منظرسراہی (Admiring Scenery) Sean O' Faolin (1900 - 1991) Ireland

 






منظر سراہی

Admiring Scenery

Sean O' Faolin  (1900 - 1991) 

Ireland

پیشکار و تجزیہ :   غلام محی الدین

 

تین مسافر ایک چھوٹے سے ریلوے سٹیشن پر کھڑے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ ٹرین آنے میں وقت تھا۔ وہ وقت گزاری کے لئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان کے حلئے، گفتگو کے انداز اور جسمانی تاثرات سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دوست ہیں یا ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہیں۔پہلا شخص جو باقی دو سے زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا، ایک اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ باتیں کرتے و قت کبھی کبھار اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی جو بعض اوقات طنزیہ تاثر دیتی اور کبھی اداسی کا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک پائپ نکالا اور پلیٹ فارم کے باہر بہتے ہوئے جھرنے کو دیکھا۔ کافی سردی پڑ رہی تھی اس لئے اس نے اپنا کالر اونچا کر رکھا تھا۔ اس نے پائپ سے تمباکو سلگایا اور پینے لگا، اس کا نام رچرڈ ( Richard ) تھا۔

 

اس کے بائیں طرف ایک دبلا پتلا شخص کھڑا تھا۔ اس نے اپنے کندھے پر ایک بھاری کینوس بیگ اٹھایا ہوا تھا۔ اس کا رنگ گندمی تھا۔  بوٹاقد، سر چھوٹا اور تاؤ دینے والی مونچھیں تھیں۔ وہ زیادہ تر تماشائی لگتا تھا۔ دونوں کی باتیں سنتا رہتا لیکن کبھی کبھار وہ بیچ میں ٹوک بھی دیتا تھا۔جب وہ بولتا تو وہ مکے ہوا میں لہراتا یاپھر پلیٹ فارم کی ریلنگ پر مارتا۔ پلیٹ فارم پر کھڑا تھا اس کا نام ہنا فن  ( Hanafan ) تھا۔ جب وہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے دلائل دیتا تو اس کا چہرہ فاختہ کی طرح کا ہو جاتااور چہرے پرسلوٹیں پڑ جاتی تھیں جو جھریوں کا تاثر دیتی تھیں۔ اُس کا منہ پتلا اور چہرے پر سرد مہری کی کیفیت تھی۔

 

تیسرا شخص جو دائیں جانب تھا اس کا نام گوورنی ( Governey)  تھا۔ اس نوجوان کا قد درمیانہ تھا۔ اس کی آنکھیں تھکی تھکی سی لگ رہی  تھیں۔  وہ اپنی عمر کی مناسبت سے موٹا تھا۔ سکڑے ہوئے ہونٹ تھے۔ چہرہ اتنا سرخ و سپید تھا کہ اسے بلڈ پریشر ہونے کا گمان ہونے لگتا تھا۔ اس نے سیاہ کوٹ اور ہیٹ پہنا ہوا تھا جس نے اس کے آدھے ماتھے کو چھپایا ہوا تھا۔

 

یہ تینوں دوست تھے اور ایک کیتھولک کالج میں پڑھاتے تھے۔ تینوں ایک ہی گاؤں   ُ  نیوٹن   ُ سے آتے تھے اور  ڈبلن  ( Dublin ) کالج میں پڑھانے جاتے تھے جو ایک چھوٹ سا شہر تھا۔ اس کا ریلوے سٹیشن بہت چھوٹا تھا جہاں بہت کم ٹرینیں رکتی تھیں۔ شام گئے آخری ٹرین جاتی تھی اور اس کے بعد والی ٹرین صبح کو آتی تھی۔

 

ان تینوں نے  صبح  اکٹھے  کام پر جانا اور واپسی پر اکٹھے ہی آنا ہو تا تھا۔ وہ کالج سے چھٹی کرکے آئے تھے اور اپنے گاؤں واپس جانا چاہتے تھے جو چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ آخری ٹرین اگر چھوٹ جاتی تو رات کوپیدل سفر کرنا بہت خطرناک تھا کیونکہ رستے تاریک اور پیچ دارتھے۔ جگہ جگہ پہاڑاور گھنے جنگل تھے جن میں جانوروں اورسانپوں کی بہتات تھی۔

 

 یہ علاقہ بہت خوب صورت تھا۔ قدرتی مناظر دل لبھاتے تھے۔ آس پاس پہاڑ، جھرنے، گہری جھاڑیاں اور درخت تھے۔ سردی کی وجہ سے اگرچہ سوکھے ہوئے تھے لیکن برف باری ہر شئے کو روپہلی کر رہی تھی۔ ہر موسم کا اپنا لطف ہوتا ہے۔ان میں ْقدر مشترک یہ تھی کہ وہ  صاحب ذوق تھے۔ فطری نظاروں سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ہر موسم اورہر وقت جہاں کہیں خوبصورتی نظر آتی وہ اس میں کھو جاتے تھے۔ وہ اپنے ملک آئر لینڈ کے بارے میں حساس تھے۔ ان کے نزدیک روسیوں اور گوروں نے ان پر بے حد ظلم ڈھائے تھے۔ ان کے ملک کو جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا تھا۔ پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں کھڑے وہ کسی ایسے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے جو مشترکہ دلچسپی کا باعث تھا۔ کوئی ا س کے حق میں اور کوئی اس کی مخا لفت کر رہا تھا۔

دن ڈھلنے کو تھااور ہوا میں خنکی تھی۔پرندے چہچہا رہے تھے یا ایسا سمجھیں کہ گانے کا ریاض کر رہے تھے۔ ایک پرندہ تال لگا تاتو  ہمنوا  الاپ

لگاتے، پھر رک جاتے اور پھر گانے لگتے۔ اتنے میں ایک پرندہ شوخی سے قلابازیاں کھاتا ہوا ان کے پاس گرا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ گلوکاروں کا تمسخر اڑا رہا ہواور کہہ رہا ہو کہ اگر گانا نہیں آتا تو نہ گائیں کون سی مجبوری ہے؟ 

 

تینوں اس موسم اور نظارے کو دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ سٹیشن  کے باہر پہاڑوں کا سلسلہ تھا۔  ا ن پر جگہ جگہ جھاڑیاں تھیں جو سردی سے سوکھ گئی تھیں۔ پہاڑوں سے جھرنے بہہ رہے تھے جو جنت کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ ڈھلتے سورج کی  تھکی ماندی شعائیں برف سے ڈھکے پہاڑوں پر سنہری کرنیں بکھیر رہی تھیں۔ وہ اس خوبصورتی میں کھوئے ہوئے تھے۔ اس اپنی روحوں میں جذب کر رہے تھے کہ انہیں ٹرین   ۔  اس کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ لیٹ نہ ہو۔ وہ دن بھر کام کرکے تھکے ہوتے تھے اور وقت پر گھر پہنچنا چاہتے تھے۔   آرام کرنا چاہتے تھے اور دوسرا اگلے روز کے لیکچر کی تیاری کرنا چاہتے تھے۔ انتظار کرتے کرتے ان پر کوفت طاری ہونے لگی۔

 لگتا ہے کہ آج ہم بہت دیر سے گھر پہنچیں گے۔  رچڑ ڈ بولا۔

 ایسا درماندہ درگاہ، دھتکارا ہوا لعنتی سٹیشن گاؤں سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر کیوں بنایا گیا؟ میرے خدا یہ کیاملک ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ظالموں نے کیا سلوک کر دیا ہے؟ہنا فن نے سٹیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔

گورنی(Governey)  نے کہا کہ یہ اس لئے بنا ہے کہ ہمیں منزل مقصود تک پہنچائے۔ یہ بات سن کر رچرڈ زیر لب مسکرا دیا۔

میں جانتا ہوں کہ یہ سٹیشن کسی روسی بادشاہ کے کسی انجینئر کی کرتوت لگتی ہے۔ وہ یہاں آکر انڈر سیکرٹری بن گیا ہوگا اور ہم سے بدلہ لینے کیلئے یہاں بنا دیا ہوگا  ہنافن بولا 

یا یہ کسی ایسے گدھے جرنیل کا کام ہے جو بعد میں ہمارا حکمران بنا۔ اس نے ہی آئرلینڈ کی آزادی چھینی ہوگی اور سکاٹ لینڈ کو اس سے الگ کر دیا ہوگا۔ اس نے اس سٹیشن کو ہماری اذیت کے لئے بنایا ہوگا حالانکہ وہ اسے ہمارے گاؤں میں بھی بنا سکتا تھا۔رچرڈ نے تبصرہ کیاَ۔

 ان کو کیا  اندازہ کہ کن علاقوں کے لوگ سہولیات کے زیادہ مستحق ہیں۔ ان کا کوئی یار بیلی یہاں رہتا ہوگا  اس لئے اسے نسبتاً بڑے سٹیشن کا درجہ دے دیا۔ ویسے بھی  فوجیوں اور عام لوگوں میں لطیف حس کی کمی پائی جاتی ہے۔گوورنی نے رائے دی۔

میرا بھی یہی خیال ہے ان کے نزدیک فطری نظارے اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ بے حس ہوتے ہیں اور مادی اشیاء میں کھو گئے ہیں۔ ان کی اس عادت سے میں بہت فکر مند ہو جاتا ہوں، ہنافن بولا۔

یہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ گوورنی نے کہا۔

یہ بات جو تم نے کی ہے میرے ذہن میں پہلے سے ہی موجود تھی۔لوگ اس پر بات تو کرتے ہیں لیکن فطرت کا مطالعہ نہیں کرتے۔ ہنافن بولا۔

یقینا یہ موضوع اب زدِ عام ہے۔ رچرڈ نے ہاں میں ہاں ملائی۔

تمہیں کیسے معلو م ہوا؟  ہنافن نے ریلنگ پر مکہ مارتے ہوئے اپنے سر کو اوپر نیچے، ادھر اُدھر اس انداز میں پوچھا جیسے کہ وہ کسی پرندے سے سوال پوچھ رہا ہو۔

انہیں نظاروں کی اہمیت کا علم تو ہے لیکن وہ عملی نہیں ہیں اور ان کی پرواہ نہیں کرتے۔ رچرڈ بولا۔

 

ہنافن نے رچرڈ کے چہرے کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا،  میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ میں کئی ایسے لوگوں سے مل چکا ہوں جو فطرت کو سمجھتے تو ہیں لیکن وہ صحیح طور پر اظہار نہیں کرسکتے۔ ان میں ہمارا مالی   ُ مرفی  ُ بھی شامل ہے۔ وہ بڈھا کھوسٹ ہے اور میں جب بھی اس سے پوچھتا ہوں کہ تم کیسے ہو؟  تو وہ جواب میں کہتا ہے۔بہت عمدہ دن ہے، خدا ہم پر رحم کرے، کیا زندگی ایک نعمت نہیں ہے؟ کیا تم ایسا سمجھتے ہو کہ اس کا یہ جواب فطرت کی تعریف میں نہیں آتا؟  مجھے یاد ہے کہ جب وہ ٹھنڈی شام اس جگہ بیٹھتا ہے تو اسے بہت سکون ملتا ہے۔ اُس کی اِس بات کی تشریح کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ بھی قدرتی نظاروں کو اہم شمار کرتا ہے لیکن اس کو بیان کرنا نہیں آتا۔

خیر! یہ تو کسی حد تک قدرت کی تعریف ہے لیکن یہاں جو میکا نکی زندگی بن گئی ہے، لوگ اخلاقی اقدار چھوڑ کر مادے کے پجاری بن گئے ہیں۔ روپیہ پیسہ کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ایسے مادیت پرست لوگوں کو ہم ان لوگوں میں شامل نہیں کر سکتے جو فطری نظاروں کو پسند

کرتے ہیں،  ہنافن بولا۔ 

رچرڈ نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ براہِ راست مشاہدہ یا بالواسطہ حسن کو پسند کرنا فطری نظاروں میں آتا ہے لیکن مادیت پرست ایسا نہیں کرتے۔

ہنافن کو یکدم کوئی بات یاد آگئی اور وہ بے حد مضطرب ہو گیا۔

گوورنی کیا بات ہے؟  تم افسردہ کیوں ہوگئے؟

مجھے ایک واقعہ یاد آگیا تھا جو میرے ضمیر کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ میں تم دونوں کو ایک کہانی سناتا ہوں جو ایک ایسے سٹیشن ماسٹر سے متعلق ہے جو ڈبلن سٹیشن پر چند سال پہلے تک تعینات تھا۔ وہ سٹیشن ماسٹرپچپن ساٹھ کا ہوگا۔ اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔ اس کی بیٹی اسے چھوڑ گئی تھی  اور جاکر راہبہ بن گئی تھی جبکہ اس کا بیٹا اسے چھوڑکر نیویارک چلا گیا تھااور ٹینس کا کھلاڑی بن گیا۔ہنافن اپنی بات ابھی یہاں تک ہی بیان کی تھی کہ پورٹر  روشنیاں جلانے آگیا۔

 رچرڈ نے پوچھا کیا ٹرین آج پھر لیٹ ہے؟  

پورٹر بولا نہیں۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر ہے اور پندرہ بیس منٹ بعد سٹیشن پر آکر رکے گی۔

 

ہنافن نے اپنی بات جاری رکھی۔ اس سٹیشن ماسٹر کا نام بوہن تھا۔ اس کو گانے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر محفل میں شرکت کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ وہ مذہبی مقامات پر جاتا اور بڑی عقیدت سے اونچی آواز میں مذہبی گیت گاتا۔ وہ نجی اور سماجی تقاریب میں فلمی گانے گاتا۔ کسی بھی جگہ سب سے پہلے سیمینار پہنچتا اور سب سے آخر نکلتا۔ اس کی آواز میں مٹھاس نہیں تھی اور نہ ہی سروں کو اچھی طرح سے گا پاتا تھا لیکن پھر بھی اس کا جوش دیدنی تھا۔اس نے سٹیشن ماسٹر کے گانے کی  مزاحیہانداز میں نقل اتار ی کہ سب کو ہنسی آگئی۔

 

ہنافن نے بات جاری رکھی۔ اس دوران حکومت نے ڈبلن میں ایک ٹی وی سٹیشن قائم کر دیا۔ وہ اس پر بہت خوش ہوا کہ اب اسے گانے کا موقع ٹی وی پر ملے گااور وہملک بھر میں مشہور ہو جائے گا۔ مسافر اس کی آواز سن کر اور اس کی شکل دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ افسران، ڈائریکٹر اور اہم شخصیات نیوٹن سٹیشن پر آکر اس سے مل کر اس کا آٹو گراف لیں گی اور اس کی تعریف کریں گی۔ اخبارات میں اس کے انٹرویو اور اس کے بارے میں آرٹیکل چھپیں گے۔ وہ میوزیکل کنسرٹ بھی کیاکرے گا۔ دولت کی ریل پیل بھی ہو جائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ   ُ  سر  ُ  میں نہیں تھا۔ اس کی آواز کی کوالٹی اچھی نہیں تھی۔ اسے ریڈیو اور ٹی وی پر گلوکاری کا چانس نہ مل سکا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ اسکی ڈیوٹی سٹیشن پر رات کو ہوتی تھی۔ وہ ہر ٹرین کو سبز جھنڈی دکھاتا تو وہ چلتی تھی۔ وہ ہر ٹرین کے آنے پر جھومتے ہوئے پلیٹ فارم پر ایک سرے سے د وسرے سرے تک گاتا جاتا۔ مسافر اسکو پہچاننے لگ گئے۔ اس کی تعریف کرنے لگے۔ جب وہ اس سٹیشن پر رکتے تو اسے دیکھنے کی کوشش کرتے تو وہ نہایت انکساری سے کہتا کہ یہ صرف اس کا شوق ہے جو اسے گانے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اسے پیشے کے طور پر اپنا نا نہیں چاہتا۔

 

ہنافن نے کہانی جاری رکھی۔ دسمبر کی ایک یخ بستہ شام کو رچرڈ اور میں اس اسٹیشن پر آخری ٹرین پکڑنے کا انتظار کر رہے تھے کہ ہم وقت پر گھر پہنچ جائیں۔ شدید برفباری ہو رہی تھی۔ ہر سو سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ ہر طرف مکمل سکوت تھا۔ بادل چھٹنے لگے تھے۔ شدید تیز ہوائیں، بجلی کی تاروں کو ہلا رہی تھیں لیکن وہ خطرناک ہر گز نہیں تھیں۔ اِن تیز ہواؤں کو دیکھ کر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا۔ لہک لہک کر گاتے ہوئے ہمارے پاس آیا۔ ہنافن یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اُس کی آنکھیں ڈیلوں سے باہر نکل آئیں اور اس پر وحشت طاری ہونے لگی۔ اُس نے رچرڈ کی طرف دیکھا جس نے اپنی نظریں جھکائی ہوئی تھیں اور ہونٹ ایسے بند تھے جیسے کہ سی لئے گئے ہوں۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے اُس بات کا احساس ہو گیا تھا جو ہنافن بتانے جا رہا تھا  اور جسے بتانے میں اس کو خلش تھی اور اسکے ضمیر کو چبھن ہورہی تھی۔

گوورنی نے اسے چپ دیکھ کر اسے کہانی پوری کرنے کے لئے پوچھاکیا یہ بات کافی عرصہ پہلے کی ہے؟

ہاں!  رچرڈ اور میں اس سردی میں کھڑے تھے۔ ہمارے دانت بج رہے تھے۔ شدید ہوا چل رہی تھی۔ طوفانی برفباری شروع ہوگئی تھی۔  بادل تیزی سے اڑ رہے تھے۔ اس بدترین موسم کو دیکھ کر سٹیشن ماسٹربوہن  (Boyhan)  باہر آیا۔  لہک لہک کر گاتے ہوئے ہمارے پاس آیا اور ہمیں اپنے ساتھ کمرے میں لے گیاجہاں آگ روشن تھی۔ ہم آگ سینکنے لگے جس سے ہماری سردی کم ہوگئی۔

کیا وہاں تمہارے علاوہ کوئی خاتون بھی تھی؟  گوورنی نے پوچھا۔

نہیں!  ہنافن بولا، وہاں ہم بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ اس نے اپنے پرس سے ایک فوٹو نکالاجو  اس کی بیٹی کا تھااور وہ اسے چھوڑ کر راہبہبن گئی تھی۔

اب وہ مرچکی ہے۔۔ اسے میں نے ہی راہبہ بنایا تھا۔  رچرڈ بولا۔

سٹیشن ماسٹربوہن نے پرس سے ایک اور فوٹو نکالا۔۔ اس میں ایک لڑکا ٹینس کا ریکٹ لئے کھڑا تھا۔یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ بھی مجھے چھوڑ کر امریکہ چلا گیا ہے۔ میری بیوی بھی مر چکی ہے۔ اُس کے بعد وہ افسر دہ ہوگیا اور غمگین گانے گانے لگا۔  ایک کے بعد ایک اُس نے ڈھیروں گانے سنائے۔ وہ ایک گانے میں محو تھا کہ ٹرین کے ہارن کی آواز آئی جو ٹریک پر تیزی سے آرہی تھی۔  پٹڑی پر اس کی روشنی جگ مگ کرنے لگی۔ وہ اٹھا اور بھاگتے ہوئے لہک لہک کر گاتے ہوئے ٹرین کے ڈبوں کی طرف چلا گیا۔ اس وقت ڈبوں سے بہت سے مسافروں کے چہرے نمودار ہوئے اور اس کے گانے کی تعریف کرنے لگے۔ وہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر مزید پر جوش ہو کر گانے لگا۔

 

ہم ٹرین کی طرف بھاگے۔ ہم ڈبے پر سوار ہونے لگے تو ہمیں یاد آیا کہ ہم نے تو ٹکٹ ہی نہیں خریدے تھے۔ ہم نیچے اترے اور اسے اشارہ کیا کہ ٹرین کو جانے نہ دے لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ اس نے ہر ی جھنڈی دکھا دی اور وہ چلی گئی۔ ہم پلیٹ فارم پر ہی کھڑے رہ گئے۔ سٹیشن ماسٹر جھک جھک کرمسافروں کی داد کا جواب دے رہا تھا۔ٹرین چھوٹ چکی تھی۔ اب اس کا مطلب تھا کہ ہم کو رات سٹیشن پر ہی گزارنا ہوگی۔ میں نے اسے شکائت کہ ٹرین کو کیوں نہ روکا۔ ہم نے ٹکٹیں لینی تھیں۔

کسی کی غلطی کی خاطر میں دوسروں کا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ بوہن نے جواب دیا۔

 

اتنے میں ان کی ٹرین کی وسل سنائی دی تو وہ پرانی کہانی سے باہر آئے اور پلیٹ فارم پرچڑھنے کے لئے تیار ہوگئے۔ ٹرین آکر رک گئی اور وہ تینوں سوار ہو گئے۔میں بھی ان کے ساتھ سوار ہو گیا اور کہانی کا انجام جاننے کی کوشش کی۔ وہ تینوں دوست ڈبے میں سوار ہوئے تو وہاں ایک سواری پہلے سے موجود تھی۔ ٹرین چل پڑی۔  ٹرین کی دھمک آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی۔  ہنافن ایک طرف کونے میں کھڑا ہو کر زارو قطار رونے لگا۔ کچھ بھی نہ بولا

 

بھئی تمہاری ٹرین چھوٹنے، قدرتی نظاروں اور تمہارے رکنے اور اس کے مرنے کا کوئی تعلق سمجھ نہیں آیا۔ اگرچہ مجھے اس کے مرنے کا سن کر

 بے حد افسوس ہے۔گوورنی نے کہا۔

 

رچرڈ نے اسکی بات سن کر نگاہیں اوپر کیں لیکن کچھ نہ بولا۔ بس چپ چاپ ہنافن کو دیکھتا رہا۔اسے شائد اندازہ تھا کہ سٹیشن ماسٹر کو کیا ہوا تھا۔

گوورنی نے پہلے رچرڈ اور پھرہنافن کو غصے سے دیکھا کہ اس احمق نے کون سی کہانی سنائی ہے جس کا سر ہے نہ پیر۔۔۔ ٹرین فراٹے بھرتی ہوئی جا رہی تھی۔ گوورنی نے تہیہ کر لیا کہ ان دونوں سے اصل بات اگلوا کے رہے گا کہ اس رات کیا ہوا؟باہر تیز بارش ہو رہی تھی۔ موٹے موٹے قطرے کھڑکیوں پر پڑ رہے تھے۔ ہنافن گھٹی گھٹی آواز میں مسلسل رو رہا تھا۔ اس کو ہچکیاں آنا شروع ہوگئی تھی۔اس کی  حالت غیر دیکھ کر سب خاموش ہو گئے۔

 

فنانن سٹیشن ماسٹر کی فوتگی پر کیوں غمزدہ تھا۔ کیوں کسی احساس جرم کا  شکار تھا، معلوم نہیں ہو سکا کیونکہ نیوٹن کا سٹیشن آچکا تھا۔وہ تینوں اتر کر اپنی اپنی راہ ہو لئے اور اس کے بعد کبھی موقع نہ ملا کہ میں اس موضوع پر میں ان کی گفتگو سن سکوں۔ہنافن کا راز راز ہی رہا کہ سٹیشن ماسٹر کی موت کا اس سے کیا تعلق تھا۔

 

تجزیہ

 

فاؤلین  ایک رومان انگیز مصنف ہے جس کی تحریر اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ اس میں موتی پروئے ہو تے ہیں۔افسانہ نگاری میں شاعرانہ نثر نگاری ملتی ہے۔  اشخاص کی عکس بندی  بڑی عمدگی سے کی گئی ہے ( سنجیدہ آنکھوں میں طنزیہ چمک۔ ناٹا قد، سر چوٹٓ، تاؤ دار مونچھیں، سکڑے ہونٹ وغیرہ)۔

 

وہ فطرت کا عاشق ہے۔ ہر پیرے میں نیا انکشاف ہو تا ہے جن میں ایسی زبان ستعمال کی جاتی ہے جو کہ شاعرانہ ہو۔ اس کی تحریر شگفتہ، دلکش اور زبان تدبرانہ ہوتی ہے۔ تعقل کیا ہے۔ علم بیاں کیسا ہے، محاورات کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ ہیجانات اور جذبات کو موسمی رنگوں سے پیش کرنا اس کی نثر نگاری کو جلا بخشتا ہے۔ رنگوں کو احساسات  سے جوڑتا ہے۔اس کا ہدف نفسیاتی اور ذہنی ہے۔ اخلاقیات اور سماجی گروہ اور اعمال، سیاسی قوت کو طبعی اور جسمانی قوت کے طور پر لیتا ہے۔

 

موت اور زندگی، واقعات کے نجی ربات،  روشنی (گرم جوشی)، اندھیرا (سرد مہری)۔ معاشرتی مرکزیت، وقت اور مقام کو ملاتا ہے۔ بناتا ہے۔ اس کے بنیادی تصورات (بادل، برف، پالا، ٹھنڈ، برف کے تودے، بارش، آندھی، گھن گرج، بجلی کوندنا وغیرہ۔)ہیں۔ثانوی موسم میں موسم کی تشریح کرتا ہے۔ روشنی، چاند کی تابانی، کھلا صاف شفاف آسمان، چھاوئں کو معاشرتی چھاؤ ں کو پیش کرتا ہے۔ موسم سرما، بہار، گرمی، خزاں،کو کیفیتی اور کمیتی انداز میں بیان کرتا ہے۔دیہی، شہری، زمان و مکان کی تقسیم، فطرت کے ساتھ تعلق بیان کرتا ہے۔ اس کے بیان میں تجریدی صلاحیت ہے۔ وہ آشکار اشیاء کواشیاء کو علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (پہاذوں پر سفید چادر،  تھکی ماندی سنہری کرنیں)جبکہ دراصل وہ مخفی اور علامتی ہوتی ہے۔ (ُپرندوں کا الاپ،   شوخ پرندے کی قلا بازیاں، گلوکاروں کا تمسخر۔۔۔)

 

 اس کے افسانوں میں خامی یہ نوٹ کی گئی ہے کہ کہانی کے پلاٹ، مقامات کی تفصیل اور کرداروں کے افعال میں عموماً مطابقت نظر نہیں آتی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ منظر کی بے حد خوبصورتی سے شاعرانہ انداز میں تعریف کی گئی ہے لیکن انجام کا  کہانی کے پلٹ سے کوئی ربط نہیں پایا جاتا۔ قاری ڈھونڈتا ہی رہ جاتا ہے کہ کہانی کا مقصد کیا تھا اور فنا نن کیوں احساس گناہ کا شکا ر ہوا اور اصل وجہ کیا تھی جس نے اسے زود حس بنا دیا۔نتیجہ نہ نکلنے کے باعث یہ کہانی بیکار محسوس ہوتی ہے۔

 

ایک قیاس کیا جاتا ہے کہ اس رات سٹیشن ماسٹر کو وہ زبردستی نظاروں کے لئے سفید چادر سے اٹے پہاڑوں پڑ لے گیا جہاں اسے حادثہ پیش آیا  جس سے وہ معذور ہو گیا اور سسک کر مر گیا۔ ہنافن اس کی موت کا خود کو ذمہ دار سمجھتا تھا۔

 

 

Sean O' Faolin (1900 - 1991)

 Ireland

 

        شان او فاؤلین    (  Sean O' Faolin )  کارک شہر  ( Cork City  )  آئرلینڈ میں  1900   میں پیدا ہوا۔  پیدائش کے وقت اس کا نام جان این ویلیم  ( John Franks Whelam )  تھا۔  اس نے ابتدائی تعلیم کورک کے ایک ثانوی تعلیمی ادارے سے حاصل کی۔  اسے تمثیل نگاری میں دلچسپی اپنے (Daniel Corkery)  ایک استاد کی وجہ سے ہوئی جو ڈرامہ سوسائٹی کا انچارج تھا۔  اس کے بعد وہ کورک یورنیورسٹی میں داخل ہو گیا اور آئرش سوسائٹی میں رضا کارانہ خدمات سر انجام دینے لگا۔  اس نے آئرلینڈ کو برطانیہ سے آزاد کرانے کی جنگ میں بھرپور شرکت کی۔  اس نے ایم اے آئرلینڈ نیشنل یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے کیا۔

اس نے1920میں لکھنا شروع کیا اور ساٹھ سالہ ادبی زندگی میں 90کہانیاں لکھیں۔  اس نے یونیورٹی میں پڑھاناشروع کیا جہاں اس نے دو کتابیں لکھیں۔

 Mid Summer Night Madness (1932)  جو آئرلینڈ کی جنگ آزادی کے تجربات سے متعلق تھی۔  دوسرا ناول   A Nest of Simple Folk   (1931)لکھا۔  اس کی دیگر اہم تصانیف میں سوانعمریاں، ناول

٭     Bird Alone (1936)                  ٭     A New Irelard (1930)

٭     The Talking Trees                  ٭     Come Back to Erin (1941)

٭     The Man who invented Sin (1948)         ٭     And Again? (1979)

 اسے Master of Short Storyکہا جاتا ہے۔  شان او فاؤلین (Sean O' Faolin)اس کا قلمی نام تھا۔  وہ  1991میں ڈبلن آئرلینڈ میں فوت ہوا۔  مختصر کہانی   Admiring Scenery  اس کے منتخب کہانیوں کے مجموعے سے لی گئی ہے۔

Popular posts from this blog