ابن ینا تیسری قسط ۔۔ روحانی شعور اور وجود ( ایسینس اینڈ ایگزسٹنس )

 

 




 ابن سینا     تیسری  قسط       ( روحانی  شعور اور وجود)

 

روحانی شعور اور وجود

Essence and Existence

ابن سینا  ( بو علی سینا)

(Avicenna)

980- 1037

Bokhara

  تحقیق:    غلام محی الدین

 

ابن سینا  کے حالت زندگی،                ماہر طب، ماہاہر نفسیات                 (پہلی  قسط) ؛  نظریہ مابعد از  طبیعیات  اور علم الہٰیات  اور علم موجودات  (      دوسری قسط )             کے بعد اب ہم                          اس بات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ کائنات میں روحانی   شعور (    ایسینس ) ا  ور موجودات(       ایگزیسٹینس)  کیا ہیں اور ان کا کیا  کردار                ہے۔  ابن سینا نے کائنات کی تخلیقی عمل روح اور وجودکو بنیادی اہمیت دی۔انہوں نے ان موضوعات کو مندرجہ عنوانات کے تحت بیان کیا۔   

3.0            Essence and Existence

3.1            Composition Essence and Existence

3.2            The Distinction between Essence and Existence

3.3            The Composition of Essence and Existence

3.4            Quiddity and Mental Existence

3.5            Oneness Ontology and Henology

 

3.0 )   Essence and Existence      

(3.0 روحانی  حصور ( روحانی شعور)    اور وجود  

ابن سینا  نے اپنے فلسفے میں   روحانی  شعور  اور وجود ؛ ماہیت بطور اساس؛  ماہیت اور وجود میں امتیاز؛  ماہیئت aور وجود میں امتزاج؛  ذہنی وجود اور خاصہ (کیو ڈیٹی) اور علم موجودات اور علم المظاہر موضوعات کے تحت بیان کئے۔          

3.1) Essence and Primary Principle          

3.1)  روحانی حصول بطور بنیادی (اساسی) اصول  

 ماورائی اور غیر ماورائی   تصورات کی فلسفیانہ بحث میں      مقرون اور غیر مقرون اشیا  پر بحث کی گئی۔ مقرون اشیا    ایسا وجود رکھتی ہیں جو براہ راست ثابت کیا جا سکے۔  وجود کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ مادی ہو۔ چھوا جا سکتا ہو۔ حواس خمسہ کی مدد سے ماپا جا سکتا ہو۔   ابن سینا کے تحت وجود کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ شئے موجود تو ہوتی ہے لیکن دوسروں کے سامنے ظاہری طور پر پیش نہیں کی جا سکتی۔ بھوک ،پیاس ، جذبات و  احساسات  بظاہر چھپا بھی لئے جائیں تو بھی ہر فرد میں مو جو د ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی  شئے کو وجود کہتے وقت  یہ بات نظر انداز نہیں کی  جا سکتی کہ درحقیقت   وجود کا تصور  ایسا ہی ہے کہ جیسا بیان کیا گیا ہے۔اس  میں اشیاء کے ہر چھوٹے سے چھوٹے عنصر   کو  شامل کیا جاتا ہے۔ وجود کے تجزیے کے لئے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کی حیثیت کو مطلق تسلیم کیا جانا چاہئیے۔ کوئی بھی شئے اس کے دائرے سے باہر نہیں۔ اس کے دائرے میں اس کا خا صہ (کیو ڈیٹی) آتا ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے جو بیان کرتا ہے کہ اس کی حقیقت       کیا ہے، یہ کیسے معرض وجود میں آیا؟  وجودخواہ وہ قابل مشاہدہ ،  تخیلاتی ہو یا قابل فہم ہوں عقل و دانش کی کسوٹی پر  اس کاپورا اترنا ضروری ہو تا ہے۔ ۔ابن سینا  کے فارمولے کے تحت جس کا اثر اس عمل میں بہت زیادہ ہے قرون وسطیٰ  کے یورپی فلسفے پر عموماً  کے نزدیک  وجود ایک  شئے  کے  لئے  اس وقت بھی  تسلیم کیا جاتا ہے اگر  اس وجود کی  نیت  ( روح)بھی شامل ہو تو وہ استدلال سے بالواسطہ طور پر ثابت کی جا سکتی ہیں۔

 ابن سینا           کے نزدیک وجود کی بنیاد یا اول، یا اصل یا پہل (ہر وہ شئے  جو کہ تصور کی جاتی ہے) کا           پہلے پہل عموماً غیر متوقع نتیجہ نکلتا ہے۔ ایسے نتیجے کے بارے میں سوچا گیا نہیں ہوتا ۔ ہر وہ شئے  جو ذہن میں  موجود ہویا تصور کی گئی ہو یا ذہنی طور پر اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہو۔ ایسی اشیاء جن کا کوئی وجود نہ ہو، بھی  اہم ہوتی ہیں لیکن انہیں وجود نہیں کہا جا سکتا۔اس سے یہ مراد  تخلیق،عقلی یا قیاسی نہ لی جانی چاہیئے۔   

  ایسی اشیاء جن کا کوئی وجود نہیں در اصل احیا ء ہوتی ہیں جیسے یہ ممکن ہے کہ وہ تخیلاتی اشیا ء کی صورت میں وجود ہوں جو صرف ذہن میں ہی پائی جاتی ہوں۔ ( الًہیات  1, 5, 12-34).۔ ناممکن اشیاء غیر موجود محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ذہن میں ان کا باقاعدہ تصور موجود نہیں ہوتا ۔وہ تخیلاتی  ہوتی  ہیں۔وجودیت میں وجود کا عقلی جواز ہوتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے۔ 

ابن سینا نے یہ  وجود ، روح اور   حقائق تک منطق کے ذریعے رسائی           کےیونانی  اصول خطابت کے نظریے سے لئے۔ ارسطو نے کہا تھا کہ ہم کسی بھی شئے کی حقیقت تک رسائی کے لئے تین طریقے اپناتے ہیں ۔  اس نے         اس کے لئے  اسلوب خطابت      کے اصول  (     Principles  of Rhetoric Mode )  کی اصطلاح استعمال کی۔ اس کے نزدیک  کسی بھی شخص  کو قائل کرنے میں تین  عوامل اہم شمار   ہوتے ہیں ۔ اس سے ہم کسی بھی معاملے کی سچائی تک پہنچ سکتے ہیں جو   قومی مزاج (Ethos) ،  جوش         و ولولہ                              (  Pathos   ) اور             منطق اور استدلال(Logos)     اہم ہیں۔   مزاج  (  ایتھوس ) کا تعلق مقرر  اور سامعین کے کردار سے ہوتا ہے۔ ان کی اہلیت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ کسی منطق کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں۔ مقرر اپنی بات کو صحیح طریقے سے سامعین تک پہنچا  پا رہا ہے یا نہیں ۔مقرر کا  انداز انہیں قابل قبول ہے یا نہیں۔  دوسرا عنصر  جوش و ولولہ ( پیتھوس ) ہے  جس  میں عوام کے ان معاملات پر اہمیت دینا ہے  جو ان کے لئے ناگزیر ہوں۔ ان کے لئے حساس ہوں۔ ان کے لئے لازم یا بہت ضروری ہوں ۔ ان پر زور دے کرعوام کے  جذبات ابھار کر ترغیب دی جا سکتی ہے ۔ ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا اہم ہے۔  تیسرا عنصر اس نے منطق اور دلائل ( لو گوس )   کہا۔ استدلال  سے اپنے نقطہ نظر کو اجاگر کرنا   منطق سے قائل کرنا             ہے۔  یہ تینوں عناصر کسی بھی مظہر میں  اہم ہیں۔

ابن سینا  نے روح کا تصور بھی ارسطو اور دیگر فیلسوف سے لیا۔  عبرانی زبان میں  ہر وہ مخلوق جو سانس لیتی ہے  اس   کے بدن میں ایسی شئے ہے جو اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشتی ہے۔ وہ   براہ راست نظر نہیں آتی لیکن اس وقت تک جسم میں موجود رہتی ہے جب تک سانس کی ڈوری چلتی رہتی ہے۔        اس  کو کئی سو سال بعد  انجیل مقدس میں بیان کیا گیا۔  مسیحی  روح کو خدا کا کلام کہتے ہیں۔ یہ وہ شئے ہے جو استدلال مہیا کرتی ہے۔ ان کا اہم ترین عقیدہتثلیث                                        )(Trinityہے۔ انجیل مقدس میں یہ خدا، خدا کا بیٹا اور خدائی ر وح ہے جو مسائل کا مداوا کرتی ہیں۔  ماہر نفسیات کارل یونگ  کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے  استدلال  کے استعمال کو روح کہتا ہے ہے۔  ابن سینا نے اسے روحانی شعور(Essence)    کہا۔

ابن سینا نے ملحدانہ تصورات کو اسلامی نقطہ میں ڈھالا۔کائنات  کی تشریح کو قرآنی تعلیمات کے زیر اثر لایا۔ن کے ذہین میں یہ تصور جوانی میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔  انہوں نے دلائل سے خدا کی حقیقت  ثابت کی۔ انہوں نے ابتدا ارسطو کے ملحدانہ فلسفے سے لی جو مادہ اور روح  کو دو  مختلف اشیا سمجھتا تھا    اور کہتا تھا                  کہ  وہ  باہمی طور پرکبھی بھی  مل نہیں سکتیں۔دنیا اس کے اس تصور کو تسلیم کرتی تھی۔ابن سینا  نے اس  کے اس فلسفے کو تسلیم نہ کیا اور کہا کہ روح اور جسم مل سکتے ہیں۔ انہوں  نے کائنات کےتشکیل کے عمل کی تفہیم کے  لئے  وجود ( ایگزسٹنس) اور  روحانی حصول  یا روحانی شعور  (  ایسینس)  کی اصطلاحات سے ابتدا کی۔ 

وہ ہر اس شئے کو جو ننگی آنکھ کی مدد سے دیکھی جا سکے اور اس کا احاطہ کیا جا سکے وہ  تکنیکی لحاظ سے وجود (ایگزسٹنس  ) کہلاتی ہے۔ انسان، حیوان، چرند پرند،  نباتات ، آسمان، سورج، چاند ستارے  سب وجود کے دائرے میں آتی ہیں۔ یہ سب اشیا فانی ہیں۔ ان کے فنا ہونے کی مدت ہر وجود کی خاصیت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ چند لمحات سے اربوں سال ان کی عمر ہو سکتی ہے۔ اول الذکر میں حشرات الارض اور مؤخر الذکر میں آسمان، ستارے, سیارے ، زمین  اور فلکیات ,(سپر نووا ) وغیرہ آتے ہیں۔ عمر خواہ جتنی بھی ہو اس نے فنا ہو جانا ہے۔ یہ حادثاتی اور امکانی دنیا ہے جس میں چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ پیدا ہوتی ہیں، نمو پاتی ہیں، تبدیل ہوتی ہیں ، ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔ 

ابن سینا                     کے نزدیک وہ شئے جو وجود رکھتی ہو لیکن براہ راست پرکھی نہ جا سکے  لیکن فرد میں موجود ہو اور صورت حال کے مطابق    مطابقت کے لئے وقوف حاصل کرنے            کا عمل           اگرچہ    مادی  وجود                سے مختلف ہے لیکن وجود کے دائرے میں آتا ہے           اسے اس نے ایسینس کہا  ۔              اس کے لئے دیگر اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں          جو روحانی     حصول  ۔قاموس،                   روحانی شعور ،            الجوہر  ، روح کو حقیقی بنانے کا عمل یا روحانی حقیقت پسندی  وغیرہ   کی اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں روحانی شعور ایک  سانچہ ہے ۔ یہ مومی تختی (            Tabularasa)ہےجس  میں چیزیں بنتی  بگڑتی  ہیں۔ اگر اشیا تباہ  ہو جائیں تو بھی ان کی چھاپ موجود رہتی ہے۔   روح لافانی ہے۔یہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ممکن ہے دوبارہ اس میں کوئی اور  شئے  میں ظاہر ہو۔ اس سانچے میں ایک طرف تو روح ہوتی ہے  اور دوسری طرف مادہ ہے۔ ایک طرف سانچہ  میں  مرئی شئے ہے اور  دوسری طرف          غیر مرئی۔ جب  وہ باہمی ملاپ کرتی ہیں  تو اس وقت مادہ اور روح  کے اختلاط سے نئی شئے  ظاہر ہوتی ہے۔  جو ایک تخلیقی عمل ہے جس کی بدولت پہلی سے موجود اشیا میں اصلاح، ندرت  ، انوکھا پن  یا نئی چیز  جنم لیتی ہے۔

  یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب دو اشیا  (  روح اور مادہ) ہر لحاظ سے مختلف ہیں تو ان میں ادغام کیسے ہو تا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کو آپس میں ملانے والی کوئی اور شئے ہے جس  کو یہ دونوں قبول کرتے ہیں اور اس کے اثر کی بدولت گھل مل جاتے ہیں۔ وہ تیسری شئے جو ان دو مختلف اشیا  پر عمل کر کے کوئی نئی شئے تخلیق کرتی ہے اس کو تکنیکی زبان میں  تبدیلی پیدا کرنے والا رکن یا عامل (  ایجنٹ کاز )  کہا جاتا ہے۔ روح اور مادہ       کے بعد       یہ تیسرا رکن  باہر کا کارکن ہے جس نے نئی شئے بنائی ہے۔ اس تیسرے رکن کی ایک الگ حیثیت  ہے اس کا  براہ راست   روح اور  مادہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ تیسری ہستی               جو  وجود (  ایگزسٹنس ) اور  روحانی شعور ( ایسینس  ) کو آپس میں جوڑتی ہے۔ ان میں ملاپ کر کے نئی شئے اس انداز میں تخلیق کرتی ہے  کہ اس کی  حیثیت  روحانی شعور  اور مادہ سے الگ رہے   اور اپنا وجود مکمل طور پر الگ سے برقرار رکھے  تبدیل کا باعث بننے والا رکن یا عامل (ایجنٹ کاز  )    کہلاتا ہے۔ابن سینا کے نزدیک یہ  عامل اور کوئی نہیں بلکہ  خدا ہے۔یہ خدا کی ذات ہی ہے جس نے الگ الگ وصائف رکھنے والی اشیا  مادہ یعنی ظاہر آنے والی شئے  وجود                   کوروح  میں جوڑکر کائنات تشکیل دی ہے۔            ابن سینا        کے مطابق            روح اور ، وجودکے باہمی اختلاط کی تفہیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان کو فلسفے کی جو شاخ تشریح کرتی ہے ا سے وجودیاتی  ۔وضع   اسلوب(Ontological Modality )  کہتے ہیں ۔ یہ شاخ  وجود یاتی تصور کو تین طریقوں سے ثابت کرتی ہے جو ناممکن ( Impossible )؛ امکانی ( Contigent ) اور واجب الوجودیا  لازمی یا احتیاجی (Necessary)۔

ناممکن        ( امپوسیبل )وہ شئے ہے جس میں ایسی خصوصیت پائی جائے جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

امکانی یا ممکن ( کنٹنجنٹ)  وجود وہ ہے جو ظاہر ہو بھی سکتا ہے اور غائب بھی۔  وہ شئے بن بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ وجود میں آ بھی چکی ہوتی ہے ، آنے والی بھی ہو سکتی ہے اور اس کا ادراک نہیں بھی ہو سکتا۔  ابن سینا  بتاتے ہیں کہ ممکن وجود کی درمیانی حیثیت ہے جسے وجود کی شکل میں لانے کے لئے تیسرے رکن کی مداخلت درکار ہوتی ہے جو ہمیشہ بیرونی طاقت ہی ہوتی ہے۔ جو مادہ اور صورت کو باہمی طور پر ملا کر وجود قائم کرتی ہے۔ امکانات کو حقیقی بناتی ہے۔

کسی شئے، عمل، صورت حال اور مظہر کو پوری طرح جاننے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو پوری طرح جانا جائے۔ اس کے تمام پہلوؤں سے مطالعہ کیا جائے اس کے خواص کا احاطہ کیا جائے۔   مرئی اور غیر مرئی پہلوؤں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔  معلومات       کی روشنی میں   ایک سانچہ قائم کیا جاتا ہے  جو اس مظہر کے لئے اصول وضع کرتا ہے۔ یہ مثالی نمونہ کہلاتا ہے۔ کسی مظہر کی صحت اور جواز  ان طے شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔اگر  وہ سانچے کے مطابق ہوں تو بغیر کسی حیل و حجت اس وضاحت کو تسلیم کر لیا جاتا ہے ورنہ اس تشریح کو رد کر دیا جاتا ہے یا واقعات کے مطابق                اصولوں میں ترمیم و اضافہ کیا جاتا ہے۔  ڈھانچہ جتنا صحیح  بنے گا ، نقل بھی اتنی  کامل ہو گی۔ انسان کتنا ہی احتیاط کیوں نہ کرے شئے کی  شبیہ  بننے میں کچھ نہ کچھ کسر رہ جاتی ہے۔اس لئے  ماہیت  ہو بہو اصل کے مطابق نہیں ہو سکتی اس کی روح تک نہیں پہنچا  جا سکتا۔  ہو سکتا  ہے  کہ شکل اصل کے مطابق ہو لیکن وہ خواص نہ ہوں۔ جیسے پھول تو ہو بہو بن سکتے ہیں لیکن ان کی خوشبو   تصویر میں نہیں لائی جا سکتی۔  اصل وجود کی صاف تفتیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ کسی کے بارے میں نہیں پو چھ سکتی کہ یہ کیا ہے۔

خارجی وجود اور باطنی ذہنی وجود میں امتیاز  (یا وجود مقرون  حالت  میں  انسانوں کی شکل  میں ۔۔۔  ) کے بارے میں  ابن سینا یہ فرض کرتے  ہیں  کہ کوئی شئے کیا ہے اور اس کی  اصلیت کیا ہے۔  ان میں تمیز کرتے ہیں۔ اصول اول کے ذریعے اس وقت واضح طور پر اس بات کا ادراک آسانی  سے نہیں کیا جا سکتا کہ کیا  ہستی کا کوئی وجود ہے۔ کیا ایسی شئے  جو دنیا میں پہلی بار پیش کی گئی ہو، اس لئے  لازماً  وجودیت  کے دائرے میں لائی جائے کیونکہ وہ وجود میں آچکی ہے۔ حقیقت اور تصورمیں تمیز کی جانی چاہئیے ۔ 

الٰہیات  میں ابن سینا  اس نکتے پر بحث کرتے ہیں کہ وجود اور وہ مقام جس کا تعلق اشیاء سے ہے ،کے بارے میں کہا کہ کیا  اول اصول کے تحت اس میں احساس پایا جاتا ہے کہ وہاں ہستی موجود ہے (المحاصل) اور کیا اس کے قائم ہونے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ (المعتبر)۔ دونوں ہی اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ وجود کو اسوقت تک شئے نہیں کہہ سکتے جب تک وہ حقیقی نہ ہوں۔ اور اس بات کی تشریح نہ کر سکیں کہ ہر شئے جو امر شمار ہوتی ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ کیا یہ  موجودہے؟ وغیرہ۔ اس  کے بعد انہوں روح اور وجود میں تفریق  بیان کی۔ انہوں نے  روح  اور وجود میں اس کا اظہار کیا۔

                                                      ( 3.2 رو ح  اور وجود میں امتیاز  

                                                                                           3.2 ) TheDistinction Between Essence and Existence   

 ابن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔  پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کیا شئے  واقعی  مادہ شکل میں پائی جاتی  ہے۔ (الوقد الا عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔  حقیقت یہ ہے کہ اس خوبی کی بنا پر کوئی شئے ہمارے ذہن میں  موجود ہے۔اس کا تصور پایا جاتا ہے۔ کہ  یہ  کیاہے۔؟   کیا اس کو   ُ روح   ُ کہا جا سکتا ہے؟  اول الذکر معنی میں ابن سینا ا سے حقیقت سے جڑا ہوا دیکھتے ہیںجبکہ مؤخر الذکر (روح)  میں کوئی شخص یا تو اس بات کی ضرورت نہیں محسوس نہیں کرتا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی یاکہ نہیں۔ یا پھر وہ  اس سوال کو سرے سے  ہی نظر انداز کر دیتاہے کیونکہ اس کے نزدیک یہ غیر اہم ہے۔ اسے انہوں نے ابو قدالحسن                    کہا۔ پہلے معنوں میں جس میں شئے موجود ہے اور اس کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس کو  انہوں ں نے  ُ   ا لمعتبر ُ کہا۔ اس میں دوسری حس کے ذریعے جوکہ موزوں حس رکھتی ہے وجود کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے  وہ حقییقی ( الحقیقہ)،  فطری ( الطبیعیہ)، روحانی (الدت) کہاجسے ابن سینا  تکنیکی زبان میں خاصہ ( ماہیا  یعنی کیوئی ڈیٹی)کہتے ہیں۔ یہ اس شئے کی حقیقی ہو نے کی علامت  وجودیت ( سعیہ) ہے۔ یہاں وجودسے متعلق  فیصلہ سازی نہیں کی جاتی(کوئی شخص نہیں جانتا کہ کیا کسی شئے کا وجود ہے؟  ُ:  جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی  آفاقی علامت نہیں ہے۔اس میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی کہ نہیں) جو کچھ  دوسروں کے سامنے ہے اس کی حیثیت وجود سے آزاد  ہوتی ہے اور اس کا وجود سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔(الٰہیات   1, 5, 1-9)۔  اس امتیاز کا پس منظر ارسطو کا فلسفہ ما بعد از طبیعیات ہے جس کے تحت  وسیع معنوں میں موخر الذکر  کے تجزیے (پوسٹیریریٹی  انیلسز) سے اس کی جزئیات کا  مطالعہ کیا جا سکتا ہے جہاں ضروری سوال  پوچھا جاتا ہے کہ اگر کوئی  شئے موجود ہے  اور اسکی حیثیت وجود سے الگ ہے تو اسے مابعد از طبعیات کی زبان میں پوچھا جائے گا کہ وہ شئے کیا ہےا ور یہ کہ اس کے اور کون کون سے معانی ہیں۔ ابن سینا ایسی اصطلاحات اور تعقلات استعمال کرتے ہیں جنہیں فلسفے اور اور اسلامی روایات (دونوں) میں استعمال کیا جا سکے۔اس مسئلے پر انہیں احساس ہو ا کہ یہ وضاحت   روح اور وجود کی ترکیب  سے کی جا سکتی ہے۔

 3.3)  The Composition of Essence and Existence

( 3.3 روح اور وجود کا امتزاج  کے اصول

 وجود کا دائرہ کار معلوم کرنے کے لئے ذہنی اور حقیقی خواص دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً روح کا خاصہیا ماہیا  ( کیوڈیٹی)ِ َ  یہ ہے کہ اسے معروضی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے بارے میں شعور اور احساس پایا جاتا ہے اور اسے منطقی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ علم وجودیات میں اس کی قدراس کے خواص کی ترکیب کے لحاظ سےمعلوم کی  جا سکتی ہے۔ان اشیا ء کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں جو تعلق پایا جائے گا  وہ  لازماً صرف تعقلاتی  ہی نہیں بلکہ شئے کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ساخت اور ڈھانچے  کے بارے میں بھی بیان کرتا ہے۔ ان میں امتیاز معلوم کرتا ہے   اور تصدیق  بھی کرتا ہے۔ اس سے عرفان حاصل ہوتا ہے۔ 

یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کسی شئے کی بنیادی روحانی شعور (  ایسینس )  کا مطالعہ سماوی اور غیر مادیت کی بنا پر لیا جانا چاہیئے۔ اسے وجود کی طرح  معروضی نہ لیا جائے۔ روح  علم وجودیات کی وجودیت پر پورا نہیں اترتی۔ ابن سینا نے کہا کہ  روح کی سچائ معیار،   واقعیت اور حقیقت کیا ہے اہم ہیں ان خواص   کی بنا پر دیکھا جانا چاہئیے۔یہ جان کر کہ  شئے کیا ہے۔ اگر تجزیہ کرتے وقت اسکےخاصہ (کیو ڈیٹی) سے اس کے وجود کے بارے میں پتہ  نہیں چلتا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایسا لگے کہ کوئی شئے بذات خود اندرموجود ہے لیکن در حقیقت ایسا نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اندر کوئی شئے موجود نہ ہو لیکن ایسا معلوم ہو کہ وہ موجود ہے۔ یہ تمام معاملات اس شئے کے خاصے ( ایکو ڈیٹی)  اور جزویات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی حاصل ہو گی۔ اس کے بارے میں جو شئے ظاہر ہو یا نہ نظر آئے، وہ اصول واجب الوجود  (نیسیسری پرنسپل) کے تحت ہی رونما ہو گی۔ صرف خالصتاً  وجود  جو اندر اور باہر دونوں سے لازما ثابت ہو اس کو وجود اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے، عدم وجود کہا جائے گا۔ تکنیکی زبان میں اگر تجزیہ کرتے وقت ا س کے اجزا  اور خاصے  کے با رے میں مثبت اشارات موصول ہوں اور یہ جان لیا جائے کہ وہ شئے کیا ہے اور ہر کوئی یہ جان لے کہ وہ کیا شئے ہے، سے ہو سکتا ہے کہ ایک شئے اندر لازماًر مو جود ہو اور اپنے آپ میں ذات رکھتی ہو  تو اس وقت کے وجود کے آگے اور پیچھے کوئی خا صہ نہیں ہوگا  اور موزوں انداز میں اس کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہوئے اسے شئے کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ  شئے  ُضروری اصول  ُ  کے تحت ظاہر ہوئی ہے۔ وہ کسی شرط کے تحت نہیں  اور اس کا وجود نہیں اس لئے اسے روح  تصور کرنا شئے سے ماورا سمجھا جاسکتا ہے۔ اس امتیاز کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لازماًکس شئے کو موجود کہا جائے  جو خالصتا ً موجودہو اور عدم وجود کی تصدیق نہ ہوئی ہو یا  اس کے بارے میں فیصلہ نہ کیا جا سکا ہو،  اس وقت اس شرط پر کہ وہ موجود نہیں ہے اور اس لئے اسے اس کی روح کو تصوراتی شئے سے ماورا سمجھا جاسکتا ہےتو  اس وقت یقیناً ؒ  لازماً وجودی اصول بن جاتا ہے۔

 اس امتیاز کی بنیادی وجہ ہی ہےجب کسی شئے کو اس وقت لازماً  وجود کہا جائے جب  وہ حقیقی طورپر موجود ہوتو اس وقت یہ لازما ً  وجودی اصل بن جاتا ہے۔ ہر اس شئے کا جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا  لازماً (ضروری ہے) اس کا وجود کے ساتھ تعلق ہونا چاہئیے۔ سبب جو کہ اس کو وجود میں تبدیل کرتا ہے ایک سبب جو اس بات کا جواز پیش کرتا ہے کہ وہ درست ہے جس سے وہ پہلے وجود کے ساتھ جہاں پہلے یہ ذمہ داری نہ لگائی گئی ہو ، وہ  شئے   اور ا س کے وجود  کے عزم میں کمی  کی بدولت اسے غیر موجود سے  غیر وجودی قرار دے دیتی ہے۔ یہ کسی  اور شئے کے ساتھ اس طرح متعلق ہو جاتی ہے۔ اس بات کو ٹھیک  انداز میں کہا  جا سکتا ہے کہ جس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ کوئی اور چیز ہے۔  اس لحاظ سے وجود کی عدم دلچسپی کے دوران اتفاقیہ اگر کوئی ربط پیدا ہو تو ممکن ہے کہ ضرورت کے تحت امکانی تعلق پیدا ہو جائے۔

وجودیات میں کسی شئے کے امکانات  یا ضروری ہونے کے منطقی خیالات باہمی مخلوط ہو کر ایک جوڑی بن جاتے ہیں لیکن یہاں ابن سینا کے نزدیک یہ فعل نمائشی اسلوب (موڈل) اس شئے کو برقرار رکھتی ہے جو ان میں ہو بہو خاصے (کویڈیٹی) کی ممکنات  کے بارے میں ہے،  جب کہ وجود لازم  اور ضروری ہے اورجہاں وجود کی تصدیق نہ کی جاسکے اور قیاس آرائیوں پر وجود فرض کر لیا جائے تو وہ خاصہ ہے۔ اگر مسئلے میں  خاص طور پر ڈہنی  وجود کی بنا پر پریشانی پیدا ہو تو اس صورت میں نام نہاد دو صورتیں پائی  جاتی  ہیں۔ َ  جن میں ایک  تو ایسا اصول ہے جس میں ایک شئے کی تخلیق بے سبب ہے اور دوسری میں دنیا کی تخلیق کا سبب ہے۔ اس میں  ُ اصول اول  ُ لازم ہے  اور مطلق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کو ملاتا بھی ہے اور اسکی اپنی وجودیت میں مثبت یا منفی تعلق بھی قائم کرتا ہے۔ جہاں تک دوسرے تمام معاملات میں دوہرے پن کا تعلق ہے  :  ہر شئے میں  اس بات  میں تمیزکی جاتی ہے کہ کسی شئے کی حقیقت کیا ہے؟ روح  کی خارجی حیثیت کیا ہے۔ اس سے موجود حقیقی شئے یا ذہنی طور پر قیاس کیا گیا وجودروح یا اس کی خا صیت (کویڈیٹی)  کا پایا جاناممکن ہے۔ روح اور وجود کو ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ اس کے بر عکس وہ شئے جو کہ بذات خود اندر سے ضروری ہے،  اس کے لئے ایسی ترتیب دینے کی ضرورت نہیں َ (کیونکہ اس میں روح نہیں پائی جاتی )              :  نہ ہی کوئی وجود جیسی شئے پائی جاتی ہے. Something Not Being )) کہا جاتا ہے لیکن صرف وجود  واضح ہے، ضرورت ایک وجود کی تصدیق ہے  (تا اخذالوجود) ۔ امتیاز کا  تصور کی ترتیب اس لئے ایک عین مطابق  الٰہیات کا وظیفہ ہےجو نہ صرف اس بات میں تمیز کرتا ہے ضرورت کے اصول کی ہر شئے سے امتیاز کرتا ہے  (سب سے اختلاف کرتا ہے ماسوائے دوہرے اصول کے۔  الٰہیات(17, 47-49اس  کی وضاحت   ابن سینا نے ذہنی وجود اور خاصہ یا ماہیا  (کیوئی ڈیٹی)  میں کی۔

 

 3.4 ) Quiddity and Mental Existence

(3.4  ذہنی وجود اور خاصہ  

 ا بن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ کسی شئے کا  واقعی وجود  پایا جاتا ہے۔ (الوقد الا عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔پہلے معنوں میں جس میں شئے موجود ہے اور اس کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس کو  انہوں ں نے  ُ   ا لمعتبر ُ کہا۔ اس میں دوسری حس کے ذریعے جو کہ موزوں  حسب قاعدہ طور پر ظاہر کیا جا سکتا ہے۔  یہاں جس چیز کا حوالہ دیا جاتا ہے  وہ حقییقی  ( الحقیقہ)،  فطری  ( الطبیعیہ)  اور روحانی  ( الدت )  ہے جسے ابن سینا  تکنیکی زبان میں  خاصہ  یا ماہیا (  کیو  ڈیٹی ) کہتے ہیں۔ یہ اس شئے کی حقیقی ہو نے کی علامت  وجودیت ( سعیہ)  ہے۔یہاں وجودسےمتعلق  فیصلہ سازی نہیں کی جاتی( کوئی شخص نہیں جانتا کہ کیا کسی شئے کا وجود ہے؟ :  جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے اس پر کوئی   آفاقی علامت نہیں ہے(اس میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ کسی شئے کا وجود ہے بھی کہ نہیں) جو کچھ دوسروں کے سامنے ہے اس کی حیثیت وجود سے آزاد  ہوتا ہے اور اس کا وجود سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ (الٰہیات   1, 5, 1-9)رکھتی ہے  وجود کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔  

تاہم ترتیب جمع کرنے کی  وجہ سے نہیں ہوتی۔ کسی شئے کی اصلیت اور روح کی  اشیاء کا خاصہ جمع کرنا نتیجہ نہیں ۔ ابن سینا نے  بیان کیا کہ وجودکے تجزیہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وجودیت کے دو معانی  ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ کسی شئے کا  واقعی وجود  پایا جاتا ہے۔ ( الوقد الا  عتبار)  جبکہ دوسرا معنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وجود موجود تو ہے لیکن اس کی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ایک شئے اپنی ذہنی موجودگی کی بنا پر ہوتا کہ(حقیقی ) وجود میں اگر ایک بار اس میں اضافہ کیا جائےتو وہ اصلی اور حقیقی شئے بن جائے۔اگر ایسا ہو جائے تو بلا محالہ خاصہ میں بہت زیادہ تقسیم ہو جائے گی جس کی بنا پر کوئی شخص خاصہ کے وجود سے امتیاز کر سکے گا۔ لیکن یہَ بھی وجود سے خاصے کا انتخاب کر سکے گا۔ابن سینا  جیسے کہ وہ بیان کرتے ہیں افلاطونیت کی طرف چلا جائے گا  (الٰہیات  , 4-5,  204)  لیکن یہاں پر ایک مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے: روح  اور وجود کے مابین فرق ظاہری طور پر اس بات کو آگے نہیں بڑھاتا۔ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ روح سادہ انداز میں روح کا ایک وجود نہیں (جس کا مطلق ہونے کوئی تصدیقی بیان نہیں ہے۔

 ابن سینا  خاصہ یا ماہیا  کو شئے اور وجود سے فرق کرتے ہیں (وجود ظاہر ہے  اور قابل مشاہدہ ہے۔ اس کے علاوہ ایسا وجود بھی ہے جسے منطق اور مفروضوں سے ثابت کیا جاتا ہے)اور وجود  نہ تو اپنے ذہنی وجود سے جو کہ اس سے تعلق  رکھتا ہے لیکن نہ تو اپنے ذہنی وجود سے جو کہ اس سے تعلق تو رکھتا ہے  لیکن نہ تو آفاقی ہے اور نہ ہی مقرون حیثیت کا  ( فی العیان) ۔ اس  نقطے پر جس میں انفرادیت کی تقلید ہوتی ہے۔ وہاں دو بنیادی چیزیں ہیں۔ اگر الٰہیات کے مسائل جزویات (VI.-2 )۔ پریشانی والے حصے جس میں ابن سینا  اس بات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ اپنے نام نہاد نظریے کا جس کا نام روح کی سرد مہری ہے۔ جس میں خلاصہ وجود سے  اور نہ ہی اس کے ذہنی وجود سے مطابقت رکھتاہے جو اس کے ساتھ تعلق کے ساتھ تو ہے  لیکن اس میں آفاقی پن نہیں  (فی العیان )  جو کہ انفرادی پن بیان کرتی ہے۔ 

 خاصہ یا ماہیا  (کیوئی ڈیٹی )  بذات خود صرف لب لباب ہوتا ہے۔ یہ ایسی فکرہے جو ابن سینا  خدا کے وجود (قیاس)اور عوام الناس کے وجود  (ثابت کئے جانے ولے وجود)کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہا ں اس شئے کو بیان کیا گیا ہے کہ خاصے کے وجود سے الگ ہو کراپنی  علیحدگی ظاہر کر سکے: ایک ایسا جانوجس پر کوئی دوسری شرط عائد نہیں کی گئی ہوتی ، وہ جانور اپنے خاصےمیں حقیقت ہے جس کاجسم  بھی ہے اور ذہنی وجود بھی۔ اسی طرح سے منطقی سوچ (اعتبار) جو خدا کے وجود اور عمومی وجود کی علیحدگی کا خیال یا تو ذہن میں ( غیرمرئی  یعنی جو نظر نہ آئے ) پیدا ہوتا ہے یا پھر مقرون ( مرئی) دنیا  میں ہوتا ہے۔ان شرائط سے حقائق تک رسائی ہوتی ہے۔ اگر یہ کسی شرط کو تسلیم کرتا ہے تو جانور کسی شرط یا  بغیرشرط کے ( ایسی شرط جو پوری نہ کی جا سکی ہو)  ذہنی سوچ بچار سے مبہم تخیل پیدا ہو جاتاہے۔ ( الٰہیات  (V 1, 203, 15-204)۔ اس خیال کے بعد دانشور یا پھر خاصہ دوبارہ سے اس وقت اس وجود میں پیدا ہوجاتا ہے اور پھر سےمقداری حقیقی) اور امکانی  امور کو فیصلہ کن انداز میں اس کے ساتھ منسلک کردیتا ہے حالانکہ اس وقت اپنے اندر خود میں نہ تو یہ آفاقی ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شئے ہوتی ہے بلکہ صرف خاصہ ہوتی ہے جس میں ایک حصہ لازماً صحیح ہوتا ہے۔ اس وقت جب اسے مقدار ی لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو اس وقت یہ اپنی ذات کے اندر تصور نہیں کی جاتی۔ 

کسی بھی مظہر کو سمجھنے میں فرد کی نیت کو بھی عمل دخل حاصل ہوتا ہے۔ یہ وصف آفاقی ہوتا ہے۔ ذاتی اورپیدائشی ہوتاہے ا سکی بدولت ممکنات کی کسی کثیر پیش بینی کی اور ان مخصوص اشیاء کی  الگ الگ یا ملاپ (حقیقی  یا ذہنی) میں پرکھتا ہے۔ ابن سینا اسے تکنیکی طور پر خاصے کے اس عمل کو جو اس سے مماثلت رکھتا ہے  ُ وصائف   ُ یا  ضروری ( لوازم)کا نام دیتے ہیں۔ خاصے کی حیثیت یہاں آفاقی نہیں بلکہ آفاقی کی طرح کی ہے۔ یہ وصف کچھ ہے، کوئی چیز ہے جس کا الگ شئے سے آفاقی پن جڑا ہوا ہے۔ اس طرح انہوں نے اس تصور میں ترمیم کر دی اور خاصے میں مصالحت پیدا کی۔ 

خاصے میں سرد مہری کسی بھی قسم کے عزم  میں حقیقی معنوں میں اس بات پر زور دیتی ہے کہ حقیقت اور علم میں رابطہ پایا جائے :  یہ بالکل اسی طرح  سے ہے کیونکہ خاصہ بذات خود نہ تو حقیقی( مرئی) ہے اور  نہ ہی ذہنی (غیر مرئی )۔۔۔ بلکہ اضافی ذہنی ہے جو حقیقت میں اور ذہن دونوں میں پایا جاتا ہے تا کہ اس کا انفرادیت اور آفاقیت سے امتیاز کیا جا سکے   : مقرون  حالت میں وہاں ایک مخصوص وجود میں ایک ایکس (X )  ہوتا ہے جبکہ ذہن میں بھی ایک ایکس ( X)  شئے کا تصور پایا جاتا ہے لیکن اس میں ممکنات  کے بارے میں پیش بینی بھی پائی جاتی ہے۔اس صورت حال میں خاصہ اپنی ذات میں غیر مرئی  اشیاء میں غور و فکر کرکے اپنے آپ میں اس شئے سے مطابقت کرلیتا ہے۔ اس طرح ماورائی وجود کی ارضی اور باطنی (دونوں) سطحات ایک سطح پر آکر مساوی ہو جاتی ہیں۔  خاصہ اور حقیقت  اپنی ذات سے  ہمیشہ مماثلت رکھتی ہیں ۔ 

عصری دور میں علماء و مشائخ نے خاصے کی حقیقت  اور وجود کو منطقی طور پر اور علم وجودیاتی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نکتے کو نمایاں کیا  کہ ابن سینا نے خاصے کے عقدے کا حل نکالنے پر خصوصیت کے جوہر کے بارے میں جس طرح کی منطق کہ نیت میں  ُ  ذہنی وجود  ُپایا جاتا ہے۔ واضح طور پر غور وفکر (اعتبار) کے وجود کی کسی قسم کو تسلیم کرکے اسے آفاقی بناتی ہے اور یہ کہ وجود کی ترتیب کو روح کی ترتیب دینے کے عمل کے طور پر نہیں لینا چاہئیے۔اس کے بعد انہوں نے علم موجودات اور علم المظاہر کے ایک طرح سے ایک ہونے کے بارے میں اپنا فلسفہ پیش کیا۔ 

3.5) علم موجودات اور علم المظاہر میں یکتائی

Oneness Ontology and Henology  :  Being and Oneness

 علم موجودات (اونٹالوجی )                   ؒ لاطینی زبان کے دو الفاظ  ُ  اونٹو   ُ اور  ُ لو جیا   ُ سے لیا گیا ہے جس کے معنی وجودیت یا حقیقت کا علم ہے۔اسے طبعی علوم میں بھی استعمال کیا جاتا ہے او ر فلسفے میں بھی۔ طبعی علوم میں یہ معروضی طریقوں سے وجود کی شناخت کرتا ہے جبکہ فلسفے میں یہ کسی شئے کے وجود یا عدم وجودکی شناخت منطق کی رو سے کرتا ہے۔ابن سینا نے کہا  کہ کسی شخص کے چلنے اور      اس کے جوتے  کا آپس میں تعلق پایا جاتا ہے۔ جوتوں کا حقیقی وجود ہے لیکن اس کی چلنے کے ساتھ منطق  کے ذریعے تعلق قائم کیا جائے تو یہ تصور   واضح   ہو جاتا ہے۔اس طرح سے وجودیات  کا علم  فلسفے سے منطق کے ذریعے الحاق پیدا کرتا ہے۔ 

علم مظاہر (ہنالوجی ) کسی عمل میں وجود کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات کے مطالعہ سے ہے۔ اس میں دلائل سے اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ کسی ہستی کے ہونے کے امکانات کتنے ہیں۔ علم المظاہر  میں فلسفیانہ طرز یا  وحدت پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ بنیاد پرست سماوی اور آفاقی تصور ہے۔ ماورائی ہے۔ ما بعد از طبیعیات  کا دائرہ کار وجود سے آگے عقل سے آگے ہے۔علم المظاہر کا تعقل اور اصطلاح  تضاد کئی علوم کی ہے جس کا مرکز وحدت کے ارد گرد گھومتا ہے اس میں وجود کا نقطہ آغازکیا جاتا ہے جیسے کہ ارسطو اور  ابن سینا نے کہا ہے اور کانٹ اور ڈیکارٹ جیسے مفکرین بھی جو عظیم اور سچائی سمجھتے ہیں۔ اس کے مطالعے میں حقیقی، ذہنی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے غوروفکر سے خاصے میں امکانات کے عمل کو بھی کسی مظہر میں منسلک کیا جاتا ہے تاکہ صورت حال کو سمجھنے میں یک سوئی پیدا ہو سکے۔ 

 ابن سینا  اپنے فلسفے میں علم موجودات اور علم امکانات کو مربوط کرکے وجود کے ہونے یا نہ ہونے اور ممکنات کا مطالعہ کیا۔ جس سے موضوع کو بیک وقت کئی  پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ علم موجودات کے وجود اور شئے کی وحدت کے تناظر میں سمجھنےکے لئے اس کی مستقبل میں رو پذیر ہونے یا نہ ہونے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہئیے۔ عصری اور سابقہ تصورات میں ہم آہنگی سے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس سے کسی شئے کے وجود اور مستقبل میں اور امکانات کا صحیح طریقے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں الحاق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ان میں وحدت قائم کی جا سکتی ہے۔ 

 ابن سینا نے کہا کہ وجود ایسی شئے ہے جو وجودیت اور واحدیت سے مختلف ہے۔ وجود خاصہ کے وصف کی بدولت وہ لازمی طور پر ایک حصےکے طور پر اس شئے میں موجود ہوتا ہے۔ وحدانیت کا تعلق سماوی اور آفاقی ہے۔ ارسطو کے لئے  ُ وجود  ُ اور  ُ واحد  ُ (ایک ) دونوں ہم زباں اور ہمہ گیر ہیں جس میں وجود کی خصوصیت اپنے آپ میں خلقی ہے۔ ارسطو نے انہیں امکانی کہا تھا لیکن یہ دونوں معانی میں مشابہہ نہیں ہیں۔ جبکہ ابن سینا کے مطابق وجود اور احد بنیادی طور پر اپنے آپ میں ایک شئے کے مختلف پہلو ہیں اس لئے         وجود اور واحد کے تعقلات ہم زبان ہیں۔اگرچہ ان کے لغوی  معانی مختلف ہیں لیکن موضوع کے لحاظ سے ان میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اس لئے ہے جب کبھی ہم کسی معاملے کے حل کے لئے کوشش کرتے ہیں تو اس وقت موقف میں لچک پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے اس وقت ہمیشہ اصول کو  استثنیٰ  دینا پڑتی ہے ورنہ جمود طاری ہو جاتا ہے۔وجود اور احد کے موضوع ابن سینا نے پر بحث کے دوران اگر ان کے معانی کو سختی سے لیا جائے تو  ان کے ہم معنی اور سماوی ہونے میں تشویش اور فکرلاحق ہو جاتی ہے۔ ایک واحد وجود جو کہ صرف اسوقت اتفاقیہ طور پر واقع ہو تو یہ ایک حادثہ ہے جو مقداری شکل میں پایا جاتا ہے وہ ناقابل تقسیم ہے۔یہ کہا گیا ہے ترجیح میں خصوصی ابہام اور اتار چڑھاؤ نہیں پایا جاتا اور یہاں وجود کے ساتھ ایک ہی وقت دیگر بہت سی اشیاء سے ایک ساتھ موجودگی نہیں پائی جا سکتی ورنہ اتحاد کا تنوع، کثرت سے منفی نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ابن سینا نے جہت اور وجود کے تنازعے پر اپنا فلسفہ پیش کیا۔  

 اصول  وضع اوروجود                یت                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     4) Modality  and  Existence  

ابن سینا نے کائنات کے مظاہر میں جہت (وضع  )اور وجود میں نسبت کا مطالعہ کیا جس کی تفصیل انہوں نے  جہت (وضعیت)اور وجود ؛          امکانات اور احتیاج (ضرورت)               ؛ وجود میں واجب الوجود کا اصول؛ تجزیے کے نتائج اور وجود کی حیثیت اور مقام کی اقسام کے عنوانات کے تحت بیان کیا۔ 

 اپنے افکار اور خیالات کو مختلف طریقوں سےدوسروں تک منتقل کرنے کےعمل کو وضع یا جہت ( مو ڈیلٹی )  کہتے ہیں۔ کسی شئے کے ہونے یا نہ ہونے، امکانات،  ارادہ، خواہش، مرضی، فرائض،ضرورت (احتیاج) اور قابلیت وغیرہ  کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا اظہار سمعی۔ بصری ، حرکی، جلدی اور تحریر و تقریر وغیرہ سے کی جا سکتی ہےجبکہ وجود کا تعلق کسی عمل میں شئےکے ہونے کے ساتھ ہے۔اس موضوع میں ابن سینا نے امکانات اور احتیاج (ضرورت)پر اپنا فلسفہ پیش کیا۔

4.1)        Possibility and Necessity

4.2)       The Existence of Necessity Principle 

4.3)         The Results of the Analysis.

4.4)         The kinds of Status of Existence.

 

   (4,1 امکانات اور واجب الوجود

 4.1)   Possibility and Necessity

 یہ خدا کی ذات  (  ایجنٹ کاز ) ہے جس نے الگ الگ وصائف رکھنے والی اشیا   مادہ، صورت ، وجود، ماہیئت  کو جوڑکر کائنات تشکیل دی ہے۔مادے کا تصور ، مادہ- صورت، وجود اور ماہیات  کے باہمی اختلاط کی تفہیم کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان کو   فلسفے کی جو شاخ تشریح کرتی ہے ا سے  وجودیاتی ۔وضع   ( اونٹولوجیکل  موڈیلیٹی )  کہتے ہیں ۔ یہ شاخ  وجود یاتی تصور کو تین طریقوں سے ثابت کرتی ہے جو درج ذیل ہیں۔

ناممکن ( Impossible)؛ امکانی ( Contingent) اور واجب الوجود  یا  لازمی یا احتیاجی (Necessary

 کسی شئے میں ایسی خصوصیت  جو وجود میں آنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ اس شئے کی پیدائش نہیں ہو سکتی ۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا ۔ اس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دوسرے سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ وہ عدم ہے۔ اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ کسی درجے میں شمار نہیں ہوتی۔

امکانی یا ممکن ( Contingent)  وجود وہ ہے جو ظاہر ہو بھی سکتا ہے اور غائب بھی۔  وہ شئے بن بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ وہ وجود میں آ بھی چکی ہوتی ہے ، آنے والی بھی ہو سکتی ہے اور اس کا ادراک نہیں بھی ہو سکتا۔ ابن سینا  بتاتے ہیں کہ ممکن وجود کی درمیانی حیثیت ہے جسے وجود کی شکل میں لانے کے لئے تیسرے رکن کی مداخلت درکار ہوتی ہے جو ہمیشہ بیرونی طاقت ہی ہوتی ہے۔ جو مادہ اور صورت کو باہمی طور پر ملا کر وجود قائم کرتی ہے۔ امکانات کو حقیقی بناتی ہے۔

   ابن سینا نے وجو د اور سماوی تخلیق میں ممکنات اور ضرورت کے بارے میں اپنا بقطہ نظر پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ وجود اور روح دونوں کا وجود ہے، ان دونوں کو مؤثر طور پر بیان کرنے کیلئے منفرد طریقے استعمال کئے جانے چاہئیں۔نام نہادوجود اور روح کے تصورات ہم معنی نہیں۔ ان میں تفریق اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایک ناگزیر وجود کوبیان کرتے وقت کردار سازی کا طریقہ اپنایا جائے۔ ما بعد از طبیعیات میں ابن  سینا نے اپنے فلسفے کے آغاز  کے بیان  میں اپنے طریقے کی حد بیان کی۔انہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ انہیں اس بات کی پریشانی نہیں کہ روح کس طرح  ظاہر ہوتی ہے  کیونکہ ان کے نزدیک وجود کی شناخت ناقابل بیان ہے لیکن اس کے علاوہ وہ اس طریقے سے متفکر ہیں جس کا تعلق اس ہستی کی اپنے وجودکے ہونے سے ہےجو کہ اپنے آپ اپنی ذات اور خود میں ضروری ہے۔ (دار الواجب) اسلئے ماسوائے اصول اول کےتحت اپنی ہستی اور وجود کے لئےاپنے اندر ہونا ضروری ہے۔یہ امتیازات ظاہر کرتے ہیں کہ باطنی پیچیدہ روابط جو کہ ہستی کی وضاحت کرتے ہیں: نہ صرف ہستی اور شئے کے بنیادی طور پر تصورات میں لیکن وہ بھی جن کا تعلق الحاق کی ضرورت اور۔۔۔ کسی حد تک امکانات پر بھی ہو پر بھی خٰیال کرتے ہیں۔۔۔ اگر ایک طرف ان کا اولین اصول بنیادی خیالات بالآخر اس بات کی طرف جاتا ہے کہ وہ ماورائی اشیاء کی طرف جائےاور اسے ظاہر کرے دوسری طرف وہ دنیا میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وجود ہمیشہ کسی شئے کی ہستی اور پایا جاتا ہے،اس لئے وجودیت کے بارے میں تصورات جو کہ الحاق اور ضرورت ہےاگرچہ اس شئے سےعلیحدہ ہیں تو کبھی بھی اس تعلق سے جس کا وہ وجود ہے ،سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن سینا کہتے ہیں کہ در حقیقت ضروری وجود لازماً ضروری ہستی کے بارے میں جاننا کہ وہ کیا ہےیا  وجود کے لئے کیا یہ ضروری ہے َ؟  (الوجہ الوجود)۔جس شئے کا خیال کیا جاتا ہے وہ باریک بیں خاصہ ہے (ماہیا)  یا روح  ( دت )  کا وجود ہے۔ اس کا دارو مدار وجود کی جہت اور وضع ( موڈیلٹی آف ایگزسٹنس) کا انحصار ہے،  جو در حقیقت وجود پر نہیں ہے۔ (جو کہ ناممکن ہے)لیکن روح کے بارے میں ( اگرچہ اصول کے بارے میں وہاں ایسی کوئی روح نہیں ہے جو کہ اپنے ہی وجود سے مختلف ہو)۔ 

ضرورت ( احتیاج) دوسروں کی بدولت یا اپنے آپ خود میں ہی ایسے طریقے وضع کرتی ہے جن میں ہستی اور وجود واقع ہو۔ اگر کوئی ہستی دوسرے کی وجہ سے ضروری ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ میں ممکن ہے ، میں یہ تعلق ثابت کرتی ہے کہ وجود جس وجہ سے بنا ہے وہ اپنے علاوہ کوئی دوسری شئے ہے۔ یہ تعلق در حقیقت جو ان تعلقات کے ذریعے وجود واضح کرتا ہے۔ اگر کوئی وجود اپنی ہستی میں ضروری ہے تو اس تصور کو واضح کیا جانا چاہئیے، منحصر ہے یا اس کامؤ خر الذکر کے انکار اور نفی کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ممکن ہے ہمیشہ اول الذکر اور ناگزیر طور پر علل یعنی تاثر ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہیں کیوں، جب کہ کس شئے  کا پایا جانا ضروری ہے، میں کسی وجہ کو بیان نہیں کرتا اور اس کے  پاسُ  کیوں ُ  کا  سوال نہیں ہوتا۔ ضروری وجود کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ ان کے مابین تعلقات اس وقت تک ہوتے ہیں جب تک کہ اس کاوجود ہے۔ 

اس کے بعد انہوں نے وجود میں ضرورت کے اصول پربات کی۔

  (4.2  وجود میں واجب الوجود کا اصول

4.2)       The Existence of Necessity Principle 

 

وہ اشیاء  جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنے اندر کوئی ہستی رکھتی ہیں، کے بارے میں یہ قیافہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میںُ ضروری وجود '   نہ ہویا عین ممکن ہے کہ ضروری وجود رکھتی ہو ۔ اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکے (کیونکہ باطنی طور پر ان اشیاء کے ظاہری وجود کا علم ہونا ناممکن ہے اور تجزیے سے باہر ہے۔ اس بنیاد پر ابن سینا  اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی شخص کی استعداد ہی دراصل اسکا ُ ضروری وجود '  ہیں کیونکہ وہ نظر نہیں آتیں اس لئے ان میں  اولین وجود بغیر کسی سبب کے واقع ہوتا ہے اور '              ضروری ' اس وجود کے ادراک کے لئے کوئی وجہ نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ فرد کی ذاتی خصوصیات کی بنا پر اپنے اندر کوئی سبب اور وجود نہ ہو لیکن د وسری شئے جوکہ اس جیسی  نہ ہو لیکن اس کی انفرادیت ور منفردپن کے ساتھ ہو اور اس کی تعریف پر پورا اترتا ہوتو اس کے ساتھ یہ موجود ہو گا اور اسی طرح سے وہ اس بات کا خیا ل کئے بغیر کہ کوئی سبب  یا علل ہے ، پر قبضہ کرکے اس کی جگہ لے لے گا۔ اس وقت وہ ضروری وجود دراصل یا تو دونوں ہی سبب سمجھ لیا جائے گا جو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ایک ہی شئے موجود ہےلیکن دوسری صورت میں اسے مساوی اور ہم مقام نہیں کہا جائے گا۔ایک چیز ممکن ہے اور سبب کا باعث بن سکتی ہے۔ جبکہ دوسری شئے  غیر موجودگی میں بھی  یقینااس کی وجہ بن سکتی ہے۔اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان تعلقات میں جو شکل و صورت اور مادے  میں پائے جاتے ہیں وصائف میں بھی ہوتے ہیں۔ اسلئے ایسے عمل میں سبب اس مشترک وجود کا باعث بنتا ہے۔دراصل دوسرے خواص کا تعلق وجود کی ضرورت سے ہے جو اس کی اپنی ذات میں پائی جاتی ہے             : الحاد اور اتحاد، سادہ انداز میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ  اپنی ذات میں ایسا استقلال پایا جاتا ہے جس میں کسی قسم کا اضافہ نہ کیا جا سکے اور نہ ان میں کوئی تعلق قائم کیا جا سکے بلکہ ان میں منفی صفت پائی جائے۔ مختلف اشیاء جو پیچیدہ ہوں میں بیک وقت بہت سے عوامل کام کر رہے ہو۔  اس لئے جب وہ پہلی شئے سے ملتے ہیں تو ملاپ نہیں ہو پاتا اس بنا پر واحد عمومی دلیل کے ذریعےفرضی ضروری وجود میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ان میں اختلاف صرف اس وقت ہی محسوس کیا جاسکے گا اگر ان میں انوکھی اور منفرد وصف موجود ہو۔ اگر اتفاقی یا حادثاتی خواص کے تحت ان میں تمیز کر بھی لی جائے تو بھی یہ ضروری نہیں کہ ان کا اپنے آپ میں کوئی وجود بھی ہو۔ لیکن اس کو خارجی طور پر مساوی قرار دے کر اشارتا مان لیا جائے گا ۔یہاں یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود حقیقت میں بھی ہو۔ 

  وجود ایک مطلق شئے ہے جو منفرد اور ناقابل تقسیم ہوتی ہے اس لئے اس کے ممکنہ وصائف ا پنی ذات میں ان کے برعکس نتیجہ نکالتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں  اپنا وجود نہیں پایا جاتا بلکہ کسی دوسری شئے کے وجود سے حاصل کرتا ہے۔ کسی ایسے وجود جس میں ایک طرح سے وجود پایا بھی جائے اور نہیں بھی، کی تشریح کے لئے مفروضہ بنانا پڑتا ہے۔ جو ایک سبب کا کردار ادا کرتا ہے جواس مسبب کی وجہ سے د وسرے کے لئے ضروری بن جاتی ہے۔ اس لئے ایسے امکانی سبب کو اتنی اہمیت نہ دینی چاہیئے اور اسے اتنا ضروری  نہ سمجھا جائے بلکہ تعلقات کی نوعیت کسی اور انداز سے معلوم کی جائے تواس وقت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سبب لازمی بن جائے۔ اگر ایسی حالت جس میں مسبب لازمی ہو اور تسلسل پایا جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ ضرورت پڑنے اور اپنی باری آنے پر وہ اہم ہو کر وجود کی شکل اختیا کر لے ۔اگر ایسی صورت بن جائے تواس وقت سبب دیگر اسباب کو بھی نمایاں کر دے گا۔ اس دوران کسی اور وجہ  کی تشریح بھی کرنا پڑے تو وہ  نہ صرف اس تیسری شئے کے لئے بلکہ مزید اشیا ء کے لئے بھی کار آمد ہو سکتا ہے۔ اب ہم تجزئیے کے نتائج کا مطالعہ کرتے ہیں َ۔

 

تجزیے کے نتائج   

 4.3)         The Results of the Analysis.

 خلاصے کے طور پر کہ وجود کے بارے میں تصورات کیا ہیں  پر بحث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ                  :

 1) وجود اور ضرورت کا یک دوسرے سے تعلق پایا جاتا ہے ہر ایک وجودخواہ وہ تنہائی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سےضروری ہووہ آپس میں اتفاقیہ طور پر واقع ہوتے کر ملاپ کرتے ہیں۔ 

2) اگر اسی شرح لزوم کی وجہ سے ' وجودی                ُ ۔ ا س کی عموماً دو طرح سے درجہ بندی کرکے واضح کیا جاسکتاہے کہ یا تو اسے اپنے انداز میں اپنے تعلقات کے علاوہ کسی دوسری شئے کے ساتھ تعلق رکھتا  ہے۔اس میں اس کی اپنی ذات اہم ہےاو ریا پھر دوسروں سے تعلق قائم کرنےکے لئے وسرے  پر انحصار کرے۔ اس صورت میں دوسروں کی زیادہ ہو جائے گی۔ 

3) اگر اپنی خود مختاری، آزادی ختم کر کے دوسروںپر انحصا ر کیا جائے تو اس سے ضرورت اور وجودمیں تعلق قائم  توہو جاتا ہے لیکن ایسے ربط میں غیر ضرور ی پن ہوتا ہے۔

   اس عمل میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہر وہ شئے جو کہ بذات خود ضروری ہو، کو عین ممکن ہے کہ وجود اور غیر موجود دونوں کو (کسی اور شئے )سے لازم نہ سمجھا جائے اور وجود بغیر کسی وجہ کے پیدا ہو جائے۔ ایسے امکانات جو شئے کو با لآخر اسباب و علل کے حساب سے ثابت کرتی ہے۔ اس بات پر قائم رہتی ہیں کہ ضرورت کے بغیر وجہ کے واقع نہیں ہوتی۔ اس طرح بالآخر ہمیں ضرورت اور مطلق کی طرف لے جاتی ہیں۔

 

 4.4 )وجود کی حیثیت اور مقام کی اقسام

4.4)   The kinds of Status of Existence

ابن سینا نے ہستی اور وجود کی اہمیت بیان کرنے کے لئے اس کی اقسام بیان کیں۔انہیں وجودی حادثات ، ترجیحی ، کمزوراور، امکانی درجات میں شامل کیا۔ کسی مظہر میں ہستی معلوم کرنے کے عمل میں وجو د کی صورتحا ل اور حیثیت کا مطالعہ کیا  جاتا ہے۔ ابن سینا نے وجود کو ضرورت اور امکانات کے علاوہ اضافی طور پر باقاعدہ  وجودی  ' حادثات' شما رکیا۔ایک طرف تو ترجیحی اور مؤخرالذکر اور گہری اور دوسری طرف کمزور عزا ئم  اپنی باری آنے پر واسطہ بناتے ہیں۔  

 علم وجودیات (انٹالوجی) اور علم محوریات (ایگزیالوجی) ہستی کو بہتر طور پر سمجھنے میں اہم ہیں۔ یہ دونوں علوم آزاد و خود مختار ہیں۔ اس بات کا جاننا اہم ہے کہ کون سی شئے ضروری ہے۔ وجودیا ت  کا تعلق ہستی کے ہونے کے ساتھ جبکہ علم محوریات  میں امکانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ممکن کا انحصار  '  سبب  ُ           پرہے کیونکہ یہ اس کی خود مختاری میں نہیں پائی جاتی۔ وجود میں  ضرورت پہلے آتی ہے اور             ُ ممکن ' بعد میں آتا ہے اور ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔اس درجے میں ضرورت مند، کمزو اور ناقص ہے۔ اگر کس وجود میں سبب پایا جائے تو ضرورت  '   کثیر                 ُ  نہیں ہوتی کیونکہ وہ ہر شئے سے الگ اور آزاد ہے، جبکہ ُ ممکن  ' کمزور         ہے۔ وہ کسی سبب کے بغیرہے۔ نظری نکتے سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ 

 وجود کی حیثیت  کے تعین میں عزائم  اور محرک کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ فوری طور پر ایسے اسباب و علل کے تعلق کو بیان کرتی ہیں جس کی یا تو پہلے نفی کی گئی ہو (کمزور یا مضبوط اور کثیر ضرورت کی بدولت)  یا اس کی تصدیق کی گئی ہو(کہ بعد میں کیا آتا ہے)۔ دوسرے معنوں میں ابن سینا ان محرکات کوُ وجود کی حیثیت کی اقسام میں اہم شمار کرتے ہیں۔ 

 ابن سینا ُ وجود کی قسم ُ  وہ وجود جس میں ضرورت لازماً پائی جاتی ہے(مثلاً جس کا وجود ہے) یا  لازماً بغیر سبب اور وجود کی قسم کے (جس سے مراد ایسی اشیاء جن کا وجود امکانی ہے) لازماً وجہ بنتی ہیں۔ در حقیقت ' اولین اصول '  کے تحت اور اس جگہ یا دنیا میں  جہاں وہ حقیقی اہمیت ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے پاس یا تو مطلق یا اضافی نسبت اہم ہے جس کے نتیجے میں ثانوی وجہ کا تعلق بن جاتا ہے۔ ایسے محرکات اضافی ہیں تا کہ سبب کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اثر کی بدولت یہ ضروری ہوئے ہیں۔ اس دوران اگر ان  کا تعلق ' مطلق ' ہو جاتا ہے  ( اس صورت میں اگر وہ اول اصول کا حوالہ دیں تو اس صورت میں وہ  'مطلق'  ہو جائے گا  اوراس صورت میں بذات خود کی کثرت َ سے۔سبب لازم شمار کیا جائے گا ۔ ابن سینا اس کے بعد علت و معلول اور کائنات کا ذکر کرتے ہیں۔

اگلی قسط میں ہم ابن سینا کے فلسفہ کائنات اور اسباب و علل  کے بارے میں جانیں گے۔

 

 

 

 

Popular posts from this blog