خاوند کا دل  لگاہو،سے ملناچاہتی ہے۔یہ کہہ کروہ اس کےجواب کاانتظارکرنے لگی۔وہ دونوں ایک لمحہ کےلئے خاموش ہوگئے۔کچھ دیربعدوہ بولا۔

وہ مجھ سے ملناچاہتی ہے؟

ہاں۔

کیوں؟

پتہ نہیں۔میں نےابھی تک  اسےتمہاری  معلومات فراہم نہیں کیں اور میں یہ تمہاری اجازت کےبغیرنہیں دے سکتی۔میں اس کی درخواست تم تک پہنچاہی سکتی ہوں۔اتنی سی بات ہے۔یہ تم پرمنحصرہے کہ اس کی خواہش پوری کرویا انکار کردو۔

ایساکیوں ہے؟وہ مجھ سےملناکیوں چاہتی ہے۔معلوم نہیں۔۔۔مجھے اس بات کایقین نہیں ہےکہ میں اسےسنبھال پاؤں گا؟

میں  تمہاراتذبذب سمجھ سکتی  ہوں ہارورڈبلیوم ۔تم افسردگی کاشکارہو۔تمہاری اس وقت جوکیفیت  ہےوہ غیرمعمولی  ہے۔اس حالت میں ایسا اضطراب عام پایاجاتاہے۔اسے دورکرنے کے لئے تمہاری اس حالت میں فی الحال  ادویات تجویزنہیں کرسکتی یہ بات توتم  بھی جانتے ہو۔ملاقات کی خواہش کرنے والی  کاتعلق دل کے عطیہ کرنے والےکی بیوہ کےساتھ ہے۔اس کاانحصار تم پرہے کہ تم مانو یادرگزرکردو ،ایسی بات کوئی عام  درخواست نہیں ۔یہ تم جانتےہو؟

اگراس سے ملاقات میں میں اپنے جذبات پرقابونہ پاسکاتومیری حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔

ایساہوسکتاہے ۔عین ممکن کہ ہیجانی کیفیت میں ایسی علامات ظاہرہوں لیکن فکر کی بات نہیں  اس کا علاج ہوسکتاہے۔۔۔اس وقت تومعاملہ یہ ہے کہ عطیہ دینے والے کی بیوہ تم سے ملناچاہتی ہے۔اس کاخاوند چھبیس سال کاتھاجوحادثے میں سرپرچوٹ آنے کی وجہ سے فوت ہوا۔مرحوم  برفباری والے علاقوں کی چھتیں لگاتاتھا اورکام کے دوران اس کا چھت سے پاؤں پھسلااورشدید زخموں کی تاب نہ لاکرچل بسا ۔اس نے اپنے لواحقین میں بیوہ اور ایک بیٹاچھوڑاہے۔وہ سگریٹ نوش نہیں تھا۔ ڈاکٹر ہوروٹزر  نے معلومات فراہم کیں۔

ہارورڈ بلیوم  نےاپنادایاں ہاتھ اپنےدل پررکھاتووہ بلیوں اچھل رہاتھا۔میں سوچ کربتاؤں گا۔

یقیناً ۔وہ تم سے کسی بھی جگہ مل سکتی ہے۔بیوہ کی عمربائیس سال ہےاوراس کادنیامیں کوئی نہیں۔وہ اپنے خاوند کی موت کی توقع نہیں کررہی تھی۔اس نے ابھی تک اختتام  تجہز وتکفین بھی نہیں کی اور یہ کوئی غیرمعمولی بات بھی نہیں۔ ڈاکٹر ہوروٹزر   نےکہا۔

اختتام  سےکیامراد ہے؟َمیں نےایسالفظ پہلےکبھی نہیں سنا،ہارورڈ نےکہا۔وہ اپنی اورجینیس کی طلاق کےبارےمیں سوچنےلگاجو اب سے سات سال پہلےہوچکی تھی۔وہ ایک مختصر لیکن کامل شادی شدہ زندگی کاخاتمہ تھا۔۔ ۔ جواس  لئےناکام ہوئی تھی کہ  اس کی بیوی  کوہارورڈ  کی  مسلسل بےوفائی   کاپتہ چلتارہتاتھا۔جینیس نے اسے سختی سے  بازآنےکوکہاتھا۔ دوسری بات  ہارورڈ بیم کی نوکری تھی جس میں وہ ہر ہفتے پانچ دن گھرسےباہر گزارتاتھا جواسے بیوفائی کے مواقع فراہم کرتی تھی۔جینیس نے وہ نوکری چھوڑکر اپنے شہرمیں نوکری کرنےیاکوئی کاروبارشروع کرنےکوکہاتھا۔ وہ  کمپنی کی  مصنوعات  نارتھ ایسٹ  ریجن  میں قریہ قریہ  بیچاکرتاتھا ۔  وہ اس نوکری میں بائیس سال سڑکوں پر بھٹکتا رہا ۔وہ  رنگین مزاج  تھا۔اس دوران اسے جینیس ملی   جس کے دوبچے تھے، سےمحبت ہوگئی اور اس سے شادی کرلی۔

ہارورڈ نے سوچا چونکہ اس کی عمرزیادہ ہوگئی تھی  اسلئے عیاشی چھوڑدے گا۔اپناوطیرہ بدل لےگااور اپنی بیوی کا وفادار بن کررہےگااور اپنے گھریلومعاملات میں دلچسپی لےگا۔لیکن  اس کی عادات  پختہ ہوچکی تھیں جوادھیڑ عمر ی میں بدلی نہیں جاسکتی تھیں۔اسے خواتین پسندتھیں اوروہ   بہت  مطلبی تھا۔کام نکال کرانہیں چھوڑ دیتاتھا۔وہ جینیس سے بےوفاتھاجس کے نتیجے میں جینیس نے بھی بھی بےوفائی شروع کردی اور اپنے ایک چاہنےوالے کی محبت میں گرفتار ہوگئی  اور ہارورڈ سےطلاق لے لی۔اس نے اس کی صحت پربرااثر ڈالااوروہ دل کےعارضے میں مبتلاہوگیالیکن  اسے یہ توہم ہوگیاتھاکہ  اس کاسبب شادی میں ناکامی نہیں تھا۔وہ یہ جانتاتھاکہ یہ محض وہم تھالیکن وہ اس سے چھٹکارانہ پاسکا۔

جب ایک تکلیف دہ بات ہوتی ہےتو  اس کے ذمہ دارتم خود ہی ہوتے ہو۔وہاں اختتام نہیں ہوتا۔اس نے سوچا۔جوکچھ بھی واقع ہوچکا ہو، اسے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود  قبول کرناپڑتاہے۔ان مسائل اور وسائل  کےساتھ ہی رہنا پڑتا ہے  ۔ہارورڈ کو تین باردل کےدورے پڑچکےتھےاورایک سال پہلے دل کی اوپن جراحی بھی ہوچکی تھی جس سے اس کے دل  کازیادہ حصہ خراب ہوچکاتھا۔اب اگر کوئی اپنا دل اس  کوعطیہ کردےاوروہ اس میں پیوندہوجائے توہی وہ بچ سکتاتھا اور وہ اس انتظارمیں تھاکہ کو نیک دل مخیر شخص اسےپررحم کرےاوراس کی زندگی بچ جائے۔اب اسے چھبیس سالہ نوجوان کےدل کی پیوندکاری ہوچکی تھی     اور تقریباًصحت یاب ہوچکاتھا۔

بائیس سالہ بیوہ ،اگرچہ اپنےخاوند کے حادثےاور اس کی موت کی ذمہ دارنہ تھی لیکن وہ ایک خوفناک حقیقت تھی ۔کوئی بھی اسے جھٹلانہیں سکتاتھا۔وہ ایک کڑواسچ تھا۔اس کے خاوند کی موت اس کی اپنی غلطی کی وجہ سےہوئی لیکن اس کے نتائج تو اسے ہی بھگتنے تھے۔یہ اس کے لئے 'اختتام' تھا۔۔۔اس کامطلب کیاتھا۔۔۔کیااسے معنی پہنچائےجاسکتےتھے۔ہاردرڈ نے سوچا۔ اس  کے ذہن میں اس نوجوان خاتون کے لئے بےحد عقیدت کے جذبات ابھرے کیونکہ اس نےاپنے خاوند کادل اسے پیوندکاری کے لئے بطور عطیہ دیا جس سے اس کی جان بچ گئی تھی اوراسے نئی زندگی مل گئی تھی۔وہ خود کواس کاقرضدار سمجھنے لگا۔

ڈاکٹر ہوروٹز نےبتایا کہ اس  نوجوان بیوہ  کانام پینی میکڈونوہ  تھا۔وہ  نیوبیڈفورڈ کی رہائشی تھی لیکن آج کل وہ چوہاشے میں  رہ رہی تھی  جویہاں سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔وہ  اسے کہاں ملناچاہےگا؟

ہارورڈ اسےاپنے گھرنہیں ملناچاہ رہاتھا۔

میں نہیں چاہتاکہ وہ اس گھر  آئے۔میں نرس کیٹی سےمل کر پروگرام بناؤں گاکہ کون سی  نزدیکی  موزوں جگہ ہے جہاں  وہ مجھے گاڑی میں لےجاسکتی   ہے جہاں میں اس سے ملاقات  کرسکوں۔اسے یہ بتادیناکہ ہماری ملاقات مختصرہوگی۔ہارورڈ نے کہا۔

وہ یادگارکےپاس گیاجوپہاڑی پرتھی۔اس کاسانس تیزتیزچل رہاتھا۔وہ ہانپ رہاتھا۔بید کی چھڑی کےساتھ  قدم بہ قدم مشکل سے چڑھائی چڑھ رہاتھا۔وہ چھڑی پربہت زیادہ جھکاہواتھا۔اس کادل زورزورسے دھڑک رہاتھا۔یاخدا!میرے اندر کس شخص کے دل کی پیوندکاری کردی گئی ہے؟جودل اس کے سینے میں تھااس کااپنانہیں تھا۔اجنبی دل نےاسے نئی زندگی بخشی تھی۔وہ کس سے پوچھے کہ اس دل کااصل مالک کون تھا،اس کی شکل کیسی تھی اس کی عادات کیسی تھیں ،ان سوچوں میں  گم تھا۔اب چونکہ وہ اس نوجوان بیوہ سے ملاقات پررضامندہوگیاتھالیکن  اس سےیہ  تفصیل  پوچھناقطعی غیرمناسب تھا۔ نہ صرف آج بلکہ کسی وقت بھی نہیں اور کسی سے بھی نہیں۔اس نے اس سوال کواپنےذہن میں دبادیا۔اس سوال کااس کےپاس کوئی جواب نہ تھااور نہ ہی کبھی ملنے جارہاتھاکہ کس کادل اسے زندہ رکھے ہوئے تھا۔

دور سے اس نے دیکھاتووہ خاتون بڑی نازک اندام اورتقریباًبچگانہ لگی۔اس کےہاتھ  اورکلائیاں چھوٹی چھوٹی اور پتلی تھیں۔وہ کمزور تھی۔اس کی عمراتنی چھوٹی تھی  کہ اگراس کی وقت پرشادی ہوئی ہوتی تووہ اس کی بیٹی جتنی ہوتی۔اس نے بٹوے کی بجائے سوتی کپڑے کاایک  بیگ اٹھایاہواتھا۔اس کی رنگت  پیلی تھی۔اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں تھیں۔اور نہ تواس نے میک اپ کیاتھااور نہ ہی کوئی جیولری پہنی تھی۔ کالے چھوٹے چھوٹے کھردرے بال تھےجواس کےماتھےپرضرب کا نشان بنائے ہوئے تھے۔اسے اس کے نام کاپہلاحصہ یاد آگیاجوپینی تھالیکن دوسراحصہ بھول گیاتھا۔وہ یاد کرنے لگا۔شائد              پینیلوپ تھایا کوئی آئرش ناموں کی طرح کاتھا۔

میں ہارورڈ بلوم ہوں ۔اور تم شائد پینی ہو؟ اس نے کہا۔ مسز میکڈونوہ میرامطلب ہے اس  نےمصافحے کے لئے ہاٹھ بڑھایا ۔اس نے بھی ایسا ہی کیاجوسرد اور ہارورڈ کےہاتھ سے آدھاتھا۔

ہاں !شکریہ مسٹربلوم۔ تم  مجھ سےملاقات کےلئےمان گئے۔اس کی گفتگو جنوبی ساحل کےباشندوں والی تھی۔اس نےبراہ راست ہارورڈ کی آنکھوں میں دیکھالیکن ان کےاندرنہ جھانکا۔اسےایسالگا  وہ اس سےکئی سال پہلے کہیں مل چکی تھی لیکن کہاں؟اسےیادنہیں آرہاتھاکہ وہ اس سےپہلے کہاں ملی تھی۔وہ سوچنےلگی۔پھراس نے کہاکہ تمہیں کارسے یہاں تک آنےمیں ایک چڑھائی چڑھناپڑی جوتمہارے لئےکٹھن مرحلہ تھا۔مجھے یقین نہیں تھاکہ یہ تم ہوگے۔اگر مجھے پتہ ہوتاکہ یہ تم تھے تومیں نیچےآجاتی۔

او۔کے۔سب ٹھیک ہے۔ہارورڈ نے کہا۔کوئی بات نہیں،اس نےبات کاٹتے ہوئےکہا۔ویسے آج کل مجھے ورزش کی ضرورت  بھی ہے۔

اس پر خاتون ہلکی سی مسکرائی۔۔۔جراحی کی بدولت۔۔۔ہاں۔۔۔تم اب کیسے ہو؟کیاتم ٹھیک توہو؟۔۔۔میرامطلب ہے۔پینی نےکہا۔

ہاں۔میں ٹھیک ہوں۔ہارردرڈ نےکہا۔یہ اگرچہ میرےلئےغیرآرام دہ تھالیکن میں  تمہارامشکوروممنون ہوںاوراس احسان کاشکریہ اداکرناچاہتاہوں جوتم نےمجھ پرکیا۔میں اس بات پرحیران ہوں  کہ تم مجھ سےکیوں ملناچاہ رہی تھی؟اور میں  بھی تم سےملناچاہ رہاتھاتاکہ تمہارا خلوص دل سے شکریہ اداکروں۔

تمہیں ایساکرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ عطیہ میراخاوند اپنی موت کےبعدکرناچاہتاتھا۔یہ کام سٹیوتھا۔خاتون نے کہا۔

ہاں۔مجھے سٹیوکا زیادہ شکریہ اداکرناچاہیئے۔وہ ایک لمحےکےلئےرکاپھربولا۔وہ یقیناًایک اچھاشخص تھااوربڑی سوجھ بوجھ کامالک تھا۔کیامیں نے صحیح کہا خاتون؟

خاتون اپنا  بیگ ایسے سامنےلائی جیسے کہ وہ اسےکھولناچاہ رہی ہواور بولی۔  ہاں۔میں تم سے ایک مہربانی کی خواستگارہوں۔

یقیناً۔کیوں نہیں۔ہارورڈ نےکہا۔

میں تمہارے دل کی دھڑکنیں  سنناچاہتی ہوں۔خاتون نے کہا۔

اوہ۔یاخدا!رحم کرخدا۔ یہ خاتون میرے دل کی دھڑکنیں سنناچاہتی ہے۔۔۔کیایہ خواہش عجیب وغریب نہیں؟

تمہاری یہ اجازت میرے لئےبہت معنی رکھتی ہے۔خاتون نےکہا۔تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ وہ میرےلئے کتنی اہم ہے۔ایک باراپنےدل کی دھڑکنیں سن لینےدو۔۔۔صرف ایک بار۔خاتون نے  اپنے بیگ سے ایک سٹیتھوسکوپ نکالااوراسے آگے کیاجیسے کہ وہ اسےہارورڈکوپیش کررہی ہو۔

میں نہیں جانتا۔یہ کچھ غیرمعمولی سالگ رہاہے۔کیاایسا نہیں؟

ہارورڈنےپہاڑی سے نیچے اس جگہ دیکھی جہاں کیٹی نے  وین کھڑی کی تھی اور نہیں چاہتاتھاکہ وہ اسےایساکرتےہوئے دیکھے۔وہ اس عمل کوہرکس وناکس سے پوشیدہ رکھناچاہتاتھا۔پارکنگ کے مقام سے چند گزدور ایک تنگ سی سڑک  تھی جس کے آگے بجری سے بناہواایک ساحل تھا۔وہاں آسمان پر گھنےبادل چھائے ہوئے تھےجس نےسورج ڈھانپ رکھاتھا۔اور ماورائے ساحل ہواکے  جھکڑچل رہے تھے جویہ تاثر دے رہے تھے کہ  نیلے سرمئی پانی میں لہریں اٹھ رہی ہوں۔اسے کیٹی کہیں نظرنہ آئی ۔

پلیز۔پینی نے آہستہ آواز میں کہا۔براہ کرم مجھے اپنےدل کی دھڑکنیں سننےدو۔اس نے اپنی ٹوپی پیچھے کی اور سٹیتھوسکوپ کےربرکی نوک اپنی گردن اور کندھوں سے موڑی۔

ہارورڈ نےکچھ نہ کہا۔اس نے صرف گردن ہلائی ۔پینی نے سٹیتھوسکوپ کاایک ایک  سرااپنے کان میں لگایااور اس کی طرف بڑھی۔۔۔اپنی قمیض اتارو۔ اس نے ہارورڈ کوکہا۔

ہارورڈ نے اپنی  فلالین کی قمیض کےبٹن کھول  کر اتاردی۔۔۔اس نے اپنے خیالوں میں سوچاکہ وہ یہ سب اس کے لئے کیوں کررہاتھا۔۔۔پھراس نے پوچھا کہ اس کی بنیان کے بارے میں کیاکہتی ہوجومیں نےقمیض کےنیچے پہن رکھی ہے۔کیاتم چاہتی ہوکہ میں اسے بھی اتار دوں۔

نہیں۔خاتون نے  کہا۔اتناہی کافی ہے۔

سٹیتھوسکوپ کی  تاروں کی نوکوں کاسائز ایک چھوٹے بسکٹ جتناتھااورجلدی سے،جیسے کہ اس نے ریہرسل کررکھی ہو،عین اس مقام پرجہاں ہارورڈ کی چھاتی کودل کےمقام پرچیرہ لگاتھا،ٹکادیا۔پھراس نےاپنی آنکھیں بندکرلیں اور دل کی دھڑکن سننےلگی اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ہارورڈ اسے اس کے  کےگرد حصار بناکراپنی طرف کھینچااور اپنی بانہوں کےحصار میں لےلیااور خود بھی کانپ

نے لگا اور زاروقطار رونے لگا۔ اس حالت میں کافی وقت بیت گیا۔۔پھر خاتون نےاپنے کانوں سے سٹیتھوسکوپ اتارااوراپناسر  ہارورڈ کی چھاتی سے لگالیا۔وہ اس حالت میں بڑی دیر تک بےحس وحرکت کھڑے رہے۔وہ فوجی چھاؤنی کی ہوا کوسنتا رہا جبکہ خاتون  ہارورڈ کے دل کی دھڑکنیں سنتی رہی۔

اس وقت ہلکی ہلکی  بارش شروع ہوگئی ۔کیٹی نےاپنی گھڑی دیکھی ،اور جوڑے کی طرف اوپر اوپردیکھا۔وہ چھپ کران کی ایک ایک غرکت نوٹ کررہی تھی ۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھ گئی اور ان کے فارغ ہونے کاانتظارکرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Life history

Russell  Earl   Banks\

1940….2023

U.S.A

 

رسل ارل بینکس  28 مارچ 1940 کو    ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صوبے مساچوسٹس  کے شہر نیوٹن میں پیداہوا۔اس کے والد کانام ارل   بینکس تھا۔ وہ ایک پلمبر تھا۔اس کی والدہ کانام فلورنس تھا۔وہ  گھریلو خاتون تھی۔ وہ سفید فام  اور بے حد غریب تھے۔ اس کی زیادہ تر عمر پس ماندہ  جرائم پیشہ  اور غربا کی آبادی میں گزری۔ اس کا والد غیر ذمہ دار تھا۔ سخت گیر تھا اپنی بیوی اور بیٹے کو مارتا اور بدسلوکی کرتاتھا۔وہ  شراب  خور اور گری ہوئی سیرت کا مالک تھا۔ رسل جب 12 سال کاتھا تو وہ  گھر چھوڑ کر چلا گیاتھا اور  لوٹ کر واپس  نہ  آیا۔اس نے ہائی سکول اپنے شہر سے کیا  اور اچھے نمبر لئے ۔اسے کولگیٹ   یونیورسٹی   نیو ہیمپ  شائر کا دوسال  کاسکالر شپ ملالیکن وہ چھ ہفتوں بعد ہی  یونیورسٹی چھوڑ گیا۔اس کے بعد وہ نارتھ کیرولینا یونیورسٹی  نیویارک میں داخل ہوااور تعلیم مکمل کی ۔

1960 میں اسے لیلا بولیرو پریس میں ایڈیٹر اور پبلشر کی ملازمت مل گئی۔اس کی بود وباش  نیلے کالر والے محنت کشوں کے ساتھ رہی اس لئے اسے ان کے مسائل کا مکمل ادراک  تھا۔اسے ان کی مشکلات کا مکمل احساس تھا اور ان  کی بہتری چاہتاتھا۔ اس لئے وہ انفلابی تحریک کا سرگرم رکن بن گیا ،اس نے کچھ عرصہ جزائر غرب الہند میں گزارا۔وہ کیوبا گیاااور فیڈرل کاسٹرو کی انقلابی  فوج    میں  بھرتی ہوگیااور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔اس نے جیل خانہ جات کی اصلاح کی  تحریک چلائی۔اس کے  برے ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس کاادب  نسل در نسل  تشدد اور اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل  کاعلم تھا اور ان کے تلخ  حالات کو اپنے ادب اور عملی کوششوں سے بہتر کرنا چاہتاتھا۔

فوج  چھوڑ دی اور فلوریڈا  آگیا اورایک سٹور میں نوکری کرنے لگا۔وہاں اس نے ایک  سیلز کلرک'  ڈارلین   بینٹ' سے شادی کرلی۔اس سے ایک بیٹی ہوئی ۔پھر کچھ عرصہ بعد ان میں طلاق ہوگئی،ا س نے  کل ملاکر اکیس  چند سال  بعد اس نے   کتب تحریر کیں۔جن میں افسانے،ناول ، سائنسی مضامین وغیرہ شال ہیں۔اس کی اہم تصانیف درج ہیں۔

Waiting to freeze(1969),           Meditation of Caucious Man in winter(1979).,  Family (1979),  Hamilton Stark(1978),  Cloud Splitter ( 1998), A Permanent Membeer of Family (2013),  The  Darling (2005),   The  Reserve (2008)Lost Memory of Skin (2011) ,  Foregone (2021) etc,,.

اسے  جان ڈوس پاسوس انعام  میں  پلٹزر   انعام سے نوازا گیااور دو بار (1986 اور 1989)میں پو لیٹزر  کے لئے نامزد ہوا۔ وہ بیاسی سال کی عمر میں 10 جنوری 2023  کو ساراٹوگا میں کینسر سے فوت ہوا ۔

 

 

 

 


Popular posts from this blog