وہ معمولی کلاہ ساز ( The Little Milliner ) Duncan Campbell Scott (1862 - 1947) Canada

 


                            اک عام سی  کلاہ ساز                                

( The Little Milliner )

Duncan Campbell Scott

(1862 - 1947) Canada

                             مترجم  و تجزیہ : غلام محی الدین                           

 

وائیگر (Viger)ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی تمام آبادی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ چند سو نفوس پر مشتمل لوگ

 ایک دوسرے کواچھی طرح جانتے تھے۔ روز مرہ زندگی کی تمام اشیاء دستیاب تھیں۔ سکول، پنسار، گراسری، حجام، قصاب،

 بیکر، جنرل سٹور، پولیس سٹیشن، ڈاکٹر، آٹا پیسنے کی چکی، دھوبی، ڈاک خانہ اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء دستیاب

 تھیں۔ ابھی جدید دنیا کے آثار وہاں نہیں پہنچے تھے لیکن جس طرح سے جدید تکنیک ترقی پار رہی تھی، شہروں کی عمارات

 اونچی سے اونچی اورمضافات وسیع ہوتے جا رہے تھے۔ اِس گاؤں پر  بھی اس کے اثرات آہستہ آہستہ نمودار ہو رہے تھے لیکن

 یہ گاؤں ابھی تک سست روی کا شکار تھا۔ ارد گر ذرا سی تبدیلی ہوتی تو تمام لوگ اس کو محسوس کر لیتے تھے۔ کوئی اجنبی آتا تو فوراً

 نگاہ میں آجاتا تھا۔ ویسے بھی ایسے علاقوں میں لوگوں کے پاس بہت وقت ہوتاہے۔ وہ گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔

  گاؤں ایک خوبصورت وادی میں آباد تھا جہاں چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے تھے۔ ان میں ایک گھر ایک بوڑھی عورت

 لاروک  (Laroque)کا تھا۔ وہ درزن تھی لیکن کلّاہ سازبھی تھی اور خواتین کے ہیٹ کی مرمت کیا کرتی تھی۔ محنت

 مزدوری سے اس کی گزر اوقات ہو جاتی تھی۔ اُس کے پڑوس میں ڈاک خانہ تھاجس میں ڈاکیا اور اس کی بوڑھی ماں رہتی تھی۔

 اس نے اس میں گراسری کی دکان کھولی ہوئی تھی۔ اس سے تھوڑی دور ایک سوکھا تالاب نما تھا جو لکڑیوں، مٹی، پانی اور فضول

 اشیاء سے بھراہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب اس لئے کھودا گیا تھا کہ افواہ پھیلی تھی کہ اس جگہ سونے کا ذخیرہ دفن تھا۔ اب

 لڑکے کھیلتے وقت اُس میں کنکر پھینک کر مقابلہ کرتے تھے کہ کس کا کنکر زیادہ فاصلے پر گیا تھا۔ اس تالاب میں مینڈک بھی

 تھے اور وہ ان کا تعاقب بھی کرتے تھے جو تالاب میں جا کر غائب ہو جاتے تھے۔ اُس کے قریب ہی آٹا پیسنے کی چکی تھی جو اب

 شاذو نادر ہی استعمال ہوتی تھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں سے اب پسا ہوا آٹا مل جاتا تھا۔ اُس کا مالک مر گیا تھا اور اس کے

 وارثوں نے اس پر توجہ دینا کم کر دیا تھا۔ وہ تقریباً بند ہی پڑی تھی، جب کبھی جوار، باجرہ اکٹھا ہو جاتا تو لوگ اسے پسانے کے

 لئے آجاتے تھے کیونکہ شہروں سے فلور ملوں کا پسا ہوا آٹا آنے لگا تھا۔ گاؤں میں کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ کھیتوں میں باڑ نہیں لگائی

 گئی تھی لیکن لوگ سوچتے تھے کہ جوں جوں یہ گاؤں شہر کے تیزی سے پھیلتے ہوئے مضافات کے قریب آتا جائے گا تو اس کی

 زمین کی وقعت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا، باڑیں لگنا شروع ہو جائیں گی اور زرعی زمین کمرشل ہو جائے گی۔ درختوں کے

 جھنڈ غائب ہو جائیں گے اور اخروٹ، بادام کے درخت اور دیگر پھلوں کے درخت منظم طریقے سے باغات میں تبدیل ہو

 جائیں گے۔ بچے گرے ہوئے پھلوں کو اٹھانے سے محروم ہو جائیں گے۔

 گاؤں میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ درزن لاروک  (Laroque)نے دیکھا کہ اس کے گھر کے سامنے ایک

 مربع شکل کا مکان بننا شروع ہو گیا تھا۔ اس کے مالک کا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا۔ مزدوربغیر کسی نگرانی کے کام کرتے رہتے

 تھے۔شہر سے زیادہ دور نہ ہونے کی بدولت لوگوں کا رخ اب اس گاؤں کی طرف ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اِس گاؤں میں جگہ جگہ

 تعمیرات شروع ہوگئی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ اس علاقے میں بھی نئی تہذیب قدم جمانے لگی تھی۔ لوگ ان کی

 شد و مد سے ناپسندیدگی ظاہر کر رہے تھے۔ لاروک  کے گھر کے سامنے جو مکان بن رہا تھا اس کے اگلے حصے میں ایک دکان بھی

 بنا دی گئی تھی جس کا دروازہ گھر کے اندر کھلتا تھا۔ اس میں ایک کھڑکی بھی بنائی گئی تھی جو اکثر بندہی رہتی تھی۔ اس نے ایک

 دن دیکھا کہ اس کھڑکی پر سفید رنگ کا پردہ لٹکا ہوا تھا۔ ایک پستہ قد شخص اپنے ہاتھ میں ایک بورڈ اٹھائے ہوئے آیا جس پر کلّا ہ

 ساز  (Milliner) لکھا تھا۔اس سے اسے علم ہوا کہ وہ کھوکھا نمادکان ہیٹ مرمت کرنے اور ان کی سجاوٹ کرنے سے متعلق

 تھی۔ اس کلاہ سازورزن کلارک نے اس سے یہ جان لیا کہ یہ اسی دکان کا مالک ہوگا۔ وہ اس کا مالک نہ نکلا کیونکہ و ہ بورڈ لگا کر

 غائب ہوگیا اور اس سے کے بعد وہ نظر نہ آیا۔ اِ س کھوکھے نما مکان کی کی سیڑھیاں باہر سے نظر آتی تھیں۔ اُس کے حدود

 اربعہ کاپتہ نہیں تھا کہ اس  اندر کتنے کمرے بنائے گئے تھے۔

 لاروک بیوہ تھی۔ وہ بھی ہیٹ بنانے، مرمت کرنے کے علاوہ گاؤں بھر کے کپڑے بھی سیتی اور مرمت کرتی تھی۔ وہ عورت

 غریب تھی اور مزدوری سے بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی۔ جب وہاں بورڈ آویزاں ہوا تو اسے اپنی روزی روٹی کی فکر

 ہوگئی۔ اس کی دوستی اپنے پڑوسی بوڑھے کیورر (Curier)سے تھی جو ڈاکیا تھا۔ وہ اپنی  بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا اوراضافی

 آمدن کے لئیجنرل سٹور اور گراسری بھی رکھی ہوئی تھی۔ لاروک کے مقابلے پر اب ایسی ہی معمولی سی دکان کھل گئی تھی۔وہ

 اور تو کچھ نہ کر سکی لیکن اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے تجسس میں اس کی جاسوسی کرنے لگی۔ اُس نے دیکھا کہ

 اس دکان کو اندر باہر سے روغن کیا گیا پھر وہ سامان سے بھری جانے لگی۔ میز، کرسیاں سٹور اور بیڈ وغیرہ  ڈالے گئے۔ اُس

 مکان کی چھت ٹین کی تھی اور اس میں ایک چمنی تھی۔ اس کی ساخت ایسی تھی کہ اس ٹین کی پوری چھت کو اوپر اٹھا یا جا سکتا

 تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس مکان میں کوئی مرد نہیں رہے گا بلکہ خاتون ہی رہے گی۔

 اب درزن لاروک کی دلچسپی یہ ہوگئی کہ اس مکان میں رہنے والی عور ت کون ہوگی، کیسی ہوگی، کیسا حلیہ ہوگا، کس انداز سے گھر میں منتقل  ہوگی۔ اپنے ساتھ کیا کیا سامان لائے گی۔ کیا وہ اپنا ذاتی سامان ٹیکسی میں لے کر آئے گی یا رہڑے پر اور ٹرنک اوپر نیچے رکھے ہوں گے۔ بالآخر دو ہفتوں کے انتظار کے بعد اس نے ایک خاتون کو آدھی رات آتے دیکھا۔اندھیرے کی بدولت وہ اس کا تفصیلی جائزہ تو نہ لے سکی لیکن تھوڑاسا اندازہ ہوگیا کہ وہ جوان اور خوبصورت تھی۔ صبح اٹھتے ہی اس کی نگاہیں پھر سامنے والے دکان نمامکان پر لگ گئیں۔ دکان کا دروازہ تو بند تھالیکن کھڑکی کے پٹ کھلے ہوئے تھے۔ اس پر پڑا پردہ ذرا سا کھلا تھا۔اسی طرح کا  انداز اسے روز نظر آنے لگا۔ وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر کام کرتی رہتی۔ایک دن اس نے کلا ساز کو  ایپرن پہنے ہوئے دیکھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی جس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور چاول تھے جو اُس نے کھڑکی میں پرندوں کے کھانے کے لئے رکھ دیئے اور بغیراِدھر اُدھر دیکھے واپس چلی گئی۔

 اس کلّا ہ سازکا نام وی یاؤ  (Viau)  تھا۔ وہ دن بھر گھر میں رہتی۔ ہفتے کے روز گھر سے نکلتی، بیکری والے اور قصاب کے پاس

 جاتی  اور کھانے پینے کی چیزیں خریدتی۔ اس کے بعد وہ بوڑھے ڈاکئے کیورر کے پاس بھی جاتی، اس سے سودا سلف لیتی اور ایک

 خط پوسٹ کرنے کو دیتی۔

 ایک روزلاروک ڈاکئے کیور کے گھر گئی،اس کی ماں سے بولی کہ ہمارے ہاں ایک ہمسائی آگئی ہے۔ 

ہاں۔

اس نے آج کچھ خریداری کی ہے۔

بے شک۔

یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس گاؤں میں ایسے لوگ بھی آباد ہونا شروع ہوگئے جن کا آگا پیچھا کسی کو پتہ نہیں اور میری ناک

 کے سامنے دکان سجا لی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ وہ اس گھر میں اکیلی کیوں رہتی ہے؟ لاروک بولی۔ وہ تمہارے پاس بھی تو آتی

 تھی۔ کیا تم نے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی؟

نہیں، میں نے اس سے نہیں پوچھا۔  ڈاکئے کیورر  (Curier)نے جواب دیا۔

یہ کیا بات ہوئی!اگر تمہاری جگہ کوئی جوان ڈاکیا ہوتا تو اس میں ضرور دلچسپی لیتااور تجھ بڈھے کی طرح لاپرواہی نہ دکھاتا۔

اس چھوٹے سے گاؤں میں سرکار نے ایک ہی ڈاک خانہ بنایا ہے جس میں صرف ایک ہی  ڈاکئے کی گنجائش ہے۔ جو میں ہوں

 اگر کوئی جوان ہوتا تو میں نہ ہوتا۔کیور (Curier)نے  ہنستے ہوئے کہا۔

 اتنے میں پارلر والا کچھ سامان خریدنے کے لئے آگیا۔ اس کا نام ویل بلینک (Ville Blank)تھا۔وہ کچھ عرصہ پہلے تک شہر

 میں حجام تھا اور پارلر چلاتا تھا جوخوب چلتا تھا۔ لیکن شہر پھیلنے لگا تو وہاں درجنوں پارلر آگے پیچھے بن گئے۔ سہولیات کے نئے

 نئے طریقے متعارف کروائے گئے  جو جدید ترین لوازمات سے آراستہ تھے جن سے وہ نابلد تھا ۔نہ ہی جدید تکنالوجی کی تربیت

 تھی اور نہ ہی  نئی نئی اشیاء خریدنے کی سکت۔اِس لئے اس کی دکانداری ختم ہو گئی اور اسے گاؤں آنا پڑا۔

درزن لاروک نے اس سے پوچھا، کیا تم نے اس خوبصورت عورت کا ہیٹ دیکھا ہے؟  اس کے ہیٹ کی بناوٹ نرالی ہے۔

 خوبصورت پھول ہیٹ کے صرف ایک طرف کاڑھے گئے ہیں، یہ خاتون بدذوق لگتی ہے۔اگر وہ بد ذوق ہے تو بھی تمہیں اس کے غم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم بے فکر رہو،   ویل بلینک طنزیہ انداز میں بولا۔

 ا لاروک نے دیکھا کہ وی یاؤ کے پاس گاہکوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ وہ اپنے کام میں لاروک سے زیادہ ہنر مند تھی۔ ہیٹ بناتے ہوئے اس کی جگہوں کو کس طرح پر کرنا ہے اس کو پتہ تھا۔  وہ اس معاملے میں یکتا تھی۔ وہ ہیٹ بناتے ہوئے اس بات کا بغور جائزہ لیتی تھی کہ کس جگہ پر کون سی چیز مناسب اور خوبصورت دکھائی دے گی۔ منہ میں بالوں والی سوئیاں ڈالے جہاں موزوں سمجھتی لگا دیتی اورلوگ اس کے کام کو بے حد پسند کرنے لگے۔ وہ دن بھر مصروف رہتی۔ شہر کی جدید تکنیک ساتھ لائی تھی۔ اس کے کام میں جدت تھی۔ خواتین اس کے کام کو بہت پسند کرنے لگیں۔ اُس کے پاس بیکار بیٹھنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ اس کے نئے نئے  نمونے لاروک کو پسند نہیں تھے  لیکن اپنی مرضی گاہکوں پر تو مسلط نہیں کی جا سکتی۔

  لاروک نے سوچا کہ وی یاؤ بہت کما رہی ہوگی۔ اس کا خرچہ تو کچھ تھا ہی نہیں۔ اس نے بہت سا پیسہ جمع کر لیا ہوگا کیونکہ وہ بہت

 سادہ زندگی گزار رہی تھی۔ دودھ والا ہر روز ایک بوتل اس کے دروازے کے باہر رکھ جاتا تھا۔ ہفتے میں ایک دن وہ قصاب

 کے پاس جاتی تھی اور ایک پاؤنڈ گوشت خریدتی۔ ہفتہ بھر کی سبزی ایک ڈالر میں آجاتی۔ہر ہفتہ وہ کسی کو خط بھی لکھتی تھی اور

 ڈاکئے کے ہاتھوں میں تھما کر چلی جاتی تھی۔ وی یاؤ کی ڈاکئے سے کافی بنتی تھی۔ اُس کے علاوہ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔

 اِس تمام عرصے میں لاروک نے دیکھا تھا کہ صرف ایک باراس کا ملاقاتی آیا تھا جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نام

 جور ڈین  (Jourdain) تھا۔ وہ نوجوان تھا اور غلے اور فروٹ مارکیٹ میں کلرک تھا۔ لاروک نے اُسکو وی یاؤ  کے دروازے پر

 دستک دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ اس کا عاشق ہی ہوگا۔

لاروک نے جورڈین کو اس کے رویے کی وجہ سے صحیح آدمی نہ سمجھا۔

 ایک بار  ایک اور شخص شام کو  اس کے گھر آیا۔ اس کے بارے میں پتہ نہ چل سکا۔دستک کے بعد وہ بہت محتاط  اور چوکنا ہو کر ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ اس لئے  وہ اسے پراسرار لگا۔ لیکن وہ بھی باہر باہر سے چلا گیا۔ وہ دانت چباتے ہوئے بولی کہ ضرور کوئی گڑ بڑ تھی۔

 ایک بار حسب معمول وہ مچان پر بیٹھ کر وی یاؤ کے گھر کی نگرانی کررہی تھی کہ ایکمونچھوں والا نو جوان انتہائی راز داری سے رات گئے چپکے سے  اس کے گھر داخل ہوا  اور وہ کافی دیر تک اس کی نگرانی کرتی رہی لیکن وہ باہر نہ نکلا۔ اسے اس پر شک ہوا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ وہ سو گئی۔ اگلے روز وہ  ڈاکئے کے گھر گئی۔  اس نے یہ بات کیور سے سے کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔

 تمہارے شک کی وجہ بے جا ہے۔ وہ اس کا کوئی گاہک ہوگا۔ اس کو  وی یاؤ سے کوئی ضروری کام ہوگا۔ڈاکئے  (Curier)  نے

 جواب دیا۔ہاں!  اگر یہ مان بھی لیا جائے تو اس کا رویہ مشکوک تھا۔ وہ گھر کے اندر چلاگیا تھا اور میں نے اسے باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے بارے میں کوئی کچھ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی قیاس آرائی کر سکتا ہے لیکن میں یہ معلوم کرکے رہوں گی اور اس کے دروازے کے سامنے نظریں جمائے رکھوں گی کہ کس وقت واپس نکلتا ہے۔ وہ گھر واپس گئی اور دروازے پر نگاہیں ٹکا دیں۔ کئی گھنٹے دیکھنے کے بعد وہ تھک گئی۔اس نے اس شخص کو باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔

  وی یاؤ حسبِ معمول پلیٹ میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پر ندوں کو ڈال رہی تھی، کھڑکی میں پڑے گملے کو پانی دیا

 جہاں اب تھوڑے تھوڑے پھول نکل آئے تھے۔ گاؤں والوں نے بالآخر اس اجنبی کو رہائشی تسلیم کر لیا تھا۔ ڈاکیا اُس

 کو’چھوٹی لڑکی‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ اِس  وقت اسے خیال آیا کہ اس شخص کی جانکاری کے لئے اپنی کزن کو گاہک بنا کر اس کے پاس

 بھیجے۔ اُس کی کزن نے اس سے بہت سے رسمی اور غیر رسمی سوال کئے لیکن وہ بات ٹال کر اصل کام یعنی ہیٹ کے ڈیزائن پر

 آجاتی تھی اور اُس کے سوالات کو نظر انداز کر دیتی تھی۔ اِس بات کو کئی مہینے گزر گئے۔ وہ اس واقعے کو بھول گئی۔

  ایک رات وہ چھت پر ٹہل رہی تھی کہ اس نے اس مونچھوں والے نوجوان کو پھر اس کے گھر بغیر دستک اندر جاتے دیکھا۔

 اس وقت وی یاؤلیمپ کی روشنی میں سلائی کڑھائی کر رہی تھی۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی وی یاؤ نے کھڑکی بند کر دی۔

 دروازے پر کنڈی چڑھا دی۔ یہ بات لاروک کے لئے بالکل نئی تھی اور ان دونوں کی حرکات مشکوک تھیں۔ وہ اس کی نگرانی

 کرنے لگی۔ رات دیر تک دیکھتی رہی کہ وہ شخص کب باہر نکلے گا۔ اُس کو نیند آگئی اور اسے وہ جگہ چھوڑنا پڑی۔ کوشش کے

 باوجود وہ اس نوجوان کے بارے میں کچھ بھی نہ جان سکی۔ مزید کئی دن گزر گئے۔ لاروک کی جاسوسی جاری رہی۔ وی یاؤ کا ہر

 ہفتہ معمول تھا کہ وہ گراسری کرکے، گوشت خرید کرخط پوسٹ کرے۔  ایک جمعے کی رات وہ پراسرار شخص پھر اس کے گھر

 آیا اور اس نے اسے باہر نکلتے نہ دیکھا۔ ہر ہفتہ وی پاؤ گراسری کے لئے اور ڈاکئے کو خط دینے کے لئے با ہر نکلا کرتی تھی۔ یہ

 عجیب بات تھی کہ وی یاؤ  اس ہفتے وہ گھر سے باہر نہ نکلی۔ یہ غیر معمولی بات تھی۔

 ڈاکئے کیورر (Curier) کے پاس ہفتے کے روز تازہ اخبار آیا کرتا تھا۔ گاؤں کے لوگ ہفتے بھر کی خبروں کے لئے اس کے پاس

 جایاکرتے تھے۔ معمول کے مطابق لاروک کے پاس گئی اور اُسے ہیلو کہا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس نے پھر ہیلو کہا تو وہ

 اخبار پڑھنے میں ہی مشغول رہا۔ اِس وقت پارلر والا (ویل بلینک) بھی موجود تھا۔

کیا تم گونگے بہرے ہو گئے ہو؟  کوئی جواب نہیں دے رہے،  لاروک نے پوچھا۔ تم اخبار کھول کر صرف خود ہی پڑھ رہے ہو۔ 

اونچا پڑھو  تاکہ ہم بھی سن سکیں،  ویل بلینک بولا۔

کیور نے اخبار لاروک کی طرف پھینک کر ایک خبر کی طرف اشارہ کیا کہ اس کو پڑھ کر سناؤ۔ خبر کا عنوان تھا۔

 نقب زنی   

       ایک جوہری کی دکان میں نقب زنی ہوئی ہے۔ مشتبہ شخص کا اس واردات میں نام ڈیو روکر (Durocher) ہے۔ یہ درمیانے

 قد کا ہے۔  اس کی گھنی گھنی مونچھیں ہیں۔ آنکھیں کالی ہیں اور بائیں کان میں بُندہ پہنتا ہے۔ اُسے ایک ہفتے سے کہیں نہیں دیکھا

 گیا۔

 لاروک نے ڈاکئے کو کہا کہ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ ایسے حلئے والا شخص ایک ہفتہ پہلے شام کو بغیر دستک دیئے دروازہ کھول کر وی یاؤ کے گھر گھس گیا تھا اور اس نے کھڑکی اور دروازے فوراً بند کردیئے تھے۔ میں نے ابھی تک اسے گھر سے باہر نکلتے نہیں دیکھا۔

ہاں! وہ شخص پھر رات سے اس کے پاس آیا ہوا ہے۔

لاروک یہ بات کہہ کر اُٹھ پڑی اور پولیس مین کے پاس چلی گئی۔ اُسے کہا کہ اٹھے اور ملزم کو فوری جا کر پکڑے۔ اُس نے اخبار

 کی خبر اُسے دکھائی۔

 میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا،   پولیس مین نے کہا۔

تمہیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔۔اٹھو اور فوراً میرے ساتھ چلو،  لاروک بولی۔

تم نے اسے رات کو دیکھا؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ ابھی بھی وہ وہاں ہوگا؟ 

میں نے اسے واپس جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔

کیا تم یہ نہیں جانتی کہ وہ شخص کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟ اُس کے پاس اسلحہ ہوگا۔ وہ ایک جنگلی شیر کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے

 گا،  پولیس مین بولا۔

فکر نہ کرو۔  میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی اور اگر تم نے اسے گرفتار کر لیا تو حکومت کی طرف سے تمہیں انعام بھی ملے گا، 

لاروک نے اسے لالچ دیا۔

تو پھر انتظار کرو۔ پولیس مین بہت موٹا تھا۔ اُس نے یونیفارم والا نیلا کوٹ، ٹوپی پہنی اور پستول سجایا۔ وہ اس وقت ہانپ رہا تھا۔

 اسے میں کیا کہوں گا؟  پولیس مین بولا۔

پوچھنا کیا ہے؟ جاؤ اور گھر کی اچھی طرح تلاشی لے لو۔ وہ کسی نہ کسی جگہ مل جائے گا۔ میں گھر کے پچھلے حصے پر نظر رکھوں گی

 تاکہ وہ پیچھے سے بھاگ نہ جائے۔

پولیس مین اس کے ساتھ وی یاؤ کے گھر پہنچا اوردروازہ کھٹکھٹایا۔  وی یاؤ نے دروازہ کھولا اور اُس نے پوچھا، کیا ہے؟

میں نے گھر کی تلاشی لینی ہے۔پولیس مین بولا۔لے لو۔۔ وہ دروازے سے ہٹ گئی۔

پولیس مین نے پستول لوڈ کیا اور گھر کے تہہ خانے کی طرف چلا گیا۔ تہہ خانے میں چولہے کے پاس ایک بلی بیٹھی ہوئی تھی۔

 اِس سے پہلے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اس کے پاس بلی بھی ہے۔ وہ شخص وہاں نہیں پایا گیا۔

پولیس مین پھر اوپر والی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ وی یاؤ اس کے آگے تھی۔ وہ بولی کہ تم میرے پیچھے اور بھراہوا پستول لے کر

 آرہے ہو۔مجھے ڈر لگتا ہے اس لئے تم آگے چلو تو پولیس مین آگے ہوگیا۔ اِس کھوکے نما دکان میں اوپر والے حصہ میں ایک

 چھوٹا سا ہال اور ایک کمرہ تھا۔  اس کا کوئی عقبی دروازہ نہیں تھا۔ اُس نے بستر کے نیچے، الماری میں اور سب جگہ دیکھا لیکن کوئی نہ ملا۔

اِس صندوق کو کھولو، پولیس مین بولا۔

وی یاؤ  (Viau)نے صندوق کھولا تو سب سے اوپر ایک کڑھائی والا سوٹ پڑا تھا جسے دیکھ کر وہ شرما گئی۔

گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ گھر کے باہر گاؤں والے جمع ہو چکے تھے۔ 

پولیس مین لاروک پر غصہ ہوتے ہوئے بولا،  میں آرام کر رہا تھا، خواہ مخواہ مجھے بے آرام کیا۔

لاروک چپ ہوگئی پھر اسے خیال آیا کہ وہ ہر ہفتے کسی کو خط لکھتی تھی اور پوسٹ مین اسے آگے بھیجتا تھا۔ اس سے پوچھا جائے۔

وہ کس کو خط لکھا کرتی تھی؟

میں سرکاری ملازم ہوں۔راز داری میرے فرائض میں شامل ہے۔ میں نہیں بتا سکتا،  پوسٹ مین بولا۔

یقینا عام حالات میں راز کی پاسداری لازم ہے لیکن غیر قانونی کاموں میں راز کھولنا ہی پڑتا ہے لاروک  نے جواباً کہا۔ حکومت کو

 یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ کون قانون شکنی کر رہا ہے؟

میرا کام ڈاک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کون کس کو خط لکھتا ہے، پوسٹ

 مین نے جواب دیا۔

ہاں ایک نامعلوم شخص، نامعلوم مقام سے، نامعلوم وجوہات کی بناء پر وی یاؤ کے گھر میں بلا دستک دروازے سے داخل ہو تا ہے

 اور پھر واپس نہیں آتا۔ کیا یہ بات مشکوک نہیں؟  مجھے معلوم ہے کہ وہ کس کو خط لکھتی ہے،  لاروک بولی۔

تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے گھر میں چوری چھپے پر اسرار انداز میں  داخل ہوتا ہے؟  پوسٹ مین بولا۔

میں نے خود دیکھا ہے،   لاروک بولی اور اسے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اوہ!  تو تم اس کی نگرانی کرتی رہی ہو؟

ہاں!

 پولیس مین نے پورا گھر چھان مارا۔ وہ کہیں نہیں ملا تو کیا اسے شیطان نے نگل لیا؟ پوسٹ مین نے پوچھا۔

 اس واقعے کو چھ ماہ بیت گئے۔ برفباری شروع ہو چکی تھی۔ ڈاکئے کو ایک تار موصول ہوا۔ پتے پر پہنچانے کے لئے ڈاکئے اپنے

 جوتے کے تسمے باندھنے لگا۔ یہ تار وی یاؤ (Viau)کے نام تھا۔ اُس نے اسے وہ تار دیا۔ وی یاؤ اسے پڑھتے ہی غمزدہ ہوگئی۔ اس

 نے تار کو مروڑ دیا۔  دیوار پر سر رکھ کر رونے لگی پھر جلد ہی خود پر قابو پالیا۔ ڈاکئے سے مخاطب ہوئی۔

 تم میرے محسن ہو۔ مجھ پر مہربانی کرتے رہتے ہو۔ میں تمہاری مشکور ہوں گی اگر تم میرے واپس آنے تک میری بلی اور گھر کا خیال رکھو۔  میں کچھ عرصے کے لئے یہ جگہ چھوڑ رہی ہوں۔

ٹھیک ہے۔ ڈاکیا بولا۔

وی یاؤ اسی رات چلی گئی۔

ڈاکئے نے جب یہ بات لاروک کو بتائی تو وہ طنزیہ لہجے میں بولی کہ تم وی یاؤ  کے جرائم اور سازشوں میں برابر کے شریک رہے ہو

 اور اب بھی اس کے ساتھی ہو۔

اس بات کو تین ہفتے گزر گئے اور وی یاؤ واپس نہ آئی۔ ہفتے کو لاروک حسب معمول ڈاکئے کے پاس اخبار پڑھنے کے لئے گئی تو

 ڈاکئے نے کہا کہ آج اخبار نہیں آیا۔ لاروک نے اس کی بات کا یقین نہ کیا۔

تم یہ اخبار کیوں نہیں پڑھوانا چاہتے؟ لاروک نے پوچھا۔

 بھئی!  آج کا اخبار نہیں آیا۔ ڈاکیا بولا۔تم غلط کہہ رہے ہو۔ میں کہیں نہ کہیں سے اخبار ڈھونڈتی ہوں۔لاروک نے کہا۔ اس نے

 ایک گھنٹے کے اندر اندر تازہ اخبار ڈھونڈ نکالا۔ اس نے ایک خبر پڑھی تو اسے معلوم ہوا کہ ڈاکیاکیوں اخبار اسے نہیں دینا چاہتا

 تھا۔ اس وقت تک  ُ وی یاؤ   ُ  گاؤں نہیں آئی تھی۔

 اشتہاری مار ا گیا!

 پولیس کو ایک درمیانے قد، مونچھوں والے شخص جس کے بائیں کان میں بُندہ تھا، پر شک تھا کہ اس نے جیولری کی دکان میں

 نقب زنی کی واردات کی تھی۔ پولیس کے نزدیک وہ اس واردات اور دیگر کئی وارداتوں میں بھی ملوث تھا۔ وہ اشتہاری تھا۔

 پولیس نے جب اسے ڈھونڈ نکالا تو اس نے پولیس پر گولی چلادی۔ پولیس نے ذاتی تحفظ کے لئے جوابی گولی چلائی جس سے وہ مر

گیا۔ اس نے اپنی جان ایک قریبی رشتہ دار کی بانہوں میں دی۔وہ مختلف ناموں سے وارداتیں کیا کرتا تھا  جیسے ڈیوراکر

(Duracher) اور جلر (Giller )  وغیرہ۔

 

کیا  وی یاؤ  واپس آگئی ہے؟  لاروک نے ڈاکئے سے پوچھا۔

نہیں۔ڈاکئے نے جواب دیا۔

یہ دیکھو!  اس نے اپنی قریبی رشتہ دار کی بانہوں میں جان دی۔  لاروک نے پڑھا۔

تو کیا تم اس کی رشتہ دار ہو جو اتنی دلچسپی لے رہی ہو؟ ڈاکیا  طنزیہ انداز میں بولا۔

کیا تمہیں لگتا ہے کہ کسی مجرم کی پشت پناہی کروں گی؟

نہیں۔ڈاکئے نے جواب دیا۔

کیا اس نے کسی ڈیوروکر اور جلر وغیرہ کو کوئی خط لکھے تھے؟  لاروک بولی۔

یہ عام نام ہیں۔ ڈیوروکر  تو میرے بہنوئی کا نام بھی ہے،  پوسٹ مین بولا۔  ہاں۔ یہ سچ ہے کہ وہ ڈیوروکر کے نام خط لکھا کرتی تھی۔

اس خبر کے تین دن بعد وی یاؤ لوٹ آئی۔ اس نے ڈاکئے سے اپنی بلی واپس لی۔ اس وقت اس نے سیاہ لباس زیب تن کیا ہوا

 تھا۔ وہ گھر چلی گئی۔ اب اس نے اپنی دکان بڑھا لی تھی۔ کام کرنا بند کر دیا تھا۔ بتاتی تھی کہ وہ بیمار ہے اور کچھ دن آرام کرنا

چاہتی ہے۔ وہ دو ہفتے اپنے گھر میں آرام کرتی رہی۔ ڈاکیا(Curier) اسے پکا پکایا کھانا پہنچاتا رہا۔ جب وہ صحت یاب ہوگئی تو

 ڈاکئے نے کھانا پہنچانا بند کر دیا۔

دو دنوں بعد لاروک نے ڈاکئے سے کہا۔ لگتا ہے کہ وی یاؤ کے گھر میں اب کوئی نہیں رہتا۔ میں نے اس گھر کی چمنی سے دھواں

 نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ہاں وہ چلی گئی ہے۔ڈاکیا بولا۔

کیا تم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا ہے؟  لاروک بولی۔

نہیں۔ڈاکیا بولا۔

یہ بات سچ ہے کہ اسے کسی نے جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ واپس بھی آئے گی اور کوئی اسے آتے ہوئے بھی نہیں دیکھ پائے

 گا۔ ڈاکئے  نے تبصرہ کیا۔

اسے گئے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں۔ وہ ابھی تک واپس نہیں آئی۔ اس کی کھڑکی کے پردے بند ہیں۔ کھڑکی میں پڑا ہوا

 پھول کا پودا مرجھا گیا ہے۔ دروازوں اور کمروں میں مکڑوں نے جالے بن دیئے ہیں۔ لاروک کو شک ہے کہ ڈاکئے کو پتہ ہے

 کہ اس مکان کا کیا کیا جائے تاہم کبھی کبھار لاروک کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ ایپرن پہنے روٹی کے ٹکڑے پرندوں کو ڈال رہی

 ہے۔ گملے کے پودے کو پانی دے رہی ہے جو بعد میں اس کا وہم نکلتا ہے۔

تجزیہ

سکاٹ ڈنکن کیمپبل کے افسانوی مجموعے گارڈن آف ایلوئی لون میں دس کہانیاں ہیں جن میں سے آٹھ ایسی ہیں جن کی گفتگو، انداز بیان، اور ڈائیلاگ  میں اس کی ذاتی رائے کے ساتھ دیگر نکتہ چینوں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ وہ افسانوں کے کرداروں کا پوسٹمارٹم کرتے ہیں۔ ایک ایسا ادیب ہے جو روایات کی پابندی کو پسند کرتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی خیال اس  ُ تبدیلی  ُ کا مقابلہ کرنا ہے جو انیسوسکاٹ قدامت پرست ہے۔ چکا چوند روشنی، جدید تہذیب، صنعتی ترقی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ نت نئی تبدیلیاں اس کے نزدیک مروجہ نظام اقتصادیات،رسوم و رواج، روایات، عقائد اور طرز حیات یکدم تبدیل کر دیتی ہیں۔ رواداری ختم ہو جاتی ہے۔ مادہ پرستی کو عروج ملتا ہے۔ وائیگر گاؤں کینیڈا کے صوبے کیوبک کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے  جو جنت بے نظیر ہے۔اس کے لوگ سادہ، معصوم اور فیملی کے ساتھ جڑے ہیں۔جہاں بھائی چارے کی فضا پائی جاتی ہے۔ ہر طرف امن ہی امن اور شانتی ہے جو جدت سے فرقہ واریت پیدا کرے گی۔

 ایک عام سے خاتون شہر سے آکر نئے خیالات سے گاؤں کے ماحول کو پراگندہ کر دیتی ہے۔ اس کے ہیٹ کے نت نئے ڈیزائن

 گاؤں کی خواتین کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ اس کے مشکوک ملاقاتی گاؤں کی اخلاقیات پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ اسے بد کردار

 اور غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ جدید کمیونٹی قدیم روایات کو ختم کر

 رہی ہے۔سکاٹ یہاں یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ نووارد کلاہ ساز اچھے کردار کی حامل نہیں۔ اس نے خاندان اور کمیونٹی میں خلل ڈالا ہے۔ اس گاؤں کی کمیونٹی میں نئی تہذیب پنجے گاڑ رہی تھی۔ آٹا پیسنے والی چکی بند ہو چکی تھی کیونکہ اب شہروں میں فلور ملیں لگ گئی تھیں۔ قدامت پسند حجام کو پارلر کی جدید سہولیات کی بدولت اور اپنی سابقہ روایات برقرار رکھنے کے لئے شہر چھوڑکر گاؤں منتقل ہونا پڑا تھا۔ لاروک کو روٹی روزی کے لالے پڑگئے تھے۔ پولیس مین جو بڑے سکون سے ایسے گاؤں میں رہ رہا تھا کو مبینہ جرائم پیشہ افرادکا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔  مینڈک کے گانوں کی مدھر آوازوں سے محروم  ہو جائیں گے۔ بیوہ لاروک اس کلاساز کے آنے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اس کے روزگارپر زد پڑی ہے اس لئے وہ اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر افواہیں پھیلا رہی ہے۔ وہ کلرک، ایک مشکوک آدمی اور مونچھوں والے کے ساتھ اس کا سمبندھ جوڑتی ہے۔مونچھوں والا اس کا رشتہ دار ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ چور ہے۔ اسے لوگوں سے گلہ ہے کہ گاؤں میں اجنبی آنا جانا شروع ہو گئے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں جانتا۔ کوئی انہیں نہیں پوچھتا۔  وہ اپنی دھن میں مست زندگی گزار رہے تھے، نوواردوں نے ان کو عذاب بنا کے رکھ دیا ہے۔

 اس نے کلا ہ ساز افسانے میں کثرت آبادی کو منفی عمل کیا۔ اس سے کمیونٹی اور خانگی نظام کی ریت روایات کو زک پہنچتا ہے۔ اس میں قومی اخلاقیات انحطاط کو شکار ہوجاتی ہے۔مادہ پرستی کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ اشرافیہ اور مالدار کے جبر میں اٖضافہ ہوتا ہے۔ فرد کی تنہائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملکیت، قبضہ، گھٹن میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈنکن سکاٹ  یہ امید رکھتا تھا کہ ثقافت کو آنے والے خطرات سے محفوظ کرے۔اپنی موجودہ روایات کو برقرار رکھے۔ تیزی سے پنپتی ہوئی تہذیب کی رفتار کو مدھم کرے۔ اس نے کینیڈا کی انیسویں صدی کی اقدار کی نمائندگی کی ہے۔وہ جدید ترقی کی بدولت سیکولر نظام متعارف ہو رہا تھا جو اخلاوی اور نفسیاتی اقدار کو تباہ کر رہی تھیں۔ اس نے لوگوں کے شہروں کی طرف ہجرت کو منفی عمل قرار دیا۔ نظم و نسق میں خلل قرار دیا۔وائگر کا تالاب، محل وقوع ، پھل پھول ، باڑ کا ہونا  یا نہ ہونا، اور محبت، تحفظ، گھٹن، ملکیت جتانا، مصنوعی اور کھوکھلی زندگی،  تنگ نظری، مادیت پرستی، انسانیت کی زوال پذیری اور ذاتی مفاد کا اجتماعی مفاد پر ترجیح دی جائیگی۔

 کہانی کے آخرمیں ایک پیرے میں مطلع کیا گیا ہے کہ وہ کلاہ ساز تین سال ہوئے، گاؤں چھوڑچکی ہے۔ اس کی کھڑکی پر پردہ پڑا

 ہوا ہے۔ اندر باہر جالے لگ چکے ہیں۔ تالے اور چابی کی جگہ پر مکڑوں کا راج ہے۔ گھر نحوست پیش کر رہا ہے۔رہائشی کی موت

 جیسی کیفیت بیان کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ گاؤں والوں نے معمولی دکاندار کلاہ ساز کی جدیدیت کو ٹھکرا دیا ہے

 اور اسے گاؤں سے چلتا کیا  ہے۔ 

Duncan Campbell Scott

(1862 - 1947) Canada

        ڈنکن کیمپ بیل سکاٹ شاعر، ادیب اور اہم بیوروکریٹ تھا۔ وہ  1862میں کینیڈا کے دارالخلافہ اٹاوہ میں ایک دینی عالم کے

 گھر پیدا ہوا۔ اس نے وہاں سے ہائی سکول  اور جونیئر کالج کیوبیک سے کیا۔ اس کے والدین اس کے ڈاکٹر بننے کی خواہش کی

 تکمیل پیسوں کی تنگی کی وجہ سے پوری نہ کر سکے لیکن والد کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے  (Indigenous and

 Northern Affairs Canada ) مقامی باشندوں اور شمالی امور کینیڈا کے محکمے میں سترہ برس کی عمر میں کلرک کی

 حیثیت سے بھرتی کروا دیا جو ترقی کرتے کرتے اس محکمے کی اعلیٰ ترین پوزیشن پر پہنچ گیا۔ وہ قدیمی باشندوں کی مشکلات اور دیگر

 معاملات سے پوری طرح آگاہ تھا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ان لوگوں کے ساتھ جو استحصال ہوا یا خونریزی کی گئی،کی

 تلافی کے لئے اور ان کو قومی دھارے میں لانے کے لئے جو پالیسیاں بنائی گئیں، اس کا تمام تر ذمہ دار ڈنکن ہے۔ وہ ایآک عمدہ

 شاعر اور ادیب بھی تھا۔ اُس کو موسیقی کا بھی شوق تھا اور پیانو بجانے میں ماہر تھا۔ اس کی شاعری کے اہم مجموعے درج ہیں

 The Magic House and Other Poems (1893)

 Labour and the Angel (1898)

New World Rymes and Ballads

Via Borealis (1906)

By the Sea (1927) 

وہ 1947میں فوت ہوا اور اوٹاوہ میں دفن ہے۔ یں صدی میں پہیے کی ایجاد کے بعد معاشرے میں لا رہی تھی۔آ

Popular posts from this blog