Hear Me Winner short film (2019) by Kevin M Turner


   عالمی ادب

 

 مجھے سنو

Hear Me

کیوین این ٹرنر( عالمی انعام یافتہ )

Kevin N  Turner

 

مترجم و تجزیہ : غلام  محی الدین


ستمبر

 'اگر  کوئی انہونی شئے  تمہاری  سوچ کو زد پذیر کرکے  برا بنائے اور   غصہ دلائے  تو ایسے خیالات سے چھٹکارا پانا  مشکل ہے لیکن  اگر یہتفکر  کسی اضطراب کی وجہ سے ہے تو اسے  شعور میں  لایا جاسکتا ہے۔اگر اس کا اظہار  نکتے کے عین مطابق   اونچی آواز میں کیا جائے تو مثبت  نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔

کینیڈی  بلائیتھ جو انتخابی گونگے پن کا شکار ہے ، اپنی اس خامی کو دور کرنے کے  اس   وڈیو کو  بار بار  دیکھتی  اور  حفظ نشین کرتی ہے۔ اس نے یہ سبق انٹرنیٹ سے سیکھا تھا۔اس کی مشق کا یہ پہلا دن تھا ۔یہ مشق چار ماہ تک چلنی تھی ۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اسے کسی اچھی یونیورسٹی میں فل وظیفہ ملے۔وہ دن رات محنت کررہی تھی تاکہ اس کے ایس۔اے۔ٹی اور دیگر ٹیسٹوں میں اعلیٰ نمبر آئیں۔

جنوری

کینیڈی بلائیتھ   داخلہ ٹیسٹ  دے رہی ہے ۔اس کے نتائج کی بنا پر اس کی قسمت  کا فیصلہ ہونا تھا۔'

ممتحن اسے اطلاع دیتی ہے کہ وہ  دس منٹ میں جانے والے ہیں ۔کیا  وہ تیار ہے  ؟ اس نے تمام  امتحانات میں  اوّل  پوزیشن حاصل کی ہوتی ہے  اور وہ مکمل  وظیفے کی مستحق ہوتی ہے۔

وہ  فارم لینے جاتی ہے تو  ذمہ دار سٹاف اس سے سوالات کرتاہے لیکن  لیکن کینیڈی اس کا کوئی جواب نہیں دیتی کہ تم نے انے اچھے نمبر کیسے لئے۔جب سے آئی ہو تم ایک لفظ بھی نہیں بولی۔تمہیں پوری کلاس میں بٹھایا گیا ا لیکن تم وہاں بھی  نہ بول سکی ۔

کینیڈی بلائیتھ   تمام امتحانات میں اوّل آتی ہوتی ہے اور اس نے وہ نتائج  اپنے کمرے کے نوٹس بورڈ پر چسپاں کئے ہوتے ہیں ۔فل سکالر شپ کے لئے اسے انٹر ویو بورڈ کے سامنے پیش ہو کر پاس ہونے کی ضرورت تھی ۔اگر وہ کامیاب ہوگئی تو جس یونیورسٹی میں بھی چاہیئے، وہ مفت تعلیم حاصل کر سکتی  تھی ۔ اسے ڈسپلن  کے تحت  لوگوں کے سامنے پیش آنے اور گفتگو کرنے میں  بہت زیادہ  مشکلات پیش آتی ہیں ۔وہ انٹر نیٹ پر ایسا مواد تلاش کرتی ہے جو اسے انٹرویو پاس کرنے میں مدد دے۔وہ انٹرویو میں پوچھے گئے  سوالات اور جوابات کی تیاری کرتی ہے۔

 کینیڈی  بلیتھ  کو ونسٹن ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں گریجوایشن کے فل سکالرشپ کے انٹرویو کے لئے بلایا گیاہےجو صرف کسی ایک سٹوڈنٹ کو دیا جانا ہے اور وہ اپنی مرضی کی یونیورسٹی میں مفت تعلیم حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ انٹرویو میں پاس ہو۔

کینیڈی اس پر پر یشان ہے ۔وہ تھیٹر اور عوامی گفتگو پر تحقیق کرتی ہے۔ایک جگہ اسے ایک ایسا ادارہ نظر آتا ہے جو بارہ ہفتوں کاکورس کرا کر امیدواروں کو انٹرویو  دینے کی  تربیت دیتا ہے ۔

'تم کس لئے آئی ہو؟

لڑکی نے بولے بغیر اپنے انٹرویو کا خط آگے  کر دیا۔

'میرا خیال ہے کہ تم کینیڈی بلائتھ  ہو، ایک خاتون نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

'میں میگھم ہوں'وہ اسے لے کر کلاس میں چلی جاتی ہے۔

' گڈ ایوننگ کلاس۔ کلاس شروع کرنے سے پہلے ایک دوسرے کا تعارف ہو جائے ،سب اپنا اپنا نام بتائیں  گے  اور   اس کلاس میں آنے کے احساسات  پر کچھ بولیں گے۔

میرا نام جولی ہےاور مجھے  یہ کلاس جوائن کرنے میں خوشی ہو رہی ہے ۔

میں فرینک ہوں اور مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔اس پر پوری جماعت ہنس پڑتی ہے ' میں وینڈی ہوں اور جو کچھ یہاں ہورہا ہے ،کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتی ۔'

'مجھے افسوس ہے وینڈی ، میگھم نے کہا۔ٹینر ، اب تم  کیوں کچھ نہیں کہتے ۔'

' میں ٹینر ہوں  اور تم سب جانتے ہو کہ مجھ پر کچھ ایسی واردات ہورہی ہیں جو بہت جوش دلانے والی ہیں۔

'شکریہ ٹینر۔ اس نے کینیڈی  بلائتھ سے کہا تو وہ کچھ نہ بولی۔ آج کی پڑھائی ختم ہونے کے بعد  میں تم سے کچھ بات کرنا چاہوں گی۔وہ کلاس کے بعد میگھم کے کمرے میں چلی جاتی ہے۔

 میں  نے  تمام عرصے  یہ مشاہدہ کیا ہے کہ تم  نے  ایک لفظ بھی نہیں بولا۔میں  یہ جاننا اچاہوں گی  کہ اگر تم نے اپنی زباندانی بہتر نہیں کرنی اور تم نے بات چیت میں حصہ نہیں لینا تو  تم نےاس  تھیٹر کلاس  میں  داخلہ  کیوں لیا؟ جس میں اسے انٹرویو دینے کا کہا گیا تھا۔ کینیڈی  بلائتھ نے ونسٹن ایجوکیشن فاؤنڈیشن کینیڈی بلائیتھ  نے  وظیفے کی پیشکش کا خط اس کے سامنے رکھ دیا ۔

میگھم نے اسے پڑھا تو بہت خوش ہوئی اور اسے مبارکباد دی ۔'کیا میں تم سےکچھ  ذاتی سوالات کرسکتی ہوں'؟

اس نے سر کی جنبش سے کہا،'ہاں۔'

'کیا تم بول سکتی ہو؟'میگھم نے پوچھا۔ کینیڈی نے ہاں میں سر ہلایا۔

'کیا تم صرف اپنے پسندیدہ   لوگوں   سے ہروقت  اور عام حالات میں نارمل   گفتگو کر سکتی ہو؟'۔۔۔کینیڈی نے منفی میں جواب  دیا۔

'کیا تمہیں  ہمیشہ سے بولنے میں ہمیشہ دقت ہوتی  تھی؟'

کینیڈی  بلائتھ نے منفی میں سر ہلایا۔

'تمہارا یہ مسئلہ کب شروع ہوا۔؟  کینیڈی نے بولنے کی کوشش کی مگر بول نہ سکی تو میگھم نے کہا ،' رہنے دو۔ تمہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ کیا تم ہر ہفتے کی شب  کلاس ختم ہونے کے بعد ٹھہر سکتی ہو تاکہ ہم آمنے سامنے اکیلے میں تمہاری زباندانی پر گفتگو کرسکیں ۔

ہفتے کی کلاس کے بعد وہ میگھم کے کمرے میں چلی  جاتی ہے۔کیا تم چند معاملات پر جو میں تم سے پوچھوں    غور کرکے  جواب دے سکتی ہو؟' کینیڈ'ی  بلائتھ  نے سر ہلا کر ہاں کہا۔

'کیا تم ہمیشہ سے بول نہیں سکتی تھی؟'

نہیں'۔'

'تو پھر تمہارے ساتھ یہ مسئلہ کب شروع ہوا؟'

کینیڈی  نے بولنا چاہا لیکن بول نہ پائی، اس پر میگھم نے کہا۔ 'اوکے۔ کوئی بات نہیں ، رہنے دو۔۔۔

کینیڈی میرا خیال ہے  میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔لیکن  اس کے لئے تمہیں مجھ سے مکمل تعاون  درکار ہوگا۔۔کیا تم ایسا کرسکتی ہو؟ کینیڈی نے ہاں میں سر ہلایا۔

کینیڈی گھر آکر لیٹتے ہوئے سوچتی ہے تو اسے ایک واقعد یاد آتا ہے جب  اس کی  رضاعی والدہ اسے خبردار کرتی ہے'کچھ بھی ہو تم  اس کمرے سے باہر نہیں نکلو گی  اور ہمیشہ کے لئے  اس کمرے میں بند رہوگی اور باہر سے تالہ لگا کر چلی جایا کرتی تھی ۔یہ سلسلہ سالہاسال تک چلتا رہا۔ وہ خوفزدہ ہو کر سہمی ہوئی بند کمرے میں اکیلی پڑی رہتی ۔ اگلی  صبح کینیڈی بلائیتھ   اپنے کورس پر جاتی ہے۔

'کینیڈی !میں نے تمہاری مدد کے بہت سے طریقے سوچے ہیں ،مجھے قوی امید ہے کہ  تم ان سیشنوں کے درمیان گفتگو کرنے کے قابل ہو جاؤ گی۔۔۔میں تمہارے لئے ایک نوٹ بک لائی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اس میں روزنامچہ  لکھا کرو۔جو کچھ تمہارے ذہن میں آتا ہے ، جو سوالات پیدا ہوتے ہیں یاماضی کے جو واقعات تمہیں یاد آتے ہیں ،اس میں لکھو۔اس کے لئے تمہیں مشق کی ضرورت ہو گی ۔ ہوسکتا ہے کہ تم اسے اہم نہ سمجھو ، مگر تمہاری امداد کے لئے  یہ  لکھنا  انتہائی  ضروری  ہے۔اس سے تمہاری کھوئی ہوئی آواز واپس مل جائے گی۔ اس سے تمہیں تمہارا انٹرویو تیار کرنےمیں مدد ملے گی ۔'

'میں  کس شئے کے بارے میں سوچوںَ؟            '              کینیڈی نے فلیش کارڈ پر لکھ کر پوچھا۔

'تم ان چیزوں کے بارے میں  جو تمہارےلئے اہم ہیں یا ایسے واقعات جو تمہیں متاثر کرتے ہیں، کے بارے میں لکھو گی ۔کیا تم ایسا کر پاؤ گی؟'

'ہاں،؛ اس نے لکھ کر کہا۔

'گفتگو میں اہم ترین بات   اعتماد سے سامنے والے کی  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ہے۔ یہ طریقہ بولے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔کیا تم اپنی نظریں مجھ سے ملا سکتی ہو؟'۔ کینیڈی ایسا نہ کر سکی۔

'کوئی بات نہیں۔ کچھ لوگ ایسا براہ راست نہیں کرسکتے  یا انہیں  ایسا کرنے میں دقت ہوتی ہے ۔۔۔ایسا کرتے ہیں کہ ہم  یہ عمل آہستہ  آہستہ شروع کرتے ہیں۔۔۔ہم ابلاغ کا آغاز ایسے کرتے ہیں کہ تم میری آنکھوں کی بجائے  میری ٹھوڈی کی طرف دیکھو۔اس کے بعد میرے ہونٹ دیکھو، بولتے وقت وہ جس طرح حرکت کر رہے ہیں ، دیکھو۔'۔۔۔کینیڈی ایسا کرتی ہے ۔

'شاباش۔۔۔ اب میری آنکھوں میں دیکھو۔'۔۔کینیڈی ہمت جٹا کر ایسا کرتی ہے تو میگھم بہت خوش ہوتی ہے اور اسے شاباش دیتی ہے۔'یہ صحیح ہے۔تمہیں  ان حرکات کی آئینے کے سامنے  یا کلاس میں  کچھ لمحوں کے لئے  ایسا کر نا چاہیئے؟'کینیڈی نے ایسا کیا۔ وہ گھر آئی ت میگھم کی ہدایات کے مطابق و ڈائری کھول کر سوچنے لگی کہ کیا لکھے۔اسے اپنا بچپن یاد آیا جس میں وہ والدہ کے ساتھ بیٹھی  تھی لیکن وہ کچھ نہ لکھ سکی ۔

اگلے  روز وہ سکول گئی تو میگھم نے کہا کہ  آج ہم   کلاس میں سائیکو ڈرامہ کریں گے ۔ اس بات کی مشق کریں گے کہ گفتگو کے بغیر  تم اپنے خاندان کی کیسے نقل کرتی ہو اور بتاؤ گی کہ  وہ روز مرہ زندگی میں کیسا رویہ رکھتے ہیں۔۔۔بات کئے بغیر اداکاری کے ذریعے بتاؤ کہ  تمہارے لئے تمہارا خاندان کس قدر اہم ہے۔ماں ،باپ ، بہن بھائی اور دیگر افراد کے بارے میں ایکٹنگ کرکے  بتاؤ کہ وہ کیا کرتے  ہیں ان کا عام حالات میں برتاؤ کیسا ہوتا ہے۔ تم اپنے ساتھیوں  کو اپنے خاندان کے  ہر رکن کا کوئی کردار سونپوتاکہ ہم تمہارے خاندان کے بارے میں جان سکیں۔۔۔'

ایک لڑکی  گھٹنوں پر جھک کر اس کا ہاتھ تھامتی ہے، اس کے جواب میں کینیڈی بلائتھ   شرما جاتی ہے ،تو وہ لڑکی اپنے بازو وا کرکے داد وصول کرتی ہے۔

میگھم کہتی ہے ۔۔۔'جاری رکھو'۔۔۔کینیڈی  ہچکچاتے ہوئے  آگے بڑھتی ہے اور لڑکی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگتی ہے۔(ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک بچی اپنی والدہ کے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔'

'کینیڈی ! میں نے آج دیکھا کہ تم دوسروں سے  بخوبی نظریں ملا رہی تھیں ، یہ مشکل کام تھا لیکن تم

نے  یقیناً بڑی بہادری  سے مکمل کیا۔ یہ  دیکھ کر میں متاثر ہو گئی ہوں۔ اس پر مشق جاری رکھو ۔ انٹرویو میں یہ تمہاری مدد کرے گا۔'

'شکریہ' ۔ کینیڈی لکھ کر لکھتی ہے۔

'کینیڈی ! اس ہفتے تم نے  جو روز نامچہ لکھا کیا اسے اپنی کلاس کے سامنے پڑھنا پسند کرو گی؟'

'میں نے کوئی روزنامچہ نہیں لکھا۔'کینیڈی نے لکھ کر بتایا۔

'اوہ !۔ تمہیں حوصلہ نہیں  ہارنا  چاہیئے۔ ایسا کرو کہ آج کےدن تم نے جو کام کئے ، وہ لکھو،تمہارا دن کیسا رہا۔تم نے کلاس میں کیا سیکھا۔کلاس میں کسی سے کیا بات ہوئی یا تمہیں نجی  باتیں یا ماضی کا کچھ یاد آیا ہو تو لکھ دینا۔۔۔اب میں تمہارے انٹرویو کی تیاری پر بات کرتی ہوں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے  انٹرویو دینے کا  دوسرا  مرحلہ کس پوزیشن اورطرز ( پوسچر) سے ہے ۔جب ہ کوئی انٹرویو  کے لئے بیٹھے تو  اسے  اس وقت تمہیں بالکل سیدھا بیٹھنا چاہیئے۔ کمر کرسی کی  پشت پر ہونی چاہیئے               اورٹھوڈی سیدھی ہونی چاہیئے۔تم جب اس پوزیشن میں ہوگی تو تم انٹرویو کے لئے تیار ہو۔خود کو آرام دہ حالت میں رکھو۔چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ  لاؤ  اور اس کی اچھی طرح مشق کرو۔' وہ ایسا کرتی ہے۔ اپنا روزنامچہ لکھنے لگتی ہے تو اسے سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھے۔

اپریل

میں اب تمہیں وہ شئے بتانے جارہی ہوں جس میں شائد تمہیں دلچسپی ہو گی جو تمہیں انٹرویو سے ایک ہفتہ پہلے کرنی ہوگی۔وہ اسے کمپیوٹر  ٹیبلٹ دیتی ہےاور کہتی ہے کہ یہ  تختہ سیاہ کی نسبت زیادہ مفید  ہوگا۔اس پر لکھو۔وہ ٹرائی کرتی ہے۔

'میرا خیال ہے کہ یہ ذریعہ بات چیت کے لئے بولنے سے زیادہ کارآمد رہے گا۔۔۔تمہارا روزنامچہ کیسا جا رہا ہے؟'

'نہیں لکھا جاسکا۔'

'ہاں! یہ مشکل ہے لیکن  میں تمہاری اس وقت تک مدد نہیں کرسکتی جب تک کہ تم خود  کوشش  نہ کرو۔۔۔تمہارے دماغ اور منہ کے درمیان  ایک رکاوٹ ہے جو تمہیں بولنے اور روزنامچہ لکھنے نہیں دیتی ۔تمہیں اپنی قوت ارادی سے اسےدور کرنا ہوگالیکن اس کے لئے تمہیں کوشش کرنا ہوگی۔۔۔ میں نے تمہاری رپورٹ پڑھی ہے۔یہ ایک معجزہ ہے کہ  نامساعد حالات کے باوجود تم اعلیٰ کارکردگی دکھا رہی ہواور ان  حالات پر تم خود کو مسلسل  مولد  الزام ٹھہرا نا بند کرو۔تمہیں اس کے لئے پہلا قدم اٹھانا ہو گا۔۔۔تاہم میں تمہیں انٹرویو کے لئے چندمشقی سوالات دیتی ہوں ، تم انہیں یاد کرو۔۔۔مجھے اپنی  عمدہ ترین خوبیوں کے بارے میں بتاؤ۔وہ بار بار ایسے سوالات کرتی ہے جس کے جوابات مختصر ہوتے ہیں ۔وہ انہیں ازبر کرا دیتی ہے۔اگلے دن اس کا انٹرویو ہوتا ہے۔

تم جانتی ہو کہ ونسٹن ایجوکیشن فاؤنڈیشن  تمہارے سکول سے ایک  سٹوڈنٹ کو وظیفہ دینےجارہی ہے

  ۔   چیئر مین اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ، تم یہاں اس لئے آئی ہو کیونکہ تمہارا تعلیمی ریکارڈ اعلیٰ  ترین ہے اورتم ہر امتحان میں اؤّل آئی ہو۔ مجھے امید ہے کہ میں تمہیں وقتاً فوقتاً ملتا رہوں گا۔۔۔اب تمہارے  بارے میں اضافی سوالات کرنے کی بجائے ہم تمہارا انٹرویو شروع کرتے ہیں۔۔۔کیا تم تیار ہو۔

کینیڈی نے سر ہلا کر ہاں کہا۔

' تمہارا نام کیا ہے؟۔۔۔خاموشی۔۔۔۔اپنا نام بتاؤ؟َ۔۔۔۔خاموشی ۔۔۔براہ کرم اپنا نام بتاؤ۔۔۔ کینیڈی بولنے کی کوشش کرتی ہے لیکن بول نہیں پاتی ۔

'تم  ونسٹن ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بارے میں کیا جانتی ہو ۔۔۔تم اپنا تعارف کراؤ، اپنی پانچ  خوبیوں اور پانچ  کمزوریوں کے بارے میں بتاؤ۔۔ تم آزادی سے سب کچھ کہہ سکتی ہو۔۔۔وہ خاموشی سے سب سنتی رہتی ہے۔  اور کوئی جواب نہیں دیتی۔ انٹرویو کے چاروں اراکین اس کی خاموشی پر حیران تھے ۔۔۔براہ کرم کچھ تو کہو۔۔۔اگر تم ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دو گی تو ہمیں اپنی کاروائی جاری رکھنا پڑے گی۔۔۔کینیڈی نے روزنامچہ ان کے آگے رکھ دیا۔

کچھ عرصہ بعد اسے ییل یونیورسٹی سے ایک خط  وصول ہواجس میں اسے وظیفے کے ساتھ داخلے کی  منظوری دے دی گئی۔ کینیڈی بلیتھ  اس پر حیران رہ گئی۔بورڈ نے اس کے امتحانات کے نتائج پر اسے  وظیفہ دے دیا تھا۔

کینیڈی نے روزنامچہ لکھنا  شروع کیا۔ اس نے لکھا ' میں  اپنی بہترین کارکردگی کو ان لوگوں  تک جو اسے سن  سکتے اور بول نہیں سکتے ،کے نام کرتی ہوں ۔یہ ایک  آرام دہ لیکن ظالمانہ ساتھی ہے جو میرا عمر بھر کا ا ساتھی ہےاور  ہر مصیبت سے بچاتا ہے۔مجھے کامیابیاں دلاتا ہے۔مجھے غصہ کرنے سے  روکتا ہے۔ میرا  کوئی دوست ہی نہیں جس سے میں ناراض  ہو سکوں۔لیکن سب سے  بری  بات یہ ہے کہ  گونگے پن کی بدولت  میں اظہار رائے نہیں کر سکتی۔اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتی ۔میں نہیں بول سکتی میں اسے مس کرتی ہوں۔ میں  اس ہمت کو محسوس نہ کرسکی  جس نے مجھے اس سکول میں داخلہ دلوایا۔میں اپنے  اس غصے کو  سمجھ نہ پائی جو میرے رضاعی والدین   نے بدسلوکی کی  اور مجھے کمرے میں بند کرکے باہر سے تالہ لگا دیا کرتے تھے۔ میں  نے اس  ہمدردی کو بھی  بھی  نظرانداز  کیا جو فخر سے میرے  چہرے پر اس وقت ظاہر ہوئی جب میں     قابلیت کے امتحانات  (ایس اے ٹی )میں نمایاں کامیاب ہوئی ۔میں اس گرفت کو یاد  کرتی ہوں جو تم مجھے اس وقت جب میں بچی تھی اور اپنے بستر پر سوتی تھی اور مجھے ڈراؤنے خواب آیا کرتے تھے،  میں خود کو دلاسہ دیتی تھی۔مجھے وہ  گھٹیا نیکلس  یادکرکے بھی کراہت آتی ہے جو میں  پہنتی تھی جس سے میری گردن  پر نیل پڑ گئے تھے۔میں  آتش دان کے پاس  پڑھائی کرتے ہوئے  سبق دہراتے وقت ناخنوں کی پالش  کرتے ہوئے کندھے میں درد سے کراہنے کو  بھی یاد کرتی ہوں۔میں اس اذیت  کو بھی  بھول نہیں سکی جب  میرا دل ٹوٹا۔ان تمام باتوں سے بالا تر میں سب سے زیادہ تمہاری  محبت کو بھلا نہیں پائی   جو میرے  گونگے ہونے کے باوجودمیں جانتی تھی کہ میرے خیر خواہ  مجھے سن سکتے تھے۔

کینیڈی بلائتھ نے ییل یونیورسٹی میں  رجسٹریشن  کروا لی ۔اس کی کلاسیں  شروع ہوئیں  تو وہ ناشتے کے لئے کنٹین  میں گئی  جہاں سٹوڈنٹس  پر شور ماحول میں  گپ شپ کررہے تھے ۔اس کے بعد وہ کلاس میں چلی جاتی ہے ۔اس کا پہلا دن اور پہلا پیریڈ  ہے۔

'ایسا لگتا ہے کہ میری شہرت مجھ سے پہلے پہنچ گئی ہے۔ٹیچر ہنستے ہوئے کہتا ہے۔دن مبارک ہو۔میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ دن کی شروواد بری خبر سے ہو لیکن جیسا کہ تم  سب جانتے ہو کہ ہماری یونیورسٹی میں داخلے  مکمل ہو چکے ہیں۔سٹوڈنٹس کی ایک لمبی لسٹ  اس انتظار میں ہے کہ کوئی جگہ خالی ہو تو اس کا داخلہ ہو۔تاہم کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ اگر کوئی سٹوڈنٹ  جس نے خود کو رجسٹر کیا ہوا ہے ، آج غیر حاضر ہے ، اسےیونیورسٹی سے باہر کر  دیا جائے گا۔ کلاس میں  حاضر ہونا  آج سے پہلے اتنا ضروری نہ تھا ۔ٹیچر حاضری لینے لگتا ہے ۔الکا ،  ۔۔۔حاضر ؛عاشر۔۔۔حاضر۔۔۔؛ ،بلائیتھ  ۔۔۔وہ چپ رہتی ہے ،بول نہیں سکتی ۔۔۔بلائتھ ۔۔۔۔کینیڈی کی بیوی  کیا حاضر ہے؟ استاد اونچی آواز میں بولتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ غیر حاضر ہے اور کسی دوسرے سٹوڈنٹ کو اس کی جگہ داخل کرلیا جائے گا۔۔'ہاں ، کینیڈی   بلائتھ کے منہ سے بڑی مشکل سے ادا ہو جاتا ہے۔

تجزیہ

'میری  سنو'( ہیئر می)ایک نوجوان  لڑکی  کینیڈی بلائیتھ سے متعلق افسانہ ہے جو  ایسے ماحول میں بول نہیں سکتی جہاں اجنبیت ہو یا تناؤ زدہ ماحول ہو ۔یہ ا یک نفسیاتی  عارضہ ہےجس میں اہلیت کے باوجود  مریض باتیں کرنے سے قاصر ہوتاہے۔اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلتا ۔عام حالات میں  تو وہ نارمل گفتگو کر تاہے لیکن   جہاں  تناؤ کی کیفیت ہو تو وہ گنگ ہوجاتاہے۔ اس قسم کے عارضے کو انتخابی گونگا پن ( سلیکٹیو میو ٹزم ) کہتے ہیں ۔اس کی وجہ  اس کے ساتھ بیتے گئے  تلخ واقعات ہیں جو اس کے لئے صدمات کا باعث بنے ہوتے ہیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار کینیڈی  بلائتھ ہے ۔اس نے  پچھلے کئی سالوں  سے کوئی بات نہیں کی ۔اپنی تعلیمی کامیابیوں کے باوجود اسے ہمیشہ دوبدو   انٹرویو دینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انتخابی گونگا پن ( سلیکٹیو میوٹزم )  ایک خفیف ذہنی عارضہ ہے جس کا تعلق  ،  ضد ، نا فرمانی یا ذہنی  رویہ یا  نیوراتی   نہیں۔اس کی بنیادی وجہ لاشعوری  اضطراری کیفیت ہے۔

انتخابی گونگا پن  ( سلیکٹو آٹزم) کوئی طبی اصطلاح نہیں۔۔۔اس خلل کی صحیح تشخیص نہیں کی جا سکتی  لیکن عام طور پر یہ کیفیت ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو   اے ۔ایس۔ ڈی ( آٹزم سپیکٹرم ڈس آڈر  ) کا شکار ہوتے ہیں ،وہ  نیوراتی بیماری  ہوتی ہے،  جبکہ   انتخابی  گونگے  میں تمام اعصاب تندرست ہوتے ہیں  لیکن  اس کی وجوہات  سماجی تناؤ  ہوتی ہے۔مریض  عام حالات  میں دوسرے لوگوں کی طرح باتیں کرتا ہے لیکن  جہاں نظم و ضبط  کی پابندی ہو، وہاں وہ نہیں بول سکتا۔

اس افسانے میں دیکھا گیا ہے کہ کینیڈی بلائتھ  ایسے ماحول میں جہاں انٹرویو بورڈ اس سے سوالات کرتا ہے تواس ،تناؤ زدہ ماحول  میں گونگی  ہو جاتی ہے  لیکن وہ بورڈ اس کی اعلیٰ کارکردگی کی بناپر وظیفہ دے دیتا ہے۔وہ  انہیں  اس لئے جوابات نہیں دے سکتی کیونکہ بورڈ  کہیں سے  اور کچھ بھی سوالات کرتا ہےجس کے لئے اسے طویل جوابات دینا ہوتے ہیں ۔ وہ اگرچہ ان سے نظریں ملا کر بات کر رہی ہوتی ہے۔ سیدھی ہو کر بیٹھتی ہے، چہرے پرمسکراہٹ بھی ہوتی ہے، اپنا ڈر بھی دور کرتی ہے لیکن اس کے پاس  وہ الفاظ نہیں ہوتے جو اسے  گفتگو سکھانے والے ادارے  کی  سپروائزر میگھم نے انٹرویو کی مشقوں کے دوران رٹائے تھےکیونکہ  وہ   جوابات انتہائی مختصر تھے جو اسے ازبر ہوگئے تھی ہر سوال کا جواب میکانکی طور پر اس کے منہ پر آجاتا تھا۔ یہ تکنیک 'اگر یہ سوال ہو تو اس کا مختصر ترین صحیح جواب یہ ہوگا'،تھا ۔ اس لئے جب اس کی رول کال لی گئی تو اس نے 'ہاں ' کہہ دیا۔

کینیڈی  بلائتھ کا گونگا پن ایک گہرا نفسیاتی  معاملہ ہے  جس کا موضوع  پورے طور پر  صدمات اور ان  کےنتائج ہیں ۔اس افسانے میں خام اور سلجھے ہوئے جذباتی زخم ایک عام انسان کی نمو میں کس قدر رخنہ ڈالتے ہیں  بیان کئے گئے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ ان کے مقابلے کی تکنیکیں بھی بیان کی گئی ہیں۔اس بات پر زور دیاگیاہے کہ حقیقت سے  فرار  حاصل کرنے کی بجائے مردانہ وار   مقابلہ کیا جائے۔

اس افسانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص جو فطری طور پر کسی شئے کا اہل ہو  ،اگر نامساعد حالات کی بدولت انتشار کا شکارہوکر اپنی اصل صلاحیتوں  کو  سماجی دباؤ کے تحت اپنی خفت یا بے عزتی کے   ڈر سے دبا دے تو اسے کیسے ذہنی تناؤ سے بچایا جا سکتا ہے۔معاشرے میں ذہنی  مسائل ، شکایات اور عارضے رسوائی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔اس میں اس بات کا درس دیا گیا ہے کہ نارمل اور غیرنارمل کی سوچ میں معمولی   فرق  پایا جاتا ہے۔ کینیڈی   بلائتھ کا انتخابی  گونگا پن  اس وجہ سے ہے کہ اس میں  یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اگر وہ کوئی بات کرے گی تو لوگ اسے سمجھ نہیں پائیں گے اور اس کا مذاق اڑائیں گے، اس لئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خاموش رہتی ہےجو اس بات کی علامت ہے کہ اس نے شعوری طور پر انہیں زبردستی دبا دیا ہے اور اس میں لاشعوری طور پر خوف پیدا ہوگیا ہے اور وہ بول نہیں پاتی جسے  نفسیاتی امداد سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

افسانے کا  عنوان 'میری سنو' ( ہیئر می) اس لئے منتخب کیا گیاہے   تاکہ ایسے افراد جو طرح طرح کے  ذہنی مسائل میں الجھ کر ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ، کی آواز بنا جا سکے۔ انہیں حوصلہ دیا جاسکے  اور بتایا جاسکے کہ صدمات ہر ایک کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ہر کوئی بیمار ہو سکتا ہےاور یہ کہ ان کا ہمت سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔اس میں  آگاہ کیا گیا ہے کہ صدمات  ذہن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں جس سے ذہن میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور ناقبل مشاہدہ  نتائج پیدا ہو جاتے ہیں۔اس میں قاری  میں یہ شعور پیدا کیا گیا ہے کہ مناسب ماحول ، قوت اعتماد اور ہمدردانہ رویہ مصائب برداشت کرنے میں مسائل حل کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

اس افسانے کو اگر نفسیاتی لحاظ سے دیکھا جائے ، تو کینیڈی  بلائیتھ کےا نتخابی گونگا پن کا تعلق صرف اس کے ضدی پن سے  نہیں   بلکہ   جذباتی صدمات  کے ردعمل کے طریقوں  سے ہے، جن کی بنیاد کم و بیش اکثر بے جا خوف، شرم ،یا بین الذاتی تعلقات میں  ناکامی  ہوتی ہے اس کی بعض محفلوں میں نہ بول سکنے کی قوت اس لئے پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ  ان کے بولنے کے بعد جس طرح سے اس سبکی ہونی تھی ،سے اسے ذہنی اذیت پہنچنا تھی ، سے بچنے کی حفاظتی تدبیر کے طور پر استعمال  کرتی ہے ۔

یہ افسانہ کینیڈی کی باطنی کشمکش  کی تشریح کرتی ہےجس میں ایک طرف تو بول کر اپنے خیالات کا

اظہار کرنا چاہتی ہے لیکن دوسری طرف اسے ناکامی کا خوف ہے۔اس کے یہ خدشات سماجی مدد اور محفوظ پائیدار تعلقات  قائم کرنے کے لئے ضروری  خیال کرتی ہے۔اس طرح سے ' مجھے سنو'( ہیئر می )افسانہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ  نفسیاتی صحت  خطی ، لکیری   اور حتنی نہیں ہوتے ۔ اس میں تعلقات قائم کرنے میں لچک پائی جاتی ہےلیکن اس میں تسلسل ،کمزوری ،اور تعلقات میں بھروسہ پایا جاتا ہے۔

انتخابی گونگا پن ( سلیکٹیو میوٹزم )  خلل کی       اہمیت  پاکستان میں  کم   محسوس کی گئی ہے۔ یہاں   اسے شرم ، جھجک   یا ضدی پن  کی وجہ سے نہ بولنا سے منسوب کرکے  مریض کو  گستاخ، کم اعتماد کا مالک سمجھ لیا جاتا ہے  اساتذہ ، والدین ،اور تعلیمی ادارے  باہمی طور پر مل کر ایسے سٹوڈنٹس کی مدد کرنی چاہیئے۔ اساتذہ اور تعلیمی ادارے  ایسے سٹوڈنٹس کی بہتری کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھاکر ایسے مریضوں کی مدد کرسکتے ہیں۔

 بچے کو سزا نہ دی جائے۔۔۔اسے دوسروں کے سامنے بولنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ایسے یہ نہ کہا جائے (i

کہ  اونچی آواز میں بولے ورنہ اس کے نمبر کاٹ لئے جائیں گے۔ایسا کیا جائے تو بچے پر تناؤ بڑھے گا اور وہ خاموش رہے گا۔

بچے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ۔اسے یہ احساس دلایا جائے کہ اسے کسی قسم کا جسمانی یا ذہنی(ii

نقصان نہیں ہو نے دیا جائے گا۔بچے کی شروع میں حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی بات بغیر بولےسر ہلا کر، کسی شئے کی طرف اشارہ کر کے ۔ اپنے پراعتماد ساتھی سے سرگوشی کر کے یا لکھ کر بتائے۔اس طرح سے اس  کی قوت اعتماد میں اضافہ ہوگا  جس سے وہ  روبرو ہوکر بات چیت کرسکے گا۔

 غیر حساسیت ( ڈی سنسیٹائزیشن ) کی تدا بیر استعمال کی جائیں۔اس مقصد کے لئے ایکسپوزو طریقہ علاج  کی تکنیکیں مؤثر ثابت ہوئی ہیں جو درج  ذیل ہیں۔

1)بچے سے نارمل  لہجے میں بات شروع کی جائےاور عام طرز اختیار کیا جائے۔

2)اس کے بعد اس وقت جب وہ استاد اور بچہ جب اکیلا ہو تو سرگوشیوں یا اونچی آواز میں پڑھنے اور بولنےکو کہاجائے۔

3)اسے پوری کلاس  کا حصہ بنانے کی بجائے ایک چھوٹے گروہ کا حصہ بنایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی