Trying ADHD oscar winner short film by Samantha Labrecque

 

Trying  ADHD by Sam Labrecque




 

 

عالمی ادب

 

کاوش

Trying

    (سمینتھا لیبریک   ( 2021

 Samantha  Lesbrecque

 

پیشکش     و تجزیہ :   غلام  محی الدین

 

میگن فشر   نے  جاگ کر انگڑائی لی ۔وقت دیکھا تو ساڑھے نو بجے تھے۔ ٹی وی چلادیا،جس پر  پروگرام چل رہاتھا ،'سات عادات اپنائی جائیں تو  شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے ،اگر ان پر عمل

کیا جائے  تواعتماد ذات   اور ڈسپلن پیدا ہوگا۔آؤ ! دل کی سنیں  اوراس پر باتیں کریں۔'

اس نے اپنے نوٹس بورڈ پر 'آج کے کام 'کی فہرست دیکھی تواسے ْ انٹرویو جمعرات ایک بجے  سب سے اوپر لکھا نظر آیا۔ وہ  بجلی کی سرعت سے اٹھتی ہے اور ان اشیاء کو  ڈھونڈنے لگتی ہے  جو اس نے آج انٹرویو پر لے جانے ہیں ۔وہ ایک اچھی مصورہ  ہے اور اپنی ڈرائنگ اپنے کمرے میں جگہ جگہ لٹکائی ہوئی  ہیں ۔وہ ضرورت سے زیادہ سرگرم ، جوشیلی اور حساس تھی۔ اس میں صبر و استقامت کی بے حد کمی  ہے۔اسے صحیح وقت میں صحیح  کام کرنے میں  ہمیشہ دقت پیش آتی ہے ۔ اس کے ذہن میں ہر وقت انجانا خوف طاری رہتاتھا جو اسے پریشانی میں مبتلا کردیتا  ہے ۔ دو   ہنسوں  کی ایک خوبصورت تصویر بنائی ہوئی تھی  جسے وہ اپنےانٹرویو میں  فخریہ پیش کرتی تھی۔

  تیار ہوکراسےوقت پر  انٹرویو گاہ  پہنچنا ہے ۔اس پر بے قراری  کی کیفیت  طاری ہوجاتی ہے ۔اپنے کام نپٹنانے کے لئے وہ تیزی سے ادھر ادھر کے کام   بیک وقت کرنا شروع کردیتی ہے ۔ چائے چولہے پر رکھتی ہے ، ٹوتھ پیسٹ کرتی ہے ،  کپڑے استری کرنے کے لئے استری آن کر دیتی ہے۔ایسی تیزی دکھا رہی ہے جیسے اس کی ٹرین چھوٹنے والی ہو۔حالانکہ انٹرویو کا مقام اس کے گھر سے صرف چار میل پر ہےاور کار میں   پانچ دس منٹ میں پہنچ سکتی ہے۔

اس کے موبائل پر ایک  یاد دہانی آتی ہے :یلاتس  11 بجے۔۔۔(یہ ایک قسم کی کسرت جو جسم یا

کسی  مخصوص  ہنر میں مہارت کے لئےکی جاتی ہے۔اس سے لچک  اور اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں  کو

ضبط کے تحت سیکھاجاتاہے)۔ وہ اس پیغام کو یکسر نظر انداز کردیتی ہے۔

اس کے موبائل پر اس کی والدہ کے دو پیغامات آئے ہوئے ہوتے ہیں ایک    سوا نو بجے اوردوسرا دس بج کر اٹھارہ منٹ پر۔۔۔'آج تمہارا انٹرویو ہے ۔تمہیں ہر صورت   وقت سے  پہلے انٹرویو کے لئے پہنچنا ہے۔اگر تم  ایسا نہ کر پائی تو نوکری کا موقعہ گنوا دو گی۔'

اس وقت  دس بج کر چالیس منٹ  ہوئے ہیں۔ انٹرویو اس  سے صرف چار میل دور ہے۔وہ جلدی سے تیار ہوکر آدھے جوتے پہنتی ہے تو اس کی  اپنی بنائی ہوئی   ایک  تصویر پر نظر پڑتی ہے۔جس میں دو  ہنس    ہیں  اور  ایک طیارہ فضا میں پرواز کررہا ہوتا ہے۔ اس تصویرجو اس نے انٹرویو میں پیش کرنا ہوتی ہے،میں اسے  کمی  محسوس ہوتی ہے ، اس تصویر کا نچلا حاشیہ سیدھا نہیں ہوتا ، وہ اسے سیدھا کرنا شروع کردیتی ہے۔وہ تیزی سے باہر نکلنے لگتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اس نے چولہا بند نہیں کیا،وہ تیزی سے اسے بند کردیتی ہے۔اپنی انگلیوں کےپوروں کے چٹخارے نکالتی ہے،  اسے یاد آتا ہے کہ انٹرویو میں اسے  کون سی اشیاء  ءدرکار تھیں۔اس بےکار  دھما چوکڑی میں  دس بج کر پینتیس منٹ ہو جاتے ہیں  ۔اس پر وہ مزید بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے ۔وہ اپنی ایک تخلیق   اٹھاتی ہے۔اور لے  کر   چل پڑتی ہے تو دروازہ کھولنے سے پہلے اسے کچھ خیال آتا ہے تو پلٹتی ہے اور بکھری ہوئی اشیاء کا پھر سے جائزہ لیتی ہےاور باہر نکل آتی ہے ۔گاڑی کے پاس جاتی ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ گاڑی میں پٹرول نہیں۔وہ پریشان ہو کر ایک کنارے پر بیٹھ جاتی ہے۔وہ بے بسی میں اپنا فون اٹھاتی ہے اور گیس سٹیشن کو فون کرکے پٹرول منگواتی ہے۔ایک کارکن پٹرول کا ایک گیلن لے کر آتا ہے اور  کہتا ہے

'نفیس لڑکی !پریشان نہ ہو، میں آگیا ہوں ۔'

' گھر سے تین میل ہی چلی تھی کہ پٹرول ختم ہو گیاہے۔'میگن   اسے کہتی ہے۔

''ہاں! جب کبھی کار کی گیس کی روشنی ظاہرہو جائے تو اس وقت فوراً پٹرول ڈلوا لینا چاہیئے۔۔۔

 'کیا یہ   سارس ہے؟'کارکن بولا۔

'کیا          ؟'میگن نے پوچھا۔

'وہ     تصویر  جو تم نے اپنی کار کی سیٹ پر رکھی ہیں ، کیا سارس   کی ہیں؟'

'اوہ! نہیں یہ  اتراتی چال سے چلنے والے  ہنس ہیں۔'میگ نے کہا'۔

'کیا ایسا ہی ہے ؟'کارکن بولا

'مجھے یقین ہے کہ میں نے 'جو تصویر بنائی ہے وہ ہنسوں  کی ہی ہے۔ ہاں ، مجھے یقین ہے کہ وہ ہنس  ہی ہیں'۔

اونہہ'وہ کہتا ہے جس کے جواب میں میگن بھی  اونہہ کہتی ہے۔'یہ مختلف ہے۔'کارکن بولا۔

'کیا؟'

سارس اور ہنس  ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔'کارکن  بولا

'ان کے پروں کے سائز  اور نتالی پرٹ مین نے  کبھی بھی   سارس پر گانا نہیں گایا۔میگن کہتی ہے  بولی۔در اصل میں ہنس  کے چپو  کی بناوٹ  مجھے مسحور کردیتی ہے جس میں میرا والد اور میں جب میں بچی تھی،   تو دونوں ہی چپو چلارہے تھے  تو میں  اس بڑی مچھلی     جس کانام گولڈی تھا،جو ہم نے  سمندر میں دیکھی کے بارے میں اپنی مچھلی جس کا نام  گولیا  تھا کو بتانے کے لئے گھر تک پہنچنے کا انتظار نہیں کرسکی ۔لیکن بدقسمتی سے اگلی صبح گولیا مر گئی  تھی اسلئے ہم علی الصبح جھیل پر  گئے اور وہاں تین گھنٹے روتے رہے ۔اس سے  سکون آیا۔

اس کے موبائل پر اس کی ماں کا پیغام آتا ہے۔' اپنے انٹرویو کے بارے میں تازہ ترین حالات کے بارے میں اطلاع دیتے رہنا۔'

'اوہ! میرے پاس بھی ایک  سنہری مچھلی ہوا کرتی تھی۔'وہ شخص نے  پورا پٹرول  ڈالنے کے بعد 

واپس جانے لگتا  ہے اور  میگن کار میں آکر بیٹھ جاتی ہے اور ٹائپ کرنے لگتی ہے کہ اس کا فون بجتا ہے ۔ یہ فون  اس کی والدہ   کا ہوتا ہے۔وہ اٹھاتی ہے تو  فون بند ہوجاتا ہے ۔

'کیا تم ٹھیک تو ہو؟'اس کی والدہ پوچھتی ہے۔

'ہاں!میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن انٹرویو کے نام سے پریشان ہو جاتی ہوں۔'

'کیا آج کا انٹرویو   تمہاراپہلا انٹرویو نہیں  ہے جو تم نے اپنی نوکری نکالنے کے بعد دینا ہے'۔والدہ نے کہا۔

'ہاں ،،،ہاں۔۔۔مجھے اب جانا ہوگا۔'میگن بولی

'ٹھہرو ، ٹھہرو ،کیا یہ ۔۔۔'

'کیا یہ انٹرویو تم نے گیارہ بجے نہیں دینا تھا؟ مجھے  یقین نہیں   آرہا کہ تم نے اسے مس کردیا مس میگن۔'والدہ  نے کہا۔

میگن  نے انٹرویو کا وقت معلوم کرنے لئے  کہ انٹرویو کا وقت کیا ہے، کی    تصدیق کرنے کے لئے اس نے اپنے فون پرجائزہ لیا تو اس نے دیکھا  کہ انٹرویو کا وقت ایک بجے بروز جمعرات   تھا۔

میگن   گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تھی ،نے اپنے بیگ سے چاکیٹ نکالی اور اس کا پنّا کھولنے لگی ،اس نے کوشش کی مگر کھولنے کی بجائے وہ پھٹ   گیا اور چاکلیٹ اس کی جیکٹ پر لگ گیا۔اس پر اس کے منہ  سے چیخ نکلی اور نہیں ، نہیں نہیں نہیں نہیں کہا۔۔پاس سے ایک راہگر گزر رہا تھا اس  نے اس کی آواز  سن کر ہمدردی سے پوچھا، '  کیا زور کی چوٹ لگی ہے۔'

میگن  اس  آواز پر حیران ہوگئی ۔۔۔'اوہ! ہاں! کیا میں تمہاری بائیک پر بیٹھ سکتی ہوں ؟'

راہگیر  نے' بھاڑ میں جاؤ' کہا اوراپنی راہ لی۔میگ  نے بے بسی سے چیخ ماری ۔اس نے گھڑی پر وقت دیکھا تو اس وقت بارہ بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے۔اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا اور خود کلام ہوئی کیا انہوں نے میری عمر  معلوم کی  ہو گی۔اگر تم نے مجھے پیدا نہ کیا ہوتو ظاہری طور پر میں کتنی عمر کی لگتی ہوں گی۔

'اگر انہیں تم میں دلچسپی نہ ہوئی ہوتی تو وہ تم کو نہ بلاتے۔اور یہاں کسی کو عمر کی بنا پر رد کردیا جائے تو اسے غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔'

'کیا تم نے اپنے سینے پو جو  ربن   ٹانک  رکھا ہے کیا وہ کینسر کے خلاف مہم کے لئے ہے؟'

'ہاں۔ 'میگن نے جواب دیا۔

'ا یاخدا ! میری درخواست میں تو میں نے وہ شئے لکھی ہی نہیں ہے ۔میری درخواست ادھوری ہے۔کیا اس سے میرے انٹرویو پر کچھ فرق پڑے گا؟کیا جب وہ میری حقیقی کارکردگی دیکھیں گے تو کیا وہ اسےرضاکارانہ  نسلی تفاوت  کی وجہ سے پیدا ہونے والا اقتصادی بحران سمجھ کر   قبول کر

لیں گے۔تمہارا کیا خیال ہے؟'میگن نے پوچھا۔

'تم نے جو بھی جواب دینا ہے ،وہ انتہائی دیانتداری سے دینا ہے۔تم بہت محنتی ہو،اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ تم نے اپنی تعلیم ،سندات اور تجربے میں کیا لکھا ہے۔' 

'تم نے کیا کیا لکھا ہے؟ خیر جو بھی ہے ، اسے اس وقت چھوڑو۔میں جو کہہ رہی تھی کہ تم  جن صدمات سے گزریں  ان میں ہزارویں   حصے کا لحاظ بھی رکھیں تو تمہارے لئے بہتر ہی رہے گا۔'اس کی والدہ نے کہا۔

'اوہ! مجھے ایم اے کر لینا چاہیئے تھا۔'وہ خود کلام ہوئی۔

'بے بی ۔وہ لوگ جو یہ نوکری کررہے ہوں گے ان کی عم تجھ سے آدھی ہو گی۔وہ تم سے پوچھ رہے ہوں گے کہ   تمہارا تجربہ کیا ہے؟'

'ہاں ،ہاں ،ہاں۔عمری تفاوت  توہے۔ میگن نے کہا۔میں پیشہ ور خاتون ہوں ۔ ۔نہ ۔۔۔آہ

اس نے  نفرت سے اپنے نتھنے سکوڑتے ہوئے کہا۔۔۔یہ سن کر اس کی والدہ کے چہرے پر مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔

وہ دفتر پہنچتی ہے ۔اسے انٹرویو کے لئے انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔وہاں ایک پانچ  چھ سالہ بچہ بیٹھا ڈرائنگ کر رہا ہوتا ہے۔

'کیا تم ایک مشہور مصور ہ ہو؟' ایک  بچے نے اس سے پوچھا۔

'اپنے کالج میں  مشہور مصورہ بنسکی کی طرح میں نے بھی  کی طرح میں نے بھی اس کی تعلیم حاصل کی تھی۔۔۔۔!میگ نے کہا ۔۔۔'کیا  درخت کی تصویرتم نے   بنائی ہے پیارے بچے۔'

'ہاں ،مجھے درخت بہت پسند ہیں۔'

'تم نے بہت اچھا بنایا ہے۔'

'تم نے کیا بنایا ہے؟'بچے نے پوچھا۔

ایک سیاہ فام خاتون آتی ہے۔۔۔میک فشر!

ہاں ! ہاں ! شکریہ ۔وہ یہ کہہ کر اپنا  چارٹ لے کر اس کے پیچھے چلی جاتی ہے۔پیچھے سے بچہ آواز دے کر پوچھتا ہے

'کار میں بھورے رنگ کی شاخیں بنانے کے لئے کون سے رنگ استعمال کئے جاتے ہیں؟'

'سنگتری  اور نیلا۔ 'میگ کہتی ہے۔

وہ پرنسپل کے دفتر میں  بیٹھ کرانتظار کرتی ہے ۔سوا ایک ہو جاتا ہے ۔اس پر پریشانی طاری ہو جاتی ہے ۔اس کی  ٹانگیں بلاوجہ خوف سے کانپ رہی ہوتی ہیں۔مسز ہیزل نے اس کا نٹرویو لینا ہوتا ہے۔اس نے اپنی بنائی ہوئی ہنسوں کی تصویر کرسی پر رکھی ہوتی ہے ۔دفتر میں  طرح طرح کے میڈل لگے ہوتے ہیں۔وہ انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتی ہے ۔

'مجھے آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی ۔'مسز ہیز ل نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔اس نے اس کی تصویر کشی کی طرف دیکھا ۔

'یہ ہنس کی تصاویر ہیں جو میں نے بنائی ہیں۔'

'یہ خوبصورت ہیں۔'ہیزل نے کہا۔

'شکریہ '۔

اس نے اس کی درخواست  پڑھتے ہوئے کہا ۔ 'میں تمہاری نوکریوں کی تعداد اور تجربے سے  جو تم نے پچھلے کئی سالوں میں کئے  ،پڑھ کر حیران ہوئی ہوں۔ نوکریوں میں بہت سے وقفے ہیں ۔کیا ان کی وجہ جان سکتی ہوں؟'

'ہاں ۔ہاں۔میں نے بہت سی نوکریاں کیں لیکن کوئی نوکری میری  مرضی  کی نہیں تھی۔میں

ایک مصور ہوں اور اسسٹنٹ   کے طور پر کام نہیں کرسکتی تھی۔میں  دوسرے نمبر پر یا ڈیسک کی ڈیوٹی میرے لئے موزوں نہیں تھی۔'

'اوہ ! یہ بات ہے ۔اس نوکری میں تمہیں پورا دن کھڑا ہونا پڑے گا اور پورا دن تصاویر بنانی پڑیں

گی ۔کیا تمہیں پہلے  بچوں کے ساتھ کام کرنے   کا تجربہ   ہے میک  فشر ۔۔۔ میگن فشر۔!'

'ہاں۔'

'جب میں نے یہاں پڑھانا شروع کیا تو اس وقت تم ایک سٹوڈنٹ تھی۔تم  اس سکول  میں تیسری یا چوتھی جماعت میں ہوگی ۔تم میری کلاس میں تھی۔یاد رکھو  کہ ہر دفعہ اس وقت تمہارے لئے ہمیشہ کچھ مسائل رہے ہیں۔بے خیالی میں  تم نے اپنا سر بادلوں میں ڈالا ہوتا تھا ۔ میں  دیکھتی ہوں کہ کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ۔تم اب بھی ویسی ہی ہو ۔تمہاری والدہ اب کیسی ہے۔مجھے یاد ہے کہ  وہ پہلے صحت  مند  تھی ۔'

'وہ اس وقت صحت یاب ہے۔اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزار رہی ہے۔'

'مجھے  اچھی طرح یاد ہے کہ  تم  سٹور میں  پیشاب کر دیا کرتی تھی ۔تم یاد کر سکتی ہو جب  وہ تمہیں سکول سے لینے کے لئے آیا کرتی تھی۔۔۔ تو۔۔۔'

'مجھے اے ڈی ایچ ڈی ہے میگ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی ۔۔۔مجھے اس وقت اے ڈی ایچ ڈی

 تھی ۔۔۔مجھے اب اے ڈی ایچ ڈی   اب  بھی ہے ۔'

ہیزل نے اس کی بات سن کے سر ہلایا۔

'کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ نوکری ۔۔'۔ہیزل نے اتنا ہی کہا تھا کہ میگ بولی

'مجھے  اس نوکری  سے  یہ موقع مل جائے گا کہ میں ان سے حقیقی جذبات و احساسات  بیان کرکے ان کے ایسے بچوں  پر ہونے والے منفی اثرات سے انہیں محفوظ رہنے کی تدابیر بیان کرسکوں۔ میں ان پر چلّاؤں گی نہیں جیسے اس دور کے اساتذہ مجھ پر چلاتے تھے۔میں نے جو  بھگتا ہے ، سیکھا ہے  ہر ایک کو بتا سکوں گی۔۔۔ ہماری کلاس  ایسی تھی جس میں کسی نے بھی مجھے نہیں سمجھا اور مجھے اپنے تک  ہی محدود رہنا پڑتا تھا۔اس کے باوجود میں چیختی  نہیں تھی۔میں اپنے کام میں بہت سنجیدہ ہوں  اور مجھے امید واثق ہے کہ میں بچوں کی دوسروں سے بہتر انداز میں مدد کر سکتی ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے اساتذہ اے ڈی ایچ  ڈی نہیں ہیں اور انہیں ان کی کیفیات کا فرسٹ ہینڈ علم  نہیں ہے۔ہر کلاس میں کچھ  بچوں کا سر ہمیشہ بادلوں میں پھنسا ہواہوتا ہے ، کوئی نہ کوئی اے ڈی ایچ ڈی کا شکار ہوتا ہے ۔میں ان کے عجیب   رویے کی وجہ سے انہیں کمرے سے باہر نہیں نکالوں گی  یا انہیں ڈانٹوں گی نہیں اور نہ ہی ان کی سرزنش کروں گی ۔ ۔۔یہ کالج کی طرف سے میرا کیرکٹر سرٹیفکیٹ ہے جس میں میرے پروفیسروں  اور کلکٹر نے مجھے نوکری دینے کی سفارش کی  ہے۔میں نے پچھلے برس اس کے ساتھ انٹرن شپ کی تھی ۔  میں ان چیزوں کو غور سے دیکھ سکتی ہوں جو عام لوگ نظرانداز کردیتے ہیں'۔وہ اس کی طرف مضطرب ہو کر دیکھتی ہے ۔۔۔پھر کہتی ہے۔

'مسز ہیزل ! تمہارے وقت کا شکریہ'۔۔۔یہ کہہ کر وہ اپنی تصویر کرسی سے اٹھانے لگتی ہے اور

کہتی ہے ۔۔۔کیا میں اس بات کا  اپنی درخواست میں ذکر کیا ہے کہ ایسی شرائط  یا اس کا کچھ حصہ  ۔

۔۔۔یہ کہہ کر وہ تصویر اٹھا کر چلی جاتی ہے اور مسز ہیزل ہکا بکا رہ جاتی ہے۔

میگ بھاگتی ہوئی اپنی گاڑی میں آتی ہے ۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتی ہے ، تصویر سیٹ پر رکھتی ہے اور رونا شروع کر دیتی ہے۔۔۔پھر سے کمپیوٹر پر نوکری  کی تلاش شروع کردیتی ہے۔ گھر آتی ہے تو اس کی  کوئی شئے ترتیب سے نہیں رکھی ہوتی۔ اسے ایک پرچی پر لکھا ہوا نظر آتا ہے ' لانڈری میں دھوئے  ہوئے کپڑے تہہ کر کے رکھنے ہیں۔وہ ادھر ادھر بکھرے برتن اٹھاتی ہے ۔انہیں  دھونے لگتی ہے ۔ سنک کے سامنے ایک شیر کے منہ کی  تصویر لٹکی ہوتی ہے۔اس کے فون پر ایک پیغام آتا ہے۔ یہ اس کی والدہ کی طرف سے ہوتا ہے

'کیا تمہارا انٹرویو ہوگیا ہے؟'

'ہاں! اوکے ۔۔۔اوکے۔۔۔وہ برتن دھوتے ہوئے خود کلامی کرتی ہےکہ اس کے فون پر ایک پیغام آتا ہے۔

ویلو الیمنٹری سکول

آرٹ  ٹیچر  پوزیشن

ڈئر مس فشر ، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ کافی غوروخوض کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں پرائمرہی جماعتوں کی آرٹس ٹیچر کی اسامی پر تعینات کیا جائے ۔

 

تجزیہ

 

کاوش ( ٹرائینگ )   افسانہ  میں مرکزی کردار  میگن  فشر     کی وقوفی صلاحیت مفقود  دکھائی گئی ہے۔ اس  کی انتظامی صلاحیتیں   صحیح کام نہیں کرتیں۔ اسے اپنے خیالات ایک مرکز میں لانے ، ان کا آغاز کرنے، اور اختتام  کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔معمولی باتیں بھی اسے پہاڑ لگتی ہیں۔وہ  بڑی تیزی سے کوئی کام شروع کرتی ہے لیکن  ادھورا چھوڑکر دوسرا کام کرنے لگ جاتی ہے۔وہ بے توجہی کا شکار ہے۔اسے بیک وقت بہت سی آوازیں   ایک دوسرے میں مدغم ہوتی سنائی دیتی ہیں ۔

میگن  پرفارمنگ آرٹس کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے۔اس نے انڈرگریجوایٹ  کی ہوتی ہے ۔اس کا خصوصی شعبہ مصوری ہے۔اپنے لاابالی مزاج کی وجہ سے وہ کسی ایک جگہ ِتک کر نوکری  نہیں کرتی ، یا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یا پھر وہ خود چھوڑ دیتی ہے۔ وہ کسی سے دیرپا رشتہ قائم نہیں کر سکی۔ اس کی   غمگسار اس کی والدہ ہی ہے۔ پچھلے کافی عرصے سے وہ بیکار ہے۔اسے نوکری کی اشد ضرورت ہے ۔وہ نت  نئی اسامیوں پر نوکری کی درخواستیں بھیجتی رہتی

ہے۔ایک جگہ سے اسے انٹرویو کال آجاتی ہے اور یہ افسانہ اس کے انٹرویو والے دن سے متعلق ہے۔ وہ اپنے ذہنی انتشار کے باوجود  پوری کوشش کرتی ہے کہ  کام جلد نپٹا لے ، لیکن وقت کی قید اور ذاتی  توقعات  اس کے کام میں رکاوٹیں  ڈالتی ہیں جس کی بدولت اسے دیر ہو جاتی ہے۔اس عرصے میں ، میگن کی  بے چینی ، بے صبری ،  غلط فہمی  ، قوت اعتماد میں کمی اور غیر متوقع ساتھی 

جس نے اس پراجیکٹ میں اس کی مدد کرنی تھی، کی وجہ سے  گڑبڑ واقع ہو جاتی ہے۔

اس کہانی    کے موضوعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں پہلا موضوع یہ ہے کہ یہ عارضہ  جینیاتی  ہے  جس کے ساتھ اپنا ذاتی تشخص وابستہ ہے۔اس میں   سیمنتھاجو بذات خود اے ڈی ایچ ڈی کی بیماری میں مبتلا ہے، مرکزی کردار  میگن  اس کی کیفیات کی نمائندگی کرتا ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ ایسے مریض کا دماغ اعصابی لحاظ سے عام انسان سے مختلف کام کرتا ہے۔یہ کہانی ایسے مریضوں کے حق میں آواز اٹھاتی ہے ۔

  کسی کو ذہنی مریض کا خطاب دینا   معاشرتی لحاظ سے  شرمناک  ہوتا ہے۔ لوگ ایسے مریض کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس اجتناب برتتے ہیں : میگن کے ظاہری کردار کو دیکھ کر  ہی قاری فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ ذہنی خلل میں مبتلا ہےاور اس کے بارے میں پہلے سے ہی رائے قائم کر لیی جاتی ہے کہ بے کار اور غیر معتبر شخص ہے اور  اس سے دانشمندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

 سیمنتھا نے جو بیانیہ بنایا ہےکہ ہر مریض اپنے اندرونی تصادمات، ذہنی انتشار ، اضطراری حالت  اور اپنی ضروریات   کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ خارجی ماحول  کا سامنا کرتا ہے ، میں پوری طرح کامیاب ہوگئی ہے۔

ایسے مریض  کو  جذبہ ہم روی   درکار ہوتا ہے۔اسے ایسے انسانوں   کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو

اس کے مسائل اور مشکلات کو اپنا سمجھ کر اس کی مدد کرکریں ۔اس سلسلے میں اس کے خیرخواہ ، ساتھی ، دوست احباب ، اساتذہ اور رشتہ دا ر مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں۔وہ اس کا ذہنی بوجھ اور تنہائی دور کرسکتے ہیں۔

ایک اہم موضوع  ذاتی قبولیت  ،  حمائت  اور شفقت   کے رویہ جات ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے حق میں آواز  اٹھانی ضروری ہے  اور سماجی منوالوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت  پر زور دیا گیا ہے۔

کوشش (ٹرائیئنگ    ) میں   یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ اگرچہ  مریض  کے کردار میں تبدیلی تو لائی جاسکتی ہے لیکن اس  کی رفتار بہت آہستہ ہوتی ہے۔مثبت  نتیجہ چھوٹے چھوٹے اقدامات  کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔مریض کی بہبود اور حفاظت  میں اس کی مسلسل حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔یہ قاری  کو  تجویز کرتی ہے کہ ایسے مریض کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کی حوصلہ افزائی  کرے، اس کے جذبے اور ہمت کو سراہے اور اس کے ڈھانچے  جس میں وہ زندگی گزار رہا ہے کی بہتری میں مدد کرے اور مزید اصلاح کرے۔

سیمنتھا   نے اپنی کہانی کا عنوان 'کاوش '( ٹرائینگ) اس لئے تجویز کیا ہے کیونکہ اس میں  ایسے شخص کی تکالیف ، مشکلات، چیلنج  اور تجربات ایسے شخص نے بیان کئے ہیں جو بذات خود  اے ایچ ڈی ایچ کا شکار ہے۔اس میں کئی  اعمال  جیسے کہ مسلسل کاوش ۔۔۔خواہ وہ کتنی معمولی نوعیت  کی  ہی نہ ہو،  ظاہر کرتی ہے کہ مسلسل  کوشش کرتے رہیں تو نجی اور معاشرتی کامیابیاں حاصل ہو سکتی  

ہیں  ۔   اس  کہانی کا عنوان اگرچہ سادہ ہے لیکن یہ بڑی اہمیت کا حامی ہے ۔یہ کاوشوں کومعمول کی کاروائی  قرار دے کر انہیں بامقصد اور معتبر بناتا ہے۔

اس کی کام والی یادداشت  پر کافی بوجھ پڑتا ہے۔اس کے ذہن مین بہت سے خیالات فوری آتے اور غائب ہو جاتے ہیں۔ایک ہی وقت میں بہت سے  خیالات آتے جاتے ہیں۔

اس میں وقت کی قدر جاتی رہتی ہے ۔وہ   اسائنمنٹ مقررہ وقت میں مکمل نہیں کرسکتی۔اس میں یہ  صلاحیت  کہ  کسی کام کے لئے کتنی مدت درکار ہے ، کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔اس کی وقت کی

صلاحیت مسخ شدہ ہو جاتی ہے۔

اس میں جذباتی طور پر بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔اسے خیبت ، مایوسی اور گناہ کا احساس ہوتا ہے۔اسے اس بات کا تو پتہ ہوتا ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے لیکن وہ کر نہیں سکتا۔

وہ اپنے چہرے پر نارمل ہونے کا احساس پیش کرتی ہے لیکن حقیقت میں وہ  نارم ہونے کا نقاب اوڑھ رہی ہوتی ہےجبکہ اندر سے وہ  ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی ہے۔

وہ کسی شئے پر توجہ نہیں دے سکتی۔اس میں کبھی کبھار تشنج اور فالج کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔اس کی شخصیت کے نمایاں عناصر منتشر خیالات ؛ مختلف آوازوں کا ادغام ، ضرورت سے زیادہ تحسساتی  بوجھ ؛کوئی کام باربار کرکے اپنا کنٹرول دوبارہ سے حاصل کرنے کو کوششیں کرنا؛ اپنے خیالات کو اپنی ہی حد تک محدود رکھنااور دوسروں کو احساس دلانا کہ وہ کوشش کررہی ہے۔

اس کی کلینکی بصیرت   یہ ہے کہ اے ڈی ایچ ڈی  صرف انتشار کے ساتھ ہی نہیں  بلکہ  وقت ، جذبات کے اظہار ،اور توجہ  کی باقاعدگی کے ساتھ بھی ہے۔اس کے لئے مایرین نفسیات سی بی ٹی ، بین الکثیر وقوفی تربیت ،اور کردار کی دوبارہ سے تشکیل ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اے ڈی ایچ ڈی میں دماغ  ختم نہیں ہو جاتا ۔۔۔ بلکہ  اس کی تخلیقی  صلاحیتوں  اور اعلیٰ سوچ کے اعصاب  مجروح ہو چکے

ہوتے ہیں۔اگر انہیں مناسب ماحول فراہم کیا جائے تو خاطر خواہ افاقہ دیا جا سکتا ہے۔

یہ افسانہ  لوگوں کو فراموشی یا انتشار  کے بارے میں    جو وہ روز مرہ زندگی میں کر رہی ہوتی ہے،حقیقی  عصبیاتی  کوشش سمجھنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔

آخر میں، یہ افسانہ    مزاح  کی افادیت بھی تسلیم کرتا ہے جو مزاحمت اور قوت برداشت میں

بہتری لاتا ہے۔یہ  ایک کیس سٹی ہے  جس میں وقوف، ہیجانات ، اور ذاتی تصور سب کے سب اے ڈی ایچ ڈی میں شامل ہوتے ہیں ۔

یہ افسانہ اگرچہ پاکستانی ماحول  کے مطابق نہیں لکھا گیا ، اس کے موضوعات  مکمل طور پر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔، جہاں ذہنی صحت  کے مسائل اور نیوراتی حالات کی بنا پر ایسے مریضوں کو

سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ،انہیں ، یا انہیں دھتکار دیا جاتا ہے۔ حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا

ہے۔ پاکستان میں ایسے مریضوں پر اضافی ثقافتی  اور صنفی  توقعات  کچھ زیادہ ہی کی جاتی ہیں، جو  اس کی باطنی کاوشوں کو نظرانداز کردیتی ہیں۔ یہ افسانہ  پاکستان میں اعصابی  نظام ،صنفی کردار ، اور ذہنی صحت  پر کی راہ ہموار کرتا ہے ،طبو اور ذہنی صحت  کے بارے میں  جذبہ ہم روی ، باخبری، اور ان لوگوں کے لئے جو اپنے تئیں  ماحول سے مطابقت کی کو ششیں کررہے ہوتے ہیں لیکن وہ نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں ، کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔


Popular posts from this blog

٭٭٭٭ Book 4 Story 34 ‘A Song for Selma ( Kurt Vonnegut)

**** Book 4 'Bid ' ( Edna Alford ) نیلامی