مارگریٹ تھیچر کا قتل دوسری قسط۔ Hilary Mantel ...The Assassination of Margaret Thatcher (Episode 2)

 

                                   The Assassination of Margaret Thatcher (Episode 2)

By

Hilary Mantel

UK

 

مارگریٹ تھیچر کا قتل ( دوسری قسط)

 

مترجم : غلام محی الدین

بن بلائے مہمان  کی مشتبہ  حرکات  مجھےاچھی نہیں لگ رہی تھیں ۔ میں  نے اپنی  اہمیت جتانے کےلئےسوچاکہ کہوں کہ مجھ پررعب نہ جھاڑو،نہیں تومیں قتل کردوں گی۔تم بوڑھے لوگ  ہفتے کی شب دعوتوں میں  جو گیت گاتے ہومیراان سےکوئی لینادینانہیں۔ حقیقت میں میراایساکوئی ارادہ نہیں تھاکہ ایسا عملی طورپر کروں اور میں اسے اپنی طرف سے ڈرارہی تھی۔آئرش  دعوتوں میں اس طرح کے گانے گاتے تھے۔

مغنی شاعرنوجوان جنگ پرجاچکاتھا

مقتولوں میں تم اسےدیکھ سکتے ہو

اس کےوالد کی تلوارزنگ آلودہوگئی ہوگی

اس کی جنگلی   بانسری دورپھینک دی گئی ہوگی

زبردستی  کامہمان  اپنی بپتاسنارہاتھا۔میرے آباؤاجداد محب وطن تھے۔وہ اس پر قربان ہوئے(وہ سچ بول رہاتھا)۔ان کی زندگانیوں میں وہ محاذسنبھالتے اور ان کی بیویاں ادرک کی چائے بناتے پھولوں کی مالاپہنے  گیت گاتیں جن میں یہِ ِ  ِگلہ ہوتاکہ وہ ترانوں تک محدود رہ گئے تھے۔ہمارے ہمسائے جھگڑوں کوختم کررہے تھے۔اپنےعزیزواقارب اور ان لوگوں سے لڑنے بھڑنے کوتیاررہتے جنہوں نےاپنے آباؤاجداد  کی روایات فراموش کر کے نئے رنگ ڈھنگ اپنارکھےتھے اور ہماری  تحریک کوپسند نہیں کرتے۔وہ ہمیں رسوائی کاباعث بنا رہے تھے۔ان کے خیالات ان کے گیتوں میں شامل کئےگئے۔

میں لیورپول کاباشندہ ہوں ایک غلیظ اور حقیر بندہ جوہر کسی سے لڑنے بھڑنے کوتیارہتاہے اورکوئی نہ ملے تو اس کے خانگی  تنازعات  شروع ہوجاتے ہیں۔جنوب اورشمال یکساں ہیں۔ایک ہی جیسے ہیں۔وہ پریشان حال ہیں اور انتشار پھیلاتے رہتے ہیں  ۔برک شائر کابھی یہی حال ہے۔ٹریفک بلاک کرنےوالے،تشدد پھیلانے والے،ریل گاڑوں کوپٹڑی سے اتارنے والے لوگوں نے ہمیں  دبارکھاہے۔یہ نتیجہ میں نے اس وقت اس سے کی گئی باتوں سے نکالا۔

میں  نے مزید تفصیل پوچھی تواس نے کہا کہ جتنااسے معلوم تھابتادیاہے۔وہ اتناہی جانناچاہتاتھا جتنااس کاجانناضروری  تھا۔تم میرے لئے کوئی اہم نہیں ہو۔تم اگر چاہوتومیری مدد کرسکتی ہوورنہ ہم الگ الگ رہ سکتے ہیں۔اس کا فیصلہ تم کرلو۔اس نے کہا۔میں نے اس کی باتوں سے اندازہ لگایاکہ دکھنے میں وہ اکیلا تھا لیکن  اس کے اعتماد سےایسالگ رہاتھا کہ اس کے پیچھے  بہت طاقتور لوگ  تھے۔اس نے

 اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ میں ان پاکیزہ نرم ونازک روحوں میں  سے ایک تھالیکن کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیا جارہاہوں:       اگر میں چپ کرکے بیٹھ جاتااور تحریک کاحصہ نہ بنتاتو بھی  ایماندارہوتااور کوئی ایساکام نہ کرتاجس میں دھوکہ اور عیاری ہو۔میں ترقی   پذیر رہنے پر ہی قناعت کرلیتالیکن مجھ پر اعتماد نہیں کیاگیااور کچل دیاگیاہے۔میرے ساتھی جواپناحق مانگ رہےہیں اور آزادی چاہتے ہیں ان پرغداری کےمقدمات قائم کردئیے گئے ہیں۔

میں نے اسے چائے دی۔اس نے کپ دائیں  ہاتھ میں  پکڑااور  عجیب وغریب  مشین  جوکوئی اعلیٰ  قسم کااسلحہ تھا بائیں ہاتھ میں لےلیا  ۔ اس  کےبعد اپنے بیگ سے   سخت ٹیپ  کارول اور ہتھکڑیاں  نکالیں اورباورچی خانے کے میز پر رکھ دیں ۔مجھے لگاکہ یہ میرے لئےہیں لیکن اس نے ایساکچھ نہ ہوا۔

اب اس  نے مجھے کہا کہ خوابگاہ  کےایک طرف  کے میزپر ٹی وی  کی جو توسیعی  تارپڑی  ہے اٹھاکر لاؤں۔اس کاارادہ تھاکہ میرے منہ پر ٹیپ باندھ کرہتھ کڑی لگاکرمجھےبےبس کردےپھراس نے کچھ سوچا اور انہیں  رکھ دیا۔

فون پھر آیاتو چونکہ اس کے دونوں ہاتھ مصروف تھے اس لئےنگاہیں  کھڑکی سے باہر جماتے ہوئے   آواز آن کرکے سننے لگا۔مجھے  ایک خاتون کی  دورسے آتی ہوئی آواز سنائی دی  جویہ کہہ رہی تھی۔بر ینڈن تمہیں یہ نہیں سوچناچاہیئے۔اسے یقین تھاکہ وہ  ہسپتال کے سب سے نزدیکی  کمرے کےکسی  کونے میں تھی۔یہ پیغام وہ اس شخص کودے رہی تھی ۔مجھے قطعی یقین تھاکہ  وہ اس کااصلی نام نہیں تھا۔

وہ    کہہ رہی تھی  کہ وہاں    ابھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں دورکرنےمیں بیس  سے تیس منٹ لگ سکتے تھے۔  وہ بلاسانس لئے  سن رہا تھا ۔ اپنے گھر کی تیسری  منزل  کی سیڑھیاں چڑھتے وقت جب میں سانس لینے رکی تھی تومیں  نے' للوو' کالفظ سنا تھا۔۔۔جس کا لیورپول کی زبان میں معنی 'شیطان تھا'۔ ۔۔تویہ حضرت  لیورپول سے تھا۔میں نے سوچا۔پیغام سن کر برینڈن   نے فون زورسےکریڈل پر پٹخا اور اونچی آواز میں پوچھاکہ غسل خانہ کدھرہے؟

تم   جب کسی  غیردیدنی صورت حال میں دوچار ہوجاؤ توتمہیں  اس سے عہدہ براہونے کے مددگار درکارہوتے ہیں۔مجھے یقین تھا کہ  وہ خاتون اس کے معاونوں میں سے ایک تھی۔ایسے اور بھی ہوں گے۔ میں نے سوچا۔

'للوو' کامطلب کیا ہے ۔میں نے پوچھا۔یہ لہجہ آئرش نہیں لگتا۔یہ سیدھاسوال نہیں تھا۔اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

میرااپارٹمنٹ   چھوٹاساتھا۔دوچارقدموں بعد نئی دیوار شروع ہوجاتی تھی۔اس شخص نے اپنے ساتھ مشین گن طرح کی کوئی شئے اٹھائی ہوئی تھی۔غسل خانے میں اسے اپنے ساتھ لےگیا۔وہ واپس آیا توٹونٹی کھلی تھی اور پانی چلنے کی آواز آرہی تھی۔میں نے اسے اپنی پینٹ کی زپ  بندکرتے ہوئے دیکھا۔اس کاچہرہ سرخ تھاجسے وہ تولئے سے خشک کررہاتھا۔وہ آکر فولڈنگ کرسی پربیٹھ گیا۔ کرسی  کابید کمزور تھااس لئے وہ ذراسا بھی  ہلتاتووہ ِکھس                      ِکھس کرتی۔اس نے کہاکہ تمہارے ننگے بازو پر ایک ٹیلیفون نمبر لکھا ہواہے ۔

ہاں۔

وہ کس کانمبرہے؟

پتہ نہیں۔ایک خاتون کاہے۔میں نے اپنی انگشت شہادت کواس فون نمبر کی سیاہی  پررکھااور کھرچنے لگی۔

یہ ایسے نہیں مٹےگا۔صابن لگاکر رگڑو۔

کیاتم اس کانمبراپنے پاس رکھنانہیں چاہتی؟

صرف اس صورت میں اگر میرابعد میں واسطہ پڑناہو۔

جاؤکافی بناؤ۔اس میں چینی ڈال لینا۔اگر تم اسے اپنے پاس نہیں رکھناچاہتی تو اس پرصابن لگاکر کھرچو تومٹ جائے گا۔ اس نے کہا

میں اس طرح کی جبری مہمان نوازی پرکڑھ رہی تھی۔ تم چینی لیتے ہومیں نےپوچھا۔وہ چپ رہا۔

وہ آگے کی طرف جھکا ۔اپنے ہاتھ میں بندوق پکڑی  جسکامقصد مجھ پرگولی چلاناہرگزنہیں تھا۔اس کےباوجود میرادل زورزور سے دھڑک رہاتھا۔اس نے کھڑکی سےباہرجھانکااورہسپتال کے باغات کی طرف دیکھا۔وہاں دیکھ کراس کومایوسی ہوئی۔اور کہاکہ جنگلے پربلی بیٹھی ہوئی تھی۔

میرے پاس  چینی کی ڈلیاں ہیں۔امید ہے کہ ان کاذائقہ کھلی شکرجیساہی ہوگا۔کیاتم اسے لیناچاہوگے؟

تم اس باورچی خانے کی کھڑکی پرچپ سادھ کربیٹھی رہوگی۔ آواز بھی نہیں نکالوگی اور سیڑھیوں پرتالہ نہیں لگاؤگی۔اس نے ہدائت دی۔

تم جوکہہ رہے ہو،کےبعد کیاکروگے۔کیسے بچوگے۔اگر کوئی ناگوار واقعہ پیش آتاہے اور ایجنسیوں کوتمہارے بارے میں علم ہوجاتاہے توتم کیاکروگے؟

پتہ نہیں۔

توپھر آگے کاکیاپروگرام ہے؟

اس نے کندھے جھٹک دئیے۔تم سمجھتی ہو کہ میرے ساتھ ہو؟ میں  چپ رہی۔وہ اب پھرپسینے میں بھیگ گیاتھا۔تم میری حالت نہیں جانتی۔تم میری کیفیت کےبارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

اس وقت مجھے احساس ہواکہ وہ صوبائی عصبیت کاشکارنہیں تھالیکن مخالف ایسے لوگوں کودہشت گرد کہتے تھے۔ اگرچہ وہ دہشت گرد نہیں تھے لیکن ان پر بھی دہشت گردی کی دفعہ ہی لگنی تھی۔ہر قسم کے مخالف کا خواہ وہ  جمہوری یا غیرجمہوری طریقے سے تبدیلی کا خواہاں تھاکاانجام ایک جیساہی ہوناتھا۔اس کی وجہ نوکرشاہی تھی۔میں اس کی توہین کرتے ہوئےاندر سے ڈر بھی رہی تھی۔اس کے باغی ہونے کےجوازکوصحیح  مان رہی تھی                 ۔ان  سالوں میں۔۔۔مجھے اس بات کو تفصیلاًبتاناتھاکہ طریقہ صحیح نہیں۔ حکومت نے ان کی ترقی کے لئے پولی کلینک اعلیٰ  تعلیمی ادارےقائم کئے تھےجوان نوجوانوں کے لئے بنےتھےجن کو یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملاتھا۔وہ ان سے استفادہ حاصل کرسکتے تھے اور۔۔۔

اس نے مجھے گھورکردیکھااور بولا۔۔۔چائے بناؤ۔میں نہیں سمجھتاکہ تم میرے آباؤاجداد پرطنز کرناچاہ رہی ہوجن کارویہ سخت اور سوچ کٹر تھی۔یہ کسی قسم کا کامذاق نہیں۔ اس نے کہا۔میں اس کےتبصرے پر حیران رہ گئی۔میں تو ہلکی پھلکی گفتگو کرکےاسے سمجھانےکی کوشش کررہی تھی لیکن وہ برامان گیاتھا۔شائد اس میں حس مزاح کی کمی تھی۔میں نےکھڑکی سے باہردیکھتےہوئے اسے ہسپتال کے لان  کی طرف اشارہ کیاکہ وہاں کچھ ہلچل تھی۔

تمہیں اس بات کااحساس ہی نہیں کہ معاملہ کس قدر گمبھیر ہے۔یہ کوئی مزاحیہ بات نہیں  ۔لوگ ہم پر طنزکرتےاورٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ ہم پرظلم بھی کرتے ہیں  اور ہمارے مقصد پرقہقہے بھی لگاتےہیں۔

میں نے اسے بتایا۔ایسے مظالم پرتوحضرت مسیحا بھی روتاہوگا۔میں نے دیکھاکہ وہ  میرے مؤقف سےوہ کسی حد تک پرسکون ہو گیاتھا۔میں جان چکی تھی کہ اس کا اصلی ٹارگٹ وزیراعظم ہی تھی جواس وقت استحصال کی جڑتھی۔لیکن اس وقت  حالت موزوں نہیں تھے اور اپنافعل ادا نہیں کرسکتاتھا۔اسے اپنےمقصد کے حصول کےلئےمزید انتظار کرناپڑناتھا۔اس نے بتایا کہ اگر وہ اس وقت میرے نشانے پرہوتی اور مارگریٹ کو ماردیتاتوتم یقیناًخوش ہوتی کیونکہ ہرشخص جانتاتھا وہ کتنی سفاک  تھی۔اس نے ہم پر بہت ظلم ڈھائے تھے۔اس کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر تھا۔وہ ہمارے لئےکتنی گھٹیااور کمینی تھی تم اس کاتصور بھی نہیں کرسکتی۔اپنے اوور کوٹ کودیکھواس نے اسے خریدنابھی دوبھرکردیاہے۔ اس نے ہر شئے کارخ  بدل کر اسے تنزل کی طرف  پھیردیاہے ۔یہ بات کرتے وقت  اس نے میری طرف   دیکھاتک نہیں بلکہ اس کی نگاہیں باہرتھیں۔میں اس کے لئے چائے بنانے جارہی تھی۔وہ برتن جوبیسن میں پڑے تھے کودھوکر الماری میں ترتیب سے رکھ رہی تھی۔

تم نے میرے چلنے کےانداز کوطفلانہ کہا۔ان حالات میں ایساہی چلاجاتاہے۔تم کیا سوچتے ہوکہ  یہ تمام کیوں ہورہاہے؟ اس نے کہا۔

آئرلینڈ! میں نے کہا۔

اس نے سرہلایااور میں چاہتاہوں کہ تمہیں یہ بھی اچھی طرح  معلوم ہوجائے، اس کی ایک وجہ یہ نہیں کہ مجھے مارگریٹ  پسند نہیں ، یایہ کہ وہ دوسروں کی پرواہ نہیں کرتی ۔ ضمنی ہینڈ بیگ   میں  ضروری اشیا کے لئے بھی نہیں    جووہ پورانہیں کرنے دیتی۔ میرے بال سنوارنے سے بھی کوئی تعلق نہیں۔یہ صرف آئرلینڈ کے لئے ہے۔وہ  ہمارے لئےجابراورسفلی  جذبات رکھتی ہے اور بنیادی وجہ کیاہے؟۔۔۔صرف آئر لینڈ ۔ ۔ ۔سمجھی؟

اوہ!میں نہیں جانتی۔میں نےکہا۔تم اپنے ملک کے اتنے قریب  نہیں ہو جتنی کہ میں ہوں۔تمہارے آباؤاجداد کوان الفاظ کے معانی بھی معلوم نہیں تھےجو تم کہتے ہو۔تمہیں اپنے مقصد کےلئےدوسروں کوقائل کرنے کے لئے  دلائل اورقوت چاہیئے۔

میری پرورش روائتی انداز میں ہوئی اس نے کہا۔اور دیکھو! فاشسٹ حکوت نے ہمارے لوگوں کوبغاوت پرآمادہ کردیا۔ اس نے اردگرد ایسےدیکھاجیسےکہ اسے یقین نہ ہوکہ وہاں تھااورکیاکرنے آیاتھا:ایک ایسی زندگی جس کواس نے کسی خاص مقصد کے لئے وقف  کردیاتھا،دس منٹ بعد وہ واپس  اس کمرےمیں  چلاگیاجہاں  چپ بورڈ کی الماری  جس پر سفید دھات  چڑھی ہوئی تھی پڑی تھی؛ایک ایسابستر جو سیدھا کرکےنہیں رکھاگیااور بےترتیب تھا،ایک اجنبی خاتون اور چائے کاآخری کپ جس میں میٹھا نہیں ڈالا گیاتھا۔

میں  سوچتاہوں کہ وہ لڑکے بھوک ہڑتال پر ہیں۔اس نے کہا  جس میں سے پہلا آج سے دوسال پہلے اس وقت مرگیاتھاجب وہ پہلی بار وزیراعظم  منتخب ہوئی تھی:کیاتم یہ بات جانتی ہو بوبی چھیاسٹھ  دن کی بھوک ہڑتال کے بعد مرگیا۔اس کے بعد بھی  نولوگ ایسے   تھے جواس کے پیچھے پیچھے گئے جن کاوقت بوبی سے  کچھ زیادہ نہیں تھا۔'  تم پینتالیس دنوں سے زیادہ بھوک ہڑتال پرہو۔تمہارے جسم کی خستگی کم ہوجاتی ہےاور تم  پھر سے پانی پیناشروع کر سکتے ہو لیکن وہ جینے کا آخری  موقعہ ہوتا ہے کیونکہ پچاس دنوں کے بعد تم بمشکل دیکھ او ر سن سکتے ہو۔اپنی چمڑی خود کوکھاناشروع کر دیتی ہے۔تمہیں حیرانی ہوگی کہ  اس  کےبعد وہ  نہ سن سکتے ہیں ،نہ بول سکتے ہیں ،ان کاجسم از خود اپنے گوشت اور چمڑی کوہضم کرنا شروع کردیتاہے۔تمہیں حیرانی ہوگی کہ وہ اس حالت میں قہقہے بھی  نہیں لگاسکتا؟۔۔۔اورمجھے ایسی حالت میں  قہقہے لگانے کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔تمہاراکیاخیال ہے؟

میں اس بارے میں کیاکہہ  سکتی ہوں۔میں نے کہا۔اٹھو۔چائے کاایک کپ اور بناؤ۔میں تمہاراساتھ دوں گی ۔میں تمہاری جگہ  کھڑکی   میں بیٹھ جاتی ہوں۔مجھے  مشین  گن دے  دو ،میں نشانہ باندھ کر بیٹھتی ہوں۔تھوڑی دیرتک وہ سوچتارہا۔پھر کہاتم نشانہ مس کردو گی ۔ مجھے تم پربھروسہ نہیں۔تم اس کے لئے تیارنہیں۔تم تربیت  یافتہ نہیں۔

تم نے صحیح  طریقے سے کام کرنے کی باندھنے  کی  تربیت کہاں  لی؟ یہ کوئی قابل فخربات نہیں ہوگی کہ تم بےقصور ڈاکٹروں اور نرسوں کومار دو۔ انسانیت کی فلاح وبہبود کرنےوالے انسانوں کومارناسفاکانہ عمل ہے؟

یہ عین ممکن ہے۔اس نےکہا۔

اس وقت وہ عادی  سگریٹ  نوشوں والی لمبی کھانسی کرنے لگا۔۔۔اوہ ہاں! چائے۔۔۔میں نےاسے کپ پکڑاتے ہوئے کہا۔حکومت کو تمہاری شکایات کاازالہ کرنا چاہیئے ۔وہ تم سے مذاکرات کیوں نہیں کرتی؟تمہیں اس کی توقع کیوں نہیں؟

حکومت کے نزدیک مٹھی بھر آئرش کمیونٹی کی وقعت کیاہے؟ایک سو،ہزار،دس ہزار ،لاکھ ۔۔۔کی اہمیت کیاہے؟وہ سب کوپھانسی پرلٹکادےگی۔اس میں بیٹھے لوگ خود کو مہذب اور ماڈرن سمجھتے ہیں لیکن ان کے اقدامات فاشسٹ  ہیں۔انہیں بےسہاراچھوڑ دیتے ہیں۔وہ پبلک سکوائرپراپنی آنکھیں موند کرہم جیسے لوگوں کوبھون ڈالتے ہیں۔کیایہ اچھی بات ہے ۔ ایسے لوگوں کوتختہ دار پرلٹکا دیاجاناچاہیئے؟

کیاتمہیں خبرہےکہ مےخانے میں مارگریٹ تھیچرکےبارےمیں کیاکہاجاتاہے؟اس نے بات جاری رکتے ہوئے کہا۔۔۔یہ ڈائن ہے۔سنگدل ہے۔معصوم بچوں کی جانی دشمن ہے۔ اس نے اس کی دودھ کی رقم پرڈاکہ ڈالا ہے۔اس کے خلاف   مزاحمت کرتے رہو۔۔۔آگے بڑھتے رہو۔

ایسانہ کرو۔ایسانہیں کرناچاہیئے۔ایساکرتے رہوگے تو تباہی  ہوتی رہے گی؟ میں  نے کہا

میں تمہیں تذلیل آمیزالقابات کی ایک فہرست دے دیتا ہوں  جواخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ہمارے ساتھی بلیدان چڑھ چکے ہیں۔تم ان کی تفصیلات جانوگی تو صدمہ برداشت کرنا مشکل ہوجائےگا۔انہوں نے یہ سلسلہ بند نہیں کیااور مسلسل جاری رکھا ہے ۔یہ سب انگریزوں نے ان کےساتھ کیاہے۔اس نے بجھے دل سے کہا۔مجھے وہ سب نام ازبر ہیں۔اس نے بڑے دکھ سےکہا۔

میں نے گھڑی پروقت دیکھا۔انتظار کرنے کے اعلان کے مطابق۔۔۔دس منٹ ۔۔۔پھر آریاپار۔میں نے نیچے گلی میں جھانکاجوہفتے کی شام کی طرح تاریک تھی،اب  لوگوں سے بھرگئی تھی۔ہجوم کونے میں جمع ہوگیاتھاجویہ توقع کررہاتھاکہ مارگریٹ تھیچر ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والی  تھی۔باورچی خانے میں کاؤنٹر پر ٹیلیفون  توسیعی تار سے جڑاہواتھاجومیری دائیں طرف تھا۔اگر میں اس کاریسیور اٹھاتی توآواز اس شخص  کےپاس  جاسکتی تھی۔وہ سائلنسر والی بندوق سے مجھے مار دیتااور آواز بھی نہ آتی۔پڑوسیوں کوخبر تک نہ ہوتی  کیونکہ آوازان کو وجہ معلوم کرنے آناپڑناتھااور ان کاوقت غارت ہوجاتا۔

میں  کھڑی کیتلی کاپانی ابلنے کاانتظار کررہی  تھی کہ سنائی دیاکہ وزیراعظم برطانیہ  صحت یاب ہوکرہسپتال سے ڈسچارج ہونےوالی تھی ۔ اس خبرنے لوگوں میں جوش وخروش بھردیاتھا۔میں سوچ رہی تھی کامیاب جراحی کےبعد وہ واپس جائے گی توکیاوہ پہلے کی طرح دیکھ پائے گی؟کیا وہ اب خود سے چل کرآئے گی یاعملہ اسے سہارادے کرلائے گا۔کیااس کی آنکھوں پرپٹی بندھی ہوگی؟میں نےایسا تخیل بیان کیاتو وہ تمثال اسے پسند نہ آیا۔

اس نے کہا۔نہیں۔وہ بوڑھی شکرے کی آنکھیں رکھتی ہے۔وہ نارمل لوگوں کی طرح ہی دیکھے گی۔اس کی آنکھوں میں  کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ نہ آنسو نکلیں گے،نہ پٹی ہوگی اور اپنی عیارعقاب کی تندوتیز بصیرت سےہرطرف دیکھ سکےگی۔وہ روزانہ صرف چارگھنٹے سوتی  ہے۔ اسکے جسم میں وسکی  اور لوہا بھراہواہے ۔اس نے کہا۔

میں چائے پینے لگی۔ اس  کی چائے میں توانائی والاپاؤڈرملایا۔اسے گرمی محسوس ہونے لگی    تواس نے اپناسویٹر اتار دیا۔وہ شائد ایسالباس پہنتاتھاجومقبروں پر مجاور پہنتے ہیں۔تہہ دار۔ایک  پر دوسری تہہ وغیرہ کیونکہ یہ خیال کیاجاتاہے کہ اس  سے سردی کم لگتی ہے۔ اونی  سویٹر کے نیچے اس نےفلالین کی قمیض پہنی ہوئی تھی جسکاکالراوپر اٹھایاگیاتھا۔اس کے کپڑوں   کی صفائی سے لگ رہاتھاکہ وہ کپڑے خود ہی دھوتاتھا۔وہ اپنی قسمت کایرغمالی تھا۔اس کے جوتوں کے تسمے آدھے کھلے تھے۔

جوتوں کے تسمے باندھ لو۔میں نے اسے مشورہ دیا۔

تسمے باندھ کرزیادہ دورنہیں بھاگ  سکتا۔اس نے کہا۔اپنے بکھرے بالوں کواپنی انگلیوں سے سنوارنے کی کوشش کی جیسے کہ ایساکرنے سے اس کی قسمت بدل جائے گی۔

فوری بعد میں نے سائلنسر کی گولی کے ساتھ ایک چیخ سنی۔میرے ذہن میں ایک لمحے کوبھی نہیں آیاکہ گولی کہاں سے چلی تھی۔ نشانہ کہاں سے باندھاگیاتھا۔میں  صورت حال کاجائزہ لینے سیڑھیوں سےاتری اور گلی  جاپہنچی۔انہیں ایک لمحہ بھی یہ جاننے میں لگاکہ گولی کہاں سے آئی تھی۔اگر اس وقت میرے ہاتھ میں بندوق ہوتی تو جوبھی آگے آتا اسے بھون دیتی اس سے پہلے کہ وہ مجھے مار دیتے ۔اس نے سانس میں وقفہ لیااوران حالات میں  یہی بہتر طریقہ ہوسکتاتھا۔

آہ!میں نے کہا۔میراخیال ہے کہ واردات کے بعد تمہارے پاس وقوعہ سےبھاگ جانے کی کوئی ترکیب تو ہوگی؟

اس سے بہتر کیاہوگاکہ وطن حاصل کرنے کی خاطر جان دے دوں۔اس کے لہجے میں تلخی اور طنز شامل تھا۔یہ عطیہ خداکی طرف سے ہی عطاکیاگیاہے۔یہ ہسپتال، تمہارے کمرے کی کھڑکی اور چھت اور کمرے کے درمیان بالاخانہ۔اس طریقے سے مرنا آسان بھی ہے،کم تکلیف دہ بھی ہے،سستابھی ہے اور صاف ستھرابھی۔اس میں صرف ایک  ہی شخص کی جان جاتی ہےاس نے کہا۔

مجھے اس سے یہ بات بہت پہلے ہی بول  دیناچاہیئے تھی  کہ وہ ایسانہ کرے۔اس سے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ماراماری کا یہ طریقہ غلط ہے۔اس  کی یہ سوچ تھی کہ یہی راستہ موزوں ترین اورمقدس خیال کیاجاسکتاتھا۔میرے خیال کےمطابق اس کے ایسے اقدام سے اصل اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے تھے۔

میں نے وقوعہ سے بھاگناہوتاتو یہ میرے عہد کی پاسداری نہ ہوتی،میراپیام گہناجاتا۔میرا دانشوروں کی طرح کا وعظ ہوتا جوعملی طورپرکچھ بھی نہیں  کرتے۔یا  اس فلسفے کے کومانتےہیں کہ ہر لحاظ میں صبر و شکر کرناچاہیئے۔یہ تمہاری قسمت ہے اور اسی پہ تمہیں قناعت کرنی چاہیئے۔ایسے لیکچرامرابھی غریبوں کودیتے رہتے ہیں۔اپنے ہاتھوں کوکبھی نیچے نہیں کرناچاہیئے اورجوملاہے اسے لے لیناچاہیئے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

اس کی اس معصومیت پرمجھے اس پر ترس آگیا۔اسے موقعے سے فرار کا کوئی منصوبہ پہلے سے سوچ لیاہوتاتو صحیح ہوتا۔  اسے ایک اورشئے کے بارے میں بھی علم ہوناچاہیئےتھا کہ اندھاآدمی خود سے تونہیں دیکھ پاتالیکن اگر کوئی خیرخواہ مدد کرے تووہ اس کی آنکھیں  بن سکتا ہے ۔اس جابرحکومت  سے کسی قسم کی رحم کی توقع نہیں  کی جاسکتی۔اب بھاگنے کی تیاری کرو ۔بیوہ کرنے والی مشین گن  ہے،اسے پھینکو۔اپناخالی بیگ اٹھاؤاور ایک پلمبر کی طرح جو نل ٹھیک کرنے جسطرح آیاتھااسی طرح واپس چلے جاؤ۔

جوں ہی میں اپناکام انجام دے کراس گھر سے نکل  جاؤں گا۔میرافرض اداہوچکاہوگا۔لیکن اگرتم یہاں سے پڑوس کے گھر چلے جاؤ تو ۔۔ ۔میں نے کہا۔ ہم اس فاشسٹ حکومت  سے کسی قسم کی بھلائی کی توقع نہیں رکھ سکتے۔اس نے کہا۔

 مجھے ایک چوردروازے کاعلم تھا۔ میں جانےانجانے اس کاساتھ دینے کافیصلہ کیا۔آؤ۔ میرے ساتھ آؤ۔میں نے کہا۔

وہ کمرہ چھوڑنے سے پہلے مضطرب ہوگیا۔اسے میرے مشورے کے مطابق اپنی مرکزی پوسٹ  چھوڑناہی پڑنی تھی۔تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔تم اپنی بندوق کرسی کے نیچےرکھ دو۔وہ بھاگتاہوامیرے پیچھے آیا۔میں دروازےکےپاس پہنچ چکی تھی اور دروازہ کھولنےوالی تھی کہ وہ بیچ میں آگیا۔ میں اسے ایک قدم پیچھے ہٹنے کوکہااور دروازہ کھول دیا۔

سیڑھیوں کا دروازہ  بند کرکے کنڈی لگادو۔وہ بولا۔وہ سیڑھیاں نیم تاریک تھیں اور دن کوبھی کم روشنی آتی تھی۔بلب جلاکر ہی روشنی ہوتی تھی۔اگر اس وقت ایساکیاجاتاتووہ عمارت مشتبہ لگ جانی تھی۔سیڑھیوں کا بلب بجھادیاگیا۔ہم اندھیرے میں آگئے۔

تم کھڑے رہو۔آہستہ آہستہ سانسیں  لو۔آنکھیں اندھیرے میں مطابقت حاصل کرلیں گی۔سیڑھیوں کے دبیز قالین پرقدموں کی چاپ سنائی نہیں دےرہی تھی۔اپنی اگلی منزل کے لئے اڑان تیزی سےبھرلو۔دھیان سے سنو۔یہ گھراب بالکل خاموش ہے۔مکین  گھر سے صبح سے ہی نکل گئے تھے۔بیرونی دنیا کی گھٹی گھٹی آوازیں آرہی تھیں۔ریڈیو سے دھڑادھڑ بریکنگ  نیوز دی جارہی  تھیں ۔ سرگوشیوں ،بڑبڑاہٹ اورہیتھرو ائرپورٹ سے ہوائی جہازوں کی آمد اور اڑان    کی بھنبھناہٹ  جاری تھی۔ افراتفری اور خوف و ہراس کاعالم  تھی۔ہواساکن تھی۔لوگوں کے وارڈ روب سےفینائل جوانہوں نےاپنے کپڑوں میں کیڑوں سے بچنے کے لئے لگایاتھا  کی بو پھیلی  ہوئی  تھی۔کسی گھرکےاندراورباہردیکھاتونہیں جاسکتابلکہ صرف سناجاسکتاتھا۔یہ جگہ محفوظ تھی اور تم  بغیر کسی مداخلت ایک عرصہ تک  گھات  لگاکربیٹھ سکتے تھے۔اس عرصے میں تم سوبھی سکتے تھے۔خواب بھی  دیکھ سکتے تھے۔نہ معصوم اور نہ ہی گنہگار بن سکتے تھے۔اپنی  موت ٹال سکتے تھے۔

ایک دن گرجاگھرمسمارہوجاتا،پلاسٹرسےدھواں نکلتااورنیلے رنگ کی ہڈیوں  سےسفوف نکلنابند ہوجاتا۔ وقت  بتارہاتھاکہ ٹمپریچر نقطہ انجماد پرآگیاتھا۔ابتداپھرسےشروع ہوچکی تھی:ان کھنڈرات  اور بربادی کو فرشتے ہی سنبھال سکتےتھے۔گٹروں سے پتیوں کو ٹھوکریں  مارسکتے تھےاور خستہ حال  جھنڈوں  میں اپنے ہاتھ لپٹاسکتے تھے۔

سیڑھیوں پر،ایک سرگوشی ابھری۔۔۔کیاتم مجھے قتل کردوگے؟یہ ایساسوال تھاجسے میں صرف اندھیرے میں ہی پوچھ سکتی تھی۔

میں باورچی خانے میں  تمہارے منہ پرپٹی باندھ کر ٹیپ لگاکرچھوڑجاؤں گا۔اس نے جواب دیا۔تم انہیں یہ کہہ سکتی ہوکہ جوں ہی میں کمرے میں داخل ہوامیں نے تمہیں فوری طورپر باورچی خانے میں باندھ دیاتھا۔ وہ تمہارے ساتھ یقیناً سختی کریں گے۔اس نے سرگوشی کی لیکن تم بالآخر چھوٹ جاؤگی۔یہ کام میں جانے سے پہلے کروں گا۔اس سے پہلے نہیں۔

تم ایسا نہیں کروگے میں  تمام مناظر اپنی نظر سے خود ہی دیکھناچاہوں  گی۔میں کوئی شئے مس نہیں کرناچاہتی۔

تواس صورت میں تمہیں سونے کے کمرے میں باندھوں گاتاکہ تمہیں ہرشئے نظرآتی رہے۔

اس سے پہلے مجھے سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دیکھ لینے دو۔میں اپنے ہاتھ میں شاپنگ بیگ رکھوں گی۔اگر کسی نے پوچھاتوکہہ دوں گی کہ میں سارادن گھر سے باہر رہی تھی۔لیکن اس بات کادھیان رکھناکہ دروازہ دھکامارکرکھولناہے۔تم ایسے کرو گے جیسے کوئی نقب زن کرتا ہے۔

تم میرے کام کی نوعیت جان گئی  ہو۔اس نے کہا۔

میں سیکھ رہی  ہوں۔

تم تویہ چاہ رہی تھیں کہ تم پورے واقعے کواپنی نظروں سے دیکھو۔

میں تمام باتیں سننے کے قابل ہوں گی۔وہاں ایسا شور اٹھے گاجیسے رومن تھیٹر سے اٹھاکرتاتھا۔میں نے کہا۔

نہیں۔تم  ایساکچھ نہیں کرو گے۔اس نے  ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔

میں نے پوراواقعہ دیکھناہے۔ خواہ کچھ بھی ہوجائے۔میں سب کچھ دیکھنے کے لئے موجود رہناچاہوں گی۔

آدھی سیڑھیوں میں  کھڑکی کے پاس ہی خاکروب کا صفائی کے سامان کاسٹور تھا۔اس میں الماری تھی۔جھاڑو اور دیگر کیمیائی مواد پڑاتھاجوصفائی میں کام آتاتھا۔اس کےساتھ ہی ایک دروازہ تھاجواس وقت ہی کھولاجاتاتھاجب عمارت میں آگ لگ جائے۔وہ آگے بڑھااور اسے دھکے سے کھول دیا۔اس دروازے کے دوانچ پرے ایک اور دروازہ تھا۔جس کا صرف مجھے ہی پتہ تھا ۔ اسے کھولو   

۔میں نے کہا۔

اس نے اسے آہستہ سے سرکایااور وہ  پھسلتے ہوئے کھل گیا۔وہاں گھپ اندھیراتھا۔اس میں مدھم دھیمی،کھٹی جمع شدہ بساند آرہی تھی اور عوامی پسینہ مل کرکھٹی میٹھی بوپیداکر   رہی تھیں۔ملحقہ قالین پربارش کے قطرے،گیلی چھتری،چمڑے کےبھیگے جوتے ، دھات کی چابیوں کے  گچھے،ہاتھوں پرجمانمک   حالات کومزید خراب کررہےتھے۔ یہ حالت اس گھر کی تھی جوواردات   سے اگلا گھر تھا۔وہاں سے مدھم روشنی میں نیچے دیکھاتومیں نے کہاکہ تم اس فریم سے باہر نکل کراس گھر میں گھس گئے تھے۔

ایک قاتل 21نمبر گھر میں داخل ہوا۔ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاتھا کہ           20نمبر گھرمیں آگ   لگنے کی صورت میں باہر نکلنے والے دروازے سےایک پلمبر اندر گیاہوگا۔وہاں اوربھی کئی گھرواقع تھے۔ کئی واقعات وہاں نمودار ہورہے تھے۔کس وقت کس جگہ کیاسرگرمی ہورہی تھی کی مکمل تفصیل معلوم نہیں ہوسکتی تھی۔وہ آپس میں  ایسےگڈ مڈ ہوگئی تھیں جیسے جانور سردی میں ایک دوسرے میں جڑجاتے ہیں۔ان کی سانسیں اکھڑجاتی ہیں۔نبضیں کمزور ہوجاتی ہیں ۔اس افراتفری میں وہ موقع پاکر نکل گیاہوگا۔

ہمیں اس وقت یہاں کس کس شئے کی ضرورت تھیواض ،ح تھی؟ان کی فوری فراہمی چاہیئے تھی۔موقعے کافائدہ اٹھانانہائت ضروری تھا۔ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیاجاسکتاتھا۔باعزت  بری ہونے کے لئےوقوعہ سے غیرموجودگی  ہرلحاظ سے ثابت کرناتھی تاکہ بے گناہی کی ثابت کرنے کےلائق ہوجائیں۔عمارت میں ایک شگاف پیداہوگیاتھا،یہی ایسا موقعہ تھاجوبہت نازک اور خطرناک تھالیکن اس کےعلاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھاجوہمیں میسرآسکتاتھااوریہی  ایک موقع تھاکہ بچنے کی ترکیب کی جاسکتی تھی۔

 اگلے گھرکےاگلادروازہ اس گلی  سے صرف چندفٹ ہی کی دوری پرتھااور اس کے بعد گلی ختم ہوجاتی تھی  :اس کے دائیں طرف  والا قلعہ  وقوعہ سے دورتھا۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی تھی کہ اگر شخص بہت بہادرہواور اسے موقعہ ملےیااس کی مدد کی جائےتووہ وہاں سے اپنی جان بخشی کےلئےبھاگ سکتاتھا: اس کی کارغیرقانونی طورپرملحقہ گلیوں میں کہیں پارک کی گئی تھی جو کسی رہائشی کی ملکیت تھی۔اس پراس نےجعلی نمبرپلیٹ لگائی تھی۔اس کے علاوہ اس نے عوام کارستہ روکاہواتھا۔،وہاں ایک اور کار اس کاانتظار کررہی تھی،جواسے وہاں سے نکالناچاہ رہی تھی اوراسےاس طرح غائب کردیناچاہتی تھی جیساکہ کبھی بھی اس کاوجود ہی نہ رہاہو۔

وہ   واندھیرے میں دیکھتے ہوئے جھجھکا۔کوشش کرو۔

روشنی میں بالکل نہ بولو۔خاموش رہو۔آگے بڑھو۔

کیاکسی نے دیوار میں لگا دروازہ نہیں دیکھا؟یہ ایک متروکہ دروازہ تھاجس کا صرف مجھے علم تھااور وہ دروازہ آئرلینڈ کےجنگجو کی بچنے کی آخری امید تھی۔وہ  وہاں سےآرام سے نکل سکتاتھا۔وہ دروازہ اسے تباہی و بربادی سے محفوظ رکھ سکتاتھا۔لیکن خطرہ بھی تھااوروہ  ایک  کھلےپر اورکٹی ہوئی پتنگ کی طرح وہاں سے کہیں بھی گرسکتاتھا ۔

اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔یہ دروازہ بناتے وقت عمارتی اصول استعمال نہیں کئے گئے تھے۔کوئی قفل سازاس کے تالے کوکھول نہیں سکتاتھا۔کوئی عدالتی بیلف اسے کھلوانہیں سکتاتھا۔پہریدار اور گشتی سپاہی اسے توجہ میں لائے بغیرگزرجاتے تھےلیکن وہ دروازہ یقین اور اعتماد کی آنکھ سے ہی نظرآسکتاتھا۔اگرکوئی اسے کھولنے میں کامیاب ہوکر دہلیزپارکر لی جاتی توفرشتے بھی اسے نہیں پاسکتے تھےکیونکہ دروازہ واہونے پر اس میں سے چنگاریاں اور شعلے نکلنےلگتے تھے۔میں بغیر کسی نقصان کے اس کے کھولنے کی تکنیک جانتی تھی۔

 قاتل اس  فریم کےاندر ایک خوفناک ہستی تھا، لیکن آگ پکڑنے والے دروازے سے آگےوہ پگھل جاتاتھااوراس کاحلیہ ٹی وی پرنظر نہیں آسکتاتھا۔یہی وجہ ہوسکتی تھی کہ  اس کےنام  اور شکل وصورت کاپتہ نہیں لگ سکےگا۔اگرمخصوص وجہ سےمسز تھیچروہاں پررہتی رہی  اور وارداتیےکاکھوج لگاتی رہی تو کوئی نہ پہنچ سکتاتھا۔

 دروازے کونوٹ کرو:اس دیوارکوغورسےدیکھو: اس دروازے کی قوت دیکھوجوکہ دیوار کےاندرپیوست ہے۔اس سرد ہواکونوٹ کروجواس میں سے گزرتی ہےجب تم اس دراز کوکھولتے ہو۔تاریخ  اس واردات کوہمیشہ اس کے برعکس بتائے گی۔ وقت اورایک مقام معین  ہے۔۔۔ایک گھنٹہ، روشنی کاجھکاؤ۔۔۔آئس کریم وین جو بھاپ نکلنے کےذیلی راستے سے ہم نوائی کررہی ہوتی ہے ۔اب 21نمبرگھرمیں گھس جاؤاور21نمبر گھرواپس آنے کےبعد قاتل نے قہقہہ مارا۔

ششش۔۔۔چپ رہو۔میں نےکہا۔

کیایہ تم ایک اہم ترین مشورہ دے رہی ہو؟کیاوہ گلی سےکچھ آگے مجھے گولی ماریں گے؟اوکے۔ہم انہیں ایساکرنے دیں گے۔ دوسری  لکیر سے گزرو۔

میں یہ ساری کاروائی اپنے تخیل میں ہی کررہی تھی۔حقیقت میں ہم اپنے گھر سے ہلے بھی نہیں تھے۔یہ ساری باتیں ہم صرف اپنے گھر میں کررہے تھے اور وہاں سے ابھی تک ہلے بھی نہیں تھے۔جب اس بات  کاعلم ہواتو حیرت ہوئی۔ہم گھبراگئے۔اب وقت بالکل کم ہےکہتے ہوئےہم خواب گاہ میں آگئے۔

اس نےمجھےاس بارے میں کچھ نہیں بتایاکہ میں وہاں رہوں یاکوئی اور منصوبہ بناؤں۔اس نے مجھے کھڑکی کی طرف دھکیلاور کہاکہ اسے کھولوں اور پھرواپس اسی جگہ چلی جاؤں۔وہ ایسے شورسے جو نیچے سے آناشروع  ہواتھاخوفزدہ ہوگیا۔لیکن کھڑکی اگرچہ بہت بھاری تھی لیکن دھمک سے ہلتی تھی جس سے اس کاکمربند کھسک کرکر یٹ کےدوسرے حصے کی طرف جارہاتھا۔اسے روکنے کی اسے ضرورت نہ تھی۔

باغات خالی  تھےلیکن ہسپتال کے اندر  ہلچل  تھی۔وہ اب اندر سے باہرآرہے تھے: وہ ایک سرکاری ایجنسیاں نہیں تھیں بلکہ ڈاکٹروں ،نرسوں اور ہسپتال کا عملہ تھاجنہوں نے ٹوپیاں اور ایپرن  پہن رکھےتھے۔اس نے اپنی بیوہ بنانے والی مشین اٹھاکراپنے گھٹنے پررکھی ،اپنی کرسی کی نوک آگے کی۔میں نے اسے دیکھا تووہ پسینہ پسینہ ہورہاتھاجس وجہ سے اس کے ہاتھ اس سے پھسل رہے تھے۔میں نےاسے تولیہ تھمادیاتاکہ وہ اپنےہاتھ اس سے خشک کرسکے۔اس نے بغیرکسی سوال کے تولیہ میرے ہاتھوں سےلیا اور خود کوخشک کیااورایک بارپھرراہبانہ  اندازمیں میں نے ایک بارپھر یاددہانی کرائی،جوکہ قربانی کاجذبہ ہےبھڑکی بھنبھناہٹ کی طرح  ہوتاہے ۔ اگر    وہ ڈنک مارلے تونہ صرف  اسےبلکہ اس کاچھتہ بھی  بھون کررکھ دیاجاتاہے۔اس لئے مستعدی اورجرم کاکوئی نشان  نہ چھوڑنے کی ہدائت کی۔

باغات کی خوشبوپانی والی تھی۔گھاس اور بوٹے سبزتھے۔ اس وقت نیم گرم سورج کی شعائیں لڑکھڑاتی ہوئی اندر آرہی تھیں۔پودوں کےپتے پالش کئے ہوئے لگ رہے تھےاور ان کاسایہ ڈریسنگ ٹیبل پرپڑرہاتھا۔میں اس وقت اس سے یہ پوچھناچاہ رہی تھی کہ میں کہاں بیٹھوں؟اگر میں بیٹھ جاؤں یاکھڑی رہوں توکس جگہ پر؟اس کنارے پر؟شائد میں گھٹنوں کےبل جھکوں۔۔دعائیں مانگوں۔

اور اب ہم اپنے مخالفوں کے نشانے پرتوتھے لیکن اہمیت  کے لحاظ سے قانونی اور معاشرتی لحاظ سے دہشت گرد تھے۔ٹیرس اور لان میں ہرطرف ہسپتال کاعملہ تھا۔وہ لائنوں میں کھڑے تھےباورچی بھی ان کےساتھ لائن میں کھڑاہوگیا۔اپنے سفید یونیفارم  اور مخصوص   و ردی کاطوق پہنےتھا۔منظر  ہمارےلئے خوفناک تھالیکن وہ اسے دیکھ کرکھسیانی ہنسی ہنسا۔میں اس کی سانس کی اونچ نیچ پر افسردہ ہوگئی اور چپ سادھ لی۔

ہم یہاں بیٹھے ہیں،پوری دنیاسےکٹ کر،یہاں ۔وہ  آگے جھکا۔تاک کرنشانہ باندھا۔وہ بھی وہی دیکھ رہاتھاجومیں دیکھ رہی  تھی ۔  اس کے بال سونے کی طرح چک رہے تھے۔وہ اسے ایسے صاف طریقے سے دیکھ رہاتھا جیسے چودہویں کاماہتاب  ۔چوکھٹ پر بھڑوں کے چھتے ہوامیں ساکن ہوگئے تھے ۔انسانی اندھی آنکھ ذراسی جھپکی اور وہ خوشی سے اچھل پڑااوربولا کہ یہ بڑی خوشی کامرحلہ ہے۔

دروازے کی گھنٹی بجی اور باربار بجی۔میں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی۔۔تومیں سب اپنے خواب میں کررہی تھی ۔۔۔

پلمبر کے انتظار میں میں کھڑکی کےپاس بیٹھ کرہسپتال کا نظارہ کرنے لگی تھی۔گئی تھی ۔ بوریت سےآنکھ لگ گئی تھی۔نیند میں میں نےیہ سب دیکھااورکیا۔ باربار گھنٹی کی آواز سے دروازہ کھولاتو سامنے ڈیگن اوزار اٹھائے کھڑا تھا۔ میں نےدروازہ اس کے لئے کھول دیا۔پھر جاننا چاہاکہ ہسپتال کی کیاصورت حال تھی۔ مسز تھیچر آرائشی راستے پرٹپ ٹپ  ایک  طفل مکتب کی طرح ڈگمگاتی ہوئی چل رہی تھی۔اس نےاکڑکرچلنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔اس کے کندھے پر ایک قیمتی بیگ لٹکاہواتھا۔اس نے ایک ڈیزائنر سوٹ زیب تن کیاہواتھاجواس نے اپنے مخصوص ڈیزائینر  سے سلوایاتھا۔اس کی گردن میں ہیرے کاجڑاؤ سیٹ تھا اور گوچی کی دھوپ کی عینک پہنی ہوئی تھی۔سہ پہر اس پرسایہ کئے ہوئی تھی۔وہ اپنے الوداع کرنے والے عملےکےپاس گئی اور ہرایک سے فرداً   فرداً  ہاتھ ملائےاور تعریفی کلمات اداکرنے لگی۔۔۔میراڈراؤناخواب اپنے انجام کوپہنچا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Popular posts from this blog